Friday 9 September 2016

اندھیری رات کے مسافر

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 43.
پیغام_____________مل کر واپس گیا تو میزبان اپنے گھر میں نہیں تھے ایک ملازم مجھے اچھی طرح جانتا تھا اس نے بتایا کہ وہ الحمراء کی طرف جا چکے ہیں"-
الحمراء کی طرف؟ "-
ہاں انہیں اطلاع ملی تھی کہ مظاہرین بے قابو ہو چکے ہیں اور یہ خطرہ ہے پیدا ہو گیا ہے کہ وہ قصر امارت کو آگ لگا دیں گے-
وہ مظاہرین کو سمجھانے گئے تھے وہ بھی ان کے ساتھ چلے گئے تھے اور جو لوگ ان سے ملاقات کے لئے وہ بھی ان کے ساتھ چلے گئے تھے اور ان میں سے کوئی میرا گھوڑا بھی لے گیا ہے میں بے پیدل ان کا پیچھا کیا-9
وہ الحمراء کے دروازے کے سامنے تقریر کر رہے تھے-
عوام کا جوش و خروش ٹھنڈا کرنے اور ان سے پر امن رہنے کا وعدہ لینے کے بعد وہ مسلح رضاکاروں کے پہرے میں وہاں سے چل دئیے.
ہزاروں مظاہرین ایک جلوس کی شکل میں ان کے پیچھے چل پڑے-
میں بڑی مشکل سے ان کے قریب پہنچا لیکن اتنی دیر میں مسلح رضا کار ہجوم کو پیچھے دھکیل رہے تھے پھر جب میں نے دہائی دی کہ میں ان کا نوکر ہوں تو انہوں نے مجھے راستہ دیا.
تھوڑی دور سڑک پر آگے جا کر دو بگھیاں کھڑی تھیں اور وہ ان پر سوار ہو رہے تھے-
میں بھاگ کر پچھلی بگهی پر سوار ہو گیا-
آقا اور تین آدمی ان کے ساتھ اندر بیٹھ ہوئے تھے.
میں نے آپ کا ذکر کیا چھیڑا تو معلوم ہوا کہ سعید انہیں سب کچھ بتا چکا ہے"-
سعید ان کے ساتھ تھا؟ "'
نہیں وہ اگلی بگهی پر تھا آقا کے ساتھ ولید کے سوا باقی دو آدمی میرے لئے اجنبی تھے-"
تمہید کی ضرورت نہیں-
اللہ کے لیے مجھے بتاؤ وہ کہاں گئے ہیں؟ -
جناب بگھیاں مشرقی دروازے پر پہنچیں تو پہرے داروں نے کچھ پوچھے بنا دروازہ کھول دیا-
سات گھوڑے دروازے کے باہر کھڑے تھے ان میں میرا گھوڑا بھی تھا اس پر ولید سوار ہوا تھا اور اس نے مجھے یہ کہا کہ تم اس کے بدلے میرے گھر سے گھوڑا لے سکتے ہو-"
تم یہاں کیوں کھڑے ہو جاؤ میرا گھوڑا لے آو"-
جناب ابھی لاتا ہوں"
عثمان نے اصطبل کی طرف بھاگتے ہوئے کہا-
آپ کہاں جا رہے ہیں؟
جعفر نے پوچھا-
سلمان نے تلخ ہو کر کہا یہ بعد میں بتاؤں گا پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم ان الحمراء تک پیچھا کرنے کی بجائے میرے پاس کیوں نہ آئے؟ "-
کیا یہ ہو سکتا تھا کہ میں انہیں کسی خطرے سے آگاہ کرتا اور وہ میری بات کو اہمیت نہ دیتے.
اب صاف صاف بات کرو وہ کہاں گئے ہیں؟ "-
جناب میں نے ان سے پوچھنے کی کوشش کی تھی پر انہوں نے میری بات کو ٹال کر کہا کہ تم مہمان کے ساتھ گاؤں پہنچ جاؤ___________مجھے معلوم تھا کہ وہ مظاہرین کے سامنے تقریر کرنے کے بعد شہر سے باہر نکل جائیں گے اور ان کے گھوڑے بھی دروازے سے باہر پہنچ چکے ہوں گے--
میں نے روکنے کی بہت کوشش کی تھی پر ان کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں"-
عبدالمنان نے کہا-"
اس وقت جعفر بحث کرنا فضول ہے مجھے یقین ہے کہ انہیں غداروں کے متعلق کوئی خوش فہمی نہیں تھی اور مشرقی دروازے سے باہر نکلنے کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ ان کے ساتھی ہر سازش سے پوری طرح خبردار تھے-
مجھے معلوم نہیں کہ وہ کونسا راستہ اختیار کریں گے لیکن اگر انہوں نے آپ کو گاؤں پہنچنے کی ہدایت کی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ قبائلی علاقوں کا دورہ کرنے سے پہلے وہاں جانے کی کوشش کریں گے اور اب شاید بارش بھی آ رہی ہے.
ممکن ہے کہ وہ راستے میں رک جائیں"-
سلمان نے کہا میں صرف ایک راستے سے واقف ہوں اور یہی وہ راستہ ہے جو میری نظر میں ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے-
اب میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس وقت میرے لیے شہر سے باہر نکلنے کے امکانات کیا ہیں؟ -
عبدالمنان نے کہا میرا خیال ہے آپ کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی-
آپ گھوڑے پر سوار ہو کر آئیں-
میں اس بگهی پر جاتا ہوں اور جنوبی دروازے پر آپ کا انتظار کروں گا.
پہرے دار آپ کو دیکھتے ہی دروازہ کھول دیں تو آپ کسی سے بات کئے بنا ہی آگے نکل جائیں-
ورنہ واپس آ جائیں-"
واپس؟ -
میرا مطلب یہ ہے کہ ہمیں شہر کے دوسرے دروازوں پر قسمت آزمائی کرنی پڑے گی-"
سلمان نے اپنی قبا کے اندر ہاتھ ڈال کر ایک تھیلی نکالی اور عبدالمنان کو پیش کرتے ہوئے کہا:
لیجیے اس تھیلی میں پوری سو اشرفیاں ہیں.
ممکن ہے آپ کو ان کی ضرورت پیش آئے"-
نہیں یہ اپنے پاس رکھیں اور دعا کیجئے کہ جن افسروں کو میں جانتا ہوں ان میں سے کوئی دروازے پر موجود ہو.
سلمان نے کہا مجھے ایک اچھی کمان اور تیروں کی ضرورت ہے-"
سرائے کے مالک نے دوسرے نوکر کو اپنے گھر سے ترکش اور کمان لانے کا حکم دیا اور جلدی سے بگهی کی طرف بڑھا-
جعفر بھاگ کر اس کا بازو پکڑ لیا اور کہا.
اگر یہاں سے گھوڑے کا انتظام ہو سکتا ہے تو میں ان کے ساتھ جاؤں گا ورنہ آپ پہرے داروں سے یہ کہہ دیں ایک آدمی ان کے پیچھے آ رہا ہے-
میں تھوڑی دیر تک ولید کا گھوڑا لے کر دروازے پر پہنچ جاؤں گا-
اگر راستے میں کوئی خطرہ ہے تو تنہا سفر کرنا ٹھیک نہیں ہے-
میں چند اور آدمی بھی ساتھ لے جا سکتا ہوں-
الحمراء کے سامنے ہزاروں مظاہرین موجود ہوں گے اور مجھے وہاں جا کر صرف ایک آواز دینے کی ضرورت پیش آئے گی-"
عبدالمنان نے کہا تم میرا گھوڑا لے سکتے ہو لیکن وہ سست رفتار ہے کہ تم اس پر سواری کر کے ان کا ساتھ نہیں دے سکو گے اور کوئی دوسرا انتظام کرنے میں بہت دیر لگ جائے گی.
سلمان غصے کی حالت میں آگے بڑھا اور کہا جعفر اللہ کے لیے مجھے جانے دو جن لوگوں سے انہیں کوئی خطرہ پیش آ سکتا ہے وہ تمہارا یا الحمراء کے مظاہرین کا انتظار نہیں کریں گے میں تمہارے لئے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کر سکتا-
جعفر شکست خوردہ سا ہو کر سلمان کی طرف دیکھنے لگا اور عبدالمنان بھاگ کر بگهی پر سوار ہو گیا-
سلمان نے جعفر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا جعفر تمہیں آزردہ نہیں ہونا چاہیئے.
میں صرف اپنی تشویش دور کرنے کے لیے جا رہا ہوں اگر وہ مجھے راستہ میں مل گئے تو تمہاری اطلاع کے لیے کسی کو یہاں بھیج دوں گا.
جعفر نے کہا جناب مجھے ان کے بارے میں کوئی تشویش نہیں ہے جو لوگ ان کے ساتھ گئے ہیں وہ ان کی حفاظت سے غافل نہیں ہوں گے!
بگهی پر ان کے ساتھ دو اجنبی ان کے ساتھ دیکھے تھے مجھے یقین ہے کہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہوں گے بالخصوص ایک آدمی کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ وہ فوج کا کوئی بڑا افسر تھا.
جب وہ گھوڑے سے اتر کر بگهی میں سوار ہوئے تھے تو پہرے داروں نے اسے سلامی دی تھی.
مجھے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ وہ لباس سے ایک عام آدمی معلوم ہوتا تھا اور آنکھوں کے سوا اس کا باقی سارا چہرہ نقاب میں چھپا ہوا تھا-
اس کے باوجود پہرے داروں کو معلوم تھا کہ وہ کون ہے میں ایسے لوگوں کی رفاقت میں اپنے آقا کے متعلق قطعی فکر مند نہیں ہوں.
مجھے صرف اس بات کی فکر ہے کہ آپ تنہا جا رہے ہو.
تمہیں فکر مند نہیں ہونا....
ان شاءالله میں تمہارے گاؤں کا راستہ نہیں بھولوں گا.
چند منٹ بعد سلمان گ گھوڑے پر سوار ہو کر سرائے سے باہر نکلا تو بارش شروع ہو چکی تھی-
سڑک سنسان تھی اور اس کا گھوڑا سرپٹ بھاگ رہا تھا.
دروازے کے قریب اسے ایک بگهی دکھائی دی پھر ڈیوڑھی کے اندر مشعل کی روشنی میں اسے عبدالمنان چار مسلح آدمیوں کے ساتھ کھڑا دکھائی دیا جن میں سے ایک پہرے داروں کا افسر معلوم ہوتا تھا.
ان کے پیچھے دو آدمی دروازہ کھول رہے تھے. سلمان چند ثانیے ڈیوڑھی کے سامنے رکا پھر جب دروازہ کھل گیا اور مسلح آدمی ایک طرف ہٹ گئے تو افسر نے ہاتھ کا اشارہ کیا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی-
سلمان نے ایک ثانیے کے لیے گھوڑا روکا.
پھر اس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں-ڈیوڑهی عبور کرنے کے بعد اس نے مڑ کر دیکھا تو پہرے دار افسر اسے ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہہ رہا تھا.
سلمان نے بلند آواز میں اللہ حافظ کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا دی. ....جاری ہے

No comments:

Post a Comment