Monday 12 September 2016

مصحف قسط نمبر 3.

مصحف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 3

"میٹھا لے آؤ-
کھانا ختم کر کے مہتاب تائی نے محمل کو اشارہ کر ہ کر کے کہا-مسرت ابھی جھوٹے برتن اٹھا کر کچن میں گئی تھی
میٹھا تو آج نہیں بنا-وہ بہت اطمینان سے با آواز بلند بولی تو سب چونک کر اسے دیکھنے لگے-
مگر۔۔۔۔ فواد نے الجھ کر ماں کو دیکھا- میں نے کہا تھا کہ چاکلیٹ سوفلے بنانا ہے-"
" محمل یہ کیا بد تمیزی ہے؟ تایہ اماں نے گھرکا-
 بد تمیزی فواد بھائیآپ یہ کھانے کی ڈشز گنیں- بریانی مٹر قیمہ اروی دوشت آلو کباب سلاد رائتہ ذرا گن کر دیکھیں،یہ سب اماں نے اکیلے بنایا ہے،میرے اگزامز ہورہے ہیں میرے پاس وقت نہیں تھا کہ بناتی آپ کی ان بہنوں سے کہا بھی کہ فواد کے لئے سوفلے بنانا ہے ہیلپ کروادو مگر سب نے انکار کر دیا-
اب اتنا سارا کرنا اور اوپر سے میٹھا بنانا ہمارے بس سے باہر تھا، سوری میں کل بنا دوں گی یا میری ماں کی تھکن سے بھر کر آپ کے لئے ٹیسٹ ضروری ہے تو میں انہیں کہہ دیتی ہوں-
اماں اماں اس نے آواز لگائی-اور جہاں لڑکیاں بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی اور مہتاب تائی کچھ سختی سے کہنے ہی لگی تھی کہ وہ کہہ اٹھا-
نہیں نہیں اٹس اوکے میں نے خیال نہیں کیا کی تمہارے ایگزامز ہیں اور ممی! اس نے ماں کو تنبہیی نظر سے دیکھا- کچن کا کام صرف محمل اور مسرت چچی کی ذمے داری نہیں ہے اب ساری نواب زادیوں کو بھی کہا کریں ہاتھ تو بٹ سکتی ہیں یہ-
ہاں تو کرتی تو ہیں-
ہاں ٹھیک ہے-" آغا جان نے نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی-جوان بیٹا جو ان سے اونچا تھا،اس کی بات کے آگے انہیں اپنی بات کمزور لگ رہی تھی- مہتاب تائی پہلو بدل کے رہ گئی،
ناعمی چاچی زیر لب کچھ بربرائی اور تو اور فضہ چاچی بھی خاموش سی ہو گئی تھیں- لڑکیاں الگ شرمندہ-
وہ اطمینان سے فواد کے اٹنے سے قبل ہی اٹھ گئی- مسرت کو برتن اٹھاتے پہلے تو علم بھی نہ ہوسکا کہ کیا ہوا ہے ااور جب ہوا تو معافی تلافی کرنے لگیں
اندر آکر محمل کو بھی ڈانٹا مگر پرواہ کئے بغیر کتابوں میں سر دئیے بیٹھی رہی- فواد کے اٹھنے کے بعد یقینا تائی نے بہت سنائی تھی مگر فواد کے الفاں کا اثر زائل نہیں کر سکتی تھیں- اس کی گھر میں ایک مضبوط حیثیت تھی-سو بہت سی خواتین رات کو کڑھتے ہوئے سوئی تھیں-

صبحکالج بس کے لئے وہ اسٹاپ پہ رکھے بینچ پر آئی تو ذہن ابھی تک ادھر ہی الجھا ہوا تھا- بینچ پر بیٹھتے ہوے اس نے سرسی سا دیکھا،وہ سیاہ فام لڑکی اسی طرح بیٹھی تھی- گود میں رکھی کتاب ک کناروں پر مضبوطی سے ہاتھ جمائے خاموشی سے سامنے دیکھ رہی تھی-
وہ جمائی روکتی بیٹھ ہی گئی، اور بے دلی سے بس کا انتظار کرنے لگی- اس نے وہی کل والا اجرک کا کرتا جینز کے اوپر پہن رکھا تھا -اور بال اونچی پونی میں بندھے ہوئے تھے- سوچ وہی فواد کے گرد گھوم رہی تھی- صبھ وہ جلدی نکلتی تھی تب تک وہ نیچے نہیں آیا ہوتا-
 اس کا کمرہ دوسری منزل پر تھا- جو تھی تو غفران چچا فضہ چاچی کی آماجگاہ مگر وہ کنارے والا کمرہ فواد کا پسندیدہ تھا،سو وہ اس کو عرصہ پہلے الاٹ کر دیا گیا-
فضہ چاچی کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا حسن ہی تھے- سو وہ کمرہ ان کی ضرورت سے زائد ہی تھا- اور یہ تو محمل کا دل ہی جانتا تھا کہ وہ کمرہ تو ابا نے بنوایا ہی اس کے لئے تھا مگر۔۔۔۔۔
سیاہ فام لڑکی اسی خاموشی سے سامنے دیکھ رہی تھی- وہ بور ہونے لگی تو ادھر ادھر گردن گھمائی- سیاہ کتاب دیکھ کر کل کا واقعہ یاد آیا-
یہ کتاب کب ملی تھی آپ کو؟
بغیر تمہید کے اچانک سوال- اس لڑکی نے اطمینان سے گردن اس کی طرف موڑی-
دو سال پہلے-
یہ کس نے آپ کے لئے خصوصا چھوڑی تھی؟
ہے کوئی - وہ ذرا سا مسکرائی موٹی آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی-
آپ کو اچھا لگتا ہے ہے؟ اس نے غور سے اس چمک کو دیکھا-
بہت زیادہ-"
آپ اسے کافی جانتی تھیں؟میرا مطلب ہے یہ تو صدیوں پرانی کتاب ہے-
بس میں جانتی ہوں
 اور یہ کتاب ۔۔ یہ آپ کو آپکا ماضی حال مستقبل کیسے دکھاتی ہے؟
اس میں سب لکھا ہے- گزرے واقعات اور وہ جو میرے ساتھ پیش آنے والا ہے -اور مجھے ایسے موقع پر کےا کرنا ہے سب کھا ہے-
محمل کا دل زور سے دھڑکا- وہ سیاہ فام لڑکی اسے بہت عجیب بات بتا رہی تھی- جانے کیسے پر اسرار بھید بھری کتاب تھی وہ-
آپ کو اس سے کتنا فائدہ ہوتا ہے؟
جتنا تمہاری سوچ سے بھی اوپر ہے-
تو آپ کے تو بہت مزے ہونگے؟آپ اس کو پؔڑھ کر سب جان جاتی ہونگی-
ہان مگر اس میں کچھ عمل ہیں-پہلے وہ پرفارم کرنے ہوتے ہیں پھر ہر چیز ویسے ہی ہوتی ہے جیسے اس میں لکھا آتا ہے-
عمل؟ عملیات؟ وہ چونکی اندر کوئی الارم سا بجا-
یہ تو کوئی سفلی علم کی ماہر بیٹھی ہے،اسے تھورا احتراز برتنا چاہیے-
ہاں- سیاہ فام لڑکی مسکرائی -" جو وہ عملیات کر لے، وہ اس کتاب کے ذریعے دنا پر راج کرتا ہے،سب لوگ اس کی مٹھی میں آجاتے ہیں، اور ہر شئے اس کے لئے تسخیر ہو جاتی ہے- صرف میں نہیں اگر تم بھی اس کتاب کا خاص علم سیکھو تو تمہیں اس کے الفاظ میں اپنا ماضی حال مستقبل نظر آنے لگے گا-
اور۔۔۔۔ اور اس کے بعد؟" وہ سحر زدہ سی سوال پہ سوال کیے جا رہی تھی-
اس کے بعد تم اس کتاب کو چھوڑ نہیں سکتی،تمہیں اپنی زندگی اس سے باندھ کر ہی گزارنی ہودی-
اور اگر میں اسے چھوڑ دوں تو؟
تو تم تباہ ہو جاؤگیتمہاری ہر چیز ہر محبت، سب تباہ ہو ھائے گا- اس کو لے کر تم چھوڑ نہیں سکتیں- یہ سب اتنا آسان نہیں ہے-"
محمل گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی- میری بس۔۔۔۔۔۔"
اسی پل بس قریب آتی نظر آئی وہ دوڑ کر بس کی طرف جانے لگی-
تم ایک دن ضرور آؤ گی میرے پاس " سیاہ فام لڑکی مسکرائی تھی- تم ایک دن ضرور گرگرا کر یہ کتاب مانگنے آؤ گی -میں جانتی ہوں تم لوگوں کی ستائی ہوئی ہو، تمہارا دل زخمی اور ہاتھ خالی ہہں- اور جس دن یہ دل پوری طرح ٹوٹ جائے گا میں تمہیں یہ کتاب دے دوں گی-جاؤ تمہاری بس آگئی ہے-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
شام کو اس نے بہت محنت سے چاکلیٹ سوفلے بنایا اور جب وہ خوب ٹھنڈا ہو گیا تو ٹرے میں سجا کر اوپر سیڑھیاں چڑھنے لگی ابھی دوسری سیڑھی پر ہی تھی کہ آرزو نیچے آتی دکھائی دی-
یہ کس کے لیے ہے؟وہ ماتھے پہ بل ڈالے لمحہ بھر کو رکی فادی کے لئے ہے؟
جی انہوں نے کل کہا تو تھا میرے پاس ٹائم کہاں تھا'آج بھی کسی کو یاد نہ آیا تو بنا ہی دیا- اس نے بے نیازی سے شانے جھٹکے- وہ دوسری سیڑھی پر ٹرے اٹھائے منتظر تھی کہ آرزو نیچے اترے تو وہ اوپر جائے-
اور ڈنر کی تیاری کر لی تم نے؟آرزو زینے سے اتر کر اس کے سامنے آکھڑی ہوئی-
اماں بنا رہی ہیں-
قورمی بنا لیا ہے؟ممی نے کہا بھی تھا- تم نے چیک کیا؟
آپ سیدھے سیدھے کہہ دیں کہ میں چلی جاؤں اور آپ یہ ٹرے فواد بھائی کو دے کر اپنے نمبر بنا لیں تو لیں پکڑیں- اس نے ٹرے زور سے اسے تھمائی-
مجھے اور بھی کام کرنے ہیں اور کھٹ کھٹ سیڑھیاں اتر کر کچن کطرف چلی گئی-
بد تمیز- وہ بڑبڑائی-
مگر محمل جانتی تھی اس کی بلند آواز فواد سن چکا ہوگا اور اب آرزو جو چاہے کر کر لے، وہ جانتا تھا کہ کام کس نے کیا ہے اور نمبر کون بنانا چاہ رہا تھا-
اور پھر یہی ہوا-
رات کھانے کھانے میں جب مسرت نے چاکلیٹ سوفلے لا کر رکھا تو فواد نے سب سے پہلے ڈالا
یہ تم نے بنایا ہے محمل؟
جی- وہ سادگی سے بولی-
آرزو نے ناگواری سے پہلو بدلا-
بہت ٹیسٹی ہے،تم ہی روز میٹھا کیوں نہیں بناتی؟
اتنی فارغ نہیں ہوں میں سو کام ہوتے ہین مجھے ایگزامز ہو رہے ہیںمیرا دل کرے گا تو بنا دیا کروں گی ورنہ سب جانتے ہیں محمل سے یہ جی حضوریاں نہیں ہوتیں- اماں ایک پھلکا مجھے بھی دیں- وہ مصروف سی اماں کے ہاتھ سے پھلکا لینے لگی، جیسے اسے فواد کے تاثرات کی پروا ہی نہین تھی-
وہ تائیدا سر ہلا کر سوفلے کھانے لگا مگر بار بار نگاہ بھٹک کر اس کے مومی چہرے پر جا ٹکتی تھی- سوفلے کو اس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا-
وہ کچن میں کھڑی سنک کے سامنے دوپہر کے برتن دھو رہی تھی جب سامنے بڑی سی کھڑکی کے پار آسمان پہ سرمئی بادل اکٹھے ہونے لگے-وہ ابھی تک اسفنج پلیٹ میں مارتے ہوئے اس سیاہ فام لڑکی کے معلق سوچ رہی تھی،جس سے وہ گزشتہ کچھ دنوں سے احتراز برت رہی تھی- عین بس کے تائم پر اسٹپ پر جاتی اور بینچ پر بیٹھنے کی بجائے ذرا فاصلے پر کھڑی ہو جاتی ،نہ تو دانستی اس لڑکی کو دیکھتی نہ اس کے قریب جاتی، معلوم نہیں کیوں اسے اس لڑکی سے اور اس کی کتاب سے خوف محسوس ہونے لگا تھا-
بادل ذرا گرجے تو وہ چونکی-نیلگوں سنہری شام پہ ذرا سی دیر میں چھایا ہو گئی تھی-بجلی چمکی اور یکایک موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں-
محمل نے جلدی جلدی آخری برتن دھو کر ریک میں سجائے،ہاتھ دھوئے اور باہر لان کی طرف بھاگی-بارش دیکھ کر اس کا دل یونہی مچل جایا کرتا تھا-
محمل جاؤ مسرت سے کہو بلکہ۔۔۔۔۔ تائی مہتاب جو برآمدے میں کرسی پر بیٹھی لڑکیوں سے گپ شپ میں مصروف تھیںاسے ؟آتے دیکھ کر حکم صادر کرتے کرتے رکیں، اس کے چہرے پر بارش میں کھیلنے کا شوق رقم تھا - تائی نے لمحہ بھر کو سوچا اور حکم میں ترمیم کر دی- بلکی جاؤ پکوڑے بنا ک لاؤ ساتھ میں دھنیے کی چٹنی بھی ہو اور معاذ کے لئے آلو کی چپس فرئی کر لو-
اس کے چہرے پر پھیلا اشتیاق پھیکا پر گیا-اس نے قدرے بے بسی سے ان کو دیکھا-
مگر تائی ابھی کیسے؟وہ بارش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد میں کرونگی وہ منمنائی-
ہاں تو بارش کے لیے ہی تو کہہ رہی ہوں- جاؤ شاباش جلدی کرو -اور ندا یہ سوٹ پھر تمہیں کتنے کا پڑا تھا؟وہ ندا کے دوپٹے کو انگلیوں میں مسل کر ستائسی انداز میں پوچھ رہی تھیں-
صرف ڈیرھ ہزار کا تائی! میں کل ہی آپ کو بھی لے چلتی ہوں ، وہاں بہت اچھت پرنٹس آئے ہوے تھے-آپ کا کمپلیکشن تو ویسے بھی فئیر ہے،آپ پر تو ہر رنگ ہی کھل جاتا ہے-
وہ آپس میں مصروف ہوگئی تھیں- محمل پیر پٹختی اندر آئی-
 آلو چھیل کر کاتے- بیسن گھول کر رکھا تو تب تائی مہتاب کی آواز آئی مکس پکوڑے بنانا فواد کو پےاز والے پکوڑے بہت پسند ہیں-
بھاڑ میں گئی اس کی پسند- اس نے زور سے چھری سلیب پر پٹخی- آلو قتلوں میں کاٹے تھے اب پھر ان کو چھوتا کرنا پرے گا-مرچیں پیاز بھی کاٹنے پڑیں گے-
شدت بے بسی سے اس کی آنکھوں مین آنسو آگئے تھے- تب ہی فواد ما ں کو پکارتا ہوا کچن کے کھلے دروازے پہ ٹھتک کر رکا-
کھلی جینز پر لمبا کرتا اور گلے میں مفلر کی طرح دوپٹی لپیٹے،بھوری اونچی پونی باندھے وہ سر جھکائے کھڑی کتنگ بورڈ پر ٹھک ٹھک پیار کات رہی تھی- آنسو گالوں پر چمک رہے تھے-
محمل!
وہ بے چین سا قریب آیا- کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو؟
میری مرضی آپ لوگون کو کیا؟آپ لوگوں کو تو اپنے کھانے سے غرض ہوتی ہے- فواد کے دل میں جگہ بنانے کے سارے ارادے بھلا کر وہ تڑخ کر بولی-
پھر بھی کسی نے کچھ کہا ہے؟
یہاں کہتا کوئی نہیں ہے سب حکم صادر کرتے ہیں- اس نے چھری والاے ہاتھ کی پشت سے گال صاف کیا- اور مجھ سے ابھی کوئی بات نہ کریں، میں بہت غصے میں ہوں یا تو چھری مار دوں گی یا پکوڑوں مین زہر ملا دوں گی-
اچھا- وہ پتہ نہیں کیوں ھنس دیا تھا-
وہ رک کر اسے دیکھنے لگی-
آپ کیوں ہنسے؟
کچھ نہیں -خیر بناؤ پکوڑے اور مکس والے بنانا-وہ اپنی پسند بتا کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا-
اس کے آنسہہ پھر سے بہنے لگے-جانے کس بھہل پن میں وہ یہ سوچ بیٹھی تھی- اگر وہ اس کی مٹھی میں آگیا تو ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے نفی میں سر جھٹکا- وہ سب ایک جیسے تھے بے حس خود غرض مطلبی-
اور جب تک پکوڑے بنے بارش ھلکی ہو چکی تھی-وہ سب لڑکے لڑکیاں برآمدے میں بعٹھے دقو منٹ میں ہی پکوڑے چٹ کر گئے تھے-
اور اب حسن سب کو لانگ ڈرئیو پے لے جانے کا پرگرام بنا رہا تھا-
تم لوگ بھی کیا یاد کرو گے،کس سخی سے پالا پرا تھا- وہ ٹنگ پہ ٹانگ دھرے بیٹھا فرضی کالر جھاڑ کر کہی رہا تھا-
حسن فضہ چاچی کا بیٹا اور ندا سامیہ کا بھائی تھا- شکل میں ندا سے مشابہہ تھا،بڑی بڑی پر کشش آنکھیں اور سانولی رنگت-البتہ عادتوں میں وہ کافی مختلف تھا- اس نے فضہ کی میٹھی زبان تو مستعار لی تھی-مگر کڑوا دل نہیں کیا تھا-وہ گھر کا واحد فرد تھا جو دل کا بھی اچھا تھا نرف گو صاف دل اور ہینڈسم-
ابھی بھی وہ آفس سے آیا تھا - اور کوٹ کرسی کے پیچھے ٹکائے آستین فولڈر کیے بیٹھا تھا وہ تھکن کے باوجود سب کو آؤٹنگ پہ لے جانے کی دعوت دے رہا تھا-
کون کون چلے گا؟سامیہ بلند آواز میں پوچھنے لگی تو محمل بھی دل میں مچلتی خواہش کے باعث ﷺریب آگئی-
میں بھی چلوں گی-
سب نے رک کر اسے دیکھا تھا-
کندھے پر پرس لٹکائے بالوں کو سٹئل سے بینٹ میں جکرتی آرزو نے، جو اندر سے باہر آرہی تھی قدرے نا گواری سے اسے دیکھا - ان کق بھی یہ شوق ستانے لگے ہیں؟ اور پھر سب ہی ساتھ ساتھ بہلنے لگے-
تمہاری جگہ نہیں بنے گی-
ہم پاپا کی ہائی ایس لے کر جا رہے ہیں-سب کی سیٹیں پوری ہیں-
تم باہر جا کر کیا کروہ گی؟سدرہ تمسخرانہ انداز میں ہنسی-
مہتاب تائی کی فوٹو کاپی-
بیٹا جان آپ کے تو ایگزامز ہو رہے تھے-فضہ چچی بہت فکر مندی اور پیار سے اسے دیکھ رہی تھیں-خوب دل لگا کر پڑھو-آپ نے بہت اچھے مارکس لینے ہیں-جا و شاباش سارے کورس کو کم از کم دو بار ریوائز کرو-ابھی شروع کرو گی تو رات تک پورا ہوگا-
ناں تم نے باہر جا کر کیا کرنا ہے؟ رات کا کھانا کون بنئے گا؟ ماں الگ ڈرامے کر کے بستر پر پڑی ہے-کوئی پوچھنے والا ہے ان کو بس مفت کی روٹی توڑے جاتے ہیں-
فواد نے لمھے بھر کو کچھ کہنا چاہا،پھر خاموش رہا،اور ھسن جو خاموشی سے ساری کاروائی دیکھ رہا تھا بول اٹھا-
کوئی محمل سے بھی تو پوچھے وہ کیا چاہتی ہے؟
ہاں اب ہم اس سے پوچھتے رہیں-تائی بگڑ کر بولیں -ھسن لمھہ بھر کو بلکل چپ ہوگیا- مگر فضہ نے بیٹے کے جھاڑے جانے کو واضع برا مانا-
جاو تم اندر جاو-بس یتنا ہی کہہ سکیں-تائی مہتاب سے مقابلہ ان کے بس کی بات نہ ےتھی-
وہ پیر پٹخ کر بھاگ کر کچن میں آئی اور سنک میں سر جھکا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی-
کافی دیر بعد روتے روتے سر اٹھایا-تو کھڑکی کے پار ڈرائیو وے پر ہائی ایس باہر نکلتی نظر آئی-
اس میں ایک دو لوگوں کی جگہ تو وا ضح بن جاتی تھی-
بے اختیار اس کا دل چاہا ک رات کے کھانے میں زہر ملا دے-اور کاش کہ وہ ایسا کر سکتی-

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے :)

No comments:

Post a Comment