Saturday 17 September 2016

حامد بن زہرہ کی شہادت

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 50.
بدریہ_____________اختتام پر بدریہ نے کہا سعید بے ہوشی کی حالت میں دو بار عاتکہ کو بھی آوازیں دے چکا ہے.
اگر صبح تک اس کی حالت یہی رہی تو ہو سکتا ہے کہ اس کو یہاں لانے کی ضرورت پیش آ جائے-
لیکن اگر اس کا چچا غداروں کے ساتھ مل چکا ہے تو اس کا گھر سے نکلنا بہت مشکل ہو گا"-
سلمان نے کہا کہ اگر سعید کی موجودہ حالت کے پیش نظر آپ اسے ی یہاں بلانے کی ضرورت محسوس کرتی ہیں تو ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے-
ایک یا دو دن بعد آس پاس کے سارے علاقوں میں حکومت کے جاسوس پھیل جائیں گے"-
حکومت کے جاسوس اس گھر میں آنے کی جرات بھی نہیں کر سکتے اور انہیں یہ معلوم بھی نہیں کہ سعید زخمی ہے-
ولید کے غرناطہ جانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ غداروں کی توجہ اس علاقے کی بجائے غرناطہ پر رکھی جائے.
سلمان نے کہا"-
اگر آپ اجازت دیں تو میں ابھی وہاں جانے کو تیار ہوں-
نہیں اس وقت آپ نہیں جا سکتے ممکن ہے صبح تک زخمی کی حالت بہتر ہو جائے اور ہم اس لڑکی کو تکلیف دینے کی بجائے کوئی تسلی بخش پیغام دے سکیں"-
وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر بدریہ نے کہا کل میری بیٹی بہت خوش تھی اس نے آپ کو دیکھتے ہی مجھے بتایا تھا کہ کل ایک مجاہد غرناطہ گیا ہے اور واپسی پر ہمارے ہاں مہمان ہو گا.
وہ آپ کی آمد سے قبل سو گئی تھی ورنہ صبح تک آپ سے باتیں کرتی.
اسماء میری میزبانی پر مصر تھی اور میں نے محض اس کا دل رکھنے کے لیے وعدہ کیا تھا وہ اب ایسے حالات میں پورا کر رہا ہوں جو مجھے بھیانک سپنے محسوس ہوتے ہیں.
بدریہ نے کہا"-
آپ کو معلوم ہے کہ میں سعید کی طرح آپ کے متعلق بھی فکر مند ہوں-
اگر غداروں کے دل میں شبہ پیدا ہو گیا کہ کوئی بربر یا ترک حامد بن زہرہ کے ساتھ ہے تو وہ آپ کو گرفتار کر کے دشمن کے حوالے کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.
اگر جانے سے پہلے آپ کی غرناطہ کے بعض رہنماؤں سے آپ کی ملاقات ضروری نہ ہوتی تو میں یہ مشورہ دیتی کہ آپ اسی وقت روانہ ہو جائیں"- اب اس گھر میں بھی کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ آپ کا تعلق ترکوں سے ہے کوئی پوچھے بھی تو آپ انہیں یہ کہہ کر ٹال دیں کہ آپ اندراش سے آئے ہیں اور میرے شوہر کے عم زاد ہیں-
میرے شوہر کا نام عبدالجبار تھا"-سلمان نے کہا جب میں قسطنطنیہ کی بحری درس گاہ میں تھا تو میں اکثر اس قسم کے خواب دیکھتا تھا کہ میں ایک جنگی جہاز کا کپتان ہوں اور اندلس کے ساحل پر دشمن پر گولہ باری کر رہا ہوں لیکن اب مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ قدرت نے مجھے اچانک ایسے راستے پر چلا دیا ہے جو میرے لئے بالکل نیا ہے-
میں ایسے کام کے لیے موزوں نہیں تھا اس کے لیے ہوشیار آدمی کی ضرورت تھی-
بہرحال میں یہ کوشش کروں گا کہ میرے یہاں ٹھہرنے سے اگر غرناطہ کے حریت پسندوں کو کوئی فائدہ نہ ہو تو انہیں کوئی نقصان بھی نہ پہنچے "-
بدریہ نے کہا آپ کی آمد سے تھوڑی دیر قبل ولید کہہ رہا تھا کہ حامد بن زہرہ کا خون بہانے والوں نے ہم پر اللہ کی رحمت کے دروازے بند کر دئے ہیں-
غرناطہ میں ان کی تقریر قوم کے ضمیر کی آخری چیخ تھی جو برسوں سے ہلاکت اور تباہی کے طوفانوں کو آواز دے رہی تھی-
اب ہمیں سلامتی کا راستہ کون دکھائے گا پھر جب اس نے بتایا کہ آپ ترکوں کے بحری بیڑے سے تعلق رکھتے ہیں تو میں نے اچانک محسوس کیا کہ ہم تنہا نہیں ہیں میں اہل غرناطہ کے متعلق مایوس ہو سکتی ہوں لیکن ترکوں سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے"-
میں محمد بن فاتح کا ہاتھ پکڑ کر کہہ سکتی ہوں کہ اب میری عزت و آزادی کے محافظ تم ہو-
اب اگر آپ کو ترکی کے امیر البحر نے بھیجا ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ہمارے حال سے غافل نہیں ہیں"-
سلمان نے کہا کاش مجھے ترکوں کی طرف سے کوئی اعلان کرنے کا اختیار ہوتا_________امیر البحر کمال رئیس کو یہ تشویش تھی کہ متارکہ جنگ کا معاہدہ ہتھیار ڈال دینے کا پیش خیمہ نہ ہو اور انہیں اس بات سے امید تھی کہ اگر حامد بن زہرہ ان کے حوصلے جگا سکے تو ترک ان کی جنگ کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھیں گے-
اب ہمیں یہ دعا کرنی ہے کہ اہل غرناطہ قبل از وقت خود کشی کا فیصلہ نہ کر لیں-
آپ دعا کریں کہ حامد نے اہل غرناطہ کے دلوں میں جو جذبات بھڑکائے ہیں وہ سرد نہ پڑ جائیں.
بدریہ کے چہرے پر اچانک اداسی چھا گئی اور اس نے کہا جب قوم کے اکابرین نفاق اور گمراہی کا راستہ اختیار کر لیں اور جب فاسق و فاجر لوگ قوم کی قسمت کے امین بن جائیں تو عوام کیا کر سکتی ہے
مجھے ان کے متعلق بھی کچھ خوش فہمی نہیں رہی-
وہ حامد کے گرد اس لئے جمع نہیں تھے ہوئے کہ ان کے سینے زندگی کے حوصلوں اور آزادی کے و لولوں سے لبریز تھے-"
بلکہ بھیڑوں کے گلے کو موت کے خوف نے تھوڑی دیر کے لیے ان کے گرد جمع کر دیا تھا-
اب جب وہ سنیں گے کہ آزادی کی راہ میں خون کے چراغ جلانے والا اب کبھی ان کے پاس نہیں آئے گا تو اکثر ان میں سے اپنے دل میں اطمینان محسوس کریں گے کہ وہ مزید قربانیوں سے بچ گئے ہیں"-
میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتی لیکن کاش کہ اہل غرناطہ کے متعلق میں کوئی اچھی رائے دے سکتی-
میں نے سولہ سال کی عمر میں غرناطہ کی جنگ آزادی میں حصہ لینا شروع کیا تھا میں کئی معرکوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کر چکی ہوں-
میں ان مجاہدوں کو دیکھ چکی ہوں جن کا عزم و حوصلہ فتح و نصرت کا ضامن سمجھا جاتا تھا جن کی آواز سن کر بکریوں میں شیروں کے حوصلے پیدا ہو جایا کرتے تھے-
میرا اپنا رفیق حیات ان میں سے ایک تھا-
وہ اس گاؤں کا رئیس تھا اور موسیٰ بن ابی غسان کے ساتھ کئی معرکوں میں حصہ لے چکا تھا-
اس کے جسم پر پرانے زخموں کے گیارہ نشان موجود تھے- وہ ان ہزاروں مجاہدوں میں سے ایک تھا جن کے نام سے دشمن کے دل دہل جاتے تھے"- اگر اس وقت کوئی یہ کہتا کہ ان غیور اور بہادر انسانوں کے ایثار و خلوص اور عزم و ہمت کے باوجود کسی دن ہماری عظیم ترین فتوحات بد ترین شکست میں بدل جائیں گی تو اور میری طرح غرناطہ کی ہر بیٹی اس کا منہ نوچنے کو تیار ہو جاتی تھی"-
لیکن ہمارے لئے اندرونی غدار نا اہل حکمران اور سازشی امراء بیرونی دشمنوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں اور آج یہ حالت ہے کہ قوم کا با اثر طبقہ غلامی کا درس دینے والوں کی بجائے جہاد کا راستہ دکھانے والوں کو اپنا دشمن سمجھتا ہے-
مجھے ڈر ہے کہ حامد بن زہرہ کے قتل کی خبر مشہور ہوتے ہی عوام کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے اور ملت کے غدار اس بات پر خوشیاں منائیں گے کہ انہیں جنگ کے مصائب سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل گیا ہے-
انہوں نے دشمن سے وطن کی آزادی کا سودا کر کے اپنے کھیت باغات اور جائیداد بچا لئے ہیں-
وہ حامد کے متعلق لوگوں کو بتائیں گے کہ وہ ایک شر پسند باغی تھا اور اپنی انا کی تسکین کے لئے قوم کو تباہی کے راستے پر ڈالنا چاہتا تھا"-
سلمان نے کہا مجھے آپ کے نوکروں سے معلوم ہوا تھا کہ آپ صرف چند دن قبل اپنے اجڑے ہوئے گھر میں واپس آئی ہیں-
کیا ایسے غیر یقینی حالات میں یہ بہتر نہیں تھا کہ آپ یہاں سے دور ہی رہتی"-
بدریہ نے جواب دیا میں اس وقت یہاں سے گئ تھی جب عورتوں اور بچوں کا یہاں رہنا ممکن نہیں رہا تھا اگر صرف اپنی جان بچانے کا مسئلہ ہوتا تو میں ہر صورت اپنے شوہر کے ساتھ رہتی"-
لیکن اس گھر میں چالیس سے زائد زخمی اور بیمار پڑے ہوئے تھے-
غرناطہ میں قحط ہوا تھا اور تمام شفا خانے زخمیوں سے بھرے ہوئے تھے.
جب میرے شوہر نے مجھے زخمیوں کے ساتھ جانے کا حکم دیا تو میں انکار نہ کر سکی"'
اس نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ جب اس بستی کی حفاظت نا ممکن ہو جائے گی تو میں بچے کھچے باقی لوگوں کو لے کر تمہارے پاس آ جاؤں گا"-
لیکن میرا دل اس وقت بھی گواہی دیتا تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے.
ہم نے اندراش کے قریب پناہ لی تھی وہاں میرے شوہر کے ماموں کا خاندان آباد ہے"-
جب گاؤں پر دشمن نے قبضہ کر لیا تو چند پناہ گزین وہاں پہنچے ان سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ شہید ہو چکے ہیں-
انہیں مکان کی پچھلی طرف دفن کر دیا گیا تھا-
متارکہ جنگ کے بعد ہمارے لئے صرف دو راستے تھے کہ ہم اندلس کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ کر مراکش الجزائر یا ٹیونس کا رخ کریں دوسرا یہ کہ ہم ان لاکھوں انسانوں کے ساتھ رہیں جو اس خطہ زمین سے باہر اپنے لیے کسی مستقبل کا تصور نہیں کر سکتے"-
میں ان بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں جن کے بھائی شوہر یا باپ میرے شوہر کے ساتھ شہید ہوئے ہیں"-
وہ کچھ دیر اور آپس میں باتیں کرتے رہے پھر بدریہ نے کہا معاف کیجئے آپ سے بات کرتے ہوئے مجھے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا"-
آپ کو آرام کی ضرورت ہے"-
سلمان نے کہا آپ میری فکر نہ کریں مجھے سونے سے زیادہ سعید کی تیمارداری میں زیادہ آرام ملے گا"-
سعید کی تیمارداری کے لیے میرے علاوہ خادمہ اور دو نوکر یہاں موجود ہیں-
آپ کو کچھ دیر سو لینا چاہیے ممکن ہے آپ کو اچانک سفر کی ضرورت پیش آ جائے"-
بدریہ نے یہ کہہ کر خادمہ کو آواز دی-
خادمہ برآمدے کی طرف سے کمرے میں داخل ہوئی اور اس کے ساتھ ہی برابر والے کمرے سے اسماء کی آواز آنے لگی.
بیٹی میں یہاں موجود ہوں ابھی صبح ہونے میں بہت دیر ہےتم آرام سے بستر پر لیٹی رہو میں ابھی آتی ہوں"-
اسماء آنکھیں ملتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی چند لمحے وہ حیرت سے سلمان کو دیکھتی رہی پھر اچانک آگے بڑھی اور اس کے قریب آ کر بولی________آپ زخمی تو نہیں ہیں نا؟ "-
میں بالکل ٹھیک ہوں"-
سلمان نے اس کے سر پر ہاتھ سے پیار دیتے ہوئے کہا-
میں نے امی جان سے کہا تھا کہ آپ ضرور آئیں گے اور یہ میرا مذاق اڑاتی تھیں.
میں سارا دن آپ کا انتظار کرتی رہی جب بارش شروع ہوئی تو میں نے سمجھا اب آپ نہیں آئیں گے-
پھر ماموں ولید آئے تو مجھے لگا آپ آئے ہیں.
بیٹی یہ باتوں کا وقت نہیں ہے اور تم بھی جا کر سو جاؤ-
بدریہ یہ کہہ کر خادمہ سے مخاطب ہوئی تم انہیں مہمان خانے میں لے جاو-
سلمان نے اٹھ کر کہا نہیں نہیں انہیں تکلیف دینے کی ضرورت نہیں ہے"-
تھوڑی دیر بعد وہ کمرے میں داخل ہوا تو وہاں آگ جل رہی تھی اور مسعود آتش دان کے پاس بیٹھ کر اس کا چغہ سکھا رہا تھا"-
وہ اسے دیکھ کر اٹھا اور اس کا چغہ کھونٹی پر لٹکاتے ہوئے بولا اب یہ جلدی سوکھ جائے گا"-
ولید نے تاکید کی تھی کہ آپ کو مہمان خانے سے باہر نہیں نکلنا چاہیے کیا آپ کو کچھ چاہیے تھا؟ "-نہیں تم جا کر آرام کرو
مسعود نے چند لکڑیاں آتشدان میں ڈالتے ہوئے کمرے سے نکل گیا"-..........جاری ہے

No comments:

Post a Comment