Tuesday 6 September 2016

اندھیری رات کے مسافر قسط نمبر 40 از نسیم حجازی

اندھیری رات کے مسافر
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 40.
پیغام____________جس آدمی کو عاتکہ نے دیکھا تھا وہ اس کے باپ کے قاتل کا ہم شکل ہو اور عاتکہ نے کسی فرضی خطرے سے مضطرب ہو کر مجھے پریشان کیا ہو؟
اگر حامد بن زہرہ تک رسائی حاصل کر لیتا تو بھی یہ کیسے ممکن تھا کہ میں صرف ایک لڑکی کا پیغام کر اسے ایک ایسے فرض کی ادائیگی سے روک لیتا جس کے لیے وہ ہر خطرہ مول لینے کو تیار تھا؟
ولید درست کہتا تھا-
غرناطہ میں حامد کے حامیوں اور جانثاروں کی نگاہوں سے غداران قوم کی کوئی بات پوشیدہ بہ تهی آور ان کے انتظامات اس قدر مکمل تھے کہ اگر میں عاتکہ کا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو جاتا تو بھی کسی مزید احتیاط کی ضرورت محسوس نہ کرتے.
میں اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا تھا؟
شاید اس میں بھی کوئی بہتری ہو کہ انہوں نے مجھے ایک مشتبہ آدمی سمجھ کر یہاں بند کر دیا.
پھر وہ تصور میں عاتکہ سے کہہ رہا تھا! "
نادان لڑکی تم نے مجھے بلاوجہ پریشان کیا
تم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ وہ حق پرست جو غرناطہ کے تمام غداروں کو للکارنے اور فرڈیننڈ کے خلاف اعلان جہاد کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے تمہارے چچا کی سازش کے ڈر سے اپنا راستہ تبدیل کر لے گا.
اسے یقین تھا کہ ولید نے حامد بن زہرہ کو میرا پیغام پہنچا دیا ہو گا اور وہ مسجد سے فارغ ہو کر بذات خود یہاں آئے گا ورنہ مجھے اپنے پاس بلا لے گا.
تقریباً ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد اسے بے چینی سی محسوس ہونے لگی:
کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ولید نے میرا پیغام دینے کی ضرورت محسوس نہ کی ہو. اور وہ تقریر سے فارغ ہوتے ہی غرناطہ سے روانہ ہو گئے ہوں-
اور پھر غدار غرناطہ کے اندر کسی تصادم کی صورت میں اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے تھے اسے راستے میں روکنے کی کوشش کریں؟ -"
نہیں نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا
ایسا نہیں ہونا چاہیے-
اس بد نصیب قوم کو حامد بن زہرہ کی ضرورت ہے اسے زندہ رہنا چاہیے-"
پھر صحن میں پاوں کی آہٹ سنائی دی اور تھوڑی دیر بعد کسی نے دروازہ کھول دیا-
سلمان نے باہر نکلتے ہوئے غصے سے شکایت کے لہجے میں کہا
تم لوگ ظالم بھی ہو اور بیوقوف بھی.
جواب میں جعفر کی آواز آئی جناب میں جعفر ہوں اور مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ آپ غرناطہ پہنچ گئے ہیں.
جعفر کو دیکھ کر سلمان کا سارا غم و غصہ جاتا رہا. اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑ لیا اور دوسرے پانچ آدمیوں سے الگ لے جا کر سرگوشی کے انداز میں پوچھا :
وہ بخریت ہیں نا؟ "
ہاں اللہ کا شکر ہے مجھے افسوس ہے کہ آپ ان کی تقریر نہیں سن سکے.
اگر مجھے پہلے اطلاع مل جاتی میں اسی وقت آ کر آپ کو لے جاتا ولید نے سعید سے اس وقت آپ کا ذکر کیا تھا جبکہ ہم مسجد سے باہر نکل رہے تھے. سعید اس بات سے سخت مضطرب تھا کہ آپ غرناطہ پہنچ گئے ہیں اگر اس کا اپنے والد کے ساتھ رہنا ضروری نہ ہوتا تو وہ فوراً آپ سے ملنے چلا آتا.
اب اس نے مجھے تاکید کی ہے کہ آپ کو ولید کے ہاں پہنچا دوں اور صبح ہوتے ہی آپ کے ساتھ گاؤں پہنچ جاؤں اور ولید نے یہ درخواست بھی کی ہے کہ میں اس کی طرف سے معافی مانگوں.
وہ کہاں ہے؟ -
وہ بھی ان کے ساتھ ہی بگهی پر سوار ہو گیا تھا"-
وہ کہاں گئے ہیں؟ -
وہ کسی دوست کے گھر چلے گئے ہیں لیکن اس وقت ان سے آپ کی ملاقات نہیں ہو سکے گی.
وہاں غرناطہ کے سرکردہ آدمیوں کا اجلاس ہے اور وہ کافی دیر مصروف رہیں گے-
سعید کہتا تھا کہ ابا جان کو پریشان کرنا مناسب نہیں-
وہ فارغ ہوتے ہی آپ کے پاس گاؤں آئے گا.
اب چلئے آپ کو ولید کے گھر پہنچا کر مجھے واپس گاؤں جانا ہے.
آپ کا گھوڑا کہاں ہے؟ "
میں اپنا گھوڑا جنوبی دروازے سے کچھ دور ایک سرائے میں چھوڑ آیا ہوں سرائے کے مالک کا نام عبدالمنان ہے وہ میرا انتظار کر رہا ہو گا.
جعفر نے کہا میں عبدالمنان کو جانتا ہوں وہ ایک مخلص آدمی ہے اگر آپ سرائے میں پہنچتے ہی بتا دیتے کہ آپ حامد بن زہرہ کے دوست ہیں تو آپ کو پریشان نہیں پڑتا وہ آپ کو یہ اطمینان دلا سکتا تھا کہ غرناطہ میں ان کو کوئی خطرہ نہیں-
اب آپ چلئیے میں آپ کو ولید کے گھر پہنچانے کے بعد کسی کو آپ کا گھوڑا لانے سرائے بھیجتا ہوں.
اگر آپ عبدالمنان کو قابل اعتماد سمجھتے ہیں تو یہ بہتر نہیں کہ میں سرائے چلا جاؤں اور وہاں ان کی ہدایت کا انتظار کروں-
اگر مجھے واپس جانے کی اجازت مل گئی تو میں صبح ہوتے ہی واپس چلا جاؤں گا
ویسے آپ کو اس بات کا پورا یقین ہے نا کہ غرناطہ میں حامد کو کوئی خطرہ نہیں ہے؟ -
جعفر نے جواب دیا"'
اگر آپ ان کی تقریر کے بعد اہل غرناطہ کا جوش و خروش دیکھ لیتے تو آپ کو یہ سوال پوچھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی-
اب شہر کی یہ حالت ہے کہ وہ تنہا بھی کسی سڑک پر نکل آئیں تو بھی غداران وطن کو ان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں ہو گی.
لیکن میرا خیال ہے وہ زیادہ دیر غرناطہ میں نہیں رہیں گے-
لیکن آپ نے مجھے یہ نہیں بتایا کہ ان کی ہدایت کے خلاف آپ غرناطہ کیوں آ گئے اور ہاشم کے متعلق آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ کوئی خطرناک کھیل کھیل رہا ہے-؟"
سلمان نے مختصر اپنی سرگزشت بیان کر دی جعفر نے کچھ سوچ کر کہا :
لیکن یہاں پہنچنے کے بعد ہم نے ہاشم کو نہیں دیکھا اگر وہ غرناطہ ست آتا تو حامد بن زہرہ کو ضرور تلاش کرتا-
پھر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ جب انہوں نے غرناطہ جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا تو وہ بار بار یہ کہتا تھا کہ آپ فی الحال غرناطہ جانے کا ارادہ ملتوی کر دیں.
اگر وہ غداروں کے ساتھ شامل ہو چکا تھا تو ان کی سلامتی کے متعلق اس قدر فکر مند کیوں ہوتا میرا خیال ہے کہ یہ ساری باتیں عاتکہ کے وہم کا نتیجہ ہیں اور اگر ان کے خدشات درست بھی ثابت ہوئے تو ہمیں ان کے متعلق اس قدر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے-
آج قوم کا ہر غدار حامد کے خون کا پیاسا ہے اور اگر ہاشم بھی ان میں شامل ہو چکا ہے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے-
وہ غرناطہ میں اپنا فرض پورا کر چکے ہیں جب وہ جنوب کا رخ کریں گے تو قبائل ان کے ساتھ ہوں گے-"
سلمان نے کہا-"
مجھے معلوم ہے کہ وہ کسی ذاتی خطرے سے پریشان نہیں ہو سکتے-
تاہم میں نے عاتکہ سے وعدہ کیا تھا کہ میں اس کا پیغام پہنچا دوں گا-
اب تمہیں اس ان سے بات کرنے کا موقع نہ ملے تو کم از کم سعید کو یہ واقعات ضرور بتا دینا¡-
جعفر نے جواب دیا آپ اطمینان رکھیں میری طرف سے کوئی کوتاہی نہیں ہو گی-
سعید بار بار یہ تاکید کرتا تھا کہ یہاں کسی کو معلوم نہیں ہوتا چاہیے کہ آپ کون ہیں-
غرناطہ میں آپ کو حامد بن زہرہ سے دور رکھنے کی بڑی وجہ یہی ہے-
کہیں آپ یہ نہ سمجھیں کہ اس وقت وہ جن لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں انہیں آپ سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے ولید بھی اپنے طرز عمل پر سخت نادم تھا اور آپ سے معافی مانگتا تھا"-
ولید نے اپنا فرض ادا کیا اور مجھے اس سے کوئی گلہ نہیں ہونا چاہیے لیکن میں تم سے ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں؛ "
فرمایئے؟ "-
اگر حامد اچانک غرناطہ سے باہر جانے کا ارادہ کریں تو تم مجھے اطلاع ضرور دو گے___________میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تک وہ اپنے گھر یا کسی محفوظ جگہ پر نہ پہنچ جائیں میں ان کے ساتھ رہوں؛ "
میں تمہارا انتظار کروں گا"-
____________○______________
تھوڑی دیر بعد سلمان دو نوجوانوں کی رفاقت میں سرائے کا رخ کر رہا تھا-
تنگ گلی سے نکل کر ایک کشادہ سڑک پر اسے جگہ جگہ ان لوگوں کی ٹولیاں دکھائی دیں.
جو ابو عبداللہ اور ابوالقاسم کے.....

No comments:

Post a Comment