Tuesday 11 April 2017

داستان ایمان فروشوں کی


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.30۔" قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 لیکن اُسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔بعد کی شہادتوں اور واقعات سے جو واردات سامنے آئی ، وہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قتل کی رات سے اگلی رات مصلح الدین اپنے گیا تو پہلی بیوی نے اُسے کمرے میں بلایا۔ اُس نے بیس اشرفیاں مصلح الدین کے آگے کرتے ہوئے کہا …… ''خضر الحیات کا قاتل یہ بیس اشرفیاں واپس کر گیا ہے اور کہہ گیا ہے کہ تم نے پچاس اشرفیاںاور سونے کے دو ٹکڑے کہے تھے۔ میں تمہارا کام کر دیا تو تم نے صرف بیس اشرفیاں بھیجی ہیں۔ یہ میں تمہاری بیوی کو واپس دے چلا ہوں ۔ تم نے مجھے دھوکہ دیا ہے۔ اب ایک سو اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے لوں گا، اگر دو دن تک مال نہ پہنچا تو ویسا ہی تیر جو خضر کے دل میں اُترا ہے ، تمہارے دل میں بھی اُتر جائے گا''۔

مصلح الدین کا رنگ اُڑگیا ، سنبھل کر بولا …… ''تم کیا کہہ رہی ہو؟ کون تھا وہ؟ میں نے کسی کو خضر الحیات کے قتل کے لیے یہ رقم نہیں دی تھی ؟''

''تم خضر کے قاتل ہو''۔ بیوی نے کہا …… ''مجھے معلوم نہیں کہ قتل کی کیا وجہ ہے ۔ اتنا ضرور معلوم ہے کہ تم نے اُسے قتل کرایا ہے''۔

یہ مصلح الدین کی پہلی بیوی تھی۔ اُس کی عمر زیادہ نہیں تھی ۔ بمشکل تیس سال کی ہوگی ۔ خاصی خوبصورت عورت تھی۔ کوئی ایک ماہ قبل وہ گھر میں ایک غیر معمولی طور پر خوبصورت اور جوان لڑکی لے آیا تھا۔ ایک خاوند کے لیے دو بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ اُس زمانے میں زیادہ بیویاں رکھنے کارواج تھا۔ کوئی بیوی دوسری بیوی سے حسد نہیں کرتی تھی، مگر مصلح الدین نے پہلی بیوی کو بالکل نظر انداز کرد یا تھا۔ جب سے نئی بیوی آئی تھی اُس نے پہلی بیوی کے کمرے میں جانا ہی چھوڑ دیا تھا …… بیوی نے اُسے کئی بار بلایا تو بھی وہ نہ گیا۔ بیوی کے اندر انتقامی جذبہ پیدا ہوگیاتھا۔ یہ آدمی جو اُسے بیس اشرفیاں دے گیا تھا۔ غالباً مصلح الدین سے بڑاہی سنگین لینا چاہتا تھا۔ اسی لیے اس نے اس کی پہلی بیوی کو بتا دیا تھا کہ خضر الحیات کو مصلح الدین نے قتل کرایا تھا۔

''تم اپنی زبان بند رکھنا''۔ مصلح الدین نے بیوی کو بارعب لہجے میں کہا …… ''یہ میرے کسی دشمن کی چال ہے۔ وہ میرے اور تمہارے درمیان دشمنی پیدا کرنا چاہتا ہے''۔

''تمہارے دل میں میری دشمنی کے سوا اور رہا ہی کیا ہے؟'' بیوی نے پوچھا ……۔

''میرے دل میں تمہاری پہلے روز والی محبت ہے''۔ مصلح الدین نے کہا …… ''کیا تم اس آدمی کو پہچانتی ہو؟''

''اُس نے چہرے پر نقاب ڈال رکھا تھا''۔ بیوی نے کہا …… ''مگر تمہارا نقاب اُتر گیا ہے۔ میں نے تمہیں پہچان لیا ہے''…… مصلح الدین نے کچھ کہنے کی کوشش کی، مگر بیوی نے اُسے بولنے نہ دیا۔ اُس نے کہا …… ''مجھے شک ہے تم نے بیت المال کی رقم ہضم کی ہے، جس کا علم خضرالحیات کو ہوگیا تھا۔ تم نے کرائے کے قاتل سے اُسے راستے سے ہٹا دیا ہے؟''

''مجھ پر جھوٹے الزام عائد نہ کرو''…… مصلح الدین نے کہا …… ''مجھے رقم ہضم کرنے کی کا ضرورت ہے؟''

''تمہیں نہیں ، اُس فرنگن کو رقم کی ضرورت ہے، جسے تم نے نکاح کے بغیر گھر رکھا ہوا ہے''۔ بیوی نے جل کر کہا …… ''تمہیں شراب کے لیے رقم کی ضرورت ہے۔ اگر یہ الزام جھوٹا ہے تو بتائو کہ یہ چار گھوڑوں کی بگھی کہاں سے آئی ہے؟ گھر میں آئے دن ناچنے والیاں جو آتی ہیں، وہ کیا مفت آتی ہیں؟ شراب کی جو دعوتیں دی جاتی ہیں، اُن کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے؟''

''خدا کے لیے چپ ہوجائو''۔ مصلح الدین نے غصے اورپیار کے ملے جلے لہجے میں کہا …… ''مجھے معلوم کرلینے دو ، وہ آدمی کون تھا جو یہ خطرناک چال چل گیا ہے ۔ اصل حقیقت تمہارے سامنے آ جائے گی''۔

''میں جب چپ نہیں رہ سکوں گی''۔ بیوی نے کہا …… ''تم نے میرا سینہ انتقام سے بھر دیا ہے۔ میں سارے مصر کو بتائوں گی کہ میرا خاوند قاتل ہے۔ ایک مومن کا قاتل ہے۔ تم میری محبت کے قاتل ہو۔ اس قتل کا انتقام لوں گی''۔

مصلح الدین منت سماجت کرکے اُسے چپ کرانے لگا اور اُسے قائل کر لیا کہ وہ صرف دو روز چپ رہے ، تاکہ و اس آدمی کو تلاش کرکے ثابت کرسکے کہ وہ قاتل نہیں ہے۔ اُس نے بیوی کو یہ بھی بتایا کہ غیاث بلبیس نے چند ایک مشتبہ افراد پکڑ لیے ہیں اور قاتل بہت جلدی پکڑا جائے گا۔

رات گزر گئی۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ مصلح الدین گھر سے غائب رہا۔ اس کی دوسری بیوی یاداشتہ بھی کہیں نظر نہیں آئی۔ شام کے بعد مصلح الدین گھر آیا اور پہلی بیوی کے کمرے میں چلاگیا۔ اُس کے ساتھ پیار محبت کی باتیں کرتا رہا۔ بیوی اُس کے فریب میں نہیں آنا چاہتی تھی ، مگر پیار کے دھوکے میں آگئی۔ مصلح الدین نے اُسے کہا کہ وہ اس آدمی کو ڈھونڈرہا ہے، جو بیس اشرفیاں دے گیا تھا …… کچھ دیر بعد بیوی سو گئی۔ اُس رات مصلح الدین نے ملازموں کو چھٹی دے دی تھی۔ گھر میں ایسی خاموشی تھی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مصلح الدین بہت دیر سوئی ہوئی بیوی کے کمرے میں رہا، پھر اُٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔

آدھی رات کا عمل تھا ۔ ایک آدمی اس گھر کی باہر والی دیوارکے ساتھ پیٹھ لگا کر کھڑا ہوگیا۔ ایک آدمی اُس نے کندھوں پر چڑھ گیا ۔ تیسرا آدمی ان دونوں کو سیڑھی بنا کر اوپر گیا اور دیوار سے لٹک کر اندرکی طرف کود گیا۔ اس نے اندر سے بڑا دروازہ کھول دیا۔ اس کے دونوں ساتھی اندر آگئے۔ اس گھر میں رکھوالی کتا ہر رات کھلا رہتا تھا، اس رات وہ بھی ڈربے میں بند تھا۔ شاید ملازم جاتے ہوئے بھول گئے تھے کہ اُسے کھلا رہناہے۔ تینوںآدمی برآمدے میں چلے گئے۔ اندھیرا گہرا تھا۔ وہ دبے پائوں چلتے گئے۔ گھپ اندھیرے میں ایک دوسرے کے پیچھے چلتے ایک نے اُس کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا ، جس میں مصلح الدین کی پہلی بیوی جسے وہ فاطمہ کے نام سے بلایا کرتا تھا، سوئی ہوئی تھی۔ کواڑ کھل گیا۔ کمرہ تاریک تھا۔ تینوں آدمی اندر گئے اور اندھیرے میں ٹٹولٹے ہوئے فاطمہ کے پلنگ تک پہنچ گئے۔ ایک آدمی کا ہاتھ فاطمہ کے منہ پر لگا تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ سمجھی کہ مصلح الدین کا ہاتھ ہے۔ اس نے ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا …… ''کہا جارہے ہیں آپ؟''

اس کے جواب میں ایک آدمی نے اس کے منہ پر کپڑا رکھ کر اس کا کچھ حصہ اُس کے منہ میں ٹھونس دیا۔ فوراً بعد تینوں نے اُسے بازوئوں میں جکڑلیا۔ ایک نے منہ پر ایک اور کپڑا کس کر باندھ دیا ۔ ایک نے ایک بوری کی طرح کا تھیلا کھولا۔ دوسرے دو آدمیوں نے فاطمہ کو دہرا کرکے رسیوں سے اُس کے ہاتھ اور پائوں باندھے اور اُسے تھیلے میں ڈال کر تھیلے کا منہ بند کردیا۔ انہوں نے تھیلا اُٹھایا اور باہر نکل گئے۔ بڑے دروازے سے بھی نکل گئے۔ گھرمیں کوئی مرد ملازم نہیں تھا۔ خادمائیں بھی اس رات چھٹی پر تھیں۔ تھوڑی دور ایک درخت کے ساتھ گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ تینوں آدمی گھوڑوں پر سوار ہوئے۔ ایک نے تھیلا اپنے آگے رکھ لیا۔ تینوں گھوڑے قاہرہ سے نکل گئے اور سکندریہ کا رُخ کر لیا۔

صبح ملازم آگئے ۔ صلح الدین نے فاطمہ کے متعلق پوچھا ، دو خادمائوں نے اسے تلاش کرکے بتایا کہ وہ گھر میں نہیں ہے۔بہت دیر تک جب اس کا کوی سراغ نہ ملا تو مصلح الدین ایک خادمہ کو الگ لے گیا۔ بہت دیر تک اُس کے ساتھ باتیں کرتا رہا، پھر اُسے غیاث بلبیس کے پاس چلا گیا۔ اُسے کہا کہ اُس کی بیوی لاپتہ ہوگئی ہے۔ اس نے اس شک کا اظہار کیا کہ خضرالحیات کو فاطمہ نے قتل کرایا ہے اور خضر مرتے مرتے انگلی سے ''مصلح ''جو لکھا تھا ، وہ دراصل مصلح کی بیوی لکھنا چاہتا تھا، لیکن موت نے تحریر پوری نہ ہونے دی ۔ اس کے ثبوت میں اُس نے اپنی خادمہ سے کہا کہ وہ بلبیس کو اس آدمی کے متعلق بتائے۔ خادمہ نے بیان دیا کہ پرسوں شاک ایک اجنبی آیا، جس کے چہرے پر نقاب تھا۔ اُس وقت مصلح الدین گھر پر نہیں تھا۔ اُس آدمی نے دروازے پر دستک دی تو یہ خادمہ باہر گئی۔ اجنبی نے کہا کہ وہ فاطمہ سے ملنا چاہتا ہے۔ خادمہ نے کہا کہ گھر میں کوئی مرد نہیں، ال لیے وہ فاطمہ سے نہیں مل سکتا۔ اس نے کہا کہ فاطمہ سے یہ کہہ دو کہ وہ اشرفیاں واپس کرنے آیا ہے، کہتا ہے کہ میں پوری رقم لوںگا۔ خادمہ نے فاطمہ کو بتایا تو اُس نے اس آدمی کو اندر بلا لیا۔

خادمہ نے بیان میں کہا کہ فاطمہ نے اُسے برآمدے میں کھڑا رہنے کوکہا اوریہ ہدایت دی کہ کوئی آجائے تو میں اسے خبردار کردوں۔ خادمہ کمرے کے دروازے کے ساتھ کھڑ ی رہی۔ اندرکی باتیں جو اُسے سنائی دیں،ان میں اس آدمی کا غصہ اور فاطمہ کی منت سماجت تھی۔ ان باتوں سے صاف پتا چلتا تھا کہ فاطمہ نے اس آدمی سے کہا تھا کہ علی بن سفیان کے نائب حسن بن عبداللہ کو قتل کرنا ہے، جس کے عوض وہ اسے پچاس اشرفیاں اور دو ٹکڑے سونا دے گی۔ خادمہ کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ فاطمہ نے اس آدمی کو بیس اشرفیاں کس وقت اور کہاں بھیجی تھیں اور کون لے گیا تھا۔ وہ پوری پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ اُسے کہہ رہی تھی کہ اُس نے غلط آدمی کو قتل کیاہے۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی)یہ نقاب پوش اجنبی کہہ رہا تھا کہ تم نے یقین کے ساتھ بتایا تھا کہ حسن بن عبداللہ فلاں وقت خضر الحیات کے گھر جائے گا۔ وہ گھات میں بیٹھ گیا۔ اُس نے ایک آدمی کو خضر کے گھر کے دروازے کے قریب جاتے دیکھا۔ اُس کا قد بت حسن بن عبد اللہ کی طرح تھا۔ قتل کرتے وقت اتنی مہلت نہ ملی کہ شکار کو اچھی طرح دیکھ کر یقین لیا جائے۔ تم نے جو وقت بتایا تھا ، یہ وہی وقت تھا۔ میں نے تیر چلا دیا اور وہاں سے بھاگنے کی کی ۔

وہ فاطمہ سے پچاس اشرفیاں مانگ رہا تھا۔ فاطمہ نے پہلے تو منت سماجت کی ، پھر وہ بھی غصے میں آگئی اور کہا کہ اصل آدمی کو قتل کرو گے تو ان بیس اشرفیوں کے علاوہ پچاس اشرفیاں اور سونے کے دو ٹکڑے دوں گی۔ اس آدمی نے کا کہ میں نے کام کر دیا ہے، اس کی پوری اُجرت لوںگا۔ فاطمہ نے انکار کردیا۔ وہ آدمی بڑے غصے میںیہ کہہ کر چلا گیا کہ میں پوری اُجرت وصول کرلوں گا ۔ فاطمہ نے خادمہ کو سختی سے کہا کہ وہ اس آدمی کے متعلق کسی سے ذکر نہ کرے۔ اُس نے خادمہ کو دو اشرفی انعام دیا۔ آج صبح وہ اس کمرے میں گئی تو فاطمہ وہاں نہیں تھی۔ اُسے شک ہے کہ اس آدمی نے انتقاماً اسے اغوا کر لیا ہے۔

غیاث بلبیس نے کچھ سوچ کر مصلح الدین کو باہر بھیج دیا اور خادمہ سے پوچھا …… ''ٍ یہ بیان تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ فاطمہ یا مصلح الدین نے ؟''

''فاطمہ تو یہاں نہیں ہے''۔ اُس نے کہا …… ''یہ میرا اپنا بیان ہے''۔

''مجھے سچ بتا دو''۔ بلبیس نے کہا …… ''فاطمہ کہا ں ہے؟ وہ کس کے ساتھ گئی ہے؟'' خادمہ گھبرانے لگی۔ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکی ۔ بلبیس نے کہا …… ''کوتوالی کے تہہ خانے میں جانا چاہتی ہو؟ اب تم واپس نہیں جاسکو گی''۔

وہ غریب عورت تھی ۔ اُسے معلوم تھا کہ کوتوالی کے تہہ خانے میں جا کر سچ اور جھوٹ الگ الگ ہوجاتے ہیں اور اس سے پہلے جسم کے جوڑ بھی الگ الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ رو پڑی اور بولی…… ''سچ کہتی ہوں تو آقا سزا دیتا ہے،جھوٹ بولتی ہوں تو آپ سزا دیتے ہیں ''…… بلبیس نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اُسے تحفظ کا یقین دلایا۔ خادمہ نے کہا …… ''میں نے قتل کے دوسرے روز صرف اتنا دیکھا تھا کہ ایک نقاب پوش آیا تھا۔ آقا مصلح الدین گھر نہیں تھے۔ نقاب پوش نے فاطمہ کو باہر بلایا تھا۔ و ہ بڑے دروازے کے باہر اور فاطمہ اندر تھی ۔ وہ اس کے سامنے نہیں ہوئی۔ ملازموں نے اُسے دیکھا تھا، لیکن کسی نے بھی قریب جا کر نہیں سنا کہ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئیں۔ نقاب پوش چلا گیا تو فاطمہ اندر آئی۔ اُس نے چھوٹی سی ایک تھیلی اُٹھا رکھی تھی ۔ فاطمہ کا سر جھکا ہوا تھا ۔ وہ کمرے میں چلی گئی تھی …… دوسری شام مصلح الدین نے چاروں ملازموں اور سائیس کو رات بھر کی چھٹی دے دی تھی۔ چار ملازموںمیں دو مرد اور دو عورتیں ہیں''۔

''اس سے پہلے ملازموں کو کبھی رات بھر کے لیے چھٹی دی گئی ہے؟''…… بلبیس نے پوچھا۔

''کبھی نہیں''۔ اس نے جواب دیا…… ''کوئی ایک ملازم کبھی چھٹی لے لیتا ہے ، سب کو کبھی چھٹی نہیں دی گئی''۔خادمہ نے سوچ کر کہا …… ''عجیب بات یہ ہے کہ آقا نے کہا تھا کہ آج رات کتے کو بندھا رہنے دینا۔ اس سے پہلے ہر رات کتاکھلا رکھا جاتا تھا۔ بڑا خون خوار کتا ہے۔ اجنبی کو بُو پر چیر پھاڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے''۔

''مصلح الدین کے تعلقات فاطمہ کے ساتھ کیسے تھے ؟''غیاث بلبیس نے پوچھا۔

''بہت کچھے ہوئے''۔ خادمہ نے بتایا…… ''آقا ایک بڑی خوبصورت اورجوان لڑکی لایا ہے جس نے آقا کو اپنا غلام بنا لیاہے۔ فاطمہ کے ساتھ آقا کی بول چال بھی بند ہے''۔

غیاث بلبیس نے خادمہ کو الگ بٹھا کر مصلح الدین کو اندر بلا لیا اور باہر نکل گیا۔ واپس آیا تو اس کے ساتھ دو سپاہی تھے۔ انہوں نے مصلح الدین کو دائیں اور بائیں بازوئوں سے پکڑلیا اور باہر لے جانے لگے۔ مصلح الدین نے بہت احتجاج کیا ۔ بلبیس یہ حکم دے کر باہر نکل گیا کہ اسے قید میںڈال دو۔ اُس نے دوسرا یہ حکم دیا کہ مصلح الدین کے گھر پر پہر ہ کھڑا کردو، کسی کو باہر نہ جانے دو۔

٭ ٭ ٭

اُس وقت فاطمہ قاہرہ سے بہت دُور شمال کی طرف ایک ایسی جگہ پہنچ چکی تھی جہاں اِرد گِرد اونچے ٹیلے، سبزہ اور پانی بھی تھا۔ یہ جگہ عام راہِ گزر سے ہٹی ہوئی تھی۔ وہاں وہ سورج نکلنے کے وقت پہنچی تھی، گھوڑے رُک گئے ۔ اُسے تھیلے سے نکالاگیا، اُس کے منہ سے کپڑا ہٹا دیا گیا اور ہاتھ پائوں بھی کھول دئیے گئے۔ اُس کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے۔ وہ تین نقاب پوشوں کے نرغے میں تھی۔ تین گھوڑے کھڑے تھے۔ فاطمہ چیخنے چلانے لگی۔ نقاب پوشوں نے اُسے پانی پلایا اور کچھ کھانے کو دیا۔ وہ ہاتھ نہیں آرہی تھی۔ اُس کے پیٹ میں پانی اورکھانا گیا اور تازہ ہوا لگی تو جسم میں طاقت آگئی۔ وہ اچانک اٹھی

اور دوڑ پڑی۔ تینوں بیٹھے دیکھتے رہے۔ کوئی بھی اس کے تعاقب میں نہ گیا۔ دُور جا کروہ ایک ٹیلے کی اوٹ میں چلی گیء تو ایک نقاب پوش گھوڑے پر سوارہوا۔ ایڑ لگائی اور فاطمہ کو جا لیا۔ وہ دوڑ دوڑ کر تھک گئی، لیٹ گئی۔ نقاب پوش نے اُسے اُٹھا کر گھوڑے پر ڈال لیا اور خود اس کے پیچھے سوال ہوکر واپس اپنے ساتھیوں کے پاس لے گیا۔

''بھاگو''۔ایک نے اُسے تحمل سے کہا۔ ''کہاں تک بھاگو گی۔ یہاں سے توکوئی تنومند مرد بھی بھاگ کر قاہرہ نہیں پہنچ سکتا''۔ فاطمہ روتی ،چیختی اور گالیاں دیتی تھی۔ ایک نقاب پوش نے اُسے کہا…… ''اگر ہم تمہیں قاہرہ واپس لے چلیں تو بھی تمہارے لیے کوئی پناہ نہیں ۔ تمہیں تمہارے خاوند نے ہمارے حوالے کیا ہے''۔

''یہ جھوٹ ہے''۔ فاطمہ نے چلا کر کہا ۔

''یہ سچ ہے''۔ اس نے کہا ۔ ''ہم نے تمہیں اُجرت کے طور پر لیا ہے۔ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں تمہارے ہاتھ میں بیس اشرفیوں کی تھیلی دے آیا تھا۔ تم نے خاوند نے کہہ دیا کہ تم قاتل ہو اور تم نے بے وقوفی یہ کی کہ اُسے یہ بھی کہہ دیا کہ تم کوتوال کو بتادوگی۔ وہ تم سے پہلے ہی تنگ آیاہوا تھا۔ اُس کی داشتہ نے اُس کے دل اور اس کی عقل پر قبضہ کر لیا تھا۔ میں تمہیں یہ نہیں بتا سکتا کہ وہ لڑکی کون ہے اور کہاں سے آئی ہے اورکیا کرنے آئی ہے۔ دوسرے دن تمہارا خاوند ہمارے ٹھکانے پر آیا۔ ایسا بے ایمان آدمی ہے کہ اس نے ہمیں خضرالحیات کے قتل کے عوض پچاش اشرفی اور سونے کے دو ٹکڑے دینے کا وعدہ کیا تھا ، مگر کام ہوگیا تو صرف بیس اشرفی بھیجی۔ میں نے تمہیں استعمال کیا اور یہ رقم تمہارے ہاتھ میں دے دی، تا کہ تمہیں بھی اس راز کا عمل ہوجائے۔ ہمارا تیر نشانے پر بیٹھا۔ دوسرے دن وہ ہمارے ٹھکانے پر آیا اور پچاس اشرفیاں دینے لگا۔ سونے کے ٹکڑے پھر بھی ہضم کر رہاتھا۔ میرے ان ساتھیوں نے کہا کہ اب ہم بہت زیادہ اُجرت لیںگے۔ اگر وہ نہیں دے گا تو ہم کسی نہ کسی طرح کوتوال تک خبر پہنچا دیں گے۔ اسے اب خطرہ یہ نظر آرہا تھا کہ تمہیں بھی پتا چل گیا تھا کہ قاتل وہی ہے اس کا علاج اس نے یہ سوچا کہ ہمیں کہا تم میری بیوی کو اُٹھا لے جائو۔ میں تمہارے لیے راستہ صاف کردوں گا۔ ہم جان گئے کہ وہ اپنی داشتہ کے زیر اثر تم سے جان چھڑانا چاہتا ہے اور اب وہ اس لیے تمہیں غائب کرنا چاہتاتھا کہ تم اس کے جرم کی گواہ بن گئی ہو اور اُسے کہہ بھی چکی ہو کہ تم کوتوال کوخبر کردوں گی''۔

فاطمہ کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔ وہ حیرت زدہ ہو کر اُن تینوں کو باری باری دیکھتی تھی۔ اُن کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ یہ آنکھیں ڈرائونی اور خوفناک تھیں۔ اُن کی زبان میں مٹھاس اور اپنائیت کی جھلک ضرور تھی ۔ انہوں نے اُسے دھمکی نہیں دی ، بلکہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ اس کا تڑپنا، رونا اور بھاگنا بے کار ہے۔

''میں نے تمہیں دیکھا تھا''۔ نقاب پوش نے اُسے کہا …… ''جب مصلح الدین نے کاہ کہ میری بیوی کو اُجرت کے طور پر اُٹھالے جائو تو میں نے سکندریہ کی منڈی کے بھائو سے تمہاری قیمت کا اندازہ کیا۔ تم ابھی جوان ہو اور خوبصورت بھی ہو۔ تم بڑے اچھے داموں بک سکتی ہو۔ ہم مان گئے۔ اگر تمہارا خاوند ہمیں اتنی زیادہ اُجرت نہ دیتا تم ہم نے اسے بتا دیا تھا کہ اُسے زندہ نہیں رہنے دیا جائے گا اور اس کی داشتہ کو اغوا کر لیا جائے گا۔ اُس نے ہمیں بتایاکہ آج رات اُس کے گھر میں کوئی ملازم نہیں ہوگا۔ کتا بھی بندھا ہوا ہواگا۔ البتہ بڑا دروازہ اندر سے بند ہوگا کہ تم دیکھ لو تو شک نہ کرو …… ہم تینوں نے ایک دوسرے کے اوپڑ کھڑے ہو کر تمہارے گھر کی دیوار پھلانگی ۔ ہم نے ہاتھوں میں خنجر لے رکھے تھے اورہم سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے ، کیونکہ تمہارے خاوند پر بھروسہ نہیں تھا۔ وہ ہمیں مروا سکتا تھا ، لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہمارے لیے راستہ واقعی صاف تھا ۔ تمہیں اُٹھایا اور لے آئے''۔

''اِس نے یہ کہانی تمہیں اس لیے سنائی ہے کہ تم اپنے خاوند کے گھر کو دل سے نکال دو''…… دوسرے نقاب پوش نے کہا …… ''ہم تمہیں یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ ہم تین آدمی اکیلی عورت کی مجبوری کا فائدہ نہیں اُٹھائیں گے۔ ہم بیوپاری ہیں۔ کرائے کا قتل اور اغوا ہمارا پیشہ ہے۔ ہم تمہارے جسم کے ساتھ کھیل کر خوش ہونے والے نہیں۔ تین مرد ایک عورت کو اغوا اور مجبور کرکے تفریح کریں تو یہ کوئی فخر والی بات نہیں ''۔

''تم سکندریہ کے بازار میں بیچو گے ؟''فاطمہ نے بے بسی کے لہجے میں پوچھا …… ''میری قسمت میں اب عصمت فروشی لکھی ہے؟''

''نہیں''۔ ایک نقاب پوش نے جواب دیا…… ''عصمت فروشی کے لیے جنگلی اور صحرائی لڑکیاں خریدی جاتی ہیں۔ تم حرم کی چیز ہو۔ کسی باعزت امیر کے پاس جائو گی۔ ہمیں بھی تو اچھی قیمت چاہیے۔ ہم تمہیں مٹی میں نہیں پھینکیں گے۔ تم اب رونا اور غم کرنا چھوڑ دو ، تاکہ تمہارے چہرے کی دلکشی اور رونق قائم رہے، ورنہ تم عصمت فروشی کے قابل رہ جائو گی ۔ تھوڑی دیر کے لیے سوجائو''۔

٭ ٭ ٭
 یہ دیکھ کر ان لوگوں نے اس کے ساتھ کوئی بے ہودہ حرکت نہیں کی ، دست درازی نہیں کی ، فاطمہ کو کچھ سکون سا محسوس ہوا۔ رات بھیر وہ اذیت میں بھی رہی تھی ۔ تھیلے میں دہری کرکے اسے بند کیا گیاتھا، جسم درد کر رہا تھا۔ وہ لیٹی اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اُس کی آنکھ کھل گئی۔ اُس کا دل خوف اور گھبراہٹ کی گرفت میں تھا۔ اس صورت حال کو وہ قبول نہیں کر سکتی تھی۔ اُس نے دیکھا کہ تینوں نقاب پوش سوئے ہوئے ہیں۔ وہ بھی رات بھر کے جاگے ہوئے تھے۔ فاطمہ نے پہلے تو یہ سوچا کہ کسی ایک کا خنجر نکال کر تینوں کو قتل کردے، لیکن اتنی جرأ ت نہیں کر سکی۔ تینوں کو قتل کرنا آسان نہیں تھا۔ اُس نے گھوڑے دیکھے۔ ان لوگوں نے زینیں نہیں اُتاری تھیں۔ وہ آہستہ سے اُٹھی اور دبے پائوں ایک گھوڑے تک پہنچی۔ سورج ٹیلوں کے پیچھے جاتا رہا تھا اور فاطمہ کو معلوم ہی نہ تھا کہ وہ قاہرہ سے کسی طرف اور کتنی دورہے۔ اس نے یہ خطرہ مول لے لیا اور صحرا کی وسعت میں بھٹک بھٹک کر مرجائے گی ، ان لوگوں کے ہاتھوں سے ضرور نکلے گی۔

اُسے نے گھوڑے پرسوارہوتے ہی ایڑ لگا دی ۔ ٹاپوئوں نے نقاب پوش کو جگادیا۔ انہوں نے فاطمہ کو ٹیلے کی اوٹ میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ دو نقاب پوش گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تعاقب میں گھوڑے سرپت بھگا دئیے۔ فاطمہ کے لیے مشکل یہ تھی کہ اُسے ٹیلوں کے قید خانے سے نکلنے کا راستہ معلوم نہیں تھا ۔ صحرائی ٹیلے بھول بھلیوں جیسے ہوتے ہیں ۔ صرف صحرا کے بھیدی ان سے واقف ہوتے ہیں۔ فاطمہ ایسے رُخ ہولی جہاں آگے ایک اور ٹیلے نے راستہ روک رکھا تھا۔اُس نے وہاں جا کر پیچھے دیکھا تو نقاب پوش تیزی سے اس کے قریب آرہے تھے۔ اس نے گھوڑے کو ٹیلے پر چڑھایا اور ایڑ مارتی گئی، گھوڑا اچھا تھا۔ اوپر جا کر پرے اُتر گیا۔ وہ ایک طرف کو گھوڑا موڑ لے گئی۔ آگے راستہ مل گیا۔ نقاب پوش بھی پہنچ گئے۔ فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ فاطمہ کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا، جب اُس نے اپنے سامنے سمندر کی طرح کھلا صحرا اور چار شتر سوار اپنی سمت آتے دیکھے۔ اُس نے چلانا شروع کر دیا …… ''بچائو ، ڈاکوئوں سے بچائو''…… وہ اُن تک پہنچ گئی۔

اُس کے پیچھے دونوں نقاب پوشوں کے گھوڑے باہر آئے۔ شتر سواروں کو دیکھ کر انہوں نے گھوڑوں کی باگیں کھینچیں اور گھوڑے موڑے بھی۔ شتر سواروں نے اونٹ دوڑادئیے۔ ایک نے کمان میں تیر رکھ کر چھوڑا تو تیر ایک گھوڑے کی گردن میں اُتر گیا ۔ گھوڑا درد سے تڑپا، اُچھلا اور بے قابو ہوگیا۔ سوار کود گیا۔ شتر سواروں نے انہیں للکارا تو دوسرے نے گھوڑا روک لیا۔ انہیں معلوم تھا کہ چار شتر سوار تیر اندازوں کی زد میں ہیں۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ ان کا ایک ساتھی اندرہے۔ ان دونوںکو پکڑ لیا گیا…… یہ چاروں سلطان ایوبی کی فوج کے کسی کشتی دستے کے سپاہی تھے۔ سلطان ایوبی نے سارے صحرا میں کشتی پہرے کا انتظام کر رکھا تھا ، تا کہ اچانک حملے کا خطرہ نہ رہے اور صلیبی تخریب کار مصر میں داخل نہ ہو سکیں۔ ان گشتی دستوں کا بہت فائدہ تھا۔ انہوں نے کئی مشتبہ لوگ پکڑے تھے۔ اب یہ نقاب پوش اُن کے پھندے میں آگئے ۔ فاطمہ نے انہیں بتایا کہ اُسے کس طرح یہاں تک لایا گیا ہے ، وہ کس کی بیوی ہے۔ اُس نے یہ بھی بتایا کہ ناظم مالیات خضرالحیات قتل ہوگیا ہے۔ قتل اس کے خاوند مصلح الدین نے کرایا ہے ، جو شہر کا ناظم ہے اور قاتل ان تینوں میں سے ایک ہے۔

تیسرے نقاب پوش کو بھی پکڑ لیا گیا۔ اُن سے خنجر لے لیے گئے۔ ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دئیے گئے۔ ان کاایک گھوڑا تیر لگنے سے بھاگ گیا تھا۔ ایک گھوڑے پر دو نقاب پوشوں کو اور تیسرے پر ایک کو بٹھا کر سپاہی اپنے کمانڈر کے پاس لے چلے۔ فاطمہ کو انہوں نے اونٹ پر بٹھالیا۔ اس اونٹ کا سوار اپنے ایک ساتھی کے پیچھے سوار ہوگیا۔ اس قافلے کے سامنے چار میل کی مسافت تھی جو انہوں نے سورج غروب ہونے تک طے کرلی۔ وہ ایک نخلستان تھا ، جہاں خیمے بھی نصب تھے۔ یہ اس دستے کا ہیڈ کواٹر تھا۔ فاطمہ کو اس کمان دار کے سامنے پیش کیا گیا۔ تینوں نقاب پوشوں کو پہرے میں بٹھا دیا گیا ۔ انہیں اگلے روز قاہرہ بھیجنا تھا۔

٭ ٭ ٭

صلیبیوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ کرک میں بیٹھے بیٹھے صلاح الدین ایوبی کا انتظار نہیں کریں گے۔ انہوں نے فوج کو تقسیم کرنا شروع کردیا۔ فرانس کی فوج کو انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کو راستے میں روکنے کے لیے تیاری کا حکم دیا ۔ ریمانڈ کی فوج مسلمانوں کی فوج پر عقب سے حملے کے لیے مقرر ہوئی۔ کرک کے قلعے کے دفاع کے لیے جرمنی کی فوج تھی، جس کے ساتھ فرانس اور انگلستان کے کچھ دستے تھے۔ انہیں جاسوسوں نے بتا دیا تھا کہ سلطان ایوبی نئی فوج تیار کر رہا ہے۔ صلیبی حکمرانوں نے اس اقدام کا جائزہ لیا کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے ٹریننگ کیمپ پر حملہ کرکے پیچھے ہٹ آئیں، لیکن اُن کی انٹیلی جنس نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ دلیل یہ دی کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے دفاع کی تین تہیں بنا رکھی ہیں، جن میں ایک تہہ متحرک ہے۔ اس کے علاوہ اس کے دیکھ بھال کے دستے دور دورتک گھومتے پھرتے ہیں اور صحرا میںہلتی ہوئی ہر چیز کو قریب جا کر دیکھتے ہیں۔ ان دفاعی انتظامات کو دیکھ کر صلیبیوں نے اس حملے کا خیال دل سے نکال دیا۔

ایک امرکی مصنف انٹینی ویسٹ نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ صلیبیوں کے پاس صلاح الدین ایوبی کی نسبت چار گناہ فوج تھی، جس میں زرہ پوش پیادہ اور سوار دستوں کی بہتات تھی۔ اگر یہ فوج صلاح الدین ایوبی پر براہِ راست حملہ کردیتی تو مسلمان زیادہ دیر جم نہ سکتے ، مگر صلیبی فوج کو شوبک کی شکست میں جو نقصان اُٹھانا پڑا، اس کی ایک دہشت بھی تھی جو میدانِ جنگ سے بھاگے ہوئے فوجیوں پر طاری تھی۔ صلیبیوں کامورال متز لزل تھا، جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ شوبک کو وہ لوہے کا قلعہ سمجھتے تھے۔ وہ اپنی فوج کو صحرا میں بھیج کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ سلطان ایوبی کو قلعوں سے دور ہی ختم کردیں گے۔ وہ کرک کے دفاع میں بیٹھے رہے اور ایوبی نے شوبک نے لیا اور صحرا میں صلیبیوں کو آمنے سامنے کی جنگ کا موقع دئیے بغیر انہیں چھاپہ ماروں سے مروا دیا ۔ اس کی ''آگ کی ہانڈیوں'' نے گھوڑوں اور اونٹوں کو اتنا دہشت زدہ کیا کہ خاصے عرصے تک جانور معمولی سی آگ دیکھ کر بھی بدک جاتے تھے۔ انٹینی ویسٹ نے یہ ثبوت بھی مہیا کیا ہے کہ صلیبی فوج مختلف بادشاہوں اور ملکوں کی مرکب تھی جوبظاہر متحد تھی ، لیکن یہ اتحاد برائے نام تھا کیونکہ ہر بادشاہ او اس کی فوج کا اعلیٰ کمانڈر ملک گیری اور بادشاہی کی توسیع کا خواہش مند تھا۔ ان میں صرف یہ جذبہ مشترکہ تھا کہ مسلمان کو ختم کرنا ہے، مگر ان کے دلوں میں جو اختلافات تھے، وہ اُن کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے تھے۔

مورج لکھتے ہیں کہ صلیبی سازشوں کے ماہر تھے اور مسلمانوں کے جس علاقے پر قابض ہوجاتے تھے، وہاںقتل عام اور آبروریزی شروع کردیتے تھے۔ اس کے برعکس صلاح الدین ایوبی محبت اور اخلاقی قدروں کو ایسی خوبی سے استعمال کرتا تھا کہ دشمن بھی اس کے گرویدہ ہوجاتے تھے۔ اس کے علاوہ اُس نے اپنی فوج میں یہ خوبی پیدا کردی تھی کہ دس سپاہیوںکا چھاپہ مار دستہ ایک ہزار نفری کے فوجی کیمپ کو تہس نہس کرکے غائب ہوجاتا تھا۔ یہ لوگ جان قربان کرنے کو معمولی سی قربانی سمجھتے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی جس اندازسے میدانِ جنگ میں تھوڑی سی فوج کو ترتیب دیتا تھا ، وہ بڑی سے بڑی فوج کو بھی بے بس کردیتی تھی۔ شوبک اور کرک کے میدان میں بھی اس نے اسی جنگی دانشمندی کامظاہرہ کیا تھا۔ صلیبیوں نے اس کا جائزہ لیا، اپنی فوج کی جسمانی اور جذباتی کیفیت دیکھی تو انہوں نے براہ راست حملے کا خیال چھوڑ دیا اور کوئی دوسرا ڈھونگ لیا، لیکن اس ڈھنگ کے متعلق بھی انہیں شک تھا۔ اس کاعلاج انہوں نے یہ کیا کہ مصر میں بغاوت بھڑکانے اور سوڈانیوں کو مصر پر حملہ کرنے پر اُکسانے کا اہتمام کرلیا۔

مصر کے نائب ناظم امور شہری مصلح الدین کی طرف سے انہیں اُمید افزا رپورٹیں مل رہی تھیں، وہاں ابھی یہ اطلاع نہیں پہنچی تھی کہ مصر کا ناظم خضرالحیات قتل ہوگیا ہے اور مصلح الدین پکڑا گیا ہے۔ کرک تک یہ اطلاع پہنچنے کے لیے کم از کم پندرہ دن درکار تھے، کیونکہ راستے میں سلطان صلاح الدین کی فوج تھی۔ قاصد بہت دُور کا چکر کاٹ کر اور قدم پھونک پھونک کر کر ک جاسکتے تھے۔ بہت دنوں کا چلا ہواایک قاصد اُس رات وہاںپہنچا ، جس رات فاطمہ اغوا ہوئی تھی۔ اُس نے رپورٹ دی کہ بغاوت کے لیے فضا سازگار ہے، لیکن سوڈانی ابھی حملے کے لیے تیار نہیںہیں۔ ن کے ہاں گھوڑوں کی کمی ہے، ان کے پاس اونٹ زیادہ ہیں۔ انہیں کم و بیش پانچ سو اچھے گھوڑوں کی ضرورت ہے۔ اتنی ہی زینیں درکار ہیں۔ فرانسیسی فوج کے کمانڈر نے کہا کہ پانچ سو گھوڑے فوراً روانہ کر دئیے جائیں اور ان کے ساتھ صلیبی فوج کے پانچ سات افسروں کو بھی بھیج دیا جائے جو سوڈانیوں کی جنگی اہلیت اور کیفیت کا جائزہ لے کرحملہ کرائیں۔

صلیبیوں کے پاس گھوڑوں کی کمی تھی ۔ انہوں نے کرک میں اعلان کردیاکہ مصر پر حملے کے لیے پانچ سو گھوڑوں کی فوری ضرورت ہے۔ عیسائی باشندوں نے تین دنوں میں گھوڑے مہیا کردئیے جو ایسے راستے سے روانہکر دئیے گئے، جس کے متعلق یقین تھا کہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ اس کا راہنما وہی جاسوس تھا جو گھوڑے مانگنے آیاتھا۔ وہ سوڈانی تھا اور تین سال سے جاسوسی کر رہا تھا۔ ان گھوڑوں کے ساتھ آٹھ صلیبی فوج کے افسر تھے، جنہیں سوڈانے حملے کی قیادت کرنی تھی۔ انہیں یقین دلایا گیاتھا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کویہاں سے نکلنے نہیں دیاجائے گا…… سلطان صلاح الدین ایوبی کو صرف یہ معلوم تھا کہ مصر کے حالات ٹھیک نہیں ، لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ حالات آتش فشاں پہاڑ بن چکے ہیں جو پھٹنے والا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے یہ تسلی دے رکھی تھی کہ اُس نے جاسوسی کا جو جال بچھایا ہے، وہ خطروں سے قبل از وقت خبردار کردے گا۔ انہیں خضرالحیات کے قتل اور مصلح الدین کی گرفتاری کا بھی علم نہیں تھا۔ غیاث بلبیس کو مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع بجھوادے ، لیکن اُس نے یہ کہہ کر اس مشورے پر عمل نہیں کیا تھا کہ تفتیش مکمل کرکے اصل صورت حال سے سلطان ایوبی کو آگاہ کرے گا۔

فاطمہ کو گشتی دستے کے کمانڈر نے رات الگ خیمے میں رکھا۔ سحر کا دُھندلگا ابھی صاف نہیں ہوا تھا۔ اب اُسے اور تینوں نقاب پوشوں کو آٹھ محافظوں کے ساتھ قاہرہ کے لیے روانہ کر دیا گیا۔ یہ قافلہ سورج غروب ہونے کے بعد قاہرہ پہنچا اور سیدھا کوتوالی گیا۔ غیاث بلبیس اس واردات کی تفتیش میں مصروف تھا۔ اُس وقت وہ تہہ خانے میں تھا۔ اُس نے مصلح الدین کے گھر کے تلاشی لی اور وہاں سے اُس کی داشتہ کر برآمد یاتھا۔ وہ اپنے آپ کو ازبک مسلمان بتاتی تھی۔ اُس نے بلبیس کو گمراہ کرنے کی بہت کوشش کی۔ اس کے جواب میں بلبیس نے اُسے اُس کوٹھری کی جھلک دکھائی ، جہاں بڑے بڑے سخت جان مرد بھی سینے کے راز اُگل دیا کرتے تھے۔ لڑکی نے اعتراف کرلیا کہ وہ یروشلم سے آئی ہے اورعیسائی ہے۔ اُس نے اعتراف کے ساتھ بلبیس کو اپنے جسم اوردولت کے لالچ دینے شروع کردئیے۔ بلبیس نے مصلح الدین کے گھرکی تلاشی میں جو دولت برآمد کی تھی، اس نے اُس کا دماغ ہلا دیا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ مصلح الدین کیوں صلیبیوں کے جال میں پھنس گیا تھا۔ خود لڑکی اس قدر پر کشش اورچرب زبان تھی کہ اُسے ٹھکرانے کے لیے پتھر دل کی ضرورت تھی۔

بلبیس نے اپنا ایمانت ٹھکانے رکھا۔ اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ تو کوئی بہت بڑی سازش تھی جس کی کڑیاں یروشلم سے جا ملتی ہیں۔ اُس نے لڑکی سے کہاکہ وہ ہر ایک بات بتا دے۔ لڑکی نے جواب میں کہا …… ''میں جو کچھ بتا سکتی تھی ، بتا دیا ہے۔ اس سے آگے کچھ بتائوں گی تو یہ صلیب کے ساتھ دھوکا ہوگا۔ میں صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف اُٹھا چکی ہوں کہ اپنے فرض کی ادائیگی میں جان دے دوں گی۔ میرے سا تھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، کچھ نہیںبتائوں گی۔ اگر مجھے آزاد کرکے یروشلم یاکرک پہنچا دو گے تو منہ مانگی دولت تمہارے قدموں میں رکھ دی جائے گی۔ مصلح الدین تمہاری قید میں ہے۔ اس سے پوچھ لو، وہ تمہارا بھائی ہے۔ شاید کچھ بتا دے''۔

بلبیس نے اُس سے مزید کچھ بھی نہ پوچھا۔ وہ مصلح الدین کے پاس چلا گیا۔ مصلح الدین بڑی بری حالت میں تھا۔ اسے چھت کے ساتھ اس طرح لٹکایا گیا تھا کہ رسہ کلائیوں سے بندھا تھا اوراس کے پائوں فرش سے اوپر تھے۔ بلبیس نے جاتے ہی اُس سے پوچھا …… ''مصلح دوست! جو پوچھتا ہوں ، بتادو۔ تمہاری بیوی کہاں ہے؟ اور اسے کس سے اغوا کرایا ہے؟ اب تمہیں کچھ اور باتیں بھی بتانی پڑیں گی۔ تمہاری داشتہ اپنے آپ کو بے نقاب کرچکی ہے''۔

''کھول دے مجھے ذلیل انسان!''…… مصلح الدین نے غصے اور درد سے دانت پیس کر کہا …… ''امیر مصر کو آنے دے۔ میں تیرا یہی حشر کرائوں گا''۔

اتنے میں بلبیس کے ایک اہل کار نے آکر اس کے کان میں کچھ کہا۔ حیرت سے اُس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔ وہ دوڑتا ہوا تہ خانے سے نکلا اور اوپر چلا گیا۔ وہاں مصلح الدین کی بیوی اور اُسے اغوا کرنے والے تین آدمی بیٹھے تھے۔ فاطمہ نے اُسے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی اور تینوں کس طرح پکڑے گئے ہیں۔ بلبیس فاطمہ اور تین مجرموں کو تہ خانے میں لے گیااور مصلح الدین کے سامنے جا کھڑا کیا۔ مصلح الدین نے انہیں دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ بلبیس نے پوچھا …… ''ان تینوں میں سے قاتل کون ہے؟''…… مصلح الدین خاموش رہا۔ بلبیس نے تین دفعہ پوچھا۔ وہ پھربھی خاموش رہا۔ بلبیس نے تہ خانے کے ایک آدمی کواشارہ کیا۔ وہ آدمی آگے گیا اور مصلح الدین کی کمر کے گرد بازو ڈال کراس کے ساتھ لٹک گیا۔ اس آدمی کاوزن مصلح الدین کی کلائیاں کاٹنے لگا جو رسے سے بندھے ہوئی تھیں۔ اُس نے درد سے چیختے ہوئے کہا …… ''درمیان والا''۔

بلبیس تینوں کو الگ لے گیا اور انہیں کہا کہ وہ بتادیں کو وہ کون ہیں اور یہ سارا سلسلہ کیا ہے، ورنہ یہاں سے زندہ نہیں نکل سکیں گے۔ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور بولنے پر رضا مند ہوگئے۔ بلبیس نے انہیں الگ الگ کر دیا اور فاطمہ کو اوپر لے گیا۔ فاطمہ نے اُسے وہی بات سنائی جو سنائی جا چکی ہے۔ اُس نے اپنے متعلق یہ بتایا کہ اس کی ماں سوڈانی اورباپ مصر ی ہے۔ تین سال گزرے، وہ اپنے باپ کے ساتھ مصر آئی۔ مصلح الدین نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے باپ کے پاس آدمی بھیجے۔ اسے یہ معلوم نہیں کہ رقم کتنی طے ہوئی۔ اب اسے مصلح الدین کے گھر چھوڑا گیا اور ایک تھیلی لے کر چلا گیا۔ مصلح الدین نے ایک عالم اور چند ایک آدمیوں کو بلا کرباقاعدہ نکاح پڑھوایا اور وہ اس کی بیوی بن گئی۔ اُسے شک تھاکہ باپ اُسے یہاں بیچنے کے لیے ہی لایاتھا۔ مصلح الدین کے خلاف اُسے کبھی بھی شک نہیں ہوا تھا کہ وہ اتنا برا آدمی ہے۔ وہ شراب نہیں پیتا تھا۔ اس کی باہر کی سرگرمیوں کے متعلق فاطمہ کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔

صلاح الدین ایوبی نے شوبک کی طرف کوچ کیا تواس کے فوراً بعد مصلح الدین میں ایک تبدیلی آئی ۔ وہ رات بہت دیر تک باہر رہنے لگا۔ ایک رات فاطمہ نے دیکھا کہ وہ شراب پی کر آیاہے۔ فاطمہ کا باپ شرابی تھا۔ وہ شراب کی بواور شرابی کو پہچان سکتی تھی ۔ اُس نے مصلح الدین کی محبت کی خاطر یہ بھی برداشت کیا۔ پھر گھر میں رات کے وقت اجنبی سے آدمی آنے لگے۔
٭ ٭ ٭
 جاری ھے ، " قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی")، شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

داستان ایمان فروشوں کی


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.29۔" قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 فلسطین ابھی صلیبیوں کے پائوں تلے کراہ رہا تھا۔ یروشلم صلیب پر لٹکا ہوا تھا۔ اس مقدس شہر سے خون رِس رہا تھا ، وہاں کے مسلمان جو صلیبیوں کے ظالمانہ استبداد کے شکنجے میں آئے ہوئے تھے، پس رہے تھے ، تڑپ رہے تھے اور صلاح الدین ایوبی کا انتظار کررہے تھے۔ اُن تک یہ اطلاعیں پہنچ چکی تھیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی فلسطین کی سرزمین میں داخل ہو چکا ہے اور شوبک کاقلعہ مسلمانوں کے قبضہ میں ہے۔یہ ان کے لیے خوشخبری تھی مگر یہ خوش خبری پیغامِ اجل ثابت ہوئی۔ صلیبیوں نے شوبک کی شکست کا انتقام یروشلم اور دیگر شہروں اور قصبوں کے مسلمانوں سے لینا شروع کردیا تھا۔ وہ مسلمانوں کو مردہ کردینا چاہتے تھے تا کہ وہ جاسوسی نہ کر سکیں اور حملے کی صورت میں صلاح الدین ایوبی کی مدد کرنے کی جرأت نہ کریں۔سب سے زیادہ مظالم کرک کے مسلمانوں پر توڑے جا رہے تھے۔ شوبک کے بعد کرک ایک بڑا قلعہ تھا جس پر صلیبیوں کو بہت ناز تھا۔ ایسا ہی ناز انہیں شوبک پر بھی تھا، مگر اُس کے ناز کو سلطان صلاح الدین ایوبی کی نہایت اچھی چال اور اس کے مجاہدین کی شجاعت نے ریت کے ذروں کی طرح بکھیر دیا تھا۔ اب صلیبی کرک کو مضبوط کر رہے تھے ، وہاں کے مسلمان باشندوں پر تشدد ایک احتیاطی تدبیر تھی۔ صلیبیوں کو یہ وہم ہوگیا تھا کہ مسلمان جاسوسی کرتے ہیں۔ چنانچہ یہاں بھی انہوں نے شوبک کی طرح مشتبہ مسلمانوں کو بیگار کیمپ میں پھینکنا شروع کردیا تھا۔

''فلسطین کی فتح ہمارا ایک عظیم مقصد ہے مگر کرک سے مسلمانوں کو نکالنا اس سے بھی عظیم تر مقصد ہونا چاہیے''۔ جاسوسوں کے ایک گروہ کا سربراہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا ۔ وہ طلعت چنگیز نام کا ایک تُرک تھا جو چھ جاسوسوں کو شوبک سے بھاگے ہوئے عیسائی باشندوں کے بہروپ میں کرک لے گیا تھا۔ وہ تین مہینوں بعد واپس آیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو علی بن سفیان ِکی موجودگی میں وہاں کے حالات بتا رہا تھا۔ صلیبی فوج جو بھاگ کر کرک پہنچی تھی ،اس کے متعلق اس نے بتایا کہ خاصی بُری حالت میں ہے اور فوری طور پر لڑنے کے قابل نہیں۔ اس ہاری ہوئی فوج نے کرک میں جاتے ہی مسلمانوں کا جینا حرام کردیا۔ اندھا دُھند گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ مسلمانوں عورتوں نے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے، جہاں کسی مسلمان پر ذرا سا شک ہوتا ہے ، اُسے پکڑ کر بیگار کیمپ میں لے جاتے ہیں ، جہاں انسان ایسا مویشی بن جاتا ہے جو بو ل نہیں سکتا۔ صبح کے اندھیرے سے رات کے اندھیرے تک کام کرتا، سوکھی روٹی اور پانی پر زندہ رہتا ہے …… ''ہم نے وہاں زمین دوز مہم چلائی ہے کہ جتنے مسلمان جوان ہیں یا لڑنے کی عمرمیں ہیں ، وہ یہاں سے نکل کر شوبک پہنچیں اور فوج میں بھرتی ہوجائیں ، تاکہ کمک کا انتظار کیے بغیر کرک پرحملہ کیا جاسکے ''…… چنگیز تُر ک نے کہا…… ''ہماری موجودگی میں کچھ لوگ وہاں سے نکل آئے تھے لیکن یہ کام ایک تو اس لیے مشکل ہے کہ ہر طرف صلیبی فوج پھیلی ہوئی ہے اور دوسری مشکل یہ ہے کہ اپنے کنبوں، خصوصاً عورتوں کو وہ عیسائیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ کر نہیں آسکتے ۔ فوری ضرورت یہ ہے کہ کرک پر حملہ کیا جائے اور مسلمانوں کو نجات دلائی جائے''۔

اس سے پہلے ایک اور جاسوس یہ اطلاع دے چکا تھا کہ صلیبیوں کی سکیم اب یہ ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کرک کا محاصرہ کرے گا تو صلیبیوں کی ایک فوج، جو ایک صلیبی حکمران ریمانڈ کے زیر کمان ہے، عقب سے حملہ کرے گی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے پہلے ہی اپنے فوجی سربراہوں سے کہہ دیا تھا کہ صلیبی عقب سے حملہ کریں گے۔ اس صورتِ حال کے لیے اُسے زیادہ فوج کی ضرورت تھی ۔ اسنے چنگیز کو رخصت کرکے علی بن سفیان سے کہا …… ''جذبات کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں فوراً کرک پر حملہ کر دینا چاہیے۔ میں اچھی طرح اندازہ کرسکتا ہوں کہ وہاں کے مسلمان کس جہنم میں پڑے ہوئے ہیں، لیکن حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی صفوں کو مستحکم کیے بغیر ایک قدم آگے نہ اُٹھائو، ضرب اُس وقت لگائو ، جب تمہیں یقین ہوکہ کاری ہوگی۔ ہم ان عورتوں اوربچوں کو نہیں بھول سکتے جو دشمن کے ہاتھوں ذلیل وخوار اور قتل ہو رہے ہیں ۔ یہ ہمارے گمنام شہید ہیں ، یہ قوم کی عظیم قربانی ہے۔ میں انہی کی آبرو کے وقار کے لیے فلسطین لینا چاہتاہوں، اگر میرا مقصد یہ نہ ہو تو جنگ کا مقصد ڈاکہ اور لوٹ مار رہ جاتا ہے۔ وہ قوم جو اپنی اُن بچیوں اور بچوں کوبھول جائے جو دشمن کے استبداد میں ذلیل وخوار اورقتل ہوئے ، وہ قوم ڈاکوئوں اور رہزنوں کا گروہ بن جاتی ہے ۔ اس قوم کے افراد دشمن سے انتقام لینے کی بجائے ایک دوسرے کو لوٹتے، ایک دوسرے کودھوکے اور فریب دیتے ہیں۔ اُن کے حاکم قوم کو لوٹتے اورعیش و عشرت کرتے ہیں اور جب دشمن انہیں کمزور پا کر اُن کے سر پر آجاتا ہے تو کھوکھلے نعرے لگا کر قوم کے بے وقوف بناتے ہیں اور دشمن کے ساتھ درپردہ سودا بازی کرتے ہیں۔وہ اپنے ملک کا کچھ حصہ اور اس حصے کی آبادی نہایت راز دار انہ طریقے سے دشمن کے حوالے کرکے باقی ملک میں اپنی حکمرانی قائم رکھتے ہیں ، پھر وہ اورزیادہ عیش اور لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں ، کیونکہ وہ جاتے ہیں کہ دشمن انہیں بخشے گا نہیں …… یہ عیش چند روزہ ہے لہٰذا قوم کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ بھی جلدی جلدی نچوڑ لو ''۔

سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسی متعدد قوموں کے نام لیے اور کہا …… ''وہ توسیع پسند تھے ۔ اُن کے سامنے اس کے سوا کوئی مقصد نہ تھا کہ ساری دنیا پر بادشاہی کریں اور دُنیا بھر کی دولت سمیٹ کر اپنے قدموں میں ڈھیر لگا لیں۔ انہوں نے دوسری قوموں کی عصمت دری کی اور اُن کی اپنی بیٹیاں اور بہنیں دوسروں کے ہاتھوں بے آبرو ہوئیں۔ ان قوموں کے حکمران پرائی زمین پر ہلاک ہوئے اور اُن کانام و نشان کس نے مٹایا؟ ان قوموں نے، جو غیرت مند تھیں اور جنہیں احساس تھا کہ اُن کی زمین کو اور اُن کی عصمت کو دشمن نے ناپاک کیا ہے اور اس کا انتقام لیناہے۔ ہم بھی حملہ آور ہیں ، صلیبی بھی حملہ آور ہیں لیکن ہم میں فرق ہے۔ وہ دور دراز ملکوں سے ہمارے مذہب کا نام و نشان مٹانے آئے ہیں ۔ وہ اس لیے آئے ہیں کہ مسلمان عورتوں کو اپنی گرفت میں لے کر ان کے بطن سے صلیبی پیدا کریں۔ ہم اُن کی آبرو کے دفاع کے لیے حملہ آور ہوئے ہیں ۔ اگر ہم کفر کے طوفان کونہ روکیں تو ہم بے غیرت ہیں اور ہم مسلمان نہیں اور اگر اسلام کا دفاع اس انداز سے کریں کہ دشمن کے انتظار میں گھر بیٹھے رہیں اور جب وہ حملہ آور ہو تو اپنے گھر میں اُس کے خلاف لڑیں اورپھر فخر سے کہیں کہ ہم نے دشمن کا حملہ پسپا کردیا ہے تو یہ ثبوت ہے ہماری بزدلی کا۔ دفاع کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن تمہیں مارنے کے لیے نیام سے تلوار نکالنے لگے توتمہاری تلوار اُس کی گردن کاٹ چکی ہو۔ وہ کل حملے کے لیے آنے والا ہو تو آج اُس پر حملہ کردو ''۔

''میرے پاس اس کا ایک ہی علاج ہے کہ محترم نورالدین زنگی سے کمک مانگی جائے''۔ علی بن سفیان نے کہا …… ''اور کرک پر حملہ کر دیا جائے ''۔

''یہ بھی نقصان دہ ہوگا ''……سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا …… ''زنگی کے پاس اتنی فوج موجود رہنی چاہیے کہ صلیبی اگر ہمارے عقب پر حملہ کریں تو زنگی اُن کے عقب پر حملہ کر سکے۔ میں مدد مانگنے کا قائل نہیں۔ اس کی بجائے میں یہ بھی کر سکتا ہوں کہ کرک میں چھاپہ مار دستے بھیج کر صلیبیوں کا جینا حرام کیے رکھوں ۔ مجھے اُمید ہے کہ ہمارے جاسوس چھاپہ مار صلیبیوں کی جڑیں چوہوں کی طرح کاٹتے رہیں گے مگر اس کی سزا وہاں کے بے گناہ مسلمان باشندوں کو ملے گی۔ چھاپہ مار تو اپنا کام کرکے اِدھر اُدھر ہوجائیں گے ۔ وہ ہر قسم کی سختی اور مصیبت جھیل سکتے ہیں ۔ ہمارے نہتے بہن بھائی کچلے جائیں گے ۔ البتہ اس تجویز پرغور کرو کہ وہاں سے مسلمان کنبوں کو نکالنے کا کوئی خفیہ انتظام کیا جائے۔ حملے میں کچھ وقت لگے گا۔ ہمیں خاصی بھرتی مل گئی ہے۔ کرک کے جوان بھی آگئے ہیں اور آرہے ہیں ''۔

٭ ٭ ٭

''میں محسوس کرنے لگا ہوں کہ ہمیں یہاںکے باشندوں کے متعلق اپنی پالیسی میں تبدیلی کرنے پڑے گی''۔ صلیبیوں کے محکمہ جاسوسی اور سراغرسانی کے سربراہ ہرمن نے کہا۔ قلعہ کرک میں چند ایک صلیبی بادشاہ، اُن کے فوجی کمانڈر اور انتظامیہ کے حکام جمع تھے۔ وہ جوںجوں اپنی ہاری ہوئی فوج کو دیکھ رہے تھے ، ان کی عقل پر غصہ اور انتقام غالب آتا جا رہاتھا۔وہ شکست کوبہت جلدی فتح میں بدلنا چاہتے تھے۔اُن میں ان کی انٹیلی جنس کا سربراہ ہرمن ، واحد آدمی تھا جو ٹھنڈے دِل سے سوچتا اور عقل کی بات کرتاتھا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے صلیبی بھائی کرک کے مسلمان باشندوں کے ساتھ کیسا وحشیانہ سلوک کر رہے ہیں۔ اس نے کہا …… ''آپ نے یہی سلوک شوبک کے مسلمانوں کے ساتھ روارکھا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ انہوں نے وہاں ''مسلمانوں کے کیمپ''سے اُس مسلمان فوجی کو بھگا دیا جسے ہم نے خطرنام جاسوس سمجھ کر قید میں ڈال دیا تھا ۔ مجھے یقین ہے کہ اُسے وہاں کے مسلمانوں نے پناہ دی تھی ۔ وہ قلعے کے اندرونی حالات اور دفاع کو دیکھ کر گیا تھا۔ اسکے علاوہ صلاح الدین ایوبی نے ہمارے قلعے کی دیوار جوتوڑی تھی، اس میں اند کے مسلمانوں کا بھی ہاتھ تھا۔ وہ آپ کے سلوک سے اس قدر تنگ آئے ہوئے تھے کہ انہوں نے جان کی بازی لگا کر مسلمان فوج کی مدد کی اور جب فوج کا ہر اوّل دستہ اندر آیا تو مسلمانوں نے اس کی رہنمائی کی ''۔

''اس لیے ہم کرک کے مسلمانوں کا دم خم توڑ رہے ہیں کہ اُن میں جذبہ اور ہمت ہی نہ رہے ''…… ایک صلیبی سالار نے کہا ۔

''اس کی بجائے اگر آپ انہیں اپنا دوست بنا لیں تو وہ آپ کی مدد کریں گے ''۔ ہرمن نے کہا …… ''اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں پیار اور محبت سے انہیں اُن کا مذہب تبدیل کیے بغیر صلیب کا گرویدہ بنالوں گا۔ میں انہیں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑادوں گا''۔

''تم بھول رہے ہو ہرمن!''ایک مشہور صلیبی بادشاہ ریمانڈ نے کہا …… ''تم چند ایک مسلمانوں کو لالچ دے کر انہیں غدار بنا سکتے ہو، مگر ہرایک مسلمان کو اسلامی فوج کے خلاف نہیں کر سکتے۔ پوری قوم غدار نہیں ہوسکتی۔ ہرمن! تم ان لوگوں پر اتنا بھروسہ نہ کرو، ہم انہیں دوست نہیں بنانا چاہتے۔ ہم ان کی نسل ختم کر نا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی غیرمسلم کسی مسلمان کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسلام سے محبت کرتا ہے ،جبکہ ہمارا مقصد اسلام کا خاتمہ ہے۔ کرک میں، یروشلم میں، عقہ اور عدیسہ میں جہاں بھی صلیب کی حکمران یہے ، مسلمانوں کو اس قدر پریشان کرو کہ وہ مر جائیں یا وہ صلیب کے آگے گھٹنے ٹیک دیں ''۔

''مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ صلاح الدین ایوبی کو باقاعدہ معلوم ہوتا جارہا ہے۔ ''ہرمن نے کہا …… ''آپ اسے اُکسا رہے ہیں کہ وہ کرک پر جلدی حملہ کرے۔ آپ یہ بھول رہے ہیں کہ ہماری فوج فوری حملے کے آگے ٹھہرنے کے قابل نہیں ''۔

''اس کا حل یہ نہیں کہ ہم مسلمان باشندوں کو سر پر بٹھالیں ''۔ فلپ آگسٹس نے کہا …… ''آپ لوگ مسلمان جنگی قیدیوں کو ابھی تک پال رہے ہیں۔ انہیں قتل کیوں نہیں کردیتے؟''

''اس لیے کہ ایوبی ہمارے قیدیوں کو قتل کردے گا''۔ گے آف لوزینان نے جواب دیا …… ''ہمارے پاس مسلمانوں کے کل تین سواِکسٹھ جنگی قیدی ہیں۔ مسلمانوں کے پاس ہمارے بارہ سو پچہتر قیدی ہیں''۔

''کیاہم ایک مسلمان کو مارنے کے لیے چار صلیبی نہیں مروا سکتے؟'' …… آگسٹس نے کہا …… ''ہمارے وہ قیدی جو صلاح الدین ایوبی کے پاس ہیں، بزدل تھے، وہ لڑنے کی بجائے قید ہوئے۔ وہ زندہ رہنا چاہتے تھے۔ وہ مسلمانوں کے ہاتھوں مرجائیں تو اچھا ہے، تم اطمینان سے مسلمان قیدیوں کو ختم کردو''۔

''کیا مسلمان باشندوں کے ساتھ درنوں جیسا سلوک کرکے اور مسلمان جنگی قیدیوں کو قتل کرکے تم صلاح الدین ایوبی کو شکست دے دو گے؟'' سالار کے عہدے کے ایک صلیبی نے کہا …… ''اس قوت فوج کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی اگر پیش قدمی کر آیا تو اُسے کس طرح روکیں گے اور اُسے شوبک کا قلعہ واپس کس طرح لیا جاسکتا ہے۔ کرک کے تمام مسلمانوں کو قتل کردو۔ پھر کیا ہوگا ؟ صلاح الدین ایوبی کی طرح تم اپنی نظر میں وسعت پیدا کیوں نہیں کرتے۔ کیا ہرمن بتا سکتا ہے کہ مصرمیں اس زمین دوزکاروائیاں کیا ہیں اور کامیابی کتنی ہے؟''

''توقع سے زیادہ''۔ہرمن نے جواب دیا۔ ''علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ شوبک میں ہے۔ میں نے قاہرہ میں اس کی غیرحاضری سے بہت فائدہ اُٹھایا ہے۔ قاہرہ کے نائب ناظم مصلح الدین کو فاطمیوں نے اپنے ساتھ ملالیا ہے۔ مصلح الدین ایوبی کا معتمد خاص ہے، لیکن اب ہمارے ہاتھ میںہے۔ فاطمیوں نے در پردہ اپنا ایک خلیفہ مقرر کردیا ہے۔ وہ قاہرہ کے اندر سے بغاوت اور سوڈانیوں کے حملے کا انتظار کرہے ہیں۔ ہمارے فوجی افسر سوڈان کی فوج تیارکرہے ہیں۔ قاہرہ میں صلاح الدین ایوبی جو فوج چھوڑ آیا ہے، اس کے دو نائب سالار ہمارے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں، اُدھر سے سوڈانی فوج حملہ کریںگے۔ قاہرہ میں بغاوت ہوگی اور فاطمی اپنی خلافت کا اعلان کردیں گے''۔

''مجھے سو فیصد اُمید ہے کہ قاہرہ میں جواس کی فوج ہے ، وہ اس کے کام نہیں آسکے گی ''۔ ہرمن نے کہا …… ''میرے آدمیوں نے فوج میں اس قسم کے شکوک پیدا کر دئیے ہیں کہ انہیں قاہرہ میں پیچھے چھوڑ کر مالِ غنیمت سے محروم کر دیا گیا ہے اور یہ بھی شوبک کی سینکڑوں عیسائی لڑکیاں صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ آئی ہیں جو اُس نے وہاں فوج کے حوالے کردی ہیں۔ میری کامیابی یہ ہے کہ میں نے مسلمان فوجی حکام کے ہی منہ میں یہ افواہیں ڈال کر اُن کی فوج میں پھیلائی ہیں۔ میں نے ایسے حالات پیدا کر دئیے ہیں کہ قاہرہ کی تمام فوج سوڈانیوں کا ساتھ دے گی اور صلاح الدین ایوبی کو بغاوت کرو کرنے کے لیے یہاں سے تمام فوج لے جانی پڑے گی ، مگر یہ فوج اُس وقت وہاں پہنچے گی جب قاہرہ ایک بار پھر فاطمی خلافت کی گدی بن چکا ہوگا اور وہاں سوڈان کی فوج قابض ہوگی۔ ضروری نہیں کہ ہم یہاں صلاح الدین ایوبی پر حملہ کریں اور اُسے روکیں ۔ ہم اُسے بھٹکنے کے لیے کھلا چھوڑ دیں گے۔ ہم اُسے مسلمانوں کے ہاتھوں مروائیں گے''۔ ہرمن نے زور دے کر کہا…… ''آپ ابھی تک مسلمان کی نفسیات نہیں سمجھ سکے۔ یہی وجہ کہ آپ میری بعض کارگر باتیں نظر انداز کردیتے ہیں ۔ مسلمان اگر فوجی ہو اور اس کے دماغ میں ٹریننگ کے دوران یہ بٹھا دیا جائے کہ وہ ملک اور قوم کا محافظ ہے تو وہ ملک اور قوم کی خاطر جان قربان کر دیتا ہے۔ دُنیا کی بادشاہی اس کے قدموں رکھ دو، وہ سپاہی رہنا پسند کرے گا، قوم سے غداری نہیں کرے گا ۔ اگر اسی فوجی میں جنسی لذت، شراب نوشی اور عہدوں کی خواہش پیدا کردو تو وہ اپنا مذہب بھی دائو پر لگا دیتا ہے۔ ہم نے جن مسلمان فوجی حکام کو اپنے ساتھ ملایا ہے ، اُن میں یہی خامیاں پیدا کی تھیں اور کر رہے ہیں ''……

''مگر فوجی کو غدار بنانا آسان نہیں جتنا انتظامیہ کے حکام کو اپنے ہاتھ میں لینا آسان ہے''۔ ہرمن نے کہا …… ''انتظامیہ کے ہر حاکم میں امراء اور وزراء کی صف میں آنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ اگ لوگوں پر بادشاہ بننے کا خبط سوار ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ دیکھیں۔ اس کے رسول )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے بعد یہ لوگ خلافت پر ایک دوسرے سے لڑتے رہے۔ ان کے جرنیلوں نے نہایت دیانت داری سے اپنا کام جاری رکھا۔ وہ دوسرے ملکوں کو تہ تیغ کرتے رہے اور اسلامی سلطنت کو وسیع کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن اُن کے خلیفوں نے جہاں دیکھا کہ فلاح جرنیل ایسا مقبول ہوگیا ہے کہ اس کف فتوحات کی بدولت اُسے قوم خلیفہ سے زیادہ مقام دینے لگی ہے تو خلیفہ اور اُس کے حواریوں نے جرنیل کو غلط احکام دے کر اُسے ذلیل اور رُسوا کردیا۔ خود خلیفہ کی گدی مخالفین سے محفوظ نہ رہی ۔ مخالفین کی نگاہ اسلامی سلطنت کی وسعت سے ہٹ کر خلاف کے حصول پر مرکوز ہوگئی۔ جرنیل ہارتے چلے گئے۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم عرب میں بیٹھے ہیں ۔ صلاح الدین ایوبی انہیں جرنیلوں میں سے ہے جو سلطنت کو اُنہی سرحدوں تک لے جانا چاہتا ہے جہاں یہ پہلے جرنیلوں نے پہنچائی تھیں۔ اس شخص میں خوبی یہ ہے کہ انتظامیہ اور خلافت کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس نے مصر کی خلافت کو اپنے ارادوں کے سامنے رکاوٹ بنتے دیکھا تو خلیفہ کو ہی معزول کردیا۔ یہ دلیرانہ قدم اس نے فوجی طاقت اور اپنی فہم و فراست کے بل بوتے پر اُٹھایا تھا''۔

ہرمن بولتا جا رہا تھا۔ تمام حکمران اور صلیبی کمانڈر انہماک سے سُن رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا …… ''صلاح الدین ایوبی اپنی قوم کی اس کمزوری کو سمجھ گیا ہے کہ غیر فوجی قیادت گدی کی خواہش مند ہے اور یہ خواہش ایسی ہے کہ جوزن اور زرپرستی اور شراب نوشی جیسی عادتیں پیدا کرتی ہے۔ ہم نے صر اُن فوجی افسروں کو ہاتھ میں لیا ہے جو اقتدار کے خواہش مند ہیں۔ اسی لیے ہم زیادہ تر اثر انتظامیہ کے سربراہوں پر ڈال رہے ہیں ۔ فوج کو کمزور کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے لوگوں کی نظروں میں رسوا کردیا جائے۔ یہ کام میرا ہے جو میں کر رہا ہوں۔ آپ شاید میری تائید نہ کریں ، لیکن میں آپ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ آپ صلاح الدین ایوبی کو میدانِ جنگ میں آسانی سے شکست نہیں دے سکتے۔ وہ صرف لڑنے کے لیے نہیں لڑتا۔ اس کے عزم کی بنیاد ایک ایسے منصوبے پر ہے جسے اس کی ساری فوج سمجھتی ہے۔ اس کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے خلیفہ سے یا غیر فوجی قیادت سے حکم نہیں لیتا۔ وہ کٹر مسلمان ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ میں خدا اور قرآن پاک سے حکم لیتا ہوں۔ میرے جو جاسوس بغداد میں ہیں، انہوں نے اطلاع دی ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے نورالدین زنگی کو ساتھ ملاکر یہاں سے انقلابی تجاویز بھیجی ہیں جن پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ ایک یہ ہے کہ امیر العلماء سے یہ فتویٰ صادر کرایا گیا ہے کہ خلافت صرف ایک ہی ہوگی اور یہ بغداد کی خلافت ہوگی۔ یہ خلافت دوسرے ممالک کے متعلق احکام نافذ کرنے اور سمجھوتوں کی بات چیت کرنے سے پہلے اعلیٰ فوجی قیادت سے منظوری لے گی۔ جنگی امور فوجی حکام کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ خلیفہ دور دراز علاقوں میں لڑنے والے جرنیلوں کو کوئی حکم نہیں بھیج سکتا۔ تیسرے یہ کہ خلیفہ کا نام خطبے میں نہیں لیا جائے گا اور خلافت کا اثرورسوخ ختم کرنے کے لیے صلاح الدین ایوبی نے حکم جاری کرادیا ہے کہ خلیفہ یا اس کے نائب یا کوئی قلعہ دار وغیرہ جب دورے وغیرہ کے لیے باہر نکلیں گے تو لوگوں کو راستے میں کھڑے ہونے، نعرے لگانے اور سلام کرنے کی اجازت نہیں ہوگی''۔

''صلاح الدین ایوبی نے سب سے اہم کام یہ کیا ہے کہ ''سُنی شیعہ تفرقہ مٹا دیا ہے''۔'ہرمن نے کہا …… ''اُس نے شیعوں کو فوج اور انتظامیہ میں پوری نمائندگی دے دی ہے اور نہایت پُر اثر طریقوں سے شیعہ علماء کو قائل کر لیا ہے کہ وہ ایسی رسمیں ترک کردیں جو اسلام کے منافی ہیں ''…… صلاح الدین ایوبی کے یہ انقلابی اقدامات ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔ ہم مسلمانوں کی انہی خامیوں کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے جو دراصل جاری ہے کہ مسلمانوں کی انتظامی قیادت کو صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کے خلاف کیا جائے ''۔

''صرف آج نہیں، ہمیشہ کے لیے ''۔ فلپ آگسٹس جو مسلمانوں کا کٹر دشمن تھا بولا ۔ ''ہماری عداوت صرف صلاح الدین ایوبی سے نہیں ۔ ہماری جنگ اسلام کے خلاف ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ایوبی مرجائے تو یہ قوم کوئی دوسرا ایوبی پیدا نہ کرسکے ۔ اس قوم کو عقیدوں، غلط او بے بنیاد عقیدوں کے ہتھیاروں سے مارو۔ ان میں بادشاہ بننے کا جنون طاری کردو۔ انہیں عیاش بنادو اور ایسی روایات پیدا کردو کہ یہ لوگ خلافت کی گدی پر آپس میں لڑتے رہیں، پھر اس خلافت کو اس کی فوج پر سوار کردو۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ قوم ایک نہ ایک دن صلیب کی غلافم ہوجائے گی۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی)اس کا تمدن اور اس کا مذہب صلیب کے رنگ میں رنگا ہوا ہوگا۔ وہ بادشاہی اور خلافت کے حصول کے لیے آپس میں دست و گریباں ہوں گے اور اپنے مخالفین کو دبانے کے لیے ہم سے پناہ مانگیں گے۔ اُس وقت ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہ ہوگا۔ ہماری روحیں دیکھیں گی کہ میں نے جو پیشین گوئی کہ ہے ، وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے۔ اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے یہودی تمہیں اپنی لڑکیاں پیش کر رہے ہیں ، انہیں استعمال کرو۔ یہودیوں کو اس لیے اپنا دشمن سمجھو کہ وہ یروشلم کو اپنا مقدس شہر اور فلسطین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ انہیں کہو کہ فلسطین تمہارا ہے۔ آخر میںیہ خطہ ہم تم کو ہی دیں گے ، ابھی ہمارا ساتھ دو ، لیکن یہ احتیاط ضرور کرنا کہ یہودی بہت چالاک قوم ہے۔ اُسے جب تمہاری طرف سے خطرہ نظر آیا تو تمہارے ہی خلاف ہوجائے گی۔ اس کی دولت اور اس کی لڑکیاں استعمال کرو اور اس کے عوض انہیں فلسطین پیش کرو''۔

٭ ٭ ٭

قلعہ شوبک اور قلعہ کرک بے بہت دور ایک ویسا وسیع خطہ تھا جو مٹی، ریت اور سِلوں کی پہاڑیوں اور اونچی نیچی چٹانوں میں گھرا ہوا تھا ۔ یہ خطہ کم و بیش ڈیڑھ ایک میل وسیع اور چوڑا تھا ۔ اس میں بہت سا علاقہ ریتلا میدانی تھا اور اس میں کھڈ بھی تھے اور کم اونچی ٹیکریاں بھی۔ جب صلیبی حکمران اور کمانڈر اسلام کے بیخ کنی کے منصوبے بنا رہے تھے اور نہایت پُر کشش اور خطرناک طریقے وضع کر رہے تھے، صحرا کا یہ خطہ میدانِ جنگ بنا ہوا تھا۔ ہزاروں پیادہ عسکری، گھوڑ سوار اور شتر سوار بھاگ دوڑ رہے تھے۔ تلواریں اور پرچھیوں کی انیاں چمک رہی تھیں۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ سے گرد گہرے بادلوں کی طرح آسمان کی طر ف اُٹھ رہی تھی ۔ اس گرد میں برچھیاں بھی اُڑ رہی تھیں ، تیر بھی۔ پیادہ سپاہی گھوڑوں سے آگے نکل جانے کی رفتار سے دوڑنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ایک پہاڑی کے دامن میں آگ کے شعلے اُڑتے او پہاڑی سے ٹکڑا کر بھڑکتے اور بجھ جاتے تھے۔ شوروغل آسمان کو ہلا رہا تھا ۔ ایک پہاڑی کے دامن میں آگ کے شعلے اُڑتے اور پہاڑی سے ٹکڑا کر بھڑکتے اور بجھ جاتے تھے۔ شوروغل آسمان کو ہلا رہا تھا۔

صلاح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار ایک بلند چٹان پر کھڑا یہ نظارہ انہماک سے دیکھ رہا تھا ۔ وہ بہت دیر سے اس میدان کے اردگرد چٹانوں پر گھوم رہا تھا۔ اس کے اس کے دو نائب تھے۔

''میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ جس رفتار سے سکھلائی ہو رہی ہے۔ نئے سپاہی چند دنوں میں تجربہ کار ہو جائیں گے ''۔ ایک نائب نے کہا ۔ ''آپ نے جن سواروں کو وہ اتنا چوڑا کھڈ پھلانگتے ہوئے دیکھا تھا ، وہ سب کرک سے آئے ہوئے سوار ہیں۔ میں انہیں اناڑی سمجھتا تھا، تیر اندازوں کا معیار بھی اچھا ہو رہاہے''۔

میدانِ جنگ کا یہ منظر دراصل ٹریننگ تھی ، جس کے متعلق صلاح الدین ایوبی نے بڑے سخت احکامات جاری کیے تھے۔ اردگرد سے بہت سے جوان فوج میں بھرتی کیے گئے تھے اور کرک سے بھی بہت سے مسلمان چوری چھپے نکل آئے تھے۔ یہ سلطان ایوبی کے جاسوسوں کا کمال تھا کہ کرک سے بھی جوان حاصل کر لیے تھے۔ شوبک کے وہ مسلمان جنہوں نے صلیبیوں کا ظلم و تشدد برداشت کیا تھا، جوش و خروش سے صلاح الدین ایوبی کی فو میں شامل ہوئے تھے۔ ان کی ٹریننگ کا انتظام وہیں کر دیا گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس میں ذاتی دلچسپی لے رہا تھا۔ اُسے اُس کے نائب یقین دلا رہے تھے کہ وہ نئی بھرتی کو تھوڑے سے عرصے میں پختہ کار بنادیں گے۔

''سپاہی صرف ہتھیاروں کے استعمال اور جسمانی پھرتی سے تجربہ کار نہیں بن سکتا''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ''عقل اور جذبے کا استعمال ضروری ہے۔ مجھے ایسی فوج کی ضرورت نہیں جو اندھا دُھند دشمن پر چڑھ دوڑے اور صرف ہلاک کرے۔ مجھے ایسی فوج چاہیے ، جسے معلوم ہو کہ اس کا دشمن کون ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں ؟ میری فوج کو علم ہونا چاہیے کہ یہ خدا کی فوج ہے اور خدا کی راہ میں لڑ رہی ہے۔ جوش و خروش ، جو میں دیکھ رہا ہوں ، بہت ضروری ہے مگر مقصد واضح نہ ہو ، اپنی حیثیت واضح نہ ہو تو یہ جو ش جلدی ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ انہیں بتائواور ذہن نشین کرائوکہ ہم فلسطین کیوں لینا چاہتے ہیں۔ انہیں بتائو کہ غداری کتنا بڑا جرم ہے۔ انہیں سمجھائو کہ تم صرف فلسطین کے لیے نہیں ، بلکہ اسلام کے تحفظ اور فروغ کے لیے لڑ رہے ہو اور تم آنے والی نسلوں کے وقار کے لیے لڑ رہے ہو۔ عملی سکھلائی کے بعد انہیں وعظ دو اور ان پر ان کی قومت واضح کرو ''۔

''انہیں ہر شام وعظ دئیے جاتے ہیں ، سالارِ اعظم!'' ایک نائب نے کہا …… ''ہم انہیں صرف درندے اور وحشی نہیں بنا رہے''۔

''اور یہ خیال رکھو کہ ان کے دلوں میں قوم کی وہ بیٹیاں نقش کردو جو کفار کے ہاتھوں اغوا اور بے آبرو ہوئی ہیں اور ہو رہی ہیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ''انہیں قرآن پاک کے وہ ورق یاد دلاتے رہنا ، جنہیں صلیبیوں نے پائوں تلے مسلا تھا اور انہیں وہ مسجدیں یاد دلاتے رہنا، جن میں کفار نے گھوڑے اور مویشی باندھے تھے اور باندھ رہے ہیں۔ بیٹی کی عزت اور مسجد کا احترام مسلمان کی عظمت کے نشان ہوتے ہیں ۔ انہیں بتائو کہ جس روز تم عصمت اور مسجدکو ذہن سے اُتار دو گے ، اُس روز تم اپنے لیے اس دُنیا کو جہنم بنالوگے اور آخرت میں جو عذاب ہے اس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے ''۔

پہاڑیوں پر جو دو دو چار چار سپاہی گھوم پھر رہے تھے ، وہ پہرہ دار تھے۔ صلیبیوں کے جوابی حملے کا خطرہ موجود تھا ۔ دور آگے تک فوج موجود تھی ، پھر بھی ٹریننگ کے اس علاقے کے گرد پہرے کی ضرورت تھی۔ ان پہرہ داروں میں سے دو ایک چوٹی پر جارہے تھے ، وہ رُک گئے ۔ انہیں نیچے ایک ٹیکری پر صلاح الدین ایوبی کھڑا نظر آرہا تھا۔ اُن کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ فاصلہ دو اڑھائی سو گز تھا۔ ایک پہرہ دار نے کہا …… ''کم بخت کی پوری پیٹھ ہمارے سامنے ہے، اگر یہا ں سے تیر چلائوں تو اس کے دل کے پار کر سکتا ہوں ۔ کیا خیا ل ہے؟''

''پھر بھاگ کر کہاں جائو گے؟'' اس کے ساتھی نے پوچھا۔

''ہاں!'' دوسرے نے کہا …… ''تم ٹھیک کہتے ہو۔ اگر یہ لوگ ہمیں پکڑ کر جان سے مار ڈالیں توبات نہیں۔ وہ زندہ پکڑ کر ایسے شکنجے میں جکڑیں گے کہ ہمیں اپنے تمام ساتھیوں کے نام بتانے پڑیں گے''۔

''یہ کام اس کے محافظوں کو کرنے دو''۔ اس کے ساتھی نے کہا …… ''اگر صلاح الدین ایوبی کوقتل کرنا اتنا آسان ہوتا تو یہ اب تک زندہ نہ ہوتا''۔

''یہ کام اب ہوجانا چاہیے''۔ دوسرے نے کہا …… ''سنا ہے فاطمی کہتے ہیں کہ تم کچھ کیے بغیر ہم سے منہ مانگی رقم لیتے جا رہے ہو''۔

''مجھے اُمید ہے کہ یہ کام جلدی ہوجائے گا''۔ اس کے ساتھی نے کہا …… ''سنا تھا کہ حشیشین بہت دلیر ہیں۔ قتل کرنے کے لیے جان پر کھیل جاتے ہیں۔ ابھی تک انہوں نے کچھ کرکے تونہیں دکھایا۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایوبی کے محافظ دستے میں تین حشیشین ہیں۔ یہ تو ان کا کمال ہے کہ محافظ دستے تک پہنچ گئے ہیں اور کسی کو اُن کی اصلیت کا علم نہیں ہوا، مگر وہ قتل کب کریں گے؟ کم بخت ڈرتے ہیں''۔

وہ باتیں کرتے آگے چلے گئے ۔

٭ ٭ ٭
 مؤرخین لکھتے ہیں کہ مصر سے صلاح الدین ایوبی کی غیر حاضری سے وہاں مخالفین کی زمین دوز سرگرمیاں اُبھر آئیں تو صورتِ حال ایسی پیدا کر دی گئی جسے صرف معجزہ سنبھال سکتا تھا۔یہ ایک سازش تھی جو فاطمی خلافت کو معزول اور تخریب کاروں کی گرفتاری کے بعد بظاہر دب گئی تھی، لیکن راکھ میں دبی ہوئی چنگاری کی طرح دہکتی رہتی تھی۔ اس کی پشت پناہی کرنے والے صلیبی تھی اور اسے عملی جامہ پہنانے والے وہ مسلمان زُعما تھے جن پر سلطان ایوبی کو بھروسہ تھا۔ صلیبیوں نے یہودی لڑکیاں حاصل کر لی تھیں جو عرب اور مصر کی زبان روانی سے بولتی اور اپنے آپ کو ہر رنگ میں ڈھال سکتی تھیں ۔ مصر کی انتظامیہ کے متعدد احکام اقتدار میں حصے یا کُلی طور پر خود مختاری کے خواہش مند تھے۔ ان میں قومی وقار اور جذبہ ختم ہو چکا تھا۔ وہ حرموں کے بادشاہ تھے۔ ان لوگوں کا آلہ کار بنانے والوں میں فاطمیوں نے دانش مندی کا ثبوت دیا اور انہوں نے حسن بن صباح کے حشیشین کی خدمات بھی حاصل کرلیں۔

اُس وقت کے وقائع نگاروں نے جن میں اسد الا سدی، ابن الاثیر، ابی الضر اور ابن الجوزی خاص طور پر قابل ذکر ہیں ، لکھتے ہیں کہ صلیبیوں نے سوڈانیوں کو مدد دے کر انہیں مصر پر حملے کے لیے تیار کر لیا تھا۔ مصر میں تھوڑی سی فوج تھی ، وہ بغاوت کے لیے تیارکردی گئی تھی۔ صلاح الدین ایوبی کے حامی سخت پریشان تھے کہ وہ قبل از وقت نہ پہنچا تو مصر ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ ان وقائع نگاروں اور دو گمنام کاتبوں کی غیر مطبوعہ تحریروں سے ایک کہانی کی کڑیاں ملتی ہیں ۔ ان میں قاہرہ کے محکمہ مالیات کے ایک بڑے ناظم خضر الحیات کا ذکر ملتاہے۔ وہ خزانے کا بھی ذمہ دار تھا ۔ دوسرے علاقوں کی جزئیے اور تاوان وغیرہ کی رقمیں ، زکوٰة، سزا کے طور پر وصول ہونے والے جرمانے، عطیات اور نظامتِ مصر کا تمام تر حساب کتاب اور پیسہ مالیات کے محکمے میں آتا اور خرچ ہوتا تھا۔ یہ بڑا ہی اہم اور نازک محکمہ تھا۔ اس کے ناظم کا قابل اعتماد ہوتا بہت ضروری تھا۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی خوش نصیبی تھی کہ ناظم خضر الحیات دیندار مسلمان تھا۔

ایک رات وہ باہر سے آیا۔ گھرمیں داخل ہوا تو اندھیرے کو چیرتا ہوا ایک تیر آیا جو خضر الحیات کی پیٹھ میں اُترا اور دل تک پہنچا۔ اُس کی کربناک آواز سن کر ملازم باہر آیا، پھر گھرکے افراد باہر آئے۔ مشعل کی روشنی میں خضر کو اوندھے منہ پڑے دیکھا۔ اتفاق سے کسی نے دیکھ لیا کہ خضر کے دائیں ہاتھ کی انگلی زمین پر تھی اور مٹی پر اس انگلی سے اس نے کچھ لکھا تھا ، وہ مر چکا تھا ۔ زمین پر اس نے انگلی سے لکھا تھا …… ''مصلح ''……''ح'' پوری نہیں ہوتی تھی۔ اس حرف کی گولائی کے نصف میں جا ن نکل گئی تھی ۔ لا ش اُٹھا لی گئی اور اس لفظ کو محفوظ رکھا گیا ۔ ایک آدمی کو کوتوال غیاث بلبیس کو بلانے دوڑادیا گیا۔ یہی کہا جا سکتا تھا کہ خضر نے مرتے مرتے مٹی پر اپنے قاتل کا نام لکھا ہے۔ غیاث بلبیس کوتوال بھی تھا اور مصر کی تمام تر پولیس کا حاکم اعلیٰ بھی ۔ یہ بھی صلاح الدین ایوبی کا قابل اعتماد حاکم تھا۔ علی بن سفیان کی طرح شہری جرائم کا ماہر سراغرساں تھا۔

بلبیس نے آتے ہی زمین لکھے ہوئے لفظ ''مصلح'' کو غور سے دیکھا۔ اتنے میں شہر کا نائب ناظم مصلح الدین خضر کے قتل کی خبر سن کر آگیا۔ بلبیس نے اُسے دیکھتے ہی زمین پر پائوں رگڑ کر ''مصلح'' کا لفظ مٹادیا۔ مصلح الدین چونکہ شہر کا نائب تھا۔ اس لیے کوتوالی کا محکمہ اس کے ماتحت تھا۔ اس نے بلبیس کو حکم کے لہجے میں کہا …… ''قاتل کا سراغ صبح سے پہلے مل جانا چاہیے۔ میں زیادہ انتظار نہیں کروں گا''…… بلبیس نے اُسے یقین دلایا کہ قاتل کو جلدی پکڑ لیا جائے گا۔ وہ وہاں سے چلا گیا ۔ رات کو ہی بلبیس نے خضر الحیات کے نائب معاون اور اس کے دفتر میں اُن افراد کو بلا لیا جو مقتول کے قریب رہتے تھے اور بتا سکتے تھے کہ قتل کے روز ان کی سرگرمیاں کیا رہیں۔ اِن لوگوں سے اُسے پتا چلا کہ آج شہری انتظامیہ کے حکامِ اعلیٰ کا ایک اجلاس تھا جس میں فوج کا کوئی نمائندہ نہیں تھا۔ خضر کا نائب اس کی مدد کے لیے اجلاس میں شریک تھا۔ اجلاس میں مالیات کے سلسلے میں فوج کے اخراجات زیربحث آئے تو خضر نے کہا کہ مصر میں بعض اخراجات روکنے پڑیں گے ، کیونکہ امیر مصر صلاح الدین ایوبی نے شوبک میں بہت سی فوج بھرتی کی ہے جس کے لیے کثیر رقم کی ضرورت ہے۔

نائب ناظم مصلح الدین نے اس کی مخالفت کی اورکہا فوج کے اخراجات غیر ضروری ہیں۔ مزید فوج بھرتی کرنے کی بجائے ہمیں توجہ اس فوج کے مسائل کی طرف دینی چاہیے جو پہلے ہی ہمارے لیے ایک مہنگا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اُس نے بتایا کہ مصر میں جو فوج ہے ، اس میں بے اطمینانی اور بدامنی پائی جاتی ہے۔ شوبک سے جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا ہے، اس میں سے اس فوج کے لیے کوئی حصہ نہیں بھیجا گیا ۔ خضر الحیات نے کہا …… ''کیا آپ کو معلوم نہیں کہ امیر مصر نے مالِ غنیمت تقسیم کرنے کی بدعت ختم کردی ہے؟ یہ نہایت اچھا فیصلہ ہے ۔ مالِ غنیمت کے لالچ سے لڑنے والی فوج کا کوئی قومی جذبہ اور مذہبی نظریہ نہیں ہوتا''۔

اس مسئلے پر بحث ترش کلامی میں بدل گئی ۔ مصلح الدین نے یہاں تک کہہ دیا کہ امیر مصر مصری سپاہیوں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک نہیں کر رہا، جتنا شامی اور ترک سپاہیوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اُس نے غصے میں کچھ اور نادرا باتیں کہہ دیں ، جن کے جواب میں خضر نے کہا …… ''مصلح! تمہاری زبان سے صلیبی اور فاطمی بول رہے ہیں '' …… اس پر اجلاس نے ہنگامے کی صورت اختیار کر لی اور برخاست ہوگیا۔ خضرالحیات نے معاون اور نائب نے بتایا کہ اجلاس کے بعد مصلح الدین خضرالحیات کے دفتر میں آیا ، وہاں پھر ان میں گرما گرمی ہوئی۔ مصلح الدین خضر کواس پر قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ مصری فوج مطمئن نہیں ۔ اُس نے پھر وہی باتیں دہرائیں جو اس نے اجلاس میں کہی تھیں۔ خضرالحیات نے کہا …… ''اگر ایسا ہی ہے تو میں یہ مسئلہ تمہاری طرف سے امیر مصر کے آگے رکھ دوںگا، لیکن میں یہ ضرور لکھوں گا کہ تم نے اجلاس میں تمام شرکاء کو یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ امیر مصر مصری فوج میں امتیازی سلوک کر رہا ہے اور یہ میں یہ بھی لکھوں گا کہ تم نے ہمیں یہ یقین دلانے کی بھی کوشش کی کہ صلاح الدین ایوبی نے شوبک کا مال غنیمت شامیوں اور ترکوں میں تقسیم کر دیا ہے اور میں یہ را ئے ضرور دوں گا تم نے جو الزامات عائد کیے ہیں ، انہیں سچ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور فوج میں جو افواہیں دشمن پھیلا رہاہے ، ان کے متعلق تم نے کہا ہے کہ یہ افواہیں نہیں ، بلکہ سچ ہے ''۔

خضرالحیات کے نائب نے بیان دیا کہ مصلح الدین جب خضر کے کمرے سے نکلا تو اس کے منہ سے یہ الفاظ سنے گئے تھے …… ''اگر تم زندہ رہے تو سب کچھ لکھ کر صلاح الدین ایوبی کے آگے رکھ دینا''۔

غیاث بلبیس نے فوری طور پر مصلح الدین سے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ ایک تو اس کی حیثیت بہت اونچی تھی اور دوسرے یہ کہ بلبیس اس کے خلاف مزید شہادت جمع کرنا چاہتا تھا۔ اسے ڈر یہ تھا کہ اگر اس نے مصلح الدین پر بغیر ٹھوس شہادت کے ہاتھ ڈالا تو یہ اقدام اس کے اپنے لیے مصیبت بن جائے گا، اگر صلاح الدین ایوبی قاہرہ میں موجود ہوتا تو بلبیس اس کی پشت پناہی حاصل کرلیتا۔ وہ اتنا سمجھ گیا تھا کہ یہ قتل ذاتی رنجش کا نتیجہ نہیں۔ خضر الحیات ذاتی رنجش رکھنے والا حاکم نہیں تھا۔ رات کو اس نے چند ایک لوگوں کے دروازے کھٹکھٹائے اور تفتیش میں لگا رہا۔ اپنے خفیہ آدمیوں کو بھی سرگرم کر دیا ، لیکن اُسے کوئی کامیابی نہ ہوئی۔
٭ ٭ ٭
جاری ھے ، (صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
 " قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی")، شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

داستان ایمان فروشوں کی


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.28۔" جب ایونا عائشہ بنی"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ''اَیونا!''۔ عماد نے لڑکی سے کہا …… ''اپنی مقدس صلیب کے پرستاروں کی کرتوت سن رہی ہو؟''
 اَیونا نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ چھت کو دیکھنے لگی۔ اُس نے کمرے کے دروازے کے ایک کواڑ کو بند کیا اور اس کی اُلٹی طرف دیکھنے لگی۔ کواڑ پر تین چار چھوٹی چھوٹی اور گہری لکیریں کھدی ہوئی تھیں۔ وہ بیٹھ کر ان لکیروں کو بڑی غور سے دیکھنے لگی۔ عماد اسے دیکھ رہا تھا۔ اَیونا لکیروں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی) وہ اُٹھی اور دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔وہاں بھی کواڑوں پر ہاتھ پھیر کر کچھ ڈھونڈنے لگی۔ عماد نے جاکر اس سے پوچھا…… ''کیادیکھ رہی ہو؟''
 لڑکی مُسکرائی اور بولی …… ''تمہاری طرح میں بھی اپنا بچپن ڈھونڈ رہی ہوں''۔ اس نے عماد سے پوچھا …… ''یہ تمہارا گھر تھا ؟ تم یہیں سے بھاگے تھے؟''
 ''یہیں سے''۔ عماد نے جواب دیا اور اسے سنا دیا کہ کس طرح اُن کے گھر پر عیسائیوں نے حملہ کیا اور اس کی ماں اور بڑھے بھائی کو قتل کر دیاتھا۔ عماد بھاگ گیا اور وہ آج تک یہ سمجھتا رہا کہ اس کا باپ بھی قتل ہوگیا ہے لیکن یہ بوڑھا بتارہا ہے کہ باپ کیمپ میں زندہ ہے۔
 ''تم نے اس بوڑھے کو بتادیا ہے کہ وہ لڑکے تم ہی ہو جسے اس نے پناہ دی تھی؟''
''میں بتانا نہیں چاہتا''۔اس نے تذبذب کے عالم میں کہا ۔
 اَیونا اُسے بڑی غور سے دیکھنے لگی اور بوڑھا ان دونوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ دونوں یہاں کیا دیکھ رہے ہیں ۔ عماد بچپن کی یادوں میں گم ہوگیا تھا ۔ بوڑھے نے پوچھا …… ''میرے لیے کیا حکم ہے ؟''
 عماد چونکا اور حکم دینے کے لہجے میں بولا …… ''اس مکان کو اپنی نگرانی میں رکھیں۔ یہ آپ کی تحویل میں ہے ''۔اس نے اَیونا سے کہا …… ''آئو چلیں ''۔
''کیا تم اپنے باپ سے نہیں ملو گے؟'' ۔ ایونا نے اس سے پوچھا۔
 ''پہلے اپنا فرض ادا کرلوں''۔ عماد نے جواب دیا …… ''مجھے ریگستان میں میرا کماندار ڈھونڈ رہا ہوگا۔ وہ مجھے مردہ قرار دے چکے ہوں گے ۔ وہاں میری ضرورت ہے ، آئو میرے ساتھ آئو۔ میں یہ امانت کسی کے حوالے کردوں''۔
 ''لڑکیاں ، لڑکیاں، لڑکیاں''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے شگفتہ سے لہجے میں علی بن سفیان سے کہا …… ''کیایہ کمبخت صلیبی میرے راستے میں لڑکیوں کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا وہ لڑکیوں کو میرے سامنے نچاکر مجھ سے شوبک کا قلعہ لے لیں گے؟''

''امیر محترم!'' علی بن سفیان نے کہا …… ''آپ اپنی ہی باتوں کی تردید کر رہے ہیں۔ یہ لڑکیاں دیوار نہیں بن سکتیں۔ دیمک بن چکی ہیں اور دیمک کا کام کر رہی ہیں ۔ آپ کے اور محترم نورالدین زنگی کے درمیان غلط فہمی پیدا کرنیکی کوشش لڑکیوں کے ہاتھوں کرائی گئی ہے اور ان لڑکیوں نے حشیش اور شراب کے ذریعے ہمارے مسلمان حکام اور امراء کو استعمال کیا ہے ''۔
 ''یہ وہی موضوع ہے جس پر ہم سو بار بات کر چکے ہیں ''۔سلطان ایوبی نے کہا …… ''مجھے ان لڑکیوں کے متعلق کچھ بتائو ۔ یہ تو معلوم ہوچکا ہے کہ یہ آٹھوں جاسوس ہیں۔ انہوں نے اب تک کوئی نیا انکشاف کیا ہے یا نہیں ''۔
 ''انہوں نے بتایا ہے کہ شوبک میں صلیبی جاسوس اور تخریب کار موجود ہیں ''۔ علی بن سفیان نے جواب دیا …… ''لیکن ان میں سے کسی کی بھی نشاندہی نہیں ہوسکتی، کیونکہ ان کے گھروں اور ٹھکانوں کا علم نہیں ۔ ان میں سے تین مصر میںکچھ وقت گزار کر آئی ہیں۔ وہاں انہوں نے جو کام کیا ہے وہ آپ کو بتا چکا ہوں''۔
''کیا وہ قید خانے میں ہیں؟''سلطان ایوبی نے کہا۔
 ''نہیں ''۔علی بن سفیان نے جواب دیا …… ''وہ اپنی پرانی جگہ رکھی گئی ہیں۔ ان پر پہرہ ہے ''۔
 اتنے میں دربان اندر آیا۔ اس نے کہا …… ''عماد شامی نام کاایک عہدیدار ایک صلیبی لڑکی کو ساتھ لایا ہے۔ کہتاہے کہ اسے اس نے کرک کے راستے پر پکڑا ہے اور یہ لڑکی جاسوس ہے''۔
''دونوں کو اندر بھیج دو''۔ سلطان ایوبی نے کہا ۔
 دربان کے جاتے ہی عماد اور ایونا اندر آئے۔ سلطان ایوبی نے عماد سے کہا ۔ ''معلوم ہوتا ہے بہت لمبی مسافت سے آئے ہو۔ تم کس کے ساتھ ہو؟ ''
 ''میں شامی فوج میں ہوں''۔ عماد نے جواب دیا …… ''میرے کماندار کا نام احتشام ابن محمدہے اور میں البرق دستے کا عہدیدار ہوں''۔
 ''البرق کس حال میں ہے ؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا اور علی بن سفیان سے کہا …… ''البرق فی الواقع برق ہے۔ ہم نے جب سوڈانیوں پر شبخون مارے تھے تو البرق قیادت کر رہا تھا۔ صحرائی چھاپوں میں اس کی نظیر نہیںملتی ''۔
 ''سالار اعظم!'' عماد نے کہا …… ''آدھا دستہ اللہ کے نام پر قربان ہوچکا ہے ۔ میرے گروہ میں سے صرف میں رہ گیا ہوں''۔
 ''تم نے اتنی جانیں ضائع تو نہیں کیں؟ سلطان ایوبی نے سنجیدگی سے پوچھا۔ مرجانے اور قربان ہونے میں بہت فرق ہے ''۔
 ''نہیں سالار اعظم!'' عماد نے جواب دیا …… ''خدائے ذوالجلال گواہ ہے کہ ہم نے ایک ایک جان کے بدلے بیس بیس جانیں لی ہیں۔ اگر صلیبیوں کی فوج اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئی ہے تو وہ صرف چند ایک زخمی ہوں گے۔ فلسطین کی ریت کو ہم نے صلیبیوں کے خون سے لال کر دیا ہے ۔ ہمارے دستوں نے بھی دشمن پرپورا قہر برسایا ہے۔ دشمن میں اب اتنا دم نہیں رہاکہ وہ تھوڑے سے عرصے میں اگلی جنگ کے لیے تیارہوجائے ''۔
 ''اورتم؟'' سلطان ایوبی نے لڑکی سے پوچھا …… ''کیا تم پسند کروگی کہ اپنے متعلق ہمیں سب کچھ بتا دو؟ ''
''سب کچھ بتادوںگی''۔ اَیونا نے کہا اور اس کے آنسو بہنے لگے۔
 ''عماد شامی !'' سلطان ایوبی نے عماد سے کہا …… ''فوجی آرام گاہ میں چلے جائو۔ نہائو دھوئو۔ آج کے دن اور آج کی رات آرام کرو۔ کل واپس اپنے جیش میں چلے جانا ''۔
 ''میں دشمن کے دو گھوڑے بھی لایا ہوں ''۔عماد نے کہا…… ''ان کی تلواریں بھی ہیں ''۔
 ''گھوڑے اصطبل میں اور تلواریں اسلحہ خانے میں دے دو''۔ سلطان ایوبی نے کہا اور ذرا سوچ کر کہا …… ''اگر ان گھوڑوں میں کوئی تمہارے گھوڑے سے بہتر ہو تو بدل لو۔ باہر کے محاذ پر گھوڑے کی کیا حالت ہے؟''
 ''کوئی پریشانی نہیں ''۔عماد نے بتایا …… ''اپنا ایک گھوڑا ضائع ہوتا ہے تو ہمیں صلیبیوں کے دو گھوڑے مل جاتے ہیں ''۔
 عماد سلام کرکے باہر نکل گیا۔ اس نے امانت صحیح جگہ پہنچا دی تھی ۔ ادھر سے تووہ فارغ ہوگیا لیکن اس کے دل پر بوجھ تھا۔ یہ جذبات کا بوجھ تھا۔ یہ بچپن کی یادوں کا بوجھ تھااور یہ اس باپ کی محبت کا بوجھ تھا جو کیمپ میں پڑا تھا۔ وہ تذبذب میں مبتلا تھا۔ جنگ ختم ہونے تک وہ باپ سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔ ڈرتاتھا کہ باپ کی محبت اور دل کے پرانے زخم اس کے فرض کے راستے میں حائل ہوجائیں گے …… وہ اپنے گھوڑے کے پیچھے دو گھوڑے باندھے اصطبل کی طرف جارہا تھا۔ اسے ماحول کاکوئی ہوش نہیں تھا۔ گھوڑا اسے ایک گھاٹی پر لے گیا۔ اس نے سامنے دیکھا۔ شوبک کا قصبہ اسے نظر آرہا تھا۔ وہ رُک گیا اور اس قصبے کو دیکھنے لگا جہاں وہ پیدا ہوا تھا اور جہاں سے جلا وطن ہوا تھا۔ اس پر جذبات نے رقت طاری کردی ۔
 ''راستے سے ہٹ کر رُکو سوار!'' اسے کسی کی آواز نے چونکا دیا۔ اس نے گھوم کردیکھا۔ پیچھے ایک گھوڑا سوا ر دستہ آرہا تھا ۔ اس نے گھوڑے ایک طرف کر لیے ۔ جب دستے کا اگلا سوار اس کے قریب سے گزرا توعماد سے پوچھا …… ''باہر سے آئے ہو وہاں کی کیا خبر ہے ؟''
 ''اللہ کا کرم ہے دوستو!'' …… اس نے جواب دی …… ''دشمن ختم ہو رہا ہے ۔ شوبک کو کوئی خطرہ نہیں ''۔
دستے آگے چلا گیا تو عماد دائیں طرف چل پڑا۔
٭ ٭ ٭
 ''میں نے آپ سے کچھ بھی نہیں چھپایا ''۔اَیونا سلطان ایوبی اور علی بن سفیان کے سامنے بیٹھی کہہ رہی تھی۔ وہ بتا چکی تھی وہ جاسوس ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ قاہر میں ایک مہینہ رہ چکی ہے۔ اس نے وہاںکے چند ایک سرکردہ مسلمانوں کے نام بھی بتائے تھے جو سلطان ایوبی کے خلاف سرگرم تھے اور اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ صلیبیوں کی طرف سے سوڈانیوں کو بہت مدد مل رہی ہے اور صلیبی فوج کے تجربہ کار کمانڈر سوڈانیوں کو شبخون مارنے کی ٹریننگ دے رہے ہیں …… ایونا نے کسی استفسار کے بغیرہی اتنی زیادہ باتیں بتا دیں جو جاسوس اذیتوں کے باوجود نہیں بتایا کرتے کیونکہ ان میں ان کی اپنی ذات بھی ملوث ہوتی ہے۔ اس سے علی بن سفیان شک میں پڑ گیا۔

''ایونا!''علی بن سفیان نے کہا…… ''میں بھی تمہارے فن کا فنکار ہوں۔میں تمہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کو تم اونچے درجے کی فنکار ہو۔ ہمارے تشدد اور قید خانے سے بچنے اور ہمیں گمراہ کرنے کا تمہارا طریقہ قابل تعریب ہے مگر میں اس دھوکے میں نہیں آسکتا''ے

''آپ کا نام؟''…… ایونا نے پوچھا۔
 ''علی بن سفیان''۔ علی نے جواب دیا …… ''تم نے شاید ہرمن سے میرا نام سنا ہوگا''۔
 ایونا اُٹھی اور آہستہ آہستہ علی بن سفیان کے قریب جا کر دوزانو بیٹھ گئی۔ اس نے علی بن سفیان کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہاتھ چوم کر بولی …… ''آپ کو زندہ دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ آپ کے متعلق مجھے بہت کچھ بتایاگیا تھا۔ ہرمن کہا کرتا تھا کہ علی بن سفیان مر جائے تو ہم مسلمانوں کی جڑوں میں بیٹھ کر انہیں جنگ کے بغیر ختم کرسکتے ہیں ''…… لڑکی اُٹھ کر اپنی جگہ بیٹھ گئی …… ''میں نے قاہرہ میں آپ کو دیکھنے کی بہت کوشش کی تھی مگر دیکھ نہ سکی ۔ میری موجودگی میں آپ کے قتل کا منصوبہ تیار ہوا تھا۔ پھر مجھے نہیں بتایا گیا کہ یہ منصوبہ کامیاب ہوا تھا یا نہیں۔ مجھے شوبک بلا لیا گیا تھا''۔

''ہم کس طرح یقین کرلیں کہ تم نے جو کچھ کہاہے سچ کہا ہے ؟''……علی بن سفیان نے پوچھا۔
''آپ مجھ پر اعتبار کیوں کرتے ؟''لڑکی نے جھنجھلاکر کہا۔
''اس لیے کہ تم صلیبی ہو''۔ سلطان ایوبی نے کہا ۔
 ''اگر میں آپ کو یہ بتادوں کہ میں صلیبی نہیں مسلمان ہوں تو آپ کہیں گے کہ یہ بھی جھوٹ ہے''۔ لڑکی نے کا …… ''میرے پاس کوئی ثبوت نہیں ۔ سولہ سترہ سال گزرے، میں اسی قصبے سے اغوا ہوئی تھی۔ یہاں آکر مجھے پتہ چلا کہ میرا باپ کیمپ میں ہے ''۔ اس نے اپنے باپ کا نام بتایا اور یہ بھی بتایا کہ اسے اپنے باپ کا نام اب معلوم ہوا ہے۔ اس نے سنایا کہ عماد نے اسے کس طرح صحرا سے بچایا تھا اور وہ رات کو اسے قتل کرنے لگی مگر اس کا خنجر والا ہاتھ اُٹھتا ہی نہیں تھا ۔ اس نے کہا …… ''میں نے دن کے وقت اس کے چہرے پر اور اس کی آنکھوں میں نظر ڈالی تو میرے دل میں کوئی ایسا احساس بیدار ہوگیا جس نے مجھے شک میں ڈال دیا کہ میں عماد کو پہلے سے جانتی ہوں یا اسے کہیں دیکھا ضرور ہے ۔ مجھے یاد نہیں آرہا تھا ۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے کہ ایسے نہیں ہو سکتا …… رات کو دو صلیبی سپاہیوں نے مجھ پر حملہ کر دیا تو عماد جاگ اُٹھا۔ اس نے ایک کو برچھی سے مار دیا۔ میں اس وقت تک اپنے آپ کو صلیبی سمجھتی تھی۔ میری ہمدردیاں صلیبیوں کے ساتھ تھیں مگر میں نے دوسرے صلیبی سپاہی کو خنجر سے ہلاک کردیا اور مجھے خوشی اس پر نہیں ہوئی کہ میں نے ان سے اپنی عزت بچائی ہے بلکہ اس پر ہوئی کہ میں نے عماد کی جان بچائی ہے ''……

'اور جب راستے میں عماد نے میرے ساتھ اپنے متعلق کچھ جذباتی باتیں کیں تو زندگی میں پہلی بار میرے سینے میں بھی جذبات بیدا ہوگئے۔ میں تمام سفر عماد کو دیکھتی ہی رہی۔ مجھے صرف اتنا یاد آیا کہ مجھے بچپن میں اغوا کیا گیا تھا۔ مگر یہ یاد بھی ذہن میں دندھلی ہوگئی۔ آپ کو معلوم ہے کہ مجھ جیسی لڑکیوں کو کس طرح تیار کیا جاتا ہے ۔ بچپن کی یادیں اور اصلیت ذہن سے اُتر جاتی ہے ۔ یہی میرا حال ہوا۔ لیکن مجھے یقین ہونے لگا کہ عماد کو میں جانتی ہوں۔ یہ خون کی کشش تھی ۔ آنکھوں نے آنکھوں کو اور دل نے دل کو پہچان لیا تھا۔ شاید عماد نے بھی یہی کچھ محسوس کیا ہو اور شاید اسی احساس کا اثر تھا کہ اس نے مجھ جیسی دلکش لڑکی کو اس طرح نظر انداز کیے رکھا جیسے میں اس کے ساتھ تھی ہی نہیں۔ اس نے مجھے گہری نظروں سے بہت دفعہ دیکھا ضرورتھا''۔
 ایونا نے تفصیل سے سنایا کہ شوبک میں داخل ہو کر عماد ایک مکان کے آگے رُک گیااور ہم دونوں اندر چلے گئے …… اس نے کہا ……''یہ گھر اندر سے دیکھ کر میری یادیں بیدار ہونے لگیں ۔ مجھے ذہن پر دبائو ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ ذہن اپنے آپ ہی مجھے اس گھر میں گھمانے پھرانے لگا۔ میں نے ایک کواڑ کی الٹی طرف دیکھا۔ وہاں مجھے خنجر کی نوک سے کھدی ہوئی لکیریں نظر آئیں۔ یہ میں نے بچپن میں بڑے بھائی کے خنجر سے کھودی تھیں۔ میرا ذہن مجھے ایک اور کواڑ کے پیچھے لے گیا ۔ وہاں بھی ایسی ہی لکیریں تھیں۔ پھر میں نے عماد کو اور زیادہ غور سے دیکھا ۔ داڑھی کے باوجود اس کی سولہ سترہ سال پرانی صورت یاد آگئی ۔ میں نے اپنے آپ کو بڑی مشکل سے قابو میں رکھا۔ میں نے عماد بتایا نہیں کہ میںاس کی بہن ہوں۔ وہ اتنا پاک فطرت انسان اور میں اتنی ناپاک لڑکی۔ وہ اتنا غیرت مند اور میں اتنی بے غیرت۔ اگر میں اسے بتادیتی تو معلوم نہیں وہ کیا کر گزرتا''۔
 اس دوران علی بن سفیان نے کئی بار سلطان ایوبی کی طرف دیکھا ۔ وہ لڑکی کو ابھی تک شک کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ لیکن لڑکی کی جذباتی کیفیت ، اس کے آنسو اور بعض الفاظ کے ساتھ اس کی سسکیاں دونوں پر ایسا اثر طاری کر رہی تھیں جیسے لڑکی کی باتیں سچ ہیں۔ لڑکی نے آخر انہیں اس پر قائل کر لیا کہ اس کے متعلق وہ چھان بین کریں۔ اس نے کہا …… ''آپ مجھ پر اعتبار نہ کریں، مجھے قید خانے میں ڈال دیں، جو سلوک کرنا چاہتے ہیں کریں، مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔ میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتی۔اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے گناہوں کی بخشش کے لیے کچھ کر کے مرنا چاہتی ہوں''۔
''کیا کرسکتی ہو؟''سلطان ایوبی نے پوچھا۔

''اگر آپ مجھے کرک تک پہنچا دیں تو میں صلیب کے تین چار بادشاہوں اور اپنے محکمے کے سربراہ ہرمن کو قتل کر سکتی ہوں''۔
 ''ہم تمہیں کرک تک پہنچا سکتے ہیں ''۔سلطان ایوبی نے کہا …… ''لیکن اس کام سے نہیں کہ تم کسی کو قتل کرو۔ میں تاریخ میں اپنے متعلق یہ تہمت چھوڑ کر نہیں مرنا چاہتا کہ صلاح الدین ایوبی نے اپنے دشمنوں کو ایک عورت کے ہاتھوں مروا دیا تھا اور شوبک میں فوج لے کے بیٹھا رہا۔ اگر مجھے پتہ چلے گا کہ صلیبیوں کا کوئی بادشاہ کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہے تومیں اس کے علاج کے لیے اپنے طبیب بھیجوں گا اور پھر ہم تم پرایسا بھروسہ کر بھی نہیں سکتے۔ البتہ تمہاری اس خواہش پر غورکر سکتے ہیں کہ تمہیں معاف کرکے کرک بھیج دیں ''۔
 ''نہیں ''۔ایونا نے کا…… ''میرے دل میں ایسی کوئی خواہش نہیں ۔ میں یہیں مروں گی ۔ میری اس خواہش کا ضرور خیال رکھیں کہ عماد کو یہ نہ بتائیں کہ میں اس کی بہن ہوں۔ میں کیمپ اپنے باپ کو ضرور دیکھنے جائوں گی۔ لیکن اسے بھی نہیں بتائوں گی میں اس کی بیٹی ہوں''۔وہ زاروقطار رونے لگی۔
 علی بن سفیان نے اپنی ضرورت کے مطابق اس سے بہت سی باتیں پوچھیں پھر سلطان ایوبی سے پوچھا کہ اسے کہاں بھیجا جائے۔ سلطان ایوبی نے سوچ کر کہا کہ اسے آرام اور احترام سے رکھو۔ فیصلہ سوچ کر کریںگے۔
 علی بن سفیان اسے اپنے ساتھ لے گیا اور ان کمروں میں سے ایک اسے دے دیا جہاں جاسوس لڑکیاں رہا کرتی تھیں۔ لڑکی نے وہاں رہنے سے انکار کر دیا اور کہا …… ''ان کمروں سے مجھے نفرت ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ مجھے اس گھر میں رکھا جائے جہاںسے میں اغوا ہوئی تھی ؟''
 ''نہیں !''…… علی بن سفیان نے کہا …… ''کسی کے جذبات کی خاطر ہم اپنے قواعد و ضوابط نہیں بدل سکتے ۔''
 وہاں کے پہرہ داروں اور ملازموں کو کچھ ہدایات دے کر علی بن سفیان لڑکی کو وہاں چھوڑ گیا ۔
 عماد فوجی آرام گاہ میں گیا اور نہا کر سوگیا مگر اتنی زیادہ تھکن کے باوجود اس کی آنکھ کھل گئی۔ کوشش کے باوجود وہ سو نہ سکا۔ اس کے ذہن میں یہی ایک سوال کلبلارہا تھا کہ باپ سے ملے یانہ ملے۔ تھک ہار کر وہ اُٹھا اور اس جگہ کی طرف چل پڑا جو شوبک میں مسلمانوںکے کیمپ کے نام سے مشہور تھی ۔ وہاں پہنچ کر اس نے اپنے باپ کا نام لیا اور پوچھتا پوچھتا باپ تک پہنچ گیا۔ اس کے سامنے ایک بوڑھا لیٹا ہوا تھا۔ عماد نے اس سے ہاتھ ملایا اور اپنے آپ کو قابو میں رکھا۔ اس کاباپ ہڈیوں کا پنجر بن چکا تھا۔ اسے اچھی خوراک ، دوائیاں دی جارہی تھیں۔ عماد نے اپنا تعارف کرائے بغیر اس سے حال پوچھا تو اس نے بتایا کہ سولہ برسوں کی اذیت ناک مشقت ، قید اور بچوں کے غم نے اس کا یہ حال کردیا ہے کہ اتنی اچھی غذا اور اتنی اچھی دوائیں اس پرکوئی اثر نہیں کر رہیں ۔
 باپ دھیمی آواز میں عماد کو اپنا حال سنا رہا تھا لیکن عماد سولہ سترہ سال پیچھے چلا گیا تھا ۔ اسے باپ کی صورت اچھی طرح یاد تھی۔ اب اس کے سامنے جو باپ لیٹا ہوا تھا اس کے چہرے کی ہڈیاں باہر نکل آئی تھیں۔ پھر بھی اسے پہچاننے میں عماد کو ذرہ بھر دقت نہ ہوئی۔ اس نے کئی بار سوچا کہ اسے بتادے کہ وہاس کا بیٹا ہے؟ اس نے عقل مندی کی کہ نہ بتایا۔ اس نے دو خطرے محسوس کیے تھے۔ ایک یہ کہ باپ یہ خوشگوار دھچکہ برداشت نہیں کر سکے گا۔ دوسرا یہ کہ اس نے برداشت کرلی تو اس کے لیے رکاوٹ بن جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ محاذ پر جانے لگے تو یہ صدمہ اسے لے بیٹھے …… وہ باپ سے ہاتھ ملا کر چلا گیا۔

آدھی رات کا عمل ہوگا۔ ایونا بستر سے اُٹھی۔ اس وقت تک اسے نیند نہیں آئی تھی۔ اس نے علی بن سفیان کے رویے سے محسوس کر لیا تھاکہ اس پر اعتبار نہیں کیاگیا اور اب نہ جانے اس کا انجام کیاہوگا ۔وہ سوچ رہی تھی کہ وہ کس طرح یقین دلائے کہ اس نے جو آپ بیتی سنائی ہے وہ جھوٹ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کا خون انتقام کے جوش سے کھول رہا تھا۔ عمادکے ساتھ اپنے گھر میں جا کر اس نے ذہن میں بچپن کی یادیں ازخود جاگ اُٹھی تھیں اور خواب کی طرح اسے بہت سی باتیں یاد آگئی تھیں۔ اسے یہ بھی یاد آگیا کہ اسے اغوا کے بعد بے تحاشا پیار، کھلونوں اور نہایت اچھی خوراک سے یہ روپ دیا گیا تھا ۔ پھر اسے وہ گناہ یاد آئے جو اس سے کرائے گئے تھے اور وہ سراپا گناہ بن گئی تھی۔ وہ انتقام لینے کو بیتاب ہوئی جا رہی تھی۔ اس جذباتی حالت نے اسے سونے نہیں دیا تھا۔ اس ذہنی کیفیت میں باپ سے ملنے کی خواہش بھی شدت اختیار کرتی جا رہی تھی ۔ وہ باہر نہیں نکل سکتی تھی ۔ باہر دو پہرے دار ہر وقت ٹہلتے رہتے تھے ۔ اس کا دماغ اب سوچنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ اب جذبا ت کے ذیر اثر تھی۔
 اس نے دروازہ ذرا سا کھول کر دیکھا۔ اسے باتوں کی آوازیں سنائی دیں۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی) دائیں طرف کوئی بیس گز دور اسے دونوں پہرہ دار باتیں کرتے ہوئے سائے کی طرح نظر آئے۔ لڑکی دروازے میں سے سر نکالے انہیں دیکھتی رہی۔ پہرے دار وہاں سے ذرا پرے ہٹ گئے۔ لڑکی دبے پائوں باہر نکلی اور عمارت کی اوٹ میں ہوگئی۔ آگے گھاٹی اُترتی تھی۔ وہ بیٹھ گئی اور پائوں پر سرتکتی ہوئی گھاٹی اُتر گئی۔ اب اسے پہرہ دار نہیں دیکھ سکتے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ مسلمانوں کاکیمپ کہاں ہے اور اسے یہ بھی معلوم ہوچکا تھا کہ اب یہ کیمپ قید خانے سے مہمان خانہ بن گیا ہے۔ اس لیے اسے یہ خطرہ نہیں تھا کہ وہاں سے کوئی سنتری اسے روک لے گا۔ وہ باپ کو ملنے جارہی تھی جس کا اسے صرف نام معلوم تھا۔ وہ تیز تیز جارہی تھی کہ اسے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے پیچھے دیکھا مگر کوئی نظر نہ آیا۔ اس آہٹ کو وہ اپنے قدموں کی آہٹ سمجھ کر چل پڑی لیکن یہ کسی اور کی آہٹ تھی۔ ایک تنومند آدمی وہیں سے اس کے پیچھے چل پڑا تھا ، جہاں سے وہ گھاٹی اُتری تھی۔

ایونا کو یہ آہٹ ایک بار پھر سنائی دی ۔ وہ رُکی ہی تھی کہ اس کے سر اور منہ پر کپڑا آن پڑا۔ پلک جھپکتے کپڑا بندھ گیا اور دو مضبوط بازوئوں نے اسے جکڑ کر اُٹھالیا۔ وہ تڑپی مگر تڑپنا بیکار تھا۔ رات تاریک تھی اور یہ علاقہ غیر آباد تھا ۔ ذرا آگے جا کر اسے ایک کمبل میںلپیٹ کر گٹھڑی کی طرح اُٹھالیا گیا۔ وہ ایک نہیں دو آدمی تھے …… نصف گھنٹے کے بعد اسے اتار کر کھولا گیا ۔ وہ ایک کمرے میں تھی جس میں دو دئیے جل رہے تھے۔ وہاں چار آدمی تھے۔ اس نے سب کو باری باری حیرت سے دیکھا اورکہا …… ''تم لوگ ابھی یہاں ہو؟…… اور آپ گیرالڈ؟ آپ بھی یہیں ہیں ؟''

''ہم جاکر آئے ہیں ''…… گیرالڈ نے جواب دیا …… ''تم سب کو یہاں سے نکالنے کے لیے۔ اچھا ہوا کہ تم مل گئیں ''۔

یہ وہ چار صلیبی تھے جنہیں کرک سے اس کام کے لیے بھیجا گیا تھا کہ جاسوس لڑکیاں جو مسلمانوں کے قبضے میں رہ گئی ہیں انہیں وہاں سے نکالیں اور شوبک میں اپنے جو جاسوس رہ گئے ہیں انہیں وہاں منظم کریں اور اگر ممکن ہو تو وہاں تخریب کاری بھی کریں۔ تخریب کاری میں ایک یہ کام بھی شامل تھا کہ اصطبل میں داخل ہو کر جانوروں کے چارے میں زہر ملائیں، رسد کو آگ لگائیں اور فوجیوں کے لنگر خانے میں بھی زہر ملا سکیں تو کوشش کریں۔ اس گروہ کا کمانڈر گیرالڈ نام کا ایک برطانوی تھا جو تباہ کار جاسوسی کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ ایونا اسے بہت اچھی طرح جانتی تھی ۔ اسے دیکھ کر ایونا کاخون نفرت اور انتقام کے جوش سے کھول اُٹھا لیکن وہ فوراً سنبھل گئی۔ یہ موقع نفرت کے اظہار کا نہیں تھا۔ گیرالڈ تو ایسا گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایونا بالکل بدل گئی ہے۔ اس نے ایونا سے پوچھا کہ وہ کہاں جا رہی تھی؟ ایونا نے کہا کہ اسے فرار کا موقع مل گیا تھا۔ اس لیے وہ فرار ہو رہی تھی ۔

گیرالڈ نے اسے بتایا کہ وہ چھاپہ مار جاسوسوںکا ایک گروہ کرک کے مظلوم مسلمانوں کے بہروپ میں یہاںلایاہے۔ ان دنوں شوبک کے حالات ایسے تھے کہ یہ گروہ آسانی سے ایک ہی گروہ کی صورت میں شہر میں آگیا تھا۔ جنگ کی وجہ سے لوگ آ جارہے تھے ۔ اردگرد کے دیہات کے مسلمان بھی شہر میں آرہے تھے ۔ اسی دھوکے میں یہ گروہ بھی آگیا ۔ شہر میں پہلے سے جاسوس موجود تھے۔ انہوں نے پورے گروہ کو پس پردہ کر لیا۔ گیرالڈ نے ایونا کو بتایا کو وہ دو راتوں سے اس مکان کودیکھ رہا ہے جس میں لڑکیاں ہیں۔ اس جگہ سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ یہ انہی کی بنائی ہوئی تھی۔ رات کو وہ دیکھنے جاتا تھا کہ پہرہ داروں کی حرکات اور معمول کیاہے۔ یہ بڑا اچھا اتفاق تھا کہ اسے ایونا مل گئی ۔ ایونا نے اسے بتایا کہ لڑکیوں کو نکالنا آسان نہیں ، تاہم نکالا جا سکتا ہے ۔

رات کو ہی سکیم تیار ہوگئی ۔ ایونا نے گیرالڈ کو بتایا کہ لڑکیاں کھلے کمروں میں ہیں جو قید خانہ نہیں۔ پہرہ دار صرف دو ہیں۔ اس قسم کی اور بھی بہت سی تفصیلات تھیں جو ایونا نے انہیں بتائیں۔ یہ بھی طے ہوگیا کہ لڑکیوں کو نکالنے کے لیے کتنے آدمی جائیں گے اور باقی آدمی کون سے مکان میں جمع ہوں گے۔ اس سکیم کے بعد ایونا نے یہ تجویز پیش کی کہ اسے واپس چلے جانا چاہیے ۔ کیونکہ اس کی گمشدگی سے لڑکیوں پر پہرہ سخت کر دیا جائے گا جس سے یہ مہم ناممکن ہوجائے گی۔ گیرالڈ کو ایونا کی یہ تجویز پسند آئی اور اسے اپنے ساتھ لے جا کر اس کی رہائش گاہ کے قریب چھوڑ دیاگیا۔ ایونا کو باہر سے آتے دیکھ کر پہرہ داروں نے اس کی باز پرس کی ۔ اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ دور نہیں گئی تھی۔ پہرہ دار اس لیے چپ ہوگئے کہ یہ ان کی لاپرواہی تھی لڑکی نکل گئی تھی ۔

دوسرے دن علی بن سفیان کسی اورکام میں مصروف تھا ۔

دوسرے دن علی بن سفیان کسی اورکام میں مصروف تھا ۔ایونا نے پہرہ داروں سے کہا کہ وہ اسے علی بن سفیان کے پاس لے چلیں۔ انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ یہاں اس کے بلانے پر کو ئی نہیں آئے گا بلکہ اس کی جب ضرورت ہوگی تو اسے بلایا جائے گا۔ ایونا نے بڑی مشکل سے پہرہ داروں کو قائل کیا کہ وہ کسی اور کو بتائے بغیر مرکزی کمان کے کسی فرد تک یہ پیغام پہنچا دیں کہ نہایت اہم اور نازک بات کرنی ہے۔ اس نے پہرہ داروں سے کہا کہ اگر انہوں نے اس کا پیغام نہ پہنچایا تو اتنا زیادہ نقصان ہوگا کہ پہرہ دار اس کوتاہی کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے …… پہرہ داروںنے پیغام بجھوانے کا بندوبست کردیا۔ علی بن سفیان نے پیغام ملتے ہی لڑکی کو بلا لیا۔ اس کے بعدلڑکی کمرے میں واپس نہیں آئی ۔

رات کو جب شوبک کی سرگرمیاں سوگئیںاور شہر پر خاموشی طاری ہوگئی تو اس عمارت کے اردگرد آٹھ دس سائے سے حرکت کرتے نظرآئے جہاں لڑکیوں کو رکھا گیا تھا ۔ عجیب بات یہ تھی کہ دونوں پہرہ دار غائب تھے۔ آٹھ دس چھاپہ مار خوش ہونے کی بجائے حیران ہوئے ہوں گے کہ پہرہ دار نہیںہیں۔ وہ آٹھوں پیٹ کے بل رینگ کر آگے آئے۔ ایونا نے انہیںبتادیا تھا کہ لڑکیاں کون کون سے کمرے میں ہیں ۔ کمروں کے دروازوں اورکھڑکیوں سے یہ لوگ واقف تھے۔ دو چھاپہ مار ایک کمرے میں داخل ہوئے ۔ باقیوں نے پرواہ نہیں کی کہ وہاں پہرہ دار ہیں یا نہیں ۔ انہیں یہ بتایا گیا تھا کہ پہرہ دار صرف دو ہوتے ہیں۔ دو پردس کا قابو پانا مشکل نہیںتھا۔ وہ سب لڑکیوں کے کمروں میں گھس گئے مگر ان میں سے باہر کوئی بھی نہ نکلا ۔

گیرالڈ اسی مکان میں تھا جہاں وہ گذشتہ رات ایونا کو لے گیا تھا۔ اس مکان میں سکیم کے مطابق بیس آدمی تھے۔ باقی کسی اور عیسائی کے گھر میں چھپے ہوئے تھے۔ گیرالڈ بے صبری سے لڑکیوں کا انتظار کر رہا تھا۔ اب تک انہیں اس کے آدمیوں کے ساتھ پہنچ جانا چاہیے تھا ۔ آخر دروازے پر دستک ہوئی۔ دستک کا یہ طے شدہ خاص انداز تھا۔ گیرالڈ نے خود جا کر دروازہ کھولا ۔ یہ مکان پرنے دور کی قلعہ نما حویلی تھی جس میں ایک امیر کبیر عیسائی رہتا تھا۔ گیرالڈ نے جوں ہی دروازہ کھولا اسے کسی نے باہر گھسیٹ لیا۔ فوجیوں کا ایک ہجوم دروازے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھوں میںلمبی برچھیاں تھیں ۔ فوجی تیز اور تند سیلاب کی طرح اندر چلے گئے ۔ ایک وسیع کمرے میں بیٹھے ہوئے صلیبی چھاپہ مار جاسوسوں کو سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ ان سے ہتھیار لے لیے گئے اور انہیں گھر کے مالک اور اس کے کنبے سمیت باہر لے گئے۔

ایسا ہی ہلہ اس کمان پر بھی بولا گیا جہاں باقی صلیبی چھاپہ مار تیار بیٹھے تھے۔ یہ دونوں چھاپے بیک وقت مارے گئے۔ اسی رات دس گیا رہ مکانوں پر چھاپے مارے گئے۔ یہ سرگرمی رات بھر جاری رہی۔ مکانوں کی تلاشی لی گئی اور صبح کے وقت علی بن سفیان نے سلطان ایوبی کے سامنے جو لوگ کھڑے کئے ان میں ایک تو گیرالڈ اور اس کے چالیس چھاپہ مار تھے اور تقریباً اتنی ہی تعداد ان جاسوس اور تخریب کاروں کی تھی جنہیں دوسرے مکانوں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان مکانوںسے جو سامان برآمد ہوا اس میں بے شمار ہتھیار، زہر کی بہت سی مقدار، تیروں کا ذخیرہ، آتش گیر مادہ اور بہت سی نقدی برآمدہوئی۔ یہ کارنامہ ایونا کا تھا۔ اس نے گیرالڈ کے ساتھ سکیم بنائی تھی اور اس سے ان تمام جاسوسوں کے ٹھکانے معلوم کر لیے تھے جو شوبک میں چھپے ہوئے تھے ۔ گیرالڈ کو اس پر پلی اعتماد تھا۔ ایونا رات کو ہی واپس آگئی اور صبح اس نے تمام تر سکیم علی بن سفیان کو بتادی اور جاسوسوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی بھی کردی ۔ علی بن سفیان کے جاسوس دن کے وقت سارے ٹھکانے دیکھ آئے تھے۔ شام کے وقت سلطان ایوبی کے خصوصی چھاپہ مار دستوں کو ان ٹھکانوں پر چھاپے مارنے کے لیے بلالیا گیاتھا۔ لڑکیوں کو کمروں سے نکال کر کہیں اور چھپا دیا گیاتھا۔ ان کی جگہ ہر کمرے میں تین تین چھاپہ ماروں نے انہیں پکڑ لیا۔ اس طرح شوبک میں صلیبیوں کے تقریباً تمام جاسوس اور چھاپہ مار پکڑے گئے ۔ ان میں سب سے زیادہ قیمتی گیرالڈ تھا۔ تمام کو تفتیش اور اس کے بعد سزا کے لیے قید خانے میں ڈال دیا گیا۔
 ایونا نے ان تمام مسلمان سرکردہ شخصیتوں کی بھی نشاندہی کر دی جو قاہرہ میں سلطان ایوبی کے خلاف سرگرم تھے۔ حشیشین کے ہاتھوں سلطان ایوبی اور علی بن سفیان کو قتل کرنے کا جو منصوبہ تیار کیا گیا تھا وہ بھی ایونا نے بے نقاب کیا اور سلطان ایوبی سے کہا …… ''اب تو آپ کو مجھ اعتبار آجانا چاہیے ''۔
 وہ بڑا ہی جذباتی اور رقت انگیز تھا جب عماد کو بتایا گیا کہ ایونا اس کی بہن ہے اور جب بہن بھائی کو ان کے باپ کے سامنے کھڑا کیا گیا تو جذبات کی شدت سے بوڑھا باپ بے ہوش ہوگیا ۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے بتایا کہ اس کی بیٹی کانام عائشہ ہے۔ سلطان ایوبی نے اس خاندان کے لیے خاص وظیفہ مقرر کیا اور علی بن سفیان کے محکمے کے لیے حکم جاری کیا کہ تمام جاسوس لڑکیوںکے متعلق چھان بین کی جائے۔ صلیبیوں نے دوسری لڑکیوں کو بھی مسلمان گھرانوں سے اغوا کیا ہوگا۔
 سلطان ایوبی کی فوج بہت بڑے خطرے سے محفوظ ہوگئی …… شوبک سے دورمحاذ کی خبریں اُمید افزا تھیں لیکن فوری ضرورت یہ تھی کہ بکھرے ہوئے دستوں کو یک جا کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے سلطان ایوبی نے شوبک کا فوجی نظام اپنے معاونوں کے حوالے کرکے اپنا ہیڈ کوارٹر شوبک سے دور صحرا میں منتقل کرلیا۔ اس نے برق رفتار قاصدوں کی ایک فوج اپنے ساتھ رکھ لی۔ اس کے ذریعے اس نے ایک ماہ میں بکھرے ہوئے دستے ایک دوسرے کے قریب کرلیے۔ اس کے بعد انہیں تین حصوں میں تقسیم کرکے شوبک کا دفاع اسی طرح منظم کردیا جس طرح قاہرہ کا کیا تھا۔ سب سے دور سرحدی دستے تھے جس کے سوار گشت کرتے تھے۔ ان سے پانچ چھ میل دور فوج کا دوسرا حصہ خیمہ زن کردیا اور تیسرے حصے کو متحرک رکھا۔

کرک میں اکٹھی ہونے والی فوج کی کیفیت ایسی تھی کہ فوری حملے کے قابل نہیں تھی۔ ادھر سلطان ایوبی نے بھرتی کی رفتار تیز کردی اور نئی بھرتی کی ٹریننگ کا انتظام کھلے صحرا میں کردیا ، اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ وہ کرک میں اپنے جاسوس بھیجے جو وہاں کی اطلاعیں لانے کے علاوہ یہ کام بھی کریں کہ وہاں کے رہنے والے مسلمان نوجوانوں کو کرک سے نکلنے اور یہاں آکر فوج میں شامل ہونے کی ترغیب دیں ۔
٭ ٭ ٭
 جاری ھے ، " قاھرہ میں بعاوت اورسلطان ایوبی")، شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

داستان ایمان فروشوں کی



صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.27۔" جب ایونا عائشہ بنی"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ان کے پیٹ انسانی گوشت سے بھرے ہوئے تھے ۔ صحرائی درندے لاشوں کو چیرپھاڑ رہے تھے اور معرکہ آرائی کا یہ عالم تھا جیسے اُفق سے اُفق تک انسان ایک دوسرے کا کشت و خون کر رہے ہوں۔ اس وسیع ریگزار میں کہیں کہیں نخلستان بھی تھے جہاں پانی مل جاتا تھا۔ تھکے ہارے انسان، زخمی انسان اور پیاس کے مارے ہوئے انسان وہاں جا جا کر گرتے تھے۔

عماد ہاشم سلطان ایوبی کی فوج کے ایک چھوٹے سے دستے کا کمانڈر تھا۔ وہ شامی باشندہ تھا۔ اسی لیے وہ اپنا نام عماد شامی بتایا کرتا تھا۔ صلیبیوں کے خلاف جو جذبہ ہر مسلمان سپاہی کے دل میں تھا ، وہ عماد شامی میں بھی تھا لیکن اس کے جذبے میں انتقام کا قہر اور غضب زیادہ تھا ۔ اس کے متعلق سب جانتے تھے کہ وہ یتیم ہے اور اس کا سگا عزیز رشتہ دار کوئی نہیں لیکن اُسے یہ یقین نہیں تھا کہ وہ یتیم ہے یا نہیں کیونکہ اس کا باپ اس کی آنکھوںکے سامنے نہیں مرا تھا ۔ وہ تیرہ چودہ سال کی عمرمیں گھر سے بھاگا تھا ۔ اُس وقت اس کا گھر شوبک میں تھا۔ اُسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس کے بچپن میں شوبک پر صلیبیوں کا قبضہ ہو اتھا اور انہوں نے مسلمانوں کا کشت و خون شروع کر دیا تھا۔ اس کا بچپن صلیبیوں کی دہشت میں گزرا تھا ۔ اس نے مسلمان جنگی قیدی بھی دیکھے جنہیں مار مار کر لایا جا رہا تھا اور اس کے سامنے دو قیدیوں کے سر کاٹ دئیے گئے تھے کیونکہ وہ زخموں کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے۔ اس نے مسلمان گھروں سے لڑکیاں اغوا ہوتے دیکھی تھیں اور اس نے مسلمانوں کو بیگار میں جاتے بھی دیکھا تھا ۔ شوبک کے مسلمان کہا کرتے تھے کہ جب شہر میں عیسائی مسلمانوں کو بلا وجہ پکڑ پکڑ کر کیمپ میں لے جانا شروع کریں اور ان کے گھروں پر حملے کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ انہیں مسلمانوں کے ہاتھوں کہیں شکست ہوئی ہے۔

عماد شامی کا گھر بھی محفوظ نہ رہا ۔ اُس کی ایک بہن تھی جس کی عمر سات آٹھ سال تھی ۔ اُسے وہ بہن یاد تھی ۔ بہت خوبصورت اور گڑیا سی بچی تھی ۔ گھر میں اس کا باپ تھا ، ماں تھی اور ایک بڑا بھائی تھا ۔ ایک روز عماد کی گڑیا سی بہن باہر نکل گئی اور لا پتہ ہوگئی۔ باپ نے تلاش کی مگر کہیں نہ ملی ۔ ایک مسلمان پڑوسی نے اسے بتایا کہ اسے عیسائی اٹھا کر لے گئے ہیں ۔ باپ شہرکے حاکم کے پاس فریاد لے کر گیا۔ جونہی اس نے بتایا کہ وہ مسلمان ہے، حاکم اس پر برس پڑا او ر اس پر الزام عائد کیا کہ وہ حکمران قوم پراتنا گھٹیا الزام تھوپ رہا ہے۔(اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی)
گھر آکر باپ نے اور عماد کے بڑے بھائی نے عیسائیوں کے خلاف شور شرابا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رات کو ان کے گھر پر حملہ ہوا۔ عماد نے اپنی ماں اور بڑے بھائی کو قتل ہوتے دیکھا۔ وہ باہر بھاگ گیا اور ایک مسلمان کے گھر جا چھپا۔ اس کے بعد وہ اپنے گھر نہیں گیا کیونکہ اس مسلمان نے اس ڈر سے اُسے باہر نہ نکلنے دیا کہ عیسائی اسے بھی قتل کر دیں گے ۔

تھوڑے دنوں بعد اس مسلمان نے اسے ایک اور آدمی کے حوالے کر دیا جو اسے چوری چھپے شہر سے باہر لے گیا۔ صبح کے وقت وہ ایک قافلے کے ساتھ جا رہا تھا۔ بہت دنوں کی مسافت کے بعد وہ شام پہنچا۔ وہاں اُسے ایک امیر کبیر تاجر کے گھر نوکری مل گئی۔ اب اس کی یہی زندگی تھی کہ نوکری کرے اور زندہ رہے۔ وہ ذہنی طور پر بالغ اور بیدار ہوگیا ۔ یہ انتقام کا جذبہ تھا۔ اسی جذبے کے زیر اثر اسے فوجی اچھے لگتے تھے۔ اس نے تاجر کی نوکری چھوڑ کر کسی فوجی حاکم کے گھر میں نوکری کرلی۔ عماد نے اسے بتایا کہ اس پر کیا بیتی ہے اور یہ بھی بتایا کہ وہ فوج میں بھرتی ہونا چاہتا ہے۔

اس حاکم نے اس کی پرورش کی اور سولہ سال کی عمر میں اسے شام کی فوج میں بھرتی کرادیا۔ وہ انتقام کیلئے بے تاب تھا۔ اسے تین چار معرکوں میں شریک ہونے کا موقع ملا جن میں اس کے جوہر سامنے آگئے۔ گیارہ بارہ سال بعد اُسے اس فوج کے ساتھ مصر روانہ کر دیا گیا جو نورالدین زنگی نے سلطان ایوبی کے مدد کیلئے بھیجی تھی ۔ دو سال مصر میں گزر گئے۔ پھر خدا نے اس کی یہ مراد بھی پوری کی کہ وہ شوبک پر حملہ کرنے والی شوج کے ساتھ گیا لیکن اُسے اُس فوج میں رکھا گیا جسے ریگزار میں صلیبیوں کی فوج پر حملے کرنے تھے۔

وہاں وہ صلیبیوں کے لیے قہر بنا ہوا تھا ۔ اس کا چھاپہ مار دستہ مشہور ہوگیا تھا۔ عماد شامی اپنے سواروں کو ساتھ لیے صحرا میں صلیبیوں کی مشک لیتا پھرتا اور بھیڑیوں اور چیتوں کی طرح ان پر چھپٹا تھا مگر اس کے سینے میں جو آگ لگی ہوئی تھی وہ سرد نہیں ہوتی تھی …… ایک ماہ بعد اس دستے میں کل چار سوار رہ گئے تھے، باقی سب شہید ہو گئے …… ایک رات اس نے ان چار سواروں سے صلیبیوں کے کم و بیش بچاس افراد کے دستے پر حملہ کر دیا۔ وہ سارا دن چھپ چھپ کر اس کا پیچھا کرتا رہا تھا ۔ دن کے وقت وہ چار سپاہیوں سے پچاس سپاہیوں پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ اُن کے تعاقب میں وہ بہت دور نکل گیا ۔ رات کو صلیبی رُک گئے اور انہوں نے پڑائو کیا لیکن بہت سے سنتری بیدار رکھے۔ عماد نے آدھی رات کو وقت گھوڑوں کو ایڑ لگائی اور سوئے ہوئے صلیبیوں کے درمیان سے اس طرح گزرا کہ برچھی سے دائیں بائیں وار کرتا گیا۔ اس کے چاروں جانبازوں کا بھی یہی انداز تھا ۔

انہیں جو چیز ہلتی نظر آئی اس پر برچھیوں یا تلواروں کے وار کرتے اندھیرے میں غائب ہوگئے۔ کئی سوئے ہوئے صلیبی ان کے گھوڑوں تلے روندے گئے ۔ سنتریوں نے تاریکی میں تیر چلائے جو خطا گئے۔ آگے جا کر عماد نے اپنے جانباز سواروں کو روکا اور انہیں وہاں سے آہستہ آہستہ پیچھے لایا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ دشمن بیدار ہوچکا ہے۔ وہ گھوڑسواروں کو پھر قریب لے گیا اور ایڑ لگانے کا حکم دے دیا ۔ اندھیرے میں اُسے سائے گھومتے پھرتے نظر آرہے تھے ۔ پانچوں گھوڑے سرپٹ دوڑتے ان کے درمیان سے گزرے مگر اب وہ دشمن پر وار کرکے آگے گئے تو وہ پانچ کی بجائے تین تھے۔ دو کو صلیبی تیر اندازوں نے گرالیا تھا ۔

عماد کا خود او ر زیادہ جوش میں آگیا ۔ اس نے اپنے مجاہدوں سے کہا …… ''ابھی انتقام لیں گے ''…… یہ اس کی حماقت تھی ۔ اُس نے اپنے دونوں مجاہدوں کو موڑا اور صلیبیوں کے قریب آہستہ آہستہ آکر حملے کا حکم دے دیا ۔ اب کے وہ دشمن میں سے نکلا تو اس کے ساتھ اپنے دو ساتھیوں کی بجائے دو صلیبی تھے جو اس کا تعاقب کر رہے تھے ۔ اندھیرے میں اس نے انہیں ان کی للکار سے پہچانا۔ورنہ وہ انہیں اپنے ساتھی سمجھ رہا تھا ۔

وہ اس کے سر پر پہنچ گئے ۔ انہوں نے اس پر تلواروں سے حملہ کیا ۔ اس کے پاس لمبی برچھی تھی ۔ دوڑتے گھوڑے سے اس نے دونوں کا مقابلہ کیا ۔ گھوڑا گھما کر آمنے سامنے آکر معرکہ لڑا۔ لڑائی خاصی لمبی ہوگئی اور وہ دور ہٹتے چلے گئے۔ آخر عماد نے دونوں صلیبیوں کو مار لیا اور دونوں کے گھوڑے شوبک بھیجنے کیلئے پکڑ لیے۔ ان کی تلواریں بھی لے لیں مگر اسے یہ خیال نہ رہا کہ کہاں تک جا پہنچا ہے۔ اس نے گھوڑے کو اور اپنے آپ کو آرام دینے کے لیے ایک جگہ قیام کیا لیکن وہ سونے سے ڈرتا تھا کیونکہ کسی بھی وقت اور کہیں بھی وہ دشمن کے نرغے میں آسکتا تھا ۔ اس نے رات جاگتے گزار دی ۔ ستارے دیکھ کر اس نے یہ معلو م کر لیا کہ شوبک کس طرف اور کرک کس طرف ہے اور اسے صحرا میں کون سی جگہ جانا ہے جہاں اسے اپنا کوئی دستہ مل جائے گا ۔

صبح ہوتے ہی وہ چل پڑا۔ وہ صحرائوںمیں جنا پلہ تھا۔ بھٹکنے کا کوئی خطرہ نہیں تھا۔ ہو تجربہ کارچھاپہ مار تھا، خطرے کو دور سے سونگھنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ اسے دور دور صلیبی چار چار یا پانچ پانچ کو ٹولیوں میں جاتے نظر آئے۔ اگر اس کے پاس دو فالتو گھوڑے نہ ہوتے تو کسی ٹولی پر حملہ کر دیتا ۔ وہ بچتا بچاتا اپنی راہ چلتا گیا۔ راستے میں اسے کئی جگہ گھوڑوں اور اونٹوں کے مردار اور صلیبی سپاہیوں کی لاشیں پڑی نظر آئیں۔ جنہیں گدھ اور لومڑیاں کھا رہی تھیں۔ ان میں اس کے اپنے ساتھیوں کی لاشیں بھی ہوں گی۔ وہ چلتا گیا اور سورج اُفق پر چلا گیا ۔ آگے ٹیلوں کا علاقہ آگیا جس میں راستے ہر چند قدم پر گھومتے تھے۔ یہاں ڈر تھا کہ صلیبیوں کو کئی ٹولی رات کے لیے قیام کرے گی۔ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا ۔ یہ ڈر بھی تھا کہ کسی ٹیلے پرکوئی تیر انداز نہ بیٹھا ہو۔ وہ ہر طرف اور اوپر دیکھتا چلتا گیا ۔

٭ ٭
آگے راستہ دو ٹیلوں کے درمیان سے مڑتا تھا۔ وہاں سے وہ مڑا تو اچانک اسے کسی کے دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی ۔ کوئی آدمی ساتھ والے ٹیلے کے پیچھے چھپ گیا تھا ۔ اس نے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا اور ایڑ لگائی۔ تیز رفتار سے وہ ٹیلے کے پیچھے گیا تو آگے راستہ ایک اور ٹیلے نے بند کر رکھا تھا۔ یہ جگہ ایک وسیع کھڈ بنی ہوئی تھی ۔ عماد سے کوئی بیس قدم دور میلے کچیلے سے چغے والا ایک آدمی ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل ٹیلے پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ عماد کی طرف اس کی پیٹھ تھی ۔ اس آدمی کا سرڈھکا ہوا تھا ۔ وہ آدمی نہتہ معلوم ہوتا تھا ۔ عماد نے اسے للکارا مگر وہ ٹیلے پر چڑھنے کی کوشش کرتارہا۔ ٹیلا مشکل قسم کا تھا۔ عماد آگے چلا گیا۔ اس آدمی نے ایک کوشش اور کی مگر کہیں ہاتھ نہ جما سکا۔ دو نڈھال ہو چکا تھا ۔ ٹیلے سے اس کی گرفت ڈھیلی ہوگئی اور وہ لڑھکتا ہوا عماد کے گھوڑے کے قدموں میں آن پڑا۔ اس کے سر سے چغے کی اوڑھنی والا حصہ اترگیا۔ عماد یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ایک جوان لڑکی تھی اور خوبصورت اتنی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

عماد گھوڑے سے اترا۔ لڑکی خوفزدہ تھی ۔ اس کی رہی سہی قوت بھی خوف نے ختم کر دی ۔ وہ اٹھی مگر بیٹھ گئی ۔ عماد نے اس سے پوچھا کو وہ کون ہے ؟ اس نے جوا ب دیا …… ''پانی پلائو ''…… عماد نے ایک گھوڑے سے پانی کی چھاگل کھول کر اسے دے دی ۔ اس نے بے تابی سے پانی پیا اور اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں ۔ عماد نے اسے کھانے کے لیے کچھ دیا جو اس کے پیٹ میں گیا تو اس کے چہرے پر زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔ عماد نے اسے کہا …… ''مجھ سے ڈرو نہیں ، بتائو کو ن ہو ؟''

''شوبک سے اپنے خاندان کے ساتھ چلی تھی ''۔ اس نے تھکی ہاری زبان میں کہا …… ''سب مارے گئے ہیں ۔ میں اکیلی رہ گئی ہوں ۔ مسلمانوں نے راستے میں حملہ کر دیا تھا ''۔

''مجھے سچ کیوں نہیں بتا دیتی کہ تم کون ہو ؟''…… ''تم نے جو کچھ کہا ہے جھوٹ کہا ہے ''۔

''جھوٹ ہی سہی ''۔اس نے خوفزدہ لہجے میں کہا …… ''مجھ پر رحم کرو اور مجھے کرک تک پہنچا دو''۔

''شوبک تک ''۔ عماد نے کہا …… ''میںتمہیں شوبک لے جا سکتا ہوں۔ کرک نہیں۔ تم دیکھ رہی ہو کہ میں مسلمان ہوں۔ میں راستے میںعیسائی فوج کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا ''۔

''پھر مجھے ایک گھوڑا دے دو''۔ لڑکی نے کہا…… ''میں لڑکی ہوں۔ اگر راستے میں کسی کے قبضے میں آگئی تو جانتے ہو کہ میرا انجام کیا ہوگا ''۔

''میں تمہیں گھوڑا بھی نہیں دے سکتا۔ تمہیں یہاں سے اکیلے روانہ بھی نہیں کر سکتا ۔ عماد نے کہا …… یہ میرا فرض ہے کہ تمہیں اپنے ساتھ شوبک لے جائوں ''۔

''وہاںمجھے کس کے حوالے کرو گے ؟''

''اپنے حاکموں کے حوالے کروں گا ''۔ عماد نے کہا اور اسے تسلی دی …… ''تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوگا جس کا تمہیں ڈر ہے''۔

لڑکی کرک جانے کی ضد کررہی تھی۔ عماد نے اسے بتایا کہ انہیں حکم ملا ہیکہ شوبک کے کسی عیسائی باشندے کو وہاں سے بھاگنے نہ دیا جائے۔ اس کے علاوہ اس نے لڑکی کو خبردار کیا کہ وہ کرک تک نہیں پہنچ سکے گی۔ وہ چونکہ گوری رنگت کی خوبصورت لڑکی تھی اس لیے لڑکی کو یہ ڈر تھا کہ یہ مسلمان فوجی اسے بے آبرو کرے گا۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس کے ساتھ آبرو کا ہی سودا کرکے اسے کہا جائے کہ وہ اسے گھوڑا دے دے۔ لڑکی نے اپنا رویہ بدل لیااور عماد سے کہا ……''میںبہت تھکی ہوئی ہوں۔ آج رات یہیں قیام کیا جائے ۔ صبح شوبک کو روانہ ہوجائیں گے ''۔ عماد بھی تھکا ہوا تھا ۔ گھوڑوں کا بھی یہی حال تھا۔ وہ لڑکی کی حالت بھی دیکھ رہا تھا ۔ اس نے وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سے پہلے لڑکی نے اسے غور سے نہیں دیکھاتھا ۔ اس نے یہی دیکھا کہ یہ بڑھی ہوئی داڑھی والا مسلمان فوجی ہے جو جسم کی ساخت اور گرد سے اٹے ہوئے چہرے سے وحشی لگتا ہے۔ اس سے اسے رحم کی اُمید نہیں تھی ۔ اب جبکہ اس نے کچھ اور ہی سوچ لیا تھا ، اس نے عماد کو گہری نظروں سے دیکھا ۔

اس وقت عماد بھی اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہاتھا کہ اس قدر حسین لڑکی کا اس صحرا میں اکیلے رہ جانا جہاں صلیبی اور اسلامی سپاہی لمبے عرصے سے بھوکے بھیڑیوں کی طرح بھاگتے دوڑتے پھر رہے ہیں اس کے لیے کتنا خطرناک ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس لڑکی پر سپاہی یا کماندار آپس میں ہی لڑ مریں۔ وہ خود بھی فرشتہ نہیں تھا۔ اس نے لڑکی کی آنکھوں میں جھانکا۔ اس وقت لڑکی اسے دیکھ رہی تھی ۔ عماد نے کوشش کی کہ وہ لڑکی سے نظریں پھیر لے مگر لڑکی کی آنکھوں نے اس کی آنکھوں کو گرفتار کر لیا ۔ اس نے اپنے جسم کے اندرکوئی ایسا جذبہ محسوس کیا جو اس کے لیے اجنبی تھا ۔ اس نے ایک بار نظریں جھکالیں مگر آنکھیں اپنے آپ اوپر اُٹھ گئیں اور وہ بے چین ساہونے لگا۔ لڑکی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ عماد نے آہستہ سے کہا …… ''شاید تم کنواری ہو''۔

''ہاں'' لڑکی نے جواب دیا اور ذرا سا بھی سوچے بغیر کہہ دیا …… ''میرادنیا میں کوئی نہیںرہا ۔ اگر میرے ساتھ کرک چلے چلو تومیں تمہارے ساتھ شادی کرلوں گی ''۔

عماد بیدار سا ہوگیا۔ اس نے کہا …… ''پھر تم مجھے کہو گی کہ اپنا مذہب تبدیل کرلو، جو میں نہیں کر سکوں گا۔ تم شوبک چل کر میرے ساتھ شادی کرو اور مسلمان ہوجائو ''۔

''مجھے بہرحال کرک جانا ہے ''۔لڑکی نے کہا …… ''اگر میرے ساتھ وہاں تک چلو گے تو تمہاری دنیا بدل جائے گی''۔

لڑکی نے سودا بازی شروع کردی تھی لیکن عماد کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ۔ یہ سوچ ایسی تھی جسے وہ سمجھ نہیں سکتا تھا ۔ وہ بار بار لڑکی کے چہرے ، ا س کے ریشمی بالوں اور آنکھوں کو دیکھتا اور سر جھکا کر سوچ میں کھو جاتا تھا۔ لڑکی کی جیسے وہ کوئی بات سن ہی نہیں رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد لڑکی کا چہرہ گہری شام کی تاریکی میں چھپ گیا۔ اس نے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے میں سے کھانے کی دو تین چیزیں نکالیں۔ لڑکی کو دیں اور خود بھی کھائیں۔ اس کا جسم اس قدر نڈھال تھا کہ جونہی لیٹا اس کی آنکھ لگ گئی۔

٭ ٭ ٭

آدھی رات کے بہت بعد لڑکی نے کروٹ بدلی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے عماد کو دیکھا۔ وہ خراٹے لے رہا تھا ۔ ان سے چند قدم دور گھوڑے کھڑے تھے ، رات کے پچھلے پہر کا چاند ٹیلوں کے اوپر آگیا تھا ۔ صحرائی چاندنی آئینے کی طرف شفاف تھی ۔ لڑکی نے گھوڑوں کو دیکھا، عماد کو اتنا ہوش بھی نہ تھا کہ سونے سے پہلے گھوڑوں کی زینیں اتار دیتا۔ لڑکی نے گھوڑے تیار دیکھے ، عماد کو گہری نیند سوئے دیکھا اور یہ بھی محسوس کیا کہ پیٹ میں خوراک اور پانی جانے اس کا جسم تروتازہ ہوگیا ہے تو اس نے اپنے چغے کے اندر ہاتھ ڈالا۔ جس اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس کی اتنی دلکش انگلیوں نے ایک خنجر کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا ۔ چاندنی میں اسے عماد کا چہرہ نظر آرہا تھا ۔ وہ تو بیہوشی کی نیند سویا ہواتھا۔ لڑکی نے چاندنی میں چمکتے ہوئے خنجر کو دیکھا اور ایک بار پھر عماد کے چہرے پر نظر ڈالی۔ عماد آہستہ سے کچھ بڑبڑایا۔ وہ نیند میں بول رہا تھا ۔ لڑکی یہی سمجھ سکی کہ وہ گھر والوں کو یاد کر رہا ہے۔

لڑکی نے عماد کے سینے کو غور سے دیکھا اور اندازہ کیا کہ اس کا دل کہاں ہے؟ وہ ایک سے دوسرا وار نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ یہ وار دل پر ہونا چاہیے تھا تا کہ عماد فوراً مر جائے ورنہ وہ مرتے مرتے بھی اسے مار ڈالے گا۔ لڑکی نے خنجر کو اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑوں کو دیکھا ۔ اس نے دل ہی دل میں پوراعمل دہرایا ۔ وہ خنجر دل میں اتار دے گی اور بھاگ کر ایک گھوڑے پر سوار ہوجائے گی اور گھوڑے کو ایڑ لگا دے گی۔ وہ سپاہی نہیں تھی ورنہ وہ بلا سوچے سمجھے خنجر مار کر عماد کو ختم کردیتی۔ یہی وجہ کافی تھی کہ عماد مسلمان ہے اور اس کا دشمن، مگر وہ بار بار عماد کے چہرے پر نظریں گاڑ لیتی تھی اور جب اسے قتل کرنے کے لیے خنجر مضبوطی سے پکڑتی تھی تو اس کا دل دھڑکنے لگتا تھا۔ عماد ایک بار پھر بڑبڑایا۔ اب کے اس کے الفاظ ذرا صاف تھے۔ وہ خواب میں اپنے گھر پہنچا ہوا تھا۔ اس نے ماں کا نام لیا ، بہن کو بھی یاد کیا اور کچھ ایسے الفاظ کہے جیسے انہیں قتل کر دیا گیا اور عماد قاتلوں کو ڈھونڈتا رہا تھا۔

کوئی احساس یا جذبہ لڑکی کا ہاتھ روک رہا تھا ۔ خوف بھی ہو سکتا تھا۔ یہ قتل نہ کرنے کا جذبہ بھی ہو سکتا تھا ۔ لڑکی بے چین ہوگئی ۔ اس نے یہ ارادہ کیا کہ قتل نہ کرے ۔ آہستہ سے اُٹھے۔ گھوڑے پر بیٹھے اور آہستہ آہستہ اس کھڈ سے نکل جائے ۔ وہ اُٹھی اور خنجر ہاتھ میں لیے گھوڑے کی طرف چل پڑی مگر ریت نے اس کے پائوں جکڑ لیے ۔ اس کے رک کر عماد کو دیکھا تو اچانک اس کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اس مرد نے اتنی بھی پرواہ نہیں کی کہ اسے ایک جوان لڑکی تنہائی میں مل گئی ہے اور اس نے یہ بھی نہیں سوچا کو یہ لڑکی عیسائی ہے جو اسے سوتے میں قتل کر سکتی ہے اور اس نے گھوڑے کی زینیں بھی نہیں اتاریں اور اس نے اپنی برچھی اور تلوار بھی احتیاط سے نہیں رکھی ۔ کیوں ؟ کیا اسے مجھ پر بھروسہ تھا ؟ کیا یااتنا ہی بے حس ہے کہ میری جوانی اس کے اندر کوئی جذبہ بیدار نہیں کر سکی ؟ ……اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس آدمی نے اسے گھوڑے سے زیادہ قیمتی نہیں سمجھا ۔ وہ آہستہ آہستہ ایک گھوڑے تک پہنچی ۔ گھوڑا ہنہنایا۔ لڑکی نے گھبرا کر عماد کو دیکھا ۔ گھوڑے کی آواز پر بھی اس کی آنکھ نہ کھلی ۔

وہ تین گھوڑوں کی اوٹ میں کھڑی ایک گھوڑے پر سوار ہونے کا ارادہ کر رہی تھی کہ اسے اپنے عقب سے آواز سنائی دی۔ ''کون ہو تم ؟''…… لڑکی نے چونک کر پیچھے دیکھا ۔ ایک آدمی نے منہ سے وسل بجائی اور کہا …… ''ہماری یہ قسمت ؟''…… و ہ دو تھے ۔ دوسرا ہنسا۔ لڑکی زبان سے پہچان گئی کہ یہ صلیبی ہیں ۔ ایک نے لڑکی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کھینچا۔ لڑکی نے کہا …… ''میں صلیبی ہوں ''…… دونوں آدمی ہنس پڑے اور ایک نے کہا …… ''پھر تو تم سالم ہماری ہو ۔ آئو ''۔

''ذرا ٹھہرو اور میری بات سنو ''…… اس نے کہا ……''میں شوبک سے فرار ہو کر آئی ہوں ۔ میرا نام ایونا ہے ۔ میں جاسوسی کے شعبے کی ہوں۔ کرک جا رہی ہوں۔ وہ دیکھو ایک مسلمان سپاہی سویا ہوا ہے۔ اس نے مجھے پکڑ لیا تھا۔ میں اسے سوتا چھوڑ کر بھاگ رہی ہوں۔ میری مدد کرو۔ یہ گھوڑے سنبھالو اور مجھے کرک پہنچا ئو''۔ اس نے انہیں اچھی طرح سمجھایا کہ وہ صلیبی فوج کے لیے کتنی قیمتی اور کارآمد لڑکی ہے۔

ایک صلیبی نے اسے وحشیوں کی طرح بازوئوں میں جکڑ لیا اور کہا …… ''کہاں کہو گی پہنچا دیں گے ''۔ دوسرے نے ایک بیہودہ بات کہہ دی اور دونوں اسے ایک طرف دھکیلنے لگے ۔ وہ صلیبی فوج کے پیادہ سپاہی تھے۔ جو مسلمان چھاپہ ماروں سے بھاگتے پھر رہے تھے۔ رات کو وہ چھپ کر ذرا آرام کرنا چاہتے تھے۔ ایسی خوبصورت لڑکی نے انہیں حیوان بنا دیا ۔ لڑکی نے جب دیکھا کہ انہیں صلیب کا بھی کوئی خیال نہیں تو اس نے اس اُمید پر بلند آواز سے بولنا شروع کر دیا کہ عماد جاگ اُٹھے گا۔ اسے سپاہیوں نے گھسیٹنا شروع کردیا۔

اچانک ایک نے گھبرائی ہوئی آواز میں اپنے ساتھی کا نام لے کر کہا …… ''بچو ''……مگر اس کے بچنے سے پہلے ہی عماد کی برچھی اس کی پیٹھ میں اتر چکی تھی ۔ دوسرے نے تلوار سونت لی ۔ اس وقت لڑکی نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں خنجر ہے۔ اس نے خنجر صلیبی سپاہی کے پہلو میں گھونپ دیا ۔ یکے بعد دیگرے دو اور وار کیے اور چلا چلا کر کہا …… ''تمہیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ تم صلیب کے نام پر غلیظ داغ ہو''۔

جب دونوں صلیبی ٹھنڈے ہوگئے تو لڑکی بے قابو ہو کر رونے لگی۔ عماد نے اسے بہلایا اور کہا …… ''اب یہاں رُکنا ٹھیک نہیں ۔ ہو سکتا ہے زیادہ سپاہی ادھر آنکلیں۔ ہم ابھی شوبک کو روانہ ہوجاتے ہیں ''۔ اس نے لڑکی سے پوچھا …… ''انہوں نے تمہیں جگایا تھا ؟''

''نہیں ''۔لڑکی نے جواب دیا …… ''میں جاگ رہی تھی اور گھوڑوں کے پاس کھڑی تھی ''۔

''وہاں کیوں ؟''

''گھوڑے پر سوار ہو کر بھاگنے کے لیے ''۔لڑکی نے اعتراف کرتے ہوئے کہا ۔ ''میں تمہارے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی ''۔

''تم نے خنجر کہاں سے لیا ؟''

''میرے پاس تھا ''۔لڑکی نے جواب دیا …… ''میں نے پہلے ہی ہاتھ میں لے رکھا تھا ''۔

''پہلے ہی ہاتھ میں کیوں لے رکھا تھا ؟'' عماد نے پوچھا …… ''شاید اس لیے کہ میں جاگ اُٹھوں تو تم مجھے قتل کر دو ''۔

لڑکی نے جوا نہ دیا ۔ عماد کو دیکھتی رہی ۔ کچھ دیر بعد بولی …… ''میں تمہیں قتل کرکے بھاگنا چاہتی تھی۔ پیشتر اس کے کہ تم مجھے قتل کرو، میں تمہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ میں نے یہ خنجر تمہیں قتل کرنے کیلئے کھولا تھا لیکن ہاتھ اُٹھا نہیں ۔ میں یہ نہیں بتا سکتی کہ میں نے تمہارے دل میں خنجر کیوں نہیں اُتارا۔ تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں تھی ۔ میں بزدل نہیں ۔ پھر بھی میں تمہیں قتل نہ کر سکی۔ میں کوئی وجہ بیان نہیں کر سکتی ۔ شاید تم کچھ بتا سکو ''۔

''زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ''۔عماد نے کہا ……''تمہارا ہاتھ میرے خدا نے روکا تھا اور تمہاری عزت خدا نے بچائی ہے ۔ میرا وجود تو ایک بہانہ اور سبب تھا …… کسی گھوڑے پر سوار ہوجائو اور چلو ''۔

لڑکی نے خنجر عماد کی طرف بڑھا کر کہا ……''میرا خنجر اپنے پاس رکھ لو ورنہ میں تمہیں قتل کر دوں گی ''۔

''تم میری تلوار بھی اپنے پاس رکھ لو ''۔ عماد نے کہا …… ''تم مجھے قتل نہیں کر سکو گی ''۔ یہ مذاق نہیںتھا ۔ دونوں پر سنجیدگی طاری تھی ۔ وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور تیسرا گھوڑا ساتھ لے کر چل پڑے ۔

سورج نکلنے تک وہ اس علاقے میں پہنچ چکے تھے جہاں کوئی صلیبی سپاہی نظر نہیں آتا تھا ۔ عماد کی اپنی فوج کے چند سپاہی اسے نظر آئے خ جن کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور چلتے گئے۔ اپریل کا سورج بہت ہی گرم تھا ۔ وہ منہ اور سر لپیٹے ہوئے چلتے گئے۔ دور سے ریت پانی کے سمندر کی طرح چمکتی نظر آتی تھی اور بائیں سمت ریتلی سلوں کی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ سفر کے دوران وہ آپس میں کوئی بات نہ کر سکے۔ گرمی کے علاوہ ان لاشوں نے بھی ان پر خاموشی طاری کر رکھی تھی۔ جو انہیں ادھر ادھر بکھری ہوئی نظر آرہی تھیں ۔ کوئی ایک لاش سالم نہیں تھی ۔ گدھوں اور درندوں نے ان کے اعضاء الگ الگ کر دئیے تھے۔ بعض لاشوں کی صرف ہڈیاں اور کھوپڑیاں رہ گئی تھیں۔ عماد نے لڑکی سے کہا …… ''یہ تمہاری قوم کے سپاہی ہیں ۔ یہ ان بادشاہوں کی خواہشوں کا شکار ہوگئے ہیںجو اسلامی سلطنت اسلامی کو ختم کرنے برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور نہ جانے کہاں کہاں سے آئے ہیں''۔

لڑکی خاموش رہی ۔ وہ بار بار عماد کو دیکھتی تھی اور آہ بھر کر سر جھکا لیتی تھی۔ عماد نے سلوں کی پہاڑیوں کا رخ کرلیا۔ اسے معلوم تھا کہ وہاں پانی ضرور ہوگا اور سایہ بھی ۔ سورج ان کے پیچھے جانے لگا تو وہ پہاڑیوں میں پہنچ گئے۔ تلاش کے بعد انہیںہری جھاڑیاں اور گھاس نظر آگئی۔ ایک جگہ سے پہاڑی کا دامن پھٹا ہوا تھا۔وہاں پانی تھا وہ گھوڑوں سے اُترے۔ پہلے خود پانی پیا پھر گھوڑوں کو پانی پینے کے لیے چھوڑ دیا اور سائے میں بیٹھ گئے۔

''تم کون ہو؟''…… لڑکی نے اس سے پوچھا …… ''تمہارا نام کیا ہے ؟ کہاں کے رہنے والے ہو؟''

''میں مسلمان ہوں ''۔ عماد نے جواب دیا …… ''میرا نام عماد ہے اور میں شامی ہوں''۔

''رات خواب میں تم کسے یاد کر رہے تھے ؟''

''یاد نہیں رہا ''۔عماد نے کہا …… ''میں شاید خواب میں بول رہا ہوں گا۔ میرے ساتھی مجھے بتایا کرتے ہیں کہ میں خواب میں بولا کرتا ہوں''۔

''تمہاری ماں ہے؟بہن ہے ؟'' لڑکی نے پوچھا اور کہا …… ''تم شاید انہیں یاد کر رہے تھے ''۔

''تھیں کبھی !'' عماد نے آہ بھر کر کہا …… ''اب انہیں خواب میں دیکھا کرتا ہوں''۔

لڑکی نے اس سے ساری بات پوچھنے کی بہت کوشش کی لیکن عماد نے اور کچھ نہیں بتایا۔ اس نے لڑکی سے کہا …… ''تم نے اپنے متعلق جھوٹ بولا تھا ۔ مجھے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تم کون ہو۔ میں تمہیں متعلقہ حاکم کے حوالے کرکے واپس آجائوںگا۔ اگر سچ بول سکو تو اپنے متعلق کچھ بتا دو لیکن یہ نہ کہنا کہ تم ان صلیبی لڑکیوں میں سے نہیں ہو جو ہمارے ملک میں جاسوسی کے لیے آتی ہیں ''۔

''تم ٹھیک کہتے ہو ''۔ لڑکی نے کہا …… ''میں جاسوس لڑکی ہوں ۔ میرا نام ایونا ہے ''۔

''تمہارے ماںباپ کو معلوم ہے کہ تمہارا کام کس قسم کا ہے ؟''عماد نے پوچھا۔

''میرے ماں باپ نہیں ہیں ''۔ایونا نے جواب دیا …… ''میں نے ان کی صورت بھی نہیں دیکھی ۔ میرا محکمہ میری ماں اور اس محکمہ کا حاکم ہرمن میرا باپ ہے ''…… اس نے یہ بات یہیںختم کر دی اور کہا …… ''میری ایک ساتھی لڑکی نے ایک مسلمان سپاہی کو بچانے کے لیے زہر پی لیا تھا۔ میں اس وقت بہت حیران ہوئی تھی کہ کوئی صلیبی لڑکی ایک مسلمان کے لیے اتنی بڑی قربانی کر سکتی ہے؟ میں آج محسوس کر رہی ہوں کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔ پتہ چلا تھا کہ اس مسلمان سپاہی نے بھی تمہاری طرح اس لڑکی کو ڈاکوئوں سے لڑکر بچایا ، خود زخمی ہوگیا اور لڑکی کو شوبک تک پہنچایاتھا۔ تمہاری طرح اس نے بھی دھیان نہیں دیا تھا کہ وہ لڑکی کتنی خوبصورت ہے ۔ لوزینا بہت خوبصورت لڑکی تھی ۔ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میں تمہاری خاطر اپنی جان قربان کردوں گی''۔

''میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے ''۔ عماد نے کہا …… ''ہم لوگ حکم کے پابند ہوتے ہیں ''۔

''شاید یہ جذبات کا اثر ہے کہ میں ایسے محسوس کرتی ہوںجیسے میں نے پہلے بھی تمہیں کہیں دیکھا ہے ''۔

''دیکھا ہوگا''۔ عماد نے کہا …… ''تم مصر گئی ہوگی ۔ وہاں دیکھا ہوگا''۔

''میں مصر ضرور گئی ہوں ''۔لڑکی نے کہا …… ''تمہیں نہیں دیکھا تھا ''۔اس نے مسکرا کر پوچھا …… ''میرے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا میں خوبصورت نہیں ہوں ''۔

''تمہاری خوبصورتی سے میں انکار نہیں کر سکتا ''۔عماد نے سنجیدگی سے کہا …… ''میں سمجھ گیا ہوں تم نے یہ سوال کیا ہے۔ تم ضرور حیران ہوگی کہ میں نے تمہارے ساتھ وہ سلوک کیوں نہیں کیا ہے جو تمہاری صلیب کے دو سپاہیوں نے تمہارے ساتھ کرنا چاہا تھا۔ ہو سکتا ہے تمہارے دل میں میرے لیے یہ خوف ابھی تک موجود ہو کہ میں تمہیں دھوکہ دے رہا ہوں اور تمہیں شوبک لے جا کر خراب کروں گا یا تمہارے ساتھ تمہاری مرضی کے خلاف شادی کر لوںگا یا تمہیں بیچ ڈالوں گا۔ میں تمہارا یہ خوف دور کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ لڑکی میرے مذہب کی ہو یا کسی دوسرے مذہب کی میں کسی لڑکی کو بری نظر سے دیکھ ہی نہیںسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں جب تیرہ چودہ سال کا تھا تو میری ایک چھوٹی سی بہن اغوا ہوگئی تھی۔ اس کی عمر چھ سات سال تھی ۔ سولہ سال گزر گئے ہیں۔ اسے شوبک کے عیسائی اٹھا لے گئے تھے ۔ میں نہیں جانتا کہ وہ زندہ ہے یا مر گئی ہے۔ اگر زندہ ہے تو کسی امیر کے حرم میں ہوگی یا تمہاری طرح جاسوسی کرتی پھر رہی ہوگی۔ میں جس لڑکی کو دیکھتا ہوں اسے اپنی بہن سمجھ لیتا ہوں۔ اسے بری نظر سے اس لیے نہیں دیکھتا کہ وہ میری گمشدہ بہن ہی نہ ہو۔ میں تمہیںصرف اس لیے شوبک لے جا رہا ہوں کہ محفوظ رہو۔ میں جانتا تھا کہ صحرا میں اکیلے جانے اور پیدل چلنے سے تمہارا کیا حشر ہوتا اور تم کسی کے ہاتھ چڑھ جاتیں تو تمہارا حال وہی ہوتا جو تمہارے اپنے صلیبی بھائی کرنے لگے تھے۔ مجھے اپنی خوبصورتی کا احساس نہ دلائو۔ میں اس احساس کے لحاظ سے مردہ ہوں۔ مجھے لذت ان صحرائوں میں صلیبیوں کے تعاقب میں گھوڑا دوڑاتے اور ان کا خون بہاتے ملتی ہے ''۔

لڑکی اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں پیار کا تاثر تھا ۔اس کے ساتھ ایسی باتیں کسی نے نہیں کی تھیں۔ اسے بے حیائی اور عیاری کے سبق دئیے گئے تھے اور اس کی باتوں اور چال ڈھال میں بڑی محنت سے جنسی کشش پیدا کی گئی تھی۔ اسے ایک بڑا ہی خوبصورت فریب بنایاگیا تھا۔ اس پر حسن اور شراب کانشہ طاری کیا گیا تھا ۔ اسے عصمت کے موتی سے محروم رکھا گیا تھا اور وہ اس ٹریننگ کے بعد اپنی ساتھی لڑکیوں کی طرح اپنے آپ کو مردوں کے دلوں پر راج کرنے والی شہزادی سمجھنے لگی تھی۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ اس کا گھر کہاں ہے اور اس کے ماں باپ کیسے تھے۔ عماد کی جذباتی باتوں نے اس کی ذات میںایک عورت کے جذبات بیدار کردئیے۔ وہ گہری سوچ کے عالم میں کھو گئی۔ جیسے و ہ بے تکلف ہوگئی ہو۔

اس نے گہری سوچ کے عالم میں کہا …… ''ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد آتا ہے کہ مجھے ایک گھر سے اُٹھایا گیا تھا۔ مجھے یاد نہیں آرہا کہ اس وقت میری عمرکیا تھی ''۔  اس نے اپنے بالوں میں دونوں ہاتھ پھیرے اور بالوں کو دونوں مٹھیوں میں لے کر جھنجھوڑا جیسے پرانی یادوں کو بیدار کرنے کی کوشش کررہی ہوں۔ اس نے اُکتا کرکہا …… ''کچھ یاد نہیں آتا۔ میرا ماضی شراب اور عیش و عشرت اور حسین عیاریوں میں گم ہوگیا ہے۔ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا کو میرے والدین کون تھے اورکیسے تھے۔ مجھے کبھی ماں باپ کی ضرورت محسوس ہوئی ہی نہیں۔ میرے اندر جذبات تھے ہی نہیں۔ مجھے معلوم ہی نہیں کہ مرد باپ اور بھائی بھی ہو سکتا ہے ۔ مرد مجھے اپنی تفریح کے استعمال کی چیز سمجھتے ہیں لیکن میں مردوں کو استعمال کیا کرتی ہوں۔ جس پر میری خوبصورتی اور میری جوانی کانشہ طاری ہو اسے میں حشیش اور شراب سے اپنا غلام بنا لیا کرتی ہوں ۔ مگر اب تم نے جو باتیں کیں ہیں انہوں نے مجھ میں وہ حسیں بیدار کردی ہیں جوماں، باپ، بہن اور بھائی کا پیار مانگتی ہیں ''۔

اس کی بے چینی بڑھتی گئی ۔ وہ رک رک کر بولتی رہی پھر بالکل ہی چپ ہوگئی۔ کبھی عماد کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگتی اور کبھی اپنے سر پرہاتھ رکھ کر اپنے بال مٹھی میں لے کرجھنجھوڑنے لگتی۔ وہ دراصل گم گشتہ ماضی اور حال کے درمیان بھٹک گئی تھی ۔ عماد نے جب اسے کہا کہ اُٹھو چلیں، تو وہ بھولے بھالے معصوم سے بچے کی طرح اس کے ساتھ چل پڑی ۔ ان کے گھوڑے انہیں پہاڑی علاقے سے بہت دور لے گئے تو بھی وہ عماد کو دیکھ رہی تھی ۔ صرف ایک بار اس نے ہنس کرکہا …… ''مرد کی باتوں اور وعدوں پرمیں نے کبھی اعتبار نہیں کیا ۔ میں سمجھ نہیں سکتی کہ میں کیوں محسوس کر رہی ہوں کہ مجھے تمہارے ساتھ جانا چاہیے'' …… عماد نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرادیا۔

٭ ٭ ٭

وہ جب شوبک کے دروازے پرپہنچے تو اگلے روز کا سورج طلوع ہو رہاتھا ۔ وہ صحرا میں ایک اوررات گزار آئے تھے۔ عماد لڑکی کو جہاں لے جانا چاہتا تھا اس جگہ کے متعلق پوچھ کر وہ چل پڑا۔ گھوڑے شہر میں سے گزر رہے تھے ۔ لوگ ایونا کو رک رک کر دیکھتے تھے۔ چلتے چلتے عماد نے ایک مکان کے سامنے گھوڑا روک لیا اور بند دروازے کو دیکھنے لگا۔ ایونا نے اس سے پوچھا …… ''یہاں کیوں رُک گئے؟'' ……اس نے جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ دروازے کے قریب جا کر گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے اس نے دروازے پر آہستہ آہستہ ٹھوکریں ماریں۔ ایک بزرگ صورت انسان نے دروازہ کھولا۔

''یہاں کون رہتا ہے ؟'' عماد نے عربی زبان میں پوچھا۔

''کوئی نہیں ''۔ بوڑھے نے جواب دیا …… ''عیسائیوں کا ایک خاندان رہتا تھا۔ ہماری فوج آگئی تو پورا خاندان بھاگ گیا ہے ''۔

''اب آپ نے اس پر قبضہ کر لیا ہے؟''

بوڑھا ڈر گیا ۔ اس نے دیکھا کہ یہ سوار فوجی ہے اور اس سے باز پرس کررہا ہے کہ عیسائی کے مکان پر اس نے کیوں قبضہ کر لیا ہے جبکہ سلطان ایوبی نے منادی کے ذریعے حکم جاری کیا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف سے کسی عیسائی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے ورنہ سخت سزا دی جائے گی۔ بوڑھے نے کہا …… ''میں نے قبضہ نہیں کیا ۔ اس کی حفاظت کے لیے یہاں آگیا ہوں ۔

میں اسے بالکل بند کردوں گا۔ اس کا مالک زندہ ہے ۔ وہ مسلمان ہے اور پندرہ سولہ سال سے بیگار کیمپ میں پڑا ہے ''۔

''کیا امیرمصر نے انہیں کیمپ سے رہا نہیں کیا ؟'' عماد نے پوچھا۔

''وہاں کے سب مسلمان آزاد ہیں مگر ابھی کیمپ میں ہی ہیں ''۔ بوڑھے نے جواب دیا …… ''اس سب کی حالت اتنی بری ہے کہ قابل احترام سالار اعظم ایوبی نے ان کے لیے دودھ، گوشت، دوائیوں اور نہایت اچھے رہن سہن کا انتظام وہیں کر دیا ہے ۔ بہت سے طبیب ان کی دیکھ بال کررہے ہیں ۔ ان میں جس کی صحت بحال ہوجاتی ہے اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں جو رہتے ہیں انہیں ان کے رشتہ داروہیں ملنے جاتے ہیں۔ اس مکان کا مالک بھی وہیں ہے۔ ایک تو اس کابڑھاپا ہے اور دوسرے کیمپ کی پندرہ سولہ سالوں کی اذیتیں۔ بے چارہ صرف زندہ ہے۔ میں اسے دیکھنے جایا کرتا ہوں۔ اُمید ہے صحت یاب ہوجائے گا۔ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کا مکان خالی ہوگیا ہے''۔

''اس کے رشتہ دار کہاں ہیں؟''عماد نے پوچھا ۔

''کوئی بھی زندہ نہیں ہے ''۔ بوڑھے نے جواب دیا اور تین چار گھر چھوڑ کر ایک مکان کی طرف اشارہ کرکے کہا…… ''وہ میرا ذاتی مکان ہے۔ میں ان لوگوں کا صرف پڑوسی تھا ۔ آپ مجھے ان کا رشتہ دار بھی کہہ سکتے ہیں''۔

عماد یہ پوچھ کر کہ اندر مستورات نہیں ہیں، گھوڑے سے اُتر کر اندر چلاگیا۔ کمروں میں گیا۔ دیواروں پر ہاتھ پھیرا۔ اَیونا بھی اندر چلی گئی۔ اس نے عماد کو دیکھا وہ آنسو پونچھ رہاتھا ۔ اَیونا نے آنسوئوں کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا …… ''اپنے بچپن کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ میں اس گھر سے بھاگا تھا۔ یہ میرا گھر ہے '' …… اس کے آنسو بہنے لگے۔ اس نے بوڑھے سے پوچھا …… ''ان کے رشتے دار مر گئے ہیں ؟ ان کی کوئی اولاد بھی تھی ؟''

''صرف ایک لڑکا بچا تھا، جو عیسائی ڈاکوئوں سے بچ کر میرے گھر آگیا تھا''۔ بوڑھے نے جواب دیا …… ''اسے میں نے شام کو روانہ کر دیا تھا ، اگر یہاں رہتا تو مارا جاتا''۔

عماد کو وہ رات یاد آگئی جب وہ اس گھر سے بھاگ کر پڑوسی کے گھر جا چھپا تھا ۔ وہ یہی پڑوسی تھا مگر اس نے بوڑھے کو بتایا نہیں کہ وہ لڑکا جسے اس نے شوبک سے شام کو روانہ کر دیا تھا ، وہ یہی جوان ہے، جسے وہ یہ کہانی سنا رہا ہے۔ عماد کے لیے جذبات پر قابوپانا محال ہوگیالیکن وہ سخت جان فوجی تھا۔ اس نے بوڑھے سے کہا …… ''میں اس مکان کے مالک سے ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے ان کا نام پتا بتادو''۔ بوڑھے نے اس کے باپ کا نام بتا دیا ۔ عماد کو اپنے باپ کا نام اچھی طرح سے یاد تھا۔

''اس لڑکے کی ایک بہن تھی ''۔ بوڑھے نے کہا …… ''بہت چھوٹی تھی ۔ اسے عیسائیوں نے اغوا کر لیا تھا۔اسی ضمن میں اس گھر کے سارے افراد عیسائیوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے ''۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 جاری ھے ، " جب ایونا عائشہ بنی")، شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔