Thursday 22 September 2016

اندھیری رات کے مسافر. باپ اور بیٹا

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 53.
باپ اور بیٹا____________موت کا راستہ دکھانے والے مجرم ہیں-
حامد بن زہرہ ان نیک طینت لوگوں کے ضمیر کی آواز تھا جنہیں بد ترین مصائب بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتے-
اگر ہم ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیتے اور اس سے یہ کہتے کہ ہم دشمن کی غلامی پر رضامند ہو چکے ہیں اور صرف زندہ رہنے کے لیے ہر قسم کی ذلت و رسوائی برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں تو دنیا ہمیں بزدل اور بے غیرت ہونے کا طعنہ دیتی-
پھر بھی ہم اس امید پر زندہ رہتے کہ موجودہ دور کے اندھیرے دائمی نہیں ہیں-
ہمیں دوبارہ اٹھنے اور سنبھلنے کے لیے موزوں حالات کا انتظار رہتا ہم مایوسی کے دور میں ان رہنماؤں کا انتظار کرتے جو بھٹکے ہوئے قافلوں کے لیے روشنی کا مینار بن جاتے ہیں اور جن کی آواز مردہ رگوں میں خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے-
اگر حامد کو اپنے مقصد میں کامیابی نہ بھی ہوتی تو بھی یہ امید باقی رہتی کہ اس سے بہتر دیکھنے اور سمجھنے والے اس سے زیادہ حوصلے اور عزم و یقین کے ساتھ ابھریں گے اور ہماری آئندہ نسلیں ان کی روشنی میں اپنے ضمیر کی روشنی میں اپنی بقا اور سلامتی کے راستے دیکھیں گی لیکن حامد بن زہرہ کا قتل اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم نے دائمی اندھیروں کے ساتھ نہ صرف اپنا بلکہ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی وابستہ کر دیا ہے-
اب اس ظلمت کدہ میں کبھی روشنی نہیں ہو گی.
ہم اس تاریک رات کے مسافر ہوں گے جس کا دامن مہ و انجم کی ضیا پاشیوں سے خالی ہو گا-
وہ اس بد نصیب قوم کی رگوں میں زندگی کا آخری قطرہ تھا اور جس زمین میں یہ خون گرا ہے وہ شاید قیامت تک ہماری بے حسی کا ماتم کرتی رہے گی-
اب کوئی سرپھرا حامد بن زہرہ کے راستے پر چلنے کی جرات نہیں کرے گا-
ابوالقاسم کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی-
اس نے اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا ہاشم اگر غرناطہ کو مزید تباہی سے بچانا کوئی جرم تھا تو اس کی ذمہ داری تنہا میری ذات پر نہیں-
تم خود اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہو کہ اب ہم دوبارہ جنگ کرنے کے قابل نہیں رہے-
اس لیے اگر حامد واپس آ بھی گیا تو بھی اسے اشتعال انگیزی کا موقع دینا ایک غلطی ہو گی-
تم نے اس بات کی ذمہ داری قبول کی تھی تم قبائل کو اس کا ساتھ دینے سے منع کرو گے-
اب تم صرف اس خوف سے اپنا موقف تبدیل کر رہے ہو کہ تمہیں لوگوں کے سامنے رسوائی کا ڈر ہے لیکن میرے خلاف زبان کھولنے سے پہلے یہ اچھی طرح سوچ لو کہ تمہارا اپنا بیٹا براہ راست اس جرم کا حصہ بن چکا ہے-
تم زیادہ سے زیادہ ایک دن یا دو دن لوگوں کو میرے خلاف مشتعل کر سکو گے-
لیکن وہ با اثر لوگ جن کے بیٹے دشمن کے پاس یرغمال کے طور پر ہیں تمہاری تائید نہیں کریں گے وہ تمہیں شاید زبان کھولنے کا موقع بھی نہ دیں.
میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ غرناطہ کے وہ مفتی اور خطیب جن کی آواز عوام پر اثر انداز ہو سکتی ہے ہر صورت حال سے نپٹنے کے لیے ہر حال میں میرا ساتھ دیں گے-"
ہاشم نے شکست خوردہ ہو کر کہا اگر میں عوام کو منہ دکھانے کے قابل ہوتا تو سب سے پہلے اپنی بزدلی اور بے غیرتی کا اعتراف کرتا اگر میں چپ رہوں گا تو تمہارے خوف سے نہیں بلکہ اپنی شرم و ندامت کے باعث رہوں گا"-
لیکن تم گواہ رہنا میں حامد بن زہرہ کے قتل کی سازش میں حصہ دار نہیں ہوں"-
ابو القاسم چند لمحے غصے اور اضطراب کی حالت میں اس کی طرف دیکھتا رہا پھر اس نے اپنے چہرے پر حقارت آمیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا:
اب تک تو صرف چند آدمیوں کو علم ہے کہ ہم نے غرناطہ کو اس کے شر سے بچا لیا ہے اور اگر تم اپنا منہ بند رکھو گے تو کوئی ان میں سے نہیں کہے گا کہ تمہارا بیٹا بھی اس کے قتل کی سازش میں شریک تھا کسی کو یہ گواہی دینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی کہ تم نے قبائل کو پر امن رکھنے کی ذمہ داری لی تھی-
تم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اب ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں-
فرق صرف یہ کہ مجھ پر ذمہ داری ڈال کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے ہو"-
اس وقت تمہیں آرام کی ضرورت ہے کل تک تمہاری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی اور تم محسوس کرو گے کہ ہم اپنے ضمیر کی چیخوں کے باوجود زندہ رہنا چاہتے ہیں-
مجھے اس بات کا کم صدمہ نہیں ہے کہ حامد بن زہرہ قتل ہو چکا ہے لیکن میں اس سلطنت کا وزیر ہوں جس کے عوام اپنے خون سے آزادی کے چراغ جلانے کی بجائے صرف بے بسی کے آنسوؤں سے زندگی کا سودا کرنا چاہتے ہیں-"
مجھے اس قبرستان کا محافظ منتخب کیا گیا ہے جس کے مکین کسی زندہ آدمی کی چیخ و پکار کو سننا پسند نہیں کرتے-
تم خود تسلیم کرتے ہو کہ تم نے اس کو غرناطہ آنے سے روکنے کی کوشش کی تھی.
کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم اہل غرناطہ سے مایوس ہو چکے ہو اور نئی جنگ کے الائم و مصائب سے بچنا چاہتے ہو؟ "-
تمہیں اس وقت میرے سوالات کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے مجھے یقین ہے کہ دو دن بعد جب تم البسین کے چوراہے میں لوگوں کی باتیں سنو گے تو تمہیں حامد بن زہرہ کی یاد پریشان نہیں کرے گی-"
ابوالقاسم نے تالی بجائی ایک مسلح آدمی کمرے میں داخل ہوا ابوالقاسم نے کہا انہیں مہمان خانے میں لے جاو! "
ہاشم چند لمحے غصے اور ندامت کی حالت میں ابوالقاسم کی طرف دیکھتا رہا بالآخر اس نے کہا اگر میں آپ کی قید میں نہیں تو مجھے اجازت دیجئے! "
ابوالقاسم نے کہا لوگ آدھی رات کو اپنے قیدیوں سے بحث نہیں کرتے اگر میں تمہارا دشمن ہوتا تو بھی تمہیں اس وقت بھیجنا گوارا نہ کرتا-
تم صبح تک آرام کرو اس وقت غرناطہ کی اب و ہوا کچھ ٹھیک نہیں ہےابهی حامد بن زہرہ کے طرف دار کافی چوکس ہوں گے ہو سکتا ہے کہ باہر نکلتے ہی تمہیں ان کا سامنا کرنا پڑے"-
حکومت کے حامیوں کا معاملہ تم سے مختلف ہے وہ اس جگہ ان کی آمد و رفت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے'
لیکن تم حامد کے پرانے ساتھی اور دوست ہو اگر اس وقت انہوں نے تمہیں یہاں سے نکلتے دیکھا تو ان کے دل میں کئی شکوک پیدا ہوں گے-
باقی رات تم یہاں آرام کرو! "
ہاشم نوکر کے ساتھ چل دیا لیکن دروازے کے قریب پہنچ کر وہ اچانک رک گیا اور مڑ کر دیکھتے ہوئے بولا عمیر تم میرے ساتھ آؤ! "
عمیر تنہائی میں اپنے باپ سے گفتگو کرنے کو تیار نہیں تھا اس نے ملتجی نگاہوں سے ابوالقاسم کی طرف دیکھا اور ابوالقاسم نے اس کے باپ سے مخاطب ہو کر کہا:
عمیر کو تھوڑی دیر کے لئے میرے پاس رہنے دیں مجھے اس سے کچھ ضروری بات کرنی ہے"-
ہاشم چند لمحے کرب کی حالت میں دیکھتا رہا اور پھر اچانک باہر نکل گیا.
____________○_________
ابوالقاسم نے عتبہ اور عمیر کی طرف متوجہ ہو کر کہا"-
اگر حامد کا بیٹا غرناطہ پہنچ چکا ہے تو ہمیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا اور اگر وہ تمہیں چکمہ دے کر کسی اور طرف نکل گیا ہے تو اسے تلاش کرنا تمہاری سب سے بڑی ذمہ داری ہے:-
اسے کسی بھی حالت میں قبائل کو مشتعل کرنے کا موقع ملنا چاہئے-
اگر وہ گاؤں پہنچ گیا ہے تو عمیر کے لیے اس کا پتہ لگانا مشکل نہیں ہوگا"-
عمیر نے کہا جناب آپ فکر نہ کریں ہم صبح ہوتے ہی روانہ ہو جائیں گے"-
ابوالقاسم نے کہا_"
تمہیں زیادہ آدمی ساتھ لے جاتے کی ضرورت نہیں ہے موجودہ صورتحال میں ہم ان سے کھلے تصادم کا خطرہ مول نہیں لے سکتے-
اس کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ اس کے باپ کے قاتل کون تھے اور تمہارے لیے ایک دشمن کی بجائے ایک دوست کی حیثیت سے اسے. ......جاری ہے

No comments:

Post a Comment