Wednesday 14 September 2016

سمر قندی معمار.

نمازی: "کونسا معمار؟"
سمرقندی: "گهر والا اور کون؟" پهر اسے گهر والے کا حلیہ بتایا.
نمازی: "افسوس تجھ پر! وہی امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز(رح) ہیں. کہ اس وقت اللہ کے بعد روئے زمین پر اس سے بڑا حکمران کوئی نہیں ہے..."
اور وہ عورت؟......سمرقندی نے پوچها......وہ امیرالمومنین کی بیوی، خلیفہ عبدالملک کی بیٹی اور دو خلفاء ولید بن عبدالملک اور سلیمان کی بہن بعد میں بننے والے دو خلفاء کی ہمشیرہ، عرب کی معزز ترین عورت ہے.. امیرالمومنین بذات خود بڑے مالدار، خوش پوش اور خوش خوراک انسان تهے. لیکن ان میں دنیا کے مشہور ترین عادل حکمران عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رگ تهی جو انہیں اس حالت میں لے آئی.
واپس جا کر انہیں اپنا قصہ سنا اور خووف نہ کها.. اللہ کی قسم! یہ کوئی متکبر اور ظالم و جابر حکمران نہیں ہے. یہ تو متواضع اور منکسرالمزاج امیرالمومنین ہیں...انہیں حق بات نافذ کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی.. جب یہ اللہ کی خاطر غصہ میں آتے ہیں تو ہوائوں کے جهکڑ اور بادلوں کی بجلیاں اس کی قوت بن جاتی ہیں.
سمرقندی رجعت قهقری (دو قدم آگے کبھی دو قدم پیچھے ہٹنا) میں مبتلا ہو جاتا ہے...بہادری جوش مارتی ہے تو قدم اٹها لیتا ہے...رعب و دبدبہ کا تصور آتا ہے تو دل بجھ جاتا ہے.. وہ اپنے ملک کے حکمرانوں کے مسلح باڈی گارڈز کا تصور کرتا ہے تو تذبذب میں پڑ جاتا ہے. وہ سمجهتا ہے کہ بادشاہ تو وہ ہوتے ہیں جو تلوار کے زور پر حکمرانی کریں اور رعیت ڈر کر ان کی اطاعت کرے. عدل کی حکمرانی اور محبت کی اطاعت تو وہ جانتا ہی نہ تها... یہ بات دل میں جاگزیں ہوئی کہ ضرور یہ شخص مذاق کر رہا ہے..دوڑ کر اس نمازی کو پیچهے سے جا لیا اور کہا:
سمرقندی: "میرے بهائی تجهے اللہ کی قسم! سچ بتا، واقعی یہ امیرالمومنین کا گهر ہے؟"
نمازی: "جی ہاں! واقعی!"
یہ اس انسان کا گهر ہے جسے قرآن کی برکت نے قیصر و کسریٰ، فرعون و خاقان کے ممالک اور ان کے تاج کا وارث بنایا. چونکہ اس کا سر بلند تها اور یہ تاج چهوٹے تهے.. تاج وہاں تک نہ پہنچ پاتے تهے، اس لیے اس نے عرب کے تاج (عمامے) پسند کر لیے.
یہ اس آدمی کا گهر ہے جس کے سامنے دنیا کے ثمرات اور مال غنیمت کے اموال کشاں کشاں چلے آ رہے ہیں اور یہ سونا تول تول کر مستحقین کو دے رہا ہے. فقیروں کو جواہرات اور محتاجوں کو گهر دے رہا ہے لیکن خود ان چیزوں سے بے نیاز ہے. اپنے خاندان کو اس کے قریب نہیں پهٹکنے دیتا...... کیونکہ اس نے سونے چاندی اور جواہرات کے بدلے اپنے رب سے جنت کا سودا کر رکها ہے.
اس نے دنیا کو عاجزی اور لاچاری کی بنا پر ترک نہیں کیا بلکہ شاہی میں فقیری اختیار کی ہے. حکمران بننے سے پہلے وہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا چکا تها. اس کی رہبانیت بهی عجیب ہے.. نہ غار میں بیٹه کر ترک دنیا پر مائل، نہ مسجد میں یاد الٰہی کے بہانے حقوق العباد سے غافل....بلکہ دولت و ثروت اور حکومت و سلطنت کا مالک ہوکر زاہد بن گیا ہے.
یہ آگ میں داخل ہوا تو ہے لیکن جل نہیں رہا ہے. پانی میں چل تو رہا ہے لیکن بهیگ نہیں رہا. اس کے منہ میں ادیب کی زبان اور سر میں دانائی کے خزانے ہیں. سینے میں جرنیل کا دل ہے. دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کو اپنی فراست مومنانہ سے چلا رہا ہے. داخلہ اور خارجہ، عدلیہ اور انظامیہ جیسے محکمے اس کے اشاروں پر چل رہے ہیں.
    یہ قائد بهی ہے اور مفتی بهی، عالم بهی ہے اور معلّم بهی... اس کے حسن انتظام سے دنیا کی وسیع و عریض سلطنت میں امن و امان قائم ہو گیا. پوری مملکت میں دشمنیاں ختم ہوگئیں. مقابلہ کرنے والوں نے ہتهیار پهینک دیے. شیعہ اور خارجی بهائی بهائی بن گئے. مضری اور یمنی، کالے اور گورے نے صلح کر لی ہے..شیر اور بکری ایک گهاٹ پر پانی پینے لگے ہیں. حوادثات زمانہ جب اسے دیکهتے ہیں تو ساحل سمندر سے ٹکرا کر واپس مڑنے والی موج کی طرح پیچهے پلٹ جاتے ہیں.
      یہ امیرالمومنین سلیمان کو دفنا کر آ رہے تهے کہ باد نسیم کی طرح یہ خبر پهیل گئی: "عمر بن عبدالعزیز اموی کو خلیفہ بنا دیا گیا ہے."
یہ خبر پهیلتے ہی فضا مسرت کے نعروں سے گونجنے لگی. گویا عیدالفطر کا چاند طلوع ہو گیا ہو...سرکاری ملازم سونے اور جواہرات سے مرصع سواریاں لے کر حاضر ہوئے....اس نے پوچها یہ کس لیے؟
انہوں نے عرض کی: "یہ امیرالمومنین کے حفظِ مراتب کے لیے ہیں."
فرمایا: "مجهے ان سے کیا سروکار؟ لے جائو اور میرا خچر لے آئو."
خچر لایا گیا تو ایک سیکیورٹی افسر مسلح ہو کر دستور کے مطابق آگے آگے چلنے لگا.
فرمایا: "پیچهے ہٹ جائو، مجهے ایسی کوئی ضرورت نہیں، میں بهی ایک عام مسلمان ہوں.
چانچہ بغیر کسی حفاظتی دستے اور شاہی جهنڈے کے خچر پر سوار ہو کر وہ شخص جا رہا ہے جو شام، اندلس، مراکش، الجزائر، تیونس، طرابلس، مصر، حجاز، نجد، یمن، فلسطین، اردن، لبنان، عراق، ایران، آذربائجان، آرمینیا، کابل، بخارا اور سندھ جیسے بیس (20) بڑے بڑے صوبوں (اور موجودہ ملکوں) کا واحد حکمران ہے. جاتے ہی مسجد میں داخل ہو گیا...تمام لوگ صفوں پر بیٹھ گئے.. یہ منبر پر کهڑے ہو کر حمد و ثنا کے بعد یوں گویا ہوا:
"لوگو! مجهے مسلمانوں کے مشورے اور میری مرضی کے بغیر حکمران بنا دیا گیا ہے...میں تمہاری گردنوں سے اپنی بیعت واپس لیتا ہوں... جسے چاہو خلیفہ بنا لو."
یہ سنتے ہی تمام حاضرین بے ساختہ چیخ پڑے اور سب بیک آواز بولے: "ہم آپ کے علاوہ کسی کو نہیں چاہتے."
پهر یہ قصر خلافت کی طرف روانہ ہو گیا.. جاتے ہی حکم دیا کہ اس محل کے ریشمی پردے اتار دیے جائیں.. غالیچے اور قالین لپیٹ دیے جائیں.. سامان آرائش اکٹها کر دیا جائے..
جب فرمان خلافت کی تعمیل ہوگئی تو آپ نے ان سب چیزوں کو نیلام کر کے رقم بیت المال میں داخل کرادی.
    لوگوں نے سوچا یہ نیک آدمی ہے لیکن حکومت شاید اس کے بس کا روگ نہ ہو. انہوں نے سوچا کہ تسبیح ہاتھ میں لیے گوشے میں بیٹھ جائے گا......لیکن ہوا یہ کہ تسبیح کی جگہ قلم چل رہا ہے..سالہا سال کے مظالم لوٹائے جا رہے ہیں، ظالموں سے مظلوموں کے حقوق لیے جارہے ہیں. دن اور رات ایک کر کے ملکی نظم و نسق قرآنی اصولوں پر استوار کیا جارہا ہے.... احکامات پر فوری تعمیل کرائی جارہی ہے.دنیا کو پتہ چل گیا کہ یہ شخص دنیا سے لاتعلق ہونے کے باوجود رموز مملکت سے آشنا ہے...صرف آشنا ہی نہیں بلکہ بدعنوانیوں کے کس بل نکالنے کا فن بهی جانتا ہے..صبح سے دوپہر تک فرائض سرانجام دینے کے بعد قیلولہ کرنے کے لیے لیٹنا ہی چاہتا تها کہ نوجوان فرزند عبدالملک آگیا اور عرض کی:
"آپ سو گئے تو مظلوموں کی داد رسی کون کرے گا؟"
فرمایا:
"بیٹا! تیرے چچا سلیمان کے کفنانے دفنانے میں مشغولیت کی بنا پر کل کا تهکا ہوا ہوں. سو کر ظہر کے بعد یہ کام کروں گا."
اس نے کہا:
"ابو جان! اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آپ ظہر تک زندہ بهی رہیں گے؟"
یہ فوراً اٹهے اور اعلان کرا دیا: "جس کسی کو شکایت ہو، آئے. میں اپنے گهر اور خاندان سے شروع ہوتا ہوں.
اللہ کی قسم جتنا اس نے کہا اس سے کہیں زیادہ کر کے دکهایا.
ہاں! اے مسافر یہ امیرالمومنین کا گهر ہے. اسے چهوٹا اور خام سمجھ کر حقیر نہ جان. یہ ٹهیک ہے کہ اس کے دروازے، رنگ و روغن سے کورے اور مسلح دربان سے خالی ہیں.....لیکن یہ دنیا کے تمام گهروں سے معزز ہے.....جا اور خوف نہ کها.
سمرقندی لوٹ پڑا...جب دروازے کے پاس پہنچا تو کسی بچے کے رونے کی آواز آئی... معلوم ہوا کہ ایک بچے نے دوسرے بچے کا سر پهوڑ دیا ہے.... خلیفہ بذات خود گهر سے نکلا اور بچے کو پکڑا... سمرقندی کو دیکھ کر پوچها...... تو اس نے بتایا کہ میں سمرقند سے ظلم کی شکایت لے کر آیا ہوں.
فرمایا: "ٹهہر! میں ابهی آتا ہوں."
اس کے بعد ایک عورت لرزتی ہوئی آئی اور کہنے لگی:
"یہ سر پهوڑنے والا بچہ میرا بیٹا ہے. اور یتیم ہے، اس پر رحم فرمائیں."
امیرالمومنین پوچهتے ہیں: "اس کا وظیفہ لگ گیا ہے یا نہیں؟"
اس نے نفی میں جواب دیا.
آپ نے فرمایا: "ہم اس کا نام دیوان میں لکھ لیں گے."
وہ عورت دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی.
ادهر امیرالمومنین کے زخمی بیٹے کی ماں غصے سے بولی: "اب اگر وہ بچہ دوبارہ ایسا نہ کرے تو مجھ سے کہنا."
امیرالمومنین نے فرمایا: "تم نے اسے ڈرایا ہوگا؟"
اس کے بعد امیرالمومنین باہر آئے تو سمرقندی نے عساکر اسلامیہ کے جرنیل قتیبہ بن مسلم کی شکایت کی، کہ وہ بغیر دعوت اسلام دیے، بغیر جزیہ طلب کیے اور بغیر اعلان جنگ کیے سمرقند پر قابض ہو گیا تها.
امیرالمومنین نے فرمایا: "واللہ! ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم سے روکا ہے.. اپنوں اور غیروں سے انصاف کا حکم دیا ہے."
فرمایا: "اے غلام! قلم اور کاغذ لائو."
وہ دو انگلی کاغذ اور قلم لے آیا...... آپ نے چند سطریں لکھ کر مہر لگا دی اور فرمایا:
"وہاں کے گورنر کے پاس لے جائو."
یہ وہاں سے نکلا اور سفر طے کرنے لگا... جب کسی شہر میں داخل ہوتا تو مسجد میں چلا جاتا....نماز کے وقت مسلمانوں سے کندها ملا کر کهڑا ہوجاتا... اس کے دل میں ایمان اور زبان پر تکبیر و تحمید تهی. وہ اپنے آپ کو اسلامی تنظیم کا رکن سمجهتا اور دیکهتا تها کہ ایک امامت کراتا ہے، دوسرے اقتدا کرتے ہیں... نہ ان میں کوئی پروہت ہے، نہ رشی.. ان کے سامنے کوئی بت ہے نہ مجسمہ.. امیر اور غریب، شاہ اور گدا، کالے اور گورے، حاکم اور محکوم سب کے سب ایک ہی صف میں کهڑے ہیں اور کعبتہ اللہ کی طرف منہ کرکے ایک ذات رب العالمین کے سامنے جهکے ہوئے ہیں.
      اب نہ کوئی مشقت تهی نہ کوئی تکلیف.... جب کسی شہر کی مسجد میں جاتا، وہ مسافر سمجھ کر مہمانی کرتے... اب یہ سوچتا کہ میری آمد اور واپسی کے درمیان کتنا فرق ہے... آیا تها تو غریب پردیسی تها، جارہا ہوں تو نعمتوں سے لدا ہوا واپس مندر پر پہنچا ہوں.
     لیکن اس مرتبہ نہ ڈرائونے مجسموں کا خوف، نہ نیلے چراغوں کا ڈر... نہ پروہت کی ہیبت تهی نہ اس کا خوف.. کیونکہ نور اسلام سے اس پر واضح ہو گیا کہ یہ بے جان بت نہ نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان.. البتہ اس نے اپنے اسلام کو مخفی رکها....
    اس نےمندر کا دروازہ کهٹکهٹایا...دروازہ کهول دیا گیا... اندر والے اسے زندہ و سلامت دیکھ کر ششدر رہ گئے.
    اس نے اپنی روداد سفر بیان کر کے ان کو اور بهی حیران کر دیا. انہوں نے اسے جلد از جلد گورنر کے پاس بهیجا... گورنر نے رقعہ کهول کر پڑها تو اس میں حکم تها کہ موجودہ کور کمانڈر اور کاہنوں کاجهگڑا نمٹانے کے لیے خصوصی عدالت مقرر کی جائے اور جج جو فیصلہ کرے اسے نافذ کر دیا جائے.
      گورنر نے سر اطاعت خم کرتے ہوئے عدالت تشکیل دی اور جمیع بن حاضر باجی کو جج مقرر کر دیا... عدالت کی تشکیل کی خبر سن کر پروہت تمتما اٹهے لیکن لمہے بهر کی خوشی کے بعد ان چہرے ایسے سیاہ ہو گئے جیسے صاف آسمان پر کالا بادل چها گیا ہو. انہوں نے یقین کر لیا کہ یہ عدالت بهی مسلمانوں کی دهوکا بازی کا نیا باب ہوگی.
    مقررہ تاریخ آ پہنچی... تمام لوگ مسجد میں جمع ہوگئے... ایک طرف سمرقند کے پروہت بیٹھ گئے اور دوسری طرف عرب کا سکندر (یعنی عساکر اسلامیہ کا جرنیل) جس کے برابر مشرق میں کوئی فتوحات نہ حاصل کر سکا تها. لوگوں کی آنکهیں مسجد کے دروازے پر لگی ہوئی تهیں.... تهوڑی دیر بعد ایک دبلا پتلا اور نحیف و نزار شخص چهوٹی سی ٹوپی سر پر رکهے مسجد میں داخل ہوا... اس کے ساتھ اس کا غلام تها... وہ آتے ہی دو نفل ادا کر کے مسجد کے ستون سے لگ کر بیٹھ گیا اور اس کا غلام پاس کهڑا ہو گیا... یہ خصوصی عدالت کا جج جمیع بن حاضر باجی تها.
    جج کو دیکھ کر پروہتوں کی آخری امید بهی ختم ہوگئی. یہ کیسے ہوگا کہ یہ شخص فاتح اعظم کے خلاف اور مغلوب پروہتوں کے حق میں فیصلہ سنائے؟
     جج کے غلام نے بغیر کسی لقب اور کنیت کے سپہ سالار کو پکارا.... وہ آ کر دائیں جانب بیٹھ گیا.... پهر پروہتوں کے سربراہ کو بلایا... وہ بائیں جانب بیٹھ گیا.... مقدمہ کی سماعت شروع ہوگئی... خصوصی عدالت کے جج نے کمزور اور نحیف آواز میں پروہتوں کے پروہت سے کہا کہ اپنا دعویٰ پیش کرو.
       اس نے کہا: "عساکر اسلامیہ کے سپہ سالار نے بغیر دعوت اسلام اور بغیر جزیہ طلب کیے اور بغیر اعلان جنگ کیے دهوکے سے ہمارے ملک پر قبضہ کر لیا ہے."
جج نے جرنیل سے دعویٰ طلب کیا تو اس نے کہا:
" اللہ آپ کو حق و انصاف پر گامزن رکهے، اللہ نے ہمارے ذریعے اس ملک کو کفر سے نجات دی اور مسلمانوں کو اس کا وارث بنایا."
جج نے پوچها: "کیا تم نے دعوت اسلام دی تهی اور ان کے انکار پر ان سے جزیہ طلب کیا تها؟ اور پهر اعلان جنگ کیا تها؟"
جرنیل: "نہیں جناب."
جج:
"گویا تم نے اقرار کر لیا ہے.... سنو! اللہ نے اس دین کی نصرت اس وجہ سے کی ہے کہ یہ حق و انصاف کا داعی ہے... اس لیے نہیں کہ ہم ملکوں پر بغیر حق کے قبضے کرتے پهریں... میرا فیصلہ یہ ہے کہ مسلمان اس ملک سے نکل جائیں اور سرحد پر جا کر اسلامی دستور کے مطابق دعوت اسلام پیش کریں. پهر جزیہ طلب کریں... اگر یہ ان کے لیے بهی ناقابل قبول ہو تو پهر اعلان جنگ کریں."
اس کے بعد عدالت برخاست ہوگئی... ایک طرف سے جج نکل گیا اور دوسری طرف سے عساکر اسلامیہ کا سپہ سالار.... مندر والے بهی سن کر چل دیے.... مگر باقی لوگ کهڑے کے کهڑے رہ گئے.
    ہمارے سمرقندی بهائی نے پروہت کے چہرے کی طرف دیکها تو جانچ گیا کہ اس ناقابل یقین فیصلے کے بعد اس کے چہرے پر نور اسلام کی کرنیں چمکنے لگی ہیں... اور اسے اسلام کی سرسبز و شاداب اور جلال و جمال سے منور دنیا نظر آگئی ہے... اسے اندازہ ہو گیا کہ اس نے اپنے دین کو خیر باد کہنے کا ارادہ کر لیا ہے، کیونکہ کسی سعید روح کا نور اسلام دیکھ کر اسلام قبول نہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے بچے کا ماں کے پیٹ کی تاریک دنیا سے نکل کر دوبارہ اسی اندهیرے میں واپس جانا ہے...
چند گھنٹے گزرنے کے بعد فضا بگل کی آواز سے گونجنے لگی... چاروں طرف جهنڈے بلند ہونے لگے اور افواج اسلامیہ سمرقند سے نکلنے لگیں.
   پروہتوں نے حیرت سے پوچها: "یہ کیا ہو رہا ہے؟"
لوگوں نے بتایا کہ فیصلہ نافذ ہو گیا اور لشکر جا رہا ہے.
یہ وہ لشکر ہے جو مدینہ منورہ سے چلا تو سمرقند تک کوئی طاقت اس کے سامنے نہ ٹهہر سکی تهی... اور اس نے قیصر و کسریٰ کے ٹَڈی دَل لشکروں کو کچل دیا تها.. آج اسے دبلے پتلے نحیف و نزار اور پست آواز والے بوڑهے کی آواز نے نکال باہر کیا ہے. اب یہ لشکر سرحد پر جا کر دستور کیمطابق دشمن کو دعوت اسلام دے گا... قبول نہ ہونے کی صورت میں جزیہ طلب کرے گا، اور پهر جزیہ سے انکار کی صورت میں دشمنان دین سے اعلان جنگ کرے گا.
تو کیا سمرقند اب اس لشکر کو روک سکے گا جسے روم و ایران اور چین کی افواج نہ روک سکیں اور کیا مندر کے پتهر اس سیل رواں کو روک سکیں گے؟ ہرگز نہیں!
بڑا پروہت اپنے ساتهیوں سے پوچهنے لگا: "تمہارا کیا خیال ہے؟"
سمرقندی بهائی نے کہا: "سنو! اَشْهَدُ اَن لَّا اِلٰہ اِلا اللہ واَشْهَدُ اَنّ محمداً عَبْدہ و رسولُہ"
یہ سن کر مندر کا سب سے بڑا پروہت بولا: " اَشْهَدُ اَن لَّا اِلٰہ الا اللہُ واَشْهَدُ اَنَّ محمداً عبدہ و رسُولہ"
پروہت (مندر کے سجادہ نشین) کی شہادت حق دینی ہی تهی کہ پورا سمرقند نعرہ تکبیر سے گونج اٹها..
    مسلمان فوجیں سمرقند میں داخل ہوگئیں.. نہ کوئی حاکم رہا نہ کوئی محکوم.... نہ غالب نہ مغلوب، سب کے سب بهائی بهائی بن گئے... کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہ رہی مگر تقویٰ کی بنا پر.
سمرقند اس وقت سے اسلام میں داخل ہوا اور انشااللہ داخل رہے گا.

(اس قصے کا اصل فتوح البلدان میں ہے لیکن ہمارا ماخذ قصص من التاریخ مؤلفہ علامہ الطنطاوی ہے)

اپنی رائے ضرور دیجیے کہ کیسا لگا یہ واقعہ آپ سب کو کیسا لگا کمنٹ میں اپنی رائے کا اظہار کریں. آپ کی رائے کا بہت بہت شکریہ بنت حوا.

No comments:

Post a Comment