Sunday 18 September 2016

اندھیری رات کے مسافر. باپ اور بیٹا. قسط نمبر 51

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 51.
باپ اور بیٹا___________وزیر ابوالقاسم کی قیام گاہ پر ہاشم کی بے بسی اور بے چارگی میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا تھا-
اس نے متعدد بار محل اور باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن پہرے داروں اور نوکروں کے طرز عمل نے اس پر واضح کر دیا تھا کہ اس کی حیثیت ایک قیدی سے زیادہ نہیں ہے-
وہ انہیں گالیاں اور دھمکیاں دے چکا تھا اور طیش میں آ کر اس نے ایک نوکر کے منہ پر ٹهپڑ بھی مار چکا تھا-
سلطان ابو عبداللہ اور وزیر ابوالقاسم کو غدار اور ملت فروش کہہ چکا تھا لیکن محل ملازم اور پہرے دار اس کے سب غم و غصے سے قطعاً بے نیاز تھے-"
وہ سب اس کے ساتھ بظاہر نرم تھے مگر دروازے کے باہر سے ننگی تلواروں کا پہرہ ہٹانے کے لیے بالکل تیار نہ تھے.
پہرے داروں کے پاس اس کے تمام سوالات کا بس ایک ہی جواب تھا کہ وزیراعظم نے آپ کو یہاں ٹھیرانے کا حکم دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ آپ کا یہاں سے نکلنا بہت خطرناک ہے-
اس لیے میری واپسی تک آپ کو روکا جائے-
اب اگر باہر نکل جائیں اور راستے میں آپ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو وزیراعظم ہماری کھالیں اتروا دیں گے-
ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف نہ دی جائے اور ہمیں یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ اگر آپ زبردستی باہر نکلنے کی کوشش کریں تو آپ کو گرفتار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے-
ہاشم نے وزیراعظم کے گھر کا کھانا کھانے سے انکار کر دیا تھا-دوپہرے کے وقت اس نے سردی کا بہانہ کر کے باہر دھوپ میں بیٹھنے کی خواہش کی تو مسلح آدمی اسے صحن میں لے گئے-
تقریباً ایک ساعت وہ آنکھیں بند کئے دھوپ میں بے سدھ بیٹھا رہا اور پھر اچانک اٹھ کر باہر صحن کی طرف بڑھا-
لیکن ابھی وہ ڈیوڑھی سے پچاس قدم دور تھا کہ پہرے داروں نے بھاگ کر اسے گھیر لیا اور زبردستی کونے کے ایک کمرے میں اسے بند کر دیا.
اب وہ یہاں بھوکے جانور کی طرح کمرے میں ٹہل رہا تھا-
ہاشم یہ جاننے کے لیے بے چین تھا کہ غرناطہ میں کیا ہو رہا ہے!
اس نے آنے جانے والوں کے قدموں کی آہٹ سن کر آوازیں دیں لیکن وہ اس سے قطعاً بے نیاز ہو چکے تھے-
وہ رنج و غم سے نڈھال ہو کر اپنے آپ کو بستر پر گرا دیا"-
___________○__________
رات ایک پہر گزر چکی تھی کہ کمرےکا دروازہ کھلا-
ایک افسر اور دو ملازم کمرے میں داخل ہوئے-
نوکر نے مشعل کی لو سے کمرے کا چراغ جلا دیا-
ہاشم نے ملتجی ہو کر کہا اللہ کے لئے مجھے بتاؤ کہ میں کب تک تمہاری قید میں ہوں شہر میں کیا ہو رہا ہے اور ابو القاسم کہاں ہے؟ "-
افسر نے جواب دیا شہر میں بد امنی اور بغاوت کا خطرہ ہے اور وزیراعظم اپنے دوستوں کو اس سے دور رکھنا چاہتے ہیں-
آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد شہر کی فضا ٹھیک ہو جائے گی-
اب اگر آپ اجازت دیں تو آپ کے لیے کھانا منگوا لیا جائے"-
ہاشم نے تلملا کر کہا کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ مجھے زہر لا دیں. معاف کیجئے گا ہم اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے"- افسر نے مڑتے ہوئے کہا.
ہاشم چلایا اللہ کے لیے ٹھہریے! "وہ رک کر ہاشم کی طرف دیکھنے لگا.
ہاشم نے قدرے توقف کے بعد کہا میں حامد بن زہرہ کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں کیا ابو القاسم اس کی گرفتاری کا حکم دے چکے ہیں؟ "
افسر نے جواب دیا وزیراعظم کو ان کے بارے میں کوئی حکم دینے کی ضرورت نہیں ہے-
اس کا معاملہ ان لاکھوں انسانوں کے ساتھ ہے جو شہر میں امن چاہتے ہیں اور اس سے نجات حاصل کرنا ان کا اولین فرض ہے جن کے بھائی عزیز رشتہ دار دوست یرغمال کے طور پر دشمن کے پاس قیدی ہیں.
میرا بیٹا بھی ان میں سے ایک ہے اور میں نے سنا ہے کہ آپ کے بھی دو بیٹے یرغمال بنائے جا چکے ہیں-
مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے غرناطہ کو اس کے شر سے بچانے کی ذمہ داری قبول کی تھی"-
ہاشم کرب کی حالت میں چلایا"-
میں اس شرمناک سازش سے دور رہنا چاہتا ہوں. .کسی برائی سے کنارہ کش ہونے کسی گناہ سے توبہ کرنے یا غلط راستے کی بجائے صحیح راستہ اختیار کرنے کا حق رکھتا ہوں اور ابوالقاسم مجھے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا"-
اگر آپ کے خیال میں صحیح راستہ یہ ہے کہ غرناطہ کو ایک مرتبہ پھر جنگ کی آگ میں جھونک دیا جائے تو اہل غرناطہ کو ایسے آدمی کے شر سے محفوظ رکھنے کی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے جس کی باتوں سے آپ جیسے سنجیدہ لوگ بھی متاثر ہو چکے ہیں-
میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ حامد بن زہرہ کا طلسم بہت جلد ٹوٹ جائے گا-"
یہ کہہ کر افسر اور اس کے ساتھی کمرے سے باہر نکل گئے اور ہاشم دیر تک بے حس و حرکت کھڑا رہا-
اس کے ذہن میں کئی خیالات آ رہے تھے"-
__________○__________
ہاشم نے سلطنت غرناطہ کے مستقبل سے مایوس ہو جانے کے بعد ابوالقاسم سے تعاون کیا تھا اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے اس کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ حامد بن زہرہ یا تو کسی حادثے کا شکار ہو گیا ہے یا غرناطہ کے حالات سے اس قدر بد دل اور بیرونی اعانت کے متعلق اس قدر مایوس ہو چکا تھا کہ اس نے واپس آنا پسند نہیں کیا لیکن گزشتہ رات حامد کے متعلق غیر متوقع ملاقات نے اس کی امیدوں کے بجهے ہوئے چراغ کو پھر سے روشن کر دیا تھا-
حامد نے کہا تھا کہ اگر اہل غرناطہ چند ماہ دشمن کو دارالحکومت سے باہر روک سکیں تو ترک انہیں مایوس نہیں کریں گے لیکن اگر وہ غلامی پر رضا مند ہو گئے تو باہر سے کوئی طاقت ان کے سیاسی گناہوں کا کفارہ ادا کرنے نہیں آئے گی"-
جب ہاشم حامد کو غرناطہ جانے سے روکنے کے لیے وہاں کے باشندوں کی مایوسی اور بے بسی کا نقشہ کھینچ رہا تھا تو اس کے ذہن میں یہ خوف سوار تھا کہ اگر وہ عوام کو مشتعل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اسے فتح اور شکست سے بے خوف ہوکر اس کا ساتھ دینا پڑے گا"-
اور اس کا پہلا نتیجہ یہ ہو گا کہ جن لوگوں کو یرغمال کے طور پر فرڈیننڈ کے حوالے کردیا گیا تھا وہ دشمن کے انتقام کا پہلا نشانہ بنیں گے-
اولاد کی محبت سے مجبور ہو کر اس نے ابوالقاسم کا ساتھ دینے کی حامی بھری تھی"-
تاہم اس سے التجا کرتے ہوئے وہ اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر تسلی دے رہا تھا کہ اگر حامد اہل غرناطہ کی غیرت بیدار کرنے میں کامیاب ہو گیا اور میرے بیٹے دشمن کے قبضے سے نکل آئے تو میں انہیں آزادی کا پرچم بلند کرنے والوں کی صف اول میں دیکھنا چاہتا ہوں__________ابوالقاسم کے طرز عمل نے اس کے اونگھتے ہوئے ضمیر کے لیے ایک تازیانے کا کام کیا تھا-
وہ بار بار اپنے دل میں کہہ رہا تھا حامد اس وقت آیا ہے جب کہ قوم زہر کا پیالہ حلق سے آتار چکی ہے"-
کاش وہ چند ہفتے پہلے آ جاتا اور ہم قوم کے قاتلوں سے اپنا مستقبل وابستہ کرنے سے بچ جاتے-
کیا میرے لیے حامد کی رفاقت میں مرنا ابوالقاسم اور ابو عبداللہ جیسے ملت فروشوں کے ساتھ زندہ رہنے سے بہتر نہیں تھا؟ "
عمیر یقیناً اس بات سے خوش ہو گا کہ ابو عبداللہ اور ابوالقاسم کی خوشنودی حاصل کر کے ہم نے اپنے خاندان کو مستقل خطرے سے بچا لیا ہے-
ان کی بدولت فرڈیننڈ ہمیں بہتر سلوک کا مستحق سمجھے گا اور سلمہ بھی اپنے دو بیٹوں کی رہائی پر خوش ہو جائے گی"-
لیکن اگر حامد بن زہرہ کے خدشات درست ثابت ہوئے اور نصرانیوں نے اہل غرناطہ کے ساتھ وہی وحشیانہ سلوک کیا جو اس سے قبل مفتوحہ ریاستوں کے مسلمانوں کے ساتھ کر چکے ہیں تو آئندہ نسلیں میرے متعلق کیا کہیں گی!
میں ابوالقاسم کے پاس کیوں آیا؟ "-
مجھے حامد بن زہرہ کے ساتھ رہنا چاہیے تھا. میں اپنے بیٹوں کے لیے غلامی کی زندگی کی بجائے آزادی کی موت کی تمنا کیوں نہ کی-
کاش میں انہیں فرڈیننڈ کی قید میں جانے سے روک سکتا-
اب کیا ہو گا اب میں کیا کر سکتا ہوں؟ "-
___________○__________
ہاشم تھوڑی دیر کے لئے کرسی پر بیٹھ جاتا اور پھر اضطراب کی حالت میں اٹھ کر ٹہلنا شروع کر دیتا-
آدھی رات کے قریب اچانک کمرے کا دروازہ کھلا- ایک پہرے دار ہاتھ میں مشعل لیے اندر داخل ہوا اور اس نے کہا:
وزیر سلطنت نے آپ کو یاد فرمایا ہے-
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر آپ آرام کر رہے ہوں تو آپ کو تکلیف نہ دی جائے"-
ہاشم خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور بغیر کچھ کہے پہرے دار کے ساتھ چل پڑا-
چند منٹوں کے بعد وہ ملاقات کے کمرے میں ابوالقاسم کے سامنے کھڑا تھا اس نے ایک نظر ہاشم کی طرف دیکھا اور ہاتھ سے خالی کرسیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
تشریف رکھئے! "
ہاشم بادل نخواستہ اس کے سامنے بیٹھ گیا. چند ثانیے وہ خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے بالآخر ابوالقاسم نے کہا. ........جاری ہے

No comments:

Post a Comment