Monday 26 September 2016

محرم الحرام کے مسائل و فضائل

محرم الحرام کے فضائل ومسائل اور صومِ عاشوراء
مضمون نگار۔۔۔حافظ مبشر حسین لاہوری
محرم الحرام ہجری تقویم کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ ہجرت پر ہے۔ گویا مسلمانوں کے نئے سال کی ابتداء محرم کے ساتھ ہوتی ہے۔ ماہِ محرم کے جو فضائل و مناقب صحیح احادیث سے ثابت ہیں، ان کی تفصیل آئندہ سطور میں رقم کی جائے گی اور اس کے ساتھ ان
بدعات و خرافات سے بھی پردہ اُٹھایا جائے گا جنہیں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دین حق کا حصہ بنانے کی مذموم کوششیں کی گئی ہیں۔
1۔محرم، حرمت و تعظیم والامہینہ ہے
قرآن مجید میں ہے کہ
﴿إنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰهِ يوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْهَا أرْبَعَةٌ حُرُمٍ ذٰلِکَ الدِّينُ الْقَيمُ فَلاَ تَظْلِمُوْا فِيهِنَّ أنْفُسَکُمْ﴾(التوبہ:۳۶)
”اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی کتاب (یعنی لوحِ محفوظ) میں مہینوں کی گنتی بارہ ہے، اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے۔ ان میں سے چار مہینے ادب و احترام کے لائق ہیں، یہی درست دین ہے لہٰذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔“
یعنی ابتدائے آفرینش ہی سے اللہ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرما رکھے ہیں۔ جن میں چار کو خصوصی ادب و احترام اورعزت و تکریم سے نوازا گیا۔ یہ چار مہینے کون سے ہیں، ان کی تفصیل صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”زمانہ اپنی اسی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے کہ جس پر وہ اس وقت تھا جب اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی تھی۔ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں، تین تو لگاتار ہیں یعنی ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم اور چوتھا مضر قبیلے کا ماہِ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے۔“ (بخاری:کتاب التفسیر، سورة التوبہ ؛۴۶۶۲/ مسلم: کتاب القسامہ، باب تغلیظ تحریم الدماء ؛ ۱۶۷۹)
مذکورہ حدیث میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: ایک تو یہ کہ محرم بھی حرمت والے مہینوں میں شامل ہے اور دوسری یہ کہ زمانہ اپنی سابقہ حالت و ہیئت پر واپس لوٹ آیا ہے۔ اس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ دورِ جاہلیت میں بھی لوگ حرمت والے مہینوں کا احترام کرتے اور جنگ و جدل، قتل و غارت گری اور خون ریزی وغیرہ سے اجتناب کرتے تھے۔ البتہ اگر کبھی حرمت والے مہینے میں انہیں جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کی ضرورت محسوس ہوتی تو وہ اپنے طور پر مہینوں کی تقدیم و تاخیر کرلیتے۔ اگر بالفرض محرم کا مہینہ ہے تو اسے صفر قرار دے لیتے اور (محرم میں اپنے مقصد پورے کرنے کے بعد) اگلے ماہ یعنی صفر کو محرم قرار دے کر لڑائی جھگڑے موقوف کردیتے۔ قرآن مجید نے اس عمل کو نسیئ قرار دے کر زیادتِ کفر سے تعبیر فرمایا۔ (التوبہ:۳۷)
جس سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا، اس سال ذوالحجہ کا مہینہ قدرتی طور پراپنی اصلی حالت پر تھا۔ اس لئے آپ نے مہینوں کے اَدل بدل کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت پر واپس لوٹ آیا ہے۔ یعنی اب اس کے بعد مہینوں کی وہی ترتیب جاری رہے گی جسے اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے جاری فرما رکھا ہے۔
دونوں باتوں کا حاصل یہی ہے کہ محرم ادب و احترام والامہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ادب و احترام والا بنایا جبکہ اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حرمت کو جاری رکھا اور عرب کے جاہل بھی اس کا اس قدر احترام کرتے کہ احترام کے منافی کسی عمل کے جواز کے لئے کم از کم اتنا حیلہ ضرور کرلیتے کہ فرضی طور پر حرمت والے مہینے کو کسی دوسرے غیر حرمت والے مہینے سے بدل لیتے۔
حجة الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے یہ بات از خود سمجھ آجاتی ہے کہ ماہِ محرم کی حرمت و تعظیم کا حضرت حسین کے واقعہ شہادت سے کوئی تعلق نہیں اور وہ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں جو اس مہینے کی حرمت کی کڑیاں واقعہ کربلا اور شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے ملاتے ہیں۔ اس لئے کہ ماہِ محرم کی حرمت تو اس دن سے قائم ہے جس دن سے یہ کائنات بنی ہے۔ جیسا کہ سورئہ توبہ کی گذشتہ آیت: ﴿يوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرْضَ…﴾ سے واضح ہے۔
علاوہ ازیں سانحہ کربلاء، قطع نظر اس سے کہ اس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت ہوئی، کا دین اسلام سے اس معنی میں کوئی تعلق نہیں کہ اس میں دین کی حفاظت کا کوئی مسئلہ درپیش تھا بلکہ اوّل تو دین اسلام حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعہ شہادت سے کئی عشروں پہلے ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل ہوچکا تھا،جیسا کہ قرآنِ مجید میں ہے: ﴿اَلْيوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِينَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِيتُ لَکُمُ الإسْلَامَ دِينًا﴾ ( المائدة:۲)
اور دوم یہ کہ دین کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے اُٹھا رکھا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَه لَحَافِظُوْنَ﴾ معلوم ہوا کہ یہ تصور جہالت ولاعلمی پر مبنی ہے کہ ماہِ محرم کا ادب و احترام شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا مرہونِ منت سمجھا جائے بلکہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ سے پہلے اسی ماہ کی یکم تاریخ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسے خلیفہ راشد کی شہادت کا المناک واقعہ پیش آچکا تھا۔ مگر اس وقت سے آج تک کبھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ شہادت اس انداز سے پیش نہیں کیا گیا۔
حالانکہ اگر کسی بڑے آدمی کی موت یا شہادت کسی مہینے کے ادب و احترام کی علامت ہوتی تو عمرفاروق رضی اللہ عنہ ایسے صحابی ٴرسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے علمی، دینی، روحانی اور خلیفہ ثانی ہونے کے حوالے سے اس بات کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی زیادہ مستحق ہوتے کہ ان کی شہادت پر وہ سب کچھ کیا جاتا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پرکیا جاتا ہے۔ مزید برآں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اکابر و جلیل القدر صحابہ کرام کی شہادتیں بدرجہ اولیٰ یہ استحقاق رکھتی ہیں مگر اہل ِسنت ان تمام شہادتوں پر نوحہ وماتم اور مجالس عزا وغیرہ کا اہتمام اس لئے نہیں کرتے کہ اسلام ان چیزوں کی اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرتا ہے اس کا دین و ایمان خطرے میں ہے اور اسلام کا نوحہ وماتم سے کوئی تعلق نہیں۔
محرم کی بے حرمتی
ویسے تو جنگ و جدل، قتل و غارت گری، خونریزی اور فتنہ و فساد کی کسی بھی مہینے، ہفتے اور دن میں اجازت نہیں تاہم حرمت والے مہینوں میں فتنہ و فساد کی ہرممکنہ شکل سے اجتناب کرنے کا تاکیدی حکم ہے۔ لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ ماہِ محرم کی حرمت کو اتنا ہی پامال کرتے ہیں جتنا کہ اس کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی گئی۔
ماہ محرم کی حرمت کی پامالی کی ایک صو

No comments:

Post a Comment