Saturday 17 September 2016

اندھیری رات کے مسافر قسط نمبر 49

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 49.
بدریہ______________اور اس کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ انہیں مشرق کی سمت اسی جگہ اتارا جائے جو ہم نے پہلے منتخب کی تھی-
مجھے امیر البحر نے حکم دیا کہ میں حامد بن زہرہ کی حفاظت کا تسلی بخش انتظام کیے بغیر واپس نہ آؤں اور اگر ضرورت پڑے تو آخری منزل تک ان کا ساتھ دوں حامد بن زہرہ کو پہاڑی علاقے میں بستی کے لوگوں سے اعانت کی توقع تھی وہ ساحل سے پانچ میل دور تھی-
اگر دشمن کے جہازوں سے تصادم نہ ہوتا تو میں رات کو ہی انہیں وہاں پہنچا کر واپس ہو سکتا تھا اور میرے ساتھی میرا انتظار کر سکتے تھے-
لیکن اب یہ ممکن نہ تھا صبح ہونے والی تھی اور ہمارے جہاز دن کے وقت ساحل کے قریب تصادم کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے-"
چنانچہ میں نے اپنے ساتھیوں سے رخصت لی اور اپنے نائب کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنا جہاز واپس لے جائے-
حامد بن زہرہ ابھی پیدل چلنے کے قابل نہیں ہوئے تھے اور پہاڑ کے دامن میں ایک کهٹن راستے پر مجھے بار بار ان کو سہارا دینے کی ضرورت پیش آئی تھی-
طلوع سحر کے وقت ہمیں تنگ وادی میں خانہ بدوشوں کی جھونپڑیاں دکھائی دیں میں نے وہاں پہنچ کر حامد بن زہرہ کی سواری کے لیے ایک گھوڑا خرید لیا پھر ہم پر بربر چرواہوں اور کسانوں کی بستی میں پہنچ گئے'-
بستی کا سردار غرناطہ میں حامد کا شاگرد رہ چکا تھا-
اس نے بڑے تپاک سے ہمارا خیر مقدم کیا-
وہ ہمیں اپنے پاس ٹھیرانے پر مصر تھا لیکن حامد بن زہرہ ایک لمحہ ضائع کرنے کے بھی تیار نہ تھے-
انہوں نے مجھے ایک بہترین گھوڑا پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسے میری طرف سے تحفہ قبول فرمائیے: اس کے بعد باقی سفر میں ہمیں کوئی دقت پیش نہ آئی-
دو دن بعد حامد بن زہرہ کو ان کے گھر پہنچانے کے بعد میری ذمہ داری ختم ہو چکی تھی لیکن انہوں نے اچانک غرناطہ جانے کا فیصلہ کر لیا اور مجھے حکم دیا کہ ان کی واپسی تک میں ان کا انتظار کروں-
پھر ایسے حالات پیش آئے کہ مجھے بھی ان کے پیچھے غرناطہ جانا پڑا"-
بدریہ نے کچھ سوچ کر کہا"- اگر غداروں کو یہ معلوم ہو گیا کہ حامد کا ایک ساتھی ترکوں کے بحری بیڑے سے تعلق رکھتا ہے تو وہ بلا تامل دشمن کو خبردار کرنے کی کوشش کریں گے اور پھر آپ کے لیے ساحل کی طرف واپس جانے کا کوئی راستہ محفوظ نہیں رہے گا-
اگر سعید کی وجہ سے رک گئے ہیں تو میں یہ کہوں گی کہ آپ کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہاں نہیں ٹھہرنا چاہیے"-
سلمان نے جواب دیا" مجھے معلوم ہے کہ موجودہ حالات میں سعید کی کوئی مدد نہیں کر سکتا لیکن اب واپس جانے سے پہلے میرے لیے غرناطہ کے تازہ حالات معلوم کرنے ضروری ہیں-
اگر کل تک ولید کی طرف اسے کوئی اطلاع نہ آئی تو مجھے بذات خود وہاں جانے کا خطرہ مول لینا پڑے گا-
حامد بن زہرہ نے مجھے شاید اس لیے روکا تھا کہ غرناطہ میں اپنے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد انہیں امیر البحر کو کوئی پیغام بھیجنے کی ضرورت پیش آ جائے"-
بدریہ پورے پورے انہماک سے سلمان کی باتیں سن رہی تھی اور سلمان کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا جا رہا ہے-
تھوڑی دیر قبل جب وہ اس کمرے میں داخل ہوا تھا تو اس نے صرف ایک ثانیہ کے لیے بدریہ کی طرف متوجہ ہوتا تو اس کی نگاہیں حیا اور وقار کے حسن کے احساس سے جھک جاتیں-
معا اسے خیال آیا کہ ضرورت سے زیادہ باتیں کر رہا ہے اور وہ خاموش ہو گیا-
بدریہ نے چند ثانیے توقف کے بعد کہا"
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ میرے ہم وطن ہیں-باہر کا کوئی آدمی اندلس کے ساحلی علاقوں سے اس قدر واقف نہیں ہو سکتا"-----
سلمان نے جواب دیا-" میں المریہ کے ایک عرب گھرانے میں پیدا ہوا تھا اور وہ والدہ ایک بربر قبیلے سے تعلق رکھتی تھیں لیکن یہ ایک طویل داستان ہے"-
اگر آپ تھک نہ گئے ہوں تو میں وہ طویل داستان سننا چاہتی ہوں"- بدریہ کے اصرار پر سلمان نے اپنی سرگزشت شروع کر دی:
جہاز رانی اور تجارت ہمارا خاندانی پیشہ تھا میرے والد کے چار ذاتی جہاز تھے - انہوں نے المریہ اور مالقہ کے علاوہ مراکش اور الجزائر میں بھی تجارتی مراکز قائم کر رکھے تھے اور اکثر گھر سے باہر رہتے تھے-
جب میری عمر چھ سال کی ہوئی تو والدہ ان کی غیر حاضری میں فوت ہو گئیں-
میرے نانا مجھے اپنے پاس لے آئے- دو ماہ بعد ابا جان واپس آئے اور مجھے اپنے ساتھ مالقہ لے آئے-
وہاں میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی- ان کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ میں ایک اچھا جہاز ران بنوں اور مجھے عملی تربیت دینے کے لیے کبھی کبھی اپنے ساتھ بھی لے جایا کرتے تھے-
دو سال بعد وہ ایک لمبے سفر پر گئے تو میں ان کی غیر حاضری میں بیمار ہو گیا-
واپس آ کر انہوں نے مجھے مستقل طور پر اپنے ساتھ رکھنے کا فیصلہ کیا- اس کے بعد میرا گھر ان کا جہاز تھا-
میری تعلیم کے لیے انہوں نے ایک ایسا اتالیق مقرر کر دیا تھا جو ہر سفر میں ہمارے ساتھ رہتا تھا-
کوئی ڈیڑھ سال کے عرصے میں المریہ اور مالقہ کے درمیان کئی بار چکر لگا چکا تھا. .جب ترکوں نے اطالیہ پر حملے شروع کئے تھے تو کئی اور جہاز رانوں کی طرح ابا جان نے بھی رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دی تھیں.
اس مرتبہ وہ مجھے گھر چھوڑ گئے تھے-
چند ماہ بعد واپس آئے تو سلطان ابوالحسن نے انہیں مالقہ کی بحری درس گاہ کا ناظم مقرر کر دیا میں ایک سال ان کے ساتھ رہا-
اس کے بعد انہوں نے مجھے جہاز رانی کی اعلی تعلیم کے لیے قسطنطنیہ بھیج دیا-
جنگ کے ایام میں مجھے یہ اطلاع ملی کہ وہ نائب امیر البحر بنا دئیے گئے ہیں"-
اچھا تو آپ نائب امیر البحر کے بیٹے ہیں؟ "
بدریہ نے سوال کیا. ہاں جنگ کے دوران مجھے ماموں جان کی طرف سے اطلاع ملی کہ نانا جان فوت ہو چکے ہیں اور ان کا خاندان ہجرت کر کے الجیریا پہنچ چکا ہے.
چھ ماہ بعد ان کا دوسرا پیغام آیا کہ ابا جان ایک بحری جنگ میں شہید ہو چکے ہیں اس کے بعد اندلس سے میرا رشتہ کٹ چکا تھا-
کمال رئیس جو اب بحیرہ روم میں ترکی بیڑے کے امیر بن چکے ہیں میرے والد کو اس زمانے سے جانتے تھے جب انہوں نے اوٹرانٹو کی جنگ میں حصہ لیا تھا-
وہ جب بھی قسطنطنیہ آتے تو میرا حال ضرور پوچھتے تھے. ابا جان کی موت کے بعد انہوں نے مجھے اپنی سر پر ستی میں لے لیا-
جب میں فارغ التحصیل ہوا تو انہوں نے مجھے اپنے ذاتی عملے میں شامل کر لیا. دو سال بعد مجھے ایک جنگی جہاز کی کمان مل گئی"-
سلمان یہاں تک کہہ کر خاموش ہو گیا- بدریہ کے ذہن میں کئی سوال ابھر چکے تھے-
اچانک سعید نے انہیں اپنی طرف متوجہ کر لیا-
وہ بے ہوشی میں کراہنے کے بعد آہستہ آہستہ عاتکہ کو آوازیں دے رہا تھا-
وہ دونوں جلدی سے اٹھ کر بستر کی طرف بڑھے اور بدریہ سعید کی نبض پر ہاتھ رکھ کر سلمان کی طرف دیکھنے لگی-
سعید بے چینی کی حالت میں چند بار کروٹ بدلنے کے بعد اچانک خاموش ہو گیا-
بدریہ اس کے چہرے سے پسینہ صاف کرنے کے بعد سلمان سے مخاطب ہوئی:
انہیں کافی دیر ہوش نہیں آئے گا. اگر آپ تھوڑی دیر یہاں بیٹھنا پسند کریں تو مجھے آپ سے بہت کچھ پوچھنا ہے"-
سلمان نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو تو میں سعید کے ہوش میں آنے تک یہاں سے ہلنا بھی پسند نہیں کروں گا.
بدریہ دوبارہ کرسی پر بیٹھ گئی.
بدریہ نے کہا ولید کہتا تھا کہ آپ حامد بن زہرہ کو غداروں کی سازش سے خبردار کرنے کے لیے غرناطہ آئے تھے لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے؟ "-
سلمان نے جواب دیا سعید کے گاؤں کی ایک لڑکی ہے وہ صبح ہوتے ہی اس کے گھر آئی تھی اور اس نے مجھے بتایا کہ قوم کے غدار حامد بن زہرہ کو تلاش کر رہے ہیں-
یہ ایک المیہ تھا کہ میں ولید اور اس کے ساتھیوں کی مداخلت کی وجہ سے حامد بن زہرہ سے نہیں مل سکا انہوں نے مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا تھا"-
بدریہ نے پوچھا"-
گاؤں کی ایک ایک لڑکی کو کیسے معلوم ہوا کہ غدار ان کی تلاش میں ہیں آپ کو معلوم ہے وہ کون تھی؟ "'
اس کا نام عاتکہ ہے اور اس نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اس کے چچا غداروں کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں"-
بدریہ کے مزید استفسار پر سلمان کو اپنی ساری داستان کا باقی حصہ سنانا پڑا-
اختتام پر بدریہ نے کہا. .....جاری ہے

No comments:

Post a Comment