Sunday 11 September 2016

حامد بن زہرہ کی شہادت قسط نمبر 45.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 45.
شہادت______________آواز میں کہا جناب قلعے کے قریب نالے کے پل کے سے اس طرف"-
حامد بن زہرہ قتل ہو چکے ہیں؟ "
ہاں"!
اور ان کا بیٹا سعید؟ "
سلمان نے ڈوبتی ہوئی آواز میں پوچھا.
اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اگر وہ ان کے ساتھ تھا تو ممکن ہے کہ وہ بچ کر نکل گیا ہو.
تم نے کتنے آدمیوں کو مارا قتل کیا ہے؟ "
ہم نے جو لاشیں دیکھیں تھی ان کی تعداد سات تھی.
ان میں سے دو ہمارے ساتھی تھے لیکن اللہ جانتا ہے کہ میں نے حملے میں حصہ نہیں لیا تھا"-
سلمان نے گرج کر کہا تم جھوٹ بولتے ہو"-
اللہ کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا-حامد بن زہرہ کے قاتل میرے لئے اجنبی تھے"-
ہمیں غرناطہ سے روانہ ہوتے وقت یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم حامد بن زہرہ کا راستہ روکنے جا رہے ہیں-
کوتوال نے تو صرف ہمیں یہ بتایا تھا کہ شہر میں چند رضا کار کسی خطرناک مجرم کی تلاش میں جا رہے ہیں اور انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے-
تم وردیوں کی بجائے سادہ لباس میں نکلو شہر کے جنوبی دروازے سے باہر ان کا انتظار کرو.
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم چوکی سے نکلتے ہی اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیں.
جب ہم دروازے سے باہر نکلے ہی تھے کہ تھوڑی دیر بعد وہ مسلح نقاب پوش بھی وہاں پہنچ گئے پھر ان کے رہنما نے ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا.
ایک ٹولی جنوب مشرق کی طرف روانہ ہو گئی اور میرے تین ساتھی ان کے ساتھ چلے گئے.
ہم تیرہ رضا کاروں کے ہمراہ اس راستے پر ہو لئے.
سلمان نے کہا بیوقوف میرے پاس تفصیل سننے کے لیے وقت نہیں ہے مجھے مختصر بتاؤ"-
جناب آپ

No comments:

Post a Comment