Monday 26 September 2016

محرم الحرام کی بدعات

ميں دبى ميں رہائش پذير ہوں اور ہمارے گرد و پيش بہت سارے شيعہ رہتے ہيں وہ ہميشہ دعوى كرتے ہيں كہ نو اور دس محرم كو ہم جو كچھ كرتے ہيں وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ محبت كى دليل ہے، اور ايسے عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں يہ بالكل ايسے ہى ہے جيسے يعقوب عليہ السلام نے كہا تھا:
{ہائے يوسف! ان كى آنكھيں رنج و غم كى وجہ سے سفيد ہو چكى تھيں، اور وہ غم كو دبائے ہوئے تھے، بيٹوں نے كہا واللہ ! آپ ہميشہ يوسف كى ياد ہى ميں لگے رہيں گے يہاں تك كہ گھل جائيں يا ختم ہى ہو جائيں، انہوں نے كہا ميں تو اپنى پريشانيوں اور رنج كى فرياد اللہ ہى سے كر رہا ہوں، مجھے كى طرف سے وہ باتيں معلوم ہيں جو تم نہيں جانتے }.
برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ سينہ كوبى اور ماتم كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
الحمد للہ:
عاشوراء ميں شيعہ حضرات جو ماتم و سينہ كوبى كرتے ہيں، اور اپنے آپ كو زنجيروں اور چھرياں وغيرہ مارتے ہيں، اور تلواروں كے ساتھ اپنے سر زخمى كرتے اور خون نكالتے ہيں دين اسلام ميں اس كى كوئى اصل نہيں ملتى، بلكہ يہ اسلامى تعليمات كے منافى ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت كے ليے ايسى كوئى چيز مشروع نہيں فرمائى اور نہ ہى اس ماتم كے قريب بھى كچھ مشروع كيا ہے كہ اگر كوئى عظيم مقام و رتبہ والا شخص فوت ہو جائى يا كوئى دوسرى شہيد ہو تو اس كے ماتم ميں ايسى خرافات كى جائيں.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں كئى ايك كبار صحابہ كرام كى شہادت ہوئى اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان كى موت پر غمزدہ بھى ہوئے مثلا حمزہ بن عبد المطلب اور زيد بن حارثہ اور جعفر بن ابى طالب اور عبد اللہ بن رواحہ ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كوئى عمل نہيں كيا جو شيعہ حضرات كرتے ہيں، اور اگر يہ كام خير و بھلائى ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے.
اور پھر يعقوب عليہ السلام نے سينہ كوبى نہيں كى، اور نہ ہى اپنے چہرے كو زخمى كيا، اور نہ خون بہايا، اور نہ ہى اس دن كو جس ميں يوسف عليہ السلام گم ہوئے تھے تہوار بنايا اور نہ ہى اس روز كو ماتم كے ليے مختص كيا، بلكہ وہ تو اپنے پيارے اور عزيز بيٹے كو ياد كرتے اور اس كى دورى سے پريشان و غمزدہ ہوتے تھے، اور يہ ايسى چيز ہے جس كا كوئى بھى انكار نہيں كر سكتا اور كوئى بھى روك نہيں سكتا، بلكہ ممانعت و برائى تو اس ميں ہے جو جاہليت كے امور بطور وراثت لے كر اپنائے جائيں جن سے اسلام نے منع كر ديا ہو.
بخارى و مسلم ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس نے بھى رخسار پيٹے اور گريبان چاك كيا اور جاہليت كى آوازيں لگائيں وہ ہم ميں سے نہيں "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1294 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 103 ).
چنانچہ يوم عاشوراء كے دن شيعہ حضرات جو غلط كام كرتے ہيں اس كى دين اسلام ميں كوئى دليل نہيں ملتى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ ميں سے كسى ايك كو بھى اس كى تعليم نہيں دى، اور نہ ہى كسى صحابى يا كسى دوسرے كى موت پر ايسے اعمال كيے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت پر صحابہ كرام نے بھى ايسا نہيں حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كى مصيبت تو حسين رضى اللہ تعالى كى موت سے بھى زيادہ ہے.
حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ہر مسلمان كو چاہيے كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے پر غمزدہ ہونا چاہيے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ مسلمانوں كے سردار اور علماء صحابہ كرام ميں سے تھے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نواسے اور آپ كى اس بيٹى كى اولاد ميں سے جو سب بيٹيوں سے افضل تھى، اور پھر حسين رضى اللہ تعالى عنہ عابد و زاہد اور سخى و شجاعت و بہادرى كا وصف ركھتے تھے.
ليكن شيعہ حضرات جو كچھ كرتے ہيں اور جزع و فزع اور غم كا اظہار جس ميں اكثر طور پر تصنع و بناوٹ اور رياء ہوتى ہے ان كا يہ عمل اچھا نہيں، حالانكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ تو حسين سے افضل تھے انہيں شہيد كيا گيا ليكن وہ اس كے قتل ہونے پر ماتم نہيں كرتے جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے والے دن ماتم كرتے ہيں.
كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ كو چاليس ہجرى سترہ رمضان المبارك جمعہ كے روز اس وقت قتل كيا گيا جب وہ نماز فجر كى ادائيگى كے ليے جا رہے تھے، اور اسى طرح اہل سنت كے ہاں عثمان رضى اللہ تعالى عنہ على رضى اللہ تعالى عنہ سے افضل ہيں انہيں محاصرہ كر كے ان كے گھر ميں چھتيس ہجرى ماہ ذوالحجہ كے ايام تشريق ميں شہيد كيا گيا، اور انہيں رگ رگ كاٹ كر ذبح كيا گيا، ليكن لوگوں نے ان كے قتل كے دن كو ماتم نہيں بنايا.
اور اسى طرح عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ جو كہ عثمان اور على رضى اللہ تعالى عنہما سے افضل ہيں انہيں نماز فجر پڑھاتے ہوئے محراب ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرتے ہوئے شہيد كيا گيا ليكن لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم كا دن نہيں بنايا.
اور اسى طرح ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ ان سے افضل تھے اور لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم والا دن نہيں بنايا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو دنيا و آخرت ميں اولاد آدم كے سردار ہيں آپ كو بھى اسى طرح قبض كيا گيا اور فوت كيا گيا جس طرح پہلے انبياء كو فوت كيا گيا، ليكن كسى ايك نے بھى ان كى موت كو ماتم نہيں بنايا، اور وہ ان رافضى جاہلوں كى طرح كريں جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے كے دن خرافات كرتے ہيں...
اس طرح كى مصيبتوں كے وقت سب سے بہتر وہى عمل ہے جو حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے انہوں نے اپنے نانا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى مسلمان كو بھى كوئى مصيبت پہنچى ہو اور وہ مصيبت ياد آئے چاہے وہ پرانى ہى ہو چكى ہو تو وہ نئے سرے سے دوبارہ انا للہ و انا اليہ راجعون پڑھے تو اللہ تعالى اسے اس مصيبت كے پہنچنے والے دن جتنا ہى اجر و ثواب عطا كرتا ہے "
اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے " انتہى
ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 221 ).
اور ايك مقام پر لكھتے ہيں:
" چوتھى صدى ہجرى كے آس پاس بنو بويہ كے دور حكومت ميں رافضى شيعہ حضرات اسراف كا شكار ہوئے اور بغداد وغيرہ ميں يوم عاشوراء كے موقع پر ڈھول پيٹے جاتے اور راستوں اور بازاروں ميں ريت وغيرہ پھيلا دى جاتى اور دكانوں پر ٹاٹ لٹكا ديے جاتے، اور لوگ غم و حزن كا اظہار كرتے اور روتے، اور ان ميں سے اكثر لوگ اس رات پانى نہيں پيتے تھے تا كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى موافقت ہو؛ كيونكہ وہ پياسے قتل ہوئے تھے.
پھر عورتيں چہرے ننگے كر كے نكلتيں اور اپنے رخسار پيٹتيں اور سينہ كوبى كرتيں

No comments:

Post a Comment