Monday 26 September 2016

محرم الحرام کے حوالے سے

مروّجہ تعزیہ وغیرہ کی حقیقت اور شرعی حیثیت
اس کے علاوہ محرم کے ابتدائی دس دنوں میں رونا پیٹنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، چھاتی پیٹنا، سربرہنہ پھرنا، غسل چھوڑ دینا، سیاہ کپڑے پہننا، بچوں کو سیاہ اور سبز کپڑے اور مَوْلی پہنانا، شہدا کے نام کی نذر ونیاز دینا، ماتم کی محفلیں قائم کرنا، جنگ نامے پڑھنا، ماتمی جلوس، تعزیہ، مہندی، گھوڑا وغیرہ سب بدعات ہیں جن کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہیں بلکہ صریح اُسوئہ حسنہ کے خلاف ہیں۔ اُسوئہ حسنہ تو صرف یہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا یعنی نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھا جائے جس سے ایک سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور بس!
ہندوستان میں تعزیہ کب آیا؟
تعزیہ داری وغیرہ رسوم سے آٹھ سو سال تک ہندوستان بالکل پاک رہا۔
۸۰۱ ہجری میں تیمور لنگ ترکستان کا بادشاہ جو نسلاً تاتاری اور مذہبا ً شیعہ تھا، اس نے پہلے پہل اس رسم کو ایجاد کیا اور ہندوستان میں پہلا تعزیہ ۹۶۲ہجری میں ہمایوں بادشاہ کی معرفت آیا۔
اس نے اپنے وزیر بیرم خان کو بھیج کر۴۶ تولہ کا ایک زمردین تعزیہ منگوایا جہاں سے ہندوستان میں اس رسم کی ابتدا ہوتی ہے۔شریعت ِمحمدیہؐ میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
اہل بیت کا اُسوئہ حسنہ اور ’محبانِ اہل بیت ‘ کا طرزِ عمل
اب دیکھنا یہ ہے کہ آغازِ محرم سے جن حرکات و سکنات اور افعال و اعمال کا ارتکاب کیا جاتا ہے؛کیا واقعتا وہ اہل بیت کی محبت کا تقاضا ہے؟
یہ ایک مسلمہ اُصول ہے کہ محبوب کی ہر اَدا پر محبت کرنے والا دل و جان سے شیدا ہوتا ہے اورمحبوب کا قرب حاصل کرنے کے لئے ایسا طریقہ اختیار کرتاہے جو محبوب کے نزدیک اَنسب اور وجہ ِ مسرت ہو۔ اگر اس کے خلاف کرے گا تو محبوب کی ناراضگی اور مفارقت کا موجب ہوگا۔
افسوس اور صد افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان حضرات نے اہل بیت کی محبت میں وہ طریقہ اختیار کیا ہے جس پر اہل بیت اور خود رسولِ اکرمﷺسخت ناراض ہیں اور وہ اپنے اَعمال سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے اُن کو محبت نہیں کیونکہ رسول اللہﷺ اور آپؐ کے اہل بیت ؓ نے ایسے افعال کا نہ تو حکم دیا اور نہ ہی خواہاں تھے،بلکہ آپﷺکی تعلیمات سے تو یہی اخذ ہوتا ہے کہ وہ دین میں خرافات وبدعات کے سخت دشمن تھے، لہٰذا اس بنا پر ایسی خرافات کے مرتکب لوگوں کا محض دعویٰ محبت اُنہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واقعہ شہادت میں وہ گراں قدر بصیرتیں موجود ہیں جن سے اُمتِ مرحومہ کے دلوں میں عزم و استقلال، صبرو ثبات، استبداد شکنی، قیامِ خلافت، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی روح پیدا ہوتی ہے اور
حضرت حسین ؓ کی قربانی کا مقصد ہی یہ تھاکہ میرے نانا کی اُمت اچھے اوصاف سے متصف ہوجائے مگر لوگوں نے اس عظیم الشان قربانی کا مضحکہ اُڑانا شروع کردیا اور تعزیوں کے جلوسوں کو حضرت حسینؓ کی عظمت کے لئے کافی سمجھ لیا اور ماتم کرنے، بال نوچنے، چھاتی پیٹنے ، بدن زخمی کرنے اور نوحہ اور بین کرنے کو اہل بیت کی محبت کا معیار قرا ردے دیا۔ ع
نوحہ کے بارے میں دربارِ نبوت کا حکم و عمل
اسلام میں خویش و اقارب اور گذشتہ بزرگوں پر ماتم و بین کرنا اور اس قسم کی حرکات کرنا جو آج اکثر طور پر کی جاتی ہیں، سخت منع ہے۔چنانچہ سرکارِ مدینہﷺ کا فرمان ہے:
’’ أَنَا بَرِیٌٔ مِمَّنْ حَلَقَ وَسَلَقَ وَخَرَقَ‘‘ (صحیح مسلم:۱۰۴)
’’ جس نے (نوحہ کے لیے) سر کے بال منڈوا دیئے یابلند آواز سے بین کئے یا کپڑے پھاڑے، میں اس سے بیزار ہوں۔‘‘
نیز فرمایا:
’’ لیس مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الخُدودَ وشقَّ الجُیُوب ودَعا بدعوٰی الجاھلیۃ‘‘
’’جس نے(نوحہ کے لیے) کرتے ہوئے منہ کو پیٹا، کپڑے پھاڑے اور جاہلیت کے بین کئے، وہ ہم سے نہیں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۲۹۷ )
اس کے علاوہ نبی کریمﷺ نے عملاً یہ اُسوئہ حسنہ پیش کیا کہ اپنے فرزند دل بند ابراہیم ؓ کی وفات پر فرمایا:
’’ العینُ تدمع والقلب یحزُن ولا نقول إلا ما یرضٰی ربنا‘‘
’’دل غمگین ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہیں مگر زبان سے وہی لفظ نکلیں گے جن سے ہمارا ربّ راضی ہو۔‘‘ (صحیح بخاری :۱۳۰۳ )
اور اپنی صاحبزادی حضرت زینبؓ کے لڑکے کی وفات کی خبر سن کر اس کو یہ پیغام بھیجا:
’’ إن ﷲ ما أخَذَ ولہ ما أعطٰی وکل عندہ بأجل مسمّٰی فَلتصبر ولتحتسب‘‘
’’اللہ کا مال تھا جو اُس نے لے لیا اور جو اُس نے دے رکھا ہے، وہ بھی اسی کا ہے اور ہر ایک کے لئے اس کے پاس ایک مقررہ وقت ہے۔ چنانچہ(بیٹی تو) صبر سے کام لے اور اس پر اللہ سے ثواب کی اُمیدوار رہ۔‘‘ (صحیح بخاری:۱۲۸۴)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی زینبؓ کے فوت ہوجانے پر عورتوں نے رونا شروع کردیا۔ حضرت عمرفاروقؓ ان عورتوں کو اپنے کوڑے سے مارنے لگے۔ رسولِ اکرمﷺ نے دیکھا تو اُن عورتوں کو پیچھے ہٹایا اور فرمایا: اے عمرؓ! ٹھہر جا۔ پھر عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: دیکھو! شیطانی آواز مت نکالو۔ پھر آپؐ نے فرمایا:
’’ إنہ مھما کان من العین والقلب فمن اﷲ عزوجل ومن الرحمۃ وما کان من الید ومن اللسان فمن الشیطان‘‘ (مسنداحمد:۱؍۲۳۷)
’’میت کے غم میں جہاں تک دل کے غم اور آنسوؤں کا تعلق ہے، سو یہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور انسانی ہمدردی اور رحم کا نتیجہ ہے۔ مگر ہاتھ (سے پیٹنا )اور زبان (سے بین کرنا) یہ سب شیطانی اعمال ہیں۔‘‘
اور
’’ نہٰی رسول اﷲ ! عن المراثي ‘‘(سنن ابن ماجہ:۱۵۹۲)
’’رسول اللہﷺ نے مرثیہ خوانی سے منع فرمایا ہے۔‘‘
دوستو!
یہ ہے وہ اُسوئہ حسنہ جس کی اتباع ہر مسلمان کا فرضِ اوّلین ہے اور ایک خاص طبقہ کا سال محرم کے دس ابتدائی دنوں میں نت نئے افعالِ کا ارتکاب سنت ِنبوی کے سراسر خلاف ہے بلکہ حضرت حسینؓ کی قربانی سے استہزا ہے۔ یہ کس قدرمضحکہ خیزی کی بات ہے کہ
حضرت حسینؓ تو ملت ِاسلامیہ کے سامنے شجاعت سے ودلیری سے اُسوۂ شہادت پیش کریں اور ہم میں سے کچھ لوگ اس عظیم اُسوۂ شہادت پر سینہ کوبی کریں۔
ایک مسلمان کا یہ افسوسناک منظر دیکھ کر کلیجہ شق ہوجاتا ہے کہ حضرت حسینؓ ایسے مجاہد و موحد کی عظیم الشان شہادت کی یادگار کو تعزیوں کی صورت میں بازاروں اور گلی کوچوں میں اُٹھائے پھرنا اور پھر ایک فرضی کربلا میں یہ تعزیے پھینک دینا اور پھر سارا سال اُنہیں کوئی نہیں پوچھتا۔

No comments:

Post a Comment