Wednesday 14 September 2016

حامد بن زہرہ کی شہادت

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 45.
شہادت______________آواز میں کہا جناب قلعے کے قریب نالے کے پل کے سے اس طرف"-
حامد بن زہرہ قتل ہو چکے ہیں؟ "
ہاں"!
اور ان کا بیٹا سعید؟ "
سلمان نے ڈوبتی ہوئی آواز میں پوچھا.
اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا اگر وہ ان کے ساتھ تھا تو ممکن ہے کہ وہ بچ کر نکل گیا ہو.
تم نے کتنے آدمیوں کو مارا قتل کیا ہے؟ "
ہم نے جو لاشیں دیکھیں تھی ان کی تعداد سات تھی.
ان میں سے دو ہمارے ساتھی تھے لیکن اللہ جانتا ہے کہ میں نے حملے میں حصہ نہیں لیا تھا"-
سلمان نے گرج کر کہا تم جھوٹ بولتے ہو"-
اللہ کی قسم میں جھوٹ نہیں بولتا-حامد بن زہرہ کے قاتل میرے لئے اجنبی تھے"-
ہمیں غرناطہ سے روانہ ہوتے وقت یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم حامد بن زہرہ کا راستہ روکنے جا رہے ہیں-
کوتوال نے تو صرف ہمیں یہ بتایا تھا کہ شہر میں چند رضا کار کسی خطرناک مجرم کی تلاش میں جا رہے ہیں اور انہیں ہماری مدد کی ضرورت ہے-
تم وردیوں کی بجائے سادہ لباس میں نکلو شہر کے جنوبی دروازے سے باہر ان کا انتظار کرو.
اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ ہم چوکی سے نکلتے ہی اپنے چہروں پر نقاب ڈال لیں.
جب ہم دروازے سے باہر نکلے ہی تھے کہ تھوڑی دیر بعد وہ مسلح نقاب پوش بھی وہاں پہنچ گئے پھر ان کے رہنما نے ہمیں دو حصوں میں تقسیم کر دیا.
ایک ٹولی جنوب مشرق کی طرف روانہ ہو گئی اور میرے تین ساتھی ان کے ساتھ چلے گئے.
ہم تیرہ رضا کاروں کے ہمراہ اس راستے پر ہو لئے.
سلمان نے کہا بیوقوف میرے پاس تفصیل سننے کے لیے وقت نہیں ہے مجھے مختصر بتاؤ"-
جناب آپ
پورا واقعہ سنے بغیر یقین نہیں کریں گے کہ میں ان کے ساتھ شامل نہیں تھا .
ہم پل کے پاس پہنچے تو بارش زوروں پر تھی. رضا کاروں کے رہنما نے پانچ آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ تمام گھوڑوں کو پل کے پار لے جائیں اور باقی سڑک کے دونوں طرف جھاڑیوں میں چھپ کر اس کے حکم کا انتظار کریں.
پھر ہمیں ان کے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی.
جب پل کے قریب پہنچے تو اچانک اس کی آواز آئی ٹھہریے آگے مت جائیے اس کے ساتھ ہی ہمارے رہنما نے تیر چلانے کا حکم دے دیا. میرا خیال ہے پانچ آدمی تیروں کی بوچھاڑ سے گر پڑے تھے.
پھر اچانک ایک سوار جو سب سے پیچھے تھا سڑک سے اتر کر تیر اندازوں کے عقب میں پہنچ گیا اور اس نے آنکھ جھپکنے میں ایک آدمی کو موت کے گھاٹ اتار دیا.
پھر بجلی کی چمک کے ساتھ مجھے باقی دو سوار سڑک سے مغرب کی سمت بھاگتے ہوئے دکھائی دیتے.
ایک سوار زین پر جھکا ہوا تھا اور دوسرے نے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ رکھی تھی میرا خیال ہے وہ زخمی تھا.
اچانک تیسرا سوار جس نے ہمارے دائیں طرف حملہ کر کے ہمارے ساتھی کو قتل کیا تھا یکا یک سڑک عبور کر کے بائیں طرف پہنچ گیا.
اگر میں اپنے ساتھیوں کو تیر چلانے سے منع نہ کرتا تو اس کا بچ نکلنا ممکن نہیں تھا.
ہمیں ان درندوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان میں سے ایک آدمی بھی بچ کر نکل گیا تو کوتوال ہماری گردنیں اتروا دے گا.
سلمان نے کہا تمہیں اپنی وکالت کی ضرورت نہیں ہے-
مجھے معلوم ہے تم کتنے نیک ہو.
میں تم سے حامد بن زہرہ کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں"-
جناب وہ قتل ہو چکے ہیں انہوں نے بجلی کی چمک میں ان کی لاش پہچان لی تھی.
میرا خیال ہے کہ جب وہ گھوڑے سے گر پڑے تھے تو کسی نے ان کے سر اور سینے پر تلوار سے ضربیں لگائیں تھی.
دو اور آدمی سسک رہے تھے انہیں بھی قتل کر دیا گیا تھا.
اور ان کی لاشیں؟ "-
انہیں نالے میں پھینک دیا گیا تھا اب تک تو وہ شاید دریا میں پہنچ چکی ہوں گی.
سلمان نے کہا تم نے ایک جھوٹ بولا ہے
جناب میں قسم کھاتا ہوں کہ لاشیں نالے میں پھینک دی گئی تھی.
بیوقوف میں لاشوں کی بات نہیں کر رہا. تم نے کہا تمہارے ساتھیوں میں سے دو آدمی قتل ہوئے تھے اس طرح ان کی لاشیں سات ہونی چاہیئے تھیں.
جناب ساتواں آدمی اس کے بعد قتل ہوا تھا ہمارے رہنما نے گھوڑے منگوانے کے بعد مجھے یہ حکم دیا تھا کہ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سڑک سے سیدھا غرناطہ کا رخ کروں اور خود اپنے رضا کاروں کو لے کر بائیں طرف چلا گیا تھا-
ہم بہ مشکل سو قدم دور گئے تھے کہ ہمیں طپنچہ چلنے کی آواز کے ساتھ رضا کاروں کی چیخ و پکار سنائی دی-
ہم نے گھوڑے روک لئے اور اپنے ایک ساتھی کو تحقیق کے لیے بھیجا-
اس نے واپس آ کر بتایا کہ بھاگنے والوں میں سے ایک سوار پل سے تھوڑی دور جھاڑیوں کی اوٹ میں کھڑا تھا اور اس نے رضا کاروں میں سے ایک آدمی کو ہلا کر دیا ہے"-
پھر سڑک پر تم نے صرف دو سوار دیکھے تھے؟ "
ہاں ہم نے راستے کی ایک بستی سے آگے سڑک کے موڑ پر گھوڑوں کی ٹاپ سنی تھی اور ہمارا اندازہ یہی ہے کہ وہ دور تھے.
ہمارا خیال ہے کہ تیسرے آدمی نے طپنچہ چلا کر ہمارے آدمیوں کو اپنے پیچھے لگا کر باقی ساتھیوں کو بچ نکلنے کا موقع دیا ہے.
اور مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ وہ اپنا پیچھا کرنے والوں کو چکمہ دے کر دے کر سڑک پر پہنچ گئے ہیں"-
تمہیں اس بات کی خوشی تھی کہ اگر وہ تمہارے ہاتھ آ جائیں تو غدار تمہیں زیادہ انعام کا مستحق سمجھیں گے"-
اللہ کے لیے میرا یقین کریں اگر ہم تھوڑی سی کوشش کرتے تو انہیں گھیر لینا مشکل نہیں تھا.
ہم صرف دکھاوے کے طور پر ان کا پیچھا کر رہے تھے. اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تھا.
جب فاصلہ کم ہونے لگتا تو ہم اپنی رفتار کم کر دیتے تھے جب فاصلہ زیادہ ہونے لگتا تو ہم رفتار تھوڑی تیز کر دیتے تھے.
تمہیں حامد بن زہرہ کے قتل کے بعد بھی پتہ نہیں چلا کہ تمہارا رہنما کون تھا؟ -
نہیں میں عرض کر چکا ہوں کہ انہوں نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے.
سلمان نے کہا تم اس جھونپڑی کے اندر چلے جاو ہو سکتا ہے کہ اس کا کچھ حصہ سلامت ہو اور تمہیں بارش سے پناہ مل جائے-
میں واپس غرناطہ پہنچتے ہی کسی کو تمہاری مدد کے لیے بھیجنے کی کوشش کروں گا"-
زخمی چلایا اللہ کے لئے یہ ظلم نہ کرنا اگر کسی کو پتہ چل گیا کہ میں حامد بن زہرہ کے قاتلوں کا ساتھی ہوں تو کوتوال کے لیے میری جان بچانا مشکل ہو گا.
لوگ میری بوٹیاں نوچنے کے لیے تیار ہو جائیں گے.
تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ -
مجھے معلوم نہیں مگر میں غرناطہ نہیں جانا چاہتا مجھے یقین نہیں ہے کہ میں صبح تک زندہ رہوں گا"-
تم جیسے لوگوں کو جلدی موت نہیں آتی اور میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ تم زخمی کم اور خوفزدہ زیادہ ہو.
تم کسی رحم کے مستحق نہیں ہو لیکن میں نے تمہاری جان بخشی کا وعدہ کیا ہے.
تمہاری گفتگو سے میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ پولیس کے باقی دو آدمی تمہارے ماتحت تھے.
جناب میں اس بات سے انکار نہیں کرتا وہ میری کمان میں غرناطہ سے روانہ ہوئے تھے لیکن شہر سے نکلنے کے بعد میری ذمہ داری صرف اتنی تھی کہ میں ان سے رضا کاروں کے رہنما کے احکامات کی تعمیل کرواؤں.
یہ میری بد قسمتی تھی کہ جب ان کے رہنما نے تیر چلانے کا حکم دیا تو میں اپنے ساتھیوں کو بروقت روک نہیں پایا تھا روک بھی لیتا تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا.
سلمان نے کہا میرا خیال ہے تمہارے آدمی تمہیں اس حالت میں چھوڑ کر غرناطہ جانے کی جرات نہیں کریں گے-
اس لئے تم میرے آگے آگے چلتے رہو ممکن ہے تھوڑی دور آگے کہیں چھپے ہوئے ہوں چلو"!
____________○______________
زخمی بے بسی کی حالت میں سلمان کے آگے چل دیا-
سڑک پر کوئی دو سو قدم چلنے کے بعد ایک طرف سے کسی کی آواز سنائی دینے لگیں
" یحییٰ یحییٰ! مروان"-
سلمان نے گھوڑا روکتے ہوئے اپنے ساتھی سے کہا ٹھہرو کیا تمہارا نام یحییٰ ہے؟ "-
میرا نام یحییٰ ہے"-
سلمان نے کہا تم زمین پر لیٹ جاؤ اور اپنے ساتھی کو اس طرف بلانے کی کوشش کرو جلدی کرو ورنہ میں تمہاری گردن اڑا دوں گا.
زخمی نے جلدی سے زمین پر لیٹ کر آواز دی میں یہاں ہوں.
سلمان...

No comments:

Post a Comment