Monday 26 September 2016

اندھیری رات کے مسافر.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 54.
باپ اور بیٹا____________گولی لگنے سے ہلاک ہوا اور باقی تین؟•••••••بیوقوف مجھے اس اس بات سے کیا غرض کہ تمہارے بزدل آدمیوں کو انہوں نے کس کس ہتھیار سے جہنم واصل کیا ہے-
تمہیں صبح تک اپنے باقی دونوں آدمیوں کی لاشیں بھی مل جانی چاہئیں اور وہ دشمن کے ہاتھ نہ آ گئے ہو.
ورنہ یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے تمہاری قربانی پیش کر دیں.
انہیں تلاش کرنا ان کی زبانوں کو بند رکھنا میرا نہیں تمہارا فرض ہے"-
کوتوال کو اور کچھ کہنے کی جرآت نہ ہوئی اور وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ابو القاسم کی طرف دیکھنے لگا"-
ابو القاسم نے قدرے نرم ہو کر کہا تم نے لاشوں کا کیا کیا ہے؟ "
جناب وہ لاشیں یہاں لائی جا رہی ہیں"
یہاں میرے گھر پر ابو القاسم گرجا-
نہیں جناب لاشوں کو ان کے گھروں میں پہنچا دیا جائے گا"-
وہ کس لیے؟ "
مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ تم لاشوں کو کہاں غائب کرتے ہو لیکن
میں تمہیں یہ بتا سکتا ہوں کہ اگر عوام کو حامد بن زہرہ کے قتل کا پتہ چل گیا تو یہ لاشیں تمہارے خلاف گواہی دیں گی-
اللہ کے لیے میری طرف اس طرح نہ دیکھو! "
عتبہ نے کوتوال سے کہا"-
آپ فوراً لاشوں کو ٹھکانے لگانے کی کوشش کریں اور باقی دو آدمیوں کا پتہ لگائیں-
اس کے بعد غرناطہ میں حامد بن زہرہ کے ساتھیوں کی تلاش شروع کر دیں-
آپ نے پہرے داروں سے دریافت کیا تھا؟ "
ہاں وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک وہ شہر میں نہیں آئے لیکن میں ان پر اعتماد نہیں کر سکتا"-
ابو القاسم نے کہا"-
تم اپنے آدمیوں کے متعلق بھی اس قدر محتاط ہوتے
اللہ کے لئے اب میرا وقت ضائع نہ کرو جاو! "
کوتوال کمرے سے باہر نکل گیا- ابو القاسم عتبہ اور عمیر سے مخاطب ہوا"-
تم صبح ہوتے ہی سعید کے گاؤں کا رخ کرو ہو سکتا ہے کہ پولیس کے آدمیوں کو قتل کرنے کے بعد وہ غرناطہ آنے کی بجائے وہاں پناہ لینا زیادہ مناسب سمجھے لیکن کسی کو یہ شک نہیں ہونا چاہیے کہ تم ان کے دشمن ہو-
گاؤں میں اس پر حملہ کرنے کی ضرورت نہیں - ہم اس کی جائے پناہ کا پتہ لگانے کے بعد مناسب قدم اٹھا سکیں گے"-
__________○___________
ہاشم اپنے دل پر ایک ناقابل برداشت بوجھ محسوس کرتے ہوئے مہمان خانے کے ایک کشادہ کمرے میں داخل ہوا اور کچھ دیر بے چینی کی حالت میں ٹہلتا رہا اسے یہ بات ناقابل یقین معلوم ہوتی تھی کہ حامد بن زہرہ قتل ہو چکا ہے اور وہ اپنے آپ کو ایک کو یہ کہہ کہ اپنے دل کی تسلی کر رہا تها کہ آبو القاسم اسے ایک فرضی داستان سنا کر امتحان لے رہا ہے.
شاید وہ گرفتار ہو چکا ہے اور ابو القاسم اس کے قتل کی فرضی داستان سنا کر یہ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کے دوستوں کا کیا رد عمل ہوتا ہے-
لیکن پھر اچانک اس کی نظر میں عمیر کی شکل آ جاتی ہے اور اس کا دل ڈوبنے لگتا ہے-
کچھ دیر بعد وہ ایک ناقابل برداشت گھٹن محسوس کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آیا-
برآمدے میں ایک مسلح پہرے دار نے اس کا رستہ روکتے ہوئے پوچھا جناب آپ کہاں جا رہے ہیں؟ "
میں وزیراعظم سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں"-
جناب آپ صبح سے پہلے ان سے نہیں مل سکتے"-
وہ اندر جا چکے ہیں؟ "
مجھے معلوم ہے تم انہیں اطلاع دو کہ میں صرف اپنے بیٹے سے ملنا چاہتا ہوں"-
آپ کا بیٹا؟ ہاں وہ ان کے کمرے میں ہے"-
جناب میں اس وقت ان کے کمرے میں کیسے جا سکتا ہوں! "
تمہیں ان کے کمرے میں جانے کی ضرورت نہیں ہے میں چاہتا ہوں کہ عمیر ملاقات کے بعد میرے پاس آ جائے-
اس لیے تم کسی نوکر سے کہو کہ باہر نکلتے ہی اسے میرا پیغام پہنچا دے.
ورنہ میں خود اس کے راستے میں کھڑا رہوں گا"-
نہیں جناب آپ اپنے کمرے میں آرام کریں میں اس کا پتہ لگاتا ہوں"-
پہرے دار یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا اور ہاشم نے کمرے میں جانے کی بجائے برآمدے میں ٹہلنا شروع کر دیا-
زہنی اضطراب اور خلجان کے باعث اسے سردی کی شدت کا زرا احساس نہ تھا-
چند منٹ بعد پہرے دار واپس آیا تو اس کے ساتھ محافظ دستے کا افسر تھا جس کے ساتھ دن کے وقت ملاقات ہو چکی تھی-
پہرے دار چند قدم دور رک گیا اور افسر نے ہاشم کے قریب آ کر کہا جناب عمیر تو کب کا جا چکا ہے اور وزیراعظم شہر کے معززین سے گفتگو کر رہے ہیں-
ہاشم کا دل بیٹھ گیا اس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا عمیر کہاں گیا ہے؟ "
جناب مجھے معلوم نہیں اگر کوئی ضروری بات ہے تو میں صبح کے وقت کسی کو اس کی تلاش میں بھیج دوں گا اس وقت آپ کو آرام کرنا چاہیے"-
نہیں میں اسی وقت اسے تلاش کرنا چاہتا ہوں ہاشم نے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن پہرے دار نے آگے بڑھ کر اس کا راستہ روکتے ہوئے کہا میں اس گستاخی کی معافی چاہتا ہوں لیکن وزیراعظم کی اجازت کے بغیر آپ محل سے باہر نہیں جا سکتے.
اس وقت پہرے دار آپ کے لیے شہر کے دروازے کھولنے کی جرات نہیں کر سکتے"-
ہاشم نے غصے سے کہا میں وزیراعظم سے بات کرنا چاہتا ہوں"-
جناب آپ اس وقت ان سے نہیں مل سکتےافسر نے واپس مڑتے ہوئے کہا-
ہاشم نے پوری قوت سے چلانے کی کوشش کی لیکن اس کے حلق سے آواز نہیں نکلتی تھی-
وہ بھاگنا چاہتا لیکن اس کی ٹانگوں میں اس کا بوجھ سہارنے کی سکت نہ تھی-
اس نے دونوں ہاتھوں سے برآمدے کا ستون تھام لیا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے پہرے دار کی طرف دیکھنے لگا اس کا سانس رفتہ رفتہ گھٹ رہا تھا-
اور ڈوبتے ہوئے دل کی ہر ڈهرکن کے ساتھ درد کی ٹیسوں میں اضافہ ہو رہا تھا-
پھر اچانک اس کے بازو شل ہو گئے.
دونوں گھٹنے زمین کے ساتھ آ لگے-
پہرے دار نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کا بازو پکڑنے کی کوشش کی.
لیکن اس نے رہی سہی قوت سے کام لیتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹک دیا اور ایک طرف گر پڑا-
پھر اس نے چند لمحے تڑپنے کے بعد آخری بار جھرجھری لی اور اس کی آنکھوں کے آگے موت کے دائمی اندھیرے چها گئے-
پہرے دار سراسیمگی کی حالت میں اس کا بازو ٹٹولتا رہا پھر اچانک اپنے افسر کو اطلاع دینے بھاگا-
تھوڑی دیر بعد تین آدمی ہاشم کی لاش اٹھا کر کمرے کے اندر لٹا چکے تھے---
محافظ دستے کے افسر نے پہرے دار کو دروازہ بند رکھنے اور سختی کے ساتھ پہرہ دینے کی ہدایت دینے کے بعد ایک نوکر سے کہا تم باہر دروازے کے باہر جا کر یہ حکم دو کہ چار سوار فوراً کوتوال کے پیچھے روانہ ہو جائیں اور اسے تلاش کر کے فوراً واپس لے آئیں-
اسے صرف یہ بتانا جائے کہ وزیراعظم کو ایک ضروری کام ہے دروازے پر ایک بگهی بھی تیار رہنی چاہیے--
ایک سپاہی نے کہا_"
جناب!
اگر عمیر کو تلاش کرنا چاہتے ہیں تو اس کام کے لیے کوتوال کو بلوانے کی ضرورت نہیں ہے.
جب وہ ملاقات کے بعد وزیراعظم سے مل کر باہر نکل رہے تھے تو میں نے عتبہ کو یہ کہتے سنا تھا کہ اب صبح ہونے والی ہے اس تم اپنی قیام گاہ پر جانے کی بجائے میرے ہاں آرام کر لو.
نہیں اس وقت عمیر کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے فی الحال اس محل کے اندر باہر کسی کو بھی ہاشم کی موت کے متعلق علم نہیں ہونا چاہیے-
اور تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ وزیراعظم کا حکم ہے_"
_________○___________
ابھی پهع پھٹی نہ تھی-
ایک نوکر نے عتبہ کو گہری نیند سے جگاتے ہوئے کہا جناب میں اس گستاخی کی معافی چاہتا ہوں لیکن کوتوال اسی وقت آپ سے ملنے پر مصر ہے وہ کہتا ہے کہ اسے وزیراعظم نے بھیجا ہے.
عتبہ نے بڑی مشکل سے آپنا غصہ ضبط کیا اور پوچھا وہ کہاں ہے؟ "
جناب وہ باہر بگهی میں بیٹھا ہوا ہے-
میں نے اس کو ملاقات کے کمرے میں بیٹھنے کے لئے کہا تھا لیکن وہ کہتا ہے کہ اسے جلدی ہے اور عمیر کی موجودگی میں میرا اندر آنا ٹھیک نہیں ہے.
دو سوار بھی اس کے ساتھ ہیں میں نے کہا آپ ابھی سوئے ہوئے ہیں لیکن وہ کوئی ضروری پیغام لائے ہیں_"
عتبہ نے جوتا پہنا اور نوکر نے ایک بھاری قبا کهونٹے سے اتار کر اس کے کندھے پر ڈال دی.
چند ثانیے بعد. .....جاری ہے.

No comments:

Post a Comment