Wednesday 28 September 2016

حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی سلطنت.

حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی سلطنت

سلیمان علیہ السلام اللہ تعالٰی کے برگزیدہ نبی علیہ السلام تھے۔ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تعالٰیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کررکھے تھے۔ آپ جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے، ہوا پر آپ کا قابو تھا۔ آپ کا تخت ہوا میں اڑا کرتا تھا۔ صبح اور شام میں مختلف سمتوں کا ایک ایک ماہ کا فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہ تھی، بلکہ جن بھی آپ کے تابع تھے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر شروع کی جنات دور دور سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال نکال کر لایا کرتے تھے۔ ان میں کچھ عمارتیں آج تک موجود ہیں۔اور باقیوں کو یہودی ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جنوں سے اور بھی بہت سے کام لیے۔

تفسیر صاوی میں ہےکہ پوری دنیا کی بادشاہی صرف چار ہی شخصوں کو ملی جن میں سے دو مومن تھے اور دو کافر۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت ذوالقرنین تو صاحبان ایمان تھے اور نمرودو بخت نصر یہ دونوں کافر تھے۔
اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے بادشاہت نہ کسی کو ملی اور نہ آئندہ کسی کو ملے گی۔ (مفہوم قرآن)

حضرت سلیمان علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ میں رات بھر اپنی ننانوے بیویوں کے پاس دورہ کروں گا اور سب کے ایک ایک لڑکا پیدا ہو گا تو میرے یہ سب لڑ کے اللہ کی ر ا ہ میں گھوڑو ں پر سو ا ر ہو کر جہا د کریں گے ۔ مگر یہ فر ما تے و قت آپ نے ان شاء اللہ نہیں کہا۔ غالباً آپ اس وقت کسی ایسے شغل میں تھے کہ اس کا خیال نہ رہا۔ اس ''ان شاء اللہ ''کو چھوڑ دینے کا یہ اثر ہوا کہ صرف ایک عورت حاملہ ہوئی اور اُس کے بھی ایک ناقص الخلقت (کچا بچہ)ہوا۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ''ان شاء اللہ ''کہہ دیا ہوتا تو ان سب عورتوں کے لڑکے پیدا ہوتے اور وہ خدا کی راہ میں جہاد کرتے۔
(بخاری شریف، کتاب الجہاد، باب من طلب الولد للجہاد، ج۴،ص ۲۲، رقم ۲۸۱۹ )

ملکہ سبا نے آپ کے ہاتھ پر ہی قبول اسلام کیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک خاص معجزہ ا ور اُن کی سلطنت کا ایک خصوصی امتیاز یہ ہے کہ ان کے زیرِ نگین صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ جن اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے اور سب آپ کے حاکمانہ اقتدار کے زیرِ حکم تھے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ دربار ِ خداوندی (عزوجل)میں یہ دعا کی تھی کہ:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ ﴿35﴾

ترجمہ قرآن :۔اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی ہے بڑی دین والا۔(پ23،صۤ:35)
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا مقبول فرمالی اور آپ کو ایسی عجیب و غریب حکومت اور بادشاہی عطا فرمائی کہ نہ آپ سے پہلے کسی کو ملی، نہ آپ کے بعد کسی کو میسر ہوئی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جن نے یہ کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے تو خداوند تعالیٰ نے مجھ کو اس پر قابو دے دیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ تم سب دن میں اس کو دیکھ سکو۔ مگر اس وقت مجھ کو اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام)کی یہ دعا یاد آگئی کہ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ... الخ یہ یاد آتے ہی میں نے اس کو چھوڑ دیا۔
(بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا لداؤد سلیمن الخ، ج۱،ص ۴۸۷،۴۸۶۔ فتح الباری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا الخ، رقم الحدیث ۳۴۲۳، ج۶، ص ۵۶۶)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ خداوند تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل کے خصائص و معجزات و خصوصی امتیازات و کمالات مجھ میں جمع فرما دیئے ہیں اس لئے قوم جن کی تسخیر پر بھی مجھ کو قدرت حاصل ہے لیکن چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس اختصاص کو اپنا خصوصی طغراء امتیاز قرار دیا ہے اس لئے میں نے اس سلسلہ کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

ہوا پر حکومت
حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ بھی ایک خاص معجزہ اور آپ کی نبوت کا خصوصی امتیاز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ''ہوا'' کو ان کے حق میں مسخر کردیا تھا اور وہ ان کے زیرِ فرمان کردی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام جب چاہتے تو صبح کو ایک مہینے کی مسافت اور شام کو ایک مہینے کی مسافت کی مقدار ہوا کے دوش پر سفر کرلیتے تھے۔
قرآن کریم نے آپ کے اس معجزے کے متعلق تین باتیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے حق میں مسخر کردیا۔ دوسرے یہ کہ ہوا ان کے حکم کے اس طرح تابع تھی کہ شدید تیز و تند ہونے کے باوجود ان کے حکم سے نرم اور آہستہ روی کے باعث راحت ہوجاتی تھی، تیسری بات یہ کہ ہوا کی نرم رفتاری کے باوجود اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے صبح و شام کا جدا جدا سفر ایک شہ سوار کے مسلسل ایک ماہ کی رفتار کے برابر تھا گویا حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت انجن اور مشین جیسے ظاہری اسباب سے بالاتر صرف ان کے حکم سے ایک بہت تیز رفتار ہوائی جہاز سے بھی زیادہ تیز مگر سبک روی کے ساتھ ہوا کے کاندھے پر اُڑا چلا جاتا تھا۔

اس مقام پر تختِ سلیمان اور آپ کے سفر کے متعلق جو تفصیلات سیرت کی کتابوں اور تفسیروں میں منقول ہیں ان میں بہت سے واقعات اسرائیلیات کا ذخیرہ ہیں جن کو بعض واعظین بیان کرتے ہیں مگر وہ قابل اعتبار نہیں اور ان پر بہت سے اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا ہے کہ:
ترجمہ :۔اور سلیمان کے لئے تیز ہوا مسخر کردی کہ اس کے حکم سے چلتی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی اور ہم کو ہر چیز معلوم ہے۔ (پ17،الانبیاء:81)
اور سورہ سبا میں یہ ارشاد فرمایا کہ: (پ22،سبا:12)
ترجمہ :۔اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینہ کی راہ۔
اور سورہ ص ۤ میں فرمایا کہ:۔تو ہم نے ہوا اس کے بس میں کردی کہ اس کے حکم سے نرم نرم چلتی جہاں وہ چاہتا۔(پ23،صۤ:36)

تانبے کے چشمے
حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ عظیم الشان عمارتوں اور پرشوکت قلعوں کی تعمیر کے بہت شائق تھے اس لئے ضرورت تھی کہ گارے اور چونے کے بجائے پگھلی ہوئی دھات گارے کی جگہ استعمال کی جائے لیکن اس قدر کثیر مقدار میں یہ کیسے میسر آئے یہ سوال تھا جس کا حل حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس مشکل کو اس طرح حل کردیا کہ ان کو پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے عطا فرمائے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حسب ِ ضرورت حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کو پگھلا دیتا تھا اور یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ایک خاص نشان اور ان کا معجزہ تھا آپ سے پہلے کوئی شخص دھات کو پگھلانا نہیں جانتا تھا۔ (تذکرۃ الانبیاء،ص۳۷۷،پ۲۲، سبا :۱۲)

اور نجار کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ انعام فرمایا کہ زمین کے جن حصوں میں آتشی مادوں کی وجہ سے تانبا پانی کی طرح پگھل کر بہہ رہا تھا ان چشموں کو حضرت سلیمان علیہ السلام پر آشکارا فرمایا۔ آپ سے پہلے کوئی شخص بھی زمین کے اندر دھات کے چشموں سے آگاہ نہ تھا۔ چنانچہ ابن کثیر بروایت قتادہ ناقل ہیں کہ پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر ظاہر فرما دیا۔ (البدایہ والنہایہ، ج ۲،ص ۲۸)

قرآن مجید نے اس قسم کی کوئی تفصیل نہیں بیان فرمائی ہے کہ تانبے کے چشمے کس شکل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملے مگر قرآن کی جس آیت میں اس معجزہ کا ذکر ہے مذکورہ بالا دونوں توجیہات اس آیت کا مصداق بن سکتی ہیں۔ اور وہ آیت یہ ہے:ترجمہ :۔ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا۔(پ22،سبا:12)

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات بھی بے مثال تھی۔ اس کا مکمل تذکرہ الگ پوسٹ میں ہوگا۔ شکریہ

No comments:

Post a Comment