Monday 12 September 2016

مصحف قسط نمبر 6.

قسط نمبر 6

بس کے رکنے سے قبل اس نے بیگ میں سے پاکٹ مرر نکال کر دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر متورم سوجی آنکھوں کو چھپانے کے لئیے گہرا کاجل ڈال لیا-
محمل تم اتنا کاجل مت ڈالا کرو-مائنڈ مت کرنا پر تمہاری آنکھیں بلکھل گولڈن ہیں- اور کاجل میں بلکل بلی کی طرح لگتی ہیں-یو نو کیٹ وومن!" نادیہ دیکھ کر ہنس کر بولی-اور مجھے بلیاں بلکل پسند نہیں کھاؤ گی؟اس نے ہاتھ میں پکڑا چپس کا پیکٹ بڑھایا-
محمل نے ایک خاموش نگاہ اس پر ڈالی اوور نو تھینکس کہی کر خاموشی سے سر جھکائے اپنی کتاب میں کچھ لکھنے لگی-سر جھکانے سے اس کی اونچی پونی ٹیل مزید اوپر ا ٹھ جاتی-اور بھورے بال گردن پر گرتے دکھائی دینے لگتے-
مائی پلیئژر- نادیہ نے شانے اچکا کر پیکٹ واپس لے لیا-
وہ خاموشی سے سر جھکائے کچھ لکھتی رہی-وہ لائبریری میں نادیہ کو کل تائی کے انکار والی بات بتانے ائی تھی-مگر اس کا طنز سن کر دل ایک دم سے ٹوٹ سا گیا تھا-بس چٹکی بھر میں اس نے محمل کی خونصورت بادامی سنہری آنکھوں کو بلی سے مشابہت دے دی تھی- شاید اس لئے کہ عام سی صورت والی نادیہ جب محمل کے ساتھ چل رہی ہوتی تو بہت سے سر مور کر محمل کو ستائشی نظروں سے دیکھتے-
دراز قد اسمارٹ،لمبی گردن اور اونچی سنہری پونی ٹیل ،وہ لڑکی جس کی آنکھیں دھوپ میں اور بھی زیادہ چمکتی تھیںپورے کالج میں پاپولر تھی-ایسے میں جب کاجل ڈال کر وہ مزید خوبصورت دکھتی تو نادیہ سے کبھی کبھار برداشت نہ ہوتا تھا-اور وہ ایسا ضرور کچھ کہہ دیتی جس سے محمل کا دل ٹوٹ جاتا-
اب بھی وہ نادیہ اپنی بیسٹ فرینڈ کے پاس رونے آئی تھی مگر-نادیہ کے پاس پہلے اس کے دکھ سننے کی فرصت نا تھی-وہ مسلسل اپنے کام میں مگن تھی-اور جب ذرا دیر کو فارغ ہوئی تو اس کا دل پھر کچھ ایسا توڑا کہ وہ کچھ کہہ ہی نا سکی
ہا تم کچھ بتا رہی تھی؟وہ چپس کا پیکٹ کتاب کی اوٹ میں لیئے مسلسل چپس نکال کر کتر رہی تھی"تائی اماں کی کوئی بات تھی شاید-
نہیں کوئی بات نہیں تھی-
اچھا مجھے لگا-
نہیں غلط لگا تمہیں ما چلتی ہوں زارا سے کچھ کام ہے مجھے -وہ مصروف سی کتابیں اٹھائے باہر نکل گئی
اگلے دو دن یونہی مضحل سے گزرے-پریشانی مایوسی دکھ نا امیدی وہ ہر طرح کے منفی خیالات میں گری ہوئی تھی-یوں لگتا تھا جیسے دنا سے رنگ ہی ختم ہو گئے ہوں-سب کچھ پھیکا پھیکا سا تھااور دل کا باغ ویران اجڑا ہوا اور پھر اچانک تیسرے دن وہ سیاہ فام لڑکی آگئی-
اس نے دور سے اسے بینچ پر بیٹھے دیکھا- تو یکدم گصے کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی- وہ تیز تیز چلتی اس کے قریب آئی
تم دو دن سے کہاں تھی؟سیاہ فام لڑکی نے سر اٹھایا-
وہ بہت گصے سے اسے دیکھ رہی تھی-
میرا کچھ کام تھا میں-
تمہیں اپنا انتظار کروانے میں مزہ آتا ہے؟
تمہیں لگتا تھا میں تمہاری مدد کے بغیر مر جاؤں گی؟ہاں حآلانکہ ایسا نہیں ہوگا-تم توجہ لینے کے لیئے ایسا کرتی ھو- جس سے دوسرا تمہاری طرف کھنچا چلا آئے-
مگر مجھے تمہاری بلکل ضرورت نہیں ہے-اور نہ مجھے تمہاری پرواہ ہے-اور مجھے کتاب کی بھی ضرورت نہیں ہے-میں نہیں مری تمہاری مدد کے بغیر،دیکھو دیکھ لو میں زندہ ہوں تیز تیز بولتے وہ ہانپنے لگی تھی-
سیاہ فام لڑکی ذرا سا مسکرائی-
تو تم میرا انتظار کر رہی تھی-
نہیں ہرگز نہیں- وہ دو قدم پیچھے ہٹی-مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے-
تم شاید بلند آواز میں اپنے دل کی بات کو جھٹلا رہی ہو-اگر ایسا ہے تو مت کرو-اپنے دل کی سنو وہ تمہیں کچھ کہہ رہا ہے-
"مجھے ڈکٹیٹ مت کرو-میں اپنا اچھا برا خوب سمجھتی ھوں-تم معرے ساتھ امید افزا بات کر کے اپنی کتاب بیچنا چاہتی ہو-میں خوب سمجھتی ہوں تمہارا مقصد-مگر یاد رکھنا میں تم سے یہ کتاب ہرگیز نہیں خریدوں گی-
"نہ ہی میں تمہیں یہ بیچ رہی ہوں-لیکن ایک دن ایسا زرور آئے گا تم خود مجھ سے یہ کتاب مانگنے آؤ گی-اور تب میں تمہیں فورا تھما دوں گی-ابھی تم سفر کے آگاز میں ہواور جب تھکو گی تو اس کتاب کے پیچھے آؤ گی- مجھے تمہاری کسی کتاب کا برا نہیں لگامجھے بس تمہارے تھکنے کا انتظار ہے-جاؤ تمہاری بس آگئی-
اس وقت تو وہ غصے سے پلٹ گئی مگر پھر سارا دن یہ سوچتی رہی-کہ اس کو اس سیاہ فام لڑکی کو دیکھ کر اتنا غصہ کیوں آیا تھا-وہ کیا لگتی تھی اس کی-اس نے کیا بگاڑا تھا اس کا-اور اسے غصہ کس بات کا تھا-یوں انجانے لوگوں کے ساتھ اس طرح سلوک تو محمل کبھی نہ کرتی تھی پھر اب کیوں؟
ندامت اور شرمندگی کے احساس نے اسے سارا دن جکڑے رکھا-وہ کچن کے سارے کام بے دلی سے نپٹا رہی تھی- پڑھائی بھی ٹھیک سے نا کر سکی پیپرز ہورہے تھے-اب بھی اس کے پاس پڑھنے کو بہت کچھ تھا-مگر سارا دن احساس جرم اسے اندر سے کچوکے لگاتا رہااور رات کو جب اچانک رضیہ پھپھو کی آمد کا شور اٹھا' تو وہ بہت بے دلی کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آئی،
فائقہ آج کل سارا دن میرے ساتھ کچن میں کگی رہتی ہے-میں تو منع کرتی ہوں مگر مجال ہے یہ مجھے کسی کام کو ہاتھ لگانے دے-آج بھی پڈنگ بنائی تھی-کہہ رہی تھی سارے ماموں شوق سے کھاتے ہیں-انہیں دے آؤں میں نے کہا خودی دے آؤ-ماموں میں تو جان ہے معری بچی کیاور سب ٹھیک ہے گھر میں؟فواد کہاں ہے نظر نہیں آرہا-مہتاب تائی کے ہمراہ اندر آتی رضیہ پھپھو نے بات کے اختتام پر ادھر ادھر نثر دوڑاتے سرسری سے انداز میں پوچھا- فواد تہ نا نظر ایا مگر محمل پر نظر پڑی تو چہرے پر ناگواری کے تاثرات چھا گئے-شاید اس بات پر کہ ان کی آخری بات پر وہ استہزائیہ مسکرئی تھی-
لڑکی کوئی کام کاج بھی ہے کہ نہیں تجھے-جب دیکھو لوٹھا کے لوٹھا بھاگتی پھرتی ہے ادھر ادھر-میری بھابھی کا جگرہ ہے جو مفت خوروں کو ٹکا رکھا ہے گھر میں ورنہ میں ہوتی تو۔۔۔۔۔۔۔ ہونہہ-انہیں اس کی مسکراہٹ تپا گئی تھی-جیسے چوری پکری گئی ہو-سو بگڑ کر کہتی بڑے صوفے پر بیٹھ گئی-
فائقہ بھی ٹرے پکڑے جس میں دو ڈونگے تھے چلی آرہی تھی-فیشن کے مطابق شورٹ شرٹ کے نیچئ ٹراؤزر اور لمبے بال کھلے تھے-جن میں چوٹی کے بل صاف نظر آرہے تھے-وہ سدرہ کی طرح خوب میک اپ کرتی تھی-اور اسطرح شاید ذرا قابل قبول لگ جاتی- اگر وہ گہرے مسکارے اور آئی میک اپ کے اوپر وہ سیاہ فریم والا چشمہ نہ لگاتی تو-
یہ کہاں رکھوں ممانی جان؟وہ رک کر مدھم آواز میں پوچھ رہی تھی-ورنہ یہی فائقہ تھی جو کچھ عرصہ پہلے بے ہنگم شور کیا کرتی تھی-کچن میں رکھ دو بلکہ محمل تم لے جاؤ-لائیے-محمل آگے بڑھی تو فائقہ نے قدرے تذبذب سے ماں کو دیکھا-
دے دیں فایقہ باجی-فواد بھائی تو ویسے بھی ابھی آفس سے نہیں آئے-پھپھو پوچھ رہی تھی ابھی ان کا-وہ بے نیازی سے کہہ کر ٹرے لے کر کچن میں رکھ آئی-
فواد ابھی تک نہیں آیا؟پھپھو نے بے چینی سے گھڑی دیکھی-پھر فایقہ کو آنکھ سے اشارہ کیا-وہ فورا مہتاب تائی کے بلکل مقابل سوفے پر مؤدب ہو کر بیٹھ گئی-
ہاں کچھ کام تھا شاید-اور م تھیک ہو؟تائی ریموٹ اٹھا کر چینل بدل رہی تھی-انداز میں عجب شان بے نیازی تھی--جن کے فواد جیسے بیٹے ہوں ان پر بیٹیوں کی مائیں یونہی مکھیوں کی طرح بھنبھنایا کرتی ہیں-وہ رضیہ پھپھو کے اطوار خوب سمجھتی تھی-
یہ پڈنگ فائقی باجی نے بنائی ہے پھپھو؟وہ واپس آ کر سامنے صوفے میں ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئی-وہی کرتا جینز گلے میں مفلر کی طرح لپیٹا دوپٹہ-پونی ٹیل یہ اس کا مخصوص انداز تھا-
ہاں تو اور نہیں تو کیا؟
اچھا آپ تو اس روز اپنی مائی سلیمہ سے پڈنگ بنا رہی تھی-وہ جب میں آپ کے گھر گئی تھی-آپ تو کہہ رہی تھی نہ آپکو نہ ہی فائقہ باجی کو پڈنگ بنانا آتی ہے-فائقہ باجی اس نے چہرہ فائقہ باجی کی طرف موڑا ابھی ر یسینٹلی سیکھا ہے اپ نے؟
ہاں ہاں میرے ساتھ اج کل سب کچھ سیکھ رہی ہے-بیٹھ کر مفت روٹیاں نہیں تورتی-پھپھو چمک کر بولی-تائی مہتاب ریموٹ پکڑے چینل بدل رہی تھی-چہرے پر البتی واضح بے زاری چھائی تھی-
اور آپ نے کس سے سیکھی اپنی مائی سے؟
زیادہ سبان نہیں چلنے لگی تیری محمل؟یہ تو میری بھابھی کا حوصلہ ہے کہ تمہیں برداشت کرتی ہیں-ان کی جگہ میں ہوتی تو دو دن میں گھر سے باہر نکال دیتی-ان کی جگہ آپکیسے ہو سکتی تھی پھپھو-دوسروں کے پیسے پر عیش کرنا ایک آرٹ ہوتا ہے-اور یہ ہر کسی کو نہیں آتا نا!
شٹ اپ محمل -تائی نے غصے سے ریموٹ رکھا-زیادہ بک بک کی تو ٹانگیں تور کر رکھ دوں گی-ارے ہم نہ رکھتے تو کدھر جاتی تم ہاں؟
انگلینڈ- وہ ارام سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے جھلا رہی تھی-کیا مطلب وہ سب چونکے-
میں نے اسکالر شپ کے لئیے اپلائی کر دیا ہے-اور بہت جلد میں تو اماں کو لے کر انگلینڈ چلی جاؤں گی-سو آپ ابھی سے ملازم ڈھونڈنا شروع کر دیں-آپ بیٹھیں میں ذرا کچن دیکھ لوں-وہ اٹھ کر کچن کی طرف چلی آئی،جانتی تھی کہ ان کے سروں پر بم پھوڑ کر ائی ہے-مگر اس وقت ان سب کو ستانے کا دل کر رہا تھا-
کھانے پر ہی اس کی پیشی ہوگئی-تم نے کونسے اسکالر شپ کے لیئے اپلائی کیا ہے؟مہتاب بتا رہی تھی کیا بات ہے-آغا جان نے جیسے ایک دم یاد آنے پر کھانے سے ہاتھ روک کر پوچھا-
اسکالر شپ؟آرزو نے آبرو اچکائی-ندا اور سامیہ باتیں کرتی ٹھٹھک گئیں- فضی چاچی نے حیرت سے گلاس رکھا- اور فواد لقمہ منہ میں لئیے بری طرح چونکا تھا-
باقی سب بھی ایک دم رک کر اسے دیکھنے لگے- جو اطمینان سے بازو بڑھا کر رائتے کا ڈونگا اٹھا رہی تھی-
جی اغا جان بڑٹش ہائی کمیشن سے کچھ اسکالرشپس اناؤنس ہوئی ہیں-ماسٹرزکے لئیے میں نے اپلائی کر دیا-اب وہ بڑا چمچ ڑائتہ چاولوں پر ڈال رہی تھی-امید ہے جلدی ہی مل جائے گی-پھر میں انگلینڈ چلی جاؤں گی-سوچ رہی ہوں وہی ساتھ ساتھ جاب وغیرہ بھی کر لوں-آخر خرچے بھی تو پورے کرنے ہوتے ہیں نا! چمچہ چاولوں میں ہلاتے رائتہ مکس کرتےاس نے لا پروائی سے اطلاع دی اور اسے لگا تھا ابھی گھر بھر میں طوفان کھڑا ہو جائے گا-مگر۔۔۔
ہوں ضرور اپلائی کرو-آغا جان پھر سے کھانے کی طرف متوجہ ہو چکے تھے-اب کے حیران ہونے کی باری محمل کی تھی-اس نے لمحے بھر کو ٹھٹھک کر آغا جان کو دیکھا اور سنبھل کر بولی!
تھھینک یو آغا جان!
اس کے الفاظ پر جہاں مسرت اطمینان سے کھانا کھانے لگی تھی -وہی ٹیبل پر موجود بہت سے لوگوں کی خاموش معنی خیز نگاہوں کے تبادلے ہوئے تھے-
وہ سر جھکائے چاول کھاتی رہی-امید تو نہ تھی کہ وہ کوئی ڈراما کھڑا نہ کریں گے-مگر وجہ بھی فورا سمجھ میں آگئی-وہ باہر چلی جائے تو ان سے جائیداد میں سے حصہ مانگنے کون کھڑا ہوگا؟ان کے لیئے تو اھا ہی تھا کہ وہ چلی جائے-
ایسے تو نہیں چھوڑوں گی میں یہاں سے چلی بھی گئی توایک دن ضرور واپس آؤں گی-اور اپنا حصہ طلب کروں گی-اور تم سب کو ہر اس عدالت میں گھسیٹوں گی جہاں جانے سے تم لوگ ڈرتے ہو-اس نے دل ہی دل میں تہیہ کیا تھا-اور پھر جب پانی کا جگ اٹھانے کو سر اٹھایا تو یک دم چونکی-
بے توجہی سے کھانا کھاتا فواد اسے ہی دیکھ رہا تھا-اسے سر اٹھاتا دیکھ کر فورا اپنی پلیٹ پر جھک گیا-اور بعد میں کتنا ہی پھپھو نے میری فائقہ نے مڈنگ بنئی کہہ کر روکنا چاہا پر وہ رکا نہیں اور کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا-
مجھے کام ہے چلتا ہوں-
ہاں بیٹا تم کام کرو-مہتاب نے بھی فورا اس کی تائید کی تھی-ادھر پھپھو ہائیں ہائیں کرتی رہ گئیں-اور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر چلا گیا-محمل کا دل یکدم ادام سا ہوگیا تھا -نہ جانے کیوں-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے :)

No comments:

Post a Comment