Tuesday 6 September 2016

اداسی کو روح میں اتارنے والی تحریر.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 41.
پیغام____________کے خلاف نعرے لگا رہے تھے. اپنے ساتھیوں پر اسے استفسار پر اسے معلوم ہوا کہ اہل شہر غداروں کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے الحمراء کے دروازے پر جمع ہو رہے ہیں.
سرائے کے کشادہ دروازے پر پہنچ کر اسے ایک بڑا جلوس دکھائی دیا-
اور اس نے اپنے ساتھیوں سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ تکلیف نہ کریں اس سے آگے کا راستہ مجھے معلوم ہے"-
چند منٹ بعد وہ سرائے کی ڈیوڑھی میں داخل ہوا تو عثمان وہاں کھڑا تھا.
اس نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا جناب میں آپ کا انتظار کر رہا تھا.
سرائے کے مالک بھی آپ کے متعلق پریشان تھے وہ مجھے حکم دے رہے تھے کہ میں آپ کی واپسی تک دروازے پر کھڑا رہوں"-
وہ کہاں گئے ہیں؟ "-
وہ حامد بن زہرہ کی تقریر سننے کے لیے البسین گئے تھے اور اب شاید کسی جلوس میں شامل ہو کر الحمراء پہنچ گئے ہوں-
لیکن وہ زیادہ دیر وہاں نہیں ٹھہریں گے. اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ اتنی دیر سے آئیں گے تو میں البسین ضرور جاتا آپ تقریر سن کر آ رہے ہیں نا؟ "
نہیں مجھے افسوس ہے کہ میں ان کی تقریر نہیں سن سکا"-
آئیے آپ رات یہی ٹھہریں گے نا؟ -
سلمان نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے کہ مجھے یہاں رات گزارنی پڑے لیکن ابھی میں نے فیصلہ نہیں کیا-
مجھے ایک ساتھی کا انتظار ہے جب وہ آئے گا تو میں اس کے مشورے پر عمل کروں گا.
وہ ڈیوڑھی عبور کرنے کے بعد صحن میں داخل ہوئے اور عثمان نے ایک نوکر کو آواز دی.
اور کہا انہیں ہاتھ دهلوا کر اوپر لے جاو.
میں ان کے لیے کھانا لاتا ہوں.
سلمان نے کہا کھانے کی ضرورت نہیں ہے صرف وضو کے لیے پانی لے آو.
عثمان نے کہا جناب سرائے کے مالک آپ کے لیے اپنے گھر میں کھانا تیار کرنے کا حکم دے کر گئے تھے.
آپ تھوڑا بہت ضرور کها لینا ورنہ ان کی دلشکنی ہو گی. اور گھر والوں کو بھی اس بات کا افسوس ہو گا.
آپ وضو کر کے نماز پڑھ لیں اس کے بعد میں کھانا لے آؤں گا.
آئیے میں آپ کو عسل خانہ دکھا دوں.
سلمان اس کے ساتھ چل دیا-
____________○______________
بالائی منزل کا وہ کمرہ جس میں سلمان کو ٹھہرایا گیا تھا ڈیوڑھی کے عین اوپر تھا اور اس کا ایک دریچہ سڑک کی طرف کھلتا تھا.
عثمان اس کے لیے ایک خوبصورت قالین بچھا کر باہر نکل گیا.
سلمان نماز کے لیے کھڑا ہو گیا تو اسے کچھ دیر سڑک کی طرف تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دیتی رہی.
پھر تھوڑی دیر بعد جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو سڑک کی طرف چند آدمیوں کی آوازیں سنائی دیں.
اس نے اٹھ کر دریچہ کھول دیا اور نیچے جھانکنے لگا.
چند آدمی سڑک کے آر پار کھڑے باتیں کر رہے تھے-
ایک آدمی کہہ رہا تھا بھائی وہ غدار تھے اور یقیناً شہر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں دیکھو وہ سیدھے دروازے کا رخ کر رہے ہیں.
دوسرے آدمی نے کہا بھائی غدار اب کئی دن تک اپنے گھروں سے نکلنے کی جرات نہیں کریں گے.
ممکن ہے کہ یہ حامد بن زہرہ کے ساتھی ہوں اور انہوں نے انہیں کسی مہم پر بھیجا ہو.
تیسرا بولا حامد بن زہرہ کے ساتھی اتنے بزدل نہیں ہیں کہ وہ غرناطہ کی سڑکوں پر بھی اپنے چہروں پر نقاب ڈالے رکھیں. اور پھر یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ دروازے کے محافظ ان کے لیے رات کے وقت دروازے کھول دیں.
چوتھے نے کہا آج حامد کے کسی ادنیٰ غلام کے لیے بھی شہر کا دروازہ بند نہیں ہو سکتا.
پہرے داروں کو معلوم ہے کہ اب حالات بدل چکے ہیں.
اگر غدار ہوتے تو انہیں اس دروازے سے گزرنے کی بجائے سینٹافے کا رخ کرنا چاہیے تھا کیونکہ انہیں صرف فرڈیننڈ ہی پناہ دے سکتا ہے"-
پھر اچانک ایک آواز آئی اب تم فضول وقت برباد کر رہے ہو چلو الحمراء کی طرف چلیں
چلو"
____________○_____________
سلمان دریچہ بند کر کے کرسی پر بیٹھ گیا.
عثمان دستک دے کر کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کھانے کا طشت اس کے سامنے چھوٹی سی میز پر رکھ دیا----
سلمان نے پوچھا عثمان تم نے چند سواروں کو دیکھا تھا؟ "-
ہاں میں نے سرائے سے نکلتے ہی تین ٹولیاں دیکھی تھیں ان کی مجموعی تعداد بیس کے لگ بھگ تھی.
وہ سب اپنے چہروں پر نقاب ڈالے ہوئے تھے.
اگر رات نہ ہوتی تو میں ان میں سے کسی نہ کسی کے گھوڑے کو ضرور پہچان لیتا میں نے آپ کی آمد سے کچھ دیر پہلے آٹھ دس سواروں کو شہر کے دروازے کی طرف جاتے دیکھا تھا"-
کیا یہ ممکن ہے کہ وہ کسی مہم پر گئے ہوں اور پہرے داروں نے ان کے لیے شہر کا دروازہ کھول دیا ہو! "
عثمان نے جواب دیا یہ بات مجھے بھی عجیب سی لگتی ہے___________رات کے وقت صرف ان لوگوں کے لیے دروازہ کھولا جاتا ہے جن کے پاس یا تو پولیس کا اجازت نامہ ہو یا پہرے داروں کے کسی افسر کے ساتھ ذاتی مراسم ہوں.
لیکن آج تو انہوں نے بھی دروازہ بند کر دیا تھا.
اگر راستے میں ہماری ملاقات نہ ہوتی اور آپ سرائے کے مالک کو میرے متعلق اطلاع نہ دیتے تو شاید مجھے اب تک وہاں ہی رکنا پڑتا"-
اس کا مطلب ہے کہ اگر مجھے اچانک شہر سے باہر جانے کی ضرورت پیش آئی تو عبدالمنان میری مدد کر سکتا ہے؟ "-
ہاں پہرے داروں کا سالار انہیں جانتا ہے اور آج کی بدولت میرے علاوہ کسی اور کو بھی شہر میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی تھی.
سلمان نے کہا کیا تم یہ معلوم کروا سکتے ہو کہ جو سوار یہاں سے گزرے ہیں ان کے لیے شہر کے دروازے کھولے گئے ہیں یا نہیں؟ "-
اگر وہ حکومت کے آدمی تھے تو شاید پہرے دار تمہیں کچھ نہ بتائیں گے تاہم ممکن ہے آس پاس کسی نے انہیں دروازے سے نکلتے دیکھ لیا ہو"!
اگر یہ ضروری ہے تو میں ابھی معلوم کر کے آتا ہوں-
تم میرا گھوڑا لے جا سکتے ہو"!
نہیں جناب گھوڑے کی ضرورت نہیں ہے میں ابھی آتا ہوں.
عثمان بھاگتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا اور سلمان نے کھانے کے چند نوالے حلق سے اتارنے کے بعد اٹھ کر کمرے میں ٹہلنا شروع کر دیا-
تھوڑی دیر بعد اسے کہیں دور بادلوں کے گرجنے کی آواز سنائی دے رہی تھی.
عبدالمنان کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کہا اللہ کا شکر ہے کہ آپ آ گئے-
میں نے شام تک آپ کا انتظار کیا تھا. پھر میں نے سوچا کہ شاید آپ حامد بن زہرہ کی تقریر سن کر واپس آئیں"-
مجھے ان کی تقریر سننے کا موقع نہیں ملا سلمان نے جواب دیا-
عبدالمنان نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا یہ تقریر آپ کو ضرور سننی چاہیے تھی.
مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ان کی زبان سے موسی بن ابی غسان کی پکار سن رہا ہوں.
انہوں نے ایک ڈوبتی ہوئی کشتی کے آخری کا آخری فرض ادا کر دیا ہے-
کیا آپ کو یقین ہے کہ اس تقریر کے بعد اہل غرناطہ سنبھل جائیں گے؟ "-
عبدالمنان نے کچھ دیر سر جھکا کر سوچنے کے بعد جواب دیا سردست اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے.
جہاں تک عوام کو جھنجھوڑنے اور مستقبل کے خطرات سے خبردار کرنے کا تعلق تھا.
وہ اپنا فرض پورا کر چکے ہیں-
تاہم ان کی تقریر کے دوران میں بار بار مجھے یہ خیال آتا تھا کہ اگر ایک فرد ایک قوم کے گناہوں کا کفارہ ادا کر سکتا تو اہل غرناطہ کے سامنے موسی بن ابی غسان کی تقریریں بے اثر نہ ہوتیں. آہ !.
کتنی پر درد آواز میں انہوں نے کہا تھا : ہمیں اپنی آزادی.

No comments:

Post a Comment