Wednesday 28 September 2016

واقعہ حضرت شعیب علیہ السلام

حضرت شعیب علیہ السلام:۔
==================

حضرت شعیب علیہ السلام کو اہلِ مدین پر مبعوث کیا گیا جو کہ عربی باشندے تھے اور مدین میں رہتے تھے۔ مدین شام کے اطراف میں ارضِ معان کے نزدیک ہے جو حجاز سے متصل اور بحیرہ قوم لوط (بحیرہ مردار) کے قریب ہے۔ المنتظم فی تاریخ کے مطابق اب معان، اردن میں ہے اور بحیرہ مردار کے قریب نہیں بلکہ سعودی عرب میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر کے ساتھ واقع ہے۔ اہلِ مدین کا زمانہ قوم لوط سے کچھ مدت بعد کا ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام کو "خطیب الانبیاء" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ قوم کو ایمان کی دعوت دیتے ہوۓ فصاحت و بلاغت اور اعلیٰ عبارت سے کام لیتے تھے۔
مدین کے لوگ کافر تھے، رہزنی کرتے اور مسافروں میں دہشت پھیلاتے تھے۔ اور "اَیُکہ" کو پوجتے تھے جو کہ ایک قسم کا درخت تھا جسکے اردگرد درختوں کا جھنڈ تھا۔ اسکے علاوہ بھی ان میں بہت سی سماجی برائیاں تھیں وہ لین دین کا معاملہ درست نہ رکھتے اور ماپ تول میں کمی کیا کرتے تھے۔ لیتے وقت بڑے اور دیتے وقت چھوٹے باٹوں کا استعمال ان میں عام تھا۔
اللہ پاک نے ان میں سے ایک شخصیت یعنی حضرت شعیب علیہ السلام کو منصبِ رسالت پر فائز کیا۔ آپ نے انہیں وحدہ لا شریک کی دعوت دی اور انکو برے کاموں سے منع فرمایا۔ کچھ لوگ ان پر ایمان لوۓ لیکن اکثریت نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کیطرف سے نشانی آ چکی ہے۔ لہٰذا تم ماپ اور تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کیا کرو۔" (الاعراف،۸۵)
آپ نے انہیں عدل کا حکم دیا اور ظلم سے منع فرمایا: " اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سمجھ لو یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے۔" (الاعراف،۸۵) اور فرمایا کہ: " ہر راستے میں مت بیٹھا کرو کہ لوگوں کو ڈراتے رہو۔" (الاعراف،۸۶)
یعنی ہر راستے میں بیٹھ کر لوگوں کو پریشان مت کرو کیونہ وہ غنڈہ گردی کرتے اور دہشت پھیلاتے تھے۔ تفسیر ابنِ کثیر کے مطابق سب سے پہلے ان لوگوں نے ہی ٹیکس کا ظالمانہ طریقہ ایجاد کیا اور وہ لوگوں کے مالوں کا دسواں حصہ وصول کیا کرتے تھے۔ اس طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نہ صرف دنیاوی راستے روکنے بلکہ دین کی راہ میں رکاوٹ بننے سے بھی منع فرمایا۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوۓ اللہ پاک کی نعمت یاد دلائی کہ انکی تعداد کم تھی، اللہ نے زیادہ کر دی اور تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ آپکی ہدایت کی پیروی نہ کریں گے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو جاۓ گا۔ اور فرمایا:
" ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تمکو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور( اگر تم ایمان نہ لاؤ گے) تو مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تمہیں گھیر لے گا۔" (ھود،۸۴)
یعنی اپنے غلط کاموں کو جاری نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے مالوں کی برکت ختم کر دے گا اور تمہیں مفلس کر دے گا اور تمہاری دولت چھین لے گا۔ اسکے علاوہ آخرت کا عذاب بھی آنیوالا ہے اور جسکو دنیا میں بھی سزا ملے گی اور آخرت میں بھی عذاب بھگتنا پڑے گا وہی اصل خسارے سے دوچار ہو گا۔
انہوں نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ اللہ پاک کا دیا ہوا نفع ہی تمہارے لئے کافی ہے اور بہتر ہے ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنے کی بجاۓ رزقِ حلال کماؤ اور کھاؤ کیونکہ اسی میں برکت ہے۔
ان تمام نصیحتوں اور خیر خواہیوں کے بدلے قوم نے اکھڑ پن کا مظاہرہ کیا اور انکا مذاق اڑاتے ہوۓ کہا: " اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جنکو ہمارے باپ دادا پوجتے آۓ ہیں ہم انکو ترک کر دیں یا اپنے مال میں جو تصرف کرنا چاہیں نہ کریں؟ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو۔" (ھود،۸۷)
یعنی انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہوۓ کہا کہ کیا آپکو نماز یہ حکم دیتی ہے کہ آپ ہم پر پابندیاں عائد کریں اور آبآؤ اجداد کے دین سے ہٹ جائیں یعنی بت پرستی چھوڑ دیں؟ لیکن ہمیں انے ان معاملات میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی اور پھر کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف آپ ہی عقلمند اور سمجھدار ہیں اور یہ بات ان کافروں نے مذاقا" کہی۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا: " اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کیطرف سے دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے ہاں مجھے بہترین روزی دی ہو (تو کیا میں اسکے خلاف کرونگا؟) اور میں نہیں چاہتا کہ جس امر سے تمہیں منع کروں خود وہی کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک ہو سکے (تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں اور (اس بارے میں) توفیق کا ملنا اللہ ہی کا فضل ہے۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کیطرف رجوع کرتا ہوں۔" (ھود،۸۸)
یہ دعوتِ حق کے لئے نرم الفاظ استعمال کرنے کا اسلوب ہے لیکن اسمیں حق بالکل واضح کر دیا گیا ہے اسکے بعد آپ نے کہا کہ:
" اے میری قوم! میری مخالفت تم سے ایسا کام نہ کرا دے کہ جیسی مصیبت نوح کی قوم یا ھود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو اور لوط کی قوم (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں۔" (ھود،۸۹)
یعنی میری مخالفت اور میرے پیغام سے نفرت تمہیں اس طرف نہ لے جاۓ کہ تم اپنی جہالت میں قائم رہو جسکے نتیجے میں تم پر عذاب آ سکتا ہے جیسا تم سے پہلی قوموں پر آیا۔ "قوم لوط کا زمانہ تم سے کچھ دور نہیں" سے مراد یہ ہے کہ وہ زمانہ، مقام اور اعمال ہر چیز کے لحاظ سے ان سے قریب تھے۔
اور پھر کہا: " اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اسکے آگے توبہ کرو۔ بیشک میرا پروردگار رحم والا اور محبت والا ہے۔" (ھود،۹۰)

حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی ہر طرح سے خیر خواہی کی، انہیں اللہ تعالیٰ کیطرف سے حاصل شدہ خیر و برکت یاد دلائی اور برائیوں سے روکا مگر قوم نے ماننے کی بجاۓ آپکو سنگسار کرنے اور بستی سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں اللہ پاک فرماتا ہے: "انہوں نے کہا کہ شعیب! تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آئیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو۔ اور اگر تمہارے بھائی بند نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی) غالب نہیں ہو۔" (ھود، ۹۱) یہ انکے شدید کفر و عناد کا اظہار ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں کیونکہ وہ ہمیں پسند نہیں اور نہ ہی ہم انہیں سننا چاہتے ہیں۔
" اور وہ کہتے کہ جس چیز کیطرف تم ہمیں بلاتے ہو اس سے ہمارے دل پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ (یعنی بہرہ پن) ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے، سو تم اپنا کام کرو اور ہم اپنا کام کرتے ہیں۔" (حٰم السجدۃ،۵) "شعیب نے کہا، اے میری قوم! کیا میرے بندوں کا دباؤ تم پر اللہ سے زیادہ ہے؟" (ھود،۹۲)
یعنی کیا تم خاندان اور قبیلے سے ڈرتے ہو اور اس وجہ سے میرا کچھ نہ کچھ لحاظ کرتے ہو لیکن کیا تمہیں اللہ کے عذاب سے خوف محسوس نہیں ہوتا؟ تم میرا لحاظ اس وجہ سے کیوں نہیں کرتے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ گویا تمہاری نظروں میں میرا قبیلہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ طاقت والا ہے۔ میرا پروردگار تمہارے سب اعمال کا احاطہ کئے ہوۓ ہو اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے سب معلوم ہے۔ "برادرانِ ملت! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ میں اپنی جگہ کام کئے جاتا ہوں۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جاۓ گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے؟ اور تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔" (ھود، ۹3)
اس میں سخت وعید ہے کہ اگر وہ باز نہ آۓ تو اسکا نتیجہ جلد ہی سامنے آ جاۓ گا اور معلوم ہو جاۓ گا کہ کس پر تباہی نازل ہو گی۔ قوم کے سرداروں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو بہت دھمکیاں دیں اور مومنوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے پرانے مذہب پر واپس آ جائیں لیکن جب مومن ڈٹے رہے تو قوم کی زیادتیاں اور بھی بڑ گئیں تب حضرت شعیب علیہ السلام نے دعا فرمائی:
"اے پروردگار! ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنیوالا ہے۔" (الاعراف،۸۹)
آپؑ نے دعا فرمائی اور اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی دعا رد نہیں کرتا، جب وہ منکرین اور مخالفین کے خلاف دعا فرمائیں۔ قوم کے سردار اب بھی باز نہ آۓ اور کہنے لگے:
"لوگو! اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بیشک تم خسارے میں پڑ گئے۔" (الاعراف، ۹۰)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"تو ان کو زلزلے نے آ پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔" (الاعراف، ۷۸) یعنی زمین لرزنے لگی، شدید زلزلہ آ گیا جسکی وجہ سے ان کے جسموں سے روحیں پرواز کر گئیں ان کے بے جان لاشے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے ان میں جان رہی نہ حرکت۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی طرح کی سزائیں دیں اور ان پر عذاب نازل کئے کیونکہ وہ بری عادتوں میں مبتلا تھے انہوں نے نبی کی گستاحی کی تھی اور مذاق اڑایا تھا تو اللہ پاک نے ان پر بہت سے عذاب نازل کئے جنکا تذکرہ قرآن پاک کی مختلف آیات میں کچھ یوں ملتا ہے:
" تو ان لوگوں نے اس (شعیب) کو جھٹلایا، پس سائبان والے دن کے عذاب نے انکو آ پکڑا۔ بیشک وہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔" (الشعراء، ۱۸۹) یعنی ان پر گرمی مسلط کر دی گئی جسکی شدت پانی سے کم ہوتی نہ ساۓ سے اور نہ تہہ خانوں میں داخل ہو جانے سے۔ چنانچہ وہ گھروں سے میدان میں نکل آۓ اچانک ایک بادل آیا تو وہ اس کے نیچے جمع ہو گئے تاکہ گرمی سے تسکین حاصل ہو۔ لیکن اس میں سے چنگاریاں اور شعلے برسنے لگے اور زمین زلزلے سے لرزنے لگی اور آسمان سے انتہائی شدید آواز گونجی جس سے وہ تباہ و برباد ہو گئے۔
"اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھے ایسے برباد ہو گئے گویا وہ کبھی آباد ہی نہیں ہوۓ تھے۔ (غرض) جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑ گئے۔" (الاعراف، ۹۲)
" اور جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لاۓ تھے ان کو تو اپنی رحمت سے بچا لیا اور جو ظالم تھے ان کوچنگھاڑ نے آ دبوچا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سن رکھو کہ مدین پر (ویسی ہی) پھٹکار ہے جیسی ثمود پر پھٹکار ہوئی تھی۔" ( ھود، ۹۴۔۹۵)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" تو شعیب ان میں سے نکل آۓ اور کہا کہ بھائیو! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دئیے ہیں اور تمہاری خیر خواہی کی تھی، سو میں کافروں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج و غم کیوں کروں؟" (الاعراف، ۹۳)
یعنی ان لوگوں کے تباہ ہونے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام ان کی بستی سے یہ کہتے ہوۓ چل دئیے کہ میں نے پوری خیر خواہی کرتے ہوۓ اللہ کے احکام مکمل طور پر تمہیں پہنچا کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور جس جس طرح مجھ سے ہو سکا، میں نے ہر طرح سے تمہیں ہدایت سے سرفراز کرنے کی کوشش کی لیکن تم اس سے کوئی فائدہ نہ حاصل کر سکے کیونکہ ہدایت دینا اللہ کے قبضے میں ہے۔ اسکے بعد آنیوالے عذاب کا مجھے کوئی افسوس نہیں کیونکہ یہ تم ہی تھے جو ہدایت قبول کرتے تھے ، نہ رسوائی اور عذاب کے دن کا خوف محسوس کرتے تھے۔ اسی لئے فرمایا کہ میں کافروں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج و غم کیوں کروں؟ یعنی میں ان لوگوں کو رنج کیوں کروں جو حق قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اسکی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اسکے نتیجے میں ان پر اللہ کا وہ عذاب آ گیا جسے روکا جا سکتا ہے اور نہ اسکا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کہیں پناہ مل سکتی ہے۔

بحوالہ قصص الانبیاء

No comments:

Post a Comment