Wednesday 14 September 2016

ب.اندهیری رات کے مسافر. بدریہ.

اندھیری رات کے مسافر
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 47.
بدریہ________________کرسی پر گر پڑا. سلمان نے مضطرب سا ہو کر سعید کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا اب اس کی حالت قدرے بہتر ہے مگر وہ بے ہوش ہے ابھی تک اس کو ہوش نہیں آیا.
وہ کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کی طرف دیکهتے رہے پھر اچانک ولید کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور اس نے سر جھکا دیا-
سلمان نے کہا میرے بھائی اب تمہیں صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے"-
ولید نے بڑی مشکل سے سسکیاں ضبط کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ حامد بن زہرہ ہمیشہ کے لیے ہمارا ساتھ چھوڑ چکے ہیں-
میں نے انہیں تیروں کی پہلی بوچھاڑ میں گھوڑے سے نیچے گرتے دیکھا تھا-اس کے باوجود میں خود کو فریب دیتا رہا کہ شاید وہ زندہ ہوں اور ظالموں نے انہیں قتل کرنے کی بجائے گرفتار کر لیا ہو-
لوگ تو اب یہی کہیں گے کہ میں انہیں موت کے دروازے تک چھوڑ کر خود بھاگ آیا ہوں
لیکن اللہ گواہ ہے کہ میرے سامنے اگر سعید کی جان بچانے کا سوال نہ ہوتا تو میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک ان کا ساتھ دیتا-
مجھے مرتے دم تک اس بات کا افسوس رہے گا کہ میں ایک نادان دوست تھا-
اگر میں آپ کو ان تک پہنچا دیتا تو شاید ان کی جان بچ جاتی_____________ سلمان نے تسلی دیتے ہوئے کہا"-
وہ اپنی منزل دیکھ چکے تھے اور ان کا راستہ بدلنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی-
اب ہماری پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم سعید کی جان بچانے کی بھر پور کوشش کریں-
اس کے زخم زیادہ خطرناک تو نہیں؟ " ولید نے کہا سردست اس کے متعلق کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی -"
سلمان نے کہا"-
اگر
آپ کسی اچھے طبیب کا پتہ دے سکتے ہیں تو میں غرناطہ جانے کے لیے تیار ہوں-"
ولید نے کہا اگر مجھے اطمینان ہوتا کہ حکومت کے جاسوس اس گھر تک ان کا پیچھا نہیں کریں گے تو میں غرناطہ کے ہر اچھے طبیب کو یہاں بلا لیتا.
لیکن آپ کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے-
اس وقت اس کی مرہم پٹی ہو رہی ہے تھوڑی دیر بعد آپ اسے دیکھ سکیں گے"-
سلمان نے کہا"-
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس تیسرے آدمی کے بچ نکلنے کے امکان کیا اور کتنے ہیں جس نے حملہ آوروں کے دو آدمی قتل کرنے کے بعد اور باقی سارے گروہ کو اپنے پیچھے لگانے کے بعد آپ کو بچ نکلنے کا موقع دیا تھا-
ایسے آدمی کو بچانا ہمارا اولین فرض ہے، اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ کس طرف گیا ہے تو میں اس کی مدد کے لیے تیار ہوں"-
ولید نے جواب دیا اب وہ بہت دور جا چکا ہو گا.
اگر ہم کوشش کریں تو بھی اس کی مدد نہیں کر سکتے
لیکن آپ کو فکر مند نہیں ہونا چاہیے اس کا گھوڑا اتنا تیز رفتار ہے کہ دشمن اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا.
اگر حملہ آوروں کے دوسرے گروہ کو چکمہ دینے کے لیے ہمیں اپنے گھوڑوں سے محروم نہ ہونا پڑتا تو میں سعید کو یہاں چھوڑ کر ان کی مدد کے لیے روانہ ہو جاتا -
اس گھر میں صرف دو گھوڑے تھے لیکن وہ ایسی مہم کے قابل نہ تھے-
میں نے سعید کے متعلق اطمینان ہوتے ہی گاؤں کے لوگوں کو جمع کیا تھا لیکن آدمی کے سوا کسی کے پاس اچھا گھوڑا نہیں تھا-
اس لئے میں یہی مناسب سمجھا کہ چار آدمیوں کو پل کی طرف بھیج کر یہ معلوم کیا جائے کہ غداروں نے زخمیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے!
امید ہے کہ وہ تھوڑی دیر تک واپس آ جائیں گے-"
سلمان نے کچھ سوچ کر سوال کیا"-
کہ یہ تیسرا آدمی کون تھا؟ "
معاف کیجئے اس کے متعلق میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا-
ہمیں اس کا نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہے فی الحال آپ کے لیے اتنا جان لینا کافی ہے کہ وہ ایک اچھا سپاہی ہے-"
اس نے آپ کو پل کے قریب جانے سے روکا تھا؟ "
ہاں! "
آپ کو یہ اطمینان ہے کہ یہ گھر سعید کے لئے محفوظ ہے؟ "
ولید نے کہا سردست اس کے لیے اس گھر سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں ہے اگر اس کی حالت زار بہتر ہوئی تو میں اسے غرناطہ پہنچانے کی کوشش کروں گا-
اب چند دن اسے یہیں رہنا پڑے گا-
یہ میری ماموں زاد بہن کا گھر ہے اور ایک زخمی کو اس وقت ان سے بہتر کوئی معالج نہیں مل سکتا-
ان کا خیال ہے کہ سعید ہوش میں آنے کے بعد بھی چند دن سفر کے قابل نہیں ہو سکے گا-
اگر وہ بے ہوش ہے تو ہمیں سب سے پہلے کسی اچھے طبیب کا بند و بست کرنا چاہیے-"
ولید نے جواب دیا-"
طبیب کے متعلق آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے-
میرے والد غرناطہ کے چند بڑے نامور طبیبوں میں ایک ہیں.
اگر ضروری سمجھا گیا تو وہ یہاں پہنچ جائیں گے-
لیکن اس وقت حکومت کے جاسوس چوکس ہیں-
ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ وہ گھر سے نکلیں اور قاتل ان کا پیچھا کر رہے ہوں-
بدریہ_______میری رشتے کی بہن ان کی شاگرد ہیں اور وہ عام طبیبوں سے زیادہ تجربہ کار ہیں-
سعید کے بے ہوش ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے جسم سے دو تیر نکالنے کے لیے بے ہوشی کی دوا دی گئی تھی-"
سلمان نے کہا اور اب آپ اس بد نصیب کی لاش کو بھی دفن کرنے کا بندوبست کر دیں جیسے میں راستے میں چھوڑ آیا ہوں_________سڑک کے کنارے ایک شکستہ مکان تلاش کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی-
اس کے قریب کافی پانی بہہ رہا ہے.
یہ بہت ضروری ہے کہ اسے یہاں سے بہت دور کہیں دفن کیا جائے"-
ولید نے کہا آپ فکر نہ کریں میں آپ کا مطلب اچھی طرح سمجھ رہا ہوں-
اب آپ سعید کا حال پوچھ آئیں اگر اس کی حالت تسلی بخش ہے تو میں بھی آپ کا ساتھ دوں گا-
____________○_____________
مسعود کمرے میں داخل ہوا اور اس نے ولید سے مخاطب ہو کر کہا جناب وہ واپس آ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں پل کے آس پاس کوئی لاش نہیں ملی-
عمر کہتا ہے کہ اگر آپ کو ضرورت ہو تو آپ اس کا گھوڑا لے جائیں-
نہیں اب اسے تکلیف دینے کی ضرورت نہیں ہے لیکن تم انہیں روک لو اور عمر کا گھوڑا یہاں لے آو-
مسعود واپس چلا گیا اور ولید نے سلمان سے مخاطب ہو کر کہا مجھے آپ سے بہت کچھ پوچھنا تھا لیکن موجودہ حالات میں میرا فوراً غرناطہ پہنچنا ضروری ہے-
اب دوسرا گھوڑا میرے کام آئے گا لیکن فی الحال آپ غرناطہ نہیں جا سکیں گے"-
سلمان نے کہا"-
لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں غرناطہ کی تازہ صورتحال معلوم کئے بغیر واپس چلا جاؤں؟ "-
نہیں نہیں آپ وہاں نہیں جا سکتے مجھے سعید نے راستے میں آپ کی سرگزشت سنائی تھی-
وہ اس بات سے سخت مضطرب تھا کہ آپ غرناطہ پہنچ گئے ہیں-
اس لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ فی الحال یہیں ٹھہریں-
ان شاءالله میں بہت جلد واپس آؤں گا اور اگر مجھے روپوش رہنا پڑا تو بھی آپ کو میرا پیغام مل جائے گا-
سعید کی حفاظت کے لیے بھی آپ کا یہاں رہنا ضروری ہے-
ممکن ہے کسی فوری خطرے کے پیش نظر آپ کی مدد کی ضرورت پیش آ جائے-
ولید نے کہا آپ کب تک یہاں پر رہ سکتے ہیں؟ "-
سلمان نے جواب دیا آج سے چار دن بعد ایک جہاز ساحل کے قریب کسی جگہ پر میرا انتظار کرے گا-
اگر میں معینہ وقت پر نہ پہنچ سکا تو جہاز واپس چلا جائے گا اور مجھے چند دن کسی اور جگہ پر اس کا انتظار کرنا پڑے گا-
اس طرح آئندہ دو ماہ تک میرے ساتھی مقررہ تاریخوں پر ساحل کے مختلف مقامات کا طواف کرتے رہیں گے-
پھر اگر مجھے زیادہ مدت کے لیے رکنا پڑا تو میں ساحلی علاقے کے لوگوں کو جانتا ہوں جن سے مجھے مدد مل سکتی ہے"-
ولید نے کہا عام حالات میں حامد بن زہرہ کی موت کے بعد ہمارے دشمن سعید کے متعلق زیادہ پریشان نہ ہوتے لیکن مجھے ڈر ہے کہ وہ حامد بن زہرہ کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے لیے سعید کو گرفتار کرنا ضروری سمجھیں گے اور اگر انہیں یہ شعبہ ہے کہ باہر سے بھی ان کا کوئی
مددگار یہاں پہنچ چکا ہے تو سعید کو گرفتار کرنا ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن جائے گا.
اس لئے آپ کو بہت محتاط رہنا چاہیے"-
____________○______________
مسعود عمر کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا اس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ معلوم ہوتی تھی-
ولید نے سلمان کو حامد بن زہرہ کے ایک دوست کی حیثیت سے متعارف کرانے ہوئے لاش کو دفن کرنے کی ہدایات دیں اور مسعود کو گھوڑے لانے کے لئے کہا-
اور پھر جب وہ واپس چلے گئے تو سلمان نے کہا:
میں ایسا محسوس کرتا ہوں کہ غرناطہ میں اپنے حصے کا کام ادھورا چھوڑ آیا ہوں اور مجھے وہاں جانا پڑے گا-
اگر آپ کی طرف سے کوئی پیغام نہ ملا تو ممکن ہے کہ میں اچانک وہاں پہنچ جاؤں.
مجھے بہت زیادہ عقل مند ہونے کا دعویٰ نہیں ہے تاہم میں آپ کے ساتھیوں کو مشورہ دوں گا کہ موجودہ صورتحال کے مطابق انہیں حامد بن زہرہ کی موت کی خبر عوام کے سامنے نہیں لانی چاہیے اگر عوام مشتعل ہو گئی تو غداروں سے کچھ بعید نہیں کہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے شہر کے دروازے دشمن کے لیے کھول دیں.
آپ کو اندرونی غداروں اور بیرونی دشمنوں سے نپٹنے کے لیے اتنا وقت ملنا چاہیے کہ آپ قبائل کو اپنا ہمنوا بنا سکیں-"
اس کے بعد حامد بن زہرہ کے قاتلوں سے ہر وقت انتقام لیا جا سکتا ہے "-
ولید نے کہا آپ اطمینان رکھیں ہمیں معلوم ہے کہ دشمن ہماری زرا سی غلطی سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا.
اس وقت حکومت کو ذہنی الجھن میں ڈالنے کے لیے یہی کافی ہے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہ ظاہر ہونے دیں.
میرے علاوہ صرف دو آدمی ہیں جنہیں اس المناک واقعہ کا پتہ ہے.
سعید زخمی ہے اور وہ غرناطہ نہیں جا سکتا اگر وہ چلا بھی گیا تو اسے انتہائی دور اندیش پائیں گے-
میں ان واقعات کا صرف چند انتہائی قابل اعتماد آدمیوں سے ذکر کروں گا"-
ایک عمر رسیدہ خادم نے دروازے سے اندر جھانکتے ہوئے کہا-"
جناب بدریہ کہتی ہے کہ آپ مہمان کو اندر لے آئیں"-
وہ اٹھ کر کمرے سے باہر نکل آئے◇
_____________○____________
تھوڑی دیر بعد وہ. ...جاری ہے.

No comments:

Post a Comment