Wednesday 28 September 2016

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
٭٭٭حصہ پنجم٭٭٭

حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام فرعون کے دربارمیں پہنچے اور بغیر خوف و خطر اندرداخل ہوگئے جب فرعون کے تخت کے قریب پہنچے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور گفتگو شروع ہوئی اور انہوں نے فرمایا:

’’اور موسیٰ نے کہا اے فرعون! میں جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہو اایلچی ہوں میرے لئے کسی طرح زیبا نہیں کہ اللہ پر حق اور سچ کے علاوہ کچھ اور کہوں بلاشبہ میں تمہارے لئے تمہارے پر وردگار کے پاس سے دلیل اور نشان لایا ہوں پس تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔‘‘ (اعراف)

فرعون نے جب یہ سنا تو کہنے لگا کہ’’ موسیٰ! آج تو پیغمبر بن کر میرے سامنے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتاہے وہ دن بھول گیا جب تو نے میرے ہی گھر میں پرورش پائی اور بچپن کی زندگی گذاری اور کیاتو یہ بھی بھول گیا کہ تو نے ایک مصری کو قتل کیا اور یہاں سے بھاگ گیا،

موسیٰ نے فرمایا فرعون ! صحیح ہے کہ میں نے تیرے گھر میں پرورش پائی اور ایک مدت تک شاہی محل میں رہا اور مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ غلطی کی بنا پر مجھ سے نادانستہ ایک شخص قتل ہو گیا اور میں اس خوف سے چلا گیا تھا لیکن یہ خدائے تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے تمام بیکسانہ مجبوریوں کی حالت میں تیرے ہی گھرانے میں میری پرورش کرائی اور پھر مجھ کو اپنی سب سے بڑی نعمت نبوت ورسالت سے سرفراز کیا۔‘‘

فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پرورش اور حسن سلوک کا جو احسان جتلایا تھا اسکا جواب دیتے ہوۓ انہوں نے فرمایا:
" مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے جسے تو جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟" ( الشعراء، ،۲۲)

یعنی تو نے مجھ ایک فرد پر جو احسان کیا ہے، کیا تو اپنے اس ظلم کے مقابلے میں اسکا ذکر کر سکتا ہے کہ تو نے ایک پوری قوم کو غلام بنا کر اپنی خدمت میں لگا رکھا ہے؟

اللہ پاک نے سورۃ الشعراء کی مندرجہ ذیل آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا مکالمہ بیان کیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"فرعون نے کہا، رب العالمین کیا ہوتا ہے؟ موسیؑ نے فرمایا: وہ آسمانوں اور زمین اور انکے درمیان تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔ فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا: کیا تم سن نہیں رہے؟ موسیؑ نے فرمایا: وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے۔ فرعون نے کہا: (لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، یہ تو یقینا" دیوانہ ہے۔ موسیٰؑ نے فرمایا: وہی مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔" (الشعراء، ۲۳۔۲۸)

فرعون اللہ پاک کے وجود کا انکار کرتا تھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ (نعوذ باللہ ) وہ خود معبود ہے اس کے اس اعلان کا ذکر قرآنِ پاک میں کچھ یوں ہے۔ " اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں جانتا۔"
( القصص، ۳۸)
ایک اور جگہ ذکر ہوا : " تم سب کا سب سے بلند و بالا رب میں ہی ہوں۔" (النازعات،۲۴)

وہ یہ سب محض ہٹ دھرمی کی بنیاد میں کہہ رہا تھا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ ایک بندہ ہے اور کسی اور کے سایہ ربوبیت میں ہے اور اللہ ہی خالق ہے اور سچا معبود ہے۔ لیکن وہ دلائل کے میدان میں شکست کھا چکا تھا اسے اسکے شبہات کا واضح جواب مل چکا تھا اور اب اسکے پاس عناد اور ضد کے سوا اللہ پاک کے وجود سے انکار کی کوئی وجہ نہ تھی اوراس نے اپنی بادشاہت، اقتدار اور اختیارات کا رعب ڈالنا چاہا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" فرعون کہنے لگا: (سن لے!) اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر لوں گا۔ موسیٰؑ نے کہا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں تو بھی؟ فرعون نے کہا: اگر تُو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر۔ آپ نے اسی وقت اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی، جو اچانک زبردست اژدھا بن گئی اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اس وقت دیکھنے والوں کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا۔" ( الشعراء،۲۹۔۳۳)

یہ دو معجزے ہیں جن سے اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی، یعنی عصا اور ید بیضا۔ لیکن ان سب سے بھی فرعون کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ کفر پر اڑا رہا۔ اس نے ان معجزات کو جادو قرار دیا اور انکا مقابلہ جادو کے ذریعے سے کرنا چاہا۔ اس نے اپنے ملک کے ان تمام جادوگروں کو جمع کرنے کے لئے آدمی بھیج دئیے جو اسکی رعیت میں شامل تھے لیکن اسکے نتیجے میں حق کی حقانیت مزید پختہ ہو گئی۔

فرعون نے ایک میلہ لگوایا۔ اور اپنی پوری سلطنت کے جادوگروں کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لئے مقابلہ پر لگا دیا۔ اور اس میلہ کے ازدحام میں جہاں لاکھوں انسانوں کا مجمع تھا، ایک طرف جادوگروں کا ہجوم اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ اور اُن جادوگروں کی فوج کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ڈٹ گئے۔ جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں اور پورا مجمع خوف و ہراس میں بدحواس ہو کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا اور فرعون اور اس کے تمام جادوگر اس کرتب کو دکھا کر اپنی فتح کے گھمنڈ اور غرور کے نشہ میں بدمست ہو گئے اور جوشِ شادمانی سے تالیاں بجا بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں ناگہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو اُن سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑا اور نہایت ہیبت ناک اژدہا بن کر جادوگروں کےتمام سانپوں کو نگل گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدہ میں گرپڑے اور باآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ امَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَمُوْسٰی یعنی ہم سب حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔

چنانچہ قرآنِ مجد نے اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔

ترجمہ قرآن:۔ بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی اُن کی رسیاں اور لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے اُن کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے اورڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور اُن کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے تو سب جادوگر سجدے میں گرالئے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔(پ16،طہ65تا70)

لیکن فرعون پھر بھی ایمان نہ لایا اور اپنے کفر پر اڑا رہا ۔ ایک روایت کے مطابق اس نے تمام جادوگروں سے کہا کہ مجھے رب مان لو نہیں تومیں تمہیں قتل کروادوں گا۔ لیکن تمام جادوگر اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے اور فرعون نے ان تمام جادوگروں کو آگ میں پھینک کر قتل کروا دیا۔
جاری ہے۔۔

No comments:

Post a Comment