Wednesday 28 September 2016

قصہ حضرت یوسف علیہ السلام

٭٭٭دوسرا حصہ٭٭٭

قرآن مجید کی 12 ویں سورت جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی۔

اس سورت کے نزول کی وجہ یہ تھی۔کہ جب قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کررہے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معاذاللہ قتل کردیں یا جلاوطن کریں یا قید کردیں۔ اس زمانے میں کفار مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں روایات میں نہ پایا جاتا تھا اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کرکے کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالٰیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ مزید برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملے پر چسپاں بھی کردیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کررہے تھے۔

مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخر کار اسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ مقصد بھی سورت کے آغاز میں صاف صاف بیان کردیا گیا ہے چنانچہ فرمایا "یوسف اوراس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں"

اب اس قصہ کا آغاز کیا جاتا ہے۔۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو ''احسن القصص'' یعنی تمام قصوں میں سب سے اچھا قصہ فرمایا ہے۔اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی مقدس زندگی کے اتار چڑھاؤ میں اور رنج و راحت اور غم و سرور کے مد و جزر میں ہر ایک واقعہ بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے سامان اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اس واقعہ کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور خداوند قدوس کی قدرتوں کا مشاہدہ کریں۔

حضرت یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم السلام کے بارہ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:۔
(۱)یہودا (۲)روبیل (۳)شمعون (۴)لاوی (۵)زبولون (۶)یسجر
(۷)دان (۸)نفتائی (۹)جاد (۱۰)آشر (۱۱)یوسف (۱۲)بنیامین

حضرت بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے۔ باقی دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے پیارے تھے اور چونکہ ان کی پیشانی پر نبوت کے نشان درخشاں تھے اس لئے حضرت یعقوب علیہ السلام ان کا بے حد اکرام اور ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے۔ سات برس کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند و سورج ان کو سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنا یہ خواب اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سنایا تو آپ نے ان کو منع فرما دیا کہ پیارے بیٹے!خبردار تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بیان کردینا ورنہ وہ لوگ جذبہ حسد میں تمہارے خلاف کوئی خفیہ چال چل دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے بھائیوں کو ان پر حسد ہونے لگا۔ یہاں تک کہ سب بھائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ منصوبہ تیار کرلیا کہ ان کو کسی طرح گھر سے لے جا کر جنگل کے کنوئیں میں ڈال دیں۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے سب بھائی جمع ہو کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے۔ اور بہت اصرار کر کے شکار اور تفریح کا بہانہ بنا کر ان کو جنگل میں لے جانے کی اجازت حاصل کرلی۔ اور ان کو گھر سے کندھوں پر بٹھا کر لے چلے۔ لیکن جنگل میں پہنچ کر دشمنی کے جوش میں ان کو زمین پر پٹخ دیا۔ اور سب نے بہت زیادہ مارا۔ پھر ان کا کرتا اتار کر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک گہرے اور اندھیرے کنوئیں میں گرا دیا۔ لیکن فوراً ہی حضرت جبریل علیہ السلام نے کنوئیں میں تشریف لا کر ان کو غرق ہونے سے اس طرح بچالیا کہ ان کو ایک پتھر پر بٹھا دیا جو اس کنوئیں میں تھا۔ اور ہاتھ پاؤں کھول کر تسلی دیتے ہوئے ان کا خوف و ہراس دور کردیا۔ اور گھر سے چلتے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کا جو کرتا تعویذ بنا کر آپ کے گلے میں ڈال دیا تھا وہ نکال کر ان کو پہنا دیا جس سے اس اندھیرے کنوئیں میں روشنی ہوگئی۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کو کنوئیں میں ڈال کر اور آپ کے پیراہن کو ایک بکری کے خون میں لت پت کر کے اپنے گھر کو روانہ ہو گئے اور مکان کے باہر ہی سے چیخیں مار کر رونے لگے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گھبرا کر گھر سے باہر نکلے۔ اور رونے کا سبب پوچھا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ کیا تمہاری بکریوں کو کوئی نقصان پہنچ گیا ہے؟ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ میرا یوسف کہاں ہے؟ میں اس کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ تو بھائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ کھیل میں دوڑتے ہوئے دور نکل گئے اور یوسف علیہ السلام کو اپنے سامان کے پاس بٹھا کر چلے گئے تو ایک بھیڑیا آیا اور وہ اُن کو پھاڑ کر کھا گیا۔ اور یہ اُن کا کرتا ہے۔ ان لوگوں نے کرتے میں خون تو لگا لیا تھا لیکن کرتے کو پھاڑنا بھول گئے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اشک بار ہو کر اپنے نورِ نظر کے کرتے کو جب ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا تو کرتا بالکل سلامت ہے اورکہیں سے بھی پھٹا نہیں ہے تو آپ ان لوگوں کے مکر اور جھوٹ کو بھانپ گئے۔ اور فرمایا کہ بڑا ہوشیار اور سیانا بھیڑیا تھا کہ میرے یوسف کو تو پھا ڑ کر کھا گیا مگر ان کے کرتے پر ایک ذرا سی خراش بھی نہیں آئی اور آپ نے صاف صاف فرما دیا کہ یہ سب تم لوگوں کی کارستانی اور مکر و فریب ہے۔ پھر آپ نے دکھے ہوئے دل سے نہایت درد بھری آواز میں فرمایا۔

فَصَبْرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ ﴿18﴾ (پ12،یوسف:18)
.
حضرت یوسف علیہ السلام تین دن اس کنوئیں میں تشریف فرما رہے۔ یہ کنواں کھاری تھا۔ مگر آپ کی برکت سے اس کا پانی بہت لذیذ اور نہایت شیریں ہو گیا۔ اتفاق سے ایک قافلہ مدین سے مصر جا رہا تھا۔ جب اس قافلہ کا ایک آدمی جس کا نام مالک بن ذُعر خزاعی تھا، پانی بھرنے کے لئے آیا اور کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام ڈول پکڑ کر لٹک گئے مالک بن ذُعر نے ڈول کھینچا تو آپ کنوئیں سے باہر نکل آئے۔ جب اس نے آپ کے حسن و جمال کو دیکھا تو

یٰبُشْرٰی ھٰذَا غُلاَمٌ کہہ کر اپنے ساتھیوں کو خوشخبری سنانے لگا۔ اور آپ کولیکر مصر کی طرف روانہ ہوگئے۔

بقیہ تیسرے حصے میں۔۔۔۔
نبی اکرم ﷺ کے والد کی پاکدامنی
حضور نبیِ رحمت،شافعِ امّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ اقدس ہے : '' اللہ عزوجل مجھے ہمیشہ پاک ستھری پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہاصاف ستھرا آراستہ جب دو شاخیں پیدا ہوئیں ،تو مجھے ان میں بہترین شاخ میں رکھا جاتا ''
(بحوالہ کنز العمال،ج۱۲، ص۱۹۲،الحدیث:۳۵۴۸۴)
اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج دوستوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد گرامی جناب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ سناتے ہیں۔یہ واقعہ امام ابن جوزی (المتوفیٰ 597ہجری) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب عیون الحکایات میں نقل کیا ہے۔
ایک مرتبہ رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والد محترم حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں سفر پرجارہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی عورت ملی جو اپنے مذہب کی کتابوں کو خوب جانتی تھی اور وہ کاہنہ بھی تھی،اس کانام ''فاطمہ بنت مُرّ ''تھا،بہت زیادہ حسین وجمیل اورپارساتھی، لوگ اس سے شادی کی خواہش کرتے تھے ،حسن و خوبصورتی میں اس کابہت چرچا تھا، جب اس کی نظر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پڑی تو اسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی میں نورِ نبوت چمکتاہوا نظرآیا،اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب آکر آپ کو دعوتِ گناہ دی اور کہا اگر تم میری بات مانو گے تو میں تجھے سو اونٹ بھی دوں گی۔'' یہ سن کر عفت وحیاکے پیکر حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' مجھے حرام کام میں پڑنے سے موت کو گلے لگا لینا زیادہ عزیز ہے اورحلال کام تیرے پاس نہیں یعنی تو میرے لئے حلال نہیں پھر میں تیری خواہش کیسے پوری کر سکتا ہوں۔''
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس گھر تشریف لائے اور والدہ رسولِ کریم ﷺ حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے آئے ۔ چند دنوں کے بعد ایک مرتبہ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات اس عورت سے ہوئی، اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ انور پر نورنبوت نہ پا کر پوچھا: ''تم مجھ سے جدا ہونے کے بعد کہاں گئے تھے؟''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''میں اپنی زوجہ کے پاس گیا۔''یہ سن کر وہ بولی: ''تمام آسمانوں کے خدا عزوجل کی قسم! میں بدکارہ نہیں لیکن میں نے تمہارے چہرے پر نورِنبو ت دیکھا تو میں نے چاہاکہ وہ نور مجھے مل جائے مگر اللہ عزوجل کوکچھ اور ہی منظورتھااس نے جہاں چاہا اس نور کو رکھا۔" جب یہ بات لوگوں کو معلوم ہوئی توانہوں نے اس عورت سے پوچھا: ''کیا واقعی عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تجھے قبول نہ کیا ،کیاتونے اسے اپنی طرف دعو ت دی تھی؟'' یہ سن کر اس نے چند اشعار پڑھے ،جن کاترجمہ یہ ہے :
میں نے ایک بجلی دیکھی جس نے سیاہ بادلوں کو بھی جگمگادیا،اس بجلی میں ایسا نور تھاجوسارے ماحول کوچودھویں کے چاند کی طرح روشن کررہاتھا،میں نے چاہاکہ اس نور کوحاصل کرلوں تاکہ اس پر فخرکرتی رہوں مگرہر پتھر کی رگڑ سے آگ پیدانہیں ہوتی مگر اے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !وہ زُہری عورت (یعنی حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)بڑی نصیب والی ہے جس نے تیرے دونوں کپڑے لے لئے وہ کیا جانے کہ اس نے کتنی عظیم چیز حاصل کر لی ہے۔ (یعنی حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تم سے و ہ شہزادہ حاصل کر لیاجس کے وجود پردو چادریں ہیں: ایک حکومت کی اور دوسر ی نبوت کی) وہ عورت اکثر یہ اشعار پڑھاکرتی تھی ۔
اس واقعہ سے رحمتِ عالم ،نبی رحمت' شاہ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والدِمحترم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاک دامنی کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایک نوجوان کوحسین وجمیل مال دار عورت گناہ کی دعوت دے اورصر ف گناہ کی دعوت ہی نہیں بلکہ سواونٹ بھی ساتھ دے لیکن پھر وہ غیرت مند اور عفت وحیاکاپیکر اپنی عزت کومحفوظ رکھنے کے لئے اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دے اوراس کی دعوت کو ٹھکرادے،توکیایہ عمل پاکدامنی ،تقوی، پرہیزگاری اور خوفِ خدا عزوجل کی ایک اعلیٰ ترین مثال نہیں ؟یقینا یہ خوف خدا عزوجل کی بہترین مثال ہے۔ اللہ عزوجل ان مبارک ہستیوں کے طفیل ہمیں بھی شرم وحیاکی عظیم نعمت سے مالامال فرمائے ۔آمین
حضرت مریم رضی اللہ عنہا بنت عمران

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم (رضی اللہ عنہا)کے والد کا نام ''عمران''اور ماں کا نام ''حنہ'' تھا۔ حضرت مریم رضی اللہ تعالی عنہا اللہ کی برگزیدہ ہستی تھیں، انبیاء کے خاندان سے تھیں۔ قرآن میں ایک پوری سورۃ (سورۃ مریم)ان کے نام سے موجود ہے۔ کیتھولک اور اورتھوڈوکس کلیسیاؤں کے علاوہ آپ کو اسلام میں بھی دیگر تمام انبیاء كی طرح نہایت ہی عقیدت اور احترام کی نگاہ کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ آپ وہ برگزیدہ خاتون ہیں جن کا نام قرآن میں درج ہے۔ حضرت مریم رضی اللہ عنہا فلسطین کے علاقے گلیل کے شہر ناصرت کی باشندہ تھیں۔

جب بی بی مریم اپنی ماں کے شکم میں تھیں اس وقت ان کی ماں نے یہ منت مان لی تھی کہ جو بچہ پیدا ہو گا میں اس کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے آزاد کردوں گی۔ چنانچہ جب حضرت مریم پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ ان کو بیت المقدس میں لے کر گئیں۔ اس وقت بیت المقدس کے تمام عالموں اور عابدوں کے امام حضرت زکریا علیہ السلام تھے جو حضرت مریم کے خالو تھے۔ حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ عنہاکو اپنی کفالت اور پرورش میں لے لیا اور بیت المقدس کی بالائی منزل میں تمام منزلوں سے الگ ایک محراب بنا کر حضرت مریم رضی اللہ عنہاکو اس محراب میں ٹھہرایا۔ چنانچہ حضرت مریم رضی اللہ عنہااس محراب میں اکیلی خدا کی عبادت میں مصروف رہنے لگیں اور حضرت زکریا علیہ السلام صبح و شام محراب میں ان کی خبر گیری اور خورد و نوش کا انتظام کرنے کے لئے آتے جاتے رہے۔
چند ہی دنوں میں حضرت مریم رضی اللہ عنہاکی محراب کے اندر یہ کرامت نمودار ہوئی کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام محراب میں جاتے تو وہاں جاڑوں کے پھل گرمی میں اور گرمی کے پھل جاڑوں میں پاتے۔ حضرت زکریا علیہ السلام حیران ہو کر پوچھتے کہ اے مریم یہ پھل کہاں سے تمہارے پاس آتے ہیں؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا یہ جواب دیتیں کہ یہ پھل اللہ کی طرف سے آتے ہیں اور اللہ جس کو چاہتا ہے بلا حساب روزی عطا فرماتا ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کو خداوند قدوس نے نبوت کے شرف سے نوازا تھا مگر ان کے کوئی اولاد نہیں تھی اور وہ بالکل ضعیف ہوچکے تھے۔ برسوں سے ان کے دل میں فرزند کی تمنا موجزن تھی اور بارہا انہوں نے گڑگڑا کر خدا سے اولادِ نرینہ کے لئے دعا بھی مانگی تھی مگر خدا کی شانِ بے نیازی کہ باوجود اس کے اب تک ان کو کوئی فرزند نہیں ملا۔ جب انہوں نے حضرت مریم رضی اللہ عنہاکی محراب میں یہ کرامت دیکھی کہ اس جگہ بے موسم کا پھل آتا ہے تو اس وقت ان کے دل میں یہ خیال آیا کہ میری عمر اب اتنی ضعیفی کی ہوچکی ہے کہ اولاد کے پھل کا موسم ختم ہوچکا ہے۔ مگر وہ اللہ جو حضرت مریم کی محراب میں بے موسم کے پھل عطا فرماتا ہے وہ قادر ہے کہ مجھے بھی بے موسم کی اولاد کا پھل عطا فرمادے۔ چنانچہ آپ نے محراب مریم میں دعا مانگی اور آپ کی دعا مقبول ہو گئی۔ اور اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے میں آپ کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام خود خداوند عالم نے ''یحییٰ'' رکھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت کا شرف بھی عطا فرمایا۔ قرآن مجید میں خداوند قدوس نے اس واقعہ کو اس طرح بیان فرمایا:۔

ترجمہ :۔جب زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا بولیں وہ اللہ کے پاس سے ہے بے شک اللہ جسے چاہے بے گنتی دے یہاں پکارا زکریا اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بے شک تو ہی ہے دعا سننے والا، تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بے شک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحیی کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کریگا اور سردار اور ہمیشہ کے لئے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ3،اٰل عمران:37تا39)

انجیل میں لکھا ہے کہ آپ کی منگنی کسی یوسف نامی شخص سے ہوئی تھی ۔ لیکن نکاح نہیں ہوا تھا۔ اس لئے آپ کنواری ہی تھیں۔

قرآن مجید میں ہے۔ آل عمران آیت 45 تا 48
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم بے شک اللّٰہ نے تجھے چُن لیا ۔ اور خوب ستھرا کیا ۔ اور آج سارے جہاں کی عورتوں سے تجھے پسند کیا۔اور یاد کرو جب فرشتوں نے مریم سے کہا اے مریم اللّٰہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی ۔ جس کا نام ہے مسیح عیسٰی مریم کا بیٹا رو دار ہوگا۔ دنیا اور آخرت میں اور قرب والا ۔
بولی اے میرے رب میرے بچہ کہاں سے ہوگا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ نہ لگایا۔ فرمایا اللّٰہ یوں ہی پیدا کرتا ہے جو چاہے جب کسی کام کا حکم فرمائے تو اس سے یہی کہتا ہے کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے۔اور اللّٰہ سکھائے گا کتاب اور حکمت اور توریت اور انجیل

حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت بی بی مریم کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں۔ جب ولادت کا وقت آیا تو حضرت بی بی مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا آبادی سے کچھ دور ایک کھجور کے سوکھے درخت کے نیچے تنہائی میں بیٹھ گئیں اور اُسی درخت کے نیچے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ چونکہ آپ بغیر باپ کے کنواری مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے شکم سے پیدا ہوئے۔ اس لئے حضرت مریم بڑی فکر مند اور بے حد اداس تھیں اور بدگوئی و طعنہ زنی کے خوف سے بستی میں نہیں آرہی تھیں۔ اور ایک ایسی سنسان زمین میں کھجور کے سوکھے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھیں کہ جہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ ناگہاں حضرت جبریل علیہ السلام اُتر پڑے اور اپنی ایڑی زمین پر مار کر ایک نہر جاری کردی اور اچانک کھجور کا سوکھا درخت ہرا بھرا ہو کر پختہ پھل لایا۔ اور حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پکار کر اُن سے یوں کلام فرمایا:۔
(پ16،مریم،24۔26)
ترجمہ:۔تو اسے اس کے تلے سے پکارا کہ غم نہ کھا بے شک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بہا دی ہے اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا تجھ پر تازی پکی کھجوریں گریں گی تو کھااور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ۔

سوکھے درخت میں پھل لگ جانا اور نہر کا اچانک جاری ہونا، بلاشبہ یہ دونوں حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی کرامات ہیں۔
جب حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو گود میں لے کر بنی اسرائیل کی بستی میں تشریف لائیں تو قوم نے آپ پر بدکاری کی تہمت لگائی۔ اور لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ اے مریم ! تم نے یہ بہت برا کام کیا۔ حالانکہ تمہارے والدین میں کوئی خرابی نہیں تھی۔
اور تمہاری ماں بھی بدکار نہیں تھی۔ بغیر شوہر کے تمہارے لڑکا کیسے ہو گیا؟ جب قوم نے بہت زیادہ طعنہ زنی اور بدگوئی کی تو حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود تو خاموش رہیں مگر ارشاد کیا کہ اس بچے سے تم لوگ سب کچھ پوچھ لو۔ تو لوگوں نے کہا کہ ہم اس بچے سے کیا اور کیونکر اور کس طرح گفتگو کریں؟ یہ تو ابھی بچہ ہے جو پالنے میں پڑا ہوا ہے۔ قوم کا یہ کلام سن کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تقریر شروع کردی۔ جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے:۔
ترجمہ :۔بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی کیا اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں۔ اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیا اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن مروں گا اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں گا۔(پ16، مریم: 30۔33)

حدیث شریف میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مکتب میں بنی اسرائیل کے بچوں کو ان کے ماں باپ جو کچھ کھاتے اور جو کچھ گھروں میں چھپا کر رکھتے وہ سب بتا دیا کرتے تھے۔ جب والدین نے بچوں سے دریافت کیا کہ تمہیں ان باتوں کی کیسے خبر ہوتی ہے؟ تو بچوں نے بتا دیا کہ ہم کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام مکتب میں بتا دیتے ہیں۔ یہ سن کر ماں باپ نے بچوں کو مکتب جانے سے روک دیا اور کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جادوگر ہیں۔ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بچوں کی تلاش میں بستی کے اندر داخل ہوئے تو بنی اسرائیل نے اپنے بچوں کو ایک مکان کے اندر چھپا دیا کہ بچے یہاں نہیں ہیں آپ نے پوچھا کہ گھر میں کون ہیں؟ تو شریروں نے کہہ دیا کہ گھر میں سوّر بندر ہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اچھا سوّر ہی ہوں گے۔ چنانچہ لوگوں نے اس کے بعد مکان کا دروازہ کھولا تو مکان میں سے سوّر ہی نکلے۔ اس بات کا بنی اسرائیل میں چرچا ہو گیا اور بنی اسرائیل نے غیض و غضب میں بھر کر آپ کے قتل کا منصوبہ بنالیا۔ یہ دیکھ کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت بی بی مریم رضی اللہ عنہا آپ کو ساتھ لے کر مصر کو ہجرت کر گئیں۔ اس طرح آپ شریروں کے شر سے محفوظ رہے۔
(تفسیر جمل علی الجلالین،ص۴۱۹،پ۳، آل عمران ۴۹)

اس کے بعد آپ حضرت عیسی علیہ السلام کی پرورش کرتی رہیں۔ اور حضرت عیسی علیہ السلام کے جوان ہونے پر آپ کے ساتھ بیت المقد س واپس آگئیں۔اس کے بعد کی حضرت مریم کے متعلقہ معلومات قرآن و حدیث میں زیادہ نہیں ملتی۔ اور بعد میں اللہ تعالی نے حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر اٹھالیا۔آپ کے آسمان پر چلے جانے کے بعد حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے چھ برس دنیا میں رہ کر وفات پائی (بخاری و مسلم)
iکیا آپ جانتے ہیں کہ حضر ت عزیر علیہ السلام 100 برس تک فوت ہوئے تھے۔ اور پھر زندہ کئے گئے۔

نہیں تو جانئے قصہ حضر ت عزیر علیہ السلام کا۔

اللہ تعالی نے قرآن مجید کی سورۃ البقرۃ میں اس واقعہ کو ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے۔

ترجمہ قرآن:۔ یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پراور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔ بولا اسے کیونکر جلائے گا اللہ اس کی موت کے بعد تو اللہ نے اسے مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کر دیا فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا ، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم۔ فرمایا نہیں بلکہ تجھے سو برس گزر گئے اور اپنے کھانے اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بُو نہ لایا اور اپنے گدھے کو دیکھ (کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں)اور یہ اس لئے کہ تجھے ہم لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے پھر انہیں گوشت پہناتے ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259)

اکثر مفسرین کے نزدیک یہ واقعہ حضرت عزیر بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کردیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا۔ اور ایک لاکھ کو ملک شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کردیا۔ اور ایک لاکھ کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنالیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔

بخت نصر کون تھا؟:۔
قوم عمالقہ کا ایک لڑکا ان کے بت ''نصر''کے پاس لاوارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا نام بخت نصر (نصر کا بیٹا)رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہراسف بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا۔ پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا۔

(تفسیر جمل،ج۱،ص۳۲۱،پ۳،البقرۃ: ۲۵۹ )

کچھ دنوں کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام جب کسی طرح ''بخت نصر'' کی قید سے رہا ہوئے تو ایک گدھے پر سوار ہو کر اپنے شہر بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ اپنے شہر کی ویرانی اور بربادی دیکھ کر ان کا دل بھر آیا اور وہ رو پڑے۔ چاروں طرف چکر لگایا مگر انہیں کسی انسان کی شکل نظر نہیں آئی۔ ہاں یہ دیکھا کہ وہاں کے درختوں پر خوب زیادہ پھل آئے ہیں جو پک کر تیار ہوچکے ہیں مگر کوئی ان پھلوں کو توڑنے والا نہیں ہے۔ یہ منظر دیکھ کر نہایت ہی حسرت و افسوس کے ساتھ بے اختیار آپ کی زبان مبارک سے یہ جملہ نکل پڑا کہ

اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِھَا
یعنی اس شہر کی ایسی بربادی اور ویرانی کے بعد بھلا کس طرح اللہ تعالیٰ پھر اس کو آباد کریگا؟

پھر آپ نے کچھ پھلوں کو توڑ کر تناول فرمایا، اور انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ نوش فرمایا پھر بچے ہوئے پھلوں کو اپنے جھولے میں ڈال لیا اور بچے ہوئے انگور کے شیرہ کو اپنی مشک میں بھر لیا اور اپنے گدھے کو ایک مضبوط رسی سے باندھ دیا۔ اور پھر آپ ایک درخت کے نیچے لیٹ کر سو گئے اور اسی نیند کی حالت میں آپ کی وفات ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے درندوں، پرندوں، چرندوں اور جن و انسان سب کی آنکھوں سے آپ کو اوجھل کردیا کہ کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا۔ یہاں تک کہ ستر برس کا زمانہ گزر گیا تو ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنے لشکر کے ساتھ بیت المقدس کے اس ویرانے میں داخل ہوا۔ اور بہت سے لوگوں کو یہاں لا کر بسایا اور شہر کو پھر دوبارہ آباد کردیا۔ اور بچے کھچے بنی اسرائیل کو جو اطراف و جوانب میں بکھرے ہوئے تھے سب کو بلابلا کر اس شہر میں آباد کردیا۔ اور ان لوگوں نے نئی عمارتیں بنا کر اورقسم قسم کے باغات لگا کر اس شہر کو پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت اور بارونق بنا دیا۔

جب حضرت عزیر علیہ السلام کو پورے ایک سو برس وفات کی حالت میں ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ فرمایا تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا گدھا مرچکا ہے اور اس کی ہڈیاں گل سڑ کر ادھر ادھر بکھری پڑی ہیں۔ مگر تھیلے میں رکھے ہوئے پھل اور مشک میں رکھا ہوا انگور کا شیرہ بالکل خراب نہیں ہوا، نہ پھلوں میں کوئی تغیر نہ شیرے میں کوئی بو باس یا بدمزگی پیدا ہوئی ہے اور آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اب بھی آپ کے سر اور داڑھی کے بال کالے ہیں اور آپ کی عمر وہی چالیس برس ہے۔ آپ حیران ہو کر سوچ بچار میں پڑے ہوئے تھے کہ آپ پر وحی اتری اور اللہ تعالیٰ نے آپ سے دریافت فرمایا کہ اے عزیر! آپ کتنے دنوں تک یہاں رہے؟ تو آپ نے خیال کر کے کہاکہ میں صبح کے وقت سویا تھا اور اب عصر کا وقت ہو گیا ہے، یہ جواب دیا کہ میں دن بھر یا دن بھر سے کچھ کم سوتا رہا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں،اے عزیر! تم پورے ایک سو برس یہاں ٹھہرے رہے، اب تم ہماری قدرت کا نظارہ کرنے کے لئے ذرا اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کی ہڈیاں گل سڑ کر بکھر چکی ہیں اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں پر نظر ڈالو کہ ان میں کوئی خرابی اور بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ اے عزیر! اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ان ہڈیوں کو اٹھا کر ان پر گوشت پوست چڑھا کر اس گدھے کو زندہ کرتے ہیں۔ چنانچہ حضرت عزیر علیہ السلام نے دیکھا کہ اچانک بکھری ہوئی ہڈیوں میں حرکت پیدا ہوئی اور ایک دم تمام ہڈیاں جمع ہو کر اپنے اپنے جوڑ سے مل کر گدھے کا ڈھانچہ بن گیا اور لمحہ بھر میں اس ڈھانچے پر گوشت پوست بھی چڑھ گیا اور گدھا زندہ ہو کر اپنی بولی بولنے لگا۔ یہ دیکھ کر حضرت عزیر علیہ السلام نے بلند آواز سے یہ کہا

اَعْلَمُ اَنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿259﴾

ترجمہ :۔ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔ (پ3،البقرۃ:259)

اس کے بعد حضرت عزیر علیہ السلام شہر کا دورہ فرماتے ہوئے اس جگہ پہنچ گئے جہاں ایک سو برس پہلے آپ کا مکان تھا۔ تو نہ کسی نے آپ کو پہچانا نہ آپ نے کسی کو پہچانا۔ ہاں البتہ یہ دیکھا کہ ایک بہت ہی بوڑھی اور اپاہج عورت مکان کے پاس بیٹھی ہے جس نے اپنے بچپن میں حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا تھا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہی عزیر کا مکان ہے تو اس نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ پھر بڑھیا نے کہا کہ عزیر کا کیا ذکر ہے؟ ان کو تو سو برس ہو گئے کہ وہ بالکل ہی لاپتہ ہوچکے ہیں یہ کہہ کر بڑھیا رونے لگی تو آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا!میں ہی عزیر ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ سبحان اللہ آپ کیسے عزیر ہوسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ اے بڑھیا! مجھ کو اللہ تعالیٰ نے ایک سو برس مردہ رکھا۔ پھر مجھ کو زندہ فرما دیا اور میں اپنے گھر آگیا ہوں تو بڑھیا نے کہا کہ حضرت عزیر علیہ السلام تو ایسے باکمال تھے کہ ان کی ہر دعا مقبول ہوتی تھی اگر آپ واقعی حضرت عزیر (علیہ السلام)ہیں تو میرے لئے دعا کردیجئے کہ میری آنکھوں میں روشنی آجائے اور میرا فالج اچھا ہوجائے۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے دعا کردی تو بڑھیا کی آنکھیں ٹھیک ہوگئیں اور اس کا فالج بھی اچھا ہو گیا۔ پھر اس نے غور سے آپ کو دیکھا تو پہچان لیا اور بول اٹھی کہ میں شہادت دیتی ہوں کہ آپ یقینا حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں پھر وہ بڑھیا آپ کو لے کر بنی اسرائیل کے محلہ میں گئی۔ اتفاق سے وہ سب لوگ ایک مجلس میں جمع تھے اور اسی مجلس میں آپ کا لڑکا بھی موجود تھا جو ایک سو اٹھارہ برس کا ہوچکا تھا۔ اور آپ کے چند پوتے بھی تھے جو سب بوڑھے ہوچکے تھے۔ بڑھیا نے مجلس میں شہادت دی اور اعلان کیا

کہ اے لوگو! بلاشبہ یہ حضرت عزیر علیہ السلام ہی ہیں مگر کسی نے بڑھیا کی بات کو صحیح نہیں مانا۔ اتنے میں ان کے لڑکے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان ایک کالے رنگ کا مسہ یعنی نشان تھا جو چاند کی شکل کا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنا کرتا اتار کر دکھایا تو وہ مسہ موجود تھا۔ پھر لوگوں نے کہا کہ حضرت عزیر کو تو توراۃ زبانی یاد تھی اگر آپ عزیر ہیں تو زبانی توراۃ پڑھ کر سنایئے۔ آپ نے بغیر کسی جھجک کے فوراً پوری توراۃ پڑھ کر سنا دی۔ بخت نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو تباہ کرتے وقت چالیس ہزار توراۃ کے عالموں کو چن چن کر قتل کردیا تھا اور توراۃ کی کوئی جلد بھی اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ حضرت عزیر نے توراۃ صحیح پڑھی ہے یا نہیں؟ تو ایک آدمی نے کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ جس دن ہم لوگوں کو بخت نصر نے گرفتار کیا تھا اس دن ایک ویرانے میں ایک انگور کی بیل کی جڑ میں توریت کی ایک جلد دفن کردی گئی تھی اگر تم لوگ میرے دادا کے انگور کی جگہ کی نشان دہی کردو تو میں توراۃ کی ایک جلد برآمد کردوں گا۔ اس وقت پتا چل جائے گا کہ حضرت عزیر نے جو توراۃ پڑھی ہے وہ صحیح ہے یا نہیں؟ چنانچہ لوگوں نے تلاش کر کے اور زمین کھود کر توراۃ کی جلد نکال لی تو وہ حرف بہ حرف حضرت عزیر کی زبانی یاد کی ہوئی توراۃ کے مطابق تھی۔ یہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز ماجرا دیکھ کر سب لوگوں نے ایک زبان ہو کر یہ کہنا شروع کردیا کہ بے شک حضرت عزیر یہی ہیں اور یقینا یہ خدا کے بیٹے ہیں۔ چنانچہ اسی دن سے یہ غلط اور مشرکانہ عقیدہ یہودیوں میں پھیل گیا کہ معاذ اللہ حضرت عزیر خدا کے بیٹے ہیں۔(حضرت عزیر علیہ السلام کے سمجھانے سے کافی لوگ اس مشرکانہ عقیدے سے باز رہے مگر ان کی وفات کے بعد یہ عقیدہ پھر بہت سے یہودیوں نے اپنا لیا )۔ چنانچہ آج تک دنیا بھر کے یہودی اس باطل عقیدہ پر جمے ہوئے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ (معاذاللہ)

(تفسیر جمل علی الجلالین، ج۱،ص۳۲۲،پ۳،البقرۃ:۲۵۹)

فرعون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
٭٭٭حصہ سوم٭٭٭

حضرت موسیٰ علیہ السلام چلتے چلتے حضر ت شعیب کے گھر پہنچے اور اس بزرگ صورت و سیرت انسان کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف ملاقات سے بہرہ اندوز ہوئے، بزرگ نے پہلے کھانا کھلایا اور پھر اطمینان کے ساتھ بٹھا کر ان کے حالات سنے ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے من و عن اپنی ولادت اور فرعون کے بنی اسرائیل پر مظالم سے شروع کرکے آخر تک ساری داستان کہہ سنائی۔ سب کچھ سننے کے بعد بزرگ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی اور فرمایا کہ خدا کا شکر کرو کہ اب تم کو ظالموں کے پنجہ سے نجات مل گئی اب کوئی خوف کا مقام نہیں ہے۔

اکثر مفسر ین کا خیال ہے کہ مدین والے شیخ نبی اللہ حضر ت شعیب علیہ السلام تھے۔ بعض نے ان کی قوم کے ہی ایک بزرگ کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ نبی نہیں تھے۔ بہرحال ان میں اختلاف ہے۔

قرآن میں یہ کچھ یوں ہے۔
’’اور جب منہ کیا مدین کی سیدھ پر بولا امید ہے کہ میرا رب لیجائے مجھ کو سیدھی راہ پر اور جب پہنچا مدین کے پانی پر پایاوہاں ایک جماعت لوگوں کی پانی پلاتے ہوئے اور پایا ان سے ورے دوعورتوں کو روکے ہوئے کھڑی تھیں اپنی بکریاں بولا تمہارا کیا حال ہے بولیں ہم نہیں پلاتیں پانی چرواہوں کے پھیر لیجانے تک اور ہمارا باپ بوڑھا ہے بڑی عمرکا پھر اس نے پانی پلادیا اس کے جانوروں کو پھر ہٹ کر آیا چھائوں کی طرف بولا اے رب تو جو چیز اتارے میری طرف اچھی میں اس کا محتاج ہوں پھر آئی اس کے پاس ان دونوں میں سے ایک چلتی تھی شرم سے بولی میراباپ تجھ کو بلاتا ہے کہ بدلے میں دے حق اس کا کہ تو نے پانی پلادیا ہمارے جانوروں کو پھر جب پہنچا اس کے پاس اور بیان کیا اس سے احوال کہا مت ڈر بچ آیا تو اس قوم بے انصاف سے۔( قصص ع۳)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور مدین کے بزرگ میزبان کے درمیان یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اس لڑکی نے جو موسیٰ علیہ السلام کو بلانے گئی تھی اپنے باپ سے کہا: اے باپ! آپ اس مہمان کو اپنے مویشیوں کے چرانے اور پانی مہیا کرنے کے لئے اجیر رکھ لیجئے، اجیر وہی بہتر ہے جو قوی بھی ہو اور امانت دار بھی۔

مفسرین کہتے ہیں کہ باپ کو لڑکی کی یہ گفتگو عجیب سی معلوم ہوئی اور اس نے دریافت کیا:’’ تجھ ‘‘ کو اس مہمان کی قوت و امانت کا حال کیا معلوم؟ لڑکی نے جواب دیا:میں نے مہمان کی قوت کا اندازہ تو اس سے کیا کہ کنوئیں کا بڑا ڈول اس نے تنہا بھرکر کھینچ لیااور امانت کی آزمائش اس طرح کی کہ جب میں اس کو بلانے گئی تو اس نے مجھے دیکھ کر نیچی نظریں کرلیں اور گفتگو کے دوران میں ایک مرتبہ بھی میری طرف نگاہ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور جب یہاں آنے لگا تو مجھے پیچھے چلنے کو کہا اور خود آگے آگے چلا اور صرف اشاروں ہی میں اس کی رہنمائی کرتی رہی۔(تفسیر ابن جریرسورئہ قصص)

بزرگ باپ نے بیٹی کی ان باتوں کو سنا تو بہت مسرور ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اگر تم آٹھ سال تک میرے پاس رہو اور میری بکریاں چراؤ تو میں اس بیٹی کی تم سے شادی کرنے کو تیار ہوں اور اگر تم اس مدت کو دوسال بڑھا کر دس سال کردو تو اور بھی بہتر ہے یہی لڑکی کا مہر ہوگا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شرط کو منظور کر لیا اور فرمایا کہ یہ میری خوشی پر چھوڑئیے کہ میں ان دونوں مدتوں میں سے جس کو چاہوں پورا کردوں، آپ کی جانب سے مجھ پر اس بارہ میں کوئی جبر نہ ہوگا۔ طرفین کی اس باہمی رضامندی کے بعدبزرگ میزبان نے اس بیان کردہ مدت کو مہر قرار دے کر موسیٰ علیہ السلام سے اپنی اس بیٹی کی شادی کردی۔

اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ مدت ختم ہونے پر ’’عقد‘‘ عمل میں آیا اور عقد کے فوراً بعد ہی موسیٰ علیہ السلام اپنی بیوی کو لے کر روانہ ہوگئے، مفسرین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی کا نام حضرت’’صفورہ‘‘ بتایا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین میں ایک عرصہ قیام کیا اور اس پوری مدت میں اپنے خسر کے مویشیوں کی گلہ بانی کرتے رہے
قرآن عزیز نے یہ نہیں بتایا کہ مدت پوری ہونے کے کس قدر بعد تک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے’’ شیخ‘‘ اپنے خسر کے پاس قیام کیا؟ البتہ مفسرین یہ کہتے ہیں کہ مدت ختم ہونے کے فوراً بعد ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کو روانہ ہوگئے اور ان کے خسر نے روانگی کے سال میں بکریوں نے جس قدر بچے دیئے تھے ان کے حوالے کردئیے اور وہ اپنی بیوی اور اس ریوڑ کو لے کر چل پڑے۔( معالم جلد ۵ ص ۱۴۳)
شاید ان کا یہ قول اس آیت کے پیش نظر ہو’’فلما قضی موسی الاجل وسارباھلہ انس من جانب الطورنارا‘‘( قصص ع ۴)
’’پس جب حضرت موسیٰ نے مدت پوری کردی اور اپنے اہل کو لے کر چل دیا تو محسوس کیا طور کی جانب آگ کو۔

تو رات میں مذکورہے کہ اس قیام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام جیر سون رکھا،مدیانی عبرانی میں اس کے معنی’’غربت و مسافرت‘‘ کے ہیں۔ گو یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیٹے کے نام میں اپنی’’مسافرت‘‘ کو بطور یاد گار قائم رکھا تا کہ خاندان والوں کو یاد رہے کہ اس بچہ کی ولادت غربت ومسافرت میں ہوئی تھی، تو رات کی عبارت یہ ہے:
’’ اور اس نے اپنی بیٹی صفورہ موسیٰ کو دی وہ بیٹا جنی اس نے اس کا نام جیر سون رکھا کیونکہ اس نے کہا میں اجنبی ملک میں مسافر ہوں۔‘‘ ( خروج باب ۲آیت ۲۱،۲۲)

وادی مقدس میں۔
واپس آتے ہوئے یا وہیں مدین کے قریب ہی ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل وعیال سمیت بکریاں چراتے چراتے مدین سے بہت دور نکل گئے گلہ بان قبائل کے لئے یہ بات کوئی قابل تعجب نہ تھی مگر رات ٹھنڈی تھی اس لئے سردی آگ کی جستجو پر مجبور کر رہی تھی۔
سامنے کوہ سینا کاسلسلہ نظر آرہا تھا یہ سینا کا مشرقی گوشہ تھا اور مدین سے ایک روز کے فاصلہ پر بحر قلزم کے دوشاخے کے درمیان مصر کو جاتے ہوئے واقع تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگ جلانے کے لئے چقماق استعمال کیا مگر سخت خنکی تھی اس نے کام نہ دیا۔ سامنے کی وادی (وادی ایمن) میں نگاہ دوڑائی تو ایک شعلہ چمکتا ہوا نظرپڑا ،بیوی سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں آگ لے آؤں تاپنے کا بھی انتظام ہوجائے گا اور اگر وہاں کوئی رہبرمل گیا تو بھٹکی ہوئی راہ کا بھی کھوج لگ جائے گا۔
’’پھر موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید اس میں سے کوئی چنگاری تمہارے لئے لاسکوں یا وہاں الائو پر کسی رہبر کو پاسکوں۔ (طٰہٰ ع ۱)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ عجیب آگ ہے درخت پرروشنی نظر آتی ہے مگر نہ درخت کو جلاتی ہے اور نہ گل ہی ہوجاتی ہے، یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھے لیکن جوں جوں آگے بڑھتے جاتے تھے آگ دور ہوتی جاتی تھی یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کو خوف ساپیدا ہوااور انہوں نے ارادہ کیا کہ واپس ہوجائیں جوں ہی وہ پلٹنے لگے آگ قریب آگئی اور قریب ہوگئی اور قریب ہوئے تو سنا کہ یہ آواز آر ہی ہے:

اے موسیٰ!میں ہوں میں اللہ پروردگار تمام جہانوں کا۔ (قصص)

پس جب موسیٰ اس( آگ) کے قریب آئے تو پکارے گئے اے موسیٰ! میں ہوں تیرا پروردگار پس اپنی جوتی اتار دے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ! میں نے تجھ کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن۔( طٰہٰ:ع۱)

جاری ہے،، بقیہ حصہ چہارم میں

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
٭٭٭حصہ چہارم٭٭٭

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے ہجرت فرما کر مدین تشریف لے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح فرما دیا۔ اور آپ دس برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر آپ کی بکریاں چراتے رہے۔ اُس وقت حضرت شعیب علیہ السلام نے حکمِ خداوندی (عزوجل) کے مطابق آپ کو ایک مقدس عصا عطا فرمایا۔ جو حضرت آدم علیہ السلام جنت سے لائے تھے۔ جو مختلف انبیاء سے ہوتا ہوا۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس موجود تھا۔

نوٹ:۔ اس عصا کا تفصیلی ذکر عصا موسیٰ والی پوسٹ میں ہوچکا ہے۔

پھر جب آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مدین سے مصر اپنے وطن کے لئے روانہ ہوئے۔ اور وادی مقدس مقام ''طُویٰ'' میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی سے آپ کو سرفراز فرما کر منصب ِ رسالت کے شرف سے سربلند فرمایا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ عجیب آگ ہے۔ اس آگ کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کو خوف ساپیدا ہوااور انہوں نے ارادہ کیا کہ واپس ہوجائیں جوں ہی وہ پلٹنے لگے آگ قریب آگئی اور قریب ہوگئی اور قریب ہوئے تو سنا کہ یہ آواز آر ہی ہے:
اے موسیٰ!میں ہوں اللہ پروردگار تمام جہانوں کا۔ (قصص)
پس جب موسیٰ اس( آگ) کے قریب آئے تو پکارے گئے اے موسیٰ! میں ہوں تیرا پروردگار پس اپنی جوتی اتار دے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ! میں نے تجھ کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن۔( طٰہٰ:ع۱)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس روشنی کو آگ سمجھا تھا وہ آگ نہ تھی بلکہ تجلّیٔ الہٰی کا نور تھا ۔

اُس وقت حضرت حق جل مجدہ نے آپ سے جس طرح کلام فرمایا قرآن مجید نے اُس کو اِ س طرح بیان فرمایا کہ!

وَمَا تِلْکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿17﴾قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّؤُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَلِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی ﴿18﴾

ترجمہ :۔اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اِس میں اور کام ہیں۔(پ 16،طہ:17،18)
اور کاموں کی تفسیر میں ہے:۔
(۱)اس کو ہاتھ میں لے کر اُس کے سہارے چلنا (۲)اُ س سے بات چیت کر کے دل بہلانا (۳)دن میں اُس کا درخت بن کر آپ پر سایہ کرنا(۴)رات میں اس کی دونوں شاخوں کا روشن ہو کر آپ کو روشنی دینا (۵)اُس سے دشمنوں، درندوں اور سانپوں، بچھوؤں کو مارنا (۶)کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت اس کا رسی بن جانا اور اُس کی دونوں شاخوں کا ڈول بن جانا (۷)بوقتِ ضرورت اُس کا درخت بن کر حسبِ خواہش پھل دینا(۸)اس کو زمین میں گاڑ دینے سے پانی نکل پڑنا وغیرہ
(مدارک التنزیل،ج۳،ص۲۵۱،پ۱۶،طہ:۱۸)

اب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ألقھایاموسی
’’موسیٰ ! اپنی اس لاٹھی کو زمین پر ڈال دو۔‘‘
اور موسیٰ علیہ السلام نے اس ارشاد عالی کی تعمیل کی:
فالقاھافاذاھی حیۃ تسعی
’’موسیٰ نے لاٹھی کو زمین پر ڈال دیا پس ناگاہ وہ اژدہا بن کردوڑنے لگا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ حیرت زدہ واقعہ دیکھا تو گھبراگئے اور بشریت کے تقاضہ سے متأثر ہو کر بھاگنے لگے، پیٹھ پھیر کر بھاگے ہی تھے کہ آواز آئی:
قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولیٰ
( اللہ تعالیٰ نے فرمایا) موسیٰ! اس کو پکڑ لو اور خوف نہ کھائو ہم اس کو اس کی اصل حالت پر لوٹادیں گے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی دوشاخہ تھی اب وہی دوشاخہ اژدہے کا منہ نظر آرہا تھا سخت پریشان تھے مگر قربت الہٰی نے طمانیت وسکون کی حالت پیدا کردی اور انہوں نے بے خوف ہو کر اس کے منہ پر ہاتھ ڈال دیا اس عمل کے ساتھ ہی فوراً وہ دوشاخہ پھر لاٹھی بن گیا۔

اب موسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ پکارا گیا اور حکم ہوا کہ اپنے ہاتھ کو گریبان کے اندر لیجا کر بغل سے مس کیجئے اور پھر دیکھئے وہ مرض سے پاک اور بے داغ چمکتا ہوا نکلے گا۔

واضمم یدک الیٰ جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء ایۃ اخری
اور ملادے اپنے ہاتھ کو اپنی بغل کے ساتھ نکل آئے گا وہ روشن بغیر کسی مرض کے( یعنی برص سے پاک) یہ دوسری نشانی ہے۔(طٰہٰ)

لنریک من ایاتناالکبری
تاکہ ہم تجھ کو اپنی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرادیں

’’پس تیرے پروردگار کی جانب سے فرعون اور اس کی جماعت کے مقابلہ میں تیرے لئے یہ دوبرہان ہیں بلاشبہ وہ فرعون اور اس کی جماعت نافرمان قوم ہیں۔

اب جاؤاور فرعون اور اس کی قوم کو راہ ہدایت دکھاؤ انہوں نے بہت سرکشی اور نافرمانی اختیار کررکھی ہے اور اپنے غرور و تکبر اور انتہاء ظلم کے ساتھ انہوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے سوان کو غلامی سے رستگاری دلاؤ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا:
’’ پروردگار! میرے ہاتھ سے ایک مصری قتل ہو گیا تھا اس لئے یہ خوف ہے کہ کہیں وہ مجھ کو قتل نہ کردیں مجھے یہ بھی خیال ہے کہ وہ میری بڑی زور سے تکذیب کریں گے اور مجھ کو جھٹلائیں گے یہ منصب عالی جب تو نے عطا فرمایا ہے تو میرے سینہ کو فراغ اور نورسے معمور کردے اور اس اہم خدمت کو میرے لئے آسان بنادے اور زبان میں پڑی ہوئی گرہ کو کھول دے تا کہ لوگوں کو میری بات سمجھنے میں آسانی ہو اور چونکہ میری گفتگو میں روانی نہیں ہے اور میری بہ نسبت میرابھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح بیان ہے اس لئے اس کو بھی اس نعمت(نبوت) سے نواز کر میراشریک کار بنادے۔‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان دلایا کہ تم ہمارا پیغام لے کر ضرور جائو اور ان کو حق کی راہ دکھائو،وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے اور جو نشانات ہم نے تم کو بخشے ہیں وہ تمہاری کامیابی کا باعث ہوں گے اور انجام کار تم ہی غالب رہوگے ہم تمہاری درخواست منظور کرتے ہیں اور تمہارے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی تمہارا شریک کار بناتے ہیں دیکھو تم دونوں فرعون اور اس کی قوم کو جب ہماری صحیح راہ کی جانب بلائو تو اس پیغام حق میں نرمی اور شیریں کلامی سے پیش آنا کیا عجب ہے کہ وہ نصیحت قبول کرلیں اور خوف خدا کرتے ہوئے ظلم سے باز آجائیں۔‘‘

داخلۂ مصر
سدی کہتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام منصب نبوت سے سرفراز ہو کر کلام ربانی سے فیضیاب بن کر اور دعوت وتبلیغ حق میں کامیابی وکامرانی کا مژدہ پاکروادی مقدس سے اُترے تو اپنی بیوی کے پاس پہنچے جو وادی کے سامنے جنگل میں ان کی منتظر اور چشم براہ تھیں ان کو ساتھ لیا اور یہیں سے تعمیل حکم الہٰی کے لئے مصر میں داخل ہو کر اپنے مکان پہنچے مگر اندرداخل نہ ہوئے اور والدہ کے سامنے ایک مسافر کی حیثیت میں ظاہرہوئے یہ بنی اسرائیل میں مہماں نواز گھر تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خوب خاطر مدارت کی گئی اسی دوران میں ان کے بڑے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام آپہنچے یہاں پہنچنے سے قبل ہی ہارون علیہ السلام کو خدا کی طرف سے منصب رسالت عطا ہوچکا تھا اس لئے ان کو بذریعہ وحی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سارا قصہ بتا دیا گیا تھا وہ بھائی سے آکرلپٹ گئے اور پھر ان کے اہل وعیال کو گھر کے اندر لے گئے اور والدہ کو سارا حال سنایا تب سب خاندان آپس میں گلے ملا اور بچھڑے ہوئے بھائیوں نے ایک دوسرے کی گذشتہ زندگی سے تعارف پیدا کیا اور والدہ کی دونوں آنکھوں نے ٹھنڈک حاصل کی۔( تاریخ ابن کثیر ج ۱ ص ۲۵۲)

اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فرعون کے دربار کی طرف روانہ ہوئے۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب دونوں بھائی فرعون کے دربار میں جانے لگے تو والدہ نے غایت شفقت کی بنا پر روکنا چاہا کہ تم ایسے شخص کے پاس جانا چاہتے ہو جو صاحب تخت و تاج بھی ہے اور ظالم ومغرور بھی ،وہاں نہ جائو وہاں جانا بے سود ہوگامگر دونوں نے والدہ کو سمجھایا کہ خدائے تعالیٰ کا حکم ٹالا نہیں جا سکتا اور اس کا وعدہ ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔
غرض دونوں بھائی اور خدا کے سچے پیغمبر و نبی فرعون کے دربارمیں پہنچے اور بغیر خوف و خطر اندرداخل ہوگئے جب فرعون کے تخت کے قریب پہنچے تو حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور گفتگو شروع ہوئی ۔

(جاری ہے)
بقیہ حصہ پنجم میں۔۔ ان شاءاللہ بہت جلد

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
٭٭٭حصہ پنجم٭٭٭

حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام فرعون کے دربارمیں پہنچے اور بغیر خوف و خطر اندرداخل ہوگئے جب فرعون کے تخت کے قریب پہنچے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور گفتگو شروع ہوئی اور انہوں نے فرمایا:

’’اور موسیٰ نے کہا اے فرعون! میں جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہو اایلچی ہوں میرے لئے کسی طرح زیبا نہیں کہ اللہ پر حق اور سچ کے علاوہ کچھ اور کہوں بلاشبہ میں تمہارے لئے تمہارے پر وردگار کے پاس سے دلیل اور نشان لایا ہوں پس تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔‘‘ (اعراف)

فرعون نے جب یہ سنا تو کہنے لگا کہ’’ موسیٰ! آج تو پیغمبر بن کر میرے سامنے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتاہے وہ دن بھول گیا جب تو نے میرے ہی گھر میں پرورش پائی اور بچپن کی زندگی گذاری اور کیاتو یہ بھی بھول گیا کہ تو نے ایک مصری کو قتل کیا اور یہاں سے بھاگ گیا،

موسیٰ نے فرمایا فرعون ! صحیح ہے کہ میں نے تیرے گھر میں پرورش پائی اور ایک مدت تک شاہی محل میں رہا اور مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ غلطی کی بنا پر مجھ سے نادانستہ ایک شخص قتل ہو گیا اور میں اس خوف سے چلا گیا تھا لیکن یہ خدائے تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے تمام بیکسانہ مجبوریوں کی حالت میں تیرے ہی گھرانے میں میری پرورش کرائی اور پھر مجھ کو اپنی سب سے بڑی نعمت نبوت ورسالت سے سرفراز کیا۔‘‘

فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پرورش اور حسن سلوک کا جو احسان جتلایا تھا اسکا جواب دیتے ہوۓ انہوں نے فرمایا:
" مجھ پر تیرا کیا یہی وہ احسان ہے جسے تو جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟" ( الشعراء، ،۲۲)

یعنی تو نے مجھ ایک فرد پر جو احسان کیا ہے، کیا تو اپنے اس ظلم کے مقابلے میں اسکا ذکر کر سکتا ہے کہ تو نے ایک پوری قوم کو غلام بنا کر اپنی خدمت میں لگا رکھا ہے؟

اللہ پاک نے سورۃ الشعراء کی مندرجہ ذیل آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا مکالمہ بیان کیا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"فرعون نے کہا، رب العالمین کیا ہوتا ہے؟ موسیؑ نے فرمایا: وہ آسمانوں اور زمین اور انکے درمیان تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔ فرعون نے اپنے اردگرد والوں سے کہا: کیا تم سن نہیں رہے؟ موسیؑ نے فرمایا: وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے۔ فرعون نے کہا: (لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، یہ تو یقینا" دیوانہ ہے۔ موسیٰؑ نے فرمایا: وہی مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو۔" (الشعراء، ۲۳۔۲۸)

فرعون اللہ پاک کے وجود کا انکار کرتا تھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ (نعوذ باللہ ) وہ خود معبود ہے اس کے اس اعلان کا ذکر قرآنِ پاک میں کچھ یوں ہے۔ " اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں جانتا۔"
( القصص، ۳۸)
ایک اور جگہ ذکر ہوا : " تم سب کا سب سے بلند و بالا رب میں ہی ہوں۔" (النازعات،۲۴)

وہ یہ سب محض ہٹ دھرمی کی بنیاد میں کہہ رہا تھا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ ایک بندہ ہے اور کسی اور کے سایہ ربوبیت میں ہے اور اللہ ہی خالق ہے اور سچا معبود ہے۔ لیکن وہ دلائل کے میدان میں شکست کھا چکا تھا اسے اسکے شبہات کا واضح جواب مل چکا تھا اور اب اسکے پاس عناد اور ضد کے سوا اللہ پاک کے وجود سے انکار کی کوئی وجہ نہ تھی اوراس نے اپنی بادشاہت، اقتدار اور اختیارات کا رعب ڈالنا چاہا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" فرعون کہنے لگا: (سن لے!) اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کر لوں گا۔ موسیٰؑ نے کہا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں تو بھی؟ فرعون نے کہا: اگر تُو سچوں میں سے ہے تو اسے پیش کر۔ آپ نے اسی وقت اپنی لاٹھی (زمین پر) ڈال دی، جو اچانک زبردست اژدھا بن گئی اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اس وقت دیکھنے والوں کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا۔" ( الشعراء،۲۹۔۳۳)

یہ دو معجزے ہیں جن سے اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی، یعنی عصا اور ید بیضا۔ لیکن ان سب سے بھی فرعون کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور وہ کفر پر اڑا رہا۔ اس نے ان معجزات کو جادو قرار دیا اور انکا مقابلہ جادو کے ذریعے سے کرنا چاہا۔ اس نے اپنے ملک کے ان تمام جادوگروں کو جمع کرنے کے لئے آدمی بھیج دئیے جو اسکی رعیت میں شامل تھے لیکن اسکے نتیجے میں حق کی حقانیت مزید پختہ ہو گئی۔

فرعون نے ایک میلہ لگوایا۔ اور اپنی پوری سلطنت کے جادوگروں کو جمع کر کے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لئے مقابلہ پر لگا دیا۔ اور اس میلہ کے ازدحام میں جہاں لاکھوں انسانوں کا مجمع تھا، ایک طرف جادوگروں کا ہجوم اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ اور اُن جادوگروں کی فوج کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا ڈٹ گئے۔ جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر پورے میدان میں ہر طرف پھنکاریں مار کر دوڑنے لگیں اور پورا مجمع خوف و ہراس میں بدحواس ہو کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگا اور فرعون اور اس کے تمام جادوگر اس کرتب کو دکھا کر اپنی فتح کے گھمنڈ اور غرور کے نشہ میں بدمست ہو گئے اور جوشِ شادمانی سے تالیاں بجا بجا کر اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگے کہ اتنے میں ناگہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو اُن سانپوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑا اور نہایت ہیبت ناک اژدہا بن کر جادوگروں کےتمام سانپوں کو نگل گیا۔ یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے سجدہ میں گرپڑے اور باآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ امَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَمُوْسٰی یعنی ہم سب حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔

چنانچہ قرآنِ مجد نے اِس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔

ترجمہ قرآن:۔ بولے اے موسیٰ یا تو تم ڈالو یا ہم پہلے ڈالیں موسیٰ نے کہا بلکہ تمہیں ڈالو جبھی اُن کی رسیاں اور لاٹھیاں اُن کے جادو کے زور سے اُن کے خیال میں دوڑتی معلوم ہوئیں تو اپنے جی میں موسیٰ نے خوف پایا ہم نے فرمایا ڈر نہیں بیشک تو ہی غالب ہے اورڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور اُن کی بناوٹوں کو نگل جائے گا وہ جو بنا کر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے اور جادوگر کا بھلا نہیں ہوتا کہیں آوے تو سب جادوگر سجدے میں گرالئے گئے بولے ہم اس پر ایمان لائے جو ہارون اور موسیٰ کا رب ہے۔(پ16،طہ65تا70)

لیکن فرعون پھر بھی ایمان نہ لایا اور اپنے کفر پر اڑا رہا ۔ ایک روایت کے مطابق اس نے تمام جادوگروں سے کہا کہ مجھے رب مان لو نہیں تومیں تمہیں قتل کروادوں گا۔ لیکن تمام جادوگر اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے اور فرعون نے ان تمام جادوگروں کو آگ میں پھینک کر قتل کروا دیا۔
جاری ہے۔۔

واقعہ حضرت شعیب علیہ السلام

حضرت شعیب علیہ السلام:۔
==================

حضرت شعیب علیہ السلام کو اہلِ مدین پر مبعوث کیا گیا جو کہ عربی باشندے تھے اور مدین میں رہتے تھے۔ مدین شام کے اطراف میں ارضِ معان کے نزدیک ہے جو حجاز سے متصل اور بحیرہ قوم لوط (بحیرہ مردار) کے قریب ہے۔ المنتظم فی تاریخ کے مطابق اب معان، اردن میں ہے اور بحیرہ مردار کے قریب نہیں بلکہ سعودی عرب میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر کے ساتھ واقع ہے۔ اہلِ مدین کا زمانہ قوم لوط سے کچھ مدت بعد کا ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام کو "خطیب الانبیاء" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ آپ قوم کو ایمان کی دعوت دیتے ہوۓ فصاحت و بلاغت اور اعلیٰ عبارت سے کام لیتے تھے۔
مدین کے لوگ کافر تھے، رہزنی کرتے اور مسافروں میں دہشت پھیلاتے تھے۔ اور "اَیُکہ" کو پوجتے تھے جو کہ ایک قسم کا درخت تھا جسکے اردگرد درختوں کا جھنڈ تھا۔ اسکے علاوہ بھی ان میں بہت سی سماجی برائیاں تھیں وہ لین دین کا معاملہ درست نہ رکھتے اور ماپ تول میں کمی کیا کرتے تھے۔ لیتے وقت بڑے اور دیتے وقت چھوٹے باٹوں کا استعمال ان میں عام تھا۔
اللہ پاک نے ان میں سے ایک شخصیت یعنی حضرت شعیب علیہ السلام کو منصبِ رسالت پر فائز کیا۔ آپ نے انہیں وحدہ لا شریک کی دعوت دی اور انکو برے کاموں سے منع فرمایا۔ کچھ لوگ ان پر ایمان لوۓ لیکن اکثریت نے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو بھیجا تو انہوں نے کہا کہ اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اسکے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کیطرف سے نشانی آ چکی ہے۔ لہٰذا تم ماپ اور تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کیا کرو۔" (الاعراف،۸۵)
آپ نے انہیں عدل کا حکم دیا اور ظلم سے منع فرمایا: " اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سمجھ لو یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے۔" (الاعراف،۸۵) اور فرمایا کہ: " ہر راستے میں مت بیٹھا کرو کہ لوگوں کو ڈراتے رہو۔" (الاعراف،۸۶)
یعنی ہر راستے میں بیٹھ کر لوگوں کو پریشان مت کرو کیونہ وہ غنڈہ گردی کرتے اور دہشت پھیلاتے تھے۔ تفسیر ابنِ کثیر کے مطابق سب سے پہلے ان لوگوں نے ہی ٹیکس کا ظالمانہ طریقہ ایجاد کیا اور وہ لوگوں کے مالوں کا دسواں حصہ وصول کیا کرتے تھے۔ اس طرح حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نہ صرف دنیاوی راستے روکنے بلکہ دین کی راہ میں رکاوٹ بننے سے بھی منع فرمایا۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوۓ اللہ پاک کی نعمت یاد دلائی کہ انکی تعداد کم تھی، اللہ نے زیادہ کر دی اور تنبیہ فرمائی کہ اگر وہ آپکی ہدایت کی پیروی نہ کریں گے تو ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو جاۓ گا۔ اور فرمایا:
" ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو۔ میں تمکو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور( اگر تم ایمان نہ لاؤ گے) تو مجھے تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو تمہیں گھیر لے گا۔" (ھود،۸۴)
یعنی اپنے غلط کاموں کو جاری نہ رکھو ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے مالوں کی برکت ختم کر دے گا اور تمہیں مفلس کر دے گا اور تمہاری دولت چھین لے گا۔ اسکے علاوہ آخرت کا عذاب بھی آنیوالا ہے اور جسکو دنیا میں بھی سزا ملے گی اور آخرت میں بھی عذاب بھگتنا پڑے گا وہی اصل خسارے سے دوچار ہو گا۔
انہوں نے اپنی قوم کو سمجھایا کہ اللہ پاک کا دیا ہوا نفع ہی تمہارے لئے کافی ہے اور بہتر ہے ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنے کی بجاۓ رزقِ حلال کماؤ اور کھاؤ کیونکہ اسی میں برکت ہے۔
ان تمام نصیحتوں اور خیر خواہیوں کے بدلے قوم نے اکھڑ پن کا مظاہرہ کیا اور انکا مذاق اڑاتے ہوۓ کہا: " اے شعیب! کیا تمہاری نماز تمہیں یہ سکھاتی ہے کہ جنکو ہمارے باپ دادا پوجتے آۓ ہیں ہم انکو ترک کر دیں یا اپنے مال میں جو تصرف کرنا چاہیں نہ کریں؟ تم تو بڑے نرم دل اور راست باز ہو۔" (ھود،۸۷)
یعنی انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کا مذاق اڑاتے ہوۓ کہا کہ کیا آپکو نماز یہ حکم دیتی ہے کہ آپ ہم پر پابندیاں عائد کریں اور آبآؤ اجداد کے دین سے ہٹ جائیں یعنی بت پرستی چھوڑ دیں؟ لیکن ہمیں انے ان معاملات میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی اور پھر کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ صرف آپ ہی عقلمند اور سمجھدار ہیں اور یہ بات ان کافروں نے مذاقا" کہی۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے کہا: " اے میری قوم! دیکھو تو اگر میں اپنے پروردگار کیطرف سے دلیل روشن پر ہوں اور اس نے اپنے ہاں مجھے بہترین روزی دی ہو (تو کیا میں اسکے خلاف کرونگا؟) اور میں نہیں چاہتا کہ جس امر سے تمہیں منع کروں خود وہی کرنے لگوں۔ میں تو جہاں تک ہو سکے (تمہارے معاملات کی) اصلاح چاہتا ہوں اور (اس بارے میں) توفیق کا ملنا اللہ ہی کا فضل ہے۔ میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کیطرف رجوع کرتا ہوں۔" (ھود،۸۸)
یہ دعوتِ حق کے لئے نرم الفاظ استعمال کرنے کا اسلوب ہے لیکن اسمیں حق بالکل واضح کر دیا گیا ہے اسکے بعد آپ نے کہا کہ:
" اے میری قوم! میری مخالفت تم سے ایسا کام نہ کرا دے کہ جیسی مصیبت نوح کی قوم یا ھود کی قوم یا صالح کی قوم پر واقع ہوئی تھی ویسی ہی مصیبت تم پر واقع ہو اور لوط کی قوم (کا زمانہ تو) تم سے کچھ دور نہیں۔" (ھود،۸۹)
یعنی میری مخالفت اور میرے پیغام سے نفرت تمہیں اس طرف نہ لے جاۓ کہ تم اپنی جہالت میں قائم رہو جسکے نتیجے میں تم پر عذاب آ سکتا ہے جیسا تم سے پہلی قوموں پر آیا۔ "قوم لوط کا زمانہ تم سے کچھ دور نہیں" سے مراد یہ ہے کہ وہ زمانہ، مقام اور اعمال ہر چیز کے لحاظ سے ان سے قریب تھے۔
اور پھر کہا: " اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگو اور اسکے آگے توبہ کرو۔ بیشک میرا پروردگار رحم والا اور محبت والا ہے۔" (ھود،۹۰)

حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کی ہر طرح سے خیر خواہی کی، انہیں اللہ تعالیٰ کیطرف سے حاصل شدہ خیر و برکت یاد دلائی اور برائیوں سے روکا مگر قوم نے ماننے کی بجاۓ آپکو سنگسار کرنے اور بستی سے نکال دینے کی دھمکیاں دیں اللہ پاک فرماتا ہے: "انہوں نے کہا کہ شعیب! تمہاری بہت سی باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آئیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ تم ہم میں کمزور بھی ہو۔ اور اگر تمہارے بھائی بند نہ ہوتے تو ہم تم کو سنگسار کر دیتے اور تم ہم پر (کسی طرح بھی) غالب نہیں ہو۔" (ھود، ۹۱) یہ انکے شدید کفر و عناد کا اظہار ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں تمہاری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں کیونکہ وہ ہمیں پسند نہیں اور نہ ہی ہم انہیں سننا چاہتے ہیں۔
" اور وہ کہتے کہ جس چیز کیطرف تم ہمیں بلاتے ہو اس سے ہمارے دل پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بوجھ (یعنی بہرہ پن) ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے، سو تم اپنا کام کرو اور ہم اپنا کام کرتے ہیں۔" (حٰم السجدۃ،۵) "شعیب نے کہا، اے میری قوم! کیا میرے بندوں کا دباؤ تم پر اللہ سے زیادہ ہے؟" (ھود،۹۲)
یعنی کیا تم خاندان اور قبیلے سے ڈرتے ہو اور اس وجہ سے میرا کچھ نہ کچھ لحاظ کرتے ہو لیکن کیا تمہیں اللہ کے عذاب سے خوف محسوس نہیں ہوتا؟ تم میرا لحاظ اس وجہ سے کیوں نہیں کرتے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ گویا تمہاری نظروں میں میرا قبیلہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ طاقت والا ہے۔ میرا پروردگار تمہارے سب اعمال کا احاطہ کئے ہوۓ ہو اور تم جو کچھ کرتے ہو اسے سب معلوم ہے۔ "برادرانِ ملت! تم اپنی جگہ کام کئے جاؤ میں اپنی جگہ کام کئے جاتا ہوں۔ تمہیں عنقریب معلوم ہو جاۓ گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے اور جھوٹا کون ہے؟ اور تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں۔" (ھود، ۹3)
اس میں سخت وعید ہے کہ اگر وہ باز نہ آۓ تو اسکا نتیجہ جلد ہی سامنے آ جاۓ گا اور معلوم ہو جاۓ گا کہ کس پر تباہی نازل ہو گی۔ قوم کے سرداروں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو بہت دھمکیاں دیں اور مومنوں کو تلقین کی کہ وہ اپنے پرانے مذہب پر واپس آ جائیں لیکن جب مومن ڈٹے رہے تو قوم کی زیادتیاں اور بھی بڑ گئیں تب حضرت شعیب علیہ السلام نے دعا فرمائی:
"اے پروردگار! ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنیوالا ہے۔" (الاعراف،۸۹)
آپؑ نے دعا فرمائی اور اور اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی دعا رد نہیں کرتا، جب وہ منکرین اور مخالفین کے خلاف دعا فرمائیں۔ قوم کے سردار اب بھی باز نہ آۓ اور کہنے لگے:
"لوگو! اگر تم نے شعیب کی پیروی کی تو بیشک تم خسارے میں پڑ گئے۔" (الاعراف، ۹۰)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"تو ان کو زلزلے نے آ پکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔" (الاعراف، ۷۸) یعنی زمین لرزنے لگی، شدید زلزلہ آ گیا جسکی وجہ سے ان کے جسموں سے روحیں پرواز کر گئیں ان کے بے جان لاشے بیٹھے کے بیٹھے رہ گئے ان میں جان رہی نہ حرکت۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی طرح کی سزائیں دیں اور ان پر عذاب نازل کئے کیونکہ وہ بری عادتوں میں مبتلا تھے انہوں نے نبی کی گستاحی کی تھی اور مذاق اڑایا تھا تو اللہ پاک نے ان پر بہت سے عذاب نازل کئے جنکا تذکرہ قرآن پاک کی مختلف آیات میں کچھ یوں ملتا ہے:
" تو ان لوگوں نے اس (شعیب) کو جھٹلایا، پس سائبان والے دن کے عذاب نے انکو آ پکڑا۔ بیشک وہ بڑے سخت دن کا عذاب تھا۔" (الشعراء، ۱۸۹) یعنی ان پر گرمی مسلط کر دی گئی جسکی شدت پانی سے کم ہوتی نہ ساۓ سے اور نہ تہہ خانوں میں داخل ہو جانے سے۔ چنانچہ وہ گھروں سے میدان میں نکل آۓ اچانک ایک بادل آیا تو وہ اس کے نیچے جمع ہو گئے تاکہ گرمی سے تسکین حاصل ہو۔ لیکن اس میں سے چنگاریاں اور شعلے برسنے لگے اور زمین زلزلے سے لرزنے لگی اور آسمان سے انتہائی شدید آواز گونجی جس سے وہ تباہ و برباد ہو گئے۔
"اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی تھے ایسے برباد ہو گئے گویا وہ کبھی آباد ہی نہیں ہوۓ تھے۔ (غرض) جنہوں نے شعیب کو جھٹلایا وہ خسارے میں پڑ گئے۔" (الاعراف، ۹۲)
" اور جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے شعیب کو اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لاۓ تھے ان کو تو اپنی رحمت سے بچا لیا اور جو ظالم تھے ان کوچنگھاڑ نے آ دبوچا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔ گویا ان میں کبھی بسے ہی نہ تھے۔ سن رکھو کہ مدین پر (ویسی ہی) پھٹکار ہے جیسی ثمود پر پھٹکار ہوئی تھی۔" ( ھود، ۹۴۔۹۵)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
" تو شعیب ان میں سے نکل آۓ اور کہا کہ بھائیو! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دئیے ہیں اور تمہاری خیر خواہی کی تھی، سو میں کافروں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج و غم کیوں کروں؟" (الاعراف، ۹۳)
یعنی ان لوگوں کے تباہ ہونے کے بعد حضرت شعیب علیہ السلام ان کی بستی سے یہ کہتے ہوۓ چل دئیے کہ میں نے پوری خیر خواہی کرتے ہوۓ اللہ کے احکام مکمل طور پر تمہیں پہنچا کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور جس جس طرح مجھ سے ہو سکا، میں نے ہر طرح سے تمہیں ہدایت سے سرفراز کرنے کی کوشش کی لیکن تم اس سے کوئی فائدہ نہ حاصل کر سکے کیونکہ ہدایت دینا اللہ کے قبضے میں ہے۔ اسکے بعد آنیوالے عذاب کا مجھے کوئی افسوس نہیں کیونکہ یہ تم ہی تھے جو ہدایت قبول کرتے تھے ، نہ رسوائی اور عذاب کے دن کا خوف محسوس کرتے تھے۔ اسی لئے فرمایا کہ میں کافروں پر (عذاب نازل ہونے سے) رنج و غم کیوں کروں؟ یعنی میں ان لوگوں کو رنج کیوں کروں جو حق قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اسکی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اسکے نتیجے میں ان پر اللہ کا وہ عذاب آ گیا جسے روکا جا سکتا ہے اور نہ اسکا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سے کہیں پناہ مل سکتی ہے۔

بحوالہ قصص الانبیاء

واقعہ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
حصہ دوم۔۔۔

حضرت موسی علیہ السلام ابھی تین سال کے بچے ہی تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ بچپن میں آپ ایک روز فرعون کی گود میں تھے آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا اس پر اسے غصہ آیا اور اس نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا حضرت آسیہ نے کہا کہ اے بادشاہ یہ نادان بچہ ہےکیا سمجھے ؟ تو چاہے تو تجربہ کر لے اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں آ گ اور ایک طشت میں یاقوت سرخ آپ کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتہ نے آپ کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ کے منہ میں دے دیا اس سے زبانِ مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہو گئی اس کے لئے آپ نے یہ دعا کی ۔
طہ 25 تا 29
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
اور میرا کارِ (رسالت) میرے لئے آسان فرما دے
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي
اور میری زبان کی گرہ کھول دے
يَفْقَهُوا قَوْلِي
کہ لوگ میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں
وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي
اور میرے گھر والوں میں سے میرا ایک وزیر بنا دے

پھر حضرت موسی علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اللہ تعالی نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ قرآن میں سورہ القصص آیت 14 تا 29 میں ذکر ہے ۔

ترجمہ:۔اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔ اور موسٰی (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے، تو انہوں نے اس میں دو مَردوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے) گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا، پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوں میں سے تھا پس موسٰی (علیہ السلام) نے اسے مکّا مارا تو اس کا کام تمام کردیا، (پھر) فرمانے لگے: یہ شیطان کا کام ہے (جو مجھ سے سرزَد ہوا ہے)، بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے۔
تبصرہ۔
اس میں شک نھیں کہ حضرت موسی علیہ السلام کا اس فرعونی کو جان سے ماردینے کا ارادہ نہ تھا قرآن سے بھی یہ خوب واضح هوجاتاھے ایسا اس لئے نہ تھا کہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلکہ انھیں ان نتائج کا خیال تھا جو خود حضرت موسی اور بنی اسرائیل کو پیش آسکتے تھے ۔

(موسٰی علیہ السلام) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے معاف فرما دے پس اس نے انہیں معاف فرما دیا، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔(مزید) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! اس سبب سے کہ تو نے مجھ پر (اپنی مغفرت کے ذریعہ) احسان فرمایا ہے اب میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔پس موسٰی (علیہ السلام) نے اس شہر میں ڈرتے ہوئے صبح کی اس انتظار میں (کہ اب کیا ہوگا؟) تو دفعتًہ وہی شخص جس نے آپ سے گزشتہ روز مدد طلب کی تھی آپ کو (دوبارہ) امداد کے لئے پکار رہا ہے تو موسٰی (علیہ السلام) نے اس سے کہا: بیشک تو صریح گمراہ ہے۔ سو جب انہوں نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑیں جو ان دونوں کا دشمن ہے تو وہ بول اٹھا: اے موسٰی! کیا تم مجھے (بھی) قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ تم نے کل ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ تم صرف یہی چاہتے ہو کہ ملک میں بڑے جابر بن جاؤ اور تم یہ نہیں چاہتے کہ اصلاح کرنے والوں میں سے بنو۔۔

اس بنی اسرائیلی شخص کے اس طرح بولنے سے اس واقعے کی فرعون اور اس کے اھل دربار کو اطلاع پہنچ گئی انھوں نے حضرت موسی سے اس عمل کے مکرر سرزد هونے کو اپنی شان سلطنت کے لئے ایک تہدید سمجھا ۔ وہ باھم مشورے کے لئے جمع هوئے اور حضرت موسی کے قتل کا حکم صادر کردیا ۔

اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا: اے موسٰی! (قومِ فرعون کے) سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوں۔(20)

یہ آدمی بظاھر وھی تھا جو بعد میں ”مومن آل فرعون “کے نام سے مشهور هوا ،کھا جاتاھے کہ اس کا نام حزقیل تھا وہ فرعون کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا اور ان لوگوں سے اس کے ایسے قریبی روابط تھے کہ ایسے مشوروں میں شریک هوتا تھا ۔

سو موسٰی (علیہ السلام) وہاں سے خوف زدہ ہو کر (مددِ الٰہی کا) انتظار کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے، عرض کیا: اے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرما۔(21)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پختہ ارادہ کرلیا کہ وہ شھرمدین کو چلے جائیں گے۔

مدیَن وہ مقام ہے جہاں حضرت شعیب علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے اس کو مدیَن ابنِ ابراہیم کہتے ہیں مِصر سے یہاں تک آٹھ روز کی مسافت ہے یہ شہر فرعون کے حدودِ قلمرو سے باہر تھا حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس کا رستہ بھی نہ دیکھا تھا ، نہ کوئی سواری ساتھ تھی ، نہ توشہ ، نہ کوئی ہمراہی ، راہ میں درختوں کے پتوں اور زمین کے سبزے کے سوا خوراک کی اور کوئی چیز نہ ملتی تھی ۔

چنانچہ اللہ تعالٰی نے ایک فرشتہ بھیجا جو آپ کو مدیَن تک لے گیا ۔

اور جب وہ مَدْيَنَْ کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ باتیں سن کر بہت کوفت هوئی اور دل میں کھا کہ یہ کیسے بے انصاف لوگ ھیں کہ انھیں صرف اپنی فکر ھے اور کسی مظلوم کی ذرا بھی پرواہ نھیں کرتے ۔
وہ آگے آئے ،بھاری ڈول اٹھایا اور اسے کنوئیں میں ڈالا، کہتے ھیں کہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا کہ چند آدمی مل کر اسے کھینچ سکتے تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے قوی بازوؤں سے اسے اکیلے ھی کھینچ لیا اور ان دونوں عورتوں کی بھیڑوں کو پانی پلادیا “۔[34]

حضرت موسیٰ علیہ السلام ( اس وقت ) تھکے هوئے اور بھوکے تھے اس شھر میں اجنبی اور تنھاتھے اور ان کے لیے کو ئی سرچھپانے کی جگہ بھی نہ تھی مگر پھر بھی وہ بے قرار نہ تھے آپ کا نفس ایسا مطمئن تھا کہ دعا کے وقت بھی یہ نھیں کھا کہ” خدایا تو میرے لیے ایسا یاویسا کر“ بلکہ یہ کھا کہ : تو جو خیر بھی مجھے بخشے میں اس کا محتاج هوں “ ۔
اس واقعہ کے بعد۔۔ ان لڑکیوں نے اپنے والد کو یہ قصہ سنایا اور۔۔

ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)۔(26)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوش نصیبی کا دور اس وقت شروع هوا جب انھوں نے یہ دیکھا کہ ان دونوں بہنوں میں سے ایک نھایت حیاسے قدم اٹھاتی هوئی آرھی ھے اس کی وضع سے ظاھر تھا کہ اسکوایک جوان سے باتیں کرتے هوئے شرم آتی ھے وہ لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب آئی اور صرف ایک جملہ کہا : میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ھیں تاکہ آپ نے ھماری بکریوں کے لئے کنویں سے جو پانی کھینچا تھا ، اس کا معاوضہ دیں “۔

اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام اس لڑکی کے ساتھ چل دئیے۔ ان خواتین کے والد کانام حضرت شعیب علیہ السلام تھا۔

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ سے حضرت شعیب کے مکان کی طرف روانہ هوئے ۔
بعض روایات کے مطابق وہ لڑکی رہنمائی کے لئے ان کے آگے چل رھی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے چل رھے تھے اس وقت تیز هوا سے اس لڑکی کا لباس اڑرہا تھا اور ممکن تھا کہ هوا کی تیزی لباس کو اس کے جسم سے اٹھادے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ طبیعت اس منظر کو دیکھنے کی اجازت نھیں دیتی تھی،اس لڑکی سے کہا:میں آگے آگے چلتا هوں،تم راستہ بتاتے رہنا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی سلطنت.

حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کی سلطنت

سلیمان علیہ السلام اللہ تعالٰی کے برگزیدہ نبی علیہ السلام تھے۔ سلیمان علیہ السلام داؤد علیہ السلام کے بیٹے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح اللہ تعالٰیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی بہت سے معجزے عطا کررکھے تھے۔ آپ جانوروں کی بولیاں سمجھ لیتے تھے، ہوا پر آپ کا قابو تھا۔ آپ کا تخت ہوا میں اڑا کرتا تھا۔ صبح اور شام میں مختلف سمتوں کا ایک ایک ماہ کا فاصلہ طے کر لیا کرتے تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ آپ کی حکومت صرف انسانوں پر ہی نہ تھی، بلکہ جن بھی آپ کے تابع تھے۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے مسجد اقصی اور بیت المقدس کی تعمیر شروع کی جنات دور دور سے پتھر اور سمندر سے موتی نکال نکال کر لایا کرتے تھے۔ ان میں کچھ عمارتیں آج تک موجود ہیں۔اور باقیوں کو یہودی ڈھونڈنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے جنوں سے اور بھی بہت سے کام لیے۔

تفسیر صاوی میں ہےکہ پوری دنیا کی بادشاہی صرف چار ہی شخصوں کو ملی جن میں سے دو مومن تھے اور دو کافر۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت ذوالقرنین تو صاحبان ایمان تھے اور نمرودو بخت نصر یہ دونوں کافر تھے۔
اور حضرت سلیمان علیہ السلام جیسے بادشاہت نہ کسی کو ملی اور نہ آئندہ کسی کو ملے گی۔ (مفہوم قرآن)

حضرت سلیمان علیہ السلام کی ننانوے بیویاں تھیں۔ ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ میں رات بھر اپنی ننانوے بیویوں کے پاس دورہ کروں گا اور سب کے ایک ایک لڑکا پیدا ہو گا تو میرے یہ سب لڑ کے اللہ کی ر ا ہ میں گھوڑو ں پر سو ا ر ہو کر جہا د کریں گے ۔ مگر یہ فر ما تے و قت آپ نے ان شاء اللہ نہیں کہا۔ غالباً آپ اس وقت کسی ایسے شغل میں تھے کہ اس کا خیال نہ رہا۔ اس ''ان شاء اللہ ''کو چھوڑ دینے کا یہ اثر ہوا کہ صرف ایک عورت حاملہ ہوئی اور اُس کے بھی ایک ناقص الخلقت (کچا بچہ)ہوا۔ حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ''ان شاء اللہ ''کہہ دیا ہوتا تو ان سب عورتوں کے لڑکے پیدا ہوتے اور وہ خدا کی راہ میں جہاد کرتے۔
(بخاری شریف، کتاب الجہاد، باب من طلب الولد للجہاد، ج۴،ص ۲۲، رقم ۲۸۱۹ )

ملکہ سبا نے آپ کے ہاتھ پر ہی قبول اسلام کیا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک خاص معجزہ ا ور اُن کی سلطنت کا ایک خصوصی امتیاز یہ ہے کہ ان کے زیرِ نگین صرف انسان ہی نہیں تھے بلکہ جن اور حیوانات بھی تابع فرمان تھے اور سب آپ کے حاکمانہ اقتدار کے زیرِ حکم تھے اور یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک مرتبہ دربار ِ خداوندی (عزوجل)میں یہ دعا کی تھی کہ:
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِیۡ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الْوَہَّابُ ﴿35﴾

ترجمہ قرآن :۔اے میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا کر کہ میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی ہے بڑی دین والا۔(پ23،صۤ:35)
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا مقبول فرمالی اور آپ کو ایسی عجیب و غریب حکومت اور بادشاہی عطا فرمائی کہ نہ آپ سے پہلے کسی کو ملی، نہ آپ کے بعد کسی کو میسر ہوئی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ گزشتہ رات ایک سرکش جن نے یہ کوشش کی کہ میری نماز میں خلل ڈالے تو خداوند تعالیٰ نے مجھ کو اس پر قابو دے دیا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اس کو مسجد کے ستون سے باندھ دوں تاکہ تم سب دن میں اس کو دیکھ سکو۔ مگر اس وقت مجھ کو اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام)کی یہ دعا یاد آگئی کہ وَہَبْ لِیۡ مُلْکًا لَّا یَنۡۢبَغِیۡ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِیۡ... الخ یہ یاد آتے ہی میں نے اس کو چھوڑ دیا۔
(بخاری شریف، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا لداؤد سلیمن الخ، ج۱،ص ۴۸۷،۴۸۶۔ فتح الباری، کتاب الانبیاء، باب قول اللہ عزوجل ووھبنا الخ، رقم الحدیث ۳۴۲۳، ج۶، ص ۵۶۶)

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ خداوند تعالیٰ نے تمام انبیاء و رسل کے خصائص و معجزات و خصوصی امتیازات و کمالات مجھ میں جمع فرما دیئے ہیں اس لئے قوم جن کی تسخیر پر بھی مجھ کو قدرت حاصل ہے لیکن چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس اختصاص کو اپنا خصوصی طغراء امتیاز قرار دیا ہے اس لئے میں نے اس سلسلہ کا مظاہرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔

ہوا پر حکومت
حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ بھی ایک خاص معجزہ اور آپ کی نبوت کا خصوصی امتیاز تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ''ہوا'' کو ان کے حق میں مسخر کردیا تھا اور وہ ان کے زیرِ فرمان کردی گئی تھی۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام جب چاہتے تو صبح کو ایک مہینے کی مسافت اور شام کو ایک مہینے کی مسافت کی مقدار ہوا کے دوش پر سفر کرلیتے تھے۔
قرآن کریم نے آپ کے اس معجزے کے متعلق تین باتیں بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ ہوا کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے حق میں مسخر کردیا۔ دوسرے یہ کہ ہوا ان کے حکم کے اس طرح تابع تھی کہ شدید تیز و تند ہونے کے باوجود ان کے حکم سے نرم اور آہستہ روی کے باعث راحت ہوجاتی تھی، تیسری بات یہ کہ ہوا کی نرم رفتاری کے باوجود اس کی تیز رفتاری کا یہ عالم تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے صبح و شام کا جدا جدا سفر ایک شہ سوار کے مسلسل ایک ماہ کی رفتار کے برابر تھا گویا حضرت سلیمان علیہ السلام کا تخت انجن اور مشین جیسے ظاہری اسباب سے بالاتر صرف ان کے حکم سے ایک بہت تیز رفتار ہوائی جہاز سے بھی زیادہ تیز مگر سبک روی کے ساتھ ہوا کے کاندھے پر اُڑا چلا جاتا تھا۔

اس مقام پر تختِ سلیمان اور آپ کے سفر کے متعلق جو تفصیلات سیرت کی کتابوں اور تفسیروں میں منقول ہیں ان میں بہت سے واقعات اسرائیلیات کا ذخیرہ ہیں جن کو بعض واعظین بیان کرتے ہیں مگر وہ قابل اعتبار نہیں اور ان پر بہت سے اعتراضات بھی وارد ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس واقعہ کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا ہے کہ:
ترجمہ :۔اور سلیمان کے لئے تیز ہوا مسخر کردی کہ اس کے حکم سے چلتی اس زمین کی طرف جس میں ہم نے برکت رکھی اور ہم کو ہر چیز معلوم ہے۔ (پ17،الانبیاء:81)
اور سورہ سبا میں یہ ارشاد فرمایا کہ: (پ22،سبا:12)
ترجمہ :۔اور سلیمان کے بس میں ہوا کردی اس کی صبح کی منزل ایک مہینہ کی راہ اور شام کی منزل ایک مہینہ کی راہ۔
اور سورہ ص ۤ میں فرمایا کہ:۔تو ہم نے ہوا اس کے بس میں کردی کہ اس کے حکم سے نرم نرم چلتی جہاں وہ چاہتا۔(پ23،صۤ:36)

تانبے کے چشمے
حضرت سلیمان علیہ السلام چونکہ عظیم الشان عمارتوں اور پرشوکت قلعوں کی تعمیر کے بہت شائق تھے اس لئے ضرورت تھی کہ گارے اور چونے کے بجائے پگھلی ہوئی دھات گارے کی جگہ استعمال کی جائے لیکن اس قدر کثیر مقدار میں یہ کیسے میسر آئے یہ سوال تھا جس کا حل حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اس مشکل کو اس طرح حل کردیا کہ ان کو پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے عطا فرمائے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حسب ِ ضرورت حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے تانبے کو پگھلا دیتا تھا اور یہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے لئے ایک خاص نشان اور ان کا معجزہ تھا آپ سے پہلے کوئی شخص دھات کو پگھلانا نہیں جانتا تھا۔ (تذکرۃ الانبیاء،ص۳۷۷،پ۲۲، سبا :۱۲)

اور نجار کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ انعام فرمایا کہ زمین کے جن حصوں میں آتشی مادوں کی وجہ سے تانبا پانی کی طرح پگھل کر بہہ رہا تھا ان چشموں کو حضرت سلیمان علیہ السلام پر آشکارا فرمایا۔ آپ سے پہلے کوئی شخص بھی زمین کے اندر دھات کے چشموں سے آگاہ نہ تھا۔ چنانچہ ابن کثیر بروایت قتادہ ناقل ہیں کہ پگھلے ہوئے تانبے کے چشمے یمن میں تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر ظاہر فرما دیا۔ (البدایہ والنہایہ، ج ۲،ص ۲۸)

قرآن مجید نے اس قسم کی کوئی تفصیل نہیں بیان فرمائی ہے کہ تانبے کے چشمے کس شکل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملے مگر قرآن کی جس آیت میں اس معجزہ کا ذکر ہے مذکورہ بالا دونوں توجیہات اس آیت کا مصداق بن سکتی ہیں۔ اور وہ آیت یہ ہے:ترجمہ :۔ اور ہم نے اس کے لئے پگھلے ہوئے تانبے کا چشمہ بہایا۔(پ22،سبا:12)

حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات بھی بے مثال تھی۔ اس کا مکمل تذکرہ الگ پوسٹ میں ہوگا۔ شکریہ
قصہ حضرت یونس علیہ السلام

حضرت یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شہر ''نینویٰ''کے باشندوں کی ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھیجا تھا۔

نینویٰ شہر:۔یہ موصل کے علاقہ کا ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ بت پرستی کرتے تھے اور کفر و شرک میں مبتلا تھے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا۔ مگر ان لوگوں نے اپنی سرکشی کی وجہ سے اللہ عزوجل کے رسول علیہ السلام کو جھٹلادیا اور ایمان لانے سے انکار کردیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے انہیں خبر دی کہ تم لوگوں پر عنقریب عذاب آنے والا ہے۔

یہ سن کر شہر کے لوگوں نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ حضرت یونس علیہ السلام نے کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہی ہے۔ اس لئے یہ دیکھو کہ اگر وہ رات کو اس شہر میں رہیں جب تو سمجھ لو کہ کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر انہوں نے اس شہر میں رات نہ گزاری تو یقین کرلینا چاہے کہ ضرور عذاب آئے گا۔ رات کو لوگوں نے یہ دیکھا کہ حضرت یونس علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ اور واقعی صبح ہوتے ہی عذاب کے آثار نظر آنے لگے کہ چاروں طرف سے کالی بدلیاں نمودار ہوئیں اور ہر طرف سے دھواں اٹھ کر شہر پر چھا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر شہر کے باشندوں کو یقین ہو گیا کہ عذاب آنے والا ہی ہے تو لوگوں کو حضرت یونس علیہ السلام کی تلاش و جستجو ہوئی مگر وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ اب شہر والوں کو اور زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہو گیا۔ چنانچہ شہر کے تمام لوگ خوف ِ خداوندی عزوجل سے ڈر کر کانپ اٹھے اور سب کے سب عورتوں، بچوں بلکہ اپنے مویشیوں کو ساتھ لے کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر روتے ہوئے جنگل میں نکل گئے اور رو رو کر صدقِ دل سے حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اقرار و اعلان کرنے لگے۔ شوہر بیوی سے اور مائیں بچوں سے الگ ہو کر سب کے سب استغفار میں مشغول ہو گئے اور دربارِ باری میں گڑگڑا کر گریہ و زاری شروع کردی۔ جو مظالم آپس میں ہوئے تھے ایک دوسرے سے معاف کرانے لگے اور جتنی حق تلفیاں ہوئی تھیں سب کی آپس میں معافی تلافی کرنے لگے۔ غرض سچی توبہ کر کے خدا عزوجل سے یہ عہد کرلیا کہ حضرت یونس علیہ السلام جو کچھ خدا کا پیغام لائے ہیں ہم اس پر صدقِ دل سے ایمان لائے، اللہ تعالیٰ کو شہر والوں کی بے قراری اور مخلصانہ گریہ و زاری پر رحم آیا اور عذاب اٹھا لیا گیا۔ ناگہاں دھواں اور عذاب کی بدلیاں رفع ہو گئیں اور تمام لوگ پھر شہر میں آکر امن و چین کے ساتھ رہنے لگے۔
اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے خداوند قدوس نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ:۔
ترجمہ:۔تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہیں برتنے دیا۔ (پ۱۱،یونس:۹۸)

مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا ہے تو عذاب آجانے کے بعد ایمان لانا مفید نہیں ہوتا مگر حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی بدلیاں آجانے کے بعد بھی جب وہ لوگ ایمان لائے تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔

عذاب ٹلنے کی دعا:۔طبرانی شریف کی روایت ہے کہ شہر نینویٰ پر جب عذاب کے آثار ظاہر ہونے لگے اور حضرت یونس علیہ السلام باجود تلاش و جستجو کے لوگوں کو نہیں ملے تو شہر والے گھبرا کر اپنے ایک عالم کے پاس گئے جو صاحب ِ ایمان اور شیخِ وقت تھے اور ان سے فریاد کرنے لگے تو انہوں نے حکم دیا کہ تم لوگ یہ وظیفہ پڑھ کر دعا مانگو یَاحَیُّ حِیْنَ لاَ حَیَّ و َیَاحَیُّ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَاحَیُّ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ چنانچہ لوگوں نے یہ پڑھ کر دعا مانگی تو عذاب ٹل گیا۔ لیکن مشہور محدث اور صاحب ِ کرامت ولی حضرت فضیل بن عیاض علیہ الرحمۃ کا قول ہے کہ شہر نینویٰ کا عذاب جس دعا کی برکت سے دفع ہوا وہ دعا یہ تھی کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّ ذُنُوْبَنَا قَدْ عَظُمَتْ وَجَلَّتْ وَاَنْتَ اَعْظَمُ وَاَجَلُّ فَافْعَلْ بِنَا مَا اَنْتَ اَھْلُہٗ وَلاَ تَفْعَلْ بِنَا مَانَحْنُ اَھْلُہٗ بہرحال عذاب ٹل جانے کے بعد جب حضرت یونس علیہ السلام شہر کے قریب آئے تو آپ نے شہر میں عذاب کا کوئی اثر نہیں دیکھا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ اپنی قوم میں تشریف لے جایئے۔ تو آپ نے فرمایا کہ کس طرح اپنی قوم میں جا سکتا ہوں؟ میں تو ان لوگوں کو عذاب کی خبر دے کر شہر سے نکل گیا تھا، مگر عذاب نہیں آیا۔ تو اب وہ لوگ مجھے جھوٹا سمجھ کر قتل کردیں گے۔
آپ یہ فرما کر حیرت سے شہر سے پلٹ آئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے یہ کشتی جب بیچ سمندر میں پہنچی تو کھڑی ہو گئی۔ وہاں کے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ وہی کشتی سمندر میں کھڑی ہو جایا کرتی تھی جس کشتی میں کوئی بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کشتی والوں نے قرعہ نکالا تو حضرت یونس علیہ السلام کے نام کا قرعہ نکلا۔ تو کشتی والوں نے آپ کو سمندر میں پھینک دیا اور کشتی لے کر روانہ ہو گئے اور فوراً ہی ایک مچھلی نے اللہ کے حکم سے آپ کو نگل لیا اور آپ مچھلی کے پیٹ میں جہاں بالکل اندھیرا تھا قید ہو گئے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یونس علیہ السلام اس مچھلی کے پیٹ میں چالیس روز رہے یہ ان کو زمین کی تہ تک لے جاتی اور دور دراز کی مسافتوں میں پھراتی رہی ، بعض حضرات نے سات، بعض نے پانچ دن اور بعض نے ایک دن کے چند گھنٹے مچھلی کےپیٹ میں رہنے کی مدت بتلائی ہے (مظہری)

مگر ا سی حالت میں آپ نے آیت کریمہ لَآ اِلٰہَ اِلآَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo(پ۱۷،الانبیاء:۸۷) کا وظیفہ پڑھنا شروع کردیا تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اندھیری کوٹھڑی سے نجات دی اور مچھلی نے کنارے پر آکر آپ کو اُگل دیا۔ اس وقت آپ بہت ہی نحیف و کمزور ہوچکے تھے۔ خدا عزوجل کی شان کہ اُس جگہ کدو کی ایک بیل اُگ گئی اور آپ اُس کے سایہ میں آرام کرتے رہے پھر جب آپ میں کچھ توانائی آگئی تو آپ اپنی قوم میں تشریف لائے اور سب لوگ انتہائی محبت و احترام کے ساتھ پیش آ کر آپ پر ایمان لائے۔
(تفسیر الصاوی،ج۳،ص۸۹۳،پ۱۱، یونس:۹۸)

حضرت یونس علیہ السلام کی اس دردناک سرگزشت کو قرآن کریم نے ان لفظوں میں بیان فرمایا ہے:۔

ترجمہ:۔اور بیشک یونس پیغمبروں سے ہے جب کہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا تو قرعہ ڈالا تو دھکیلے ہوؤں میں ہوا پھر اسے مچھلی نے نگل لیا اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے پھر ہم نے اسے میدان پر ڈال دیا اور وہ بیمار تھا اور ہم نے اس پر کدو کا پیڑ اُگایا اور ہم نے اسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا ۔ اور ا ن میں زیادہ تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک برتنے دیا۔(پ23،الصافات:139تا148)

نوٹ :۔حضرت یونس علیہ السلام کی دل ہلا دینے والی مصیبت اور مشکلات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو کس کس طرح امتحان میں ڈالتا ہے۔ لیکن جب بندے امتحان میں پڑ کر صبر وا ستقامت کا دامن نہیں چھوڑتے اور عین بلاؤں کے طوفان میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تو ارحم الرٰحمین اپنے بندوں کی نجات کا غیب سے ایسا انتظام فرما دیتا ہے کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا۔ غور کیجئے کہ حضرت یونس علیہ السلام کو جب کشتی والوں نے سمندر میں پھینک دیا تو ان کی زندگی اور سلامتی کا کون سا ذریعہ باقی رہ گیا تھا؟ پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا تو اب بھلا ان کی حیات کا کون سا سہارا رہ گیا تھا؟ مگر اسی حالت میں آپ نے جب آیت کریمہ کا وظیفہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ و سلامت رکھا اور مچھلی کے پیٹ سے انہیں ایک میدان میں پہنچا دیا اور پھر انہیں تندرستی و سلامتی کے ساتھ اُن کی قوم اور وطن میں پہنچا دیا۔ اور ان کی تبلیغ کی بدولت ایک لاکھ سے زائد آدمیوں کو ہدایت مل گئی۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ توبہ استغفار سے عذابات اور بلائیں بھی ٹل جاتی ہیں۔ جیسے شہر نینویٰ کے لوگوں کے توبہ وا استغفار سے عذاب الہی ٹل گیا۔

اندھیری رات کے مسافر.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 56.
عاتکہ بدریہ کے گھر پر_______چند ثانیے ڈوبتے دل کے ساتھ عثمان کی طرف دیکھنے کے بعد بولی
سعید کہاں ہے؟ "
سلمان نے کہا"-
زخمی ہونے کے بعد اس کو غرناطہ کے قریب بستی میں چھپا دیا گیا تھا-
وہ اس وقت نہایت قابل اعتماد لوگوں کی پناہ میں ہے اور میں آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ وہ بے ہوشی کی حالت میں بار بار آپ کو یاد کر رہا ہے"-
آپ مجھے اس کے پاس پہنچا دیں گے؟ "
ہاں لیکن یہاں سے نکلتے ہوئے تمہیں کافی احتیاط سے کام لینا پڑے گا-
حامد بن زہرہ کے قاتل اس کے بیٹے کو تلاش کر رہے ہیں اگر آپ کے پیچھے پیچھے کوئی سعید کی رہائش گاہ تک پہنچ گیا تو پھر اس محفوظ رہنا مشکل ہو جائے گا-
وہ شاید کئی اور دن سفر کے قابل نہیں ہے-
آپ میرے گھوڑے پر سوار ہو جائیں ہمیں کسی تاخیر کے بغیر وہاں پہنچنے کی کوشش کرنی چاہیے! "
اور آپ عاتکہ نے سوال کیا؟ "
میں پیدل چل سکتا ہوں"-
نہیں آپ کو پیدل چلنے کی ضرورت نہیں ہے ہمارے اصطبل میں ابھی بھی تین گھوڑے بندے ہوئے ہیں-
آپ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر جائیں اور ندی سے آگے میرا انتظار کریں-
میں بہت جلد وہاں پہنچ جاؤں گی"-
سلمان نے کہا کہ سعید غرناطہ کے راستے میں ایک بستی میں موجود ہے لیکن آپ اپنے گھر میں کسی پر ظاہر نہیں کرنا کہ آپ کس طرف جا رہی ہیں-
عاتکہ نے کہا اس صورت میں ہمارا ایک ساتھ یہاں سے نکلنا ٹھیک نہیں ہے اگر راستے میں مجھے آپ کے ساتھ کسی نے دیکھ لیا تو ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہو گا کہ میں کہاں جا رہی ہوں-
آپ نے راستے میں ایک اجڑا ہوا قلعہ دیکھا ہے؟ "
ہاں! ____!ہاں! !"
تو آپ اس قلعے میں پہنچ کر میرا انتظار کریں میں عام راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے سے آوں گی-
یہ راستہ کافی طویل اور دشوار گزار ہے-
اس لئے اگر مجھے کچھ دیر ہو جائے تو آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے"-
سلمان نے کہا اگر میں وہاں تک کسی وجہ سے نہ پہنچ سکا تو آپ کو وہاں رکنے کی ضرورت نہیں ہے-
قلعے کے آگے غرناطہ کی سڑک ایک بستی کے درمیان سے گزرتی ہے-
وہاں سڑک کے بائیں کنارے آپ کو ایک مسجد دکھائی دے گی جہاں سے چند قدم آگے دائیں ہاتھ بستی کے سردار کا مکان ہے جہاں سعید ٹھہرا ہوا ہے-
آپ بلا جھجک اندر چلی جائیں-
گھر کے مکین آپ کے منتظر ہوں گے اور آپ کو یہ بتانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ آپ کون ہیں! "
میں باہر سے وہ مکان دیکھ چکی ہوں آپ کو تفصیلات بیان کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے آپ نے زبیدہ کو بتا دیا ہے کہ سعید وہاں ہے؟ "
نہیں میں نے صرف اسے یہ بتایا ہے کہ میں عاتکہ کے لیے ایک ضروری پیغام لایا ہوں"-
عاتکہ نے کہا"_________اب میں محسوس کرنے لگی ہوں کہ سعید کو تلاش کرنے والے یہاں ضرور آئیں گے-
اس لیے میں نے زبیدہ کو اچھی طرح سمجھا دیا ہے کہ اگر کوئی پوچھے تو کہہ دے کہ ایک اجنبی عاتکہ کے لیے کوئی خفیہ پیغام لایا تھا سعید کے متعلق اور اب وہ دونوں جنوب کی طرف چلے گئے ہیں! "
یہ کہہ کر عاتکہ تو اسی وقت گھوڑے پر سوار ہو کر چلی گئی مگر جب سلمان اپنے گھوڑے کی طرف بڑھا تو زبیدہ اور منصور بھاگ کر اس کے قریب آئے"-
آپ مجھ سے کوئی بات چھپا رہے ہو زبیدہ نے شکایت آمیز لہجے میں کہا"
سلمان نے کہا کہ میری احتیاط کی یہ وجہ نہیں ہے کہ مجھے آپ پر اعتماد نہیں ہے جب جعفر آئے گا تو آپ کو ساری بات بتا دے گا"-
میں سعید اور اس کے والد کے متعلق پوچھنا چاہتی ہوں وہ بخیریت ہیں نا؟ "
ان سے میری ملاقات نہیں ہو سکی"-
لیکن آپ تو کہہ رہے ہیں کہ عاتکہ کے لیے سعید کا پیغام لائے ہیں؟ "
یہ پیغام مجھے کسی اور آدمی کے ذریعے ملا تھا-
جعفر آج یا کل یہاں پہنچ جائے گا______میں آپ کو صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ سعید غرناطہ میں نہیں ہے-
وہ کہیں روپوش ہو گیا ہے انہیں گاؤں میں ہاشم کی طرف سے خطرہ تھا-
اس لئے وہ یہاں نہیں آ سکا-
اب اگر ہاشم یا اس کے ساتھی یہاں آپ کو سعید کے متعلق پوچھیں تو آپ صرف اتنا بتا دینا کہ ایک اجنبی عاتکہ کو اس کی طرف سے پیغام دے گیا ہے کہ سعید جنوب کا رخ کر رہا ہے"-
زبیدہ نے کہا اگر ہاشم اس کا دشمن بن چکا ہے تو میں اسے کیسے بتا سکتی ہوں کہ وہ کس طرف گیا ہے-
سلمان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ہو سکتا ہے وہ کسی اور طرف گیا ہو'"
اور ہم اس کو تلاش کرنے والوں کو الفجارہ کے راستے پر ڈال کر اس کی مدد کر سکیں.
میں آپ کو ساری بات نہیں بتا سکتا سردست اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ آپ اس کے دشمنوں کو الفجارہ کی طرف متوجہ کر کے ایک اہم خدمت سر انجام دے سکتی ہیں"-
آپ کو یقین ہے کہ ہاشم ان کا دشمن بن چکا ہے"-
ہمیں بہت جلد معلوم ہو جائے گا! "
سلمان یہ کہہ کر گھوڑے پر سوار ہو گیا اور زبیدہ کو کچھ اور کہنے کا حوصلہ نہیں ہوا"-
منصور! "
سلمان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تمہیں پریشان ہونے کی صورت نہیں ہے ہو سکتا ہے تمہارے ماموں تمہیں اپنے پاس بلا لیں"-
آپ واپس آئیں گے؟ "
ان شاءالله میں ضرور آؤں گا اللہ حافظ یہ کہہ کر سلمان نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی-
____________○_____________
عاتکہ نے ایک تنگ اور دشوار گزار راستے کا لمبا چکر کاٹنے کے بعد وہ گہری کهڈ عبور کی جس کا دوسرا کنارا اجڑے ہوئے قلعہ کی جنوبی دیوار سے جا ملتا تھا-
وہ تلوار کمان اور ترکش سے مسلح ہوکر آئی تھی-
جب وہ سڑک سے چند قدم دور تھی تو سلمان تیزی سے موڑ مڑتا ہوا دکھائی دیا-
اس نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے آواز دی جلدی آئیے! "
عاتکہ نے تھکے ہوئے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور آن کی آن میں اس کے قریب پہنچ گئی-
سلمان نے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور تیزی سے شکستہ دروازے سے قلعے کے اندر داخل ہوا-
عاتکہ نے سہمی ہوئی آواز میں کہا کیا ہوا اور آپ کا گھوڑا کہاں ہے؟ "
سلمان نے قلعے کے دوسرے کونے کے قریب رکتے ہوئے جواب دیا"-
چند سوار اس طرف آ رہے ہیں-
میں انہیں اگلی پہاڑی سے اترتے ہوئے دیکھ چکا ہوں آپ جلدی سے اس برج پر پہنچ جائیں"-
عاتکہ گھوڑے سے کود پڑی اور بھاگتی ہوئی برج کی سیڑھی کی طرف بڑھی-
سلمان نے اس کا گھوڑا قریب ہی ایک کوٹھری کے اندر اپنے گھوڑے کے ساتھ باندھ دیا"-
اپنے تھیلے سے طپنچہ نکالا اور بھاگتے ہوئے برج کے
زینے کی طرف بڑھا-
عاتکہ ایک دریچے سے سر باہر نکال کر باہر جھانک رہی تھی-
سلمان کے قدموں کی آہٹ سن کر اس کی طرف متوجہ ہوئی"-
ان کی تعداد آٹھ ہے اور وہ پل کے قریب پہنچ چکے ہیں ممکن ہے وہ قلعے کی تلاشی لینے کی کوشش کریں"-
سلمان نے کہا آپ پریشان نہ ہوں-
اگر ان کے پیچھے کوئی لشکر نہیں آ رہا تو یہ آٹھ آدمی ہمارے لئے کسی خطرے کا باعث نہیں بن سکتے"-
عاتکہ نے اپنے ترکش سے تیر نکال کر کمان میں جوڑتے ہوئے کہا"-
مجھے صرف یہ پریشانی ہے کہ اگر ان میں سے کوئی باہر رک گیا تو اسے بھاگنے کا موقع مل جائے گا"-
آپ فکر نہ کریں ہم اس برج سے اس کا راستہ روک لیں گے لیکن آپ بلاوجہ تیر نہ چلا دیں"-
عاتکہ نے دریچے سے جھانکتے ہوئے کہا آپ فکر نہ کریں"-
تھوڑی دیر بعد سوار پل عبور کرنے کے بعد اس کی نظروں سے چھپ گئے تو عاتکہ برج کے دوسرے کونے کے دریچے کی طرف بڑھی"-
اور وہاں سے گھاٹی موڑ کو دیکھنے لگی.
سوار کوئی دوسو گز کے فاصلے پر تھے کہ سلمان نے قدرے مضطرب ہو کر کہا آپ پیچھے ہٹ جائیں ایسا نہ ہو وہ آپ کو دیکھ لیں"-
عاتکہ نے ایک قدم پیچھے ہٹا کر اس کی طرف دیکھا اور کہا شاید یہ وہی لوگ ہوں"-
وہی لوگ کون؟ "
سلمان نے پوچھا"-
عمیر اور اس کے ساتھی! "
اگر عمیر ان کے ساتھ ہوا تو مجھے یقین ہے کہ وہ سعید کی تلاش میں سیدھے آپ کے گاؤں جائیں گے"-
وہ تھوڑی دیر ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے پھر جب گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز قریب آئی تو عاتکہ دوبارہ دریچے کی طرف متوجہ ہوئی"-
اس نے ایک نظر سڑک پر ڈالی اور اچانک ترکش سے تیر نکال کر کمان پر چڑھا لیا لیکن عین اس وقت جب دریچے سے سر باہر نکال کر نشانہ لے رہی تھی سلمان نے اس کا کندھا پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا-
عاتکہ بے بسی اور غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگی-
معا آواز آئی کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم آگے سڑک پر جانے سے پہلے اس قلعے کی تلاشی لے لیں-"
دوسرے نے کہا وہ اتنا بیوقوف نہیں ہے اگر وہ اس طرف آیا ہے تو اپنے گاؤں سے پہلے کسی اور جگہ نہیں رکے گا جبکہ میرا خیال ہے کہ وہ وہاں سے بھی کوسوں دور جا چکا ہو گا"-
عاتکہ سلمان کا ہاتھ جھٹک کر دوسرے دریچے. .....جاری ہے

ہماری خلافت

ھماری خلافت -

خلافت اصلاً نبئ کریم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسول یعنی نبی کریم ﷺ کے بعد آنے والا امیر کے لفظ سے مأخوذ ھے - اس لئے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسولﷺ کہا گیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ تو ابوبکرؓ تھے ،میں تو ابوبکرؓ کا خلیفہ ھوں یعنی " خلیفۃُ خلیفۃ الرسول" اور یہ لسٹ بہت طویل ھو جائے گی لہذا مجھ کو امیر کہا کرو، یوں امیر المومنین کی اصطلاح استعمال ھونا شروع ھو گئ ،

اس کے بعد آنے والا امیر المومنین ھی کہلاتے تھے ، خلافت کے لفظ کو بعد میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر ایکسپلائٹ کرنے کے لئے مقدس اصطلاح کے طور پر استعمال کیا گیا اگرچہ اس اصطلاح کو اگر 30 ھجری کے بعد والوں پر لاگو کر کے دیکھا جائے تو شاید یہ اس لفظ کی توھین بن جائے -

آج کل لوگ اس اصطلاح کو نہایت چالاکی کے ساتھ اسی استحصال کے لئے جمہوریت کے خلاف بطور متبادل استعمال فرماتے ھیں تا کہ تقدس کی نفسیات کو استعمال کرتے ھوئے مسلمانوں کو جذبات کو ابھارا جائے اور دودھ اور شھد کی نہروں کے سراب کے پیچھے لگا دیا جائے - یہ نام نہاد خلافت اپنے اچھے دور میں نبئ کریم ﷺ سے متصل زمانے میں کہ جس میں ابھی حدیثوں کی تدوین بھی نہیں ھوئی تھی ، فقہ بھی متعین نہیں ھوئی تھی کہ بڑے بخار میں مبتلا ھو کر مر گئ تھی ، اس کے بعد اس کی لاش کو استعمال کیا جاتا رھا ،

کسی کے عیب کو چھپانے کے لئے اس بات کو دلیل بنانا کہ اس نے کتنا علاقہ فتح کیا بالکل ایسے ھی ھے کہ ایک شخص کسی کی بیوی کو ناجائز طور بھگا کر لے جائے ، اور جب اس پر انگلی اٹھائی جائے تو دلیل میں کہہ دیا جائے کہ جناب اس جوانمرد نے تو اس عورت کو 8 بیٹے جنوا دیئے ھیں جبکہ پہلے کے پاس تو ایک بھی پیدا نہیں ھوا تھا ،،

 ھمیں عدل و قسط پر کھڑے ھونے اور سیدھی اور سچی بات کہنے کا حکم اوپر سے دیا گیا ھے ، اور قیامت تک دیا گیا ھے ،مگر ھم میں بڑے بڑے سچ بولنے والے غوث ، قطب، ابدال اور ولی ، مفتی ، علامے اور اعلی حضرت کہتے ھیں کہ مسلمانوں کی فلاں خاص قسم کے بارے میں سچ بولنے پر پابندی ھے اور یہ پابندی نبئ کریم ﷺ نے لگائی ھے ، یہ الگ بات ھے کہ جن کے سامنے ،جن پر لگائی تھی انہوں نے ھی اس کی خلاف ورزی کی اور ان کو برا کہنے سے لے کر قتل کرنے کو بھی ثواب جانا ، اور اب ھمارے حلق سے بھی اتروایا جاتا ھے ، اجتہاد وھاں ھوتا ھے جہاں نص ختم ھوتی ھے ،کسی بھی انسان کا ناحق خون کرنا حرام کیا گیا ھے ،پھر میدانِ عرفات میں حجۃ الوداع کے موقعے پر صحابہؓ کو خاموش کروا کر جو بات سوال و جواب کی صورت میں ان سے کہلوائی گئ وہ کچھ یوں تھی کہ " یہ کونسا مہینہ ھے ؟ یہ کونسا دن ھے ؟ یہ کونسی جگہ ھے ؟ جس طرح یہ حرمت والا مہینہ ھے( جس میں قتال حرام ھے ) ، یہ حرمت والا دن ھے ( کہ جس میں جوں بھی مارنا حرام ھے کیونکہ تم لوگ احرام میں ھو ) اور جس طرح یہ عرفات کا موقف محترم ھے ، اسی طرح تم مسلمانوں کا خون اور مال ایک دوسرے پر حرام ھے اور حرمت کا حامل ھے ،، اب اس میں اجتہاد والی کوئی بات رہ نہیں جاتی -

اسامہ بن زید رضی اللہ عنھما نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے اس بارے میں اجتہاد فرمایا تھا کہ جو کافر میری تلوار سے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل ھوا اور جس نے قتل ھونے سے پہلے درجنوں صحابہؓ کو شھید کر دیا تھا کلمہ جان بچانے کے لئے جنگی چال کے طور پر پڑھا تھا کیونکہ وہ میری تلوار کے داؤ سے بچنے کی اور کوئی راہ نہیں پاتا تھا ،، تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کا اجتہاد مسترد کر کے فرمایا تھا کہ " تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ کیوں نہیں لیا تھا کہ اندر کلمہ ھے یا نہیں ؟ مجھے زبان پر اعتبار کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ھے ، تم نے اس کا کلمہ اپنے کانوں سے سن لیا تھا ؟ جی سن لیا تھا ،، پھر جب وہ کلمہ حشر میں استغاثہ لائے گا تو کیا کرو گے ؟ اے اللہ کے رسول ﷺ میرے لئے مغفرت کی دعا کر دیجئے ،،، کلمے کے خلاف ؟ اسامہ جب کلمہ آئے گا تو کیا جواب دو گے ، حضرت اسامہؓ بار بار مغفرت کی دعا کی درخوست کرتے رھے اور رسول اللہ ﷺ درخواست کو مسترد کرتے ھوئے ایک ھی سوال دہراتے رھے کہ اسامہؓ کلمہ ؟ اسامہ کلمہ ؟ اسامہ کلمہ " یہانتک کہ حضرت اسامہؓ فرماتے ھیں کہ مجھے شدید خواھش ھوئی کہ کاش میں آج مسلمان ھوتا اور میرے دامن پر یہ قتل کا داغ نہ لگتا -

بخاری شریف میں ھی ایک نہیں کئ احادیث ھیں کہ حوض کوثر پر کیا منظر ھو گا ،،

صحيح البخاري (256 هـ) ج4 ص142 كتاب أحاديث إلانبياء باب قوله تعالى و أذكر في الكتاب مريم

(3191) حدثنا محمد بن يوسف حدثنا سفيان عن المغيرة بن النعمان عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم تحشرون حفاة عراة غرلا ثم قرأ كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين فأول من يكسى إبراهيم ثم يؤخذ برجال من أصحابي ذات اليمين وذات الشمال فأقول أصحابي فيقال أنهم لم يزالوا مرتدين على أعقابهم منذر فارقتهم فأقول كما قال العبد الصالح عيسى بن مريم وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم وأنت على كل شيء شهيد أن تعذبهم فإنهم عبادك وان تعفر لهم فإنك أنت العزيز الحكيم
* قال محمد بن يوسف الفربري ذكر عن أبي عبد الله عن قبيصة قال هم المرتدون الذين ارتدوا على عهد أبى بكر فقاتلهم أبو بكر رضي الله عنه
_
صحيح البخاري (256 هـ) ج5 ص191 كتاب تفسير القرآن باب و كنت عليهم شهيدا

(4259) حدثنا أبو الوليد حدثنا شعبة أخبرنا المغيرة بن النعمان قال سمعت سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما قال خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا أيها الناس إنكم محشورون إلى الله حفاة عراة غرلا ثم قال كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين إلى آخر إلاية ثم قال إلا وان أول الخلائق يكسى يوم القيامة إبراهيم إلا وانه يجاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال فأقول يا رب أصحابي فيقال انك لا تدرى ما أحدثوا بعدك فأقول كما قال العبد الصالح وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم فيقال إن هؤلاء لم يزالوا مرتدين على أعقابهم منذ فارقتهم
__
صحيح البخاري (256 هـ) ج5 ص240 كتاب تفسير القرآن باب كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا

(4371)حدثنا سليمان بن حرب حدثنا شعبة عن المغيرة بن النعمان شيخ من النخع عن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما قال خطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال إنكم محشورون إلى الله حفاة عراة غرلا كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين ثم إن أول من يكسى يوم القيامة إبراهيم إلا انه يجاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال فأقول يا رب أصحابي فيقال لا تدرى ما أحدثوا بعدك فأقول كما قال العبد الصالح وكنت عليهم شهيدا ما دمت إلى قوله شهيد فيقال إن هؤلاء لم يزالوا مرتدين على أعقابهم منذ فارقتهم
___
 صحيح البخاري (256 هـ) ج7 ص195 كتاب الرقاق باب في الحوض باب كيف يحشر

(6045) حدثني محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة عن المغيرة بن النعمان عن سعيد بن جبير عن ابن عباس قال قام فينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب فقال إنكم محشورون حفاة عراة كما بدأنا أول خلق نعيده إلاية وان أول الخلائق يكسى يوم القيامة إبراهيم وانه سيجاء برجال من أمتي فيؤخذ بهم ذات الشمال فأقول يا رب أصحابي فيقول الله انك لا تدري ما أحدثوا بعدك فأقول كما قال العبد الصالح وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم إلى قوله الحكيم قال فيقال أنهم لم يزالوا مرتدين على أعقابهم
___

صحيح البخاري (256 هـ) ج 7 ص 207 كتاب الرقاق باب في الحوض

(6096) حدثنا مسلم ابن إبراهيم حدثنا وهيب حدثنا عبد العزيز عن أنس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ليردن على ناس من أصحابي الحوض حتى إذا عرفتهم اختلجوا دوني فأقول أصحابي فيقول لا تدري ما أحدثوا
___

صحيح البخاري (256 هـ) ج 7 ص 208 كتاب الرقاق باب في الحوض

(6097) بعدك حدثنا سعيد ابن أبي مريم حدثنا محمد بن مطرف حدثني أبو حازم عن سهل بن سعد قال قال النبي صلى الله عليه وسلم إني فرطكم على الحوض من مر على شرب ومن شرب لم يظمأ أبدا ليردن على أقوام أعرفهم ويعرفوني ثم يحال بيني وبينهم
قال أبو حازم فسمعني النعمان بن أبي عياش فقال هكذا سمعت من سهل فقلت نعم فقال اشهد على أبي سعيد الخدري لسمعته وهو يزيد فيها فأقول إنهم مني فيقال انك لا تدري ما أحدثوا بعدك فأقول سحقا سحقا لمن غير بعدي * وقال ابن عباس سحقا بعدا يقال سحيق بعيد سحقه واسحقه أبعده
وقال أحمد بن شبيب بن سعيد الحبطي حدثنا أبي عن يونس عن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب عن أبي هريرة انه كان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال يرد على يوم القيامة رهط من أصحابي فيجلون عن الحوض فأقول يا رب أصحابي فيقول انك لا علم لك بما أحدثوا بعدك إنهم ارتدوا على ادبارهم القهقري
____
صحيح البخاري (256 هـ) ج 7 ص 208 كتاب الرقاق باب في الحوض
(6098) حدثنا أحمد بن صالح حدثنا ابن وهب أخبرني يونس عن أبن شهاب عن ابن المسيب انه كان يحدث عن أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ان النبي صلى الله عليه وسلم قال يرد علي الحوض رجال من أصحابي فيحلؤون عنه فأقول يا رب أصحابي فيقول انك لا علم لك بما أحدثوا بعدك إنهم ارتدوا على أدبارهم القهقري
_______

صحيح البخاري (256 هـ) ج 7 ص 209 كتاب الرقاق باب في الحوض

(6099)‏حدثنا ‏إبراهيم بن المنذر الحزامي ‏حدثنا ‏محمد بن فليح ‏حدثنا ‏أبي ‏قال حدثني ‏هلال بن علي ‏عن ‏عطاء بن يسار ‏عن ‏أبي هريرة ‏عن النبي ‏صلى الله عليه وسلم ‏قال ‏بينا أنا قائم إذا زمرة حتى إذا عرفتهم خرج رجل من بيني وبينهم فقال هلم فقلت أين قال إلى النار والله قلت وما شأنهم قال إنهم ارتدوا بعدك على أدبارهم القهقرى ثم إذا زمرة حتى إذا عرفتهم خرج رجل من بيني وبينهم فقال هلم قلت أين قال إلى النار والله قلت ما شأنهم قال إنهم ارتدوا بعدك على أدبارهم القهقرى فلا أراه يخلص منهم إلا مثل همل النعم ‏
____
صحيح البخاري (256 هـ) ج7 ص209 كتاب الرقاق باب في الحوض

(6104)‏حدثنا ‏سعيد بن أبي مريم ‏عن ‏نافع بن عمر ‏قال حدثني ‏ابن أبي مليكة ‏عن ‏أسماء بنت أبي بكر ‏رضي الله عنهما ‏قالت ‏قال النبي ‏صلى الله عليه وسلم ‏إني على الحوض حتى أنظر من يرد علي منكم وسيؤخذ ناس دوني فأقول يا رب مني ومن أمتي فيقال هل شعرت ما عملوا بعدك والله ما برحوا يرجعون على أعقابهم ‏‏فكان
 ‏ابن أبي مليكة ‏يقول ‏اللهم إنا نعوذ بك أن نرجع على أعقابنا أو نفتن عن ديننا ‏أعقابكم تنكصون ‏ترجعون على العقب
____

صحيح البخاري (256 هـ) ج 8 ص 86 كتاب الفتن

(6526)ما جاء في قول الله تعالى واتقوا فتنة لا تصيبن الذين ظلموا منكم خاصة وما كان النبي صلى الله عليه وسلم يحذر من الفتن حدثنا علي بن عبد الله حدثنا بشر بن السري حدثنا نافع بن عمر عن ابن أبي مليكة قال قالت أسماء عن النبي صلى الله عليه وسلم قال انا على حوضي انتظر من يرد علي فيؤخذ بناس من دوني فأقول أمتي فيقول لا تدري مشوا على القهقري
قال ابن أبي مليكة اللهم نا نعوذ بك أن نرجع على أعقابنا أو نفتن
___

صحيح البخاري (256 هـ) ج 8 ص 86 كتاب الفتن

(6527)حدثنا موسى بن إسماعيل حدثنا أبو عوانة عن مغيرة عن أبي وائل قال قال عبد الله قال النبي صلى الله عليه وسلم أنا فرطكم على الحوض ليرفعن إلي رجال منكم حتى إذا أهويت لأناولهم اختلجوا دوني فأقول اي رب أصحابي فيقول لا تدري ما أحدثوا بعدك
___

صحيح البخاري (256 هـ) ج 8 ص 86 كتاب الفتن

(6528) حدثنا يحيى بن بكير حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن عن أبي حازم قال سمعت سهل بن سعد يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول أنا فرطكم على الحوض من ورده شرب منه ومن شرب منه لم يضمأ بعده أبدا ليرد علي أقوام أعرفهم ويعرفوني ثم يحال بيني وبينهم
___

صحيح مسلم (261 هـ) ج1 ص150 كتاب الطهارة باب استحباب الغرة و التحجيل في الوضوء

(367 ) حدثنا يحيى بن أيوب وسريح بن يونس وقتيبة بن سعيد وعلى ابن حجر جميعا عن إسماعيل بن جعفر قال ابن أيوب حدثنا إسماعيل اخبرني العلاء عن أبيه عن أبي هريرة إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى المقبرة فقال السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون وددت أنا قد رأينا إخواننا قالوا أو لسنا إخوانك يا رسول الله قال أنتم أصحابي وإخواننا الذين لم يأتوا بعد فقالوا كيف تعرف من لم يأت بعد من أمتك يا رسول الله فقال أرأيت لو أن رجلا له خيل غر محجلة بين ظهري خيل دهم بهم إلا يعرف خيله قالوا بلى يا رسول الله قال فإنهم يأتون غرا محجلين من الوضوء وأنا فرطهم على الحوض إلا ليذادن رجال عن حوضي كما يذاد البعير الضال أناديهم إلا هلم فيقال إنهم قد بدلوا بعدك فأقول سحقا سحقا
(حدثنا) قتيبة بن سعيد حدثنا عبد العزيز يعنى الداروردي ح وحدثني إسحاق بن موسى الأنصاري حدثنا معن حدثنا مالك جميعا عن العلاء بن عبد الرحمن عن أبيه عن أبي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى المقبرة فقال السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون بمثل حديث إسماعيل بن جعفر غير أن حديث مالك فليذادن رجال عن حوضي
____

صحيح مسلم (261 هـ) الجزء7 صفحة65 كتاب الفضائل باب إثبات حوض نبينا و صفاته

(4243) حدثنا قتيبة ابن سعيد حدثنا يعقوب (يعنى ابن عبد الرحمن القاري) عن أبي حازم قال سمعت سهلا يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول أنا فرطكم على الحوض من ورد شرب ومن شرب لم يظمأ أبدا وليردن على أقوام أعرفهم ويعرفوني ثم يحال بيني وبينهم
قال أبو حازم فسمع النعمان بن أبي عياش وأنا أحدثهم هذا الحديث فقال هكذا سمعت سهلا يقول قال فقلت نعم قال وأنا اشهد على أبي سعيد الخدري لسمعته يزيد فيقول أنهم منى فيقال انك لا تدرى ما عملوا بعدك فأقول سحقا سحقا لمن بدل بعدي
____
صحيح مسلم (261 هـ) ج 7 ص 66 كتاب الفضائل باب إثبات حوض نبينا و صفاته


(4247) وحدثني يونس بن عبد الأعلى الصدفي أخبرنا عبد الله بن وهب اخبرني عمر (وهو ابن الحارث) أن بكيرا حدثه عن القاسم بن عباس الهاشمي عن عبد الله بن رافع مولى أم سلمة عن أم سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم انها قالت كنت اسمع الناس يذكرون الحوض ولم اسمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما كان يوما من ذلك والجارية تمشطني فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أيها الناس فقلت للجارية استأجري عنى قالت إنما دعا الرجال ولم يدع النساء فقلت انى من الناس فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أنى لكم فرط على الحوض فإياي لا يأتين أحدكم فيذب عنى كما يذب البعير الضال فأقول فيم هذا فيقال انك لا تدرى ما أحدثوا بعدك فأقول سحقا
وحدثني أبو معن الرقاشي وأبو بكر بن نافع وعبد بن حميد قالوا حدثنا أبو عامر (وهو عبد الملك بن عمرو) حدثنا أفلح بن سعيد حدثنا عبد الله بن رافع قال كانت أم سلمة تحدث أنها سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول على المنبر وهي تمتشط أيها الناس فقالت لماشطتها كفي رأسي بنحو حديث بكير عن القاسم بن عباس
____

صحيح مسلم (261 هـ) الجزء7 صفحة66 كتاب الفضائل باب إثبات حوض نبينا و صفاته


(4250)حدثنا أبو بكر ابن أبي شيبة وأبو كريب وابن نمير قالوا حدثنا أبو معاوية عن الأعمش عن شقيق عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم انا فرطكم على الحوض ولأنازعن أقواما ثم لأغلبن عليهم فأقول يا رب أصحابي أصحابي فيقال انك لا تدرى ما أحدثوا بعدك
وحدثناه عثمان بن أبي شيبة وإسحاق ابن إبراهيم عن جرير عن الأعمش بهذا الإسناد ولم يذكر أصحابي أصحابي حدثنا عثمان بن أبي شيبة وإسحاق بن إبراهيم كلاهما عن جرير ح وحدثنا ابن المثنى حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة جميعا عن مغيرة عن أبي وائل عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحو حديث الأعمش وفى حديث شعبة عن مغيرة سمعت أبا وائل ( وحدثناه ) سعيد بن عمرو الأشعثي أخبرنا عبثر ح وحدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا ابن فضيل كلاهما عن حصين عن أبي وائل عن حذيفة عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو حديث الأعمش ومغيرة
___
صحيح مسلم (261 هـ) الجزء7 صفحة70
(4259) وحدثني محمد بن حاتم حدثنا عفان بن مسلم الصفار حدثنا وهيب قال سمعت عبد العزيز بن صهيب يحدث قال حدثنا انس بن مالك أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ليردن علي الحوض رجال ممن صاحبني حتى إذا رأيتهم ورفعوا إلي اختلجوا دوني فلأقولن أي رب أصحابي أصحابي فليقالن لي انك لا تدرى ما أحدثوا بعدك (وحدثنا) أبو بكر بن أبي شيبة وعلي بن حجر قالا حدثنا علي بن مسهر ح وحدثنا أبو كريب حدثنا ابن فضيل جميعا عن المختار بن فلفل عن انس عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا المعنى وزاد آنيته عدد النجوم،،

ان تمام احادیث کا لب لباب یہی ھے کہ کچھ لوگ جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں موجود تھے ، جن کو رسول اللہ ﷺ پہچانتے تھے اور جو رسول اللہ ﷺ کو پہچانتے تھے ، جن کو چہروں سے پہچان کر رسول اللہ ﷺ استقبال کرنا چاہتے ھوں گے کہ فرشتے ان کو پکڑ کر حوض سے الگ لے جائیں گے جس پر رسول اللہ ﷺ فرشتوں سے کہیں گے کہ یہ میرے اصحاب ھیں اور میری امت میں سے ھیں اور یہ حوض میری امت کے لئے ھے پھر ان کو مجھ سے الگ کرنے کی وجہ کیا ھے ؟
جس پر فرشتے جواب دیں گے کہ آپ ﷺ نہیں جانتے کہ انہوں نے " آپﷺ کے بعد" کیا کچھ کیا تھا ، انہوں نے نئے کام کیئے تھے ، ایڑھیوں کے بل پھر کر مرتد ھو گئے تھے ،،

کہا جاتا ھے کہ یہ وہ لوگ ھیں جو مسیلمہ کذاب پر ایمان لائے تھے مگر یہ تو تاویل ھے جو کوئی مان لیتا ھے کوئی نہیں مانتا خاص طور پر بخاری شریف کی مندرجہ ذیل احادیث کی موجودگی میں ،،


1- حديثُ جَريرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم قَالَ لَهُ في حَجَّةِ الْوَداعِ: (اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، فَقالَ: لا تَرْجِعُوا بَعْدي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقابَ بَعْضٍ). متفق عليه.

2- حديثُ ابْنِ عُمَرَ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: (وَيْلَكُمْ أَوْ وَيْحَكُمْ، لا تَرْجِعُوا بَعْدي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقابَ بَعْضٍ). متفق عليه.

حضرت جریرؓ فرماتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع والے دن ان کو حکم دیا کہ لوگوں کو خاموش کراؤ ،، پھر فرمایا کہ میرے بعد کافر مت ھو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے پھرو ،، متفق علیہ

ابن عمرؓ روایت کرتے ھیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ خبردار میرے بعد پلٹ کر کافر مت ھو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنا شروع کر دو ،، متفق علیہ

اتنے واضح احکامات کے بعد بھی صحابہؓ کے آپس میں قتال کی کوئی بھی اجتہادی وجہ نہیں بنتی ، خاص طور پر جب عقل و درایت اس کا جواب دینے سے عاجز ھو اور سوال اٹھانے والے کو شٹ اپ کہا جائے اور اس پر کفر کے فتوے لگا کر جان سے مارے جانے کے ڈراوے دیئے جاتے ھوں ، یہ سب بتاتا ھے کہ ھم دلیل سے جواب دینے سے عاجز ھیں لہذا تلوار یا قانون سے منہ بند کرتے ھیں ،،

ایک عام سا سوال ھے کہ اگر نبئ کریم ﷺ سے براہ راست اپنے کانوں سے حکم کو سن کر بھی ایک دوسرے کو قتل کرنے والے گنہگار تک نہیں ھیں بلکہ رضی اللہ عنھم ھیں ، تو آج چودہ سو سال بعد ایک غریب کا بچہ ان کے اس قتال کو سمجھنے میں اجتہادی غلطی نہیں کر سکتا ؟ وہ قتل کر کے بھی رضی اللہ عنھم ھیں ،یہ صرف سوال اٹھا کر مسلمان بھی نہیں رھا ؟ یہ کس دین کی تعلیم ھے ؟ قرآن میں یہی سبق پڑھایا گیا ھے ؟ قرآن میں اصحاب کی غلطیوں پر کہیں پردہ ڈالا گیا ھے ؟ رضی اللہ عنھم ھونے کے باوجود کوئی سزا ان سے معطل کی گئ ھے ؟ کیا سورہ نور کے تین مجرموں کو 80 ،80 کوڑے مارے گئے ھیں یا نہیں ؟ ان میں شاعر رسول ﷺ حسان بن ثابت انصاری بھی تھے جبریل جن کے مددگار ھوتے تھے شاعری میں ،، نبئ کریم ﷺ کی خواہر نسبتی یعنی پھوپھی کی بیٹی اور سالی حضرت حمنہؓ بھی تھیں اور بدری صحابی حضرت مسطحؓ ،، میرا ایمان ھے کہ وہ سزا پانے سے پہلے بھی رضی اللہ عنھم تھے اور سزا پانے کے بعد بھی ان کی شان میں کوئ کمی واقع نہیں ھوئی وہ اب بھی الحمد للہ رضی اللہ عنھم ھی ھیں شریعت کے نفاذ سے کسی کی شان میں کوئی کمی واقع نہیں ھوتی ،
 کیا سورہ الحجرات میں جن کو فاسق کہا گیا ھے وہ صحابیؓ نہیں تھے ، سورہ ممتحنہ جن کے بارے میں نازل ھوئی وہ صحابیؓ نہیں تھے ؟ سورہ جمعہ میں جن کا ذکر ھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کو جمعے کے خطبے کے دوران کھڑا چھوڑ کر قافلے کی طرف لپک گئے تھے وہ اصحابؓ نہیں تھے ؟ اصحابؓ کو معصوم بنانے کی روش بعد والوں نے اپنائی ھے اور ان کی سورج کی طرح واضح غلطیوں کو بھی اجتہاد کے چاندی کے ورق میں لپیٹنے کی کوشش کی ھے ورنہ نہ تو یہ اللہ کا حکم ھے اور نہ رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ،،

اللہ پاک کا حکم ھے ،،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا (النساء- 135)
اے ایمان والو- انصاف کے ساتھ ڈٹ کرکھڑے رھو اللہ کی خاطر سچی گواھی دینے والے بن کر اگرچہ وہ گواھی تمہارے اپنے خلاف پڑے یا تمہارے والدین کے خلاف پڑے یا تمہارے رشتے داروں کے خلاف جاتی ھو، خبردار نفس کی پیروی میں عدل سے ھٹ مت جانا ، اور اگر تم نے زبان موڑ کر اور الفاظ کو گھما پھرا کی گواھی دی یا گواھی دینے سے پہلوتہی کی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تمہارے ھر عمل سے باخبر ھے ،،

یہاں محبت میں سچی بات کو گھمانے پھرانے سے منع کیا ھے تو اگلی آیت میں کسی کی دشمنی میں سچی بات کو گھمانے پھرانے اور حق انصاف کی بات نہ کرنے سے خبردار کیا ھے ،،

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (المائدہ-8)

اے ایمان والو اللہ کی خاطر ڈٹ کر کھڑے ھونے والے بنو انصاف کی گواھی دینے والے، اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم عدل نہ کرو ، عدل کرو یہ تقوے کے قریب تر روش ھے اور اللہ کا تقوی اختیار کرو بے شک اللہ اس کو بخوبی جانتا ھے جو تم کرتے ھو -

عدل و انصاف کی بات کو کسی کے احترام میں دبا لینا ، زندہ دفنائی گئ بچی سے بھی بڑا جرم ھے ، اس طرح تم اپنے ضمیر کو مار دیتے ھو ، پھر تم کسی جگہ حق کی بات نہیں کرتے ، نہ ماں اور بیوی کے درمیان ، نہ اولاد کے درمیان اور نہ مناظروں اور مجادلوں میں ،، اس لئے کہ ھم حق کی عصمت لٹا چکے ھوتے ھیں ،،

ھماری اس پردہ پوشی اور حق بات کے اغماض کی روش ، بڑوں کی خطاؤں کو سنوار کی نیکی بنانے کی واردات نے آنے والی نسلوں کو خون میں ڈبو کر رکھ دیا ،جس میں کسی رشتے کا احترام باقی نہ رھا اور خلافت نام کا ادارہ ایک مذبحہ خانہ بن کر رہ گیا ، ھماری تاریخ ھلاکو اور چنگیز کو شرماتی ھے اور اس کی وجہ یہی ھے کہ ھم نے سچ کو بہت اوپر جا کر آلودہ کر دیا ھے لہذا نیچے سے یہ کبھی درست نہیں ھو گا ،

حضرت عثمان ذولنورین رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے ہاتھوں شھید ھوئے -

سبائیوں کے کچھ اعتراضات تھے ، اگر وہ ان کی وضاحت کے باجود فساد پر آمادہ تھے تو ان کے خلاف ریاست اقدام کر سکتی تھی، جو نہیں کیا گیا ، اگر ان چند سو فسادیوں لوگوں کو مروا دیا جاتا تو آئندہ امت میں عشرہ مبشرہ سمیت ھزاروں لوگ آپس کی جنگوں میں نہ مارے جاتے ، اور نہ امت قیامت تک انتشار کا شکار ھوتی ، حقیقت یہ ھے کہ ھمارے ابتدائی نظام میں ھی واضح نقص تھا ،جس میں شوری حاکم کو بٹھا تو سکتی ھے مگر پھر اتار نہیں سکتی بلکہ مفلوج ھو جاتی ھے ، حاکم کی مرضی ھے کہ وہ اس سے مشورہ کرے یا نہ کرے ، شوری کے پاس حاکم کے خلاف مقدمہ سننے کا اختیار نہیں تھا اور نہ وہ اس کو معزول کر سکتی ھے اگرچہ خلیفہ فالج کا شکار بھی ھو جائے وہ یا تو خود فوت ھو گا تو امت کی جان چھوٹے گی یا کوئی آگے بڑھ کر اس کو مارے گا تو جان چھوٹے گی ، اس کے سوا کوئی تیسری صورت اسلام ھمارے سامنے نہیں رکھتا - وہ تو ھمیں کہتا ھے کہ تجربات سے سیکھ کر حالات کے مطابق مشورے سے وہ سسٹم بناتے جاؤ جو انسانی فطری کمزوریوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھ سکے - اسلام نے ھم پر چھوڑا اور ھم نے اللہ پر چھوڑ دیا ،، مدینے کی شوری اس وقت اگر با اختیار ھوتی تو اس مسئلے کا پرامن حل ممکن تھا ، یا خلیفہ کو اپنے عہدے کا دفاع نہایت شدت اور قوت سے کرنا چاھئے تھا ،

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مدینے کو ھی خلیفہ چننا تھا کیونکہ وھی الیکٹورل کالج تھا ،، حضرت علیؓ کی خلافت پہلے دن سے ھی حق تھی اور سب کو ان کی اطاعت کرنی چاھئے تھی ، اس میں کسی اجتہاد کی کوئی ضرورت ھی نہیں تھی ، حضرت علیؓ سے قصاص کا مطالبہ حضرت عثمانؓ کے ورثاء نے کبھی نہیں کیا ، بلکہ حضرت علیؓ کے بار بار پوچھنے کےباوجود ان کے بیٹے قاتلوں کا نام تک نہیں بتا سکے ، حضرت معاویہؓ کے امیر بننے کے بعد بھی کسی نے قصاص نہیں لیا ، وہ حج پر آئے تو حضرت عثمانؓ کے گھر سے ان کی بیٹی کا نوحہ سنائی دیا کہ میرے والد کا قصاص لینے والا کوئی نہیں تو امیر معاویہؓ نے کھڑے مجمعے کو بھگا دیا اور ان کی بیٹی سے کہا کہ ، یہ آواز میں آئندہ نہ سنوں ،،

حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں شھید ھوئے ،،

حضرت حسین بھی مسلمانوں کے ہاتھوں شھید ھوئے سر کاٹا گیا اور بدن روندا گیا-

 امام حسن رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی ایک روایت یہی ھے کہ آپ کو زھر دیا گیا -

حضرت طلحۃ و زبیر رضی اللہ عنھما دونوں عشرہ مبشرہ میں سے تھے جن کو حضرت علیؓ نے پہلے خلیفہ بننے کی پیش کش کی تھی ، وہ دونوں میں مسلمانوں کے ھاتھوں شھید ھوئے-

جنگ جمل میں مسلمان ھی مسلمانوں کے ہاتھوں شھید ھوئے اور صحابہؓ صحابہؓ کے ہاتھوں شھید ھوئے-

صفین میں حضرت علیؓ و معاویہؓ کے درمیان مسلمان ھی مسلمانوں کے ہاتھوں شھید ھوئے-
 نھروان کے معرکے میں مسلمان ھی مسلمانوں کے ہاتھوں شھید ھوئے -

امام حسینؓ اور یزید کے درمیان معرکے میں آلِ رسول میں سے بچوں سمیت73 شھید ھوئے یہ کام بھی مسلمانوں نے ھی کیا ،،
شھادت حسین پر یزید کے خلاف بغاوت کو دبانے کے لئے مسلم بن عقبہ کے 12000 کے لشکر کے ھاتھوں مدینے میں 700 مھاجر اور انصاری صحابہؓ اور ان کے بچوں کو شھید کیا گیا - یہ کام بھی مسلمانوں کا اپنا کارنامہ ھی تھا -

معرکہ حرہ میں مسلم ابن عقبہ کے دوست صحابیؓ معقل بن سنان الاشجعیؓ جو فتح مکہ میں شریک تھے اور بہت ساری احادیث کے راوی ھیں نہایت متقی پرھیزگار شخص تھے ، وہ
اس سے ملاقات کے لئے مدینے سے نکل کر آئے اور قتلِ حسینؓ پر یزید کو برا بھلا کہا،جس پر مسلم بن عقبہ نے ان کو غصے میں آ کر شھید کر دیا -
ابولھب و ابوجھل کو بیت اللہ کا پتھر اکھاڑنے یا اس کی توھین کرنے کی جرأت نہیں ھوئی مگر الحصین بن نمیر نے جو کہ عبدالملک بن مروان کے لشکر کا قائد تھا مکے کا محاصرہ کر کے منجنیق سے پتھر پھینک کر بیت اللہ کو ھدم کر دیا -
 مدینے میں اور مدینے کے گرد بسنے والے طاقتور یہودی اور عیسائی قبیلوں میں سے کسی کی جرأت نہیں ھوئی کہ وہ مسجد نبوی کی توھین کر سکیں مگر یزید کے قائدِ لشکر نے یزید کے حکم پر تین دن کے لئے مدینے میں قتال حلال قرار دے دیا ،تین دن کے بعد جو باقی بچتے تھے ان سے اس بات پر بیعت لی کہ تمہاری جانوں اور مال کا مالک یزید ھو گا - اور تین دن تک مسجد نبوی میں گھوڑے باندھے گئے اور اس کو بطور اسطبل استعمال کیا گیا ،تین دن نہ اذان تھی نہ جماعت بس گھوڑے پیشاب اور لید کرتے رھے -

 عبدالملک بن مروان کی خلافت میں عبداللہ ابن زبیرؓ کو شھید کر کے حجاج نے ان کی لاش کو کئ دن الٹا لٹکائے رکھا اور اسماؓء بنت ابوبکرؓ جو کہ نابینا ھو چکی تھیں روز اس لاش کو ٹٹول کر کہتیں کہ ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ سوار اپنی سواری سے اتر آئے ، آخر خلیفہ کا خط بغداد سے آیا تب ان کی لاش کو اتار کر دفنانے کی اجازت دی گئ ، اسی معرکے میں حجاج نے کعبہ پر سنگ باری کروائی اورتیل میں ڈوبے آتشیں تیر چلا کر بیت اللہ کے غلاف کو آگ لگا دی جو پھیل کر اندر تک چلی گئ اور سارے تبرکات جل گئے ، اس کے علاوہ قسم کھا کر حاجیوں کو قتل کرتا رھا جبتک کہ اس کے گھوڑے کے سم ان کے خون میں ڈوب نہ گئے ، تب اپنی قسم پوری ھونے پر قتال روکا گیا ، یہ کارنامہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سر انجام پایا -
 ھشام بن عبدالملک کی خلافت میں امام زید بن زین العابدین جو امام حسینؓ کے پوتے تھے ان کو بہیمانہ انداز میں شھید کیا گیا ، ان کو ننگا کر کے باب دمشق پر سولی دی گئ جہاں انہوں نے تڑپ تڑپ کر جان دی ، چار سال تک ان کی لاش کو اسی جگہ مصلوب چھوڑ دیا گیا اور پھر سوکھی ھوئی لاش کو اتار کر جلا دیا گیا -

ولید بن یزید کی وفات کے بعد ان کا جنازہ پڑھانے ولید بن عتبہ بن ابوسفیان کھڑا ھوا جس کو خلیفہ چنا گیا تھا ، وہ ابھی دوسری تکبیر ھی کہہ پایا تھا کہ کسی کی تلوار نے اس کا سر اڑا دیا اور وہ وھیں گر گیا ، اس کے بعد عثمان بن عتبہ یعنی اس کے بھائی کو آگے کیا گیا اور کہا گیا کہ ھم آپ کی بیعت کرتے ھیں ، اس نے کہا کہ کیا تم اس بات پر میری بیعت کرتے ھو کہ نہ تو میں تمہیں کسی مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دوں اور نہ خود کسی کو قتل کروں ؟ بنو امیہ نے انکار کر دیا ،جس پر وہ مکے چلا گیا اور عبداللہ ابن زبیرؓ کے ساتھ شامل ھو گیا ،جہاں بنو امیہ ھی کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا -
 پھر مروان بن حکم مسلمانوں کے ھاتھوں ھی قتل ھوا-
پھر عمر بن عبدالعزیز بھی اپنے خاندان کے ھاتھوں شھید ھوئے-
پھر ولید بن یزید بھی مسلمانوں کے ھاتھوں قتل ھوئے ،
پھر ابراھیم بن ولید بھی مسلمانوں کے دست مبارک سے قتل ھوا
پھر باقی خلفاء یک بعد دیگرے ابو مسلم خراسانی کے ھاتھوں قتل ھوئے

پھر ابوالعباس سفاح نے تمام بنو امیہ اور ان کی اولاد کو قتل کر دیا سوائے ان کے جو کہ دودھ پیتے بچے تھے یا جو اندلس بھاگ گئے باقی سب کا سفایا کرا دیا یوں اس کا نام ھے قاتل (السفاح The Assassin ) پڑ گیا-
اس نے بنو امیہ کی قبریں کھود کر مردے نکالنے کا حکم دیا ، حضرت معاویہؓ کی قبر کھودی گئ تو اس میں سوائے دھاگوں کے کچھ نہ ملا ، واضح رھے امیر معاویہؓ کو نبئ کریم ﷺ کی اس چادر میں دفن کیا گیا تھا جو انہوں نے کسی دوسرے صحابیؓ سے دس ھزار درھم یا دینار میں خریدی تھی ،

یزید کی قبر کو کھودا گیا تو اس میں بس راکھ ھی راکھ تھی -

عبدالملک کی قبر کھودی گئ تو اس کا بدن صحیح سالم تھا صرف ناک کی ایک طرف تھوڑی سی خراب ھوئی تھی ، لاش کو نکال کر پہلے کوڑے مارے گئے - پھر سولی دی گئ اور پھر جلایا گیا اور اس کی راکھ کو ھوا میں بکھیر دیا گیا -

امویوں کو ختم کرنے والی مشین کا نام ابو مسلم خراسانی تھا ، اگر خراسانی نہ ھوتا تو عباسی سلطنت کا وجود تک نہ ھوتا ، مامون نے ابومسلم خراسانی کے بارے میں کہا تھا کہ زمین پر تین جلیل القدر بادشاہ تھے جنہوں نے ملکوں کی تقدیر تبدیل کی ، اسکندر۔ اردشیراور ابومسلم خراسانی ،،

ابوالعباس کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے ابوجعفر المنصور نے ابومسلم کی مقبولیت کے خوف سے اسے 37 سال کی عمر میں دھوکے سے مروا دیا -
ابومسلم خراسانی کے حامی اٹھ کھڑے ھوئے یوں عباسیوں اور خراسانیوں کی جنگ میں ھزاروں لوگ تہہ تیغ ھوئے ،شجرۃ الدر نے عزلادین ایبک کو قتل کر دیا ، ایبک کی بیوہ نے شجرۃ الدر کو قتل کر دیا ،

طغرل کی وفات کے بعد اس کے بھائی اور اس کے بیٹے میں چپقلش شروع ھو گئ اور عثمان نے اپنے چچا دوندار کو قتل کر کے اپنا اقتدار قائم کر لیا یوں خلافت عثمانیہ شروع ھوئی ، اسی خلافت کے اختتام پر ھندوستانیوں نے تحریک خلافت قائم کی تھی اور اس کی حمایت میں جلوس نکالے تھے اور آج بھی خوارج و داعش اسی خلافت کو بحال کرنے کا نعرہ مارتے ھیں ،مگر یہ خلافت کیا تھی اور کسی خوفناک تھی یہ بھی پڑھتے جایئے،

عثمان کا پوتا مراد اول جب سلطان بنا تو اس نے اپنے بھائیوں ابراھیم اور خلیل کو اس خوف سے قتل کرا دیا کہ وہ اس کے اقتدار کے خلاف کوئی سازش نہ کریں -

پھر جب وہ 1389 ء میں کوسووو کے معرکے میں بسترِ مرگ پر تھا تو اپنے بیٹے یعقوب کا گلہ گھونٹ کر مروا دیا تا کہ وہ اپنے دوسرے بھائی کی خلافت کے خلاف کوئی سازش نہ کر سکے -

السلطان محمد الثاني فاتح اسنطبول نے شرعی فتوی جاری کیا کہ سلطنت اور اس کے عوام کی اعلی ترین مصلحت کی خاطر اس کے بھائی کا حلال ھے یوں اس کے بھائی کو قتل کر دیا گیا ،  
السلطان مراد الثالث نے اپنے باپ کے بعد خلافت پر بیٹھتے ھی اپنے پانچ بھائیوں کو اسی اعلی ترین مصلحت کی خاطر موت کے گھاٹ اتار دیا -

اس کا بیٹا " محمد الثالث " بھی اپنے باپ سے کم درندہ نہیں تھا ، اس نے خلافت کا حلف لیتے ھی اپنے 13 بھائیوں کو خلافت کی مصلحت کی خاطر قتل کرا کراس سلسلے میں
 ریکارڈ قائم کر دیا -

اس سلسلے میں ترک مصنف " رحمی تروان" ایک مقالے " بادشاھوں کی یاد داشتیں " میں لکھتا ھے کہ محمد الثالث نے اپنے 13 بھائی مروانے پر ھی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اپنے 16 سال کے بیٹے محمود کو بھی مروا دیا تا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی 14 سالہ سلطان احمد کی مخالفت نہ کر سکے ، یہ سلطان احمد جو بعد میں بلیو مسجد جامع سلطان احمد بنوانے کی وجہ سے مشہور ھوا ،جو اسطنبول کا سب سے مشہور سیاحتی پؤائنٹ ھے ،،

جب عثمانی خلافت نے اپنا نفوذ قاھرہ تک بڑھانے کا فیصلہ کیا تو 50 ھزار مصری مسلمانوں کا قتلِ عام کیا - سلطان سلیم نے حاکم قاھرہ طومان بے کو پیغام بھیجا کہ اگر وہ اس کی اطاعت کر لے تو اس کو قاھرہ کی حکومت بخش دی جائے گی ، طومان بے نے یہ پیش کش ٹھکرا دی اور جنگ کی تیاری شروع کر دی ،مگر خلیفہ کی فوجوں کے سامنے کوئی پیش نہ گئ اور وہ فرار ھو کر اپنے دوست الشیخ حسن بن مرعی کے پاس پناہ لینے کو پہنچا جس نے اس کے ساتھ خیانت کر کے مخبری کر دی یوں طومان بے قتل کر دیا گیا اور مصر ترک عثمانی خلافت کے صوبوں میں شامل ھو گیا
اس کے بعد سلطان سلیم نے اپنے دونوں بھائیوں کو قتل کرا دیا جو اس کی خونی پالیسیوں کے مخالف تھے -

اس پوری داستان میں آپ کو نظر آئے گا کہ قتل کرنے والوں نے اسلامی خلافت کے مفاد کے نام پر نہ صرف عام انسانوں بلکہ بھائی اور اولاد جیسے قریبی رشتوں کو بھی خون میں نہلا دیا ،،

قاتل بھی اسلامی خلافت کے نام پر قتل کر رھے تھے اور مقتولین بھی اسی خلافت کے طلبگار تھے ،،

مارنے والے بھی اللہ اکبر کی گونج میں مار رھے تھے اور مرنے والے بھی شھادتین پڑھتے ھوئے جانیں دے رھے تھے ،،

یہ داعش ، یہ ٹی ٹی پی ، یہ بوکو حرام ، یہ الشباب ، یہ القاعدہ یہ سب اسی شجرہ کے پھل پھول ھیں کچھ بھی نیا نہیں ھے ،، پرانی فلم کا ایکشن ری پلے ھے ، یہ سب وھی سلطانوں والے کھیل کھیلنے کے مواقع چاہتے ھیں

آپ کو یہی سب کچھ پرانی انگلش فلموں میں بھی نظر آئے گا ، یورپ بھی اسی دور سے ھو کر گزرا ھے جب بھائیوں نے بھائیوں کو مارا تھا ،بادشاہ ھی سب کچھ تھا ، پھر انہوں نے تجربات سے سیکھ کر ایک سسٹم بنایا جو عوام اور حاکم کے حقوق متعین کرتا ھے ،حاکم کی صلاحیت اور مدت اقتدار طے کرتا ھے ،پارلیمنٹ کے ایوانوں کے ذریعے چیک اینڈ بیلنس کا نظام قائم کرتا ھے ، عدالتی نظام ھے جہاں ھر ایک جوابدہ ھے ،، اس نظام کا نام ھے جمہوریت ، اگر جمہوریت کا تقابل کرنا ھے تو .اپنی 1350 سالہ خلافت کی تاریخ سے کر کے دیکھ لیجئے بری سے بری جموریت آپکی ساڑھے تیرہ سو سالہ خلافتوں سے بہتر ھے ،، اور برے سے برا سیاستدان بھی آپ کے سلطانوں سے بہتر ھے ،،