Wednesday 28 September 2016

واقعہ موسیٰ علیہ السلام اور فرعون

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
حصہ دوم۔۔۔

حضرت موسی علیہ السلام ابھی تین سال کے بچے ہی تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ بچپن میں آپ ایک روز فرعون کی گود میں تھے آپ نے اس کی داڑھی پکڑ کر اس کے منہ پر زور سے طمانچہ مارا اس پر اسے غصہ آیا اور اس نے آپ کے قتل کا ارادہ کیا حضرت آسیہ نے کہا کہ اے بادشاہ یہ نادان بچہ ہےکیا سمجھے ؟ تو چاہے تو تجربہ کر لے اس تجربہ کے لئے ایک طشت میں آ گ اور ایک طشت میں یاقوت سرخ آپ کے سامنے پیش کئے گئے آپ نے یاقوت لینا چاہا مگر فرشتہ نے آپ کا ہاتھ انگارہ پر رکھ دیا اور وہ انگارہ آپ کے منہ میں دے دیا اس سے زبانِ مبارک جل گئی اور لکنت پیدا ہو گئی اس کے لئے آپ نے یہ دعا کی ۔
طہ 25 تا 29
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي
(موسٰی علیہ السلام نے) عرض کیا: اے میرے رب! میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
اور میرا کارِ (رسالت) میرے لئے آسان فرما دے
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِي
اور میری زبان کی گرہ کھول دے
يَفْقَهُوا قَوْلِي
کہ لوگ میری بات (آسانی سے) سمجھ سکیں
وَاجْعَل لِّي وَزِيرًا مِّنْ أَهْلِي
اور میرے گھر والوں میں سے میرا ایک وزیر بنا دے

پھر حضرت موسی علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اللہ تعالی نے انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ قرآن میں سورہ القصص آیت 14 تا 29 میں ذکر ہے ۔

ترجمہ:۔اور جب موسٰی (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور (سنِّ) اعتدال پر آگئے تو ہم نے انہیں حکمِ (نبوّت) اور علم و دانش سے نوازا، اور ہم نیکوکاروں کو اسی طرح صلہ دیا کرتے ہیں۔ اور موسٰی (علیہ السلام) شہرِ (مصر) میں داخل ہوئے اس حال میں کہ شہر کے باشندے (نیند میں) غافل پڑے تھے، تو انہوں نے اس میں دو مَردوں کو باہم لڑتے ہوئے پایا یہ (ایک) تو ان کے (اپنے) گروہ (بنی اسرائیل) میں سے تھا اور یہ (دوسرا) ان کے دشمنوں (قومِ فرعون) میں سے تھا، پس اس شخص نے جو انہی کے گروہ میں سے تھا آپ سے اس شخص کے خلاف مدد طلب کی جو آپ کے دشمنوں میں سے تھا پس موسٰی (علیہ السلام) نے اسے مکّا مارا تو اس کا کام تمام کردیا، (پھر) فرمانے لگے: یہ شیطان کا کام ہے (جو مجھ سے سرزَد ہوا ہے)، بیشک وہ صریح بہکانے والا دشمن ہے۔
تبصرہ۔
اس میں شک نھیں کہ حضرت موسی علیہ السلام کا اس فرعونی کو جان سے ماردینے کا ارادہ نہ تھا قرآن سے بھی یہ خوب واضح هوجاتاھے ایسا اس لئے نہ تھا کہ وہ لوگ مستحق قتل نہ تھے بلکہ انھیں ان نتائج کا خیال تھا جو خود حضرت موسی اور بنی اسرائیل کو پیش آسکتے تھے ۔

(موسٰی علیہ السلام) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! بیشک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا سو تو مجھے معاف فرما دے پس اس نے انہیں معاف فرما دیا، بیشک وہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔(مزید) عرض کرنے لگے: اے میرے رب! اس سبب سے کہ تو نے مجھ پر (اپنی مغفرت کے ذریعہ) احسان فرمایا ہے اب میں ہرگز مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔پس موسٰی (علیہ السلام) نے اس شہر میں ڈرتے ہوئے صبح کی اس انتظار میں (کہ اب کیا ہوگا؟) تو دفعتًہ وہی شخص جس نے آپ سے گزشتہ روز مدد طلب کی تھی آپ کو (دوبارہ) امداد کے لئے پکار رہا ہے تو موسٰی (علیہ السلام) نے اس سے کہا: بیشک تو صریح گمراہ ہے۔ سو جب انہوں نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑیں جو ان دونوں کا دشمن ہے تو وہ بول اٹھا: اے موسٰی! کیا تم مجھے (بھی) قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ تم نے کل ایک شخص کو قتل کر ڈالا تھا۔ تم صرف یہی چاہتے ہو کہ ملک میں بڑے جابر بن جاؤ اور تم یہ نہیں چاہتے کہ اصلاح کرنے والوں میں سے بنو۔۔

اس بنی اسرائیلی شخص کے اس طرح بولنے سے اس واقعے کی فرعون اور اس کے اھل دربار کو اطلاع پہنچ گئی انھوں نے حضرت موسی سے اس عمل کے مکرر سرزد هونے کو اپنی شان سلطنت کے لئے ایک تہدید سمجھا ۔ وہ باھم مشورے کے لئے جمع هوئے اور حضرت موسی کے قتل کا حکم صادر کردیا ۔

اور شہر کے آخری کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا: اے موسٰی! (قومِ فرعون کے) سردار آپ کے بارے میں مشورہ کر رہے ہیں کہ وہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) نکل جائیں بیشک میں آپ کے خیر خواہوں میں سے ہوں۔(20)

یہ آدمی بظاھر وھی تھا جو بعد میں ”مومن آل فرعون “کے نام سے مشهور هوا ،کھا جاتاھے کہ اس کا نام حزقیل تھا وہ فرعون کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا اور ان لوگوں سے اس کے ایسے قریبی روابط تھے کہ ایسے مشوروں میں شریک هوتا تھا ۔

سو موسٰی (علیہ السلام) وہاں سے خوف زدہ ہو کر (مددِ الٰہی کا) انتظار کرتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے، عرض کیا: اے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات عطا فرما۔(21)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پختہ ارادہ کرلیا کہ وہ شھرمدین کو چلے جائیں گے۔

مدیَن وہ مقام ہے جہاں حضرت شعیب علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے اس کو مدیَن ابنِ ابراہیم کہتے ہیں مِصر سے یہاں تک آٹھ روز کی مسافت ہے یہ شہر فرعون کے حدودِ قلمرو سے باہر تھا حضرت موسٰی علیہ السلام نے اس کا رستہ بھی نہ دیکھا تھا ، نہ کوئی سواری ساتھ تھی ، نہ توشہ ، نہ کوئی ہمراہی ، راہ میں درختوں کے پتوں اور زمین کے سبزے کے سوا خوراک کی اور کوئی چیز نہ ملتی تھی ۔

چنانچہ اللہ تعالٰی نے ایک فرشتہ بھیجا جو آپ کو مدیَن تک لے گیا ۔

اور جب وہ مَدْيَنَْ کے پانی (کے کنویں) پر پہنچے تو انہوں نے اس پر لوگوں کا ایک ہجوم پایا جو (اپنے جانوروں کو) پانی پلا رہے تھے اور ان سے الگ ایک جانب دو عورتیں دیکھیں جو (اپنی بکریوں کو) روکے ہوئے تھیں (موسٰی علیہ السلام نے) فرمایا: تم دونوں اس حال میں کیوں (کھڑی) ہو؟ دونوں بولیں کہ ہم (اپنی بکریوں کو) پانی نہیں پلا سکتیں یہاں تک کہ چرواہے (اپنے مویشیوں کو) واپس لے جائیں، اور ہمارے والد عمر رسیدہ بزرگ ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ باتیں سن کر بہت کوفت هوئی اور دل میں کھا کہ یہ کیسے بے انصاف لوگ ھیں کہ انھیں صرف اپنی فکر ھے اور کسی مظلوم کی ذرا بھی پرواہ نھیں کرتے ۔
وہ آگے آئے ،بھاری ڈول اٹھایا اور اسے کنوئیں میں ڈالا، کہتے ھیں کہ وہ ڈول اتنا بڑا تھا کہ چند آدمی مل کر اسے کھینچ سکتے تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے قوی بازوؤں سے اسے اکیلے ھی کھینچ لیا اور ان دونوں عورتوں کی بھیڑوں کو پانی پلادیا “۔[34]

حضرت موسیٰ علیہ السلام ( اس وقت ) تھکے هوئے اور بھوکے تھے اس شھر میں اجنبی اور تنھاتھے اور ان کے لیے کو ئی سرچھپانے کی جگہ بھی نہ تھی مگر پھر بھی وہ بے قرار نہ تھے آپ کا نفس ایسا مطمئن تھا کہ دعا کے وقت بھی یہ نھیں کھا کہ” خدایا تو میرے لیے ایسا یاویسا کر“ بلکہ یہ کھا کہ : تو جو خیر بھی مجھے بخشے میں اس کا محتاج هوں “ ۔
اس واقعہ کے بعد۔۔ ان لڑکیوں نے اپنے والد کو یہ قصہ سنایا اور۔۔

ان میں سے ایک (لڑکی) نے کہا: اے (میرے) والد گرامی! انہیں (اپنے پاس مزدوری) پر رکھ لیں بیشک بہترین شخص جسے آپ مزدوری پر رکھیں وہی ہے جو طاقتور امانت دار ہو (اور یہ اس ذمہ داری کے اہل ہیں)۔(26)

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے خوش نصیبی کا دور اس وقت شروع هوا جب انھوں نے یہ دیکھا کہ ان دونوں بہنوں میں سے ایک نھایت حیاسے قدم اٹھاتی هوئی آرھی ھے اس کی وضع سے ظاھر تھا کہ اسکوایک جوان سے باتیں کرتے هوئے شرم آتی ھے وہ لڑکی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب آئی اور صرف ایک جملہ کہا : میرے والد صاحب آپ کو بلاتے ھیں تاکہ آپ نے ھماری بکریوں کے لئے کنویں سے جو پانی کھینچا تھا ، اس کا معاوضہ دیں “۔

اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام اس لڑکی کے ساتھ چل دئیے۔ ان خواتین کے والد کانام حضرت شعیب علیہ السلام تھا۔

چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ سے حضرت شعیب کے مکان کی طرف روانہ هوئے ۔
بعض روایات کے مطابق وہ لڑکی رہنمائی کے لئے ان کے آگے چل رھی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے چل رھے تھے اس وقت تیز هوا سے اس لڑکی کا لباس اڑرہا تھا اور ممکن تھا کہ هوا کی تیزی لباس کو اس کے جسم سے اٹھادے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پاکیزہ طبیعت اس منظر کو دیکھنے کی اجازت نھیں دیتی تھی،اس لڑکی سے کہا:میں آگے آگے چلتا هوں،تم راستہ بتاتے رہنا۔

No comments:

Post a Comment