Wednesday 28 September 2016

نبی اکرم ﷺ کے والد کی پاکدامنی
حضور نبیِ رحمت،شافعِ امّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ اقدس ہے : '' اللہ عزوجل مجھے ہمیشہ پاک ستھری پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہاصاف ستھرا آراستہ جب دو شاخیں پیدا ہوئیں ،تو مجھے ان میں بہترین شاخ میں رکھا جاتا ''
(بحوالہ کنز العمال،ج۱۲، ص۱۹۲،الحدیث:۳۵۴۸۴)
اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے آج دوستوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے والد گرامی جناب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک واقعہ سناتے ہیں۔یہ واقعہ امام ابن جوزی (المتوفیٰ 597ہجری) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب عیون الحکایات میں نقل کیا ہے۔
ایک مرتبہ رحمتِ عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والد محترم حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں سفر پرجارہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی عورت ملی جو اپنے مذہب کی کتابوں کو خوب جانتی تھی اور وہ کاہنہ بھی تھی،اس کانام ''فاطمہ بنت مُرّ ''تھا،بہت زیادہ حسین وجمیل اورپارساتھی، لوگ اس سے شادی کی خواہش کرتے تھے ،حسن و خوبصورتی میں اس کابہت چرچا تھا، جب اس کی نظر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پڑی تو اسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی میں نورِ نبوت چمکتاہوا نظرآیا،اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب آکر آپ کو دعوتِ گناہ دی اور کہا اگر تم میری بات مانو گے تو میں تجھے سو اونٹ بھی دوں گی۔'' یہ سن کر عفت وحیاکے پیکر حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' مجھے حرام کام میں پڑنے سے موت کو گلے لگا لینا زیادہ عزیز ہے اورحلال کام تیرے پاس نہیں یعنی تو میرے لئے حلال نہیں پھر میں تیری خواہش کیسے پوری کر سکتا ہوں۔''
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس گھر تشریف لائے اور والدہ رسولِ کریم ﷺ حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تشریف لے آئے ۔ چند دنوں کے بعد ایک مرتبہ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات اس عورت سے ہوئی، اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ انور پر نورنبوت نہ پا کر پوچھا: ''تم مجھ سے جدا ہونے کے بعد کہاں گئے تھے؟''آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''میں اپنی زوجہ کے پاس گیا۔''یہ سن کر وہ بولی: ''تمام آسمانوں کے خدا عزوجل کی قسم! میں بدکارہ نہیں لیکن میں نے تمہارے چہرے پر نورِنبو ت دیکھا تو میں نے چاہاکہ وہ نور مجھے مل جائے مگر اللہ عزوجل کوکچھ اور ہی منظورتھااس نے جہاں چاہا اس نور کو رکھا۔" جب یہ بات لوگوں کو معلوم ہوئی توانہوں نے اس عورت سے پوچھا: ''کیا واقعی عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تجھے قبول نہ کیا ،کیاتونے اسے اپنی طرف دعو ت دی تھی؟'' یہ سن کر اس نے چند اشعار پڑھے ،جن کاترجمہ یہ ہے :
میں نے ایک بجلی دیکھی جس نے سیاہ بادلوں کو بھی جگمگادیا،اس بجلی میں ایسا نور تھاجوسارے ماحول کوچودھویں کے چاند کی طرح روشن کررہاتھا،میں نے چاہاکہ اس نور کوحاصل کرلوں تاکہ اس پر فخرکرتی رہوں مگرہر پتھر کی رگڑ سے آگ پیدانہیں ہوتی مگر اے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !وہ زُہری عورت (یعنی حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)بڑی نصیب والی ہے جس نے تیرے دونوں کپڑے لے لئے وہ کیا جانے کہ اس نے کتنی عظیم چیز حاصل کر لی ہے۔ (یعنی حضرت سیدہ آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تم سے و ہ شہزادہ حاصل کر لیاجس کے وجود پردو چادریں ہیں: ایک حکومت کی اور دوسر ی نبوت کی) وہ عورت اکثر یہ اشعار پڑھاکرتی تھی ۔
اس واقعہ سے رحمتِ عالم ،نبی رحمت' شاہ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والدِمحترم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاک دامنی کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایک نوجوان کوحسین وجمیل مال دار عورت گناہ کی دعوت دے اورصر ف گناہ کی دعوت ہی نہیں بلکہ سواونٹ بھی ساتھ دے لیکن پھر وہ غیرت مند اور عفت وحیاکاپیکر اپنی عزت کومحفوظ رکھنے کے لئے اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دے اوراس کی دعوت کو ٹھکرادے،توکیایہ عمل پاکدامنی ،تقوی، پرہیزگاری اور خوفِ خدا عزوجل کی ایک اعلیٰ ترین مثال نہیں ؟یقینا یہ خوف خدا عزوجل کی بہترین مثال ہے۔ اللہ عزوجل ان مبارک ہستیوں کے طفیل ہمیں بھی شرم وحیاکی عظیم نعمت سے مالامال فرمائے ۔آمین

No comments:

Post a Comment