Monday 26 September 2016

ماتم کرنا کیسا ہے.

ماتم شیعہ اپنے آئینے میں
حرمت ماتم شیعہ تفاسیر کی روشنی میں
يَأَيهَا النَّبىُّ إِذَا جَاءَك الْمُؤْمِنَت يُبَايِعْنَك عَلى أَن لا يُشرِكْنَ بِاللَّهِ شيْئاً وَ لا يَسرِقْنَ وَ لا يَزْنِينَ وَ لا يَقْتُلْنَ أَوْلَدَهُنَّ وَ لا يَأْتِينَ بِبُهْتَن يَفْترِينَهُ بَينَ أَيْدِيهِنَّ وَ أَرْجُلِهِنَّ وَ لا يَعْصِينَك فى مَعْرُوف فَبَايِعْهُنَّ وَ استَغْفِرْ لهَنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ(سورۃ ممتحنہ آیت:۱۲)
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں جید شیعہ علماء کی تفاسیر سے کچھ حوالہ جات پیش ہیں۔
فقامت ام حكيم ابنة الحارث ابن عبدالمطلب فقالت يا رسول الله ما هذا المعروف الذي امرنا الله به ان لا نعصيك فيه؟ فقال: ان لا تخمشن وجها ولا تلطمن خدا ولا تنتفن شعرا ولا تمزقن جيبا ولا تسودن ثوبا ولا تدعون بالويل والثبور ولا تقيمن عند قبر، فبايعهن رسول الله صلى الله عليه وآله على هذه الشروط، ( الكتاب : تفسير القمي المؤلف : ابي الحسن علي بن ابراهيم القمي)
ام حكيم بنت الحارث ابن عبدالمطلب نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ وہ کون سی نیکی ہے جس کے متعلق اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اس میں آپ کی نافرمانی نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا اپنے چہرے پر خراشیں نہ ڈالو ، اپنے رخساروں پر ٹھپڑ نہ مارو ،اپنے بال نہ نوچو ، اپنے گریبان نہ پھاڑو ،کالے کپڑے نہ پہنو،ہائے وہ مر گیا ہائے وہ مر گیا نہ چلاواور قبر کے پاس نہ بیٹھو ، پھر رسول اللہ نے ان شرائط پر انکو بیعت کر لیا۔
وقال زيد بن أسلم: فيما شرط ألا يعصينه فيه أن لا يلطمن ولا يشققن جيبا ولا يدعون بالويل والثبور، كفعل أهل الجاهلية.
وقال ابن عباس: فيما شرط ألا يعصينه فيه النوح. (الكتاب :التبيان في تفسير القرآن المؤلف :شيخ الطائفة أبي جعفر محمد بن الحسن الطوسي)
زید بن اسلم نے کہا جس چیز میں نافرمانی نہ کرنے کی شرط ہے وہ یہ ہے کہ طمانچہ نہ ماریں ،گریبان نہ پھاڑیں ،ہائے وہ مر گیا ہائے وہ مر گیا نہ چلاوجیسے زمانہ جاہلیت کے اعمال تھے۔
ابن عباس نے کہا جس چیز میں نافرمانی نہ کرنے کی شرط تھی وہ یہ تھی کہ نوحہ نہ کریں۔
’’و قيل عنى بالمعروف النهي عن النوح و تمزيق الثياب و جز الشعر و شق الجيب و خمش الوجه و الدعاء بالويل‘‘(الكتاب : تفسير مجمع البيان المؤلف : امين الاسلام أبي على الفضل بن الحسن الطبرسي)
ایک قول یہ ہے کہ نیکی سے مراد ہے کہ نوحہ نہ کریں ، بال نہ نوچیں ،گریبان نہ پھاڑیں ،چہرے پر خراشیں نہ ڈالیں اور ہائے موت نہ پکاریں۔
حرمت ماتم احادیث شیعہ کی روشنی میں
وقال(عليه السلام): يَنْزِلُ الصَّبْرُ عَلَى قَدْرِ الْمُصِيبَةِ، وَمَنْ ضَرَبَ يَدَهُ عَلَى فَخِذِهِ عِنْدَ مُصِيبَتِهِ حَبِطَ أجْرُهُ(1).( الكتاب : نهج البلاغة)
حضرت علی نے فرمایا صبر بہ قدر مصیبت نازل کیا جاتا ہے جس شخص نے مصیبت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے زانوں پر مارا اس کا عمل ضایع کر دیا جاتا ہے۔
218. وقال(عليه السلام): مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَزِيناً فَقَدْ أَصْبَحَ لِقَضَاءِ اللهِ سَاخِطاً، وَمَنْ أَصْبَحَ يَشَكُو مُصِيبَةً نَزَلَتْ بِهِ فَقَدْ أَصْبَحَ يَشْكُو رَبَّهُ، (الكتاب : نهج البلاغة)
حضرت علی نے فرمایا جس شخص پر کوئی مصیبت نازل ہوئی اور اس نے شکایت کی تو گویا اس نے اپنے رب کی شکایت کی۔
4672 - 1 - عدة من أصحابنا، عن سهل بن زياد، عن أحمد بن محمد بن أبي نصر، والحسن ابن علي جميعا، عن أبي جميلة، عن جابر، عن أبي جعفر (عليه السلام) قال: قلت له: ما الجزع؟ قال: أشد الجزع الصراخ بالويل والعويل ولطم الوجه والصدر وجز الشعر من النواصي (1) ومن أقام النواحة فقد ترك الصبر وأخذ في غير طريقه (2) ومن صبر واسترجع وحمد الله عزوجل فقد رضي بما صنع الله ووقع أجره على الله ومن لم يفعل ذلك جرى عليه القضاء وهو ذميم (3) وأحبط الله تعالى أجره (اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۲۳)
ابو جعفر کہتے ہیں میں نے پوچھا بے صبری کیا ہے ؟ فرمایا سب سے بڑی بے صبری یہ ہے کہ آدمی چلائے اور سینے اور چہرے پر تھپڑ مارے اور پیشانی سے بال نوچےاور جس شخص نے نوحہ کیا اس نے صبر ترک کیا اور اسنے خلاف طریقے کو اپنایا اور جس نے صبر کیا اور انا اللہ پڑھا اور اللہ کی حمد کی اور اللہ کے کئے ہوئے پر راضی ہوا تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ثابت ہوگیا اور جس نے اس کے خلاف کیا اس کی تقدیر تو پوری ہوگی اور وہ مذموم ہوگا اور اللہ اس کے اجر کو ضایع کر دے گا۔
4675 - 4 - علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن النوفلي، عن السكوني، عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله): ضرب المسلم يده على فخذه عند المصيبة إحباط لاجره. (اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۲۴)
حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنا ہاتھ اپنے زانوں پر مارنا اس کا اجر زائع کر دیا جاتا ہے۔
یہی حدیث اصول کافی میں ابو الحسن الاول سے بھی منقول ہے
4680 - 9 - سهل، عن علي بن حسان، عن موسى بن بكر، عن أبي الحسن الاول (عليه السلام) قال: قال: ضرب الرجل يده على فخذه عند المصيبة إحباط لاجره (1). (اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۲۵)
4679 - 8 - عدة من أصحابنا، عن سهل بن زياد، عن الحسن بن علي، عن علي بن عقبة، عن امرأة الحسن الصيقل، عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: لا ينبغي الصياح على الميت ولا شق الثياب. (اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۲۵)
حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا مسلمان کو میت پر چلانا نہیں چاہیے نہ کپڑے پھاڑنے چاہیے۔
4683 - 12 - محمد بن يحيى، عن أحمد بن محمد بن عيسى، عن الحسين بن سعيد، عن النضر بن سويد، عن القاسم بن سليمان، عن جراح المدائني عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: لا يصلح الصياح على الميت ولا ينبغي ولكن الناس لا يعرفونه والصبر خير. (اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۲۶)
حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا مسلمان کو میت پر چلانا نہیں چاہیے لوگ اس مسئلے کو نہیں جانتے اور صبر کرنے میں خیر ہے۔
4674 - 3 - الحسين بن محمد، عن عبدالله بن عامر، عن علي بن مهزيار، عن علي بن إسماعيل الميثمي عن ربعي بن عبدالله، عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: إن الصبر والبلاء يستبقان إلى المؤمن فيأتيه البلاء وهو صبور (1)، وإن الجزع والبلاء يستبقان إلى الكافر فيأتيه البلاء وهو جزوع. (اصول کافی جلد ۳ صفحہ ۲۲۷،من لا یحضر الفقیہ جلد ۵ صفحہ ۲۹)
حضرت ابو عبداللہ نے فرمایا مصیبت اور صبر مومن کی طرف سبقت کرتے ہیں جب اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ صابر ہوتا ہے اور مصیبت اور بےصبری کافر کی طرف سبقت کرتے ہیں اس پر جب مصیبت آتی ہے اور وہ بے صبری کر رہا ہوتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چار باتیں میری امت میں زمانہ جاہلیت کی ایسی ہیں کہ وہ ان کو نہ چھوڑیں گے۔ اپنے حسب پر فخر اور نسب پر طعن کرنا، ستاروں سے پانی کا طلب کرنا، اور نوحہ کرنا فرمایا نوحہ کرنے والی اگر اپنی موت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس حال میں اٹھے گی کہ اسے پگھلے ہوے تانبے کا اور خارش کا لباس پہنایا جاے گا۔
(حیات القلوب از ملا باقر مجلسی جلد ۲ صفحہ ۴۶۰ مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ تہران ایران)
ابن بابویہ نے بسند معتبر سے امام باقر سے روایت کیا ہے حضرت رسول ﷺنے اپنی وفات کے وقت حضرت فاطمہ سے فرمایا اے فاطمہ جب میں وفات پا جاوں تو میرے لئے اپنے چہرے کو نہ چھیلنا،اپنے بالوں کو نہ بکھیرنا اور واویلہ نہ کرنا اور ماتم کرنے والوں کو نہ بلانا۔ (حیات القلوب از ملا باقر مجلسی جلد ۲ صفحہ ۶۸۷ مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ تہران ایران)
حضرت حسین کی اپنے ساتھیوں کو وصیت
حضرت امام صادق سے منقول ہے کہ جب اس منحوس دن کی صبح طلوع ہوئی تو امام مظلوم نے اپنے اصحاب کو صبح کی نماز پڑھائی اور نماز کے بعد اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: آج علی بن حسین کے سوا تم سب شہید ہو جاوگے پس خدا سے ڈرنا اور صبر کرنا تاکہ سعادت پر فائز اور دنیا کی مشقت اور مذلت سے نجات پاو۔ (جلال العیون از ملا باقر مجلسی جلد۲ صفحہ ۵۷۵مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ تہران ایران)
حضرت حسین کی اپنی بہن حضرت زینب کو وصیت
حضرت امام حسین نے حضرت زینب سے فرمایا اے میری بہن میری جان کے برابر ،حلم اور بردباری اختیار کریں اور اپنے اوپر شیطان کو قبضہ نہ دیں،اور اللہ کی تقدیر پر صبر کریں،اور فرمایا اگر یہ لوگ مجھ کو آرام سے رہنے دیتے تو میں ہلاکت کو اختیار نہ کرتا،حضرت زینب نے کہا اس بات سے تو ہمارا دل زیادہ زخمی ہوتا ہے کہ آپ کے لئے اب کوئی چارہ کار نہیں ہے اور مجبوری کی وجہ سے ناپسندیدہ موت کا شربت پی رہے ہیں اور ہم کو مخالفین اور منافقین کے درمیان بے یارو مددگار تنہا مسافرت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں،حضرت زینب نے ہاتھ بلند کر کے رخسار نوچنا شروع کیا اور دوپٹہ سر سے اتار دیا گریبان چاک کیا اوربیہوش ہوگئی امام نےاپنی بہن پر پانی چھڑکا اور ان کو ہوش میں لائے اور جب وہ ہوش میں آگئیں تو فرمایا اے بہن خدا سے ڈرو اور اللہ کی تقدیر پر راضی رہو اور یہ جان لو کہ تمام زمین والوں نے ایک دن مرنا ہےاور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گےسواے اللہ کےہر چیز کو فنا ہے وہ سب کو مارے گا اور مارنے کے بعد پھر زندہ کرے گا وہ باقی رہنے میں منفرد ہے ، میرے بھائی اور ماں جو مجھ سے بہتر تھے وہ شہید ہوگئے اور رسول اکرم ﷺ جو تمام مخلوق سے افضل تھے وہ بھی دنیا میں نہ رہے اور دارالبقاء کی طرف رحلت فرما گئےاور اپنی بہن کو بہت نصحیتیں کیں اور یہ وصیت کی اے میری معزز بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی طرف سے عالم بقا میں رحلت کر جاوں تو گریبان چاک نہ کرنا ،چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلہ نہ کرنا ۔ (جلال العیون از ملا باقر مجلسی جلد۲ صفحہ ۵۵۳مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ تہران ایران)
حضرت حسین کی اپنی صاحبزادی حضرت سکینہ کو وصیت
اے بیٹی ہر شخص کا خدا مددگار ہوتا ہے دنیا اور آخرت میں خدا کی رحمت تم سے جدا نہ ہوگی ،اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا، اور صبر کو اختیار کرنا،عنقریب دنیا فانی ختم ہو جاے گی اور آخرت کی ابدی نعمتوں کو زوال نہیں ہوگا۔ (جلال العیون از ملا باقر مجلسی جلد۲ صفحہ ۵۵۳مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ تہران ایران)
حضرت حسین کی اپنے اہل بیت کو آخری وصیت
پھر دوسری بار اہل بیت رسالت اور خاندان اہل طہارت کو آپ نے الوداع کہا اور ان کو صبر اور ضبط کا حکم فرمایا اور اللہ کے غیر متناہی اجر و ثواب کے ساتھ تسلی دی اور فرمایا کہ اپنے سر پر چادر رکھو ، اور رنج و مصیبت کے لشکر کے لئے تیار ہو جاو، اور جان لو کہ اللہ تمہارا حامی اور حافظ ہے وہ تم کو دشمنوں کے شر سے نجات دے گا اور تمہاری آخرت اچھی کرے گا اور تمہارے دشمنوں کو مختلف بلاوں میں مبتلاء کرے گا،اور تم مصیبت اور بلاوں کے عوض آخرت میں عزت سے نوازے گا،خبردار صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور بےصبری کے کلام زبان پر نہ لانا اس سے تمہارے اجر و ثواب میں کمی ہوگی۔ (جلال العیون از ملا باقر مجلسی جلد۲ صفحہ ۵۷۶مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ تہران ایران)
شیعہ دوستوں کےلئے دعوت فکر
میں نے آپ حضرات کی خدمت میں بہت سی کتب شیعہ سے آئماءشیعہ کے اقوال نقل کئے ہیں جس میں ان سے ماتم کی حرمت واضح طور پر ثابت ہے کہ افراد آل بیت رسول نہ صرف اس فعل کو قبیح اور حرام جانتے تھے بلکہ اس کی سخت مذمت بھی کرتے تھے اور اس فعل کو کفار کی طرف نسبت دیتے تھے میں تمام شیعہ دوستوں کو دعوت فکر دینا چاہوں گاکہ آئیں اور ہماری نہ صحیح کم از کم ان شخصیات کی بات اور حکم پر توعمل کریں جن کو یہ معصوم ان الخطاء مانتے ہیں ، منصوص من جانب اللہ مانتے ہیں اور جن کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ کوئی کام یا کوئی حکم اللہ رب العزت کی مرضی کے خلاف نہیں دیتے اور ان کا کلام وحی کے مترادف ہے کیا یہ آپ کا اپنے ساتھ انصاف ہے کہ ایک طرف خود کو شیعان علی کہنے کے دعوےدار ہیں اور دوسری جانب حضرت علی کی بات ماننے کو تیار نظر نہیں آتے اور باتیں بھی وہ جو کتب اہل سنت کے بجاے آپ کی اپنی کتابوں میں منقول ہیں۔
ایک طرف تو آپ اپنے آپ کو حسینی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور دوسری جانب نواسہ رسول حضرت حسین ؓکی کی گئی آخری وصیتوں کو ماننے کے بجاے ان کی کھلی نافرمانی کرتے نظر آتے ہیں یہ کیسا انصاف ہے کہ ایک طرف یہ نعرہ کہ ہم فقہ جعفری کے پیروکار ہیں اور ہم صرف اہل بیت رسولﷺ کی باتوں کو حجت مانتے ہیں اور جب امام جعفر اور اہل بیت رسولﷺ کی طرف سے ماتم اور نوحے کی مذمت سامنے آتی ہے تو ہمیں اپنی آنکھوں پربندھی ہوئی پٹی کچھ دیکھنے نہیں دیتی اور ہماری نظر میں ان معزز ہستیوں کی بات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہ جاتی اور اپنے عقیدہ کے برخلاف ہم اہل بیت رسول ﷺکی سچی تعلیمات کو چھوڑ کر نام نہاد دین کے ٹھیکیدار جو ذاکرین کی شکل میں موجود ہیں کے ہاتھوں بیوقوف بن کر ایمان جیسی لازوال دولت سے محروم ہونے کے ساتھ ساتھ جنت کی آرزو اپنے دل میں لئے دراصل دوزخ کی طرف تیزی سے گام زن ہوتے ہیں۔
میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمیں اس راستے پر چلائے جو اس کے رسول کریم ﷺاور ان کے اہل بیت اورصحابہ کرام کا متفقہ راستہ تھا اور ان تمام افراد کی نافرمانی اور ان کی شان میں گستاخی سے بچائے اور ہم سب کو اس فعل حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اکرام محمدی
محدث فورم

No comments:

Post a Comment