Monday 12 September 2016

مصحف قسط نمبر 5.

مصحٖف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 5

ویری گڈ سدرہ بیگم نعمان اب باکس پیٹیز لے رہی تھی-یہ باکس پیٹیز تو بہت اچھی بنائیں ہیں- سدرہ اس کی فلنگ میں کیا کیا ڈالا ہے؟
اور سدرہ کے تو فرشتوں کو بھی پتہ نہ تھا- کہ باکس پیٹیز میں ڈلتا کیا کیا ہے-وہ ایک دم کنفیوز سی ماں کی شکل دیکھنے لگی-
دراصل میں کوکنگ کا بہت شوق رکھتی ہوں-اور میرے بچوں کا ٹیسٹ بھی بہت اعلا ہے-نعمان صاحب خود اچھے کھانوں کے بہت رسیا ہیں-اس لیے کہتے ہیں کہ بہو کے ہاتھ کا ٹیسٹ چکھ کر ہی رشتہ مانگنا-ویسے تو آپ کی ساتی بیٹیاں ہی ما شاءاللہ پیاری سلیقہ مند ہیں-مگر محمل تو مجھے خاص طور پر عزیز ہے- سعیدہ آپا نے بتایا تو ہوگا میں کسی خاص مقصد کے لیے آئی ہوں تو اب لمبی چوڑی کیا تمہید باندھوں مہتاب آپا فرقان تو آپ کا دیکھا بھالا ہے اللہ کا شکر ہے ہر طرح سے نوازا ہے اس نے ہمیں-
بس محمل کے لیے آپ لوگوں کے پاس سوالکرنے آئی ہوں-اگر ہو سکے تو اسے میری بیٹی بنا دیں-
اور مہتاب تائی سے مزید سننا دشوار ہو رہا تھا-
محمل تم اندر جاؤ-انہوں نے بمشکل خود کو نارمل رکھتے ہوئے اشارہ کیا-تو وہ ھق دق بیٹھی سب رہی تھی تیزی سے باہر نکل گئی-
پیچھے کیا باتیں ہوئی-کس نے کیا کہا،کب ان خاتون کو کھانا کھلائے بغیر رخصت کیا گیا-اور تائی کے بند کمرے میں سب بڑوں کی کیا بات ہوئی،وہ ہر شئے سے دور اپنے کمرے میں کان لپیٹے پری تھی-
اس کا دل کچھ بھی کرنے کو نہیں چاہ رہا تھا-عجیب سی کیفیت تھی-جیسے بند غآر میں روشنی اور ہوا کا کوئی روزن کھل گیا ہو-بے کیف اور روکھی پھیکی زندگی میںایک دم ہی کوئی خوشگوار اور سرسبز موڑ آگیا تھا-
امیدیں پھر سے زندہ ہو گئی تھی-اور اسے لگ رہا تھا ایک نئی زندگی بانہیں پھیلائے اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہے-
ایرو ناتیکل انجینئیر خوش شکل فرقان ماں باپ کا اکلوتا کھانے کا شوقین -
اس کے لب آپ ہی آپ مسکرانے لگے-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
انہوں نے سدرہ کی جگہ میرا رشتہ مانگا کین یو بلیو اٹ؟
میں تو اتنی شاکڈ ہوگئی تھی،اوہ گاڈ اتنا اچھا پرپوزل ہے- وہ آنتی اتنی لونگ اور سویٹ تھیں کہ مین تمہیں کیا بتاؤںاور پتہ ہے ان کا بیٹا ایرو ناٹیکل انجینئیر ہے-اور تم میری بات سن رہی ہو کی نہی؟اس نے فائل میں پیپر لگاتی نادیہ کا کندھا ہلایا تو وہ-
ہاں ہاں بتاؤ پھر کیا ہوا؟کہہ کر پھر سے صفحہ ترتیب سے لگانے لگی-
ہونا کیا تھا تائی اماں کی شکل تو دیکھنے لائق ہو گئی تھی-
"اچھا! نادیہ اب انگلش کے ورق الٹاتی کچھ تلاش کر رہی تھی-وہ دونوں کالج کے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھیں تھیں-محمل اسے کل کی ساری روداد سنا رہی تھی-
تائی نے تو مجھے فورا وہاں سے بھیج دیا- بے چاری ہر چیز سدرہ نے بنائی کہہ کر پیش کر رہی تھیں-مگر وہ آنٹی بھی بہت تیز تھی ایسے پرخچے اڑائے ک تائی اماں کئی دن تک یاد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم میری بات نہیں سن رہی نادیہ-اس نے خفا سی ہو کر منہ موڑ لیا-
نہیں نہیں سن رہی ہوں نا! نادیہ نے بوکھلا کر فائل ایک طرف سیڑھی پر رکھی مگر وہ منہ موڑے بیٹھی رہی-
اچھا بتاؤ نا تو وہ صاحب مکینکل انجینئیر ہیں؟میں دو گھنٹے بک بک کر کے تھک گئی ہوں کہ وہ ایرو ناتیکل انجینئیر ہے تم اگر سن لیتیں تو یہ سوال نہ کرتی، مگر تم اپنی فائل جوڑو میں جا رہی ہوں- وہ بیگ اٹھا کر اٹھی تو نادیہ بھی ساتھ میں اٹھی-
ارے ناراض تو نا ہو-
نہیں یار سیریسلی ناراض نہیں ہوں - مجھے یاد آیا' مجھے میڈم مصباح سے ملنا تھا ایک کام کے لیے - میں تھوری دیر تک آتی ہوں-محمل نے بظاہر مسکرا کر کہا اور مڑکر چل دی- جب وہ تیز تیز سر جھکائے چلتی تھی تو اونچی پونی ساتھ ساتھ ہی ادھر ادھر جھولتی بہت اچھی لگتی تھی-
چند قدم دور اس نے مڑ کر نادیہ کو دیکھا' نادیہ بہت آرام اور انہماک سے بیٹھی اپنی دائل میں کچھ لکھ رہی تھی-وہ تاسف سے آگے کو چلنے لگی-کتنی جلدی نادیہ نے اس کی سو کالڈ بیسٹ فرینڈ نے اس کی آخری بات پر یقین کر لیا تھا-جیسے وہ واقعی ناراض نہیں ہے-حالانکہ وہ جانتی تھی گھر میں اماں اور کالج میں وہ تھی جن سے وہ دل کی ہر بات شیئر کرتی تھی-مگر دونوں بے توجہی سے سنتی تھی،کبھی کام میں مصروف ہوں ہاں کہہ دیا تو کبھی سنا ہی نہیں-
اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے-وہ سامنے والے برآمدے کے ایک ستون سے تیک لگا کر بیٹھ گئی-اور اداسی سے سامنے لان کے سبزے کو دیکھا-
سنہری اور چمکیلی صبح ہر جانب بکھری تھی-گھاس پہ ٹولیوں کی شکل میں سفید یونیفارم میں لڑکیاں بیٹھی تھیں-کوئی کھانے پینے اور کوئی گپ شپ میں مصروف تھی- سب کی اپنی اپنی دنا تھی اور وہ ان میں مگن تھیں-
کیا یہی زندگی ہوتی ہے-یا کیا اس کی زندگی جیسی مشکل زندگی کسی اور کی نا تھی-اس نے آزردگی سے سوچا تھا-
کیا مجھے کبھی وہ خوشیاں نہیں ملیں گی جو میں چاہتی ہوں؟بڑا سا گھر دولت اثر ورسوخ محبت کرنے والا لائف پارٹنر۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ سب ایک ساتھ معرے قدموں میں ڈھیر ہوسکتا ہے؟ اس نے ستون سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں-بند پلکوں پر سنہرے خواب اترنے لگے تھے-وہ ایرو ناتیکل انجینئیر یا فواد ان میں سے کسی کی بھی بیوی بن جاؤں تو سب کچھ میرا ہو سکتا ہے-
سب کچھ میرے قدموں میں ڈھیر ہوسکتا ہے-بلند ہر چیز کی بلندی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو وہ عملیات کر لیتا ہے وہ دنیا پر راج کرتا ہے-
" کچھ ایسا ہو کہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچھے پھرنے لگیں- مال دولت تم پر نچھاور ہو-تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں آگرے-
"اور اگر میں ایسا کچھ تمیں دے دوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں ایک دم سے ہی وہ ساری باتیں اور اس سیاہ فام لڑکی کی چمکیلی باتیں یاد آئی تھیں-
"تم سب کو مٹھی میں کر کے ساری دنا پہ راج کرو کیا تم یہ نہیں چاہتی؟
اس نے گھببرا کر ادھر ادھر دیکھا-یوں لگتا تھا وہ لڑکی اپنی بھید بھری آواز میں اس کے پاس سے ہی بول رہی ہے-
پتہ نہیں کیا کروں-اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا،ایک لمحے کو اس نے وہ کتاب اس سے مانگنے کا سوچا مگر دوسرے ہی پل خوف کا غلبی طاری ہو گیا-
نہیں نہیں پتہ نہیں کونسا سفلی علم ہے اس کے پاس ۔۔۔۔۔۔۔ میں ان کاموں میں نہیں پڑوں گی ۔۔۔۔۔
آغآ جان کو معلوم ہوا تو ٹانگیں توڑ دیں گے میری-
وہ خودکو سرزنش کرتی-فائل اور بیگ سنبھالے اٹھ کھڑی ہوئی-اسے اب اس سیاہ فام لڑکی سے کوئی بات نہیں کرنی تھی! بس اس نے فیصلہ کر لیا تھا-
البتہ دل کے کسی چھپے خانے میں اس کتاب کو پانے کی خواہش نے بھی خا موشی سے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان دنوں مسرت بہت خوش رہنے لگی تھی-اور وہ ان کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی-
پتی ہے محمل بہت اچھے لوگ ہیں یہ-نعمان بھائی برئ بھلے مانس انسان ہیں-اور ان کا بیٹا تو بہت ہی خوبرو ہے-اللہ نے ہماری سن لی ہے وہ ضرور ہم پر رحم کرے گا-
وہ کبھی کبھی بیٹھ کر ان کو بتانے لگ جاتیں-تو وہ خاموشی سے مسکراہٹ دبائے سر جھکائے سب سنتی چلی جاتی-اب تو گھر کے کام بھی آرام سے کر دیتی،کچھ دن سے تائی کو جواب دینے بھی چھوڑ دئیے تھے-پہلی بار اس زندان سے نکلنے کی کوئی امید جو بندھی تھی-
سدرہ البتہ اسے اٹھتے بیٹھتے عجیب نظروں سے ضرور دیکھھتی تھی-محمل پرواہ نہ کرتی مگر اس روز تو حد ہی ہو گئی-وہ شام کی چائے ٹرالی دھکیلتی لان میں لائی-تو سدرہ نے ایک دم ہی اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا-
شاید ابھی تک ناراض ہے-اس نے سوچا اور پھر جیسے مداوا کرنے کے لئے سب سے پہلے سدرہ کا کپ بنایا-
سدرہ آپی چائے اور بڑی شائستگی سے مسکرا کر کپ بڑھایا-
آپی؟ میں تمہاری آپی لگتی ہوں؟سدرہ نے کپ لیتے لیتے زور سے پٹخ دیا-گرم ابلتی چائے محمل کے گھٹنے پر گری- وہ بلبلا کر اٹھ کھڑی ہوئی-کپ گھاس پر جا گرا-
یوں لوگوں کے سامنے آپی کہہ کر تم یہ ظآہر کرتی ہو میں بوڑھی ہو گئی ہوں ہاں؟ سدرہ یک دم چلانے لگی تھی- ممی ممی اس کو دیکھیں یہ ہمیشہ یہی کرتی ہے-یہ لوگوں کے سامنے مجھے بے عزت کرتی ہے-سدرہ نے زور زور سے رونا شروع کر دیا-
ارے ان کی تو عادت ہے یہ ماں بیٹی اس گھر کی خوشیاں دیکھ ہی نہیں سکتیں-نہ میری بیٹی تو غم نہ کر -اور اب تو کھڑی کیوں ہے-جاؤ اپنی نحوست لے جاؤ میرے سامنے سے- تائی مہتاب نے بھی بہت دنوں کا غصہ ایک دم نکالا-
وہ شاکڈ سی کھڑی تھی- بھاگ کر اندر آئی-مسرت پریشان سی کچن میں کھڑی تھی انہوں نے بھی سب سن لیا تھا-محمل کچھ کہے بغیر کمرے میں بند ہوگئی-
اندازہ تو اسے ہو گیا تھا کہ تائی کا موڈ اس روز سے بیگم نعمان کی باتوں پے خراب ہے-مگر وہ کچھ کہہ بھی نہیں رہی تھی-شاید اس بات پہ ک وہ اب محمل کی ہونے والی سسرال تھی-ان سے کیا پنگا لینا-
مگر رات میں اس کی یہ خوش فہمی بھی دور ہوگئی۔جب کچن میں اس نے تائی مہتاب کو مسرت سے کہتے سنا-
ہم نے تو اسی روز نعمان بھائی لوگوں کو انکار کر دیا تھا-محمل کی کونسا شادی کی عمر ہے،ابھی گھر کی بڑی بیٹیاں بیٹھی ہیں پہلے ان کی ہو گی،پھر ہہی محمل کا سوچیں گے-چائے آغا صاحب کے کمرے میں پہنچا دو-وہ رات کا کھانا نہیں کھائیں گے اور ٹیبل لگا دو-وہ حکم صادر کر کے بے نیازی سے باہر چلی گئیں-کچن کے دروازے پے دھواں دھواں چہرہ لیے کھڑی محمل پر بس ایک استہزائیہ نگاہ اچھالی تھی-جبکہ اندر نڈھال سی بمشکل کھڑی مسرت کو دیکھنا بھی گوارا نہ کیا تھا-جن کے دل پر انہوں نے الٹٰ برچھی پھیر دی تھی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسے نہیں پتہ کیوں پر وہ رات کو دیر تک برآمدے کی سیڑھیوں پہ بیٹھی روتی رہی تھی-اندر سب سو رہے تھے مسرت بھی سونے چلی گئی تھی-وہ پڑھائی کا بہانہ بنا کر باہر آئی تھی اور دیر سے یہی بیٹھی خاموش آنسو بہا رہی تھی-
کچی عمر کا پہلا خواب دیکھا تھا-وہ بھی ایسا کرچی کرچی ہوا تھا کہ روح تک بلبلا اٹھی تھی-وہ اتنی ہرٹ ہوئی تھی کہ دل پھٹ رہا تھا-کوئی اتنا بھی ظالم ہوسکتا ہے جتنا تائی تھی؟جتنا یہ سب لوگ تھے-اس کا دل چاہ رہا تھا ان سب باے خبر سوئے ہوؤں کے کمروں میں آگ لگا دے-یا چھری سے ان کی گردنیں کاٹ پھینکے-
یا زہر دے کر سب کو مار دے-اور آخر میں خود بھی پھانک لے-نفرت بہت شدید نفرت محسوس ہوتی تھی اپنے ان گھٹیا رشتے داروں سے -اس کا دل چاہتا تھا وہ ان سب سے دور چلی جائے-جہاں اسے ان سب کی شکل بھی نظر نہ آئے-اور واقعی اب وہ چلی بھی جائے گی-اس نے سوچ لیا تھا-بس ایک بار اسے وہ اسکالر شپ مل جائے-جس کے لیے اس نے برٹش ہائی کمیشن کے اعلان کے بعد اپلائی کیا تھا-
بھلے گھر کے جو حالات ہوں-اس نے ایف ایس سی تک بورڈ کے ہر ایگزامز میں ٹاپ کیا تھا-ایف ایس سی پری انجینئیرنگ میں ٹاپ کرنے کے باوجود اس کا انجینئیرنگ کی طرف رجحان نہ تھا-یا رہا نہ تھا سو بی ایس سی میتھس میں ایڈمیشن لے لیا تھا اور اسے امید تھی اب بھی وہی ٹاپ کرے گی-اور اگر اسکالر شپ مل جائے تو بہت آسانی سے اسے اس زندان سے چھٹکارا مل جائے گا
وہ آنسو ہتھیلی کی پشت سے ڑگرتیاس سوچ میں غلطاں تھی-کہ کوئی اس کے سامنے آکر کھڑا ہوا وہ جوتے دیکھ کر چونکی اور بھیگا ہوا چہرہ ا ٹھایا-
وسیف اس کے بلکل سامنے کھڑا تھا-
وسیم بھائی؟ وہ کرنٹ کھا کر اٹھی اور دو قدم پیچھے ہٹی-
وہ تئی مہتاب کا تیسرے نمبر کا بیٹا تھا-فواد کا چھوٹا نکما نالائق و آوارہ بھائی-اس وقت بھی وہ اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا-جانے کب اچانک آکر ادھر کھڑا ہوا تھا-کھلا گریبان تنگ جینز گلاے سے لپٹی چین،بکھرے بال اور سرخ آنکھیں- وہ نشہ کرتا تھاگھر میں سب کو علم تھا-یہاں تک کہ فضہ چاچی اپنی بیٹیوں کو اس کے قریب بھی نہیں جانے دیتی تھیں-خود ح"سن بھی احتیاط کرتا تھا-آرزو البتہ نڈر اور لاپرواہ تھی-ویسے بھی وسیم گھر میں بہت کم ہی نظر آتا تھا-
محمل ہر ممکن کوشش کرتی کہ اکیلے مین اس سے سامنا نہ ہو-کیونکہ اسے اس کی آنکھوں سے خوف آتا تھا-مگر آج جانے کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کر رہی ہو؟وہ ایک قدم اوپر استیپ پر چڑھا تو وہ بے اختیار مزید پیچھے ہٹ گئی-
کک کچھ بھی نہیں-وہ آغا جان آواز دے رہے ہیں-وہ ایک دپ پلٹ کر اندر بھاگ گئی-
ہونہہ- وسیم نے تمسخرانہ سر جھٹکا-چند لمحے ادھر کھڑا سوچتا رہا پھر گیٹ کی جانب چل پڑا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ صبح بہت بوجھل سی تھی-وہ بس اسٹاپ پر اکیلی بٹھی متورم آنکھوں سے دور افق پر جانے کے تلاش کر رہی تھی- جہاں نیلی صبح کے پرندے اڑ رہے تھے-رات بھر رونے کے باعث اس کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں-اور اوپر سے وہ سیاہ فام لڑکی بھی نہیں آئی تھی-
جانے آج وہ کدھر رہ گئی تھی-ابھی تک کیوں نہ آئی تھی-صرف اس کے لیے محمل آج پندرہ منٹ پہلے ہی آگئی تھی-تا کہ دس کی بجائے پندرہ منٹ اس کے ساتھ مل جائیں-مگر یہ تو اسے معلوم بھی نہ تھا کہ وہ آئی کب ہے اور کیوں اسکا انتظار کر رہی ہےحالانکہ کوئی بات ایسی نہ تھی-جسے وہ اس کے ساتھ شئیر کر سکتی یا اس کے پاس بیٹھ کر رو سکتی کسی مسئلے کا حل تلاش کر سکتی-نہیں اس کے پاس بتانے کو کچھ بھی تو نہیں تھا-پھر بھی اسے اس کا انتظار تھا-وہ بار بار کلائی پہ بندھی رسٹ واچ دیکھتی-لمحے سرکتے جا رہے تھے-پچیس منٹ ختم ہونے کو تھے-مگر اس سیاہ فام لڑکی کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہ تھا-
بس کا ہارن بجا تو وہ شکستہ قدموں کے ساتھ چل دی-سنگی بینچ خالی رہ گیا-صبح کے پرندے اپنے سفر کو چل دیئے-اور نیلاہٹ بھرا اقق سنہری کرنوں سےبھیگنے لگا-
وہ بہت اداس سی بس میں سوار ہوئی تھی-سارا راستہ خاموشی سے گردن موڑے کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی-اس کی لمبی صراحی مانند سنہری گردن اونچی پونی ٹیل کے باعث پیچھے سے بھی چھلکتی تھی اور اسے یکسر ممتاز بنا دیتی تھی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے :)

No comments:

Post a Comment