Tuesday 30 August 2016

شوہر کی غیرت "



 شوہر کی غیرت "


ایک عورت مکمل پردے کے عالم میں قاضی کے سامنے کهڑی تهی. اس نے اپنے شوہر کے خلاف مقدمہ دائر کر رکها تها. مقدمے کی نوعیت بڑی عجیب تهی کہ میرے شوہر کے ذمہ مہر کی 500 دینار رقم واجب الاداء ہے وه ادا نہیں کر رہا.لہذا مجهے مہر کی رقم دلائی جائے.. قاضی نے خاوند سے پوچها تو اس نے انکار کر دیا. عدالت نے عورت سے گواه طلب کیے.. عورت نے چند گواه عدالت میں پیش کر دیے...
گواہوں نے کہا:" ہم اس عورت کا چہره دیکه کر ہی بتا سکتے ہیں کہ یہ واقعی وه عورت ہے جس کی گواہی دینے ہم آئے ہیں. لہذا عورت کو حکم دیا جائے کہ وه اپنے چہرے سے نقاب ہٹائے۔"
عدالت نے حکم دیا کہ عورت اپنے چہرے سے نقاب اتارے تاکہ گواه شناخت کر سکیں.ادهر عورت تذبذب کا شکار تهی کہ وه نقاب اتارے یا نہیں....گواه اپنے موقف پر مصر تهے...
اچانک اس کے شوہر نے غیرت میں آکر کہا" مجهے قطعا یہ برداشت نہیں کہ کوئی غیر محرم میری بیوی کا چہره دیکهے... لہذا گواہوں کو چہره دیکهنے کی ضرورت نہیں .. واقعی اس کے مہر کی رقم میرے ذمہ واجب الاداء ہے...
عدالت ابهی فیصلہ دینے والی ہی تهی کہ وه عورت بول اٹهی..!!
"اگر میرا شوہر کسی کو میرا چہره دکهلانا برداشت نہیں کرتا تو میں بهی اسکی توہین برداشت نہیں کر سکتی. میں اپنا مہر معاف کرتی ہوں. میں غلطی پر تهی جو ایسے شخص کے خلاف مقدمہ دائر کیا.."
( ماخوذ از سنہری کرنیں)

Monday 29 August 2016

یوم عرفہ کا روزہ

عرفہ کا روزہ : ایک تحقیقی جائزہ
===================
مقبو ل احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ، طائف(سعودی عرب)

احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہےجس دن اللہ تعالی عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخر کرتاہے اور کثرت سے انہیں جہنم سے رستگاری دیتا ہے تود وسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملاہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
 چنانچہ ابوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صیام عرفہ کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
يُكفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: یہ گذرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ۔
اس روزے سے متعلق آج سے پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن (میڈیاکی وجہ سے ایک گھرآنگن )کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیداہوگیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھاجائے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفہ والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہرملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9/ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا۔
اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روزہ کے سلسلہ اسلامی احکام کیا ہیں تب آپ خود بات واضح ہوجائے گی ۔
روزہ سے متعلق اسلام کے دو اہم قاعدے ہیں ۔
پہلا قاعدہ : رویت ہلال کا ہے یعنی روزہ رکھنے میں چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگاجسے عربی میں قمری نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔
بخاری شریف میں آپ ﷺ کا حکم ہے ۔
صوموا لرؤيَتِهِ وأفطِروا لرؤيتِهِ ، فإنْ غبِّيَ عليكم فأكملوا عدةَ شعبانَ ثلاثينَ(صحيح البخاري:1909)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔
یہ حدیث روزہ سے متعلق عام ہے خواہ کوئی بھی روزہ ہو اس میں یہی حکم لگے گا یعنی روزہ میں اپنے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ رمضان كا روزہ رکھنے کے لئے چاند دیکھا جاتا ہے نہ کہ سعودی عرب کواوراسی طرح جب افطارکیاجاتاہے تو اس وقت بھی چاند ہی ڈوبنے کا انتظار کیاجاتا ہے ۔
دوسرا قاعدہ : اختلاف مطالع کا ہے ۔
 ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ دلیل :
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کا چاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے ، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔
امام مسلم کا باب : باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ
ترمذی کا باب : باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ
نسائی کا باب: باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ
ان دونوں اصولوں کی روشنی میں عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے 9/ذی الحجہ کو رکھا جائے گا۔ یہی بات دلائل کی رو سے ثابت ہوتی ہے۔
اگر روزے سے متعلق رویت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائے گا ، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی افطار کرسکتاہے ۔ ایسے ہی اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنے سے مسلمانوں کے روزے ،نماز،قربانی، عیدیں اور دیگر عبادات کی انجام دہی مشکل ہوجائے گی ۔

عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب
پہلا اشکال : جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفہ کے دن ہی سارے مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں ۔
یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔
پہلی وجہ : قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپرہوچکا ہے ، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جوکہ موجود نہیں ۔
دوسری وجہ : مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو۔ مثلا "ایام تشریق "حج کی قربانی کی وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں۔ جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہوجاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی "ایام تشریق" سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔
قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر /عیدالاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ گویا عرفہ ایک نسبت ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہوگا۔
تیسری وجہ: اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں ، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے تاریخ کے ساتھ 9/ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جوکہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے،اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نوذی الحجہ کو رکھاجائے گا ۔
چوتھی وجہ : اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتا۔
پانچویں وجہ : اگر یہ وقوف عرفہ کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔
چھٹی وجہ : وقوف عرفہ کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔یہ وقت روزہ کے واسطےسعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے۔گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی وقمری کا اعتبار ہوا۔ اس بناپر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگاسکتے ہیں وقوف کا نہیں۔
ساتویں وجہ : سعودی والوں کے لئے بھی عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے ، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفہ کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل حجاج کرام سے ہی ملتی ہے ، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ )سے حج شروع کرتے ہیں ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلاجائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ." (سورة البقرة: 189)
ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔
دوسرا اشکال :
 قائلین وقوف عرفہ کا ایک اشکال یہ ہے کہ احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت واردہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفہ کے وقوف پہ ہی یہ روزہ رکھا جائے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفہ پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفہ کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیاوالوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔اور اس بات پہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن پھر اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی تب تو کئی ایام ہوجائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگرسارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر ، ہندوپاک میں ایک دن بعد شب قدر ، رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہرملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہوکر رکھتے ہیں۔

تیسرا اشکال : بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔
الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ(صحيح الترمذي:697)
ترجمہ: روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں ۔ اس میں اتحاد ہے۔
اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیاجائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں ، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی بات ہے وقوف عرفہ پہ روزہ رکھنے کے قائلین اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے روزہ پرہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟
اس حدیث کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبرہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔

چوتھا اشکال : ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے لوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفہ کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نوذی الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اس لئے معذور تھے اب زمانہ ترقی کرگیا اور وقوف عرفہ سب کو معلوم ہوجاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہوگیا۔
اولا: آج بھی پوری دنیا میں ہرکس وناکس کومیڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہوپاتا ، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔
ثانیا : اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہوجائے تو تب آپ کیا کہیں گے کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہوگئے ۔ یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے ۔اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتاہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیرمیڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہاہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے قمری نظام سے رمضان کا روزہ ، ایام بیض ، عاشواء اور عرفہ معلوم ہوتا رہے گا۔

قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ
(1)جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ بعض ممالک لیبیا ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے ، اس صورت میں وقوف عرفہ ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟ عید کے دن روزہ منع ہے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
نهى النبيُّ صلى الله عليه وسلم عن صومِ يومِ الفطرِ والنحرِ( صحيح البخاري:1991)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔
تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہوجاتاہے ۔ روزہ کے متعلق اصول واحکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کرواکر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کردینا بڑی ناانصافی ہے ۔

(2)جب ان سے کہاجائے کہ آج سے سوسال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے( اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں)تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔
یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہوپاتا۔اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھاسوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کااور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں۔

ایک اہم نکتہ : نیوزی لینڈ اور سعودی میں گیارہ گھنٹے کا فرق ہے، جب سعودی میں نوذی الحجہ کا سورج نکلتا ہے تو نیوزی لینڈ میں آٹھ ذی الحجہ کا سورج غروب ہوتاہے۔تو کیا نیوزی لینڈ والے رات کو روزہ رکھیں گے؟ اور اگر رات گزار کر روزہ رکھیں تو ان کے یہاں تو ذی الحجہ کی نو تاریخ ہوگی مگر سعودی میں دس تاریخ یعنی عید کا دن ہوگا، تو کیا نیوزی لینڈ والے عید کے دن روزہ رکھیں گے جو کہ ممنوع ہے۔ عرفہ کا روزہ سمجھنے کے لئے یہ ایک اہم نکتہ ہے ۔

خلاصہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے ذی الحجہ کی نو تاریخ کو رکھا جائے گا۔

یوم عرفہ کا روزہ

عرفہ کا روزہ : ایک تحقیقی جائزہ
===================
مقبو ل احمد سلفی
داعی دفتر تعاونی برائے دعوت وارشاد ، طائف(سعودی عرب)

احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ایک طرف حجاج کے لئے وقوف عرفات کا دن ہےجس دن اللہ تعالی عرفات میں وقوف کرنے والوں پر فخر کرتاہے اور کثرت سے انہیں جہنم سے رستگاری دیتا ہے تود وسری طرف عام مسلمانوں کے لئے اس دن روزہ رکھنے کا حکم ملاہے جو ایک سال گذشتہ اور ایک سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
 چنانچہ ابوقتادہ رضي اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صیام عرفہ کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا :
يُكفِّرُ السنةَ الماضيةَ والباقيةَ(صحيح مسلم:1162)
ترجمہ: یہ گذرے ہوئے اورآنے والے سال کے گناہوں کاکفارہ ہے ۔
اس روزے سے متعلق آج سے پہلے کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا تھا مگر آج گلوبلائزیشن (میڈیاکی وجہ سے ایک گھرآنگن )کی وجہ سے لوگوں کے درمیان یہ اختلاف پیداہوگیا کہ عرفہ کا روزہ کب رکھاجائے؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ روزہ سعودی عرب کے حساب سے وقوف عرفہ والے دن رکھنا ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ ہرملک والا اپنے یہاں کی تاریخ سے 9/ذی الحجہ کا روزہ رکھے گا۔
اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روزہ کے سلسلہ اسلامی احکام کیا ہیں تب آپ خود بات واضح ہوجائے گی ۔
روزہ سے متعلق اسلام کے دو اہم قاعدے ہیں ۔
پہلا قاعدہ : رویت ہلال کا ہے یعنی روزہ رکھنے میں چاند دیکھنے کا اعتبار ہوگاجسے عربی میں قمری نظام بھی کہہ سکتے ہیں۔
بخاری شریف میں آپ ﷺ کا حکم ہے ۔
صوموا لرؤيَتِهِ وأفطِروا لرؤيتِهِ ، فإنْ غبِّيَ عليكم فأكملوا عدةَ شعبانَ ثلاثينَ(صحيح البخاري:1909)
ترجمہ: چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو اور اگر تم پر چاند مخفی ہو جائے تو پھر تم شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔
یہ حدیث روزہ سے متعلق عام ہے خواہ کوئی بھی روزہ ہو اس میں یہی حکم لگے گا یعنی روزہ میں اپنے اپنے ملک کی رویت کا اعتبار ہوگا۔ اسی وجہ سے دیکھتے ہیں کہ رمضان كا روزہ رکھنے کے لئے چاند دیکھا جاتا ہے نہ کہ سعودی عرب کواوراسی طرح جب افطارکیاجاتاہے تو اس وقت بھی چاند ہی ڈوبنے کا انتظار کیاجاتا ہے ۔
دوسرا قاعدہ : اختلاف مطالع کا ہے ۔
 ایک شہر کی رویت قریبی ان تمام شہر والوں کے لئے کافی ہوگی جن کا مطلع ایک ہو۔ مطلع کے اختلاف سے ایک شہر کی رویت دوسرے شہر کے لئے نہیں مانی جائے گی ۔ دلیل :
أنَّ أمَّ الفضلِ بنتَ الحارثِ بعثَتْه إلى معاويةَ بالشامِ . قال : فقدمتُ الشامَ . فقضيتُ حاجتَها . واستهلَّ عليَّ رمضانُ وأنا بالشامِ . فرأيتُ الهلالَ ليلةَ الجمعةِ . ثم قدمتُ المدينةَ في آخرِ الشهرِ . فسألني عبدُ اللهِ بنُ عباسٍ رضي اللهُ عنهما . ثم ذكر الهلالَ فقال : متى رأيتُم الهلالَ فقلتُ : رأيناه ليلةَ الجمعةِ . فقال : أنت رأيتَه ؟ فقلتُ : نعم . ورأه الناسُ . وصاموا وصام معاويةُ . فقال : لكنا رأيناه ليلةَ السَّبتِ . فلا تزال نصومُ حتى نكمل ثلاثينَ . أو نراه . فقلتُ : أو لا تكتفي برؤيةِ معاويةَ وصيامِه ؟ فقال : لا . هكذا أمرَنا رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ (صحيح مسلم:1087)
ترجمہ : حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کا چاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ نے اسی طرح حکم فرمایا ہے ۔
یہ حدیث مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں موجود ہے ، اس حدیث پہ محدثین کے ابواب سے بات اور بھی واضح ہوجاتی ہے۔
امام مسلم کا باب : باب بَيَانِ أَنَّ لِكُلِّ بَلَدٍ رُؤْيَتَهُمْ وَأَنَّهُمْ إِذَا رَأَوُا الْهِلاَلَ بِبَلَدٍ لاَ يَثْبُتُ حُكْمُهُ لِمَا بَعُدَ عَنْهُمْ
ترمذی کا باب : باب مَا جَاءَ لِكُلِّ أَهْلِ بَلَدٍ رُؤْيَتُهُمْ
نسائی کا باب: باب اخْتِلاَفِ أَهْلِ الآفَاقِ فِى الرُّؤْيَةِ
ان دونوں اصولوں کی روشنی میں عرفہ کا روزہ بھی اپنے ملک کے حساب سے 9/ذی الحجہ کو رکھا جائے گا۔ یہی بات دلائل کی رو سے ثابت ہوتی ہے۔
اگر روزے سے متعلق رویت ہلال کا حکم نکال دیا جائے تو روزہ بے معنی ہوجائے گا ، ایک دن کا بھی کوئی روزہ نہیں رکھ سکتا ہے ، نہ سحری کھاسکتا اور نہ ہی افطار کرسکتاہے ۔ ایسے ہی اختلاف مطالع کا اعتبار نہ کرنے سے مسلمانوں کے روزے ،نماز،قربانی، عیدیں اور دیگر عبادات کی انجام دہی مشکل ہوجائے گی ۔

عرفہ کے روزہ سے متعلق اشکالات کا جواب
پہلا اشکال : جن لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں تاریخ کا ذکر نہیں ہے بلکہ عرفہ کا لفظ آیا ہے اور عرفہ کا تعلق عرفات میں وقوف کرنے سے ہے اس لئے حاجی کے وقوف عرفہ کے دن ہی سارے مسلمان عرفہ کا روزہ رکھیں ۔
یہ استدلال کئی وجوہ سے صحیح نہیں ہے ۔
پہلی وجہ : قاعدے کی رو سے روزہ میں رویت ہلال اور اختلاف مطالع کا اعتبار ہوگا جس کا ذکر اوپرہوچکا ہے ، عرفہ کے روزہ کو اس قاعدے سے نکالنے کے لئے واضح نص چاہئے جوکہ موجود نہیں ۔
دوسری وجہ : مناسک حج میں حج کی نسبت سے بہت سارے نام رکھے گئے ہیں ان سب پر عمومی قاعدہ ہی لگے گا الا یہ کہ خاص وجہ ہو۔ مثلا "ایام تشریق "حج کی قربانی کی وجہ سے نام رکھا گیا ہے اور اسے حاجیوں کے لئے کھانے پینے اور قربانی کرنے کا دن بتلایا گیا ہے اور ہم سب کو معلوم ہے حاجیوں کے ایام تشریق اور دنیا کے دوسرے ملک والوں کے ایام تشریق الگ الگ ہیں۔ جب سعودی میں قربانی کا چوتھا دن ختم ہوجاتا ہے تو دیگر بہت سارے ممالک میں ایک دن ابھی باقی ہوتا ہے ۔ اسی "ایام تشریق" سے ہم استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے ۔
قربانی کی نسبت بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے اور آپ ﷺ نے اس نسبت سے یوم النحر /عیدالاضحی کو قربانی کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ گویا عرفہ ایک نسبت ہے جہاں تک اس دن روزہ رکھنے کا معاملہ ہے تو روزے میں عمومی قاعدہ ہی لاگو ہوگا۔
تیسری وجہ: اگر عرفہ کے روزہ سے متعلق بعض حدیث میں تاریخ نہیں آئی تو کوئی حرج نہیں ، دوسری حدیث میں نبی ﷺ سے تاریخ کے ساتھ 9/ذی الحجہ تک روزہ رکھنا ثابت ہے ۔ بعض ازواج مطہرات کا بیان ہے :
أنَّ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ كانَ يَصومُ تِسعًا مِن ذي الحجَّةِ ، ويومَ عاشوراءَ ، وثلاثةَ أيَّامٍ من كلِّ شَهْرٍ ، أوَّلَ اثنينِ منَ الشَّهرِ وخَميس(صحيح أبي داود:2437)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے ( پہلے ) نو دن ، عاشورہ محرم ، ہر مہینے میں تین دن اور ہر مہینے کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اس حدیث میں عرفہ کا روزہ بھی داخل ہے جوکہ تاریخ کے ساتھ ثابت ہے،اس سے عرفہ کے روزہ کی اس ناحیہ سے تائید ہوتی ہے کہ اسے نوذی الحجہ کو رکھاجائے گا ۔
چوتھی وجہ : اگر عرفات میں وقوف سے متعلق روزہ ہوتا تو عرفہ نہیں عرفات کا ذکر ہوتا۔
پانچویں وجہ : اگر یہ وقوف عرفہ کی وجہ سے ہوتا تو حاجیوں کے لئے بھی یہ روزہ مشروع ہوتا مگر یہ حاجیوں کے لئے مشروع نہیں ہے ۔
چھٹی وجہ : وقوف عرفہ کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے ۔یہ وقت روزہ کے واسطےسعودی والوں کے لئے بھی کافی نہیں ہے کیونکہ روزے میں صبح صادق کے وقت سحری اور نیت کرنا پھر غروب شمس پہ افطار کرنا ہے۔گویا روزے میں وقوف کا اعتبار ہوا ہی نہیں اس میں تو نظام شمسی وقمری کا اعتبار ہوا۔ اس بناپر بھی نسبت کا ہی اندازہ لگاسکتے ہیں وقوف کا نہیں۔
ساتویں وجہ : سعودی والوں کے لئے بھی عرفہ نو ذی الحجہ ہی ہے ، وہ روزہ رکھتے ہوئے عرفہ کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ اس کی دلیل حجاج کرام سے ہی ملتی ہے ، وہ لوگ قمری تاریخ کے حساب سے آٹھ ذی الحجہ (یوم الترویہ )سے حج شروع کرتے ہیں ، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا ہے کہ ذی الحجہ کی سات تاریخ ہو اور حاجی منی جائے یا آٹھ تاریخ ہو اور حاجی عرفات چلاجائے ۔ مناسک حج میں بھی یوم الترویہ اور یوم عرفہ تاریخ کے طور پر ہی ہے کیونکہ اسلامی عبادات میں رویت ہلال کا بڑا دخل ہے ۔ اسی چیز کی طرف قرآن میں رہنمائی کی گئی ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : يَسْئَلُوْنَكَ عَنِ الأَهِلَّةِ قُلْ هِىَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ." (سورة البقرة: 189)
ترجمہ: لوگ آپ سے ہلال کے بارے میں پوچھتے ہیں ،کہو یہ لوگوں کے لئے اوقات اور حج کی تعیین کا ذریعہ ہے۔
دوسرا اشکال :
 قائلین وقوف عرفہ کا ایک اشکال یہ ہے کہ احادیث میں یوم عرفہ کی بڑی فضیلت واردہے اور عرفہ وقوف عرفات پہ ہے اس لئے عرفہ کے وقوف پہ ہی یہ روزہ رکھا جائے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ عرفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ہے مگر عرفہ کے روزہ سے متعلق یہ کہنا کہ اس کی فضیلت کی وجہ سے وقوف عرفہ پر ہی روزہ رکھنا ہے غلط استدلال ہے ۔ اللہ تعالی نے یوم عرفہ کو حجاج کے علاوہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے باعث فضیلت بنایا ہے ۔ حاجیوں کو وقوف عرفہ کا ثواب ملتا ہے جبکہ دنیاوالوں کو یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی وجہ سے ثواب ملتا ہے ۔اور اس بات پہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں کہ یوم عرفہ تو ایک دن پھر اپنے اپنے ملکوں کے حساب سے کیسے فضیلت ہوگی تب تو کئی ایام ہوجائیں گے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ اللہ تعالی نے لیلۃ القدر ایک بنائی ہے مگرسارے مسلمانوں کے لئے اپنے اپنے حساب سے فضیلت ملتی ہے ۔ سعودی میں ایک دن پہلے شب قدر ، ہندوپاک میں ایک دن بعد شب قدر ، رات ایک ہی ہے اور ثواب کی امید ہرملک والے اپنے اپنے ملک کے حساب سے شب قدر میں بیدار ہوکر رکھتے ہیں۔

تیسرا اشکال : بعض لوگ ترمذی کی ایک روایت سے دلیل پکڑتے ہیں ۔
الصَّومُ يومَ تَصومونَ ، والفِطرُ يومَ تُفطِرونَ ، والأضحَى يومَ تُضحُّونَ(صحيح الترمذي:697)
ترجمہ: روزہ اس دن رکھا جائے جس دن لوگ روزہ رکھتے ہیں ، عید الفطر اور عید الاضحیٰ بھی اسی دن منائی جائے جب لوگ مناتے ہیں۔
اس حدیث کی روشنی میں کہتے ہیں کہ جس دن عرفہ کا روزہ سعودی عرب میں رکھا جاتا ہے اس دن سب لوگ رکھیں ۔ اس میں اتحاد ہے۔
اگر اس حدیث سے ایسا ہی مسئلہ استنباط کیاجائے جبکہ اس میں لفظ عرفہ ذکر ہی نہیں اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ساتھ رمضان کا روزہ رکھیں بلکہ ایک ساتھ سحری کھائیں، ایک ہی ساتھ افطار کریں ، ایک ہی ساتھ اور ایک ہی وقت میں عیدالفطر اور عیدالاضحی کی نمازیں پڑھیں ۔ ظاہر ہی بات ہے وقوف عرفہ پہ روزہ رکھنے کے قائلین اس بات کو نہیں مانیں گے تو پھر عرفہ کے روزہ پرہی پوری دنیا کا اتحاد کیوں ؟
اس حدیث کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ روزہ اور عید ، جماعت اور لوگوں کی اکثریت کے ساتھ معتبرہے جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے ۔

چوتھا اشکال : ایک اور بات کہی جاتی ہے کہ پہلے لوگ نہیں جان پاتے تھے کہ وقوف عرفہ کب ہے اس لئے اپنے ملک کے حساب سے نوذی الحجہ کا روزہ رکھا کرتے تھے اس لئے معذور تھے اب زمانہ ترقی کرگیا اور وقوف عرفہ سب کو معلوم ہوجاتا ہے اس لئے وہ عذر ساقط ہوگیا۔
اولا: آج بھی پوری دنیا میں ہرکس وناکس کومیڈیا کی ساری خبروں کا علم نہیں ہوپاتا ، میڈیا سے جڑے لوگوں کو ہی پتہ چل پاتا ہے ۔
ثانیا : اسلام نے جو آقافی دین دیا ہے وہ انٹرنیٹ اور میڈیا کا محتاج نہیں ہے ۔ بطور مثال یہ کہوں کہ انٹرنیٹ اور میڈیا ختم ہوجائے تو تب آپ کیا کہیں گے کہ ابھی پھر سے لوگ معذور ہوگئے ۔ یہ تو مشینری چیز ہے چل بھی سکتی ہے اور کبھی اس کا نظام درہم برہم بھی ہوسکتا ہے ۔اس کا مشاہدہ کبھی کبھار بنکوں اور آفسوں میں ہوتاہے ۔ جب نٹ کنکشن غائب رہتا ہے تو لوگوں کی کیا درگت ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کا نظام ہمیشہ بغیرمیڈیا اور انٹرنیٹ کے چلتا رہاہے اور قیامت تک چلتا رہے گا۔ دنیا والوں کو بغیر انٹرنیٹ کے قمری نظام سے رمضان کا روزہ ، ایام بیض ، عاشواء اور عرفہ معلوم ہوتا رہے گا۔

قائلین صیام عرفات کے ساتھ چند محاکمہ
(1)جب ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ بعض ممالک لیبیا ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے ، اس صورت میں وقوف عرفہ ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟ عید کے دن روزہ منع ہے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا:
نهى النبيُّ صلى الله عليه وسلم عن صومِ يومِ الفطرِ والنحرِ( صحيح البخاري:1991)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اورعیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔
تو جواب دیتے ہیں ایسے لوگوں سے روزہ ساقط ہوجاتاہے ۔ روزہ کے متعلق اصول واحکام واضح ہیں انہیں بالائے طاق رکھ کر بغیر ثبوت کے روزہ ساقط کرواکر لوگوں کو بڑے اجر سے محروم کردینا بڑی ناانصافی ہے ۔

(2)جب ان سے کہاجائے کہ آج سے سوسال پہلے لوگ عرفہ کا روزہ رکھتے تھے کہ نہیں ؟ اگر رکھتے تھے تو یقینا وہ اپنے ملک کے حساب سے رکھتے ہوں گے( اس کا انکار کرنے کی کسی کو ہمت نہیں)تو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت پتہ نہیں چل پاتا تھا اس لئے وہ معذور تھے ۔
یہ جواب کچھ ہضم نہیں ہوپاتا۔اس جواب کو مان لینے سے یہ ماننا پڑے گا کہ قرون اولی سے لیکر آج تک کسی نے عرفہ کا روزہ صحیح نہیں رکھاسوائے عرب والوں کے جبکہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے وہ سب کے لئے یکساں دستور پیش کرتا ہے خواہ سعودی عرب كا ہو یا دوسرے ملک کااور اسلام پر عمل کرنے کےلئے کسی میڈیا کی بھی ضرورت نہیں۔

ایک اہم نکتہ : نیوزی لینڈ اور سعودی میں گیارہ گھنٹے کا فرق ہے، جب سعودی میں نوذی الحجہ کا سورج نکلتا ہے تو نیوزی لینڈ میں آٹھ ذی الحجہ کا سورج غروب ہوتاہے۔تو کیا نیوزی لینڈ والے رات کو روزہ رکھیں گے؟ اور اگر رات گزار کر روزہ رکھیں تو ان کے یہاں تو ذی الحجہ کی نو تاریخ ہوگی مگر سعودی میں دس تاریخ یعنی عید کا دن ہوگا، تو کیا نیوزی لینڈ والے عید کے دن روزہ رکھیں گے جو کہ ممنوع ہے۔ عرفہ کا روزہ سمجھنے کے لئے یہ ایک اہم نکتہ ہے ۔

خلاصہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عرفہ کا روزہ اپنے اپنے ملک کے حساب سے ذی الحجہ کی نو تاریخ کو رکھا جائے گا۔

Sunday 28 August 2016


با
رہ سال کا ایک بچہ ہاتھ میں تلوار پکڑے تیز تیز قدموں کے ساتھ ایک طرف لپکا جارہا تھا۔ دھوپ بھی خاصی تیز تھی، بستی میں سناٹا طاری تھا، یوں
لگتا تھا جیسے اس بچے کو کسی کی پروا نہیں۔ لپکتے قدموں کا رخ بستی سے باہر کی طرف تھا، چہرہ غصے سے سرخ تھا,
 آنکھیں کسی کی تلاش میں دائیں بائیں گھوم رہی ہیں، اچانک ایک چٹان کے پیچھے سے ایک سایہ لپکا۔ بچے نے تلوار کو مضبوطی سے تھام لیا۔ آنے والا سامنے آیا تو بچے کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ ہاتھ میں تلوار اور چہرے پر حیرت اور مسرت کی جھلملاہٹ دیکھ کر آنے والے نے شفقت سے پوچھا:

" میرے پیارے بیٹے! ایسے وقت میں تم یہاں کیسے؟"

بچے نے جواب دیا : " آپ کی تلاش میں۔"

اس بچے کا نام زبیر رضی اللہ عنہ تھا۔ باپ کا نام عوام اور ماں کا نام صفیہ رضی اللہ عنھا تھی- یہ بچہ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم کا پھوپی زاد بھائی تھا۔

قصہ یہ پیش آیا تھا کہ مکہ مکرمہ میں افواہ پھیلی کہ پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلّم کو کفار نے پہاڑوں میں پکڑلیا ہے۔ مکہ میں دشمن تو بہت زیادہ تھے، اس لیے ایسا ہو بھی سکتا تھا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے جن کی عمر بارہ سال تھی فوراً تلوار اٹھائی اور اکیلے ہی آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ آخر آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم مل گئے۔ پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم نے اس حالت میں دیکھ کر حیرت سے پوچھا:

" اگر واقعی مجھے پکڑ لیا گیا ہوتا تو پھر تم کیا کرتے۔"

اس بارہ سالہ بچے نے جواب دیا:

" میں مکّہ میں اتنے قتل کرتا کہ ان کے خون کی ندیاں بہادیتا اور کسی کو زندہ نہ چھوڑتا۔"

پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلّم یہ بات سن کر مسکرا پڑے اور اس جرأت مندانہ انداز پر اپنی چادر مبارک انعام کے طور پر عطافرمائی۔ اللہ تعالٰی کو یہ ادا پسند آئی۔ جبرئیل( علیہ السلام) آسمان سے نازل ہوئے اور عرض کیا زبیر کو خوش خبری دے دیں کہ اب قیامت تک جتنے لوگ اللہ کے راستے میں تلوار اٹھائیں گے، ان کا ثواب زبیر رضی اللہ عنہ کو بھی ملے گا۔. (حیاۃ صحابہ سے ماخوذ )

قارون کا زمین دھنسا

قارون بہت بڑا عبادت گزار تھا اس نے چالیس سال تک پہاڑ کی غار میں رہ کر عبادت کی اور بنی اسرائیل کی قوم میں عبادت کے اعتبار سے سبقت لے گیا ابلیس نے اس کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف شیاطین روانہ کیے مگر کوئی بھی اس کو گمراہ نہ کر سکا حتی کہ خود ابلیس اس کے مقابلہ کے لیے آیا اور اس کی عبادت گاہ کے قریب آکر پہاڑ کے ایک جانب عبادت کرنے لگ گیا اور اتنی عبادت کی کہ قارون پر سبقت لے گیا قارون تھک جاتا تھا مگر ابلیس نہیں تھکتا تھا قارون روزے کا ناغہ کر لیتا تھا مگر ابلیس روزانہ بلا ناغہ روزہ رکھتا تھا اس طرح قارون کے دل میں اس کی عقیدت پیدا ہوگئی اور اس نے اس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے شیطان نے ایک دن قارون سے کہا کہ ہم اس عبادت پر قناعت کر کے بیٹھ گئے ہیں ہمیں لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا چاہیے مخلوق خدا سے تعلق توڑنا نہیں چاہیے ہم نہ تو ان کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں اور نہ ہی جماعت میں اور ہمیں یہ عبادت بنی اسرائیل کے اندررہ کر کرنی چاہیے اس طرح ہم ان کے دکھ سکھ میں بھی شریک ہوں گے اور ہماری عبادت دیکھ کر ان کے دل میں بھی عبادت کا جزبہ پیدا ہوگا چنانچہ یہ دونوں پہاڑ سے اتر کر بنی اسرایئل کے معبد میں آگئے اور وہاں عبادت میں مشغول ہوگئے بنی اسرایئل ہر طرح سے ان کی خدمت کرتے کھانا لا کر کھلاتے اور سب ضروریات کا خیال رکھتے ایک دن شیطان نے قارون سے کہا کہ ہم بنی اسرائیل پر بوجھ بن چکے ہیں یہ تو اچھی بات نہیں ہمیں چاہیے کہ خود کما کر کھائیں اور لوگوں سے مستغنی ہو جایئں قارون بولا پھر کیا رائے ہے ابلیس کہنے لگا کہ اگر ہم ایک دن مزدوری کر لیں اور باقی ہفتہ عبادت میں گزاردیں تو یہ ٹھیک رہے گا قارون نے اس کی بات مان لی اور اب دونوں نے اس طرح کرنا شروع کردیا کچھ عرصہ کے بعد شیطان نے کہا کہ ہم تو محض اپنے لیے کماتے ہیں کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہم دوسروں پر صدقہ بھی کرتے آخر بدنی عبادت کے ساتھ مالی عبادت کا بھی بڑا درجہ ہے قارون بولا پھر کیا رائے ہے ہم کیا کریں ابلیس نے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ ہم ایک دن تجارت وغیرہ کریں اور ایک دن عبادت کریں چنانچہ اب دونوں نے یہ کام کرنا شروع کر دیا اب ابلیس نے قارون کو مال ودولت کا چسکا ڈال کر چھوڑدیا رفتہ رفتہ قارون کے سامنے دنیا کے خزانے جمع ہونے لگے تجارت کے اسرار ورموز کھلنے لگے اور اس کے پاس اتنا خزانہ جمع ہوگیا کہ جس کی چابیاں سنبھالنا بھی کارے دارد تھا مال ودولت کی محبت میں آکر وہ بالاآخر حضرت موسی علیہ السلام کے مقابلے پر اتر آیا اور اس نے زکوتہ دینے سے انکار کردیا چنانچہ اللہ تعالی نے اس کو اس کے تمام خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا اور اسے کوئی بھی کام نہ آیا اسی واقعہ کی طرف اللہ تعالی نے اشارہ کیا ہے
فَخَسَفْنَا بِهِ وَبِدَارِهِ الْأَرْضَ فَمَا كَانَ لَهُ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِينَ )81(
کہ ہم اسے اور اس کے گھر بار کو زمین مییں دھنسا دیا اور کوئی بھی اس کا ساتھی اللہ کے مقابلے میں اس کی مدد کے لیے نہ آیا

Friday 26 August 2016

Surat Malik






 فضائل سورۃ الملک کے فضائل

سورۃ الملک کی فضیلت میں کئی روایات آتی ہیں۔ جن میں سے صرف چند روایات صحیح یا حسن ہیں۔


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ کی کتاب میں ایک سورت ہے جس میں صرف تیس آیات ہیں‘ یہ آدمی کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کو بخش دیا جائے گا۔       (سنن ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ و مسند احمد)۔ 

دوسری روایت میں ہے ’’قرآن مجید میں ایک سورت ہے جو اپنے پڑھنے والے کی طرف سے لڑے گی ‘ حتیٰ کہ اسے جنت میں داخل کروائے گی‘‘۔

سنن ترمذی کی ایک روایت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو سونے سے قبل سورۃ الم سجدہ اور سورۃ ملک ضرور پڑھتے تھے۔ (ابواب فضائل القرآن)۔

ایک دوسری روایت میں ہے ’’سورۃ الملک عذاب قبر سے روکنے والی ہے‘‘۔

Thursday 25 August 2016

.............


         وزیر اور چپڑاسی                           

ایک نالائق شخص وزیر تعمیرات بن گیا۔ وہ اتنا نالائق تھا کہ اسے رشوت وصول کرنے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ اس کے پاس ایک ٹھیکیدار آیا اور ایک فائل پر منظوری کے عوض بیس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا۔ وزیر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ جھٹ سے فائل منگوائی اور اس پر Approvedلکھ دیا۔ اب فائل منظور ہو گئی مگر ٹھیکیدار کہیں نظر ہی نہیں آیا۔ دو چار دن انتظار کرنے کے بعد وزیر بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کرے؟ اسی اثنا میں اس کے چپڑاسی نے اپنے وزیر کا اُترا ہوا چہرہ اور طبیعت کی بے کلی دیکھ کر اندازہ لگایا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ وہ وزیر کے پاس آیا اور رازداری سے کہنے لگا‘ حضور! ہوں تو میں چپڑاسی مگر کافی عرصہ سے یہ وزارت میں ہی چلا رہا ہوں۔ آپ مجھے اپنی پریشانی کی وجہ بتائیں‘ میں کوئی حل نکال دوں گا۔ وزیر نے بتایا کہ اس طرح میں نے فائل اپروو کر دی ہے مگر اب ٹھیکیدار ہاتھ نہیں آرہا۔ چپڑاسی نے کہا فائل واپس منگوا لیں۔ وزیر نے کہا اب اس پر کٹنگ کس طرح کروں؟ چپڑاسی نے کہا جناب پریشان نہ ہوں‘ کوئی کٹنگ نہیں ہو گی۔ فائل واپس آئی۔ چپڑاسی نے کہا آپ اس Approved سے پہلے Not لکھ دیں۔ مقصد پورا ہو جائے گا اور کوئی کٹنگ وغیرہ بھی نہیں ہو گی۔ وزیر نے ایسا ہی کیا۔ اب ٹھیکیدار کو پتہ چلا تو بھاگا بھاگا آیا اور بیس لاکھ روپے کا بریف کیس ہاتھ پکڑایا۔ اب وزیر پھر پریشان ہو گیا اور پھر چپڑاسی کو بلایا کہ اب کیا کروں؟ چپڑاسی بولا جناب عرصہ ہوا یہ وزارت میں ہی چلا رہا ہوں۔ آپ نے فائل پر جہاں Not لکھا ہے وہاں ''ٹی‘‘ کے بعد ''ای‘‘ لگا دیں۔ یعنی Not کو Note بنا دیں۔ اب یہ ہو گیا Note Approved۔ وزیر نے ایسا ہی کیا اور من کی مراد پائی۔ شنید ہے کہ بہت سے محکمے وزراء نہیں چپڑاسی چلا رہے ہیں کہ ان کا تجربہ اور آئی کیو بہت سے وزراء سے بہتر اور زیادہ ہے

Monday 15 August 2016

Kaghan Valley

Kaghan Valley Pictures





Kaghan Valley

            Kaghan Valley



The Kaghan Valley is a beautiful valley in the north-east of Mansehra District . It attracts many tourists from not only Pakistan but also from the whole world. Laying in lower Himalayan mountains range, the Kaghan valley, famous for its bewitching splendor and natural beauty, is one of the most charming tourist resorts in scenic Hazara division. There are many beautiful and attractive spots like Shogran, Jared, Naran,Lake Saiful Muluk, Lake Dudipat Sar, Lake Lulu Sar, Babusar Pass and much more to do.

Saturday 13 August 2016

Swaat a natural place for tourism

Swat is an attractive place for tourists in Pakistan

Swat is a valley and an administrative district in the Khyber Pakhtunkhwa Province, Pakistan. It is a mini Switzerland in Pakistan. It is the upper valley of the Swat River, which rises in the Hindu Kush range.
Swat Valley, Mini Switzerland of Pakistan has many attraction for visiting such as Mahodand Valley & Lake, Natural Ushu Valley & Ushu Forest, Malam Jabba (Famous ski resort in Swat Valley) and many other naturaly beautiful sites.

Natural Place to Visit in Pakistan

Natural Place to Visit in Pakistan




Neelam Valley is a attractive, beautiful valley in Azad Kashmir Region. Neelum valley is one of most attractive place for tourists due to its famous lush greenery, springs, streams, lakes and hilly and sloppy mountains. 
Neelam Valley is situated at the North & North-East of Muzaffarabad (The Capital of Azad Kashmir). Running through the Lesser Himalaya, the Neelam River valley has excellent scenic beauty, panoramic views, towering hills on both sides of the noisy Neelum river, lush green forests, streams and attractive surroundings make the valley a dream come true.