Sunday 11 September 2016

حامد بن زہرہ کی شہادت. قسط نمبر 44.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 44.
حامد بن زہرہ کی شہادت__________بارش ہر لحظہ تیز ہو رہی تھی.
چند منٹ بعد دائیں اور بائیں جانب سے دو راستے اس سڑک سے آ ملتے تھے-
اس نے چند ثانیے گھوڑا روک کر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیا اور پھر اسی رفتار سے آگے چل دیا.
قریباً ایک میل اور طے کرنے کے بعد اسے گھوڑوں کی ٹاپ اور ہنہناہٹ سنائی دی-
اس نے جلدی سے اپنے گھوڑے کی باگیں کھینچ لی اور سڑک سے اتر کر ایک درخت کی اوٹ میں کھڑا ہو گیا.
آن کی آن میں دو گھوڑے پوری رفتار سے بھاگتے ہوئے آگے نکل گئے اور اسے محسوس ہوا کہ ان پر سوار نہیں ہیں پھر بجلی نے اس کے خیال کی تصدیق کر دی.
اب تک وہ اپنے آپ کو تسلی دیتا آیا تھا کہ شاید حامد بن زہرہ نے دوسرے دروازے سے باہر جانے کے بعد اپنے گاؤں جانے کا ارادہ بدل دیا ہو گا. یا گاؤں جانے کے لیے اس سڑک کی بجائے کوئی اور راستہ اختیار کیا ہو لیکن خالی گھوڑوں کو بد حواسی کی حالت میں شہر کی طرف بھاگتے دیکھ کر اس کا دل بیٹھ گیا.
پھر خیال آیا کہ عام حالات میں حامد یا اس کے بیٹے کے گھوڑوں کو اپنے سواروں سے محروم ہونے کے بعد گاؤں کا رخ کرنا چاہیے تھا.
ممکن ہے کہ ان گھوڑوں سے گرنے والے ان کے دشمن یا حامد کے ساتھی ہوں جو غرناطہ سے ان کے ساتھ شامل ہوئے تھے.
انہوں نے دشمن سے مقابلہ کیا ہو اور حامد کو بچ نکلنے کا موقع مل گیا ہو_________وہ موہوم امیدوں کا سہارا لیتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا اور اس کے گھوڑے کی رفتار بتدریج کم ہو رہی تھی-
پھر اچانک اسے چند اور گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی-
سامنے سڑک کے نشیب کا کچھ حصہ پانی میں ڈوب ہوا تھا_
بجلی چمکی اور اسے دائیں ہاتھ چند درخت اور ایک شکستہ مکان دکھائی دیا. وہ باگ موڑ کر گھوڑے کو مکان کے پیچھے لے گیا. ....
پھر وہ جلدی سے گھوڑے کو درخت کے ساتھ باندھ کر بھاگتا ہوا سڑک سے قریب ترین درخت کی اوٹ میں کھڑا گیا.
چند ثانیے بعد بجلی کی چمک میں چھ سوار دکھائی دئیے.
سڑک پر بہتے ہوئے پانی میں اچانک انہوں نے گھوڑے روک لئے اور ان کی آوازیں سنائی دینے لگیں.
لیکن وہ بارش کے شور میں ان کی گفتگو نہ سن سکا. پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھے.
سڑک کے نشیب کے کے درمیانی حصے میں پانی زیادہ گہرا تھا اور گھوڑے ایک قطار میں سنبھل سنبھل کر چل رہے تھے.
پانی عبور کرنے کے بعد وہ پھر رک گئے. اب وہ سلمان کے اتنے قریب تھے کہ وہ بارش کے شور کے باوجود اسے ان کی آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں.
ایک سوار بلند آواز میں کہہ رہا تھا ہم بلا وجہ بارش میں خوار ہو رہے ہیں اب تک وہ غرناطہ پہنچ چکے ہوں گے.
اور وہاں ان پر ہاتھ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا"-
دوسرے آدمی نے کہا آپ کو معلوم ہے کہ وہ اگر شہر میں داخل ہو گئے تو ہمارا انجام کیا ہو گا.
اللہ کے لیے اب یہ دعا کرو کہ پہرے دار ان کے لیے دروازہ نہ کهولیں . .ورنہ شہر میں کہرام مچ جائے گا-"
جب یہ دہائی دیں گے کہ حامد بن زہرہ کے قاتل ہمارا پیچھا کر رہے ہیں تو پہرے دار انہیں روکنے کی جرات نہیں کریں گے.
بلکہ میں تو یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں پکڑ کر مشتعل لوگوں کے حوالے کر دیں.
بھائی یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ پہرے داروں نے انہیں ہمارا ساتھی سمجھتے ہوئے بلا کسی حیل و حجت کے بغیر دروازہ کھول دیا ہو اور جب ہم وہاں پہنچے تو وہ شہر کے دروازے پر ہمارے منتظر ہوں-
اب ہمارا انجام کسی صورت میں بھی اچھا نہیں ہو سکتا. اگر مجھے معلوم ہوتا کہ وہ حامد بن زہرہ کا پیچھا کرنے کے لیے جا رہے ہیں تو میں کبھی بھی ان کے ساتھ نہیں جاتا.
اب یہ کون مانے گا کہ ہم جن کے ساتھ آئے تھے وہ ہمارے لیے قطعی اجنبی تھے.
اور ہمیں تو صرف اتنا بتایا گیا تھا کہ انہیں کسی دشمن کو گرفتار کرنے کے لیے ہماری مدد کی ضرورت ہے.
تم سب اس بات کے گواہ ہو نہ کہ میں نے تیر چلانے سے منع کیا تھا.
جناب آپ نے ہمیں اس وقت منع کیا تھا جب ہمارے تیر کمان سے نکل چکے تھے.
اب ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں اب ہمیں اندھیرے میں کسے معلوم ہوتا کہ ہمارا ہدف حامد بن زہرہ ہے.
اب ایک دوسرے پر الزام لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم کسی نہ کسی طرح اپنے اپنے گھروں میں پہنچ جائیں.
اگر آپ کو یہ خدشہ ہے کہ وہ شہر میں داخل ہو چکے ہیں تو ہم دروازے سے کچھ دور رک کر حالات کا جائزہ لیں گے اور اس کے بعد کوئی فیصلہ کریں گے. پھر اگر ہمارے دوسرے ساتھی واپس آ گئے تو ممکن ہے کہ ہمیں ان کی مدد سے شہر میں داخل ہونے کا موقع مل جائے گا-
یہ بھی ممکن ہے کہ کوتوال پہرے داروں پر اعتماد نہ کرے.
اور بذات خود دروازے پر ہمارا انتظار کر رہا ہو.
اب باتوں کا وقت نہیں چلو"!
سلمان کے لئے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ حامد بن زہرہ یا اس کے ساتھیوں میں کم از کم دو آدمی اپنے گھوڑوں سے گرنے کے بعد ان کے ہاتھ نہیں آئے اور یہ ان کے گھوڑوں کے فرضی سواروں کا پیچھا کر رہے ہیں جنہیں اس نے تھوڑی دیر قبل بھاگتے ہوئے دیکھا تھا-
معا اسے خیال آیا کہ اگر گھوڑوں سے محروم ہونے والے زخمی کہیں چھپ گئے تو پیچھا کرنے والوں کو غرناطہ کے دروازے پر پہنچتے ہی یہ معلوم ہو جائے گا کہ وہ خالی گھوڑوں کا تعاقب کر رہے تھے-
پھر غداروں کی ایک فوج ان کی تلاش میں نکل کھڑی ہو گی.
اس کے نزدیک حامد یا اس کے ساتھیوں کو بھاگ نکلنے کا موقع دینے کی یہی صورت تھی کہ ان لوگوں کو غرناطہ سے باہر مصروف رکھا جائے.
چنانچہ جونہی اگلے سوار نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی سلمان نے تیر چلا دیا-
زخمی کی چیخ یہ گواہی دینے کے لیے کافی تھی کہ اس کا تیر نشانے پر لگا ہے اور اس سے قبل کے وہ اپنی بد حواسی پر قابو پاتے سلمان نے دو اور تیر چلا دئیے.
چند ثانیے پانی اور کیچڑ میں بھاگتے ہوئے گھوڑوں اور سواروں کی چیخ و پکار سنائی دیتی رہی.
پھر بجلی چمکی اور سلمان نے اطمینان سے گھوڑا کھولا اور اس پر سوار ہو کر کچھ دیر ادھر ادھر دیکھتا رہا-
پھر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ان کی ان میں گھٹنے گھٹنے پانی میں بھاگنے والے آدمی کے سر پر جا پہنچا اور بلند آواز میں چلایا:ٹھہرو
اب تم بچ کر نہیں جا سکتے"-
زخمی نے دونوں ہاتھ بلند کر دئیے-
مجھ پر رحم کرو میں زخمی ہوں. سلمان نے کہا اپنے ہتھیار پھینک دو.
اب تمہارے ساتھی تمہاری مدد کو نہیں آئیں گے"-
زخمی نے ہتھیار پھینک دئیے اور خوف سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا::
اللہ کے لئے مجھ پر رحم کرو میں نے کوئی جرم نہیں کیا "-
سلمان نے جواب دیا"-
حامد بن زہرہ کے قاتل کسی رحم کے مستحق نہیں ہو سکتے.
زخمی چلایا"-
میں نے بحالت مجبوری ان کا ساتھ دیا تھا. وہ سب اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے اس حملے میں حصہ نہیں لیا تھا.
آپ کے بچ نکلنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ میں نے انہیں تیر چلانے سے منع کر دیا تھا. "-
سلمان کو یہ جاننے کے لیے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہ تھی کہ زخمی اسے حامد بن زہرہ کے ان ساتھیوں میں سے ایک سمجھتا ہے جو غداروں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچ گئے ہیں اور اس کا یہ خیال یقین کی حد تک پہنچ چکا تھا.
کہ اس نے راستے میں جو گھوڑے دیکھے تھے ان کے سوار زخمی حالت میں کہیں آس پاس چھپے ہوئے ہیں.
معا اس کے ذہن میں ایک تدبیر آئی اور اس نے کہا:
جن دو آدمیوں کا تم پیچھا کر رہے تھے وہ ہمیں غرناطہ کے قریب ملے تھے اور اب تک شہر کی آبادی ان کے گرد جمع ہو چکی ہو گی-
مجھے صرف اس بات کا افسوس ہے کہ ہمیں حامد بن زہرہ کے متعلق سچ سچ بتا سکو تو میں تمہاری جان بخشی کر سکتا ہوں"-
زخمی نے پر امید ہو کر کہا آپ وعدہ کرتے ہیں؟ "-
میں وعدہ کرتا ہوں اور میرا وعدہ ایک غدار اور دین کے دشمن کا وعدہ نہیں"-
آپ کے ساتھی کہاں ہیں؟
زخمی نے جھجکتے ہوئے پوچھا.
سلمان نے گرجتے ہوئے کہا تمہیں صرف میرے سوالات کا جواب دینا چاہیے اور یاد رکھو اگر تمہارا کوئی جواب غلط ہوا تو میں تمہیں قتل کر دوں گا.
میں پوچھنا چاہتا ہوں حملہ کس جگہ پر ہوا تھا"-
زخمی نے سہمی ہوئی آواز میں کہا.....

No comments:

Post a Comment