Monday 5 September 2016

اندھیری رات کے مسافر قسط نمبر 38.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 38.
پیغام____________تاریک نظر آئے گی پھر مستقبل کے مورخ تمہارے اجڑے ہوئے شہروں کے کھنڈرات دیکھ کر یہ کہا کریں گے------یہ ویرانے اس بد نصیب قوم کی یادگار ہیں جس نے آسمان کی بلندیوں سے ہمکنار ہونے کے بعد ذلّت اور پستی کا راستہ اختیار کیا تھا.
یہ اس قافلے کی آخری منزل ہے جس کے رہنماؤں نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لی تھیں.
یہ اس قوم کے قبرستان ہیں جس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا گلا گھونٹ لیا تھا.
میرے عزیزو مجھ سے
یہ سوال بار بار پوچھا گیا ہے میں سمندر پار کے بھائیوں کی طرف سے کیا پیغام لایا ہوں.
میرا جواب ہے کہ اگر اہل غرناطہ عزت کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہو گئے تو میں انہیں یہ اطمینان دلا سکتا ہوں کہ دنیائے اسلام کی تمام تر ہمدردیاں ان کے ساتھ ہوں گی.
اگر تم اپنے دین کے حصار میں پناہ لے کر دنیا پر یہ ثابت کر کہ اندلس میں کفر و اسلام کا آخری معرکہ شروع ہو چکا ہے اور تم فتح یا شہادت کے سوا کوئی اور راستہ اختیار نہیں کرو گے تو تم بے یارو مددگار نہیں رہو گے-
اہل بربر تمہاری اعانت اپنا فرض سمجھیں گے-
صرف اہل بربر ہی نہیں ترکوں کی وہ عظیم سلطنت بھی تمہاری پشت پر ہو گی جس کے پرچم کا سایہ دجلہ اور فرات سے لے کر ڈنییوب کی وادیوں تک پہنچ چکا ہے-
اگر تم اپنی قربانیوں اور ناقابل شکست عزائم کی بدولت غرناطہ کی جنگ آزادی کو کفر اسلام کا معرکہ ثابت کر دو تو بحیرہ روم میں ترکوں کے جنگی بیڑے کو اندلس کے ساحل تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی-
لیکن اگر تم مایوس اور بد دلی کا شکار ہو گئے-یا تم نے یہ سمجھ لیا کہ دوسروں کے سہارے ہی تمہاری اندرونی توانائی کا نعم البدل ہو سکتے ہیں تو کوئی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا-
تم باہر کے مسلمانوں کو غرناطہ کا راستہ دکھایا چاہتے ہو تو پہلے اپنے خون سے غرناطہ کی آزادی کے چراغ روشن کر لو-
لیکن اگر تم موت کی نیند سو گئے تو وہ تمہیں قبرستان کے اندھیروں میں آواز نہیں دیں گے! "
اس مرحلے پر ایک آدمی نے اٹھ کر کہا جناب میں آپ کی ہر بات تسلیم کرتا ہوں لیکن اگر آپ اسے گستاخی نہ سمجھیں تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے قیدیوں کے متعلق کیا سوچا ہے؟ "
مسجد کے مختلف گوشوں سے مشتعل لوگوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں:
بیٹھ جاؤ خاموش رہو اسے باہر نکال دو یہ حکومت کا جاسوس ہے حامد بن زہرہ دونوں ہاتھ بلند کرتے ہوئے پوری قوت سے گرجے"-
حضرات آپ کو مشتعل نہیں ہونا چاہیئے میں اس سوال کا جواب دے سکتا ہوں ابھی میں نے تقریر ختم نہیں کی"-
لوگ ایک دوسرے کو خاموشی کی تلقین کرنے لگے.
حامد بن زہرہ نے تھوڑی دیر توقف کیا اور پھر سوال کرنے والے سے مخاطب ہوئے-
میرے بھائی یہ سوال بہت اہم ہے اور میں اس کا جواب دینے سے نہیں پہلو تہی نہیں کروں گا.
لیکن میرے نزدیک ایک اور سوال اس سے کہیں زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ جن لوگوں نے دشمن کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں قیدی بنا کر سینٹافے بھیج دیا ہے انہوں نے اس قوم کے متعلق کیا سوچا ہے؟ ؟؟،؟؟،
میں ان جوانوں کو الزام نہیں دیتا جن کو تمہارے نام نہاد حکمرانوں اور راہنماؤں نے ایک شرمناک سازش کی تکمیل کے لیے دشمن کے حوالے کر دیا ہے-
انہیں یہ فریب دیا گیا ہے کہ اگر تم کچھ عرصہ کے لیے دشمن کا یرغمال بننا پسند کر لو تو وہ مطمئن ہو جائے گا اور تمہاری قوم کو تیاری کرنے کا موقع مل جائے گا______________اور اب تمہارے ذہن میں یہ بات ڈالی جا رہی ہے کہ اگر تم اجتماعی خودکشی پر آمادہ نہ ہوئے اور تم نے دوبارہ جنگ شروع کر دی تو تمہارے بھائی واپس نہیں آ سکیں گے لیکن ہم اس سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے-
دوستو وہ چار سو یرغمال نوجوان غرناطہ کے لشکر کی روح تھے.
غرناطہ کے غدار انہیں قید تو کروا سکتے تھے لیکن انہیں واپس لانا ان کے بس کی بات نہیں ہے.
اب صرف تمہاری ہمت غیرت اور تمہارے ناقابل شکست حوصلے ہی انہیں واپس لا سکتے ہیں.
اب تمہیں عملی طور پر اس بات کا ثبوت دینا پڑے گا کہ تم اندلس کی زمین پر عزت و آزادی کے ساتھ زندہ رہنے کا حق رکھتے ہو اور اگر بھیڑوں کا راستہ اختیار کرو گے تو خونخوار بھیڑیے تمہیں ہلاک کر ڈالیں گے-
میرے ہم وطنوں متارکہ جنگ کے معاہدے کی جو شرائط مجھے معلوم ہوئی ہیں ان کے مطابق تمہیں ہتھیار ڈال دیئے یا دوبارہ جنگ شروع کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے ستر دن کی مہلت دی گئی تھی-
لیکن یہ فریب تھا جن غداروں نے اپنا مستقبل فرڈیننڈ کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا وہ اسے اطمینان دلا چکے تھے کہ وہ ستر دن کی مہلت ختم ہونے سے پہلے ہی ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ تمہارے دلوں میں لڑنے کا حوصلہ باقی نہ رہے گا-
مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس وقت قوم کے غدار الحمراء میں جمع ہیں ان سے کچھ بعید نہیں کہ وہ اچانک دشمن کے لیے شہر کے دروازے کھول دیں.
اور تمہیں معلوم ہو کہ تم غلام بن چکے ہو_________اس لیے تمہیں ایک لمحے کی بھی ان کی سازشوں سے غافل نہیں رہنا چاہیے.
میں آج ہی غرناطہ پہنچا ہوں آئندہ اقدامات کا فیصلہ کرنے کے لیے مجھے ان لوگوں کے مشورے کی ضرورت ہے جو جنگی معاملات مجھ سے بہتر جانتے ہیں.
آپ کو حال اور مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنا میری ذمہ داری تھی. اور آپ گواہ ہو کہ میں نے اپنی طاقت استعداد کے مطابق یہ ذمہ داری پوری کر چکا ہوں.
تقریر کے اختتام پر حامد بن زہرہ نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی.
پھر البسین کے خطیب نے اٹھ کر کہا:
حضرات اس وقت شہر کے اکابرین کسی جگہ جمع ہو کر آپ کے جلیل القدر رہنما کا انتظار کر رہے ہیں اس لیے حامد بن زہرہ آپ سے رخصت چاہتے ہیں.
میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ان کے لیے راستہ چھوڑ دیں اور ان کے پیچھے بھاگنے کی کوشش نہ کریں.
صرف چند رفقاء ان کے ساتھ جائیں گے.
مسجد کے باہر بھی ان کی حفاظت کے لیے مسلح رضا کار موجود ہیں.
اب عشاء کی نماز کا وقت ہے اس لیے آپ اطمینان سے اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھیں رہیں.
تھوڑی دیر بعد حامد بن زہرہ مسجد سے باہر نکل کر ایک بگهی پر سوار ہو رہا تھا________سلمان نیند سے بیدار ہوا تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا.
وہ جلدی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھا اور کواڑ کی ڈراڑ سے باہر جھانکنے لگا لیکن صحن میں بھی تاریکی چھائی ہوئی تھی.
ایک طرف آدمیوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھی لیکن سلمان ان کی گفتگو نہ سن سکا.
تھوڑی دیر بعد کسی بات پر وہ قہقہے لگا رہے تھے-
اور سلمان کا سارا اضطراب دور ہو گیا تھا- اطمینان سے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا.
دن بھر کے واقعات پر غور کرتے ہوئے اس کے ذہن میں اب اس قسم کے خیالات آ رہے تھے:
کیا یہ ممکن ہے کہ جس آدمی کو

No comments:

Post a Comment