Friday 2 September 2016

 یہ ماں سچ بولتی ہے


دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کسی گہری سوچ میں گم معصوم چہرہ جس کی گال پر آنسو کا قطرہ بہہ کر رک گیا تھا۔ڈھلتے سورج کی شعاعوں میں اس کے چہرے کی اداسی اور نمایاں ہو رہی تھی۔وہ معصوم جس کے کھیلنے کودنے کے دن تھے۔ہنسنے مسکرانے کے دن تھے۔ نہ جانے کب سے سوچوں میں گم تھا۔اسے یہ بھی پتہ نہ چلا کہ کوئی کب سے اس کے پاس کھڑا ہے۔یہ کیفیت جانے کب تک رہتی کہ اس شخص نے جھک کر اسے پیار کیا۔وہ چونک اٹھا۔اور پھٹی پھٹی نظروں سے اس شخص کو دیکھنے لگا۔جو اس کے لیے اجنبی نہیں تھا۔وہ بچے کو جانتا تھا۔بچہ اس سے آشنا تھا۔اس شخص نے بچے سے اس کی پریشانی کی وجہ پوچھی!بچہ خاموش رہا۔وہ اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا۔اس سے ادھر ادھر کی باتیں کی۔مگر وہ پھر بھی خاموش رہا۔آخر اس شخص سے رہا نہ گیا۔وہ بچے کے ماضی اور اس کے حالات سے واقف تھا۔اس شخص نے بچے سے سوال کیا:بیٹا!تمہاری گزری ہوئی ماں میں اور اس ماں میں کیا فرق ہے؟

بچہ یہ سوال سن کر جیسے ہوش میں آ گیا۔اور سنبھل کر بیٹھ گیا۔پہلے تو خاموش رہا۔کچھ دیر ادھر ادھر دیکھا اور پھر بولا۔
’’وہ ماں جھوٹی تھی اور یہ ماں سچی ہے‘‘۔اس شخص نے پوچھا۔بیٹا یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟
بچہ بولا!میری وہ ماں میرے کسی غلط کام پر ڈانٹتی تھی تو کہتی تھی کہ میں آج تجھے کھانے کو نہیں دوں گی۔جا دفع ہو جا۔تب میں بھی گھر سے نکل جاتا تھا۔لیکن تھوڑی دیر بعد میری ماں مجھے گاؤں میں تلاش کرتی پھرتی تھی۔ہر گلی میں مجھے تلاش کرتی۔جب وہ مجھے تلاش کر لیتی تو مجھے ہاتھ سے پکڑ کر گھر لے آتی۔اور پھر مجھے اپنے ہاتھوں سے نوالے توڑ توڑ کر میرے منہ میں ڈالتی اور ساتھ ساتھ مجھے ڈھیروں دعائیں دیتی۔اور کبھی تو اس کی آنکھوں میں آنسو سیلاب بن کر تیرنے لگتے۔وہ مجھے کھانا کھلا کر بے تحاشا پیار کرتی۔
لیکن یہ ماں سچ بولتی ہے۔یہ ماں جب مجھے کسی غلط کام پر ڈانٹتی ہے تو کہتی ہے۔آج میں تجھے روٹی نہیں دونگی۔تو پھر واقعی یہ ماں مجھے روٹی نہیں دیتی۔اور آج میں دو دن سے بھوکا ہوں۔اسی لیے میں کہتا ہوں کہ 
’’وہ ماں جھوٹ بولتی تھی یہ ماں سچ بولتی ہے۔‘‘

No comments:

Post a Comment