Sunday 4 September 2016

اندھیری رات کے مسافر قسط نمبر 38.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر38..
پیغام______________تلافی ممکن ہے ' ہاری ہوئی جنگیں دوبارہ جیتی جا سکتی ہیں- شکستہ قلعے دوبارہ تعمیر ہو سکتے ہیں تاریک راتوں میں بھٹکے ہوئے قافلے صبح کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کر سکتے ہیں لیکن ایک اجتماعی گناہ کا کفارہ نہیں ہوتا اور بھٹکے ہوئے قافلوں کے لیے ایک رات ایسی بھی آتی ہے جس کے لئے کوئی صبح نہیں ہوتی-"
اہل غرناطہ میں تمہیں اس کے آخری گناہ سے روکنا چاہتا ہوں جن کے بعد قوموں کے لئے رحم اور بخشش کے دروازے بند ہو جاتے ہیں-"__________میں تمہیں اس تاریک رات کی ہولناکیوں سے خبردار کرنا چاہتا ہوں جو کبھی ختم نہیں ہوتی
ایک قوم کا آخری گناہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ظلم و ستمکے خلاف لڑنے کے حق سے دستبردار ہو جاتی ہے اور بد قسمتی سے تمہارے اکابرین اس گناہ کے مرتکب ہو چکے ہیں.
انہوں نے تم پر اللہ کی رحمت کے سارے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دئیے ہیں-"
انہوں نے مستقبل کی تمام امیدوں کا گلا گھونٹ دیا ہے. انہوں نے وہ ذہنی اور اخلاقی حصار توڑ دئیے ہیں جو مظلوم اور بے بس انسانوں کے لیے آخری جائے پناہ کا کام دیتے ہیں-
اگر اس گناہ کی سزا تمہاری موجودہ نسل تک محدود رہ سکتی تو مجھے اس قدر اضطراب نہ ہوتا لیکن تمہارے حکمرانوں نے وہ سارے چراغ بجھا دیئے ہیں جو تمہاری آئندہ نسلوں کو سلامتی کا راستہ دکھا سکتے تھے_________یاد رکھو جب وہ غرناطہ کا مستقبل تمہاری آزادی اور بقا دشمنوں کو سونپ دیں گے تو تمہارے الائم و مصائب کی نہ ختم والی رات شروع ہو جائے گی_________اور میری روح اس رات کے اندھیروں کے تصور سے کانپ اٹھتی ہے-
دوستو! مجھے اس معاہدے پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں جسے تم مستقبل کے امن اور خوشحالی کی ضمانت سمجھتے ہو-
یہ اس عفریت کے چہرے کا حسین نقاب ہے جس کے خون آشام ہاتھ تمہاری شاہ رگ تک پہنچ چکے ہیں_________اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم بھیڑیں بن کر بھیڑیوں کی ہمسائیگی اور سر پر ستی میں زندہ رہ سکتے ہو مجھے تم سے ہمکلام ہونے کی ضرورت نہیں لیکن اگر انسانیت کے ماضی سے کوئی سبق سیکھ سکو تو میں بار بار یہ کہوں گا کہ تم اس جہنم کے دروازے پر دستک دے رہے ہو جو گمراہی اور ذلت کے راستے کی آخری منزل ہے.
مجھے صرف اس بات کا اندیشہ نہیں کہ تم اس جہنم کا ایندھن بنتی رہیں گی-
تم صرف زندہ رہنے کے لیے دشمن کی غلامی اختیار کرنے پر آمادہ ہو لیکن تمہارے بیٹے اور پوتے غلامی کی زنجیروں کو اپنے ہاتھوں کا زیور سمجھنے کے بعد بھی اپنے آقاؤں سے زندہ رہنے کا حق نہیں منوا سکیں گے__________مجھے صرف یہ اندیشہ نہیں کہ تمہیں ایک بد ترین غلامیاختیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا بلکہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں اپنی روح اور بدن کی ساری آزادیوں سے دست بردار ہونے کے بعد بھی زندہ رہنے کا حق دار نہیں سمجھا جائے گا-
تم قسطلہ اور ارغوان کے سپاہیوں کی وحشت اور بر بریت دیکھ چکے ہو لیکن ابھی تم نے کلیساء کے پادریوں کی سفاکی نہیں دیکھی-
تم نے محکمہ احتساب کے وہ اذیت خانے نہیں دیکھے جہاں آہنی شکنجوں میں جکڑے ہوئے انسان ناکردہ گناہوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں-
تم نے آگ کی چتا میں بھسم ہونے والوں کی چیخیں نہیں سنیں لیکن میں یہ سب دیکھ رہا ہوں_________مجمع میں کسی نے جوش میں آ کر نعرہ بلند کیا-------"
ابو عبداللہ غدار ہے!ابو القاسم دشمن کا جاسوس ہے اور مسجد کے مختلف گوشوں سے ان کے خلاف آوازیں بلند ہ ہونے لگیں اور چند ثانیے توقف کے بعد حامد بن زہرہ کی آواز پھر بلند ہوئی:"
میرے عزیزو! " تمہارے نعرے انہیں راہ راست پر نہیں لا سکتے-
وہ اس امن کی تلاش میں قبرستان کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں-
ان کی جنگ اپنے اقتدار کے لیے تھی.
اب ابو عبداللہ اپنے دل کو یہ فریب دے سکتا ہے کہ اسے اپنی غداری کی قیمت مل جائے گی اس کے وزیر اور عمال بھی اس خود فریبی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ آقاؤں کی تبدیلی ان کے مستقبل پر اثر انداز نہیں ہو گی اور وہ ابو عبداللہ کے بعد فرڈیننڈ کے خادم بن کر اپنی جان و مال کا تحفظ کر سکیں گے اور شاید بعض مفتیان دین بھی جنہوں نے دین کے احکام کو اپنے بد طینت اور نا اہل حکمرانوں کی خواہشات کے سانچوں میں ڈھالنا اپنا شیوہ بنا لیا ہے یہی سوچتے ہوں کہ زمانے کے نئے حالات احکام ربانی کی نئی تعبیروں کے متقاضی ہیں.
اب ابو عبداللہ کی بجائے فرڈیننڈ کی قبا کو بوسے دے کر حالات کو سازگار بنا سکیں گے لیکن تمہاری جنگ اپنی بقا اور آزادی کی جنگ ہے-
یہ وہ انسانی زمہ داری ہے جس سے فرار کا ہر راستہ مکمل ہلاکت پر ختم ہوتا ہے______________اگر تم انسانیت کے بلندمقاصد سے منہ پھیر لو--اگر تم اسلام سے انحراف کرو تو صرف حیوانوں کی طرح زندہ رہنے کے بھی تمہارا گوشت نوچنے اور تمہاری ہڈیاں چبانے سے پہلے یہ اطمینان چاہتے ہو کہ تم مکمل طور پر ان کے نرغے میں آ چکے ہو. اور تمہارے اندر اپنی مدافعت کے لیے اور ہڈیاں چبانے کے لیے لئے وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ حیوانی شعور بھی باقی نہیں رہا جو کمزور بکریوں کو بھی سینگ مارنے پر مجبور کر دیتا ہے'
غرناطہ اسلامیان اندلس کا آخری حصار ہے-
یہ ان ان مجبور و مقہور انسانوں کے لیے بھی آخری سہارا ہے جو قرطبہ، بلنیہ،اشبیلیہ، طلیطلہ، اور شمال کے دوسرے علاقوں میں صرف اس امید پر زندہ ہیں کہ یہاں سے کوئی مرد مجاہد نمودار ہو گا اور اس عزم و یقین کی روشنی سے غلامی کے اندھیرے چهٹ جائیں گے.
لیکن جب دشمن تمہارے اس آخری حصار پر بھی قبضہ کر لے گا تو اس اندلس کے طول و عریض میں ان لاکھوں لوگوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہو گی.
تمہیں اس بات سے خوش نہیں ہونا چاہیے کہ معاہدے کی شرائط بہت نرم ہیں اور آزادی کا سودا کرنے کے بعد تم اپنے عالی شان مکانات اپنی دولت مشترکہ اپنے باغات اور اپنے کھیت بچا سکو گے
یاد رکھو جب دشمن کو یہ اطمینان ہو جائے گا کہ تمہاری طاقت اور توانائی کے تمام سوتے خشک ہو چکیں ہیں؛
تمہاری امیدوں کے سارے چراغ بجھ چکے ہیں اور تمہاری روح کسی ظلم کے خلاف بغاوت نہیں کر سکتی تو اس عفریت کو اپنا خونخوار چہرہ مکرو ریا کے لبادوں میں چھپانے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی-
پھر تم وحشت و بر بریت کا وہ سیلاب دیکھو گے جو روئے زمین کی کسی قوم نے آج تک نہیں دیکھا.
اس معاہدے کے خوب صورت الفاظ کے معنی بدل جائیں گے-
اس وقت تم یہ محسوس کرو گے کہ ظلم و ستم اور وحشت کی آگ کے انگاروں کو امن کے پھول سمجھ کر تم اپنی جھولیاں بھر لی تھیں___________مجھے صرف یہی خدشہ نہیں ہے کہ تمہاری درس گاہوں کو بند کر دیا جائے گا تمہارے کتب خانے جلا دیئے جائیں گے اور تمہاری مساجد گرجوں میں تبدیل ہو جائیں گی-
بلکہ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ہلاکت اور تباہی کے راستے کی ہر نئی منزل پچھلی منازل سے بہت زیادہ تاریک نظر آئے گی-----.

No comments:

Post a Comment