Thursday 8 September 2016

اندھیری رات کے مسافر

اندھیری رات کے مسافر.
از سیم حجازی.
قسط نمبر 42.
پیغام_____________ہمیں اپنی آزادی اور آئندہ نسلوں کی بقا سے کہیں زیادہ اپنی دولت اپنی زمین مکانوں اور باغات سے محبت ہے.
آزادی کے بجهے ہوئے چراغ اسی خون کے طلبگار ہیں جس کی فراوانی سے ہمارے اسلاف نے اس زمین کو صدیوں کی بہاریں عطاء کی تھیں-
لیکن آج ہمارا خون آنسوؤں میں تبدیل ہو چکا ہے اور ہمارے سینوں میں زندگی کی آگ بجھ چکی ہے-"
اگر حامد بن زہرہ
چند ہفتے پہلے یہاں پہنچ جاتے اور ہمیں اسلامی ممالک کی طرف سے اعانت کا کوئی حوصلہ افزا پیغام دے دیتے تو بھی اہل غرناطہ کے سینوں میں زندگی کے ولولے بیدار کرنا ایک معجزے سے کم نہیں ہو گا لیکن اب تو شاید موہوم امیدوں کا سہارا لینے کا وقت بھی گزر چکا ہے-
ہم دشمن کو اس بات کی اجازت دے چکے ہیں کہ وہ اپنا خنجر ہماری گردنوں پر رکھ دے.
اب ہم اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں کہ شاید ہماری شہ رگ بچ جائے یا شہ رگ کٹ جانے کے بعد بھی ہم زندہ رہ سکیں. .
ہمارا اخلاقی حصار منہدم ہو چکا ہے ہماری زندگی اور توانائی کے چشمے زہر آلود ہو چکے ہیں
آپ یہ نہ سمجھ لینا کہ میں غرناطہ کے امن پسندوں کا طرفدار ہوں.
میرے گھرانے کے آٹھ آدمی شہید ہو چکے ہیں اور مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میرا ایک بھائی متارکہ جنگ کے معاہدے سے دلبرداشتہ ہو کر ان مجاہدین سے جا ملا تھا جنہوں نے اپنی چاروں طرف سے گھر جانے کے باوجود اپنی آزادی کے پرچم کو سرنگوں نہیں دیا.
اس نے ذلّت کی زندگی سے عزت کی موت کا راستہ منتخب کیا-
لیکن میں اس سے مختلف ہوں میں صرف زندہ رہنا چاہتا ہوں-
حالات نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جس قوم کی باگ ڈور ابو عبداللہ اور ابو القاسم جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جس کے اکابرین نے اس ڈر سے اپنے چار سو فرزندوں کو یرغمال کے طور پر دشمن کے حوالے کر دیا ہو کہ لوگ انہیں دوبارہ جنگ پر مجبور نہ کر دیں اس کے دل میں صرف زندہ رہنے کی خواہش باقی رہنا غنیمت ہے-
مسلمانان اندلس کی تاریخ کے آئندہ چند دن بہت نازک ہیں. مجھے ڈر ہے کہ حامد کی تقریر ہمارے لئے قدرت کی طرف سے آخری تنبہ نہ ہو-
اس تقریر کے بعد ان کے لیے غرناطہ کا کوئی گوشہ محفوظ نہیں ہو گا.
قوم کے غدار انہیں راستہ سے ہٹانے کے لیے کسی بھی اقدام سے گریز نہیں کریں گے اور اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آ گیا تو وہ خوفناک عذاب شروع ہو گا جس کے آثار ظاہر ہیں---------
جلسہ کے اختتام کے بعد میں نے جن دوستوں سے گفتگو کی ہے وہ سب اس بات سے پریشان تھے کہ اہل غرناطہ بیک وقت اپنے اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے کیسے لڑ سکیں گے-
کسی قوم کے لئے اس سے بڑا اور عذاب کیا ہو سکتا ہے کہ اس کی آزادی کے محافظ دشمن کی فوج کا ہر اول دستہ بن جائیں"-
عبدالمنان کچھ دیر اور غداران قوم کی سازشوں کے حالات بیان کرتا رہا بالآخر اس نے اٹھتے ہوئے کہا:
معاف کیجئے گا میں بھول ہی گیا تھا کہ آپ ایک مہمان اور میری حیثیت ایک سرائے کے مالک سے زیادہ نہیں.
میں تھوڑی دیر کے لئے الحمراء جانا چاہتا ہوں اگر آپ عوام کا جوش و خروش دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ بھی میرے ساتھ چلیں.
سلمان نے کہا آپ تھوڑی دیر ٹھہریں میں نے عثمان کو کہیں بھیجا ہے مجھے یہاں ایک آدمی کا انتظار بھی ہے"-
عبدالمنان دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا.
تھوڑی دیر بعد عثمان ہانپتا ہوا کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کہا جناب وہ شہر سے نکل گئے ہیں.
شہر سے باہر کون نکل گیا ہے؟
عبدالمنان نے پوچھا عثمان نے جواب دینے کی بجائے سلمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا. اور اس نے مختصر نقاب پوشوں کے بارے میں بتا دیا.
عبدالمنان نے کہا کہ اگر وہ حامد کے ساتھی ہیں اور انہیں انہوں نے مہم پر بھیجا ہے تو ہمیں ان کا پتہ لگانے میں دیر نہیں لگے گی لیکن اگر حکومت کے جاسوس ہیں تو اس وقت ان کے شہر سے باہر جانے کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں پہلی یہ کہ انہیں حامد بن زہرہ کا ساتھ نہ دینے کے لیے قبائل کی طرف بھیجا گیا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ حامد کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن یہ پندرہ بیس لوگوں کے بس کا کام نہیں ہے کیونکہ ان کے لیے جنوب کے تمام راستوں کی ناکہ بندی کرنا آسان نہیں ہو گا.
سلمان نے کہا-
لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اس کام کے لیے حکومت کئ اور دستے باہر بھیج چکی ہو.
آج سارا دن صلح کے حامی بیکار نہیں بیٹھے ہوں گے. اس لئے حامد بن زہرہ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ان کو اپنی حفاظت کا معقول انتظام کئے بنے سفر کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے.
عبدالمنان نے آٹھ کر کہا مجھے اجازت دیجئے.
آپ کہاں جا رہے ہیں؟ "
مجھے یقین ہے کہ وہ صبح ہوتے ہی یہاں سے روانہ ہو جائیں گے اس لیے اس انہیں خبردار کرنا بہت ضروری ہے-"
آپ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ٹھہرے ہوئے ہیں نہیں میں نے عمداً ان کا پیچھا کرنے کی کوشش نہیں کی میرا کاروبار ایسا ہے کہ میں حکومت کے جاسوسوں کو اپنے پیچھے لگانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا لیکن میرے پیغام ان تک پہنچ جائے گا. میں کسی ایسے دوست کو تلاش کر سکوں گا جنہیں اس کی رہائش گاہ کا پتہ ہو.
مجھے معلوم نہیں کہ وہ میرے پیغام کو اہمیت دیں گے یا نہیں آپ مجھے ان کے پاس پہنچا دیں تو یہ مسئلہ آسان ہو جائے گا سلمان نے کہا.
اچھا میں کوشش کرتا ہوں آئیے.
سلمان اٹھ کر عثمان سے مخاطب ہوا تم میرا گھوڑا تیار رکھنا.
ممکن ہے مجھے اچانک یہاں سے جانا پڑے.
اگر کوئی میرا پوچھتا ہوا آئے تو اسے روک لینا.
عثمان بھاگ کر باہر نکل گیا اور چند ثانیے بعد عبدالمنان اور سلمان دروازے کی طرف جا رہے تھے کہ انہیں بگهی کی کھڑکھڑاہٹ سنائی دی اور جب وہ صحن میں پہنچے تو بگهی وہاں کھڑی تھی اور ایک ایک آدمی نیچے اتر رہا تھا.
جعفر سلمان نے اسے دیکھتے ہی آواز دی.
جعفر بھاگ کر آگے بڑھا اور عبدالمنان سے سلام لے کر سلمان سے مخاطب ہوا.
وہ مجھے یہ حکم دے کر گئے ہیں کہ میں کل ضبح تمہارے ساتھ گاؤں پہنچ جاؤں.
میں نماز سے فارغ ہوتے ہی آپ کے پاس پہنچ جاؤں گا آپ تیار رہیں-"
سلمان نے کہا ہم ان کی تلاش میں جا رہے ہیں اب تم مجھے کسی تاخیر کے بناان کے پاس پہنچا دو
لیکن وہ تو_____!"
سلمان نے مضطرب ہو کر کہا لیکن وہ تو کیا؟ "-
اب ان باتوں کا وقت نہیں ہے جلدی کرو اگر وہ کہیں دور نکل گئے ہیں تو ہم بگهی پر جا سکتے ہیں.
میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ وہ تم سے خفا نہیں ہوں گے.
جعفر نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا جناب اب غرناطہ میں ان سے ملاقات نہیں ہو سکے گی وہ یہاں سے جا چکے ہیں اس نے سرگوشی میں کہا.
کہاں؟ -"
انہوں نے یہ نہیں بتایا ان کی اچانک روانگی میرے لیے بھی ایک معمہ تھی.
جب میں آپ سے مل کر ...

No comments:

Post a Comment