Wednesday 28 September 2016

فرعون اور حضرت موسیٰ علیہ السلام

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
٭٭٭حصہ سوم٭٭٭

حضرت موسیٰ علیہ السلام چلتے چلتے حضر ت شعیب کے گھر پہنچے اور اس بزرگ صورت و سیرت انسان کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف ملاقات سے بہرہ اندوز ہوئے، بزرگ نے پہلے کھانا کھلایا اور پھر اطمینان کے ساتھ بٹھا کر ان کے حالات سنے ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے من و عن اپنی ولادت اور فرعون کے بنی اسرائیل پر مظالم سے شروع کرکے آخر تک ساری داستان کہہ سنائی۔ سب کچھ سننے کے بعد بزرگ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تسلی دی اور فرمایا کہ خدا کا شکر کرو کہ اب تم کو ظالموں کے پنجہ سے نجات مل گئی اب کوئی خوف کا مقام نہیں ہے۔

اکثر مفسر ین کا خیال ہے کہ مدین والے شیخ نبی اللہ حضر ت شعیب علیہ السلام تھے۔ بعض نے ان کی قوم کے ہی ایک بزرگ کا ذکر کیا ہے۔ لیکن یہ نبی نہیں تھے۔ بہرحال ان میں اختلاف ہے۔

قرآن میں یہ کچھ یوں ہے۔
’’اور جب منہ کیا مدین کی سیدھ پر بولا امید ہے کہ میرا رب لیجائے مجھ کو سیدھی راہ پر اور جب پہنچا مدین کے پانی پر پایاوہاں ایک جماعت لوگوں کی پانی پلاتے ہوئے اور پایا ان سے ورے دوعورتوں کو روکے ہوئے کھڑی تھیں اپنی بکریاں بولا تمہارا کیا حال ہے بولیں ہم نہیں پلاتیں پانی چرواہوں کے پھیر لیجانے تک اور ہمارا باپ بوڑھا ہے بڑی عمرکا پھر اس نے پانی پلادیا اس کے جانوروں کو پھر ہٹ کر آیا چھائوں کی طرف بولا اے رب تو جو چیز اتارے میری طرف اچھی میں اس کا محتاج ہوں پھر آئی اس کے پاس ان دونوں میں سے ایک چلتی تھی شرم سے بولی میراباپ تجھ کو بلاتا ہے کہ بدلے میں دے حق اس کا کہ تو نے پانی پلادیا ہمارے جانوروں کو پھر جب پہنچا اس کے پاس اور بیان کیا اس سے احوال کہا مت ڈر بچ آیا تو اس قوم بے انصاف سے۔( قصص ع۳)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور مدین کے بزرگ میزبان کے درمیان یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اس لڑکی نے جو موسیٰ علیہ السلام کو بلانے گئی تھی اپنے باپ سے کہا: اے باپ! آپ اس مہمان کو اپنے مویشیوں کے چرانے اور پانی مہیا کرنے کے لئے اجیر رکھ لیجئے، اجیر وہی بہتر ہے جو قوی بھی ہو اور امانت دار بھی۔

مفسرین کہتے ہیں کہ باپ کو لڑکی کی یہ گفتگو عجیب سی معلوم ہوئی اور اس نے دریافت کیا:’’ تجھ ‘‘ کو اس مہمان کی قوت و امانت کا حال کیا معلوم؟ لڑکی نے جواب دیا:میں نے مہمان کی قوت کا اندازہ تو اس سے کیا کہ کنوئیں کا بڑا ڈول اس نے تنہا بھرکر کھینچ لیااور امانت کی آزمائش اس طرح کی کہ جب میں اس کو بلانے گئی تو اس نے مجھے دیکھ کر نیچی نظریں کرلیں اور گفتگو کے دوران میں ایک مرتبہ بھی میری طرف نگاہ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور جب یہاں آنے لگا تو مجھے پیچھے چلنے کو کہا اور خود آگے آگے چلا اور صرف اشاروں ہی میں اس کی رہنمائی کرتی رہی۔(تفسیر ابن جریرسورئہ قصص)

بزرگ باپ نے بیٹی کی ان باتوں کو سنا تو بہت مسرور ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اگر تم آٹھ سال تک میرے پاس رہو اور میری بکریاں چراؤ تو میں اس بیٹی کی تم سے شادی کرنے کو تیار ہوں اور اگر تم اس مدت کو دوسال بڑھا کر دس سال کردو تو اور بھی بہتر ہے یہی لڑکی کا مہر ہوگا ،حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس شرط کو منظور کر لیا اور فرمایا کہ یہ میری خوشی پر چھوڑئیے کہ میں ان دونوں مدتوں میں سے جس کو چاہوں پورا کردوں، آپ کی جانب سے مجھ پر اس بارہ میں کوئی جبر نہ ہوگا۔ طرفین کی اس باہمی رضامندی کے بعدبزرگ میزبان نے اس بیان کردہ مدت کو مہر قرار دے کر موسیٰ علیہ السلام سے اپنی اس بیٹی کی شادی کردی۔

اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ مدت ختم ہونے پر ’’عقد‘‘ عمل میں آیا اور عقد کے فوراً بعد ہی موسیٰ علیہ السلام اپنی بیوی کو لے کر روانہ ہوگئے، مفسرین نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیوی کا نام حضرت’’صفورہ‘‘ بتایا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین میں ایک عرصہ قیام کیا اور اس پوری مدت میں اپنے خسر کے مویشیوں کی گلہ بانی کرتے رہے
قرآن عزیز نے یہ نہیں بتایا کہ مدت پوری ہونے کے کس قدر بعد تک حضرت موسیٰ علیہ السلام نے’’ شیخ‘‘ اپنے خسر کے پاس قیام کیا؟ البتہ مفسرین یہ کہتے ہیں کہ مدت ختم ہونے کے فوراً بعد ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کو روانہ ہوگئے اور ان کے خسر نے روانگی کے سال میں بکریوں نے جس قدر بچے دیئے تھے ان کے حوالے کردئیے اور وہ اپنی بیوی اور اس ریوڑ کو لے کر چل پڑے۔( معالم جلد ۵ ص ۱۴۳)
شاید ان کا یہ قول اس آیت کے پیش نظر ہو’’فلما قضی موسی الاجل وسارباھلہ انس من جانب الطورنارا‘‘( قصص ع ۴)
’’پس جب حضرت موسیٰ نے مدت پوری کردی اور اپنے اہل کو لے کر چل دیا تو محسوس کیا طور کی جانب آگ کو۔

تو رات میں مذکورہے کہ اس قیام میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک لڑکا پیدا ہوا جس کا نام جیر سون رکھا،مدیانی عبرانی میں اس کے معنی’’غربت و مسافرت‘‘ کے ہیں۔ گو یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیٹے کے نام میں اپنی’’مسافرت‘‘ کو بطور یاد گار قائم رکھا تا کہ خاندان والوں کو یاد رہے کہ اس بچہ کی ولادت غربت ومسافرت میں ہوئی تھی، تو رات کی عبارت یہ ہے:
’’ اور اس نے اپنی بیٹی صفورہ موسیٰ کو دی وہ بیٹا جنی اس نے اس کا نام جیر سون رکھا کیونکہ اس نے کہا میں اجنبی ملک میں مسافر ہوں۔‘‘ ( خروج باب ۲آیت ۲۱،۲۲)

وادی مقدس میں۔
واپس آتے ہوئے یا وہیں مدین کے قریب ہی ایک روز حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل وعیال سمیت بکریاں چراتے چراتے مدین سے بہت دور نکل گئے گلہ بان قبائل کے لئے یہ بات کوئی قابل تعجب نہ تھی مگر رات ٹھنڈی تھی اس لئے سردی آگ کی جستجو پر مجبور کر رہی تھی۔
سامنے کوہ سینا کاسلسلہ نظر آرہا تھا یہ سینا کا مشرقی گوشہ تھا اور مدین سے ایک روز کے فاصلہ پر بحر قلزم کے دوشاخے کے درمیان مصر کو جاتے ہوئے واقع تھا، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگ جلانے کے لئے چقماق استعمال کیا مگر سخت خنکی تھی اس نے کام نہ دیا۔ سامنے کی وادی (وادی ایمن) میں نگاہ دوڑائی تو ایک شعلہ چمکتا ہوا نظرپڑا ،بیوی سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں آگ لے آؤں تاپنے کا بھی انتظام ہوجائے گا اور اگر وہاں کوئی رہبرمل گیا تو بھٹکی ہوئی راہ کا بھی کھوج لگ جائے گا۔
’’پھر موسیٰ نے اپنی بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید اس میں سے کوئی چنگاری تمہارے لئے لاسکوں یا وہاں الائو پر کسی رہبر کو پاسکوں۔ (طٰہٰ ع ۱)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ عجیب آگ ہے درخت پرروشنی نظر آتی ہے مگر نہ درخت کو جلاتی ہے اور نہ گل ہی ہوجاتی ہے، یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھے لیکن جوں جوں آگے بڑھتے جاتے تھے آگ دور ہوتی جاتی تھی یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کو خوف ساپیدا ہوااور انہوں نے ارادہ کیا کہ واپس ہوجائیں جوں ہی وہ پلٹنے لگے آگ قریب آگئی اور قریب ہوگئی اور قریب ہوئے تو سنا کہ یہ آواز آر ہی ہے:

اے موسیٰ!میں ہوں میں اللہ پروردگار تمام جہانوں کا۔ (قصص)

پس جب موسیٰ اس( آگ) کے قریب آئے تو پکارے گئے اے موسیٰ! میں ہوں تیرا پروردگار پس اپنی جوتی اتار دے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ! میں نے تجھ کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن۔( طٰہٰ:ع۱)

جاری ہے،، بقیہ حصہ چہارم میں

No comments:

Post a Comment