Tuesday 13 September 2016

ایک دل کو چھونے والی تحریر

سمرقند تاریکی میں ڈوبا ہوا تها...آسمان پر سیاہ بادلوں کی وجہ سے ہاتھ کو ہاتھ سجهائی نہ دیتا تها...آسمان پر کوئی تارا نظر آتا تها نہ زمین پر کوئی چراغ. تمام لوگ سو چکے تهے.. اس عالم میں صرف ایک شخص جاگ رہا تها. رات کی تاریکی میں یہ شخص اپنے گهر سے نکلا اور دائیں بائیں جهانکے بغیر سیدها قصر امرت کے پاس چلا گیا.. اس نے محل پر ایسی قاہرانہ نگاہ ڈالی کہ اگر اس میں انگارے ہوتے تو یہ محل خاکستر ہوجاتا. معاً اس نے قدم تیز کر دیے اور اپنی منزل مقصود کی طرف روانہ ہو گیا. وہ شہر سے نکل کر درختوں کے ایسے جهنڈ میں داخل ہوگیا جہاں وحشی درندوں اور خونخوار جانوروں کی دہشت ناک آوازیں سنائی دے رہی تهیں. جنگل خوفناک تاریکی میں ڈوبا ہوا تها.. درختوں کے جهنڈ اور رات کی گهٹا ٹوپ اندهیروں کی وجہ سے آنکهوں پڑی چیزیں بهی پوری طرح دکهائی نہ دیتی تهیں.
    مگر یہ آدمی اس خطرناک منظر سے بے پرواہ ہو کر منزل مقصود کی طرف گامزن رہا.. اگلا مقام اس سے بھی زیادہ خوفناک اور دل دہلا دینے والا تها.. چلتے چلتے جب وہ اس پتهر کے پاس پہنچا جو مندر کے پہلو میں تها تو ہیبت کی وجہ سے چند قدم پیچهے ہٹ گیا. اس پر اتنا خوف طاری ہوا جو عام لوگوں پر خوفناک درندے دیکھ کر بهی نہیں ہوتا..
    اس کا سبب یہ نہ تها کہ یہ شخص کوئی بزدل انسان یا نوعمر لڑکا تها. بلکہ اس جری اور دلیر شخص کے دل میں بچپن سے ہی مندر کے ہیبت ناک توہمات بٹها دیے گئے تهے اور یہ انهی توہمات میں پروان چڑها تها.. چناچہ یہ مندر کی مخفی قوتوں اور اسرار و رموز سے اتنا خائف تها کہ میدان جنگ کی سنسناتی ہوئی تلواروں کا خوف اس کے مقابلے میں ہیچ تها.
     وجہ یہ تهی کہ اس مندر میں ہر کسی کو آنےکی اجازت نہ تهی. اس میں تو وہی کاہن (پروہت) داخل ہو سکتا تها جو نفس کش ریاضتیں کر کے اور زبردست قسم کی مشقتیں اٹها اٹها کر رشی بن چکا ہو. اور جو شخص رشی بن کر اس میں داخل ہو جاتا وہ دنیا کی رونق اور اس کی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتا.
    چناچہ یہ جری اور شجاع شخص پروہتوں کے خوف سے قدم آگے نہ بڑها سکا. کچھ عرصہ کهڑے رہنے کے بعد اپنے آپ کو سنبهالتے ہوئے دروازہ کهٹکهٹانے کا سوچ ہی رہا تها کہ اندهیرے میں بڑے سر والی ڈرائونی شکل دکهائی دی. جس کی داڑهی وسیع و عریض اور بال لمبے لمبے تهے. یہ اسے دیکھ کر مزید خوف زدہ ہوگیا. قریب تها کہ وہ بهاگ کهڑا ہوتا، لیکن جب اس کا نام لے کر انسانی آواز میں اسے پکارا تو یہ سمجھ گیا کہ یہ مندر کا دربان ہے اور مجهے لینے آیا ہے. یہ اس کے پیچهے پیچهے چل پڑا لیکن اس کا دل آنے والے منظر سے دهڑک رہا تها . دربان اسے اپنے ہمراہ ایک طویل ترین سرنگ میں لے گیا جس کی دونوں اطراف میں تانبے کے منقش چراغ روشن تهے اور ان سے نیلی رنگت کی روشنی نکل نکل کر دیواروں کے پتهروں پر رقص کر رہی تهی. اس سرنگ میں ان دیوتائوں کی ہیبت ناک تصویریں رکهی ہوئی تهیں جن کی آنکهوں سے سرخ شعلے نکل رہے تهے اور یہ آنکهیں بڑے بڑے نڈر لوگوں کے دل دہلا دیتی تهیں.
سرنگ کی دونوں جوانب چهوٹے چهوٹے سوراخ تهے جن میں جب کبهی ہوا پورے زور سے داخل ہوتی تو ایسی ایسی آوازیں نکلتیں کہ سننے والوں کو بہرا کر دیتی تهیں. یہ دونوں چلتے چلتے ان رشیوں کے پاس پہنچے جنہیں کبهی کبهار بادشاہ ہی دیکھ سکتا تها اور سارے حکمران ان کی بات رد نہیں کر سکتے تهے، مبادا ان کی بات نہ ماننے کی وجہ سے کوئی مصیبت نہ آن پڑے.
یہ آدمی ہیبت کے اور دہشت کی وجہ سے اردگرد دیکهتا نہ نظر بهر کر پروہتوں کو دیکهتا..البتہ ان کی باتیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تهیں. اور یہ انہیں ایسے سن رہا تها جیسے خواب دیکھ رہا ہو.
اس نے نظریں جهکائے ہی اندازہ لگایا کہ ان میں سے ایک پروہت سمرقند کا ماضی یاد کر رہا ہے اور اہل وطن کی بد اعمالیوں پر آنسو بہا رہا ہے اور بڑے دکھ کے ساتھ بیان کر رہا ہے کہ مسلمان کس طرح ناگہانی آفت کی طرح آئے اور انہوں نے سمرقند کا تاج و تخت الٹ دیا. اب ان کے نکلنے کی تمام امیدیں ختم ہو گئی ہیں اور سوائے ترکش دان کے آخری تیر چلانے کے کوئی چارہ نہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم نے سنا ہے کہ اس قوم کا حکمران بڑا عادل اور منصف مزاج ہے. ہمارا پروگرام ہے کہ ہم اس کی خدمت میں اپنا قاصد بهیجیں جو اسے ہمارے شکایت سے آگاہ کرے.. پهر جو ہو سو ہو.
اور ہم نے تیری جرات و شجاعت اور عربی زبان میں مہارت کی وجہ سے منتخب کیا ہے، کیا تو راضی ہے؟
اس نے کہا: "ہاں"
پروہت نے کہا: "دیوتائوں کی توفیق سے روانہ ہو جا."
یہ آدمی مندر سے نکلا. فخر کی وجہ سے اس کا سر بلند تها. اب اسے پائوں زمین پر اور دماغ آسمانوں پر پرواز کر رہا تها. وہ اتنی خوشی محسوس کر رہا تها کہ اڑ کر دمشق چلا جائے.. اسے رات کا اندهیرا، روشنی نظر آنے لگا کیونکہ اس کے لیے یہ بڑی خوشی کی بات تهی کہ وہ بڑے پروہت سے ہمکلام ہوا ہے اور یہ ایسا اعزاز تها جو شاید ہی کسی کو نصیب ہوتا ہو. اس نے سمجھ لیا کہ اب سمرقند کی آزادی اس کے بائیں ہاتھ میں ہے.. وہ فرط شجاعت میں تمنا کرنے لگا:
"کاش وہ مجهے اسلامی افواج سے ٹکرا جانے کا حکم دیتے."
لیکن یہ اس کی خام خیالی تهی. سمرقند کی حیثیت اسلامی سلطنت کے مقابلے میں اس خاشاک کی جڑ کی سی تهی جو سمندر پر پنجہ جمانا چاہے تو سمندر کی ایک موج اسے بہا کے کہیں سے کہیں لے جائے.
چناچہ یہ آدمی زاد سفر لے کر چل پڑا. دن اور رات، ہفتے اور مہینے مسلسل سفر کرتا رہا.. سمرقند سے بخارا، بخارا سے بلخ، بلخ سے ہرات، ہرات سے قزوین، قزوین سے موصل، موصل سے حلب، حلب سے دمشق.. سفر ختم ہونے کو آتا ہی نہ تها. سب ریاستیں ایک سے بڑھ کر ایک تهیں. سرسبزو شاداب زمینیں، تہذیب و تمدن کے عجیب و غریب نمونے، چاروں طرف رونق ہی رونق، پرشکوہ عمارتیں، بلند و بالا محلات' وسیع و عریض شاہراہیں، حسین و جمیل انسان، باپردہ اور حیا دار خواتین، مختلف رنگوں کے پہاڑ، ہزاروں باغات ، مختلف اقسام کے میوہ جات. وہ دیکهتا چلا جا رہا تها مگر یہ عجائبات ختم ہونے کو نہ آتے تهے. انہیں دیکھ کر سمرقند کی عظمت ہیچ نظر آنے لگی.سمرقند کی حیثیت چین و ایران کے مقابلے میں کیا تهی جنہیں پہاڑوں کے درمیان آباد، مدینہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچا دکها دیا تها.
مدینہ منورہ وہ سرزمین ہے جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے داہنے ہاتھ سے حرکت دی تو اس نے خالد بن ولید، مثنی بن حارثہ، سعد بن ابی وقاص (رضوان اللہ علیہم اجمعین) اور محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم، طارق بن زیاد، عبدالرحمان الداخل اموی جیسے بے مثال جرنیل پیدا کیے(رحم اللہ جمیعا) جنہوں نے سرکش حکومتوں کے تخت الٹ دیے. پهر اسی صحرائی زمین نے شام، عراق، ایران اور خراسان کو پسماندگی سے نکال کر بام عروج تک پہنچا دیا. بے دین حکمرانوں کی فتوحات سے ملک اجڑتے رہے تهے، جبکہ اسلامی حکومتوں کی فتوحات سے دنیا آباد ہوتی چلی گئی.
       بالآخر وہ دمشق پہنچا اور اسے پہلی نظر سے دیکھ کر یوں چونک پڑا جیسے نیند سی بیدار ہوا ہو...بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کے بادشاہوں کی ملاقات کے تصور سے اس کا دل دهڑکنے لگا...
 یہ دمشق ہے....
.مسلمانوں کا دارالحکومت.....جلال و جمال کا دلفریب دارالسلطنت، دولت و ثروت کی کان، تقویٰ اور شرافت کا گہوارہ.. یہیں سے ایسا فرمان جاری ہوتا ہے کہ جس کے سامنے دمشق سے سمرقند اور سمرقند سے سپین تک کے امراء کی گردنیں جهک جاتی ہیں. اور یہیں وہ مرد حکمران بستا ہے جس کے سامنے قیصر روم، کسری ایران، سکندر یونان، خاقان چین کی عظمتیں نقش برآب ہو گئیں اور جس کی بات کو چین کے کہساروں سے لے کر بحر ظلمات تک ٹالنے والا کوئی نہیں.
   دل میں خیال آیا کہ اس حکمران تک رسائی کیسے حاصل ہوگی؟...مسافر ہوں، پہلے کبهی یہاں آیا بهی نہیں....ناامیدی پیدا ہوئی....رات گزارنے کے لیے ایک سرائے میں ٹهرا... صبح ہوئی تو خوبصورت جوڑا زیب تن کیا اور خلیفہ کی ملاقات کو نکلا... کسی آدمی سے خلیفہ سے متعلق پوچهتے ہوئے دہل گیا...اسے خیال آیا کہ نصف خطہ ارض کے حکمران سے ملنا جوئے شیر لانا ہے. اسے یاد آیا کہ دنیا کے بادشاہ کسطرح کسریٰ ایران کے سامنے لرزاں ترساں کهڑے ہوتے تهے. وہ محض شبہے اور ناپسندیدہ جملے کی بنا پر ان کو درندوں کے حوالے کر دیتا تها.
اس نے اپنی جان کے پیش نظر خلیفہ سے ملاقات کا خیال دل سے نکال دیا اور سوچنے لگا کہ جان گنوا کر ملک کی آزادی میرے کس کام. انہی سوچوں اور گهبراہٹوں میں گم ادهر ادهر گهومتا رہا. جب کبهی کسی پرشکوہ محل کے سامنے سے گزرتا تو رونق اور ٹهاٹھ باٹھ دیکھ کر اسے خلیفہ کا گهر خیال کر کے ششدر و حیران رہ جاتا اور ملاقات کے تصور سے دل بیٹھ جاتا. چلتے چلتے اس کے سامنے ایک وسیع و عریض اور عالی شان عمارت آگئی، جس کا دروازہ بلند و بالا اور چوڑا تها. اس کے دائیں بائیں دو لمبے مرمریں ستون تهے، جن کے نقش و نگار اور بیل بوٹوں کو دیکھ کر آنکهیں خیرہ ہو جاتی تهیں. اس نے دیکها کہ بے شمار لوگ اس میں آ جا رہے ہیں اور کوئی روکتا ٹوکتا نہیں. چناچہ یہ بهی اس میں داخل ہو گیا. اندر جا کر خوبصورت وسیع و عریض صحن اور جهیل کو دیکھ کر پہلے سے زیادہ حیران ہو گیا. اس جهیل میں پانی کے فوارے پهوٹ رہے تهے اور سورج کی کرنوں نے اسے وہ حسن بخش دیا تها جو بیان سے باہر ہے. آگے جا کر دیکهتا ہے کہ ہزاروں افراد مختلف کاموں میں مصروف ہیں. کہیں کوئی اٹهتا ہے، کوئی بیٹهتا ہے اور کہیں علمی حلقے قائم ہیں. بحث و مباحثہ ہو رہا ہے. کہیں درس و تدریس اور کہیں فتاویٰ لکهے جا رہے ہیں. اتنی مخلوق جمع ہے کہ ایک سرے پر کهڑے ہو کر دوسرے سرے تک نظر نہیں دوڑائی جاسکتی تهی. فرش ایسا خوشنما کہ شیشے کی طرح چمک رہا تها. دیواروں کے رنگ و روغن نے آنکهیں چندهیا دیں. چهت کی طرف دیکها تو چاندی کی زنجیروں سے لٹکتی ہوئی قندیلوں اور شمع دانوں کی خوشنمائی نے سب کچھ بهلا دیا. اس بقعہ نور میں چلتے چلتے ایک نمازی کے پاس کهڑا ہو گیا. اس نے سلام پهیر کر اس مسافر کا حال پوچها.... اسے معلوم ہوا کہ خلیفہ سے ملنا چاہتا ہے.
نمازی:..."تو کیا آپ امیر المومنین کے گهر کا پتہ پوچهنا چاہتے ہیں؟"
سمرقندی:.."کیا یہ امیرالمومنین کا گهر نہیں؟"
نمازی:"(ہنستے ہوئے) نہیں یہ اللہ کا گهر ہے..کیا تو نے نماز پڑھ لی ہے؟"
اس بے چارے کو نماز کا کیا پتہ. یہ تو اس دین کا پابند تها جس کی معرفت صرف ڈرائونی صورتوں والے دیوتائوں ہی کو حاصل تهی. کہاں مندروں کا اندهیرا اور کہاں اسلام کا نور و جمال....یہ خاموش رہا تو نمازی نے پهر پوچها: "کیا تو نے نماز ادا کر لی؟"
سمرقندی: "میں سمرقند والوں کے دین کا پابند ہوں."
نمازی: "ان کا دین کیا ہے؟"
سمرقندی: "مقدس مورتیوں کی پرستش."
نمازی: "تیرا رب کون ہے؟"
سمرقندی: "مندر کے مرعوب کن دیوتا."
نمازی: "کیا جب تو بیمار ہوتا ہے تو وہ تجهے شفا دیتے ہیں یا تو حاجت طلب کرے تو پوری کرتے ہیں؟
سمرقندی: "میں نہیں جانتا."
اس نمازی نے سمجھ لیا کہ یہ بیچارہ جاہل ہے. اس نے اس کے خالی دل میں اسلام کے سیدهے سادهے اصول اور اس کا جمال ڈالنا شروع کردیا. تهوڑی سی دیر میں یہ اس دین کا پابند ہو گیا، جس نے عربوں کو پوری دنیا کا حکمران بنا دیا تها.
نمازی نے کہا: "آئو میں تمہیں خلیفہ کا گهر بتائوں. (اور اس وقت امیرالمومنین گهر کا کام کر رہے تهے) یہ اس کے پیچهے پیچهے چل پڑا اور اس کا چہرہ، اسلام کے جمال و کمال سے آگہی کی بنا پر تمتما رہا تها. یہ داخل ہونے والے دروازے کی بجائے دوسرے دروازے سے نکلا اور اس وقت حیران و ششدر رہ گیا جب نمازی لکڑی کے دروازے والے تنگ مکان کی طرف اشارہ کرکے کہہ رہا تها کہ یہ امیرالمومنین کا گهر ہے.
       اس نے نمازی کی طرف دیکها کہ شاید مذاق کر رہا ہو. لیکن اسے سنجیدہ پا کر دروازے سے آگے بڑھ گیا. اسے دروازے کی دراڑ سے نظر آیا کہ ایک بزرگ گارے سے دیوار لیپ رہا ہے اور ایک بی بی آٹا گوندھ رہی ہے.. اس نے دروازہ چهوڑ دیا اور غصے سے اس نمازی کو پکڑ لیا اور کہا:
"تو نے مجھ سے جهوٹ بول کر کیا لینا تها؟ میں نے تجھ سے خلیفہ کا گهر پوچها تها لیکن تو نے معمار کا گهر بتا دیا."
نمازی: "کونسا معمار؟"
سمرقندی: "گهر والا اور کون؟"
پهر اسے گهر والے کا حلیہ بتایا.


(دوسری اور آخری قسط انشااللہ بعد میں)

No comments:

Post a Comment