Monday 19 September 2016

مصحف از نمرہ احمد قسط نمبر 11.

قسط نمبر 11 ۔

" بالکل، لڑکیوں کو ادهر دهکے کهانے کی کیا ضرورت ہے؟ غفران چچا اور اسد چچا نے بهی فورا آغاجان کی تائید کر دی تو محمل نے بےبسی سے مدد طلب نظروں سے فواد کو دیکها-
" اوکے، جیسے آپ کی مرضی-" وہ شاننے اچکا کر اب جهک کر اپنے بوٹ کے تسمے بند کر رہا تها-
اس کا دل جیسے گہری کهائی میں جا گرا- وہ تیزی سے بهاگتی ہوئی کچن میں آئی اور سنک پہ جهک کر پهوٹ پهوٹ کر رونے لگی- اس کے آنسووں کے ساتھ سارے خواب گرتے' بہتے چلے جارہے تهے- وہ اتنا روئی کہ ہچکی بند ہونے لگی تو بالآخر نل کهول کر منہ پہ پانی ڈالنے لگی-
اس نے سوچ لیا تها کہ آج وہ آخری دفعہ رو رہی ہے- وہ آج کے بعد ہرگز نہیں روئے گی- اس نے تو سیدهے طریقے سے سب کچھ واپس حاصل کرنے کا سوچا تها، لیکن ان لوگوں کو سیدها طریقہ راس نہیں ایا تها- ٹهیک ہے، اب اگر اسے ان سے اپنا انتقام لینے کو جادو یا سفلی علم کا سہارا بهی لینا پڑا تو وہ ضرور لے گی-
اسے اب صبح کا نتظار تها- صبح اسے بس اسٹاپ پہ جا کر اس سیاه فام لڑکی سے وہ کتاب لینی تهی-
ویسے نہیں تو ایسے سہی!
چہرے پہ ٹهنڈا پانی ڈالتے اس نے سوچا تها-
صبح اسے کالج نہیں جانا تها- ایگزامز ختم ہو چکے تهے، مگر وہ پهر بهی بہانہ کر کے مخصوص وقت سے آدھ گهنٹہ پہلے ہی اسٹاپ پہ چلی آئی تهی اور اب مسلسل بنچ کے آس پاس ٹہل رہی تهی-
سیاه فام لڑکی ابهی تک نہیں آئی تهی، محمل بار بار کلائی پہ بندهی گهڑی دیکهتی، پهر بےچین نگاہوں سے گردن ادهر ادهر گهماتی- بهوری اونچی پونی بهی ساتھ ہی جهولتی- اسے شدت سے اس لڑکی کا انتظار تها اور آج تو لگتا تها جیسے وقت بہت دیر سے گزر رہا ہے-
بالآخر وہ تهک کر بنچ پہ بیٹهی اور سر دونوں ہاتهوں سے تهام لیا-
" کیا میرا انتظار کر رہی تهیں؟" کسی نے اس کے کندهے پہ ہاتھ رکها تو وہ کرنٹ کها کر اٹهی-
وہ سیاه فام لڑکی سامنے کهڑی مسکرا رہی تهی-" میں تمہارا ہی ویٹ کر رہی تهی-"
" اور میں جانتی ہوں کہ کیوں؟" وہ آرام سے بنچ پہ بیٹهی، بیگ کا اسٹریپ کندهے سے اتار کر ایک طرف رکها اور کتاب احتیاط سے گود میں رکهی- پهر جیسے فارغ ہو کر محمل کا چہرہ دیکها-
" تم تهک گئی ہو؟"
" ہاں میں تهک گئی ہوں- میں تنگ آ گئی یوں - اس دنیا میں میرے لیے کچھ نہیں ہے- کوئی نہیں ہے-"
" اونہوں ایسے نہیں کہتے- ابهی تو تمہیں وہ کچھ لینا ہے جس کی چمک سے تمہاری آنکهیں چکاچوند رہ جائیں گی- ابهی تو تم صحیح راستے پہ آئی ہو-"
" مجهے صحیح اور غلط کا نہیں پتہ نہ ہی میں صحیح غلط کی تفریق میں پڑنا چاہتی ہوں-" اس نے بے اختیار نگاہیں چرائی تهیں- اپنے دل سے، اپنے اندر بیٹهتے گلٹ کے احساس سے-
" کوئی بات نہیں شروع شروع میں یہ کتاب مشکل لگے گی، جیسے کوئی عزاب ہو' قید ہو' مگر پهر تم عادی ہو جاؤ گی-" وہ ویسے ہی مسکرا رہی تهی-
" یہ کتاب مجھ سے کیسے بات کرے گی؟" محمل سحر زدہ سی اس کی گود میں رکهی کتاب کو دیکھ رہی تهی-
"روز اسکا ایک صفحہ پڑهنا- اگر مشکل لگے تو میں تمهیں کچھ ایسے لوگوں کا بتاؤں گی جو اس کتاب کا علم سکهاتے ہیں- بالکل خاموشی سے، چپ چاپ اپنا کام کرتے ہیں- میں تمہیں ادهر لے جاؤنگی، وہ تمهیں اس قدیم کتاب کا علم سکهائیں گے جس میں یہ کتاب لکهی ہوئی ہے، پهر جب تم روز اسکا ایک ایک صفحہ پڑهنے کے قابل یو جاؤ گی تو تم جانو گی کہ ہر صفحہ تمہارے yesterday کی روداد ہے اور تمہیں tomorrow کی تدابیر بتا رہا ہے-"
"اور اگر میں ایڈوانس میں ایک صفحہ آگے پڑھ لوں تو مجهے اپنے آنے والے کل کا علم ہو جائے گا ہے نا؟"
" نہیں، تم ایک دن میں پوری کتاب بهی پڑھ لو تو بهی وہ تمہارا yesterday کی روداد ہی رہے گا- لیکن اگر وہی صفحے تم اگلے دن پڑهو گی تو اس دن کے حساب سے تمہاری گزشتہ دنوں کی روداد بن جائے گا-"
" کیا مطلب؟" وہ الجھ سی گئی- " یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی صفحےکا ایک دن میں ہی مطلب بدل جائے-"
" اگر یہ نہ ہوتا تو کیا تم آج اس کتاب کی طرف یوں کهنچی چلی آتی؟"
" تم واقعی سچ کہہ رہی ہو؟" وہ اندر ہی اندر خوفزدہ بهی تهی-
" تمہیں شک ہے کیا؟"
" نہیں مگر تم مجهے یہ کیوں دے رہی ہو؟ تمہارا اس میں کیا فائدہ؟" اپنی دانست میں محمل نے خاصا عقل مندانہ سوال کیا تها-
" میرا ہی تو اصل فائدہ ہے-" وہ پهر اسی پراسرار طریقے سے مسکرائی-" جو کچھ تمہیں حاصل ہو گا اس کا ایک شئیر تو مجهے ہی جائے گا-"
" شیئر؟" وہ دنگ رہ گئی- "کیا مطلب؟ کتنا شیئر؟ کتنے پرسینٹ؟"
" شاید آدها، شاید اس سے کچھ کم- معلوم نہیں، مگر یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے میرا حصہ مجھ تک پہنچ جائے گا، یہ کتاب خود میرے پاس آ کر مجهے میرا حصہ دلوائے گی-"
"اچها-" وہ متحیر سی تهی-" پهر میں یہ لے لوں؟"
" پہلے خوب اچهی طرح سوچ لو-"
" سب سوچ لیا ہے۔ " وہ تیزی سے بولی اور کتاب پہ ہاتھ رکها' مبادا وہ واپس نہ لے جائے-
" پهر لے جاؤ، مگر یاد رکهنا، یہ ایک بہت برا بوجھ ہے جو میں تمہیں دے رہی ہوں- اگر تم نے وہ، جنہیں تم عملیات کہتی ہو، کر لیے اور ویسے ہی کیا جیسے یہ کتاب تمہیں کہے تو پهر سب کچھ بدل جائے گا- تم اس کتاب میں رہنے لگو گی، اس سے بات کرنے لگو گی- اس کے علاوہ تمہیں کچھ نظر نہیں آئے گا- دیوانی ہو جاؤ گی،سحرزدہ، مجنوں...... اور پهر اگر تم اس کو چهوڑنا چاہو تو تباه ہو جاؤ گی- جو ملا تها وہ بهی جائے گا اور جو پہلے سے تها وہ بهی عذاب بن جائے گا- جاؤ، اسے لے جاؤ-"
اس نے سیاه جلد والی بهاری کتاب اٹها کر اس کی طرف بڑهائی اور جب محمل ابراہیم نے اسے تهامنا چاہا تو اس کے ہاتھ لرز رہے تهے-
" تهینک یو- کیا یہ مجهے تمہیں واپس کرنی ہو گی؟"
" نہیں-"
" اور جب میں پوری پڑھ لوں، ختم کر لوں، تب؟"
" تب اسے پهر سے شروع کر دینا- یہ کتاب کبهی پرانی نہیں ہوگی-"
" تهینک یو-" وہ کپکپاتی انگلیوں سے کتاب پکڑے تیز تیز چلتی گهر کی سمت بڑھ گئی- کتاب کی سیاه جلد سرد تهی، بے حد یخ سرد- کوئی اسرار تها اس میں، کوئی قدیم راز، جسے وہ آج بے نقاب کرنے جا رہی تهی-
جب اس نے گیٹ کهولا تو اسے محسوس ہوا کی اس کی ٹانگیں کانپ رہی تهیں اور دل ...... دل تو ایسے دهڑک رہا تها جیسے ابهی سینہ توڑ کر باہر آ گرے گا- بوجه، بہت بهاری بوجھ تھا جو اس تهکی ہوئی لڑکی سے لیا تها- اندر ہی اندر اسکا دل ڈر رہا تها، کہیں وہ تباہی کے رستے کی طرف تو نہیں جا رہی- یہ سیاه علم، سفلی عملیات، یہ اچهی چیزیں تو نہ تهیں پهر وہ کیوں اسے اٹها لائی تهی؟
اس نے رک کر سوچنا چاہا، مگر اب واپسی کا کوئی راستہ نہ رہا تها-
" دولت نچهاور..... محبوب قدموں میں...... دنیا پہ راج...."
اسے بہت سی چیزیں اکٹهی کرنی تهیں اور وہ کتاب اس کے ہر مسئلے کا حل تهی- اسے بیگم نعمان کے بیٹے کا ٹهکرایا گیا رشتہ یاد ایا، اسے رات فواد کی بات پہ سب کا ردعمل یاد آیا، اسے اپنی بے پناہ دولت بهی یاد آئی تهی جس پہ عیش کوئی اور کر رہا تها- پهر وہ کیسے اس لڑکی کو وہ کتاب،سب خزانوں کی کنجی واپس کر آتی؟ پهر وہ نہیں رکی اور کتاب سینے سے لگائے، سر جهکائے تیز قدموں سے چلتی لاؤنج میں داخل ہوئی.

جاری ہے......

No comments:

Post a Comment