Wednesday 28 September 2016

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون

فرعون اور حضرت موسی علیہ السلام
٭٭٭حصہ چہارم٭٭٭

جب حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے ہجرت فرما کر مدین تشریف لے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی صاحبزادی حضرت بی بی صفوراء رضی اللہ عنہا سے آپ کا نکاح فرما دیا۔ اور آپ دس برس تک حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں رہ کر آپ کی بکریاں چراتے رہے۔ اُس وقت حضرت شعیب علیہ السلام نے حکمِ خداوندی (عزوجل) کے مطابق آپ کو ایک مقدس عصا عطا فرمایا۔ جو حضرت آدم علیہ السلام جنت سے لائے تھے۔ جو مختلف انبیاء سے ہوتا ہوا۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس موجود تھا۔

نوٹ:۔ اس عصا کا تفصیلی ذکر عصا موسیٰ والی پوسٹ میں ہوچکا ہے۔

پھر جب آپ اپنی زوجہ محترمہ کو ساتھ لے کر مدین سے مصر اپنے وطن کے لئے روانہ ہوئے۔ اور وادی مقدس مقام ''طُویٰ'' میں پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی تجلی سے آپ کو سرفراز فرما کر منصب ِ رسالت کے شرف سے سربلند فرمایا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ عجیب آگ ہے۔ اس آگ کو دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام کو خوف ساپیدا ہوااور انہوں نے ارادہ کیا کہ واپس ہوجائیں جوں ہی وہ پلٹنے لگے آگ قریب آگئی اور قریب ہوگئی اور قریب ہوئے تو سنا کہ یہ آواز آر ہی ہے:
اے موسیٰ!میں ہوں اللہ پروردگار تمام جہانوں کا۔ (قصص)
پس جب موسیٰ اس( آگ) کے قریب آئے تو پکارے گئے اے موسیٰ! میں ہوں تیرا پروردگار پس اپنی جوتی اتار دے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ! میں نے تجھ کو اپنی رسالت کے لئے چن لیا ہے پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن۔( طٰہٰ:ع۱)

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس روشنی کو آگ سمجھا تھا وہ آگ نہ تھی بلکہ تجلّیٔ الہٰی کا نور تھا ۔

اُس وقت حضرت حق جل مجدہ نے آپ سے جس طرح کلام فرمایا قرآن مجید نے اُس کو اِ س طرح بیان فرمایا کہ!

وَمَا تِلْکَ بِیَمِیۡنِکَ یٰمُوۡسٰی ﴿17﴾قَالَ ہِیَ عَصَایَ ۚ اَتَوَکَّؤُا عَلَیۡہَا وَ اَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیۡ وَلِیَ فِیۡہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی ﴿18﴾

ترجمہ :۔اور یہ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے، اے موسیٰ عرض کی یہ میرا عصا ہے میں اس پر تکیہ لگاتا ہوں اور اس سے اپنی بکریوں پر پتے جھاڑتا ہوں اور میرے اِس میں اور کام ہیں۔(پ 16،طہ:17،18)
اور کاموں کی تفسیر میں ہے:۔
(۱)اس کو ہاتھ میں لے کر اُس کے سہارے چلنا (۲)اُ س سے بات چیت کر کے دل بہلانا (۳)دن میں اُس کا درخت بن کر آپ پر سایہ کرنا(۴)رات میں اس کی دونوں شاخوں کا روشن ہو کر آپ کو روشنی دینا (۵)اُس سے دشمنوں، درندوں اور سانپوں، بچھوؤں کو مارنا (۶)کنوئیں سے پانی بھرنے کے وقت اس کا رسی بن جانا اور اُس کی دونوں شاخوں کا ڈول بن جانا (۷)بوقتِ ضرورت اُس کا درخت بن کر حسبِ خواہش پھل دینا(۸)اس کو زمین میں گاڑ دینے سے پانی نکل پڑنا وغیرہ
(مدارک التنزیل،ج۳،ص۲۵۱،پ۱۶،طہ:۱۸)

اب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ألقھایاموسی
’’موسیٰ ! اپنی اس لاٹھی کو زمین پر ڈال دو۔‘‘
اور موسیٰ علیہ السلام نے اس ارشاد عالی کی تعمیل کی:
فالقاھافاذاھی حیۃ تسعی
’’موسیٰ نے لاٹھی کو زمین پر ڈال دیا پس ناگاہ وہ اژدہا بن کردوڑنے لگا۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ حیرت زدہ واقعہ دیکھا تو گھبراگئے اور بشریت کے تقاضہ سے متأثر ہو کر بھاگنے لگے، پیٹھ پھیر کر بھاگے ہی تھے کہ آواز آئی:
قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولیٰ
( اللہ تعالیٰ نے فرمایا) موسیٰ! اس کو پکڑ لو اور خوف نہ کھائو ہم اس کو اس کی اصل حالت پر لوٹادیں گے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لکڑی دوشاخہ تھی اب وہی دوشاخہ اژدہے کا منہ نظر آرہا تھا سخت پریشان تھے مگر قربت الہٰی نے طمانیت وسکون کی حالت پیدا کردی اور انہوں نے بے خوف ہو کر اس کے منہ پر ہاتھ ڈال دیا اس عمل کے ساتھ ہی فوراً وہ دوشاخہ پھر لاٹھی بن گیا۔

اب موسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ پکارا گیا اور حکم ہوا کہ اپنے ہاتھ کو گریبان کے اندر لیجا کر بغل سے مس کیجئے اور پھر دیکھئے وہ مرض سے پاک اور بے داغ چمکتا ہوا نکلے گا۔

واضمم یدک الیٰ جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء ایۃ اخری
اور ملادے اپنے ہاتھ کو اپنی بغل کے ساتھ نکل آئے گا وہ روشن بغیر کسی مرض کے( یعنی برص سے پاک) یہ دوسری نشانی ہے۔(طٰہٰ)

لنریک من ایاتناالکبری
تاکہ ہم تجھ کو اپنی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرادیں

’’پس تیرے پروردگار کی جانب سے فرعون اور اس کی جماعت کے مقابلہ میں تیرے لئے یہ دوبرہان ہیں بلاشبہ وہ فرعون اور اس کی جماعت نافرمان قوم ہیں۔

اب جاؤاور فرعون اور اس کی قوم کو راہ ہدایت دکھاؤ انہوں نے بہت سرکشی اور نافرمانی اختیار کررکھی ہے اور اپنے غرور و تکبر اور انتہاء ظلم کے ساتھ انہوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے سوان کو غلامی سے رستگاری دلاؤ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا:
’’ پروردگار! میرے ہاتھ سے ایک مصری قتل ہو گیا تھا اس لئے یہ خوف ہے کہ کہیں وہ مجھ کو قتل نہ کردیں مجھے یہ بھی خیال ہے کہ وہ میری بڑی زور سے تکذیب کریں گے اور مجھ کو جھٹلائیں گے یہ منصب عالی جب تو نے عطا فرمایا ہے تو میرے سینہ کو فراغ اور نورسے معمور کردے اور اس اہم خدمت کو میرے لئے آسان بنادے اور زبان میں پڑی ہوئی گرہ کو کھول دے تا کہ لوگوں کو میری بات سمجھنے میں آسانی ہو اور چونکہ میری گفتگو میں روانی نہیں ہے اور میری بہ نسبت میرابھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح بیان ہے اس لئے اس کو بھی اس نعمت(نبوت) سے نواز کر میراشریک کار بنادے۔‘‘

’’اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اطمینان دلایا کہ تم ہمارا پیغام لے کر ضرور جائو اور ان کو حق کی راہ دکھائو،وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے اور جو نشانات ہم نے تم کو بخشے ہیں وہ تمہاری کامیابی کا باعث ہوں گے اور انجام کار تم ہی غالب رہوگے ہم تمہاری درخواست منظور کرتے ہیں اور تمہارے بھائی ہارون علیہ السلام کو بھی تمہارا شریک کار بناتے ہیں دیکھو تم دونوں فرعون اور اس کی قوم کو جب ہماری صحیح راہ کی جانب بلائو تو اس پیغام حق میں نرمی اور شیریں کلامی سے پیش آنا کیا عجب ہے کہ وہ نصیحت قبول کرلیں اور خوف خدا کرتے ہوئے ظلم سے باز آجائیں۔‘‘

داخلۂ مصر
سدی کہتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام منصب نبوت سے سرفراز ہو کر کلام ربانی سے فیضیاب بن کر اور دعوت وتبلیغ حق میں کامیابی وکامرانی کا مژدہ پاکروادی مقدس سے اُترے تو اپنی بیوی کے پاس پہنچے جو وادی کے سامنے جنگل میں ان کی منتظر اور چشم براہ تھیں ان کو ساتھ لیا اور یہیں سے تعمیل حکم الہٰی کے لئے مصر میں داخل ہو کر اپنے مکان پہنچے مگر اندرداخل نہ ہوئے اور والدہ کے سامنے ایک مسافر کی حیثیت میں ظاہرہوئے یہ بنی اسرائیل میں مہماں نواز گھر تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خوب خاطر مدارت کی گئی اسی دوران میں ان کے بڑے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام آپہنچے یہاں پہنچنے سے قبل ہی ہارون علیہ السلام کو خدا کی طرف سے منصب رسالت عطا ہوچکا تھا اس لئے ان کو بذریعہ وحی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا سارا قصہ بتا دیا گیا تھا وہ بھائی سے آکرلپٹ گئے اور پھر ان کے اہل وعیال کو گھر کے اندر لے گئے اور والدہ کو سارا حال سنایا تب سب خاندان آپس میں گلے ملا اور بچھڑے ہوئے بھائیوں نے ایک دوسرے کی گذشتہ زندگی سے تعارف پیدا کیا اور والدہ کی دونوں آنکھوں نے ٹھنڈک حاصل کی۔( تاریخ ابن کثیر ج ۱ ص ۲۵۲)

اس کے بعد حضرت موسی علیہ السلام کچھ عرصہ بعد اللہ تعالی کے حکم کے مطابق فرعون کے دربار کی طرف روانہ ہوئے۔
بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب دونوں بھائی فرعون کے دربار میں جانے لگے تو والدہ نے غایت شفقت کی بنا پر روکنا چاہا کہ تم ایسے شخص کے پاس جانا چاہتے ہو جو صاحب تخت و تاج بھی ہے اور ظالم ومغرور بھی ،وہاں نہ جائو وہاں جانا بے سود ہوگامگر دونوں نے والدہ کو سمجھایا کہ خدائے تعالیٰ کا حکم ٹالا نہیں جا سکتا اور اس کا وعدہ ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔
غرض دونوں بھائی اور خدا کے سچے پیغمبر و نبی فرعون کے دربارمیں پہنچے اور بغیر خوف و خطر اندرداخل ہوگئے جب فرعون کے تخت کے قریب پہنچے تو حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور گفتگو شروع ہوئی ۔

(جاری ہے)
بقیہ حصہ پنجم میں۔۔ ان شاءاللہ بہت جلد

No comments:

Post a Comment