Thursday 19 October 2017

قوم ثمود


قوم ثمود

ثمود (عربی:ثِمود) قدیم جزیرۃ العرب کی قوم جو پہلے ہزارے قبل از مسیح سے تقریباً حضور اکرم ﷺ کے عہد تک رہے ہیں۔ قوم کے مورثِ اعلیٰ کا نام ثمود تھا اور مشہور نسب نامہ یہ ہے۔ ثمود بن جشیر بن ارِم بن سام بن نوح علیہ السلام۔ عاد جس طرح جنوبی اور مشرقی عرب کے مالک تھے ، ثمود اس کے مقابل مغربی اور شمالی عرب پر قابض تھے۔ ان کے دارالحکومت کا نام حجر تھا۔ یہ شہر حجاز سے شام کو جانے والے قدیم راستہ پر واقع تھا۔ اب عموماً اس شہر کو مدائن صالح کہتے ہیں۔ یہ شمالی عرب کی ایک زبردست قوم تھی۔ فن تعمیر میں عاد کی طرح اس کو بھی کمال حاصل تھا۔ پہاڑوں کو کاٹ کر مکان بنانا، پتھروں کی عمارتیں اور مقبرے تیار کرتا اس قوم کا خاص پیشہ تھا۔ یہ یادگاریں اب تک باقی ہیں۔ان پر ارامی و ثمودی خط میں کتبے منقوش ہیں۔

صالح علیہ السلام اور ثمود
مدینہ منورہ سے کوئی 300 کلومیٹر دور ایک خاموش علاقہ ہے ۔جس کو میدان صالح کہتے ہیں۔ اس علاقے میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم آباد تھی۔ اس قوم کو قوم ثمود کہتے ہیں ۔ یہ قوم حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے ہم عصر تھے۔ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کو قوم عاد کہتے ہیں ۔ جن کی باقیات آج کل بحرین کے صحرا میں موجود ہیں ۔

قوم ثمود نے اللہ عزوجل سے کفر کیا۔یہ بہت بڑے لمبے چوڑے اور طاقتور تھے، انہوں نے پہاڑوں کے اندر اپنے گھر بنا رکھے تھے۔ جو کسی بھی موسمی شدت کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ وہ حضرت صالح علیہ السلام کی تبلیغ کے مقابلے میں کہتے اے صالح علیہ السلام ہمارے عظیم الشان گھروں کو دیکھ کیا ہم بہت زیادہ طاقت والے نہیں ؟ اگر ہمارے مقابلے پر کوئی اور قوم ہے ان کو لاؤ ہمارے سامنے ۔لیکن جب انہوں نے اللہ کی نشانی اونٹنی کو مار ڈالا ۔ جس کا تذکرہ "حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی" میں گزر چکا ہے۔

حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ 3 دن اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جھوٹا نہیں ہو گا۔ تو اللہ نے ان حضرت صالح علیہ السلام کو اور کچھ لوگوں سے اپنی مہربانی سے بچا لیا ۔اس قوم کو چنگاڑ نے آ پکڑا ۔۔۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔ فرشتے کی وہ چیخ یا چنگاڑ اتنی شدید تھی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے، اور اپنی گھروں میں پڑے پڑے ہی ہلاک ہو گئے ۔ وہ جتنے بھی طاقتور تھے لیکن اللہ سے زیادہ زور آور نہیں ہو سکتے ۔ وہ برتر اور اعلی ہے ۔

روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ اس علاقے سے گزرے ۔ تو نبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چہرہ انوار پر اضطراب تھا۔ اور ایسا لگتا تھا وہ جلدی میں ہیں۔ وہاں کے لوگوں نے ایک کنوئیں کا پانی پیش کیا، لیکن نبی امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو منع فرما دیا اور جلد وہاں سے نکلنے کا حکم دیا، صحابہ نے اضطراب کی وجہ پوچھی تونبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا یہاں اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ یہ علاقہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کا ہے جس پر اللہ نے سخت عذاب نازل کیا ۔وہاں پر پانی نہ پینے اور نہ ٹھہرنے کی حکمتیں ایسے راز ہیں جس کی خبر ہمیں نہیں ہے۔