Saturday 19 November 2016

شمشیر بے نیام

شمشیرِ بے نیام

شمشیرِ بے نیام، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط 25
تاریخ میں ان آدمیوں کو قبیلۂ ثقیف کے لکھا گیا ہے۔جو اپنے آدمی کی للکار پر اس ٹیکری پر چڑھنے لگے جس پر رسول اﷲﷺ کھڑے تھے۔صحابہ کرامؓ جو آپﷺ کے ساتھ تھے، ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑے۔مختصر سے معرکے میں وہ سب بھاگ نکلے۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اکرمﷺ تک نہ پہنچ سکا۔’’میں مالک بن عوف سے شکست نہیں کھاؤں گا۔‘‘رسول اﷲﷺ نے کہا۔’’وہ اتنی آسانی سے کیسے فتح حاصل کر سکتا ہے۔‘‘حضورﷺ نے اپنی فوج کو بکھرتے اور بھاگتے تو دیکھ ہی لیا تھا ۔آپﷺ دشمن کو بھی دیکھ رہے تھے بلکہ دشمن کو زیادہ دیکھ رہے تھے۔آپﷺ کی عسکری حس نے محسوس کر لیا کہ مالک بن عوف اپنے پہلے بھرپور اور کامیاب وار پر اس قدر خوش ہو گیا ہے کہ اسے اگلی چال کا خیال ہی نہیں رہا۔وہ اسلامی فوج کی بھگدڑ اور افراتفری کی پسپائی سے فائدہ نہیں اٹھا رہاتھا۔حضورﷺ کو توقع تھی کہ مالک بن عوف کی متحدہ فوج مسلمانوں کے تعاقب میں آئے گی لیکن تعاقب میں دشمن کے جو آدمی آئے تھے وہ تعداد میں تھوڑے اور غیر منظم تھے ۔اس کے علاوہ حضورﷺ نے اپنے ہراول دستے کو پیچھے آتے بھی دیکھ تھا اور آپﷺ نے معلوم بھی کیا تھا کہ ہراول کے کتنے آدمی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔آپﷺ کو بتایا گیا کہ کئی ایک مجاہدین کے گھوڑے اور اونٹ زخمی ہوئے ہیں شہید ایک بھی نہیں ہوا۔اس سے رسول ﷺ نے یہ رائے قائم کی کہ یہ دشمن تیر اندازی میں اناڑی ہے اور جلد باز بھی ہے۔اتنی زیادہ تیر اندازی کسی کو زندہ نہ رہنے دیتی۔حضورﷺ نے اپنے پاس کھڑے صحابہ کرامؓ پر نظر ڈالی۔ آپﷺ کی نظریں حضرت عباسؓ پرٹھہر گئیں ۔حضرت عباس ؓ کی آواز غیر معمولی طورپر بلند تھی۔جو بہت دور تک سنائی دیتی تھی۔جسم کے لحاظ سے بھی حضرت عباسؓ قوی ہیکل تھے۔’’عباس!‘‘حضورﷺ نے کہا۔’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔مسلمانوں کو پکارو ……انہیں یہاں آنے کیلئے کہو۔‘‘’’اے انصار!‘‘ حضرت عباس ؓنے انتہائی بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔’’ اے اہلِ مدینہ…… اے اہلِ ……مکہ آؤ۔اپنے رسول کے پاس آؤ۔‘‘
حضرت عباسؓ قبیلوں کے اور آدمیوں کے نام لے لے کر پکارتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے رسول ﷺ کے پاس اپنے اﷲ کے رسول کے پاس آؤ۔
سب سے پہلے انصار آئے۔ ان کی تعداد معمولی تھی لیکن ایک کو دیکھ کردوسرا آتا چلا گیا۔ مکہ کے کچھ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی آ گئے۔ ان کی تعداد ایک سو ہو گئی۔ رسولِ کریمﷺ نے دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے بہت سے آدمی پسپا ہوئے مسلمانوں کی طرف دوڑے آ رہے تھے۔آپﷺ نے ان ایک سو مجاہدین کو دشمن کے ان آدمیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔مجاہدین ان کے عقب سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ہوازن کے آدمی بوکھلا گئے اور مقابلے کیلئے سنبھلنے لگے لیکن مجاہدین نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی ۔ان میں سے بہت سے بھاگ نکلے ۔ان کے زخمی اور ہلاک ہونے والے پیچھے رہ گئے۔وہ تو اچانک ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ مجاہدین میں بھگدڑ مچ گئی تھی ،ورنہ وہ ہمیشہ اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑے اور فاتح اور کامران رہے تھے۔انہوں نے دیکھاکہ عباسؓ کی پکار پر مسلمان رسولِ اکرمﷺ کے حضور اکھٹے ہو رہے ہیں اور دشمن مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کے جوابی حملے کو بھی برداشت نہیں کر سکا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہوازن اور ثقیف ان کے تعاقب میں نہیں آ رہے تو کئی ہزار مجاہدین واپس آ گئے ۔رسول اکرمﷺ نے انہیں فوراً منظم کیا اور دشمن پر حملے کا حکم دے دیا۔خالدؓ بن ولید لا پتا تھے۔کسی کو ہوش نہیں تھا کہ دیکھتا کہ کون لاپتا ہے اور کون کہاں ہے ۔وہی تنگ گھاٹی جہاں مجاہدین پر قہر ٹوٹا تھا، اب متحدہ قبائل کیلئے موت کی گھاٹی بن گئی تھی۔ قبیلہ ہوازن چونکہ سب سے زیادہ لڑاکا قبیلہ تھا اس لیے اسی کے آدمیوں کو آگے رکھا گیا تھا۔یہ لوگ بلا شک و شبہ ماہر لڑاکے تھے لیکن مسلمانوں نے جس قہر سے حملہ کیا تھا اس کے آگے ہوازن ٹھہر نہ سکے۔مسلمان اس خفت کو بھی مٹانا چاہتے تھے جو انہیں غلطی سے اٹھانی پڑی تھی۔یہ دست بدست لڑائی تھی ۔مجاہدین نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ ہوازن گر رہے تھے یا معرکے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رسولِ اکرمﷺ معرکے کے قریب ایک بلند جگہ کھڑے تھے۔ آپﷺ نے للکار للکارکر کہا۔’’یہ جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں ……میں ابنِ عبدا لمطلب ہوں۔‘‘ہوازن پیچھے ہٹتے چلے جا رہے تھے۔وہ اب وار کرتے کم اور وار روکتے زیادہ تھے۔ان کا دم خم ٹوٹ رہا تھا۔ان کے پیچھے قبیلہ ٔ ثقیف کے دستے تیار کھڑے تھے ۔مالک بن عوف نے چلا چلا کر ہوازن کو پیچھے ہٹا لیا۔قبیلۂ ثقیف کے تازہ دم لڑاکوں نے ہوازن کی جگہ لے لی ۔مسلمان تھک چکے تھے اور ثقیف تازہ دم تھے لیکن مسلمانوں کو اپنے قریب اپنے رسولﷺ کی موجودگی اور للکار نیا حوصلہ دے رہی تھی۔مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں کی ضربوں میں جو قہر اور غضب تھا اور ان کے نعروں اور للکار میں جو گرج اور کڑک تھی اس نے ثقیف پر دہشت طاری کردی۔ثقیف کے لڑاکے جو عرب میں خاصے مشہور تھے تیزی سے پیچھے ہٹنے لگے اور پھر ان کے اونٹوں اور گھوڑوں نے بھگدڑ بپا کر دی۔اس سے دشمن میں وہی کیفیت پیدا ہو گئی جو گھاٹی میں صبح کے وقت مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ ہوازن بڑی بری حالت میں پیچھے کو بھاگے تھے ۔اب ثقیف بھی پسپا ہوئے تو ان کے اتحادی قبائل کے حوصلے لڑے بغیر ہی ٹوٹ پھوٹ گئے۔وہ افراتفری میں بھاگ اٹھے۔
مالک بن عوف تنگ راستے سے دور پیچھے ہوازن کے بھاگے ہوئے دستوں کو یکجا کر رہا تھا۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جارحانہ کارروائی سے منہ موڑ چکا ہے اور اپنے دستوں کو دفاعی دیوار کے طور پر ترتیب دے رہا ہے۔رسول اﷲﷺ نے یہ ترتیب دیکھی تو آپﷺ اپنے لشکر کی طرف پلٹے۔ آپﷺ نے دیکھا کہ جو مجاہدین صبح کے وقت بھاگ گئے تھے وہ سب واپس آ گئے ہیں۔ حضورﷺ نے حکم دیا کہ’’ گھوڑ سواروں کو آگے لاؤ۔‘‘ذرا سی دیر میں سوار پیادوں سے الگ ہو گئے ۔آپﷺ نے سواروں کو ایک خاص ترتیب میں کرکے حکم دیا کہ ’’ہوازن کو سنبھلنے اور منظم ہونے کا موقع نہ دواور برق رفتار حملہ کرو۔‘‘ان سواروں میں بنو سلیم کے وہ سوار بھی شامل تھے جن پر سب سے پہلے تیروں کی بوچھاڑیں آئی تھیں اور مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہو گئی تھی۔ لیکن بنو سلیم کا کمانڈر ان کے ساتھ نہیں تھا اور وہ تھے خالدؓبن ولید جو ابھی تک کہیں بے ہوش پڑے تھے۔؁رسولِ اکرمﷺ نے اس سوار دستے کی قیادت زبیر ؓبن العوام کے سپرد کی اور انہیں حکم دیا کہ آگے جو درّہ ہے اس پر مالک بن عوف قبضہ کیے بیٹھا ہے ،اسے درّے سے بے دخل کر دو۔رسولِ کریمﷺ نے جنگ کی کمان اپنے دستِ مبارک میں لے لی تھی۔ آپﷺ کے اشارے پر زبیرؓ بن العوام نے ایسا برق رفتار اور جچا تلا ہلّہ بولا کہ ہوازن جو ابھی تک بوکھلائے ہوئے تھے مقابلے میں جم نہ سکے ا ور درّے سے نکل گئے ۔درّہ خاصہ لمبا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیر ؓکے دستے کو درّے میں ہی رہنے دیا اور حکم دیا کہ اب درّہ جنگی اڈا ہوگا۔ٓآپﷺ نے دوسرا سوار دستہ آگے کیا جس کے کمانڈر ابو عامر ؓ تھے۔حضورﷺ نے ابو عامر ؓ کے سپرد کام کیا کہ اوطاس کے قریب متحدہ قبائل کا جو کیمپ ہے اس پر حملہ کرو۔ ’’خالد……خالدیہاں ہے ……‘‘کسی نے بڑی دور سے للکار کر کہا۔’’یہ پڑا ہے۔‘‘
رسولِ اکرمﷺ دوڑے گئے اور خالدؓ تک پہنچے ۔خالد ؓابھی تک بے ہوش پڑے تھے ۔آپﷺ خالدؓ کے پاس بیٹھ گئے اورانتہائی شفقت سے ان کے سر سے پاؤں تک پھونک ماری۔ خالد ؓنے آنکھیں کھول دیں ۔رسول اﷲﷺ کے قلب اطہر سے نکلی دُعا کا اعجاز تھا کہ خالدؓ اُٹھ کھڑے ہوئے۔انہیں جو تیر لگے تھے وہ گہرے نہیں اترے تھے۔تیر نکال لیے گئے اور بڑی تیزی سے مرہم پٹی کر دی گئی۔’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا ۔’’میں لڑوں گا۔میں لڑنے کے قابل ہوں۔‘‘
آ پﷺ نے خالد ؓ سے کہا کہ’’ زبیر کے سوار دستے میں شامل ہو جاؤ۔تم ابھی کمان نہیں لے سکو گے۔‘‘خالدؓ ایک گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ان کے کپڑے خون سے لال تھے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور زبیرؓ کے سوار دستے میں شامل ہو گئے۔انہوں نے زبیر ؓسے پوچھا۔’’کیا حکم ہے؟‘‘زبیرؓ نے انہیں بتایا کہ ہوازن کی خیمہ گاہ پر حملہ کرنا ہے جو اوطاس کے قریب ہے لیکن یہ حملہ ابو عامرؓ کریں گے۔اوطاس وہاں سے کچھ دور تھا ۔مالک بن عوف نے ہوازن دستے کو وہاں تک ہٹا لیااور اپنی خیمہ گاہ کے اردگرد پھیلا دیا تھا ۔یہ دفاعی حصار تھا، جس کی ہوازن کے کیمپ کے گرد ضرورت اس لیے تھی کہ وہاں وہ ہزاروں عورتیں بچے اور مویشی تھے جنہیں قبیلۂ ہوازن کے سپاہی اپنے ساتھ لائے تھے۔مالک بن عوف نے تو یہ سوچا تھا کہ ہوازن اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ دیکھ کر زیادہ غیرت مندی اور بے جگری سے لڑیں گے مگر اب یہ صورت پیدا ہو گئی کہ دُرید بن الصّمہ ،مالک بن عوف کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ اس کے منع کرنے کے باوجود مالک عورتوں کو ساتھ لے آیا تھا۔ان کیلئے اب اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو مسلمانوں سے بچانا محال دکھائی دے رہا تھا۔ ابو عامر ؓ کا سوار دستہ اوطا س کی طرف بڑھا۔قریب گئے تو ہوازن نے جم کر مقابلہ کیااب وہ جنگ جیتنے کیلئے یا مسلمانوں کو تہس نہس کرکے مکہ پر قبضہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ مسلمانوں سے اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو بچانے کیلئے لڑ رہے تھے۔یہ بھی دست بدست معرکہ تھا ،جس میں جنگی چالوں کے نہیں ذاتی شجاعت کے مظاہرے ہو رہے تھے،سوار اور پیادے لڑتے ہوئے وادی میں پھیلتے جا رہے تھے۔ابو عامرؓ نے دشمن کے نو سواروں کو ہلاک کر دیا مگر دسویں ہوازن کو للکارا تو اس کے ہاتھوں خود شہید ہو گئے۔رسولِ اکرمﷺ نے پہلے ہی ان کا جانشین مقررکر دیا تھا ۔وہ تھے ان کے چچا زاد بھائی ابو موسیٰؓ۔انہوں نے فوراً کمان سنبھال لی اور اپنے سواروں کو للکارنے لگے۔ہوازن زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے،صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیرؓ بن العوام کو جنہیں آپﷺ نے درّے میں روک لیا تھا۔ حکم دیا کہ اپنے دستے کو ابو موسیٰؓ کی مدد کیلئے لے جائیں ۔حضورﷺ نے یہ اس لیے ضروری سمجھا تھاکہ دونوں دستے مل کر ہوازن کا کام جلدی تمام کر سکیں گے۔زبیرؓ نے اپنے سواروں کو حملے کا حکم دیا۔ جب گھوڑے دوڑے اس وقت خالدؓ بن ولید کا گھوڑا دستے کے آگے تھا۔ ہوازن پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے سوار دستے کے حملے کی وہ تاب نہ لاسکے ان کے زخمیوں کی تعداد معمولی نہیں تھی۔
وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔مسلمانوں نے کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے لڑاکوں نے جب ہوازن اور ثقیف جیسے طاقتور قبیلوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ وہاں سے بالکل غائب ہو گئے اور اپنی اپنی بستیوں میں جا پہنچے۔مالک بن عوف میدانِ جنگ میں کہیں نظر نہیں آ رہا تھا ۔وہ نظر آ ہی نہیں سکتا تھا ۔اسے اپنے شہر طائف کی فکر پیدا ہو گئی تھی۔اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ’’ مسلمان جس رفتار اور جس جذبے سے آ رہے ہیں، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ طائف تک پہنچیں گے اور اس بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘خطرے کے پیشِ نظر اس نے قبیلہ ثقیف کے تمام دستوں کو لڑائی سے نکالا اور طائف جا دم لیا۔پیچھے حنین کی وادی میں کیفیت یہ تھی کہ ہوازن کی عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر رہے تھے ۔تمام وسیع و عریض وادی مجاہدینِ اسلام کی تحویل میں تھی۔مکہ کے جو غیر فوجی مجاہدین کے ساتھ آئے تھے وہ زخمی مجاہدین کو اٹھارہے تھے، دشمن کے زخمی کرّاہ رہے تھے، مر رہے تھے۔ مرنے والوں میں بوڑھا دُرید بن الصّمہ بھی تھا۔وہ لڑتا ہوا مارا گیاتھا۔مسلمانوںکو دشمن کے زخمیوں اور قیدیوں سے جو ہتھیار اور گھوڑے ملے ان کے علاوہ چھ ہزار عورتیں اور بچے، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور بے شمارچاندی ہاتھ لگی۔مسلمانوں نے جنگ جیت لی تھی لیکن رسول اﷲﷺ نے فیصلہ کیا کہ مالک بن عوف کو مہلت نہیں دی جائے گی کہ وہ سستا سکے اور اپنی فوج کو منظم کر سکے۔آپﷺ نے دراصل سانپ کا سر کچلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپﷺ کے حکم سے مالِ غنیمت آئی ہوئی عورتیں ،بچوں ،مویشیوں اور دیگر مال کو ایک دستے کے ساتھ جعرانہ بھیج دیا گیا ۔اگلے حکم تک انہیں جعرانہ میں ہی رہنا تھا۔دوسرے دن رسولِ اکرمﷺ کے حکم سے اسلامی فوج طائف کی طرف پیش قدمی کر گئی جہاں بڑی خونریز جنگ کی توقع تھی۔معرکۂ حنین کا ذکر قرآن حکیم میں سورۂ توبہ میں آیا ہے ۔بعض صحابہ کرامؓ نے معرکہ شروع ہونے سے پہلے کہا تھا کہ ہمیں کون شکست دے سکتا ہے ۔اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کون کر سکتا ہے ؟سورۂ توبہ میں آیا ہے:’’اﷲ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مددکی اور حنین کے دن بھی جب تم کو اپنی کثرت پر ناز تھا حالانکہ وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی وسعت کے تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگے پھر اﷲ نے اپنے رسول اور مسلمانوں پر تسلی نازل کی اور وہ فوجیں اتاریں جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزا دی اور کافروں کا بدلہ یہی ہے۔‘‘ طائف بڑی خوبصورت بستی ہوا کرتی تھی۔ باغوں کی بستی تھی، پھولوں اور پھلوں کی مہک سے ہوائیں مخمور رہتی تھیں ۔طائف میں جا کر دکھی دل کھل اٹھتے تھے ۔یہ جنگجو سردارو ں کی بستی تھی۔ یہ ثقیف جیسے طاقتور قبیلے کا مرکز تھا۔اس بستی کے قریب اس قبیلے کی عبادت گاہ تھی جس میں ثقیف ،ہوازن اور چند اور قبائل کے دیوتا لات کا بت رکھا تھا۔جو بت نہیں ایک چبوترا تھا ۔یہ قبائل اس چبوترے کو دیوتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔اس عبادت گاہ میں ان کا کاہن رہتا تھا جسے خدا کا اوردیوتا لات کا ایلچی سمجھا جاتا تھا۔کاہن فال نکال کر لوگوں کو آنے والے خطروں سے آگاہ کر دیا کرتا تھا ۔کاہن کسی خوش نصیب کو ہی نظر آیا کرتا تھا۔عام لوگوں کو کاہن نہیں عبادت گاہ کے صرف مجاور ملا کرتے تھے۔کاہن کو جو دیکھ لیتا وہ ایسے خوش ہوتا تھا جیسے اس نے خدا کو دیکھ لیا ہو۔ طائف کیونکہ ان کے دیوتا کا مسکن تھا اس لیے یہ قبائل کا مقدس مقام تھا۔ایک ہی مہینہ پہلے طائف میں جشن کا سماں تھا۔یہاں کے سردارِ اعلیٰ مالک بن عوف نے پنے قبیلے جیسے ایک طاقتور قبیلے ہوازن.....جاری ہے

Friday 18 November 2016

طارق بن زیاد

فاتح اندلس طارق بن زیاد
از صادق حسین.
قسط نمبر 4.
بشارت____________چونکہ سمندر کا ساحل قیروان سے زرا فاصلے پر تھا-
اس لیے شہر کے تمام مسلمان تو رخصت کرنے کے لیے ساحل تک نہ آ سکے مگر پھر بھی پندرہ بیس ہزار آدمی ساحل تک آئے-
دور تک مسلمانوں کے عمامے اور چوڑے چوڑے سفید دامن ہوا میں لہراتے نظر آ رہے تھے-
یہ جو لشکر اندلس جا رہا تھا پیدل تھا، اس لیے کہ اتنے جہاز تیار نہ ہو سکے تھے جو کہ گھوڑوں کے لیے بھی کفایت کرتے-
بے سروسامانی کا یہ حال تھا کہ سب کے پاس زرہ بکتر بھی نہ تھیں نہ پورے ہتھیار-
پھر کل سات ہزار کی تعداد تھی مگر انہیں ان باتوں کا زرا بھی خیال نہ تھا-
سب سے آگے مجاہدین کے دستے تھے-
ان کے ایک طرف طارق تھے-
یہ نو عمر تھے مگر بہت بہادر اور جوشیلے تهے دوسری طرف مغیث الرومی تهے-
اڈهیڑ عمر کے تهے مگر جوش و خروش میں جوانوں کے برابر تھے-"
مجاہدین کے پیچھے ان کو رخصت کرنے والوں کے گروہ تھے جو دور دور تک پھیلے ہوئے تھے، جو لوگ رخصت کرنے آئے ان کے پاس قسم قسم کے میوے پھل ترکاریاں اور کھانے تهے اور وہ انہیں مجاہدین میں تقسیم کر رہے تھے-
ہر شخص یہ چاہتا تھا کہ مجاہدین اس کا ہدیہ قبول کر لیں تاکہ ثواب میں داخل ہو جائے-
مجاہدین بھی جو چیز ان کے سامنے پیش کی جاتی خوش دلی سے قبول کر لیتے اور ایک سوداگر تو اس قدر میوے اور پھل اپنے غلاموں کے سروں اور خچروں پر لاد لائے تھے کہ تقسیم کرنے کے باوجود بہت سارا بچ گیا-
چونکہ ساحل قریب آ گیا تھا اس لیے انہیں فکر ہوا اور انہوں نے موسٰی سے عرض کی کہ مجاہدین کو کچھ دیر کے لیے روک دیں تاکہ جو کچھ ان کے پاس رہ گیا ہے وہ بھی تقسیم کر دیں-"
موسی نے درخواست منظور کر لی-
لشکر روک دیا گیا اور سوداگر نے جلدی جلدی میوں کی جھولیاں بھر بھر کر مجاہدین میں بانٹنا شروع کر دیں-
راہب کونٹ جولین اور ان کے ساتھی مسلمانوں کی یہ خاطر مدارات دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے-
راہب سے نہ رہا گیا-"
اس نے جولین سے کہا-"
آپ دیکھتے ہیں ان مسلمانوں کو؟ ہماری قوم میں ایک عزیز اپنے عزیز کی اس درجہ مدارات نہیں کرتا جیسی یہ لوگ محض ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کر رہے ہیں-"موسی نے اس کی بات سن لی-
انہوں نے فرمایا مقدس بزرگ یہ مسلمان جو لڑائی پر جا رہے ہیں ہمارے بھائی ہیں-
نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں سے کون واپس آئے گا اور کون شہید ہو جائے گا! !!
ہم اپنے جگر گوشوں کو اندلس بھیج رہے ہیں-
اس لئے چاہتے ہیں کہ اچھی سے اچھی اور پیاری سے پیاری چیزیں انہیں دے دیں-
ٹھیک اسی طرح سے کہ جیسے ایک مامتا کی ماری ماں اپنے لاڈلے بیٹے کو سفر میں جاتے وقت دیا کرتی ہے-"
جولین: حقیقت تو یہ ہے کہ جو خلوص و محبت مسلمانوں میں ہے وہ کسی اور قوم میں نہیں ہے-
دیکھئے انہیں رخصت کرنے کتنے آدمی آئے ہیں، کیسے کیسے تحفے لائے ہیں اور کیسی شفقت سے پیش آ رہے ہیں-
مجھے تو بڑا رشک آ رہا ہے-
کاش میری قوم کے لوگ بھی ایسے ہی ہوتے-"
موسی: جو لشکر آپ کے ساتھ جا رہا ہے وہ کسی چیز کا بھوکا نہیں ان میں سے بہت سے متمول اچھے خاصے گھرانوں کے افراد ہیں اور وہ ان لوگوں کی چیزیں اس لئے نہیں لے رہے کہ وہ انہیں پسند کرتے ہیں بلکہ اس لیے لے رہے ہیں کہ ان کی دل شکنی نہ ہو اور ان کو بھی ثواب ملے-"
لشکر اب ساحل پر پہنچ گیا تھا-
سامنے ہی چار جہاز لنگر ڈالے کھڑے تھے-
ان کے پاس چھوٹی چھوٹی کشتیاں سمندر میں تیر رہی تھیں-
ایک طرف کونٹ جولین کا جہاز کھڑا تھا وہ بہت چھوٹا تھا-
مسلمانوں کے جہاز اس سے کہیں بڑے تھے فوراً کشتیاں کنارے کی طرف آئیں-
ان میں سامان لادا گیا اور وہ جہاز پر اتار کر واپس لائی گئیں-
پھر مجاہدین رخصت کرنے والوں سے مل کر کشتیوں میں بیٹھے اور جہازوں کی طرف چلے-
مسلمانوں نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا-
تھوڑے تھوڑے کر کے تمام مجاہدین اسلام جہازوں پر پہنچ گئے-
آخر میں طارق اور مغیث الرومی گئے ان کے پہنچتے ہی کشتیاں آٹها لی گئیں-
اسلامی علم جہازوں پر لہرا دئیے گئے -
بادبان کھولے گئے اور لنگر اٹھا دیئے گئے-
جہازوں کے روانہ ہوتے ہی مجاہدین نے کنارے پر کھڑے مسلمانوں کو ہاتھ اٹھا کر سلام کئے اور انہوں نے بھی اشاروں سے ہی جواب دیا-
اس وقت تمام مسلمانوں کے دل بھر آئے اور انہوں نے ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعائیں مانگیں-
جب تک جہاز نظر آتے رہے ساحل والے مسلمان دیکھتے رہے اور دعائیں مانگتے رہے-
جب سمندر نے جہازوں کو اپنے دامن میں لے کر ان کی نظروں سے اوجھل کر دیا تب وہ لوٹے اور قیروان کی طرف چل دئیے-
چونکہ سوار ہوتے ہوتے دیر ہو گئی تھی، اس لیے جہاز عصر کے وقت چلے-
مسلمانوں نے عصر کی نماز پڑھی اور جب دن چھپ گیا تو مغرب کی نماز ادا کی-
رات ہونے پر سمندر کا نیلگوں پانی سیہ نظر آنے لگا-
آسمان پر ستارے چمک رہے تھے-
چونکہ مسلمانوں کو رخصت کرنے والوں نے اس قدر تحائف دئیے تھے کہ ان کو الگ سے کھانا تیار کرنے کی ضرورت ہی نہ رہی-
تمام لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر سو گئے-
رات گئے طارق کی آنکھ کھلی، وہ اٹھ کر بیٹھ گئے-
ان کا چہرہ دمک رہا تھا-
وہ بلند آواز درود شریف پڑھنے لگے-
مغیث الرومی بھی ان کے قریب ہی تهے، لہٰذا ان کی بھی آنکھ گئی-
وہ کلمہ پڑھ کر اٹھ بیٹھے اور اٹھتے ہی طارق کو سلام کر کے بولے-"
صبح ہو گئی ہے؟ "
طارق نے جواب دیا، نہیں ابھی نہیں ہوئی-"
مغیث الرومی: میں آپ کے اٹھنے اور درود شریف پڑھنے سے یہی سمجھا تھا-
طارق: میں نے انتہائی خوش کن خواب دیکھا ہے-
مغیث:کیا خواب دیکھا ہے؟
طارق: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت ہوئی ہے-
مغیث:سبحان اللہ زہے نصیب!
طارق: حقیقت میں میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھنے لگا ہوں!
مغیث:جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا دیدار خواب میں ہو جائے اس سے زیادہ خوش قسمت کون ہو سکتا ہے!
طارق: یہی بات میں سو رہا تھا کہ میں نے ایک روشنی دیکھی-
نہایت ٹھنڈی اور بہت تیز، مگر آنکھوں کو ناگوار نہ معلوم ہوئی تھی-
میں حیران ہو کر دیکھ رہا تھا کہ عجیب روشنی کہاں سے آ رہی ہے-
جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو آسمان سے لمعات نور برس کر جہاز تک آ رہے تھے تھوڑی دیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے-آپ تبسم فرما رہے تھے میں نے بے اختیار آٹھ کر سلام کیا-
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سلام کا جواب دے کر فرمایا-
طارق مبارک ہو اور اللہ ذوالجلال تم کو اس مہم میں فتح عطا فرمائیں گے-
اس بشارت کو سن کر میرا دل فرط مسرت سے سینے میں اچھلنے لگا اور فوراً ہی میری آنکھ کھل گئی-
آہ! کاش! تھوڑی دیر اور یہ منظر رہتا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ انوار کی تھوڑی اور زیارت کرتا-
مغیث الرومی:جتنی زیارت مقدر میں تھی کر لی-
اللہ کا ہزار ہزار شکر و احسان ہے کہ اس نے اپنے پیارے حبیب کو بشارت دے کر بھیجا-
طارق: میں اپنی قسمت پر جس قدر بھی نازاں کروں کم ہے-"
مغیث الرومی: بے شک!
اسی اثنا میں صبح کی اذان ہوئی-
مسلمان آٹھ اٹھ کر نماز کے لیے جمع ہونے لگے.
پھر یہ دونوں بھی نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے
_______________________
ایک اور مظلوم_____________
ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ سات ہزار لشکر چار جہازوں میں روانہ ہوا تھا-
ہر جہاز میں الگ الگ جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جاتی تھی-
نماز سے فارغ ہو کر یہ لوگ جہازوں کے تختوں پر آئے-
وہ ابنائے جسے یہ لوگ عبور کر رہے تھے، صرف چودہ میل چوڑی تھی-
دراصل اندلس یا اسپین افریقہ کے براعظم سے ہم آغوش ہو کر یورپ کو ایشیا سے ملانا چاہتا تھا کہ ایک طرف سے بحیرہ روم اور دوسری طرف بحر ظلمات ایک دوسرے سے مصافحہ کرنے کے لیے بڑھے اور ایک چھوٹا سا آبنائے قائم کر کے یورپ اور ایشیا کو الگ الگ کر دیا-
اسی آبنائے کا زیادہ حصہ طے ہو چکا تھا اور بہت تھوڑا باقی رہ گیا تھا-
سامنے جزیرہ خضر جسے سبز جزیرہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ملحقہ پہاڑیاں نظر آ رہی تھیں-
یہ ایسا سر سبز خطہ تھا کہ دور ہی سے لہلہاتا ہوا نظر آ رہا تھا-
مسلمانوں کو یہ مقام دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی-
طارق کے جہاز میں اس وقت کونٹ جولین آ گیا تھا-
اس نے طارق کے پاس آ کر کہا-"
مبارک ہو، آپ اندلس کی زرخیز اور سر سبز وادی کے قریب آ گئے ہیں-"
طارق نے اس سے دریافت کیا-"
یہ کون سا مقام کہلاتا ہے؟ "
جولین: یہ جزیرہ سبزہ مشہور جگہ ہے-
طارق: اور یہ پہاڑیاں اور اس کے ملحقہ دامن کیا کہلاتے ہیں؟ "
جولین: اس کا نام راک ہے، اسے قلعہ الاسد بھی کہتے ہیں-
طارق:کیا یہاں شیر زیادہ رہتے ہیں؟ "
جولین:یہ ایسا دل کش مقام ہے کہ یہاں ہر جانور اور انسان کا جی رہنے کو چاہتا ہے نیز شیر کثرت سے پائے جاتے ہیں-
اب جہازوں کا رخ قلع الاسد کی طرف ہی ہو گیا تھا اور ہر لمحہ ان کا جہاز جزیرہ خضر کے قریب ہوتے جا رہے تھے-
آفتاب نکل آیا تھا اور اس کی شعاعیں سمندر کے نیلگوں پانی پر رقص کر رہی تھیں-
صبح کا سہانا منظر تھا ہوا کے خوشگوار جھونکے چل رہے تھے-
جزیرہ خضر کے سبز زار پر آفتاب کی بنفشی شعاعیں عجیب دل کش منظر پیدا کر رہی تھیں-
مغیث الرومی نیز تمام مجاہدین اسلام کی نگاہیں اس طرف لگی ہوئی تھیں-
طارق نے کہا؛: کس قدر دل کش منظر ہے-"
جولین:اندلس کا چپہ چپہ دل کش ہے-:
اس میں چاندی کی کانیں اور دوسری چیزیں بھری پڑی ہیں-
ہم عیسائی واقف ہی نہیں کہ کس جگہ سے کیا چیز نکالی جا سکتی ہے-
طارق: اللہ کا شکر ہے کہ ہم بعافیت تمام اندلس کے کنارے پر آ گئے-
اب جہاز لائنز راک یا قلعہ الاسد کے قریب پہنچ گئے گئے تھے کہ آگے بڑھنا________جاری ہے.

طارق بن زیاد

فاتح اندلس طارق بن زیاد.
از صادق تمیمی.
قسط نمبر 3.
عجیب خواب__________کو دیکھ اور اس کا خواب سن رہے تھے-
جب وہ خاموش ہوا تو موسی نے کہا! "
عجیب خواب دیکھا ہے تم نے-"
جولین نے کہا ہاں عجیب خواب ہے زرا ایک بات تو بتائیں؟ "
عبد العزیز؟ "
جولین کیا آپ کبھی اندلس گئے ہیں؟
عبد العزیز:کبھی نہیں گیا-
موسی:آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟ "
جولین:اس لیے کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اندلس کی سر زمین کے متعلق ہے-"
موسی:کیا وہاں کے پہاڑ اور میدان سر سبز ہیں؟ "
جولین:جی ہاں حقیقت میں اندلس بہشت کا نمونہ ہے-
قدرت نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب اندلس کو بخش دی ہیں-
وہ پھلوں کی بہتات اور آسمان کے صاف رہنے کے لحاظ سے ملک شام ہے-
آب و ہوا کی عمدگی کے خیال سے یمن یا عرب کا نخلستان ہے-
میوں کی کثرت کی وجہ سے اور تازگی کے اعتبار سے حجاز ہے
زرخیزی اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کے انداز سے ہندوستان ہے-
بیش قیمت کانوں کے باعث کیٹے ہے-
نیز سمندر کے ساحلوں کی خوش قطع اور فائدہ رسانی کے میں عدن ہے-"
موسی:آپ نے تو اس کی بڑی تعریف کر ڈالی ہے-
جولین:وہ ملک ہی تعریف کے قابل ہے مگر آپ کے صاحبزادے نے جو خواب دیکھا ہے، اس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے-
موسیٰ:کیوں؟ "
جولین: اس لیے کہ انہوں نے کبھی اندلس نہیں دیکھا مگر خواب میں اندلس پہنچ گئے جس بت کا انہوں نے بتایا ہے وہ مریڈا کے کھنڈرات میں ہے نہایت مشہور ہے-
اس کا نام" گلیشا" ہے دنیا بھر میں اتنا بڑا اور اچھا بت کہیں نہیں ہے-
موسی: اور وہ عورت؟
جولین: جس عورت کو انہوں نے خواب میں دیکھا وہ شاہ رازرق کی بیوی نائلہ ہے-
اس کا طوق دنیا بھر میں بے نظیر ہے اور وہ حسین بھی ایسی ہے کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے سارے اندلس میں وہ طوق والی حسینہ کے نام سے مشہور ہے-
موسی: تعجب ہے میرے بیٹے خواب میں اندلس ہو آئے ہیں-
عبد العزیز: کیا آپ مجھے بیداری میں اندلس جانے کی اجازت دیں گے؟
موسی: نہیں میں نے اس مہم کے لیے اور ہی بہادر کو منتخب کر لیا ہے-
عبد العزیز: نے مایوسی سے کہا اور وہ کون ہے؟
موسی: جب دربار خلافت سے اجازت آ جائے گی تو اس وقت تمہیں اور سب مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا-"
اس وقت ایک خادم نے آ کر اطلاع دی حضور قاصد دمشق سے واپس آ گیا ہے سب یہ خبر سن کر خوش ہو گئے-
موسی نے کہا جلدی سے اسے اندر بلاو-"
خادم واپس چلا گیا اور سب بے چینی سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے-"
___________________________
روانگی_______جب قاصد کے آنے میں زرا دیر ہوئی تو ان لوگوں میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں-
جولین نے کہا کیا آپ کے خیال میں اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے لشکر کشی کی اجازت دے دی ہو گی؟ "
موسی: میں صحیح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ایک مہم ہندوستان پر بھیجی جا رہی ہے اور وہ اشد ضروری ہے-
جولین: کیوں؟ .موسی: اس لئے کہ سندھ کے مغرور و متکبر راجہ نے چند مسلمانوں کو قید کر لیا ہے-
انہیں چھڑانے کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی ضروری ہو گئی ہے-
جولین: آپ مسلمانوں میں بڑا اتفاق ہے و اتحاد ہے-
موسی: کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے
کل مومن اخواہ
تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں-"
جب ایک بھائی پر مصیبت آئے تو یا اسے تکلیف ہو تو دوسرا بھائی اس سے متاثر نہ ہو گا؟ "
اور اگر مسلمان کسی مسلمان کو تکلیف اور پریشانی میں دیکھے گا تو اس کی مدد نہیں کرتا تو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ناخوش ہوتے ہیں-
یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر ممکن امداد کرنے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں یگانگت اور بھائی چارہ ہے-
جولین: ٹھیک فرما رہے ہیں آپ جو محبت جو خلوص اور جو پیار مسلمانوں میں ہے وہ تمام دنیا میں کہیں بھی کسی قوم میں نہیں.
اتنے میں قاصد اندر آ گیا-
اس نے بلند آواز میں کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ-"
موسی نے و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا-
وہ ایک طرف بیٹھ گیا-
موسی نے دریافت کیا-"
کہو اعلی حضرت خلیفہ المسلمین بخیریت ہیں؟ "
قاصد: جی ہاں اللہ کے فضل و کرم سے.
موسی: اور دوسرے حکومت کے اکابرین ملت-
قاصد: سب خیریت سے ہیں اور سب نے سلام کہا ہے-
موسی: و علیکم السلام اور عام مسلمان؟
قاصد: وہ بھی اچھی طرح ہیں مگر ادنی مسلمانوں سے لے کر اعلی تک حتی کہ خلیفہ بھی ان مسلمانوں کی وجہ سے جنہیں ہندوستان کے مغرور راجہ داہر نے قید کر لیا ہے سخت پریشان اور بے قرار ہیں اور سب کی نگاہیں اس مہم پر لگی ہوئی ہیں جو کہ وہاں بھیجی جا رہی ہے-
موسی: اچھا میری عرض داشت کا جواب ملا؟
قاصد: جی ہاں-"
موسی: لاو !
قاصد نے خلیفہ کا مراسلہ نکال کر پیش کیا-
موسی نے لے کر اول اسے چوما اور پھر کهول کر پڑھا لکھا تھا:::
منجانب ولید بن عبدالملک خلیفہ المسلمین از دمشق بجانب موسیٰ بن نصیر وائسرائے بلاد مغرب:
السلام علیکم و رحمۃ بعد از حمد و صلوٰۃ کے قلمی ہے کہ اسلام اور مسلمان دنیا سے فسق و فجور بدکاری بد امنی کو دور کرنے آئے ہیں اگرچہ ہندوستان کی مہم در پیش ہے مگر اس مہم کی وجہ سے کونٹ جولین کی مدد سے باز نہیں رہ سکتے-
وہ مظلوم ہیں اور مظلوم کی حمایت کرنا مسلمان کا اولین فرض ہے-
ہم اس مہم کا کلی اختیار تم کو دیتے ہیں تم نہایت ہوشیاری سے اسے شروع کرو-
یہاں تجربہ کار لوگوں کو اندلس بھیجو اور کسی ایسے افسر کا انتخاب کرو جو اس مہم کے لیے مناسب اور موزوں ہو-
اول اول زیادہ لشکر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے-
تھوڑا سا لشکر بھیجو ضرورت لاحق ہو تو کچھ اور لشکر بھیج دینا-
فقط والسلام و رحمۃ اللہ.
اس شاہی مراسلہ کو پڑھ کر اتنی مسرت موسی کو نہ ہوئی ہو گی جتنی یہ سن کر کونٹ جولین اور راہب کو ہوئی-"
راہب نے کہا کہیے اب تو دربار خلافت سے بھی اجازت مل گئی ہے اب کیا ارادہ ہے آپ کا؟ "
موسی: مجھے صرف اسی کا انتظار تھا خلیفہ نے میری عرض داشت منظور کر لی ہے اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے پرسوں جمعہ کی نماز کے بعد ان شاءالله لشکر روانہ ہو جائے گا-"
ان راہب اور کونٹ جولین دونوں آداب کر کے اٹھ کر چلے.
موسی نے اسی روز سات ہزار آزمودہ کار اور شیر دل نوجوانوں کا انتخاب کر کے انہیں تیاری کا حکم دیا-
اندلس کی مہم پر جانے کے لیے ہزاروں آدمی تیار بیٹھے تھے-
سب کا خیال تھا کہ کم سے کم پندرہ بیس ہزار لشکر تو بھیجا ہی جائے گا مگر ان کی حیرت اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی، جب انہوں نے دیکھا کہ صرف سات ہزار لشکر بھیجا جانا منظور ہوا ہے جو منتخب ہو گئے انہوں نے خوش ہو کر تیاریاں شروع کر دیں اور منتخب نہ ہوئے وہ ان کی خدمت کرنے لگے-
صرف ایک ہی دن درمیان میں تھا-
آنکھ جھپکتے ہی وہ بھی گزر گیا اور جمعہ کا وہ روز سعید آ گیا جب اندلس پر جانے والا لشکر روانہ ہونے والا تھا-"
حسب معمول مسلمان غسل کر کے اور نئے کپڑے پہن کر مسجد کی طرف جانے لگے-
نماز کے وقت سے بہت پہلے مسجد پر ہو گئی-

وقت پر اذان ہوئی نماز ہوئی اور سنتوں وغیرہ سے فارغ ہو کر موسی مکبر پر آئے-
انہیں دیکھتے ہی سب لوگ اس قدر خاموش ہو گئے کہ سانس لینے کی آواز صاف طور پر سنائی دینے لگی:
موسی نے کہا: مسلمانو قابل تعریف وہی ذات ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہے-
جسے ہم دیکھتے ہیں اور وہ عالم جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے، وہ بنائے ہیں-
وہ خالق کل ہے اور قادر مطلق! نہ اسے نیند آتی ہے نہ تهکان محسوس ہوتی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے-
وہ ہمیشہ سے ہے اس وقت سے جب کوئی بھی نہ تھا اسی نے سب کچھ بنایا اور وہ ہمیشہ رہے گا، یعنی اس وقت بھی جب کہ تمام عالم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے-
زمین پهٹ جائے گی اور آسمان ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا-
سیاروں کا وجود باقی نہ رہے گا وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم مسلمان اس کی عبادت کرتے ہیں-
یاد رکھو میں صرف مسلمان ہی توحید کے حامل اور مبلغ ہیں اور اب قیامت تک توحید مسلمانوں ہی میں رہے گی-
چونکہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اس لیے یہی شریعت یہی قرآن شریف اور یہی مزہب توحید کا علمبردار رہے گا-
گزشتہ کتابوں یعنی توریت انجیل اور زبور وغیرہ میں بھی تحریفیں ہوتی رہیں-
انسان ان میں ردو بدل کرتے رہے-
قرآن مجید میں ایک نقطہ اور زیر زبر اور پیش کا بھی فرق نہیں آ سکے گا-
یہ اس لیے کہ اللہ نے خود اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے-
اللہ رب العزت قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے:
ان نحن نزلنا الذکر و انا له لحفظون.
ترجمہ: بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (سورۃ الحجر آیت نو)
خیال کرو اللہ سے زیادہ حفاظت کرنے والا کون ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس میں ایک نقطے کا فرق نہیں آیا اور نہ آئندہ آ سکتا ہے-
اس کے بعد قابل تعریف باعث تخلیق عالم فخر بنی آدم احمد مجتبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی ہے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزاروں صعوبتیں، لاکھوں تکلیفیں برداشت کیں اور دنیا کے سامنے بے ڈهڑک ہو کر اللہ کا پیغام پہنچا دیا-
ہمیں فخر ہے کہ ہم اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ہیں جو اللہ کا لاڈلا ہے-
فرشتوں کا حبیب ہے، دنیا والوں کا پیارا ہے-
ان پر درود سلام ایک بار نہیں ہزار بار نہیں لاکھوں بار ان گنت درود سلام-
اسلام کے بہادر فرزندو : دربار خلافت پر کونٹ جولین فریادی بن کر آئے ہیں-
اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے ان کی فریاد سن کر ان کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہے اور آج لشکر روانہ ہونے والا ہے جو اندلس سے بدکاری عیش پرستی بد امنی اور انسان پرستی مٹا دے گا-
دعا کرو کہ پروردگار عالم مجاہدین کو فتح عطا فرمائے-"
تمام مسلمانوں نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خلوص اور سچے دل سے دعا مانگی-
اب موسی نے کہا:"
غالباً سب لوگوں کو اس بات کے معلوم کرنے کا اشتیاق ہو گا کہ اندلس جانے والے لشکر پر افسر یا سپہ سالار کس کو مقرر کیا جائے گا-
میرے پاس سینکڑوں درخواستیں تحریری اور زبانی آئی ہیں-
ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے یہ اعزاز حاصل ہو-
اس میں میرا بیٹا عبد العزیز بھی ہے لیکن میں نے ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جو اس مہم کے لیے ہر طرح سے موزوں اور مناسب ہے-
وہ ایک بربری غلام ہے لیکن میں نے اسے آزاد کر دیا ہے-
اس کا نام طارق ہے"-
طارق بربر کا رہنے والا تھا- جب مسلمانوں نے بربر پر لشکر کشی کی تو وہ اپنے ملک کی حفاظت میں نہایت شجاعت و بسالت سے لڑا اور لڑتے لڑتے گرفتار ہو گیا،
چونکہ جو لوگ لڑائی میں گرفتار ہوتے ہیں وہ غلام بنا لئے جاتے ہیں، اس لیے طارق بھی غلام بن گیا اور موسی کے پاس رہنے لگا،
مسلمانوں کی ہم نشینی نے اسے مسلمان ہونے پر برانگنختہ کر دیا اور وہ مسلمان ہو گیا-
موسی نے اسے فورا آزاد کر کے مراکش کا گورنر بنا دیا-
دنیا کی کوئی قوم بھی ایسے ایثار ایسی مساوات کا مظاہرہ نہیں کرتی کہ ادنیٰ درجہ کے شخص کو جو اچھوت تھا مسلمان ہوتے ہی جلیل القدر عہدہ دے دیا گیا ہو-
ہندوستان میں تو اچھوتوں کی یہ حالت زار ہے کہ مجال نہیں وہ کسی مندر شوالہ اور دهارمک عمارت میں چلے جائیں-
اعلی ذات کے ہندو_______جاری ہے. اب تک اتنا ہی پوسٹ ہوا ہے

طارق بن زیاد.

طارق بن زیاد.
از صادق حسین تمیمی.
قسط نمبر 2.
فریادی__________کو اس وحشیانہ واقعہ کی اطلاع نہیں ہوئی؟
راہب سب کو خبر ہے اور سب کو ہی نہایت رنج وقلق ہے-
موسیٰ=پهر ایسے ابو الہوس اور بدکار بادشاہ کو معزول یا قتل کیوں نہیں کر دیتے؟
راہب=اس لیے کہ سب اس سے ڈرتے ہیں!
موسیٰ=اچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟
جولین: صرف یہ کہ آپ اس ظالم سے میرا انتقام لیں-
جولین:آپ ایک مظلوم کی حمایت میں تلوار بلند کر رہے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا معقول وجہ ہو گی-
موسیٰ: یہ تمہارا آپس کا مسئلہ ہے خود ہی طے کر لو!
جولین: اگر ہم طے کر سکتے ہوتے تو تمہارا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے!
راہب: مسلمانوں کا قول ہے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرنا اور مظلوموں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
موسیٰ:بے شک!
راہب: جو بے عزتی جولین کی کی گئی ہے اس سے کیا وہ مظلوم نہیں سمجھے جاتے؟
موسیٰ:بےشک
راہب: اور رازرق؟
موسیٰ: ظالم ہے-
راہب پهر کیا آپ کا یہ فرض نہیں ہو جاتا کہ مظلوم کی حمایت کریں اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائیں؟
موسی: بےشک میرا یہ فرض ہو جاتا ہے-
راہب: تو اللہ کے لیے آپ مظلوم کی حمایت کیجئے اور ظالم کو سزا دیجئے-
میں شرافت تہزیب اور انسانیت کے نام پر آپ سے اپیل کرتا ہوں-
جولین: اگر آپ نے ہماری امداد نہ کی اور میں اس بدکار و جفا کار سے اپنا انتقام نہ لے سکا تو میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قسم کھاتا ہوں کہ سمندر میں ڈوب کر مروں گا اور میرا خون آپ کی گردن پر ہو گا-
موسی یہ سن کر گھبرا گیا اور انہوں نے جلدی سے کہا-
میں ان شاءالله تمہاری مدد کروں گا لیکن________
راہب:لیکن کیا؟
موسیٰ:میں محض ایک وائسرائے ہوں، خلیفہ کا ماتحت میں خود مختار نہیں ہوں، اگر تم پسند کرو تو میں تمام واقعات لکھ کر اعلی حضرت خلیفۂ کے حضور میں ارسال کر کے ان سے لشکر کشی کی اجازت حاصل کر لوں-
راہب:نہایت مناسب رائے ہے آپ کی-
موسی:اچھا تو میں ابھی لکھتا ہوں--
موسی نے اسی وقت ایک عرض داشت لکھی اور اپنے ایک متمد آدمی کو دے کر خلیفہ کی خدمت میں ارسال کر دی-
کونٹ جولین اور راہب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لے کر رخصت ہو گئے-
ان کے جاتے ہی موسیٰ اور عبد العزیز آٹھ کر چلے گئے-
ان کے جاتے ہی لوگ جوک در جوک اٹھ کر روانہ ہو گئے-
___________________________
عجیب خواب_______________ہر مسلمان، وائسرائے موسیٰ اور دوسرے اراکین سلطنت خوب جانتے تھے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک جس قدر رحم دل فیاض اور سخی ہے، اسی قدر یہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کے ہمسایہ بادشاہوں اور تاج داروں میں ناچاقی نہ ہو-
تمام ممالک میں امن امان قائم رہے-
جس زمانے میں بلاد مغرب کے وائسرائے موسیٰ بن نصیر تھے-
اسی زمانے میں بلاد مشرق کے وائسرائے حجاج بن یوسف ثقفی تھے-
یہ عراق میں رہنے والے تھے اور موسی افریقہ میں-
موسیٰ کو معلوم تھا کہ ہندوستان کے چند خود سر راجاؤں نے جزیرہ سراندیپ (لنکا) سے آنے والے مسلمانوں کو قید کر لیا ہے اور حجاج بن یوسف نے خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت لی ہے-
موسیٰ کا خیال تھا کہ خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت دے دیں گے کہ وہاں مسلمان قید تھے مگر اندلس پر یورش کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ وہاں مسلمانوں کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ آپس میں عیسائیوں میں مناقشات تھے-
تاہم انہیں کچھ امید ضرور تھی اور وہ اسی امید پر ہی انہوں نے تیاریاں شروع کر دیں تھیں-
افریقہ سے اندلس جاتے ہوئے راستے میں سمندر کو بغیر جہازوں کے عبور کرنا ممکن نہیں تھا-
بحیرہ روم نے افریقہ کو اندلس سے بالکل جدا کر دیا تھا اور مسلمانوں نے اس وقت سمندر میں جہاز رانی نہیں کی تھی مگر جب کہ اندلس پر چڑھائی کا ارادہ تھا تو یہ ضروری ہو گیا تھا کہ جہاز تیار کروائے جائیں تاکہ بحیرہ روم کو عبور کیا جا سکے-
چنانچہ موسیٰ نے جہاز تیار کروانے شروع کروا دئیے تھے-
یہ بات نہیں تھی کہ مسلمان جہاز چلانا یا بنانا نہیں جانتے تھے فقط اب تک ضرورت لاحق نہیں ہوئی تھی-
چار جہاز تیار کئے جا رہے تھے جو کہ اس قدر بڑے تھے کہ ان میں سے ہر ایک میں دو ہزار آدمی اور اور ان کے کھانے پینے کا پندرہ بیس روز کا سامان با آسانی آ سکتا تھا-
جنگ پر جانے کی ہر مسلمان کی تمنا اور خواہش تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنے آدمی بھیجے جائیں گے اور ان کا افسر کون ہو گا-
البتہ جہاد کے شائقین نے ابھی سے جہاد پر جانے کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دیں تھیں-
جو لوگ تجربہ کار تھے اور متعدد لڑائیوں میں لشکر کی قیادت کر چکے تھے انہوں نے افسری کے لیے کہنا اور کوشش کرنا شروع کر دیں تھیں.
عام لوگوں کا خیال تھا کہ موسیٰ اپنے بیٹے عبد العزیز کی سر کردگی میں یہ لشکر بھیجے گا-"
لیکن موسیٰ چپ تھے اس لیے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا-
علاوہ ازیں جب سے مسلمانوں کو اندلس کے بادشاہ رازرق کی عشرت پسندانہ زندگی کے واقعات کے بارے میں معلوم ہوا تھا وہ سب اس سے بہت ناخوش تھے-
اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد اسے اس کی بدکاری اور بو الہوسی کی سزا دیں-
مسلمان نہ خود بدکار تھے اور نہ دوسروں کو بدکار دیکھنا پسند کرتے تھے گویا وہ نیکو کاری کے ٹھیکیدار تھے-
اور چاہتے تھے کہ ساری دنیا انہی کی طرح نیک رہے-"
بدکاری اور بد امنی کا دنیا میں نام تک باقی نہ رہے-"
ایک روز موسیٰ دیوان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت ان کے پاس کئی معزز اشخاص مثلاً علی بن ربیع طمی ، حیات بن تمیمی ابن عبداللہ ایوب اور عبد العزیز وغیرہ بیٹھے تھے-"
یہ تمام وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی وقت لشکر کی قیادت کر چکے تھے، نیز نہایت مشہور اور شجاع لوگ تھے-
علی بن ربیع طمی نے دریافت کیا-"
آپ نے اس مہم کی افسری کے لیے بھی کوئی شخص تجویز کر لیا ہے؟
موسی نے جواب دیا ہاں-"
کر لیا ہے ممکن ہے کہ اس کا نام سن کر آپ سب بھی اس کی تائید کریں گے-"
عبد العزیز حضرت میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے-
موسیٰ:خواب؟ ______کیا خواب دیکھا ہے تم نے؟
ابھی عبد العزیز نے اپنا خواب بیان کرنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ کونٹ جولین اور اشببلیا کا راہب دونوں آ گئے-
یہ دونوں قیروان ہی میں مقیم تھے اور اکثر موسیٰ کے پاس آتے رہتے تھے-
علیک سلیک کے بعد وہ بیٹھ گئے تب موسی نے عبد العزیز سے کہا"-
ہاں بیٹا تم اپنا خواب بیان کرو-"
عبد العزیز:میں نے دیکھا کہ میں بحری سفر کر رہا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے آدمی ہیں-
ہم سب ایک سر سبز پہاڑ پر جا کر اترے اور پہاڑ کو عبور کر کے بہشت زار میدانوں کو طے کرنے لگے-
اس کے نواح میں ہزاروں لاکھوں چڑیاں تھیں جو ہمیں دیکھتے ہی اڑ جاتی تھیں-
کبھی کبھی وہ ہمیں چونچیں بھی مارتی تھیں مگر جب ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ اڑ جاتیں تھیں-
میدانوں کے بعد ہم نے آبادیاں بھی دیکھیں، وہ نہایت خوبصورت اور خوش نما تھیں-
ایک جگہ ہم جب پہنچے تو ہمارے سامنے ایک چوڑا دریا آ گیا-
اس دریا پر ایک اونچا پل باندھا تھا جو نہایت شاندار اور مضبوط اور خوبصورت تھا-
اس کے دروازے جن سے دریا بہہ رہا تھا؛ محرابدار اور اونچے اونچے تھے-
میں نے آج تک کسی پل کے اتنے اونچے دروازے نہیں دیکھے!
ہم نے پل کے ذریعہ سے دریا کو عبور کیا اور خوش نما وادی میں جا اترے-
اس وادی میں بہت سے کھنڈر تھے اور ان کھنڈرات میں ایک پتھر کا بہت اونچا بت نصب تھا اتنا اونچا کہ اس کے نیچے کھڑے ہونے سے اس کا سر نظر نہیں آتا تھا-
ہم سب اس بت کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ اس کی پشت کی طرف سے چند عورتیں آئیں-
سب نہایت خوبصورت تھیں اور ریشمی پوشاکیں نیز سونے کے ایسے زیورات جن میں جواہرات جڑے ہوئے تھے پہنے ہوئے تھیں لیکن ان کے درمیان جو عورت تھی وہ ان سب سے زیادہ حسین اور خوبرو تھی نیز اس کی پوشاک بھی ان سب سے زیادہ بیش قیمت اور بھڑک دار تھی-
اس کے زیورات آبدار موتیوں اور جواہرات کے تھے مگر وہ ایک طوق پہنے ہوئے تھی جس میں لعل و یاقوت جڑے ہوئے تھے-
اس کی چمک سے اس عورت کے رخسار دمک رہے تھے اور اس کا چہرہ چاند سے زیادہ جگمگا رہا تھا-
اس عورت نے میری طرف دیکھا اور کچھ اشارہ کیا-
میں اس کے پیچھے چل دیا-
جب ہم سنگی بت سے زرا فاصلے پر پہنچ گئے تو وہ عورت اور اس کے ساتھ والیاں سب ہنسیں اور میں چونک پڑا-
چونکتے ہی میری آنکھ کھل گئی-
موسی، راہب، کونٹ جولین نیز تمام لوگ خاموش بیٹھے حیرت بھری نظروں سے عبد العزیز کو دیکھ.....

طارق بن زیاد.

طارق بن زیاد.قسط نمبر.
از صادق حسین.
فریادی_________قیروان کے مسلمان نماز جمعہ کی تیاری میں ہمہ تن مصروف تھے-
قیروان براعظم افریقہ میں ایک نہایت مشہور شہر تھا-
اس شہر میں غربی مملکت اسلامیہ کے وائسرائے رہتے ان کا نام موسی بن نصیر تھا-
نہایت ہوشیار آزمودہ کار بہادر اور مدبر شخص تھے-
خلیفہ نے انہیں امیر افریقہ کا معزز خطاب عطا فرمایا تھا-
انہوں نے مغرب پر حملے کر کے کافی شہرت حاصل کر لی تھی-عیسائی دنیا ان سے خوب واقف تھی-
ان کا طرز حکومت نہایت اچھا تھا عدل و انصاف سے حکمرانی کرتے تھے-
ان سے نہ صرف مسلم رعایا بلکہ غیر مسلم رعایا بھی بہت خوش تھی-
ہم 93ہجری کے واقعات قلم بند کر رہے ہیں جس وقت ولید بن عبدالملک خلیفہ تھے-
ان کا دارالسلطنت دمشق میں تھا-
قیروان کو مسلمانوں نے آباد کیا تھا-
اس کی آبادی کے متعلق عیسائی مورخ ایک عجیب روایت بیان کرتے ہیں کہتے ہیں کہ 60ہجری میں معاویہ بن فدیح افریقہ کے غربی فتوحات کرتے کرتے ایک خوش نما اور بہشت زار گھاٹی میں پہنچے.
وہ جگہ انہیں اتنی پسند آئی کہ وہاں شہر بسانے کا ارادہ کر لیا مگر مشکل یہ پیش آئی کہ تمام گھاٹی میں حشرات الارض چیتے تیندوے اور شیر ڈکارتے پھرتے اور سانپ اژدہے نیز اور بھی ہر قسم کے حشرات الارض تھے-
انسان کے ان دشمنوں کی وجہ سے وہاں بنی نوع کا آباد ہونا اور وہاں کوئی شہر بسانا غیر ممکن تھا لیکن معاویہ بن فدیح نے وہاں شہر آباد کرنے کا ارادہ کر لیا تھا اور اس ارادے کی تکمیل کے لیے وہ گھاٹی کے قریب ہی ٹھہر گئے-
ایک روز صبح کی نماز پڑھتے ہی گهنے درختوں کی قطاروں اور شاخوں کو چیرتے ہوئے گھاٹی میں جا پہنچے اور بلند آواز سے بولے-"
اے جانورو!اس سایہ دار مقام میں مسلمان آباد ہونا چاہتے ہیں-وہ مسلمان جو رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اطاعت گزار اور اللہ کے فرمانبردار بندے ہیں-
تم اب اس مقام سے نکل جاؤ اور اب یہ تمہارا گھر نہیں رہا ہے-"
یہ کہہ کر وہ لوٹ گئے اور متواتر تین دن گھاٹی کے درمیان جا جا کر اسی طرح سے کہتے رہے-
تیسرے روز جانور وہاں سے نکل گئے اور گھاٹی ہر قسم کے درندوں اور حشرات الارض سے یکسر خالی ہو گئی"-
ایک وہ مسلمان تھے جن کا کہنا جانور تک مانتے تھے اور ایک ہم مسلمان ہیں ہمارا کہنا ہمارا نفس ہی نہیں مانتا
حقیقت یہی ہے کہ سچے مسلمان قرون اولیٰ کے لوگ ہی تھے جو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے تھے-
اس کی عبادت حضور قلب سے کرتے تهے اور اوامر نواہی کا خیال رکهتے تهے.
اللہ ان سے خوش تھا ان کی دعاؤں میں اثر تھا جو مانگتے تھے قبول ہوتی تھی جو آرزو کرتے اللہ پوری فرما دیتا تھا-
ہم مسلمان کہلاتے ہیں تو محض اس وجہ سے کہ مسلمانوں کی اولاد ہیں ورنہ ہمارے رنگ ڈھنگ مسلمانوں سے بالکل علیحدہ ہیں.
نماز ہم نہیں پڑھتے روزے ہم نہیں رکهتے حرام و حلال کو ہم نہیں سمجھتے، پھر ہم کس بات کے مسلمان ہیں اور کیوں اللہ ہم سے راضی ہو؟
گھاٹی کے خالی ہوتے ہی معاویہ بن فدیح نے شہر کی بنیاد ڈالی اور تھوڑے عرصے میں ایک عظیم الشان شہر آباد ہو گیا"'
دور دور سے تاجر و صناع اور پیشہ ور لوگ آ آ کر آباد ہونے لگے.
جب وائسرائے اس شہر میں آ کر رہنے لگا تو اس وقت سے اس کی رونق دن دگنی اور رات چوگنی بڑھنے لگی.
اسلامی حکومت تھی، اسلامی شہر تھا لہذا اسلامی احکام نافذ تھے-
جمعہ کے روز تمام بازار ساری دکانیں اور کاروبار بند ہوتے تھے-
ہر مسلمان اور مسلمانوں کا ہر بچہ نماز جمعہ کی تیاری صبح سے ہی شروع کر دیتا تھا-
عین اس شوق و شغف سے جیسے کہ آج کل کے زمانہ کے مسلمان عید کی نماز کی تیاری کرتے ہیں-
قیروان میں پانچ سو حمام تھے-
لوگ لوگ وہاں جا جا کر غسل کر رہے تھے اور کپڑے بدل بدل کر مسجد کی طرف جا رہے تھے-
آج اس لئے بھی لوگ جلدی پہنچنا چاہتے تھے کہ انہوں نے سنا تھا کہ سیوطا سے کچھ عیسائی فریاد لے کر آئے ہیں اور موسیٰ بن نصیر آج ان کی فریاد سنیں گے"-
زوال کے وقت سے پہلے ہی عالی شان مسجد لبریز ہو گئی اگرچہ مسجد اتنی بڑی تھی کہ پچاس ہزار آدمی اس میں آ سکتے تھے، لیکن اس وقت اتنے مسلمان آ چکے تھے کہ اتنی بڑی وسیع مسجد بھی تنگ ہو گئ تھی-
مینار پر چڑھ کر اذان دی گئی-
چونکہ یہ مسجد شہر کے بالکل وسط میں تھی اس لیے اذان کی آواز گھر گھر پہنچ گئی"-
تھوڑی دیر بعد موسیٰ بن نصیر معہ اپنے بڑے بیٹے عبدالعزیز کے آئے-
یہ کافی ضعیف تھے-
ان کی ڈاڑھی لمبی اور سفید تھی.
چہرہ نورانی پیشانی کشادہ اور آنکھیں بڑی بڑی خوش نما تھیں"
موسی نے خطبہ پڑھ کر نماز پڑھائی-
نماز کے بعد وہ مکبر آئے-
تمام لوگ خاموش ہو گئے-
سب سے پہلے انہوں نے اللہ کی تعریف اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی توصیف کی اور اس کے بعد فرمایا!
مسلمانو!
یہ ہم مسلمانوں پر اللہ کا احسان ہے کہ وہ قومیں جو اپنے آپ کو بہت معزز و باعظمت سمجھتی اور جانتی ہیں آج دربار خلافت پر فریادی آ رہی ہیں-
تمہارے پڑوس میں ایک قلعہ سیوطا ہے جو ایک صوبہ کا دارالسلطنت ہے،
وہاں کا گورنر جولین فریاد لے کر آیا ہے، اگرچہ ابھی یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا کہے گا مگر میرا خیال ہے کہ وہ اندلس کے بادشاہ رازرق (راڈرک) کا ستایا ہوا ہے-
عیسائی بادشاہوں کی عیش پرستی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ رعایا کی جان و مال اور عزت و آبرو کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے-
میں نے کونٹ جولین کو بلایا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم سب خاموش اپنی اپنی جگہ بیٹھے رہو اور سنو وہ کیا کہتا ہے -"
موسی مکبر سے اتر کر نیچے ہی بیٹھ گیا اور انہوں نے اپنے سامنے اتنی جگہ خالی کرا لی کہ آٹھ دس آدمی بیٹھ سکیں-
یہ جس طرف سے گزرے لوگ ان کے لیے راستہ چھوڑتے چلے گئے-
اور موسیٰ کی طرف بڑھنے لگے-
ان میں ایک اڈهیر عمر شخص تھا-
اس کا رنگ سرخ ہو سفید تھا- قدرے ڈاڑھی بھی تھی.
نہایت بیش قیمت ریشمی لباس اور ہیرے جواہرات کے چند ہار بھی پہنے ہوئے تھے-
یہی کونٹ جولین تھا-
ایک بہت بوڑھا شخص لمبا جبہ پہنے ہوئے تھا جو ٹخنوں تک نیچا تھا-
کمر ریشم کے ڈور سے باندھے اور اونچی ٹوپی اوڑھے تھا-
اس کی ڈاڑھی ناف تک لمبی تھی، یہ اشببلیا کا راہب تھا-
باقی آدمی جولین کے ملازم تھے-
انہوں نے آتے ہی مسجد میں نظر ڈالی انہیں وہاں اس قدر مسلمان دیکھ کر حیرت ہوئی-
وہ بڑهہ کر موسی کے پاس پہنچے-
موسی ان کے استقبال کے لئے کھڑے ہو گئے-
کونٹ جولین وغیرہ نے انہیں سلام کیا انہوں نے سلام کا جواب دیے کر نہایت خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کیا-
جب وہ اطمینان سے بیٹھ گئے تب موسیٰ نے پوچھا اب فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں"-
کونٹ جولین نے کہا میں مظلوم ہوں شاہ راڈرک نے میری عزت پر ہاتھ ڈالا ہے-
وہ ایسا ظالم و جابر بادشاہ ہے کہ اس سے اٹلی فرانس اور دوسرے ممالک کے بادشاہ تک خائف ہیں-
اس درندہ خصلت سے میرا انتقام کوئی نہیں لے سکتا اور جب تک میں انتقام نہ لے لوں اس وقت تک میرے سینے میں بھڑکنے والی آگ تهنڈی نہیں ہو گی-
موسی:لیکن اس نے آپ کی توہین کیا کی ہے؟
جولین: توہین؟
اس بد بخت اور ظالم نے میرے خاندانی ناموس کی دھجیاں اڑا دی ہیں-
اب اشببلیا کے راہب نے کہا-"
اس نے پاجیانہ حرکت کی ہے کہ جس پر تہزیب انسانیت شرافت اور مذہب سب ماتم کرتے رہ گئے ہیں-
موسیٰ:میں زرا تفصیل سے سننا چاہتا ہوں"-
راہب: میں بھی تفصیل ہی سے عرض کروں گا-
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ اندلس کا بادشاہ راڈرک ہے-
موسیٰ: میں جانتا ہوں-
راہب: ایک عرصے سے اندلس میں یہ قانون ہے کہ ہر گورنر ہر والئ قلعہ یا والئ شہر ہر رئیس ہر رکن سلطنت اور مشیر کی اولاد دارالسلطنت میں بادشاہ اور بادشاہ کی بیگم کے محل میں ان کے ظل سایہ عاطفت سے بلوغت تک پرورش پاتے ہیں-"
طریقہ یہ ہے کہ لڑکے بادشاہ کے اور لڑکیاں ملکہ کے زیر نظر رہتی ہیں-
ان کی تعلیم و تربیت وہیں ہوتی ہے اور جب سن بلوغت کو پہنچ جاتے ہیں تب رخصت کر دئیے جاتے ہیں-
موسی : لیکن یہ نرالا قانون کس لیے ہے؟
راہب: اس لیے کہ تمام رئیسوں امیروں اور گورنروں کے بچے تہزیب اور شائستگی سیکھ لیں اور درباری نشست و برخاست کے آداب سے واقف ہو جائیں-
موسیٰ: میرا خیال ہے کہ یہ بات نہیں ہے-
راہب: آپ کے خیال میں کیا بات ہو سکتی ہے؟ "
موسی: بادشاہ اس لئے امیروں رئیسوں نیز سلطنتِ کے مشیروں کی اولادیں اپنے پاس رکھتے ہیں تاکہ ان میں سے کوئی بغاوت نہ کر سکیں-"
راہب: یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے حضور-
خیر یہ قاعدہ ہے نہ صرف قاعدہ بلکہ قانون اور اسی پر عمل درآمد ہوتا چلا آ رہا ہے-
کونٹ جولین کی ایک لڑکی ہے نہایت حسین و جمیل اور خوبرو اس کا نام فلورنڈا ہے-
وہ لڑکی عہد طفولیت سے ہی بادشاہ بیگم کے پاس تھی،
اب سن بلوغت کو پہنچ گئی ہے-
چونکہ وہ بہت خوبصورت ہے اس پر رازرق فریفتہ ہو گیا ہے اور اس نے جبراً اس کی عصمت ریزی کر ڈالی ہے-
یہ سن کر موسی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا-
انہوں نے غیظ و غضب سے لہجے میں کہا اس قدر مظالم. ......"
راہب: جی ہاں! اس لڑکی نے اپنی مظلومیت کی داستان اپنے باپ کو لکھ بھیجی-
انہیں بڑا غصہ آیا مگر مصلحت سمجھ کر ضبط کر لیا اور بادشاہ کے پاس جا کر بہانہ بنایا کہ فلورنڈا کی ماں سخت بیمار ہے-
اس کے جانبر ہونے کی توقع نہیں ہے اور وہ ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتی ہے اور اس نے کہا کہ وہ اسے لے آئے-
آپ کو شاید یہ معلوم نہ ہو رازرق سے پہلے اندلس کا بادشاہ گاتهہ سے تھا اس طرح رازرق نے خاندان گاتهہ کی توہین کی ہے-
موسی:کیا عیسائیوں کو.

Thursday 17 November 2016

شمشیرِ بے نیام، حضرت خال بد ولید رضی اللہ عنہ


شمشیرِ بے نیام، حضرت خال بد ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر80
)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اطلاع اتنی دیر سے کیوں آئی؟‘‘’’اطلاع جلدی آگئی تھی۔‘‘ابو عبیدہؓ نے جواب دیا۔’’مدینہ سے قاصد آیا تو اس نے دیکھا کہ ہم نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس نے سوچا کہ محاصرے کے دوران یہ اطلاع دی تو اپنے لشکر میں کہرام بپا ہو جائے گا، اور اس محاصرے پر بہت برا اثر پڑے گا۔اس نے صر ف یہ بتایا کہ مدینہ میں خیریت ہے اور کمک آرہی ہے۔ایک دو دنوں بعد اس نے پیغام مجھے دے دیا اور چلا گیا۔میں نے پڑھا اور یہی بہتر سمجھا کہ دمشق کا فیصلہ ہو جائے تو تجھے اور لشکر کو اطلاع دوں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے نئے خلیفہ کا خط جو ابو عبیدہؓ کے نام لکھا گیا تھا، خالدؓ کو دے کر کہا۔’’اور یہ وہ خبر ہے جو میں تجھے لڑائی ختم ہونے تک نہیں دینا چاہتا تھا۔‘‘خالدؓ خط پڑھنے لگے۔یہ خلیفہ عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو لکھا تھا:
’’خلیفہ عمر کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام:
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
میں تجھے اﷲسے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں۔اﷲلازوال ہے جو ہمیں گمراہی سے بچاتا ہے، اور اندھیرے میں روشنی دِکھاتا ہے۔میں تمہیں خالد بن ولید کی جگہ وہاں کے تمام لشکر کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔فوراً اپنی جگہ لو، ذاتی مفاد کیلئے مومنین کو کسی مشکل میں نہ ڈالنا۔انہیں اس پڑاؤ پر نہ ٹھہرانا جس کے متعلق تو نے پہلے دیکھ بھال نہ کرلی ہو۔کسی لڑائی کیلئے دستوں کو اس وقت بھیجنا جب وہ پوری طرح منظم ہوں، اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کرنا جس سے مومنین کا جانی نقصان ہو۔اﷲنے تجھے میری آزمائش کا، اور مجھے تیری آزمائش کا ذریعہ بنایاہے۔دنیاوی لالچوں سے بچتے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح تجھ سے پہلے تباہ ہوئے ہیں تو طمع سے تباہ ہوجائے۔تو جانتا ہے وہ اپنے رتبے سے کس طرح گرے ہیں۔‘‘اس خط کا مطلب یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے خالدؓ کو سپہ سالاری سے معزول کر دیا تھا۔ اب ابو عبیدہؓ سپہ سالار تھے۔بلکہ وہ ایک مہینہ آٹھ دن پہلے سے سپہ سالار تھے۔’’اﷲکی رحمت ہو ابو بکر پر!‘‘خالدؓنے خط ابو عبیدہؓ کو دے کر کہا۔
رات جو خالدؓ نے مدینہ سے دور دمشق میں خلیفہ اول ابو بکرؓ کی رحلت پر روتے گزاردی تھی، اس رات ڈیڑھ دو مہینے پہلے مدینہ پر ماتم کے بادل چھانے لگے تھے۔امیرالمومنین ابو بکرؓ ایسی حالت میں ٹھنڈے پانی سے نہا بیٹھے جب ان کا جسم گرم اور پسینے میں شرابور تھا۔فوراً انہیں بخار ہو گیا۔علاج ہوتا رہا لیکن بخار جسم کو کھاتا رہا۔اگر امیرالمومنینؓ آرام کرتے تو شاید بخار کا درجہ حرارت گر جاتا مگر بیماری کی حالت میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو امور سلطنت میں مصروف رکھا۔
ایک روایت یہ ہے کہ ابو بکرؓ نے علاج کروایا ہی نہیں تھا۔انہیں ایک روز تیمارداروں نے کہا کہ طبیب کو بلا کر علاج کرائیں۔’’میں ن طبیب کو بلایا تھا۔‘‘امیرالمومنینؓنے کہا۔’’اس نے کہا تھا کہ علاج اور آرام کی ضرورت ہے۔میں نے اسے کہا تھا کہ میں جو چاہوں گا کروں گا ، میں نے اسے واپس بھیج دیا تھا۔‘‘’’علاج کیوں نہیں کرایا امیرالمومنین؟‘‘’’آخری منزل پر آن پہنچا ہوں میرے رفیقو!‘‘خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے جواب دیا۔’’اﷲنے جو کام میرے سپرد کیے تھے وہ اگر سب کے سب پورے نہیں ہوئے تو میرے لیے یہ اطمینان کیا کم ہے کہ میں نے کوتاہی نہیں کی……میں اﷲکے محبوب کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۃ المسلمین ابو بکر ؓنے اپنے دو سال تین ماہ کے دورِ خلافت میں معجزہ نما کام کیے تھے۔رسولِ کریمﷺ کی وفات کے فوراًبعدارتداد کا جو فتنہ تمام تر سر زمینِ عرب میں پھیل گیا تھا وہ ایک جنگی طاقت تھی جسے ختم کرنے کیلئے اس سے زیادہ جنگی طاقت کی ضرورت تھی۔لیکن ابو بکرؓ نے تدبر سے اور جنگی فہم و فراست سے مجاہدینِ اسلام کی قلیل تعداد کو استعمال کیااور تھوڑے سے عرصے میں ارتداد کے فتنے اور اس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیا۔اس کے نتیجے میں ان تمام قبیلوں نے جو ارتداد کی لپیٹ میں آگئے تھے۔اسلام قبول کرلیا۔ابو بکرؓ نے آنے والے مسلمان حکمرانوں ، اُمراء اوروزراء کیلئے یہ سبق ورثے میں چھوڑا کہ ان میں بے لوث جذبہ ہو، اقتدار کی ہوس، اور کوئی ذاتی مفاد نہ ہو تو پوری قوم مجاہدین کا لشکر بن جاتی ہے اور قوم کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو وہ کفر کی چٹانوں کے دل چاک کر دیا کرتی ہے۔یہ سربراہِ سلطنت پر منحصر ہے کہ قوم فتح کامرانی کی رفعتوں تک جاتی ہے یا ذلت و رسوائی کی اندھیری کھائیوں میں۔ارتداد کے علاوہ بھی کہیں بغاوت اورکہیں شورش تھی۔خلیفہ ابو بکرؓ نے ہر سو امن و امان قائم کر دیا تھا۔فتنہ و فساد نہ رہا۔ بغاوت اور شورش نہ رہی تو ابو بکرؓ نے انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو فارس جیسی شہنشاہی کے خلاف اور پھر اسی جیسی دوسری بڑی جنگی طاقت کے خلاف بھیج دیا۔مجاہدین نے کسریٰ کی طاقت کو کچل کر اس کے بے شمار علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا پھر قیصرِ روم کی فوج پر دہشت بن کر چھاگئے اور اس کے کئی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔کسریٰ بھی اور قیصر بھی اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔مسلمانوں نے خلیفہ اولؓ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے، ان دونوں دشمنانِ اسلام کا گھمنڈ توڑ دیا اور اسلامی فوج کو ایک طاقت بنا دیا۔انہی جنگوں میں مجاہدین کو فوج کی صورت میں منظم کیا گیاتھا۔ابو بکرؓ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسلام ایک مذہب کی صورت میں ہی عرب سے عراق اور شام میں نہ پھیلا بلکہ اس سے اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب بھی پھیلی بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ایک نئے کلچر نے جنم لیا جسے لوگوں نے اسلامی کہا اور اسے اپنایا۔اس سے پہلے تو لوگ فارس اور روم کے کلچر کو ہی تہذیب و تمدن سمجھتے تھے اور اسے فوراً قبول کر لیتے تھے-
خلیفہ اولؓجیسے تھک سے گئے تھے،اور پوری طرح سے مطمئن تھے کہ وہ خالق حقیقی کے حضور جا رہے ہیں، اور سرخرو جا رہے ہیں۔اس دور کی تحریروں سے اور مؤرخین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابو بکرؓ کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا۔یہ تھا ان کی جانشینی کا مسئلہ۔ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے اس مسئلہ کا ذکر کیا تھا۔’’میرے اﷲ کے رسول )ﷺ(کو موت نے اتنی مہلت نہیں دی تھی کہ کسی کو خود خلیفہ مقرر کرتے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا تھا۔’’اور سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین اور انصار کے درمیان اختلاف پر فتنہ و فساد پیدا ہو گیا تھا۔یہ تو اﷲ کو منظور نہ تھا کہ اس کے رسول)ﷺ( کی امت جس کی تعداد ابھی بہت تھوڑی ہے، آپس میں لڑ کر ختم ہو جائے۔اﷲنے امت کا اتحاد میرے ہاتھ پر قائم رکھا۔خدا کی قسم!میں رسول)ﷺ( کی امت کو اس فساد میں نہیں ڈال کر مروں گا کہ میرے بعد خلیفہ کون ہو۔ میں خود خلیفہ مقرر کرکے جان اﷲکے سپرد کروں گا۔‘‘عظیم تھے خلیفہ اولؓ کہ انہوں نے یہ بات سوچ لی تھی۔اس دور کے تھوڑا عرصہ بعد کے وقائع نگار اور مبصر لکھتے ہیں کہ خلیفہ اولؓ نے سوچ لیا تھا کہ قبیلوں یا طبقوں یا افراد میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے تو قوم کا اتحاد پھٹے ہوئے دامن کی مانند ہو جاتا ہے۔فوجوں کی پیش قدمی پسپائی میں بدل جاتی ہے، پیچھے ہٹتا ہوا دشمن آگے بڑھنے لگتا ہے۔ پھر فوج بھی اقتدار کی جنگ کا ہتھیار بن جاتی ہے اور سالار سلطانی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔مسلمانوں کا وہ دور فتوحات سے مالامال ہو رہا تھا۔درخشاں روایات جنم لے رہی تھیں اور یہی تاریخِ اسلام کی بنیاد بن گئی تھیں۔ابو بکرؓ کی دوربیں نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ قیصرو کسریٰ جو پسپائی اور زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور نیست و نابود ہوجانے تک پہنچ گئے ہیں۔وہ مسلمانوں کے نفاق سے فائدہ اٹھائیں گے، اور عفریت بن کر اسلام کو نگل جائیں گے۔’’کیا عمرکو لوگ قبول کرلیں گے؟‘‘ابو بکرؓ نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا۔’’شاید نہ کریں……عمر کا مزاج بہت سخت ہے……اپنے احباب سے مشورہ لے لیتا ہوں۔‘‘ابو بکرؓ نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو بلایا اور تنہائی میں بٹھایا۔’’ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کیا تو مجھے سچے دل سے بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟تو اسے کیسا سمجھتا ہے؟‘‘’’خدا کی قسم خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’جو میں جانتا ہوں، وہ اس سے بہتر نہیں جو تو جانتا ہے۔‘‘’’جو کچھ بھی تو جانتا ہے کہہ دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔’’ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو عمر بن خطاب سے بہتر ہو۔ لیکن اس کی طبیعت میں جو سختی ہے، وہ بھی ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘
’’رائے میری بھی یہی ہے ابنِ عوف!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’تم سب کو عمر کی سختی اس لئے زیادہ محسوس ہو تی ہے کہ میرے مزاج میں بہت نرمی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہو گا کہ اپنے بعد خلافت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ڈال دوں تو اس کی سختی کم ہوجائے؟……ایسے ہی ہوگا۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میں کسی پر سختی کرتا ہوں تو عمر اس کے ساتھ نرمی سے پیش آتا ہے؟اور اگر میں کسی کی غلطی یا کوتاہی پر اپنا رویہ نرم رکھتا ہوں تو عمر اس پر سختی کرتا ہے؟وہ سمجھتا ہے کہ کب سختی اور کب نرمی کی ضرورت ہے۔‘‘’’بے شک !ایسا ہی ہے۔‘‘عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔’’خلیفہ رسول!بے شک ایسا ہی ہے۔‘‘’’اس بات کا خیال رکھنا ابو محمد)عبدالرحمٰنبن عوف(!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میرے تیرے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں وہ کسی تک نہ پہنچیں۔‘‘عبدالرحمٰنؓ بن عوف چلے گئے تو امیرالمومنینؓ نے اپنے ایک اوررفیق اور مشیر عثمانؓ بن عفان کو بلایا۔’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔کیا تو بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟‘‘’’امیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے جواب دیا۔’’خدا کی قسم!ابنِ خطاب کو تو مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے پھر تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے؟‘‘’’اس لئے کہ میں اپنی رائے رسول اﷲ)ﷺ( کی امت پر نہیں ٹھونسنا چاہتا۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں تیری رائے ضرور لوں گا۔‘‘’’امیرالمومنین !‘‘ عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’عمر کا باطن اس کے ظاہر سے اچھا ہے، اور جو علم و دانش اس کے پاس ہے وہ ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘’’ایک اور سوال کا جواب دے دے ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’اگر میں اپنے بعد خلافت عمر کے سپرد کرجاؤں تو تیرا کیا خیال ہے کہ وہ تم سب پر سختی کرے گا؟‘‘’’ابنِ خطاب جو کچھ بھی کرے گا ہم اس کی اطاعت میں فرق نہیں آنے دیں گے۔‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’ابو عبداﷲ!اﷲ تجھ پررحم و کرم کرے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’میں نے جو تجھے کہا اور تو نے جو مجھے کہا۔یہ کسی اور کے کانوں تک نہ پہنچے۔‘‘ابو بکرؓ نے کئی اور صحابہؓ سے عمرؓ کے متعلق رائے لی۔ان میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ابو بکرؓ نے ہر ایک سے کہا تھا کہ وہ کسی اور سے اس گفتگو کا ذکر تک نہ کرے، لیکن یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات کی۔یہ آئندہ خلافت کامعاملہ تھا اور صحابہ کرامؓ کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ ابو بکرؓ عمرؓ کو خلیفہ مقرر کر رہے تھے۔عمرؓ سخت طبیعت کے مالک تھے۔ان کے فیصلے بڑے سخت ہوتے اور وہ بڑی سختی سے ان پر عمل کراتے تھے۔
ان سب نے ایک وفد اس مقصد کیلئے بنایا کہ ابو بکرؓ کو قائل کریں کہ عمرؓ بن خطاب کو خلیفہ مقرر نہ کریں۔جب وفد خلیفہ اولؓ کے پاس گیا تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔بخار نے انہیں اتنا کمزور کر دیا تھا کہ اپنے زور سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔’’امیرالمومنین!‘‘وفد کے قائد نے کہا۔’’خدا کی قسم!عمر خلیفہ نہیں ہو سکتا۔اگر تو نے اس کو خلیفہ مقرر کر دیاتو اﷲکی باز پرس کا تیرے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔عمر تیری خلافت میں سب پر رعب اور غصہ جھاڑتا ہے وہ خود خلیفہ بن گیا تو اس کا رویہ ظالموں جیساہو جائے گا۔‘‘ابو بکرؓ کو غصہ آگیا۔انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکے۔’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ انہوں نے غصیلی آواز میں کہا۔انہیں سہارا دے کر بٹھادیا گیا۔’’کیا تم سب مجھے اﷲکی باز پرس سے اور اس کے غضب سے ڈرانے آئے ہو؟‘‘ ابو بکرؓ نے غصے اور نقاہت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’میں اﷲکے حضور جا کرکہوں گا کہ میرے رب! میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین بندے کو خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے، اور میں نے جو کہا ہے وہ تمام لوگوں کو سنا دو۔میں نے عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘وہ جو سب ابو بکرؓ کو ان کے فیصلے کے خلاف قائل کرنے آئے تھے خاموش ہو گئے،اور شرمسار بھی ہوئے کہ انہوں نے امیرالمومنینؓ کو بیماری کی حالت میں پریشان کیا ہے۔وہ سب اٹھ کر چلے گئے۔ اس سے اگلے روز ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان کو بلایا، عثمانؓ خلیفہ کے کاتب تھے۔ ’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔’’لکھ جو میں بولتا ہوں۔‘‘ انہوں نے لکھوایا۔ ’’بسم اﷲالرحمٰن الرحیم۔ یہ وصیت ہے جو ابو بکر بن ابو قحافہ نے اس وقت لکھوائی ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہوکر موت کے بعد کی زندگی میں داخل ہو رہا تھا۔ایسے وقت پکا کافر بھی ایمان لے آتا ہے، اور جس نے کبھی سچ نہ بولا ہو، وہ بھی سچ بولنے لگتا ہے۔میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے، میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔اگر عمر نے تم پر زیادتی کی اور عدل و انصاف نہ کیا تو وہ ہر انسان کی طرح اﷲکے حضور جواب دہ ہو گا۔مجھے امید ہے کہ عمر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا۔میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں تمہاری بھلائی اور بڑائی کے سوا اور کچھ نہیں سوچا۔‘‘وصیت لکھواتے لکھواتے ابو بکرؓ پر غشی طاری ہو گئی تھی، انہوں نے یہاں تک لکھوایا ۔’’ میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو……‘‘اور وہ غشی میں چلے گئے۔عثمانؓ بن عفان نے خود یہ فقرہ مکمل لکھ دیا ۔’’ تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے۔ میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔‘‘
ابو بکرؓ ہوش میں آگئے-
’’ابو عبداﷲ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’پڑھ جو میں نے لکھوایا ہے۔‘‘ عثمانؓ بن عفان نے پڑھ کر سنایا۔’’اﷲاکبر!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’خدا کی قسم! تم نے جو سوچ کرلکھا ہے وہ سوچ غلط نہیں تھی۔تو نے یہ سوچ کر عبارت پوری کردی، کہ میں غشی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا تو نا مکمل وصیت خلافت کیلئے جھگڑے کا باعث بن جائے گی۔‘‘’’بے شک امیرالمومنین!‘‘عثمانؓ بن عفان نے کہا۔’’میں نے یہی سوچ کر عبارت مکمل کرلی تھی۔‘‘’’اﷲتجھے اس کی جزا دے۔‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’انہوں نے عثمانؓ بن عفان کے الفاظ نہ بدلے اور وصیت مکمل لکھوادی۔’’مجھے اٹھا کر مسجد کے دروازے تک لے چلو۔‘‘ امیرالمومنینؓ نے کہا۔ان کے مکان کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ وہ دروازہ کھولا گیا، نماز کا وقت تھا، بہت سے لوگ مسجد میں آچکے تھے۔ ابو بکرؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس دونوں ہاتھوں سے سہارا دے کر مسجد والے دروازے تک لے گئیں۔ نمازیوں نے انہیں دیکھاتو متوجہ ہوئے۔’’میرے بھائیو!‘‘ابو بکرؓ نے نقاہت کے باوجود بلند آواز سے بولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔’’کیا تم اس شخص پر راضی ہو گے جسے میں خلیفہ مقررکروں؟ میں نے اس میں تمہاری بھلائی سوچی ہے اور اپنے کسی رشتے دار کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ میرے بعد عمر بن خطاب خلیفہ ہوگا۔ کیا تم سب اس کی اطاعت کرو گے؟‘‘’’ہاں امیرالمومنین!‘‘بہت سی آوازیں سنائی دیں۔’’ ہم اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔ہم ابنِ خطاب کی اطاعت قبول کریں گے۔‘‘اس کے بعد ابو بکرؓ نے وصیت پر اپنی مہر ثبت کردی۔ابو بکرؓ کا پیشہ تجارت تھا لیکن خلافت کابوجھ کندھوں پر آپڑا تو تجارت کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ گزر اوقات تو کرنی ہی تھی، انہوں نے اپنے کنبے کیلئے بیت المال سے کچھ الاؤنس منظور کرا لیا تھا، اب جب انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے، تو انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا، کہ ان کی جو تھوڑی سی زمین ہے وہ ان کی وفات کے بعد بیچ کر یہ تمام رقم جو وہ گزارے کیلئے بیت المال سے لیتے رہے ہیں، بیت المال میں جمع کرادیں۔’’سب میرے قریب آجاؤ!‘‘ ابو بکرؓ نے آخری وقت اہلِ خانہ کو بٹھا کر کہا۔’’ مجھے صرف دو کپڑوں کا کفن پہنا کر دفن کرنا، تم دیکھتے رہے ہو کہ میں ایک ہی کپڑا پہنا کرتا تھا، اس کے ساتھ ایک کپڑا اور ملالینا، ان کپڑوں کو پہلے دھو لینا۔‘‘’’ہم تین نئے کپڑے لے سکتے ہیں۔‘‘عائشہؓ نے کہا۔’’کفن تین کپڑوں کا ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں عزیز بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’کفن تو اس لئے ہوتا ہے، کہ جسم سے کوئی مواد اور نمی نکلے تو اسے کفن چوس لے۔کفن پرانے کپڑوں کا ہوا تو کیا؟نئے کپڑے پہننے کا حق زندہ لوگوں کا ہے۔مجھے غسل اسماء بنت عمیس )زوجہ(دے گی، اگر اکیلے غسل نہ دے سکے تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے لے۔‘‘
اتنے میں اندر اطلاع دی گئی کہ عراق کے محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ آئے ہیں۔ گھر کے کسی فرد نے کہا کہ امیرالمومنینؓ اس وقت بات کرنے کے قابل نہیں۔امیرالمومنینؓ نے قدرے درشت لہجے میں کہا۔’’اسے آنے دو۔وہ بہت دور سے آیا ہے۔جب تک میرا سانس چل رہا ہے، میں اپنے فرائض سے کوتاہی نہیں کر سکتا۔‘‘مثنیٰ کو اندر بلا لیا گیا۔انہوں نے جب ابو بکرؓ کی حالت دیکھی تو پشیمان ہو گئے، اور بات کرنے سے جھجکنے لگے۔’’مجھے گناہگار نہ کر ابنِ حارثہ!‘‘ابو بکرؓ نے کہا۔’’ہو سکتا ہے تو مدد لینے آیا ہو۔میں اگر تیرے لیے کچھ نہ کر سکا تو اﷲکی باز پرس پر کیا جواب دوں گا؟‘‘’’یا امیرالمومنین!‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’محاذ ہمارے قابو میں ہے۔حالات ہمارے حق میں ہیں لیکن تعداد کی کمی پریشان کرتی ہے۔مسلمان اب اتنے نہیں رہے کہ انہیں فوج میں شامل کرکے محاذوں پر بھیجا جائے۔جو جہاد کے قابل تھے وہ پہلے ہی محاذوں پر ہیں۔امیرالمومنین کے حکم سے ان لوگوں کو مجاہدین کی صفوں میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا جو مرتد ہو گئے تھے۔میں یہ درخواست لے کر آیا ہوں کہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو سچے دل سے اسلام قبول کر چکے ہیں اور محاذوں پر جانا چاہتے ہیں۔کیا امیرالمومنین انہیں فوج میں شامل ہونے کی اجازت دیں گے؟‘‘’’ابنِ خطاب کو بلاؤ۔‘‘امیرالمومنینؓ نے کہا۔عمرؓ دور نہیں تھے،جلدی آگئے۔’’ابنِ خطاب!‘‘امیرالمومنینؓ نے عمرؓ سے کہا۔’’ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر روانہ کر……اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو اس کام میں رکاوٹ نہ ہو۔‘‘عربوں میں رواج تھا کہ باتیں شاعرانہ الفاظ اور انداز سے کیا کرتے تھے۔خلیفہ اول ابو بکرؓ کی نزع کے وقت کی چند باتیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ان کی بیٹی عائشہؓ ان کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔انہوں نے باپ کو نزع کے عالم میں دیکھ کر اس وقت کے ایک شاعر حاتم کا ایک شعر پڑھا:’’نزع کا عالم طاری ہوتا ہے، سانس نہ آنے سے سینہ گھٹنے لگتا ہے، تو دولت انسان کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔‘‘’’نہیں بیٹی!‘‘ابو بکرؓ نے نحیف آواز میں کہا۔’’ہمیں دولت سے کیا کام؟اس شعر کے بجائے تو نے قرآن کی یہ آیت کیوں نہ پڑھی……تجھ پر نزع کا عالم طاری ہو گیا ہے ۔یہی ہے وہ وقت جس سے تو ڈرا کرتا تھا۔‘‘ابو بکرؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو انہیں آخری ہچکی آئی۔انہوں نے سرگوشی میں یہ دعا کی۔’’یا اﷲ!مجھے مسلمان کی حیثیت میں دنیا سے اٹھانا اور بعد از مرگ مجھے صالحین میں شامل کرنا۔‘‘یہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کے آخری الفاظ تھے۔دن سوموار تھا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء )بمطابق ۲۱جمادی الآخر ۱۳ ہجری(تھی۔
اسی رات دفن کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ابو بکرؓ کی وصیت کے مطابق ان کی زوجہ اسماء بنتِ عمیس نے غسل دیا۔میت پر پانی ان کے بیٹے عبدالرحمٰن ڈالتے جاتے اور عبدالرحمٰن کی والدہ غسل دیتی جاتی تھیں۔غسل کے بعد وہ چارپائی لائی گئی جس پر رسولِ کریمﷺ کا جسدِ مبارک قبر تک پہنچایا گیا تھا۔
اس چارپائی پر خلیفہ رسول کا جنازہ اٹھا،اور جنازہ مسجدِ نبوی میں رسول اﷲﷺکے مزار اور منبر کے درمیان رکھا گیا۔نمازِ جنازہ کی امامت عمرؓ نے کی۔مدینہ کی وہ رات سوگوار تھی۔گلیوں میں ہچکیاں اور سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔رات بھی رو رہی تھی،وہ عٖظیم ہستی اس دنیا سے اٹھ گئی تھی جس نے اسلامی سلطنت کی نہ صرف بنیادیں مضبوط بنائی تھیں۔بلکہ ان پر مضبوط عمارت کھڑی کر دی تھی۔ابو بکرؓ کو رسولِ کریمﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔قبر اس طرح کھودی گئی کہ ابو بکرؓ کا سر رسولِ کریمﷺ کے کندھوں کے ساتھ تھا۔اس طرح رسولِ کریمﷺ اور خلیفہ رسول کی وہ رفاقت جو انہوں نے زندگی میں قائم رکھی تھی ، وفات کے بعد بھی قائم رہی۔ابو بکرؓ سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔اب خلیفۃ المسلمین عمر فاروقؓ تھے۔انہوں نے اپنی خلافت کے پہلے روز ہی جو پہلا حکم نامہ جاری کیا وہ خالدؓ کی معزولی کا تھا۔انہوں نے تحریری حکم نامہ ابو عبیدہؓ کے نام قاصد کے ہاتھ بھیج دیا۔خالدؓ اب سالارِ ااعلیٰ نہیں بلکہ نائب بنا دیئے گئے تھے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ کسی مفتوحہ علاقے کے امیر نہیں بن سکتے تھے۔مدینہ میں عمرؓ نے اپنی خلافت کے دوسرے دن مسجد نبوی میں نماز کی امامت کی اور خلیفہ کی حیثیت سے پہلا خطبہ دیا۔انہوں نے سب سے پہلے یہ بات کہی:’’قوم اس اونٹ کی مانند ہے جو اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔اسے جہاں بٹھا دیا جاتا ہے وہ اسی جگہ بیٹھا اپنے مالک کا انتظار کرتا رہتا ہے۔رب کعبہ کی قسم!میں تمہیں صراطِ مستقیم پر چلاؤں گا۔‘‘انہوں نے خطبے میں اور بھی بہت کچھ کہااور آخر میں کہا۔’’میں نے خالد بن ولید کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا ہے، اور ابو عبیدہ اس فوج کے سالارِ اعلیٰ اور شام کے مفتوحہ علاقوں کے امیر ہیں۔‘‘مسجد میں جتنے مسلمان موجود تھے ان کے چہروں کے رنگ بدل گئے۔بعض کے چہروں پر حیرت اور بعض کے چہروں پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا، وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔خالدؓ کی فتوحات تھوڑی اور معمولی نہیں تھیں۔ابو بکرؓ ان کی ہر فتح اور ہر کارنامہ مسجد میں بیان کیا کرتے تھے اور یہ خبر تمام تر عرب میں پھیل جاتی تھی۔خالدؓ کی زیادہ تر فتوحات معجزہ نما تھیں،اس طرح خالدؓ سب کیلئے قابلِ احترام شخصیت بن گئے تھے مگر عمرؓ نے خلیفہ بنتے ہی خالدؓ کو معزول کر دیا۔ہر کوئی عمرؓ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ خالدؓ نے کیا جرم کیا ہے جس کی اسے اتنی سخت سزا دی گئی ہے؟ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پوچھے بغیر عمرؓ کے فیصلے کی مخالفت کرناچاہتے تھے لیکن کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ عمرؓ سے باز پرس کرتا۔سب جانتے تھے کہ عمرؓ ابو بکرؓ جیسے نرم مزاج نہیں،اور ان کی طبیعت میں اتنی درشتی ہے جو بعض اوقات برداشت سے باہر ہو جاتی ہے-
(جاری ھے)
جزاکم اللہ خیرا

شمشیرِ بے نیام، حضرت خال بد ولید رضی اللہ عنہ


شمشیرِ بے نیام، حضرت خال بد ولید رضی اللہ عنہ 
( قسط نمبر79
)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اے اسلام کے عظیم سالار!‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’یہ اس راستے پر نہیں جا رہے جس راستے پر قلعے آتے ہیں۔میں ان قلعوں سے واقف ہوں……بعلبل، حمص اور طرابلس……یہ قافلہ انطاکیہ جا رہا ہے ، میں جانتا ہوں قافلے کے ساتھ سالار توما ہے۔وہ اپنی فوج اور شہریوں کو انطاکیہ لے جارہا ہے جہاں اس کا سسر شہنشاہ ہرقل رہ رہا ہے۔میں تمام علاقے سے واقف ہوں۔انطاکیہ تک پہنچنے کیلئے تین سے بہت زیادہ دن سفر کرنا پڑتا ہے۔میں آپ کو ایسی طرف سے لے جاسکتا ہوں جو کوئی راستہ نہیں۔آپ کے گھوڑ سوار تیز ہوں تو میں چوتھے دن کی صبح تک انہیں قافلے
تک پہنچا سکتاہوں۔‘‘خالدؓنے یہ سنا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔یہی تو وہ چاہتے تھے۔ان کاارادہ یہ تھا کہ مجاہدین کو مالِ غنیمت ضرور دلائیں گے۔ انہیں دمشق والوں پر غصہ تھا جو دمشق سے اپنے مال و متاع لے کر چلے گئے تھے۔’’میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔‘‘یونس ابنِ مرقس نے کہا۔’’میں آپ سے کچھ نہیں لوں گا۔مجھے صرف میری بیوی دلا دینا۔‘‘چوتھے دن کی صبح طلوع ہوئی تو توما کا قافلہ انطاکیہ سے ابھی بہت دور تھا۔توما کو شکست کا افسوس تو تھا ہی لیکن وہ خوش تھا کہ اس کی چال کامیاب رہی تھی اور وہ دمشق کے لوگوں کو قیمتی اشیاء سمیت اپنے ساتھ لے جا رہاتھا۔اس روز قافلہ ایک پہاڑی سلسلے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا اور کچھ دیر میں چلنے کو تھا، اچانک کسی طرف سے ہزاروں گھوڑ سوار آندھی کی طرح آئے اور رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔اس سے ذرا ہی پہلے رومیوں پر ایک اور قہر ٹوٹا تھا،یہ بڑی تیز بارش تھی۔گھٹائیں پھٹ پڑی تھیں۔اس رومی قافلے کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔یہ بارش آسمانی آفت تھی اور اس آفت میں رومی فوج اور دمشق کے باشندوں پر ایک اور آفت ہزاروں گھوڑ سواروں کی شکل میں ٹوٹی۔اس وقت تک قافلے والے اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔وہ اپنے سامان کو گھسیٹتے پھر رہے تھے۔زربفت کی تین سو سے زائد گانٹھیں جو بڑے بڑے بنڈلوں کی مانند تھیں، ہر طرف بکھری پڑی تھیں، بعض گانٹھیں کھل گئیں اور کپڑا کھل کر بکھر گیا تھا۔زربفت کا کپڑا اتنا زیادہ بکھرا کہ اس جگہ کا نام ’’مرج الدیباج‘‘یعنی ریشم کا خیابان پڑ گیا۔یہاں جو معرکہ لڑا گیا اسے تمام مؤرخوں نے معرکہ مرج الدیباج لکھا ہے۔یہ گھوڑ سوار جنہوں نے رومیوں اور دمشق والوں کے قافلے پر حملہ کیا تھا۔ان کی تعداد ایک ہزار تھی، اور یہ خالدؓ کے بھیجے ہوئے سوار تھے۔اس حملے کی تفصیلات یوں ہیں کہ یونس ابنِ مرقس نے جب خالدؓکو بتایا کہ وہ انہیں ایک چھوٹے راستے سے رومیوں تک پہنچا سکتا ہے تو خالدؓ کو روشنی نظر آئی۔یونس ابنِ مرقس خالدؓ کو اس لئے تعاقب اور حملے کیلئے اُکسا رہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو پکڑ کر اپنے ساتھ لانا چاہتا تھا لیکن خالدؓ کچھ اور سوچ رہے تھے۔انہوں نے اپنی فوج کی مایوسی دیکھی تھی۔دشمن مالِ غنیمت اپنے ساتھ لے جارہا تھا۔
خالدؓ پر پابندی یہ عائد ہو گئی تھی کہ رومیوں کو تین دنوں کی مہلت دی گئی تھی۔اس دوران مسلمان ان پر حملہ نہیں کر سکتے تھے۔تین دنوں میں رومیوں کو کسی نہ کسی پناہ میں پہنچ جانا تھا لیکن یونس ابنِ مرقس کہتا تھا کہ قافلہ انطاکیہ جا رہا ہے اور یونس اسے راستے میں پکڑوا سکتا ہے۔خالدؓ کو غصہ اور تاسف پریشان کر رہا تھا۔دشمن مع مالِ غنیمت کے ابو عبیدہؓ کی غلطی یا غلط فہمی سے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔یونس کی یقین دہانی پر خالدؓ نے حملے کا پلان تیارکر لیا۔اس پلان کے مطابق خالدؓ نے وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے گھوم پھر کرلڑنے کیلئے تیار کیا تھا، اسے طلیعہ کہتے ہیں،یہ چار ہزار منتخب سواروں کا دستہ تھا۔یہ سب شہسوار او رجانباز تھے۔اس دستے کا گائیڈ یونس ابنِ مرقس تھا۔وہ خوش تھا کہ خالدؓ اسے اس کی بیوی دلانے کیلئے اتنا بڑا جنگی اہتمام کر رہے ہیں لیکن خالدؓ کے سامنے کچھ اور مسئلہ تھا جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔خالدؓ نے اس دستے کو چار حصوں میں تقسیم کیا، اور روانہ ہو گئے۔ان کی رفتار بہت تیز تھی۔خالدؓ نے ہر حصے کے سالار کو اور سواروں کو بھی بتا دیا تھا کہ جس قافلے پر حملہ کرنے جا رہے ہیں اسے صرف قافلہ نہ سمجھیں۔ وہ سب مسلح ہیں ان کے پاس گھوڑے بھی ہیں، اور وہ رومی ہیں جو جان کی بازی لگا کر لڑنا جانتے ہیں اور وہ پسپا ہوتے ہیں تو منظم طریقے سے پیچھے ہٹتے ہیں، بھاگتے نہیں۔چوتھے دن رومی فوج اور دمشق کے باشندوں کا یہ قافلہ انطاکیہ سے ابھی کچھ دور تھا کہ موسلا دھار بارش نے اسے بکھیر دیا،جوں ہی بارش ختم ہوئی ، ایک ہزار گھوڑ سواروں نے ان پر حملہ کر دیا۔رومی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سواروں کے آگے آگے ضرار بن الازور تھے جنہوں نے حسبِ معمول سر پر خود بھی نہیں رکھی تھی اور قمیض بھی اتاری ہوئی تھی اور وہ کمر تک برہنہ تھے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار توما اور ہربیس پہلے تو اس پر حیران ہوئے کہ مسلمان کدھر سے آنکلے ہیں، انہیں معلوم نہیں تھا کہ انہیں دمشق کا ہی ایک گائیڈ مل گیاتھا جو انہیں ایک چھوٹے راستے سے لے گیا تھا۔’’ہربیس!‘‘توما نے کہا۔’’سب کو مقابلے کیلئے تیار کرو۔ مسلمانوں نے ہمیں تین دن کی ضمانت دی تھی، یہ تین دن ختم ہو گئے ہیں۔‘‘’’جم کرمقابلہ کرو۔‘‘ہربیس نے للکار کر کہا۔’’یہ بہت تھوڑے ہیں کاٹ دو انہیں۔‘‘
رومی فوج حملہ روکنے کی ترتیب میں ہو گئی۔دمشق کے جو شہری لڑ سکتے تھے وہ بھی مسلمانوں کے مقابلے میں آگئے۔رومی سپاہی اور اہلِ دمشق بارش سے بھیگے ہوئے تھے اور ان کا سامان بکھرا ہوا تھا، انہوں نے اپنی عورتوں کو بچوں کو پیچھے کر دیا اور ان کے ڈیڑھ دو سو آدمی
تلواریں اور برچھیاں لے کر عورتوں اور بچوں کی حفاظت کیلئے کھڑے ہوگئے۔رومی للکار کر اور نعرے لگالگا کر لڑ رہے تھے۔ضرار جو برہنہ جنگجو کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔اپنی روایت کے مطابق لڑ رہے تھے۔بلکہ جو سامنے آیا اسے کاٹتے جا رہے تھے،لیکن رومی جس بے جگری سے لڑ رہے تھے اس سے یہی نظر آرہا تھا کہ وہ مسلمان سواروں کا صفایا کردیں گے۔تقریباً نصف گھنٹہ گزرا ہو گا کہ ایک طرف سے خالدؓ کے دستے کے ایک ہزار مزید سوار گھوڑے سرپٹ دوڑاتے آرہے تھے۔ان کے سالار رافع تھے۔رومی سالار نے دیکھا تو انہوں نے اپنی ترتیب بدل ڈالی، اور چلا چلا کر کہنے لگے، کہ وہ ان سواروں کو بھی ختم کردیں گے۔ان کے لڑنے کا انداز ایسا ہی تھا کہ وہ اپنے دعوے کو صحیح ثابت کر سکتے تھے، معرکہ اور زیادہ خونریز ہو گیا۔نصف گھنٹہ اور گزرا ہو گا کہ مزید ایک ہزار سوار شمال کی جانب سے آئے۔ان کے سالار خلیفۃ المسلمینؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن تھے۔اب رومیوں کے حوصلے مجروح ہونے لگے۔یہ ایک ہزار سوار جدھر سے آئے تھے یہ رومیوں کی پسپائی کا راستہ تھا۔اُدھر انطاکیہ تھا۔مسلمانوں نے یہ راستہ روک لیا تھا۔اب تین ہزار مسلمان سوار رومیوں پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے لیکن رومی اور اہلِ دمشق پہلے سے زیادہ شدت سے لڑنے لگے۔یہ معرکہ ان کیلئے زندگی اور موت کامعرکہ بن گیا تھا۔ ان کا بڑا ہی قیمتی مال و متاع، ان کے بچے اور بڑی خوبصوت اور جوان بیٹیاں بہنیں اور بیویاں ان کے ساتھ تھیں۔ وہ بھاگ نہیں سکتے تھے ۔ان کے لڑنے میں شدت پیدا ہو گئی۔تقریباً ایک گھنٹے تک رومیوں نے مسلمانوں کا ناک میں دم کیے رکھا۔ ان کا سالار توما جس کی آنکھ میں تیر اترا ہوا تھا، سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔اچانک ایک ہزار مزید گھوڑ سوار ایک اور سمت سے آئے ۔ان کا سالار تلوار بلند کیے نعرے لگا رہا تھا:اَنا فارس الضدیداَنا خالد بن ولیدرومی اس نعرے سے بخبوبی واقف تھے۔ ان ایک ہزار سواروں کے قائد خالدؓ خود تھے۔یہ تھا خالدؓکا پلان۔ وہ ایک ایک ہزار سوار بھیجتے رہے اور آخر میں خود ایک ہزار سواروں کے ساتھ آئے۔خالدؓ توما اور ہربیس کو ڈھونڈ رہے تھے۔’’کہاں ہے ایک آنکھ والا رومی؟‘‘خالدؓ للکار رہے تھے۔’’کہاں ہے وہ جس کی ایک آنکھ میں مومن کا تیر اترا ہوا ہے۔
رومی سالاروں کی تلاش میں خالدؓ دشمن کے دور اندر چلے گئے۔وہ اکیلے تھے۔ان کے محافظوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں۔’’ابنِ ابی بکر!‘‘خالدؓ کا ایک محافظ سالار عبدالرحمٰن کو دیکھ کر ان تک پہنچا اور لڑائی کے شوروغل میں چلا کر بولا۔’’سالارِ اعلیٰ کا کچھ پتا نہیں۔اکیلے آگے چلے گئے ہیں۔‘‘’’نہیں، نہیں!‘‘عبدالرحمٰن نے گھبرا کر کہا۔’’ابنِ ولید لا پتا نہیں ہو سکتا۔اﷲکی تلوار گرنہیں سکتی۔‘‘عبدالرحمٰن نے کچھ سواروں کو ساتھ لیا، بے طرح اور بے خطر اس طرف گئے جدھر خالدؓ چلے گئے تھے۔لڑائی ایسی تھی جیسے سوار گتھم گتھا ہو گئے ہوں۔عبدالرحمٰن ان میں راستہ بناتے خالدؓ کو ڈھونڈنے لگے۔دیکھا کہ خالدؓدشمن کے قلب میں پہنچے ہوئے تھے اور وہ توما کو اور دوسرے رومی سالار ہربیس کو ہلاک کر چکے تھے،اور اب رومیوں کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ رومی زیادہ تھے۔یہ خالدؓ تھے جو ابھی تک ہر وار بچا رہے تھے۔رومیوں کے ہاتھوں ان کی شہادت یقینی تھی۔عبدالرحمٰن اپنے سواروں کے ساتھ پہنچ گئے اور رومیوں پر ایسا زور دار حملہ کیا کہ ان میں سے کئی ایک کو ہلاک کر دیا اور خالدؓ کو وہاں سے زندہ نکال لائے۔اس معرکے کی صورت ایسی بن گئی تھی کہ کوئی ترتیب نہیں رہی تھی۔یہ کھلی لڑائی تھی جو لڑنے والے اپنے اپنے انداز سے انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔مسلمان سواروں کی کمزوری یہ تھی کہ ان کی تعداد کم تھی اس لیے وہ رومیوں اور اہلِ دمشق کی اتنی زیادہ نفری کو گھیرے میں نہیں لے سکتے تھے۔اس سے یہ ہوا کہ رومی اپنے سالاروں کی ہلاکت کے بعد ایک ایک دو دو معرکے میں سے نکلنے لگے۔وہ علاقہ پہاڑی تھا اور کھڈ نالے بھی تھے۔رومی وہیں کہیں غائب ہوتے گئے، اور انطاکیہ کی طرف نکل گئے۔اس طرح معرکہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔خالدؓ کے حکم سے عورتوں کو گھیرے میں لے لیا گیا، کچھ عورتیں بھاگ گئی تھیں۔عورتوں کے ساتھ کئی آدمیوں کو بھی قیدی بنا لیا گیا۔اس قافلے کے ساتھ جو مال اموال، خزانہ اور دیگر قیمتی سامان جا رہا تھا، وہ سب وہیں رہ گیا۔یہ مجاہدین کا مالِ غنیمت تھا۔وہاں ایک حادثہ یوں ہوا کہ یونس ابن مرقس اپنی بیوی کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔ وہ اسے نظر آگئی۔وہ اس کی طرف دوڑا۔لڑکی بھاگ نکلی لیکن وہ کہیں جانہیں سکتی تھی کیونکہ سب عورتیں مسلمان سواروں کے گھیرے میں تھیں۔لڑکی نے جب دیکھا کہ کوئی راہِ فرار نہیں اور یونس جومسلمان ہو چکا تھا، اسے پکڑ لے گا۔تو اس نے اپنے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالا اور خنجر نکال لیا۔یونس کے پہنچنے تک لڑکی نے خنجر اپنے سینے میں گھونپ لیا، وہ گری اور یونس اسے اٹھانے لگا۔
جا ابنِ مرقس!‘‘لڑکی نے کہا۔’’میرا خاوند مسلمان نہیں ہو سکتا۔‘‘اور وہ مر گئی۔یونس ابنِ مرقس دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔اس لڑکی کی خاطر اس نے دمشق مسلمانوں کو دلوایا تھاپھر یہ خونریز معرکہ لڑایا تھامگر لڑکی نے اپناخون بہا کر اس کی محبت کا خون کر دیا۔مسلمان سواروں نے اپنے شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھایا، مالِ غنیمت رومیوں کی گھوڑا گاڑیوں پر لادا، عورتوں اور بچوں کو مرے ہوئے رومیوں کے گھوڑوں پر بٹھایا اور دمشق کو چل پڑے۔یہ اگلی صبح تھی۔جب مالِ غنیمت وغیرہ اکٹھا کیا جا رہا تھا اس وقت خالدؓ عورتوں کے قریب جا کر احکام دے رہے تھے، انہیں یونس ابن مرقس اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔اس سے پوچھا کہ اسے اپنی بیوی ملی ہے یا نہیں؟’’مل گئی ہے۔‘‘یونس نے روتے ہوئے جواب دیا۔’’لیکن زندہ نہیں۔اس نے اپنے خنجر سے اپنے آپ کو مار دیا ہے۔‘‘’’غم نہ کر ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو اس سے زیادہ قیمتی انعام کا حقدار ہے۔ آ، میں تجھے اس سے زیادہ خوبصورت بیوی دوں گا۔‘‘خالدؓ نے اسے ایک رومی عورت دِکھائی جو جوان تھی اور جس کا حسن لا جواب تھا،اس کا لباس ریشم کا تھا اور اس کے گلے میں بڑا ہی قیمتی ہار تھا۔’’یہ تیرا مالِ غنیمت ہے۔‘‘خالدؓ نے اسے حسن کا یہ پیکردکھا کر کہا۔’’میں اس کے ساتھ تیری شادی کرادوں گا۔‘‘’’نہیں سالارِ محترم!‘‘یونس ابنِ مرقس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔’’میں اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا،آپ شاید نہیں جانتے۔یہ شہنشاہِ ہرقل کی بیٹی ہے۔یہ ان کے سالار توما کی بیوی تھی۔‘‘’’اب یہ کسی شہنشاہ کی بیٹی نہیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’اب یہ تیری بیوی ہو گی۔‘‘’’یہ مجھے واپس کرنی پڑے گی۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’ہرقل اپنی بیٹی کو واپس لینے کیلئے اپنی تمام تر سلطنت کی فوج اکٹھی کرکے دمشق پر حملہ کردے گا۔ایسا نہیں کرے گا تو فدیہ ادا کرکے اسے آپ سے واپس لے لے گا۔‘‘خالدؓ خاموش ہو گئے۔اگلی صبح خالدؓ واپس روانہ ہوئے۔وہ بہت خوش تھے۔انہوں نے معاہدہ نہیں توڑا تھااور اپنا مقصد بھی پورا کر لیا تھا۔دمشق تک جانے والا راستہ آدھا طے ہوا تھا کہ انطاکیہ کی طرف سے بارہ چودہ گھوڑ سوار آئے۔وہ رومی تھے۔ ان میں ایک اونچی حیثیت کا معلوم ہوتا تھا۔وہ خالدؓ سے ملنا چاہتا تھا، اسے خالدؓ تک پہنچا دیا گیا۔’’میں شہنشاہِ ہرقل کا ایلچی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔’’اور یہ میرے محافظ ہیں، میں امن سے آیا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ سے بھی مجھے امن اور دوستی ملے گی۔‘‘’’کیا پیغام لائے ہو؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔
’’شہنشاہِ ہرقل کو اطلاع مل گئی ہے کہ آپ نے ہماری فوج اور دمشق سے ہجرت کرنے والوں پر حملہ کیا ہے۔‘‘ہرقل کے ایلچی نے کہا۔’’شہنشاہ نےآپ کے حملے کے متعلق کچھ نہیں کہا۔انہوں نے اپنی بیٹی واپس مانگی ہے،اور کہا ہے کہ آپ جس قدر فدیہ طلب کریں گے ، ادا کیا جائے گا۔شہنشاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ فیاض اور کشادہ ظرف ہیں۔اگر آپ فدیہ نہ لینا چاہیں تو میری بیٹی مجھے بخش دیں۔‘‘ہرقل نے خالدؓ کو فیاض اور کشادہ ظرف کہہ کر ان کی خوشامد نہیں کی تھی۔وہی خالدؓ جو میدانِ جنگ میں دشمن کیلئے قہر تھے ، میدان کے باہر اتنے ہی حلیم اور فیاض تھے۔’’اگر تمہارے شہنشاہ نے بخشش مانگی ہے تو اس کی بیٹی کو بخشش کے طور پر لے جاؤ۔‘‘خالدؓ نے ایلچی سے کہااور رکابوں پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے حکم دیا۔’’رومیوں کے شہنشاہ ہرقل کی بیٹی کو اس کے ایلچی کے حوالے کر دو۔خدا کی قسم!میں نے تم سب کی طرف سے اسے بخشش کے طور پر چھوڑ دیا ہے۔ہمیں ہرقل کی سلطنت چاہیے اس کی بیٹی نہیں۔‘‘ہرقل کی بیٹی اس کے سفیر کے ساتھ چلی گئی۔یونس ابن مرقس نے ٹھیک ہی کہا تھاکہ ہرقل ہر قیمت پر اپنی بیٹی واپس لے گا،یونس کو خالدؓ نے اپنے حصے کے مالِ غنیمت میں سے بے انداز انعام دینا چاہا لیکن اس نے صاف انکار کر دیااور کہاکہ وہ باقی عمر شادی نہیں کرے گا۔بعد میں اس نے اپنی زندگی اسلام اور جہاد کیلئے وقف کر دی تھی لیکن اس کی باقی زندگی صرف دو سال تھی۔وہ جنگِ یرموک میں شہید ہو گیا تھا۔خالدؓ جب مالِ غنیمت کے ساتھ دمشق میں داخل ہوئے تو ان کی فوج نے دیوانہ وار ان کا استقبال کیا۔وہ کامیاب لَوٹے تھے۔خالدؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ امیر المومنینؓ کے نام بڑا لمبا پیغام لکھوایا جس میں انہیں دمشق کی فتح کی خوشخبری سنائی۔یہ بھی لکھا کہ وہ دمشق میں کس طرح داخل ہوئے تھے اور ابو عبیدہؓ نے کیا غلطی کی تھی۔انہوں نے تفصیل سے لکھا کہ وہ کس طرح رومیوں کے پیچھے گئے اور ان کے سالاروں توما اور ہر بیس کو ہلاک کیا پھر ہرقل کی بیٹی کس طرح واپس کی، مالِ غنیمت کے متعلق لکھا کہ اس کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے جلدی بھیج دیا جائے گا۔خالدؓ نے یہ پیغام اکتوبر ۶۳۴ء کی پہلی تاریخ )۲شعبان ۱۳ ھ(کے روز بھیجاتھا۔قاصد روانہ ہو گیا۔کئی گھنٹے گزر گئے تو ابوعبیدہؓ خالدؓ کے خیمے میں آئے۔ابو عبیدہؓ مغموم تھے۔خالدؓ نے پوچھا کہ ان کا چہرہ ملول کیوں ہے؟’’ابنِ ولید!‘‘ابو عبیدہؓ نے بوجھل آواز میں کہا۔’’خلیفہ ابو بکر فوت ہو گئے ہیں، اور اب عمر خلیفہ ہیں۔‘‘خالدؓسُن ہو کر رہ گئے،اور کچھ دیر ابو عبیدہؓ کے منے پر نظریں جمائے رہے۔’’کب فوت ہوئے ہیں؟‘‘خالدؓ نے سرگوشی میں یوں پوچھا جیسے سسکیاں لے رہے ہوں ۔’’۲۲جمادی الآخر کے روز!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔یہ تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء تھی۔حضرت ابو بکرؓ کو فوت ہوئے ایک مہینہ اور آٹھ دن ہو گئے تھے۔

(جاری ھے)
جزاکم اللہ خیرا

شمشیرِ بے نیام، حضرت خال بد ولید رضی اللہ عنہ


شمشیرِ بے نیام، حضرت خال بد ولید رضی اللہ عنہ 
( قسط نمبر78
)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’میں اور میرے دستے پر امن طریقے سے شہر میں داخل ہوئے ہیں۔ دیکھ، شہر کے دروازے کھل گئے ہیں اگر تو میرے فیصلے کو رد کرنا چاہے تو کردے لیکن یہ سوچ کہ میں دشمن کے ہتھیار ڈالنے پر اسے بخشش کا وعدہ دے چکا ہوں۔ اگر یہ وعدہ پورا نہ ہوا، تو رومی کہیں گے کہ مسلمان وعدوں کے کچے ہیں۔اس کی زد اسلام پر بھی پڑے گی۔‘‘خالدؓکی حالت یہ تھی کہ غصے سے ان کے ہونٹ کانپ رہے تھے۔ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ سالارِ اعلیٰ وہ ہوں اور صلح کے معاہدے کوئی اور کرتا پھرے۔ابو عبیدہؓ اپنی بات پر اس طرح اڑے ہوئے تھے کہ انہیں پرواہ ہی نہیں تھی کہ خالدؓ خلیفہؓ کی طرف سے سالارِ اعلیٰ مقرر کیے گئے ہیں۔توما ،اس کا نائب سالار ہربیس ،پادری اور مشیر وغیرہ الگ کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ انہیں اپنی چال کامیاب ہوتی نظر آرہی تھی۔بلکہ چال ضرورت سے زیادہ کامیاب ہو رہی تھی۔ وہ اس طرح کہ مسلمانوں کا سپہ سالار اور اس کا قائم مقام سالار آپس میں لڑنے پر آگئے تھے۔ابو عبیدہؓ کی جگہ کوئی اور سالار ہوتا تو خالدؓ اسے سالاری سے معزول کرکے سپاہی بنا دیتے، یا اسے واپس مدینہ بھیج دیتے لیکن وہ ابو عبیدہؓ تھے۔ جنہیں رسولِ اکرمﷺ نے امین الامت کا خطاب دیا تھا۔انہیں الاثرم بھی کہتے تھے کیونکہ ان کے سامنے کے دانت احد کی جنگ میں شہید ہوئے تھے۔ مشہور مؤرخ ابنِ قتیبہ اور واقدی نے لکھا ہے کہ رسول اﷲﷺکو ابو عبیدہؓ سے خاص محبت تھی۔یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ابو عبیدہؓ دانت والوں سے زیادہ خوبرو لگتے تھے ۔ان کا ذہد و تقویٰ ضرب المثل تھا۔خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ ان کا بہت احترام کرتے تھے اور مجاہدین ان کے اشارے پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔خالدؓ کے دل میں ابو عبیدہؓ کا اتنا احترام تھا کہ میدانِ جنگ میں دونوں کی پہلی ملاقات ہوئی تو خا لدؓگھوڑے پر سوار نہیں تھے۔ ابو عبیدہؓ گھوڑے پر سوار تھے۔خالدؓ چونکہ سالارِ اعلیٰ تھے اس لئے ابوعبیدہؓ نے اتر کر خالدؓ سے ملنا چاہا لیکن خالدؓ نے انہیں روک دیا اور کہا کہ میرے دل میں اپنے احترام کو قائم رکھیں۔وہ ابو عبیدہؓ اب خالدؓ سے پوچھے بغیر دشمن کے متعلق بڑا اہم فیصلہ کر بیٹھے، اور اسے بدلنے پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے۔ابو عبیدہؓ عشرہ مبشرہ میں سے بھی تھے۔ابو عبیدہؓ کی تمام خوبیوں اور اسلامی معاشرے میں ان کی قدرومنزلت کو تسلیم کرتے ہوئے اس دور کے وقائع نگار اور مؤرخ لکھتے ہیں کہ جنگی امور کی جو سوجھ بوجھ خالدؓ میں تھی وہ ابو عبیدہؓ میں نہیں تھی۔وہ باریکیوں کو نہیں سمجھتے تھے۔ البتہ حرب و ضرب میں مہارت رکھتے تھے۔’’میں تجھے امیر مانتا ہوں ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’لیکن یہ سوچ کہ میں اپنے دستوں کے ساتھ پر امن طریقے سے شہر میں لایا گیا ہوں۔‘‘’’ابنِ الجراح!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’آتجھے دکھاؤں کہ میں شہر میں کس طرح داخل ہوا ہوں، اور رات سے اب تک مجھے کیسی لڑائی لڑنی پڑی ہے، ان رومیوں نے دیکھا کہ یہ لڑ نہیں سکتے اور میں شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا تو یہ تیرے پاس جا پہنچے۔میں انہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘’’ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے دبدبے سے کہا۔’’کیا تو اﷲسے نہیں ڈرتا؟میں نے انہیں اپنی پناہ میں لے لیا ہے۔ان سے حفاظت کا وعدہ کر چکا ہوں۔‘‘لیکن خالدؓ ابو عبیدہؓ کی بات ماننے پر آمادہ نہیں تھے۔
’’آہ ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے افسوس کے لہجے میں کہا۔’’میں نے جب ان کی شرطیں سن کر انہیں حفاظت کا وعدہ دیا تھا، اس وقت مجھے گمان تک نہ ہو اتھا کہ تو میرے فیصلے پر اعتراض کرے گا۔میں یہ بھی نہیں جانتا تھاکہ تو لڑ رہا ہے۔میں نے اپنے اﷲاور رسولﷺ کے احکام کے مطابق اور انہی کے نام پر رومیوں کو بخش دیا ہے……سمجھ لے ابو سلیمان! میری بات سمجھ لے۔مجھے بد عہدی کا ارتکاب نہ کرنے دے۔‘‘دونوں کے درمیان بحث چلتی رہی۔خالدؓ کے محافظوں کو بھی غصہ آگیا۔وہ تلواریں سونت کر توما اور اس کے ساتھیوں پر جھپٹے۔ وہ انہیں قتل کر دینا چاہتے تھے۔انہیں کسی طرح شک ہو گیا تھا کہ یہ رومیوں کی چال ہے جو دو سالاروں کو لڑا رہی ہے۔محافظوں نے توما وغیرہ پر ہلہ بولا توابو عبیدہؓ دوڑ کر ان کے آگے ہو گئے۔’’خبردار !‘‘ ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’پہلے کچھ فیصلہ ہونے دو،یہ ابھی میری پناہ میں ہیں اور تمہیں جب تک کوئی حکم نہیں ملتا تم کوئی حرکت نہیں کر سکتے۔‘‘خالدؓ نے ابو عبیدہؓ کے اس حکم کو بھی برداشت کیا۔خالدؓ کی موجودگی میں ابو عبیدہؓ کوئی حکم نہیں دے سکتے تھے۔یہ صورتِ حال مسلمانوں کیلئے اچھی نہیں تھی۔ایک غلطی تو خالدؓ سے ہوئی تھی کہ کمند پھینک کر شہر میں داخل ہونے جیسا خطرناک کام کر رہے تھے،مگر ابو عبیدہؓ کو اطلاع نہ دی۔حالانکہ وہ خالدؓ کے قائم مقام سالار تھے۔خالدؓ نے تو ان سالاروں میں سے بھی کسی کو نہ بتایا جو شہر کے دوسرے دروازوں کے سامنے اپنے دستوں کے ساتھ موجود تھے۔اس کے بعد غلطی ابو عبیدہؓ کی تھی۔جنہوں نے وہ فیصلہ کیا جو صرف سالارِ اعلیٰ کو کرنا چاہیے تھا۔خالدؓ اور ابو عبیدہؓ کے درمیان یہ جھگڑا ان کی انا کا مسئلہ بن کر کوئی ناگوار صورت اختیار کر سکتا تھا لیکن یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مسلمان آپس کے کسی جھگڑے کو ذاتی مسئلہ نہیں بنایا کرتے تھے اور ان کا حاکم اپنے آپ کو آج کل کے حاکموں کی طرح نہیں سمجھا کرتے تھے۔خالدؓنے دوسرے سالاروں کو بلایا۔اس وقت تک دوسرے دستے بھی شہر میں آچکے تھے۔سالار جب خالدؓ کے پاس آئے توخالدؓ نے اپنا اور ابو عبیدہؓ کا جھگڑا ان کے آگے رکھ دیا۔’’ابنِ ولید!‘‘ سالاروں نے آپس میں بحث و مباحثہ کرکے خالدؓ سے کہا۔’’ابو عبیدہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن وہ جو فیصلہ کر چکے ہیں ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے۔ورنہ یہ خبر دور دور تک پھیل جائے گی کہ مسلمان دھوکے باز ہیں، صلح اور عام معافی کا وعدہ کرتے ہیں پھر لوٹ مار اور قتلِ عام کرتے ہیں۔‘‘’’ابنِ ولید!‘‘سالار شرجیلؓ بن حسنہ نے کہا۔’’ہم نے پہلے دیکھا ہے کہ بعض شہر ہمیں مزاحمت کے بغیر مل گئے تھے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ ان شہروں میں ہماری وہاں آمد سے آگے آگے یہ خبر مشہور ہو گئی تھی کہ مسلمانوں کی شرطیں سخت نہیں ہوتیں اور اپنی شرطوں پر قائم رہتے ہیں اور رحم دلی سے ہر کسی کے ساتھ پیش آتے ہیں……ابنِ ولید!ہمیں اس روایت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ورنہ پھر ہمیں کوئی شہر آسانی سے نہیں ملے گا-
’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے غصے کو دباتے ہوئے کہا۔’’تم سب نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔‘‘رومی سالار توما اور ہربیس ذرا دورکھڑے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے۔خالدؓ نے ان کی طرف دیکھا تو غصہ پھر تیز ہو گیا۔’’میں تم سب کا فیصلہ قبول کرتا ہوں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’لیکن ان دونوں رومی سالاروں کو نہیں چھوڑوں گا۔میں انہیں زندہ رہنے کا حق نہیں دے سکتا۔‘‘’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے!‘‘ابو عبیدہؓ نے کہا۔’’انہی دونوں کے ساتھ تو میرا معاہدہ ہو اہے اور انہی کو میں نے حفاظت کی ضمانت دی ہے۔میرے فیصلے کو تو نے قبول کر ہی لیا ہے تو ان دونوں کو بھی جانے دے۔‘‘’’تیرے عہد نے انہیں میرے ہاتھ سے بچا لیا ہے۔‘‘خالدؓ نے غضب ناک آواز میں کہا۔’’لیکن یہ دونوں اﷲکی لعنت سے نہیں بچ سکیں گے۔‘‘ایک اور مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ توما اور ہربیس کے پاس ایک آدمی کھڑا تھا جو عربی زبان سمجھتا اور بولتا تھا۔وہ مسلمان سالاروں کی باتیں سن کر توما اور ہربیس کو رومی زبان میں سناتا جا رہا تھا۔آخر انہیں عام معافی کے فیصلے سے آگاہ کیا گیا۔’’آپ سب نے ہم پر احسان کیا ہے۔‘‘تو ما نے خالدؓاور ابو عبیدہؓ کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔’’ہمیں اجازت دی جائے کہ اپنی منزل تک ہم اپنی پسند کے راستے سے جا سکیں۔‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓکی طرف دیکھا کہ وہ جواب دیں لیکن خالدؓ نے منہ پھیر لیا۔’’تمہیں اجازت ہے۔‘‘ابو عبیدہؓ نے توما کو جواب دیا۔’’جس راستے پر چاہو جا سکتے ہو۔لیکن یہ بھی سن لو، تم جہاں رکو گے یا جہاں قیام کرو گے اگر ہم نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا تو ہم سے اپنی حفاظت کی توقع مت کرنا۔تمہارے ساتھ جو معاہدہ کیا جا رہا ہے یہ صرف اس مقام تک ہے جہاں تم جا رہے ہو، یہ دوستی کا معاہدہ نہیں۔‘‘’’اگر معاہدہ عارضی ہے تو میری ایک درخواست اور ہے۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں تین دنوں کی مہلت دی جائے کہ ہم اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔تین دنوں بعد ہم معاہدے کو ختم سمجھیں گے۔‘‘’’پھر ہم تمہارے ساتھ جوسلوک کرنا چاہیں گے کریں گے۔‘‘خالدؓ گرج کر بولے۔’’آپ ہمیں قتل کر سکتے ہیں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہمیں پکڑ کر اپنا غلام بنا سکتے ہیں۔‘‘
’’یہ بھی منظور ہے۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تین دنوں میں ہی کہیں غائب ہو جانا،وہاں تک چلے جانے کی کوشش کرنا جہاں تک میں نہ پہنچ سکوں……اب ایک شرط میری بھی سن لو……تم اپنے ساتھ چند دنوں کے کھانے پینے کا سامان لے جا سکو گے۔اس سے زیادہ تم کچھ نہیں لے جا سکو گے۔کوئی آدمی ہتھیار لے کر نہیں جائے گا۔‘‘’’نہیں ابو سلیمان!‘‘ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے کہا۔’’تیری یہ شرائط اس معاہدے کے خلاف ہیں جو میں نے ان کے ساتھ کیا ہے۔یہ اپنا مال و اسباب اورجو کچھ یہ لے جا سکتے ہیں لے جائیں۔میں انہیں یہ حق دے چکا ہوں۔‘‘خالدؓنے گذشتہ رات کو اپنے آپ کو زندگی کے سب سے بڑے خطرے میں ڈالا تھا کہ دیوار پر کمند پھینک کر اوپر چلے گئے تھے۔اب ابو عبیدہؓ نے خالدؓکو ایک اور بڑے ہی سخت امتحان میں ڈال دیاتھا۔خالدؓرومیوں پر اپنی کوئی نہ کوئی شرط عائد کرنا چاہتے تھے مگر ابو عبیدہؓ ان کی ہر شرط کو یہ کہہ کر رَد کر دیتے تھے کہ توما کے ساتھ وہ کچھ اور معاہدہ کر چکے ہیں۔خالدؓکو بار بار اپنے غصے کو دبانا پڑتا تھا، یہ کام بہت مشکل تھا۔’’لے جائیں۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’جو کچھ اٹھا سکتے ہیں، لے جائیں۔لیکن ان میں کوئی بھی کوئی ہتھیار اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔‘‘’’ہم پر یہ ظلم نہ کریں۔‘‘توما نے کہا۔’’ہم لمبے سفر پر جا رہے ہیں۔راستے میں کوئی اور دشمن ہم پر حملہ کر سکتا ہے ، ہمیں نہتا دیکھ کر ڈاکو ہی ہمیں لوٹ لیں گے۔اگر آپ ہمیں نہتا یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہیں رہنے دیں اور ہمارے ساتھ جیسا سلوک چاہے کریں۔ایک طرف آپ کی نیکیاں اتنی ہیں کہ ان کا شمار نہیں۔مگر آپ کا یہ حکم ہمارے قتل کے برابر ہے کہ ہم نہتے جائیں۔‘‘خالدؓکچھ دیر توما کے منہ کی طرف دیکھتے رہے ۔ان کا چہر ہ بتا رہاتھا کہ وہ اپنے اوپر جبر کر رہے ہیں۔’’اے رومی سالار!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تو خوش قسمت ہے کہ صلح کیلئے تو میرے پاس نہیں آگیا تھا……میں تجھے ہتھیار اپنے ساتھ لے جانے کی بھی اجازت دے دیتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ ہر شخص جن میں تو بھی شامل ہے ،صرف ایک ہتھیار لے جا سکتا ہے۔ایک تلوار یا ایک برچھی، یا ایک کمان اور ایک ترکش یا ایک برچھی یا ایک خنجر۔‘‘اس کے بعد معاہدہ لکھا گیا جس کے الفاظ یہ تھے:’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔سالارِ اعلیٰ عساکرِ مدینہ خالد بن ولید کی طرف سے دمشق کے باشندگان کے ساتھ یہ معاہدہ ہوا ہے۔مسلمان شہر دمشق میں داخل ہوں گے وہ اس کے ذمہ دار ہوں گے کہ شہر کے لوگوں کے جان و مال کا، ان کی املاک کا ان کی عزت و آبرو کا تحفظ کریں۔اس میں ان کی عبادت گاہوں اور شہر کی فصیل کا تحفظ بھی شامل ہے۔انہیں اﷲاور رسولﷺ اور تمام تر مومنین اور خلیفۃ المسلمین کی طرف سے ضمانت دی جاتی ہے۔ان کے ساتھ مسلمان رحمدلی اور ہمدردی، کا سلوک اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک اہلِ دمشق جزیہ دیتے رہیں گے۔‘‘جزیہ کی رقم ایک دینار فی کس مقرر ہوئی اور کچھ مقدار اناج وغیرہ کی مقرر ہوئی جو اہلِ دمشق نے مسلمانوں کو دینی تھی۔
وہ منظر مسلمانوں کیلئے بڑا ہی تکلیف دہ تھا جب رومی فوج دمشق سے روانہ ہوئی ۔جو شہری دمشق میں نہیں رہنا چاہتے تھے وہ فوج کے ساتھ جا رہے تھے۔ان کی فوج نے شہریوں کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا جیسے مسلمان ان پر ٹوٹ پڑیں گے۔رومی سپہ سالار توما بھی جا رہا تھا۔اس کی اس آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی جس میں تیر کا ٹکڑا ابھی تک موجود تھا۔اس کے ساتھ اس کی بیوی تھی جو شہنشاہِ روم ہرقل کی بیٹی تھی۔اس وقت کی وہ بہت ہی حسین اور جوان عورت تھی۔شاہی مال و اسباب بے شمار گھوڑا گاڑیوں میں جا رہا تھا ظاہر ہے ان گاڑیوں میں خزانہ بھی جا رہاتا۔دمشق کے وہ باشندے جنہوں نے دمشق میں رہنا پسند نہیں کیا تھا وہ اپنا مال و متاع گھوڑا گاڑیوں اور ریہڑوں پر لے جا رہے تھے جنہیں خچر کھینچ رہے تھے۔ان میں منڈی کا مال اور تجارتی سامان بھی جا رہا تھا۔مؤرخ بلاذری اور واقدی لکھتے ہیں کہ سونے چاندی کے بعد جو بیش قیمت سامان جا رہا تھا وہ بڑے عمدہ زربفت کی تین سو سے کچھ زیادہ گانٹھیں تھیں۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ یہ ہرقل کی تھیں اور بعض نے لکھا ہے کہ یہ منڈی کا مال تھا۔لوگ دودھ والے مویشی بھی ساتھ لے جا رہے تھے۔مختصر یہ کہ دمشق سے تمام مال و دولت جا رہا تھا۔خالدؓکے مجاہدین دیکھ رہے تھے۔یہ ان کا مالِ غنیمت تھاجو ان کا جائز حق تھا۔زیادہ افسوس ان دستوں کے مجاہدین کو ہو رہا تھا، جنہوں نے شہر کے اندر جاکر بڑی سخت لڑائی لڑی تھی۔اس سے بھی زیادہ افسوس ان ایک سو جانبازوں کو تھا۔ جن میں سے پچاس کمندوں سے دیوارپر گئے تھے اور باقی پچاس دروازہ کھلتے ہی سب سے پہلے اندر گئے تھے۔ان سب نے لڑ کر شہر لیا تھا۔خالدؓ کا اپنا یہ حال تھا کہ دمشق سے جانے والے مال و اسباب کو دیکھ دیکھ کرغصے سے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔انہوں نے اپنے مجاہدین کودیکھا،ان کے چہروں پر افسردگی اور غصے کے تاثرات صاف نظر آرہے تھے۔بعض کے تاثرات تو ایسے تھے جیسے وہ دمشق سے جانے والوں پر ہلہ بول دیں گے اور اپنا حق وصول کر لیں گے۔مؤرخ واقدی، اور ابنِ قتیبہ نے لکھا ہے کہ خالدؓ کیلئے اپنے غصے پر قابو پانا محال ہو رہا تھاآخر انہوں نے دونوں ہاتھ آگے اور کچھ اوپر کرکے آسمان کی طرف دیکھا اور ذرا اونچی آواز میں کہا۔’’یااﷲ!یہ سامان تو تیرے مجاہدین کا تھا ،یہ انہیں دے دے۔‘‘خالدؓ کی جذباتی حالت ٹھیک نہیں تھی۔’’سالارِ محترم!‘‘خالدؓکواپنے قریب ایک آواز سنائی دی۔’’آپ کو دمشق مبارک ہو۔‘‘خالدؓ نے اُدھر دیکھا، وہ یونس ابن مرقس تھا۔اسے دیکھ کر خالدؓکو یاد آیا کہ اس شخص نے اس لڑکی کی خاطر دمشق فتح کروادیا تھا جس کے ساتھ اس کی شادی ہو چکی تھی۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ اسے یونس ابن مرقس کے ساتھ نہیں بھیج رہے تھے۔’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’دمشق تجھے مبارک ہو۔یہ کارنامہ تیرا ہے۔تو نہ ہوتا تو ہم اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔‘‘’’لیکن میں نے جسے حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور یہاں کی بادشاہی ختم کرادی ہے۔وہ مجھے نہیں ملی۔‘‘’’کیا اس کے ماں باپ یہیں ہیں؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔
’’وہ چلے گئے ہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے جواب دیا۔’’میں لڑکی سے ملا تھا، اسے کہا کہ وہ ماں باپ کو بتائے بغیر میرے ساتھ آجائے ،میری محبت اس کی روح میں اتری ہوئی ہے۔وہ فوراً تیار ہو گئی لیکن کہنے لگی کہ مسلمان آگئے ہیں، یہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ پھر تم کیا کرو گے؟میں نے اسے کہا کہ میں بھی مسلمان ہوں، تم اب محفوظ ہو……‘‘’’اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کہا ہے کہ تم بھی مسلمان ہو؟میں نے اسے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔اتنا سننا تھا کہ وہ بالکل ہی بدل گئی۔کہنے لگی کہ اپنے مذہب میں واپس آجاؤ۔میں نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں تو اس نے کہا اگر تم اپنے مذہب میں واپس نہیں آؤ گے تو میری محبت نفرت میں بدل جائے گی۔میں نے کہا کہ محبت مذہب کو نہیں دیکھا کرتی۔میں نے یہ بھی کہا کہ میں اب مسلمان ہی رہوں گا۔اس نے کہا۔میں قسم کھاتی ہوں کہ آج کے بعد تمہاری شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کروں گی۔میں دمشق سے جا رہی ہوں۔ اور وہ چلی گئی۔‘‘’’کیا تم بھی اس کی محبت کو نفرت میں نہیں بدل سکتے؟‘‘خالدؓنے پوچھا۔’’نہیں محترم سالار!‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’میری محبت ایسی نہیں۔یہ لڑکی مجھے نہ ملی تو شاید میں پاگل ہو جاؤں۔میں نے آپ کو یہ شہر دیا ہے، کیا آپ مجھے ایک لڑکی نہیں دلا سکتے؟وہ میری بیوی ہے۔میں نے آپ کے ساتھ وعدہ کیا تھا۔آپ چاہیں تو اپنا ایک دستہ بھیج کر لڑکی کو زبردستی لا سکتے ہیں۔آپ فاتح ہیں۔‘‘’’ابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’معاہدہ ہو چکا ہے۔ہم جانے والوں کا ایک بال بھی ان سے زبردستی نہیں لے سکتے۔‘‘مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ یونس ابن مرقس عقل اور ذہانت کے اعتبار سے کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔خالدؓ اس سے متاثر تھے اور اس کے احسان مند بھی تھے۔دمشق کی فتح اس یونانی جوان کے بغیر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھی۔خالدؓ کو یہ شخص اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور جس لڑکی کی محبت اسے پاگل کیے ہوئے تھی اس کے کہنے پر بھی اس نے اسلام ترک نہیں کیا تھا۔’’میں نے سنا ہے۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’کہ آ پ نے دمشق سے جانے والوں کو تین دنوں کیلئے تحفظ کا وعدہ کیا ہے۔کیا ان تین دنوں کے دوران آپ ان لوگوں کا تعاقب کرکے ان پر حملہ نہیں کرسکتے؟‘‘’’نہیںابنِ مرقس!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’یہ معاہدے کے خلاف ہے۔‘‘’’تین روز گزر جانے کے بعد تو آپ ان پر حملہ کر سکتے ہیں۔‘‘یونس ابن مرقس نے کہا۔’’تین دنوں میں تو یہ بہت دور پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ قافلہ بہت تیز جائے گا کیونکہ اس کے پاس خزانہ ہے اور بہت قیمتی مال بھی ہے۔راستے میں رومیوں کے قلعے آتے ہیں، وہ کسی بھی قلعے میں جا پناہ لیں گے۔میں کسی قلعے پر اتنی جلدی حملہ نہیں کر سکوں گا۔‘

(جاری ھے)
جزاکم اللہ خیرا