Wednesday 28 September 2016

قصہ حضرت یوسف علیہ السلام

٭٭٭دوسرا حصہ٭٭٭

قرآن مجید کی 12 ویں سورت جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ سورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی۔

اس سورت کے نزول کی وجہ یہ تھی۔کہ جب قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کررہے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو معاذاللہ قتل کردیں یا جلاوطن کریں یا قید کردیں۔ اس زمانے میں کفار مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں روایات میں نہ پایا جاتا تھا اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کرکے کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالٰیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کردیا، بلکہ مزید برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملے پر چسپاں بھی کردیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کررہے تھے۔

مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخر کار اسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ مقصد بھی سورت کے آغاز میں صاف صاف بیان کردیا گیا ہے چنانچہ فرمایا "یوسف اوراس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں"

اب اس قصہ کا آغاز کیا جاتا ہے۔۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو ''احسن القصص'' یعنی تمام قصوں میں سب سے اچھا قصہ فرمایا ہے۔اس لئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی مقدس زندگی کے اتار چڑھاؤ میں اور رنج و راحت اور غم و سرور کے مد و جزر میں ہر ایک واقعہ بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے سامان اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے اس واقعہ کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور خداوند قدوس کی قدرتوں کا مشاہدہ کریں۔

حضرت یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم السلام کے بارہ بیٹے تھے جن کے نام یہ ہیں:۔
(۱)یہودا (۲)روبیل (۳)شمعون (۴)لاوی (۵)زبولون (۶)یسجر
(۷)دان (۸)نفتائی (۹)جاد (۱۰)آشر (۱۱)یوسف (۱۲)بنیامین

حضرت بنیامین حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے۔ باقی دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے تمام بھائیوں میں سب سے زیادہ اپنے باپ کے پیارے تھے اور چونکہ ان کی پیشانی پر نبوت کے نشان درخشاں تھے اس لئے حضرت یعقوب علیہ السلام ان کا بے حد اکرام اور ان سے انتہائی محبت فرماتے تھے۔ سات برس کی عمر میں حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے اور چاند و سورج ان کو سجدہ کررہے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنا یہ خواب اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سنایا تو آپ نے ان کو منع فرما دیا کہ پیارے بیٹے!خبردار تم اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں سے مت بیان کردینا ورنہ وہ لوگ جذبہ حسد میں تمہارے خلاف کوئی خفیہ چال چل دیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ان کے بھائیوں کو ان پر حسد ہونے لگا۔ یہاں تک کہ سب بھائیوں نے آپس میں مشورہ کر کے یہ منصوبہ تیار کرلیا کہ ان کو کسی طرح گھر سے لے جا کر جنگل کے کنوئیں میں ڈال دیں۔ اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے سب بھائی جمع ہو کر حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس گئے۔ اور بہت اصرار کر کے شکار اور تفریح کا بہانہ بنا کر ان کو جنگل میں لے جانے کی اجازت حاصل کرلی۔ اور ان کو گھر سے کندھوں پر بٹھا کر لے چلے۔ لیکن جنگل میں پہنچ کر دشمنی کے جوش میں ان کو زمین پر پٹخ دیا۔ اور سب نے بہت زیادہ مارا۔ پھر ان کا کرتا اتار کر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک گہرے اور اندھیرے کنوئیں میں گرا دیا۔ لیکن فوراً ہی حضرت جبریل علیہ السلام نے کنوئیں میں تشریف لا کر ان کو غرق ہونے سے اس طرح بچالیا کہ ان کو ایک پتھر پر بٹھا دیا جو اس کنوئیں میں تھا۔ اور ہاتھ پاؤں کھول کر تسلی دیتے ہوئے ان کا خوف و ہراس دور کردیا۔ اور گھر سے چلتے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کا جو کرتا تعویذ بنا کر آپ کے گلے میں ڈال دیا تھا وہ نکال کر ان کو پہنا دیا جس سے اس اندھیرے کنوئیں میں روشنی ہوگئی۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی آپ کو کنوئیں میں ڈال کر اور آپ کے پیراہن کو ایک بکری کے خون میں لت پت کر کے اپنے گھر کو روانہ ہو گئے اور مکان کے باہر ہی سے چیخیں مار کر رونے لگے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام گھبرا کر گھر سے باہر نکلے۔ اور رونے کا سبب پوچھا کہ تم لوگ کیوں رو رہے ہو؟ کیا تمہاری بکریوں کو کوئی نقصان پہنچ گیا ہے؟ پھر حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت فرمایا کہ میرا یوسف کہاں ہے؟ میں اس کو نہیں دیکھ رہا ہوں۔ تو بھائیوں نے روتے ہوئے کہا کہ ہم لوگ کھیل میں دوڑتے ہوئے دور نکل گئے اور یوسف علیہ السلام کو اپنے سامان کے پاس بٹھا کر چلے گئے تو ایک بھیڑیا آیا اور وہ اُن کو پھاڑ کر کھا گیا۔ اور یہ اُن کا کرتا ہے۔ ان لوگوں نے کرتے میں خون تو لگا لیا تھا لیکن کرتے کو پھاڑنا بھول گئے تھے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اشک بار ہو کر اپنے نورِ نظر کے کرتے کو جب ہاتھ میں لے کر غور سے دیکھا تو کرتا بالکل سلامت ہے اورکہیں سے بھی پھٹا نہیں ہے تو آپ ان لوگوں کے مکر اور جھوٹ کو بھانپ گئے۔ اور فرمایا کہ بڑا ہوشیار اور سیانا بھیڑیا تھا کہ میرے یوسف کو تو پھا ڑ کر کھا گیا مگر ان کے کرتے پر ایک ذرا سی خراش بھی نہیں آئی اور آپ نے صاف صاف فرما دیا کہ یہ سب تم لوگوں کی کارستانی اور مکر و فریب ہے۔ پھر آپ نے دکھے ہوئے دل سے نہایت درد بھری آواز میں فرمایا۔

فَصَبْرٌ جَمِیۡلٌ ؕ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوۡنَ ﴿18﴾ (پ12،یوسف:18)
.
حضرت یوسف علیہ السلام تین دن اس کنوئیں میں تشریف فرما رہے۔ یہ کنواں کھاری تھا۔ مگر آپ کی برکت سے اس کا پانی بہت لذیذ اور نہایت شیریں ہو گیا۔ اتفاق سے ایک قافلہ مدین سے مصر جا رہا تھا۔ جب اس قافلہ کا ایک آدمی جس کا نام مالک بن ذُعر خزاعی تھا، پانی بھرنے کے لئے آیا اور کنوئیں میں ڈول ڈالا تو حضرت یوسف علیہ السلام ڈول پکڑ کر لٹک گئے مالک بن ذُعر نے ڈول کھینچا تو آپ کنوئیں سے باہر نکل آئے۔ جب اس نے آپ کے حسن و جمال کو دیکھا تو

یٰبُشْرٰی ھٰذَا غُلاَمٌ کہہ کر اپنے ساتھیوں کو خوشخبری سنانے لگا۔ اور آپ کولیکر مصر کی طرف روانہ ہوگئے۔

بقیہ تیسرے حصے میں۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment