Saturday 17 September 2016

اندھیری رات کے مسافر قسط نمبر 48

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 48.
بدریہ_______________تھوڑی دیر بعد وہ سکونتی مکان کے ایک کشادہ کمرے میں داخل ہوئے-
سعید آنکھیں بند کیے بستر پر بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا اور اس کے چہرے پر سکون برس رہا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ گہری نیند سو رہا ہے-
سلمان نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا.
اچانک ساتھ والے کمرے سے ایک نسوانی آواز سنائی دی:
آپ کچھ دیر زخمی سے کوئی بات نہیں کر سکتے ابھی تک ان پر دوا کا اثر باقی ہے "-
سلمان نے پیچھے مڑ کر دیکھا اس کی نگاہیں ایک حسین و با وقار چہرے پر جم گئیں"-
بدریہ"-ولید نے اس سے مخاطب ہو کر کہا-" یہ سلمان ہیں جو واقعات انہوں نے بیان کئے ہیں اس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حامد بن زہرہ شہید ہو چکے ہیں.
اور قاتلوں نے ان کے ساتھ ہمارے باقی چاروں ساتھیوں کی لاشیں نالے میں پھینک دیں ہیں-
اور اب میں فوراً غرناطہ جانا چاہتا ہوں اور یہ سعید کی حفاظت کے لیے یہاں رہیں گے. .............
اگر آپ سعید کے متعلق زرا سی بی تشویش محسوس کریں تو یہاں سے کسی کو ابا جان کے پاس بھیج دینا. "-
بدریہ نے جواب دیا اگر قاتلوں کے تیر زہر آلود نہیں تھے تو انہیں تکلیف دینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی لیکن آپ گھر پہنچتے ہی چند ادویات بھیج دیں-"
آپ ایک منٹ ٹھہریں میں ماموں جان کے نام ایک رقعہ لکھ دیتی ہوں. ممکن ہے کہ وہ کوئی بہتر مشورہ دے سکیں-
ولید نے کہا میرا گھر جانا غرناطہ کے حالات پر منحصر ہے-
ممکن ہے مجھے کچھ عرصہ روپوش رہنا پڑے_
بہرحال میں میں کوشش کروں گا کہ آپ کا رقعہ ابا جان تک پہنچ جائے-"
میں ابھی آتی ہوں_"
بدریہ جلدی سے برابر کے کمرے میں چلی گئی اور سلمان نے ولید سے مخاطب ہو کر کہا اگر اگر دوائی کے لیے کوئی مناسب انتظام نہ ہو سکے تو آپ جعفر کو تلاش کر کے یہاں بھیج دیں"-
آپ سیدھے سرائے جائیں مجھے امید ہے کہ وہ آپ کو وہاں مل جائے گا اور وہ تیسرا آدمی جس نے سعید کی خاطر بھیڑیوں کا گروہ اپنے پیچھے لگا لیا تھا واپس پہنچ جائے تو اسے میرا سلام کہنا اور میرا یہ پیغام پہنچا دینا کہ اگر میرا دوبارہ کبھی غرناطہ آنا ہوا تو میری سب سے بڑی خواہش ہو گی کہ اسے ایک نظر دیکھ لوں"-
ولید نے کہا مجھے معلوم ہے جب میں آپ کا ذکر ان سے کروں گا تو وہ بھی آپ کو دیکھنے کے لئے کم بے چین نہیں ہوں گے-"
دوبارہ جنگ شروع ہوئی تو ہماری اولین ترجیح ہو گی اہل بربر اور ترکوں کے پاس کسی تجربہ کار افسر کو ان کے پاس بھیجیں اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ آپ جیسے تیسرا آدمی کہتے ہیں اس کام کے لیے نہایت موزوں ہو گا-
اس لیے اس سے کچھ بعید نہیں کہ وہ اچانک یہاں پہنچ جائے اور کہے کہ میں آپ کے ساتھ چل رہا ہوں_"
میں ایسے آدمی کی رفاقت میں سفر کرنا اپنے لیے باعث فخر سمجھوں گا"_
بدریہ برابر کے کمرے سے نکلی اور اس نے ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا ولید کو تھما دیا.
ولید نے جلدی سے سلمان سے مصافحہ کیا اور اللہ حافظ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا.
_____________○_____________
بدریہ کرسی گھسیٹ کر آتش دان کے سامنے کرتے ہوئے بولی معاف کیجئے گا مجھے یہ خیال نہیں رہا کہ آپ بارش میں بھیگ کر آئے ہیں-
یہاں تشریف رکھیں میں آپ کے لیے خشک کپڑوں کا انتظام کرتی ہوں"-
سلمان نے آگے سرکتے ہوئے کہا نہیں آپ تشریف رکھیں مجھے سردی محسوس نہیں ہو رہی اور میرے کپڑے بھی خشک ہونے والے ہیں-"
بدریہ نے سعید کے بستر کے قریب جا کر اس کی نبض چیک کی اور پھر سلمان سے دو قدم دور ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا:
ولید کہتا ہے کہ آپ ترکوں کے بحری بیڑے سے تعلق رکھتے ہیں-
میں آپ سے حامد بن زہرہ کی قید اور رہائی کے واقعات سننا چاہتی ہوں-
کیا انہیں اندلس سے روانہ ہوتے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا؟ "-
نہیں وہ مراکش کے ساحل تک پہنچ گئے تھے-
وہاں سے ایک بربر جہاز راں نے انہیں قسطنطنیہ پہنچانے کا ذمہ لیا تھا لیکن راستے میں مالٹا کے دو جنگی جہازوں نے ان پر حملہ کر دیا تھا اور جن مسافروں نے جلتے ہوئے جہاز سے کود کر اپنی جانیں بچانے کی کوشش کی ان کو گرفتار کر کے مالٹا لے گئے تھے-
چند ہفتے تک انہیں حامد بن زہرہ کے متعلق کچھ پتہ نہیں چل سکا لیکن بعد کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ اندلس میں ان کے دشمن غافل نہیں تھے.
ایک دن قیدیوں کو فرڈیننڈ کے سفیر کے سامنے پیش کیا گیا اور چند گھنٹے بعد حامد بن زہرہ مالٹا کے قید خانے سے ہسپانیہ کے جہاز پر منتقل ہو چکے تھے"-
انہی دنوں ترکوں کے دو جہاز ٹیونس اور صقلیہ کے درمیان گشت کر رہے تھے-
انہوں نے ایک شام ہسپانیہ کے جہاز کی جھلک دیکھی اور اگلی صبح کے دھندلکے میں وہ گولہ بارود کی زد میں تھا.
پہلے گولے نے مستول کے پرخچے اڑا دیے اور بادبان نیچے ڈھیر ہو گئے-
دشمن کے لیے جہاز کے ساتھ غرق ہونے یا ہتھیار ڈال دینے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا-
چنانچہ چند منٹ کے اندر اندر وہ سفید جھنڈا بلند کر رہے تھے-
آپ کو تفصیل بتانے کی ضرورت نہیں ہے حامد بن زہرہ کو شدید بخار کی حالت میں دوسرے جہاز پر منتقل کیا گیا انہیں دو دن تک بالکل بھی ہوش نہیں تھا-
تیسرے دن انہوں نے ہوش میں آتے ہی جو پہلا سوال کیا وہ غرناطہ کے متعلق تھا اور جب کسی نے متارکہ جنگ کے معاہدے کا ذکر کیا تو وہ چلا اٹھے"-
نہیں نہیں تم غلط کہتے ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتا تم موسی بن ابی غسان کو نہیں جانتے اس کے بعد وہ دوبارہ بے ہوش ہو گئے-
اگلے دن ان کے ہوش میں آتے ہی پہلا مطالبہ تھا کہ ہسپانوی جہاز کے کپتان کی تلوار اسے واپس کر دی جائے اور اسے یہ اطمینان دلایا جائے کہ اس کے ساتھ ایک شریف دشمن کا سلوک کیا جائے گا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جب ان پر حملہ ہوا تھا تو جہاز کے دوسرے افسروں کی متفقہ رائے تھی کہ حامد بن زہرہ کو فی الفور موت کے گھاٹ اتار دیا جائے لیکن کپتان نے سختی سے اس تجویز کی مخالفت کی تھی"-
بدریہ نے سوال کیا آپ اس دوران حامد کے ساتھ تھے؟ -
جی نہیں ہماری رفاقت لڑائی کے بعد شروع ہوئی تھی.
میں اس جہاز کا کپتان تھا جس نے ہسپانوی جہاز پر گولہ چلایا تھا-
حامد بن زہرہ کو دشمن کی قید سے چھڑانے کے بعد میرے جہاز پر منتقل کر دیا گیا تھا-
ہمارے جنگی بیڑے کا ایک حصہ یونان سے افریقہ کے ساحل کی طرف منتقل کیا گیا تھا اور امیر البحر کمال رئیس طرابلس کے قریب لنگر انداز تھے"-
غرناطہ کے حالات کے متعلق حامد بن زہرہ کا اضطراب دیکھ کر ہم نے انہیں کسی تاخیر کے بغیر امیر البحر کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی"-
امیر البحر نے بڑی گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا اور یہ مشورہ دیا کہ آپ کسی تاخیر کے بغیر واپس چلے جائیں اور غرناطہ کو دشمن کے قبضے سے بچانے کی کوشش کریں-
اگر اہل غرناطہ نے ہتھیار ڈال دیئے تو آپ کا سلطان کے پاس جانا بیکار ہے-
ہم اسی صورت میں اندلس کی کوئی مدد کر سکیں گے جب کہ آپ اندرونی حصار قائم ہو-
حامد کو مطمئن کرنے کے لیے امیر البحر نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ بذات خود سلطان کے سامنے پیش ہو کر غرناطہ کی اعانت کا مسئلہ پیش کریں گے-
پھر انہیں اندلس پہنچانے کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی-
ساحل بربر سے چند جہاز ران جو ترکی بیڑے کے حلیف ہیں امیر البحر سے ملاقات کے لئے آئے ہوئے تھے انہوں نے میرے جہاز کی حفاظت کا ذمہ لیا اور اپنے دو جہاز میرے ساتھ روانہ کئے"-
اندلس کے ساحلی علاقے سے چند میل دور دشمن کے جہاز گشت کر رہے تھے-
انہوں نے ہمارا تعاقب کیا-سورج غروب ہونے میں دو گھنٹے باقی تھے ہم نے ہم نے تصادم سے بچنے کے لیے اپنے جہازوں کا رخ ساحل کی بجائے مغرب کی سمت پھیر دیا اور شام تک ان سے آگے بھاگتے رہے-اس کے بعد میں نے تاریکی کا فائدہ اٹھایا اور اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد اپنا جہاز ایک تنگ خلیج کے اندر لے گئے.
ہمارا ایک جہاز ساحل سے دور رک گیا اور دوسرے جہاز نے دو میل دور جا کر ایک ساحلی چوکی پر گولہ باری شروع کر دی.
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کے جہاز شاید عام حالات میں زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے پوری رفتار سے آگے بڑھے اور تھوڑی دیر بعد ایک جہاز خلیج کے عین سامنے میرے جہاز کی توپوں کی زد میں آ چکا تھا-
پھر آن کی آن میں اس کے تختے ہوا میں اڑ رہے تھے-
اس کے پیچھے آنے والے جہاز نے کھلے سمندر کی طرف فرار ہونے کی کوشش کی لیکن وہ بھی اپنا راستہ تبدیل کرتے ہی ہمارے دوسرے جہاز کی گولہ باری کا سامنا کر رہا تھا-
پھر میں نے بھی خلیج سے باہر نکل کر اس پر حملہ کر دیا اور وہ چند منٹ سے زیادہ دو طرفہ گولہ باری کے سامنے نہ ٹھہر سکا-
اس کے بعد آس پاس کوئی جگہ حامد بن زہرہ کو اتارنے کے لیے محفوظ جگہ نہیں تھی-
ہم نے کچھ دیر ساحل سے ہٹ کر تیسرے جہاز کا انتظار کیا اور اس کے بعد. ........جاری ہے

No comments:

Post a Comment