Monday 19 September 2016

اندھیری رات کے مسافر. باپ اور بیٹا.

اندھیری رات کے مسافر.
از نسیم حجازی.
قسط نمبر 52.
باپ اور بیٹا_________کہا مجھے افسوس ہے کہ آپ کو میری غیر موجودگی میں تکلیف ہوئی میں نے اپنے آدمیوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ آپ کو باہر نہ جانے دیا جائے.
مجھے ڈر ہے کہ اگر آپ ایک بار جنگ کے حامیوں کے نرغے میں آ گئے تو آپ کے لیے واپسی کا راستہ نہیں رہے گا-
کوئی عقلمند آدمی اپنے دوستوں سے محروم ہونا پسند نہیں کرتا اگر میں آپ کو یہاں روکنے کی کوشش نہ کرتا تو شاید آج الحمراء کے دروازے پر مظاہرہ کرنے اور میرے خلاف نعرے لگانے والوں میں سب سے اونچی آواز آپ کی ہوتی-
ہاشم نے جواب دیا اگر میں اہل غرناطہ میں زندگی کی کوئی رمق باقی دیکھتا تو میں حامد بن زہرہ کو یہاں آنے سے منع کرنے کی بجائے اس کا ساتھ دیتا-
پھر مجھے اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ فرڈیننڈ میرے بیٹوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا-"
آپ کو نعروں سے پریشان نہیں ہونا چاہیے یہ ان بے بس لوگوں کا آخری احتجاج ہے جو تباہی کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں-
مجھے یقین ہے کہ غرناطہ کے گلی کوچوں میں بہت جلد قبرستانوں کے سناٹے چها جائیں گے"-
ابوالقاسم نے کہا مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ باہر نکلنے کو بہت بے چین تھے؟ -
میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آپ نے حامد بن زہرہ کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے لیکن یہاں کوئی مجھ سے ہمکلام ہونے کو تیار نہیں تھا"-
ہم نے اس کے ساتھ کوئی بد سلوکی نہیں کی وہ لوگوں کو مشتعل کرنے کے بعد شہر سے نکل گیا اور ہم نے اس کا راستہ روکنے کی بھی کوشش نہیں کی-
ہماری اطلاعات یہ ہیں کہ وہ پہاڑی علاقوں کا دورہ کرے گا اور قبائل کو منظم کرنے کے بعد رضا کاروں کے دستے غرناطہ بھیجنا شروع کر دے گا"-
ہاشم نے کہا"-
جو قبائل مایوس ہو چکے ہیں انہیں دوبارہ آمادہ جنگ کرنے کے لیے پر جوش تقریر کافی نہیں ہوں گی اور جو ابھی تک برسر پیکار ہیں وہ اہل غرناطہ پر اعتماد کرنے کی بجائے پہاڑوں اور چٹانوں میں دشمن کا انتظار کرنا بہتر سمجھیں گے جہاں ایک تیر انداز سو آدمیوں کا راستہ روک سکتا ہے-
متارکہ جنگ کے بعد وہ ہم سے بہت دور جا چکے ہیں-
حامد بن زہرہ اسی صورت کامیاب ہو سکتا ہے کہ ترک اور بربر فوراً ہماری مدد کے لیے پہنچ جائیں-
ابو القاسم نے کہا حامد اہل غرناطہ کو بھی تسلی بخش جواب نہیں دے سکا-
تاہم اس نے اہل شہر کی ایک بڑی تعداد کو جنگ شروع کرنے پر آمادہ کر لیا ہے ممکن ہے بعض قبائل بھی اس کی باتوں میں آ جائیں اور وہ جنگ کی آگ بھڑکا کر دشمن کو قتل و غارت کا موقع فراہم کر دے-"
اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم ہر حالت میں دشمن سے الجھ پڑیں
اسے قوم کے ان چار سو بیٹوں سے کوئی غرض نہیں ہے جنہوں نے غرناطہ کو تباہی سے بچانے کے لیے دشمن کے یرغمال بننا قبول کر لیا ہے"-
اس کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ جب قبائل غرناطہ کا رخ کریں گے تو دشمن کو شہر کی دوبارہ ناکہ بندی کرنے میں دیر نہیں لگے گی"-
ہاشم نے کہا ان تمام خطرات کے باوجود آپ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی؟ "-
ابو القاسم نے جواب دیا اسے روکنا تنہا میرا مسئلہ نہیں غرناطہ میں ہزاروں افراد ایسے ہیں جو دوبارہ جنگ شروع کرنے کے نتائج سوچ سکتے ہیں"-
ہاشم چند ثانیے ابوالقاسم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا-
پھر اس نے کہا کہ اگر وہ اپنی مرضی سے کہیں گیا ہے تو پھر اس نے خود ہی آپ کی ساری پریشانی کو دور کر دیا ہے"-
میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا"-
میرا مطلب ہے کہ آپ اہل غرناطہ کے اندر اس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے لیکن غرناطہ سے باہر اس کی حفاظت کے سلسلے میں آپ پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہو گی"-
ابوالقاسم آپ مجھ سے کچھ چھپا رہے ہیں میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے؟ "
ابوالقاسم نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ میری کسی بات پر یقین نہیں کریں گے-
اس لیے یہ بہتر ہو گا کہ آپ براہ راست ان لوگوں سے گفتگو کر لیں جو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں"-
وہ کون ہیں؟ "-ابوالقاسم نے تالی بجاتے ہوئے کہا آپ کو ابھی معلوم ہو جائے گا-
ہاشم چند لمحے بے چینی سے ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر برابر کے کمرے سے قدموں کی آہٹ سنائی دی دروازہ کھلا تو وہ سکتے کے عالم میں عمیر اور عتبہ کو دیکھنے لگا-
ابوالقاسم نے کہا عمیر تمہارے والد حامد کے متعلق بہت پریشان تھے تم انہیں تسلی دے سکتے ہو! "
عمیر نے باپ کی طرف دیکھا لیکن اسے زبان کھولنے کی جرات نہیں ہوئی-
عتبہ نے آگے بڑھ کر کہا"-جناب اب عمیر کے بھائیوں کے متعلق آپ کی پریشانی دور ہو جانی چاہیے کیونکہ حامد بن زہرہ نے جو آگ بھڑکائی تھی وہ ہمیشہ کیلئے بجھ چکی ہے-
اب لوگ ان جنونیوں کی باتیں نہیں سنیں گے جو اس عظیم شہر کو قبرستان بنانا چاہتے ہیں اور آپ کو بھی قبائل کے پاس جانے کی ضرورت نہیں پیش آئے گی"-
ہاشم نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا تم نے اسے قتل کر دیا ہے"-
عتبہ جواب دینے کی بجائے ابوالقاسم کی طرف دیکھنے لگا ہاشم نے کرب کی حالت میں اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور پوری قوت سے چلایا:
عمیر میں تم سے پوچھتا ہوں-الله کے لیے مجھے بتاؤ کہ تم اس سازش میں شریک نہیں تھے"-
تمہارے ہاتھ حامد کے خون سے داغدار نہیں ہوئے میں موت سے پہلے سننا چاہتا ہوں کہ غلامی کی ذلت اور رسوائی قبول کرنے کے باوجود میرے خاندان نے قوم کے خلاف آخری گناہ میں حصہ نہیں لیا-
تم خاموش کیوں ہو؟ "
ابوالقاسم نے کہا"-
ہاشم میں تمہارے جذبات کی قدر کرتا ہوں اگر تم حامد کے دوست تھے تو ہم اس کے دشمن نہیں تھے"-
لیکن اب تمہیں اس بات کا یقین نہیں آئے گا کہ تم ایک سر پھرے انسان کے جذبات کی تسکین کے لئے غرناطہ کی مزید تباہی گوارا کر سکتے ہو________تم اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہو کہ ہم جنگ ہار چکے ہیں-
تم یہ بھی جانتے ہو کہ اہل غرناطہ کا جوش و خروش نعروں اور مظاہروں سے آگے نہیں ہے اور باہر کے قبائل میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو بد دل اور مایوس ہو چکے ہیں"-
اور وہ چند سر پھرے لوگ جو ابھی تک برسر پیکار ہیں اب اہل غرناطہ ان کی مدد کے لیے اپنی پناہ گاہوں سے باہر آنا پسند نہیں کریں گے"-
ایک محدود علاقے میں مقامی نوعیت کی لڑائیاں فرڈیننڈ کے لیے کسی پریشانی کا باعث نہیں ہو سکتیں"-
اندلس کے زرخیز علاقوں اہم شہروں اور بندرگاہوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہ آخری ضرب لگانے کے لیے اطمینان سے موضوع وقت کا انتظار کر سکتا ہے-
جب ان سر پھروں کے خون کا آخری قطرہ بہہ چکا ہو گا تو فرڈیننڈ کی فوج بنا کسی مزاحمت کا سامنا کئے ان دروں اور گھاٹیوں میں پھیل جائے گی جنہیں یہ لوگ ناقابل تسخیر سمجھتے ہیں-
حامد بن زہرہ نے خطرہ پیدا کر دیا تھا کہ امن پسند قبائل بھی از سر نو جنگ کی آگ میں کود پڑیں اور فرڈیننڈ اس انتقامی کارروائی کے لئے مجبور ہو جائے جس کے خوف سے ہم متارکہ جنگ کے لئے مجبور ہو گئے ہیں"-
ہاشم تم اپنے لڑکوں کو ہلاکت میں میں ڈال سکتے ہو لیکن دوسروں کے بیٹوں اور بھائیوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے. تم لاکھوں انسانوں سے اس شکست اس بے بسی اور مایوسی کے باوجود زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتے-
عمیر نے صرف زندہ رہنے کی خواہش کے جرم کے سوا کچھ نہیں کیا"-
ہاشم نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا ان لاکھوں انسانوں کی شکست بے بسی اور مایوسی ان غداروں کی سازش کا نتیجہ ہے جنہوں نے ہمارے ماضی کی ساری عظمتیں اپنے پاوں تلے روند ڈالی تھیں آور مستقبل کی امیدوں کے چراغ بجھا دئے تھے"-
حامد بن زہرہ قوم کے سامنے ان عیاش بے حس اور بے غیرت حکمرانوں کے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی دعوت لے کر آیا تھا جنہوں نے اپنے اقتدار کے لیے ملک کا مستقبل داو پر لگا دیا تھا"-
ابوالقاسم تم یہ کہہ سکتے ہو کہ وہ ایک سرپھرا تھا اور ان حالات میں اسے کسی معجزے کی توقع ایک دیوانگی تھی لیکن تم یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ اب قوم ذلت کی زندگی پر رضامند ہو چکی ہے اس لیے حامد کو انہوں عزت کا راستہ دکھانے کا کوئی حق نہیں تھا اور چونکہ لاکھوں انسان ظلم و وحشت کے خلاف لڑنے کے حق ہمیشہ کے لیے دستبردار ہو چکے ہیں-
اس لئے عظیم انسان واجب القتل تھا جسے اس حق سے دستبردار ہونا پسند نہیں تھا-
چونکہ ذلت و رسوائی کی زندگی ہمارا مقدر بن چکی ہے اس لیے آزادی کی زندگی یا غیرت کی موت کا راستہ دکھانے والے.....جاری ہے

No comments:

Post a Comment