Monday 12 September 2016

مصحف قسط نمبر 7.

مصحف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
قسط نمبر 7

دور بینچ پر بیٹھی سیاہ فام لڑکی کو دیکھ کر اس کے پاؤں میں تیزی آگئی-وہ سبل رفتاری سے چلتی بینچ کے قریب آئی-
گڈ مارننگ-
سیاہ فام لڑکی نے چونک کر سر اٹھایا-اور پھر ذرا سا مسکرائی گڈ مارننگ ٹویوٹو-
وہ اسی طرح کتاب کے کنارے پر ہاتھ جمائے بیٹھی تھی-
میں دراصل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل ذرا سا متذبذب سی ساتھ بیٹھی-مجھے ،مجھے کل کے رویہ پر شرمندگی ہے-میں کبھی بھی اتنی روڈ نہیں ہوتی-اور۔۔۔۔۔۔۔
جانے دو-مجھے برا نہیں لگا-
نہیں ائی ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔ ایم رئیلی ویری سوری- میں کچھ پریشان تھی-
میں نے تو تجھے تمہاری ہر پریشانی کاحل بتایا تھا-تم خود ہی اس طرف نہیں انا چاہتی-
نہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔ اس نے بے ساختہ نظریں چرائی- مجھے اس کتاب سے کوئی دلچسپی نہیں ہے-
" مگر اس کتاب کو تم سے ہے-اس نے مجھے کہا ہے کہ میں اسے تمہارے حوالے کر دوں-
وہ بری طرح چونکی تھی-پہلی گفتگو میں بھی اس نے کچھ ایسی ہی بات کی تھی-
یہ،یہ کتاب مجھے جانتی ہے؟سو فیصد جانتی ہے-تمہاری زندگی کی ساری کہانی اس میں لکھی ہے-گزرے واقعات اور آنے والے حالات-
واقعی وہ ششدر اسے دیکھ رہی تھی-
عجب بے یقینی سی بے یقینی تھی-
ہاں اس میں لکھا ہے-
تم نے،تم نے میری کہانی پڑھی ہے؟
نہیں میں وہ نہیں پڑھ سکتی،
کیوں؟کیا تم نے یہ کتاب پوری نہیں پڑھی؟
میں نے پوری پڑھ رکھی ہے-مگر مجھ پر صرف میری زندگی کی کہانی کھلی ہے-تمہاری زندگی کی کہانی صرف تم پر کھلے گی-
تم کیا کہہ رہی ہو میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا-اب کہ وہ واقعی پریشان ہو گئی تھی-
آجائے گی-ہر بات سمجھ میں آجائے گی-بس تھوڑا وقت لگے گا-وہ اسے دیکھ کر رہ گئی تھی-وہ لڑکی کون تھی کہاں سے ائی تھی-اور کس نے یہ کتاب صدیوں پہلے اس کے لئیے رکھ کر چھوڑی تھی-کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا-
بس کا ہارن بجا تو وہ چونکی-اور پھر بنا کچھ کہے وہ اٹھ کھڑی ہوئی-
سیاہ فام لڑکی مسکراتے ہوئے اسے بس میں سوار ہوتے دیکھ رہی تھی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فواد کو چائے کمرے میں دے آؤ اور محمل تم ٹرالی لان میں لے اؤ-تائی مہتاب اپنی ازلی بے نیازی سے کہہ کر پلٹ گئی تھی-تو ٹرالی سیٹ کرتی محمل کسی خیال سے چونکی-فواد کی ٹرے الگ سعٹ کر دو محمل میں دے آؤں گی تم ٹرالی باہر دا آؤ-
میں نہیں دے کر آرہی ٹرالی تنگ اگئی ہوں میں ان ذلیل لوگوں کے سامنے-
اچھا اچھا چپ کرو مسرت بوکھلا کر آگے بڑھی-اور ٹرالی کا کنارہ تھام لیا-میں لے جاتی ہوں تم فواد کو چائے دے آؤ-
اور یہی تو وہ چاہتی تھی-سو شانے اچکا کر لاپرواہی سے ٹرے سیٹ کی اور پھر اسے اٹھا کر دھپ دھپ سیڑھیاں چڑھتی گئی-
فواد بھائی اس نے دروازے پر ہلکا سا ناک کیا-
ہوں آجاؤ-
اس نے دروازہ دھکیلا تو وہ کھلتا چلا گیا-فواد آنکھوں پر بازو رکھے بیڈ پر نیم وا پڑا تھا-
فواد بھائی آپ کی چائے-
"ہاں رکھ دو وہ کسلمندی سے اٹھا-انداز سے تھکا تھکا لگ رہا تھا-
کیا بات ہے فواد بھائی آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں-اس نے ٹرے ٹیبل پر رکھی اور کپ اٹھا کر اس کے پاس آئی-
"ہاں- کچھ نہیں آفس کا مسئلہ ہے-اس نے چائے پکڑنے کے لیئے ہاتھ بڑھایا تو چائے پکراتی محمل کی انگلیاں ذرا سی مس ہوگئی-اس نے فورا ہاتھ پیچھے کیا تو وہ بے ساختہ مسکرا دیا-
پھر چائے کا گھونٹ بھرا-
ہوں چائے تو تم اچھی بنا لیتی ہو-
اماں نے بنائی ہے-وہ جز بز سی اس کے سامنے کھڑی تھی- اونچی بھوری پونی ٹیل والی دراز قد محمل-
لائی تو تم ہو- ذائقہ ہے تمہارے ہاتھ میں-اچھا،وہ مسکرا دی-
اور یہ انگلینڈ جانے کا کیا سین ہے؟
وہ میں۔۔۔۔۔۔۔ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں-وہ سر جھکائے کھڑی انگلیاں مڑور رہی تھی-
"مگر تم جاب کرنے کا کہہ رہی تھی- مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی- وہ جائے کا کپ ایک سائیڈ پر رکھے بری سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا-
میں صرف اپنے خرچوں کے لئیے جاب کرنا چاہتی ہوں-
اور یہ اتنی بڑی بزنس ایمپائر- یہ کون سنبھالے گا؟
محمل نے جھٹکے سے گردن اٹھائی-اسے لگا اس نے غلط سنا ہے-
بزنس ایمپائر؟
ہاں تم اس کے اونرز میں سے ہو-کیا تمہارا فرض نہیں ہے تم اپنے ابا کے بزنس پر بھی دھیان دو-آخر کبھی نہ کبھی تمہیں یہ سب سنبھالنا ہے-
جی؟وہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی-
اتنی حیران کیوں ہو محمل؟وہ اٹھ کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا-محمل نے دیکھا وہ اس سے خاصا لمبا تھا-
میں۔۔۔۔۔ میں پتہ نہیں-
کیا تم یہ سب نہیں سنبھالنا چاہتی؟
میں سنبھالنا چاہتی ہوں مگر کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
تم واقعی سنبھالنا چاہتی ہو؟ فواد کے چہرے پر خوشگوار حیرت اتری- یعنی اگر میں تمہیں اپنے ساتھ آفس میں لگانا چاہوں تو تم کام کرو گی میرے ساتھ؟
جی جی بلکل-اس کا دل ایک دم کسی اور لے پر دھڑکنے لگا تھا ہاتھ لرزنے لگے تھے-
ٹھیک ہے پھر میں شام میں آغا جان سے بات کر لیتا ہوں-
وہ۔۔۔۔۔ وہ اجازت داے دیں گے؟ اس کے اندر وسوسوں نے سر اٹھایا-
شیور کیوں نہیں دیں گے- وہ مسکرا کر اسے تسلی دے رہا تھا-اور اسے سمجھ میں نہیں آرہی تھی اپنی خوشی کا اظہار کیسے کرے-ایک دم ہی اسے سب اپنی مٹھی میں اتا دکھائی دینے لگا تھا-
دولت نچھاور محبوب قدموں میں-
اب اسے اس سیاہ فام لڑکی کی کتاب کی ہرگز ضرورت نہ تھی-
وہ ہواؤں میں اڑتی واپس اپنے کمرے میں آئی تھی،
اور پھر رات میں جب فواد نے آغا جان کے سامنے اسے اپنے ساتھ کام پر لگانے کی تجویز پیش کی تھی -تو سب سے پہلے حسن نے پہلو بدلا تھا-
اس کی کیا ضرورت ہے فواد، محمل کو ابھی اپنی پڑھائی پر توجہ دینی چاہیئے- وہ ناگواری سے بولا تو محمل کو واضح برا لگا تھا- شکر تھا خاندان کی عورتیں وہاں نہ تھیں نہیں تو طوفان ہی آجاتا-
تم بیچ میں مت بولو حسن میں آغآ جان سے بات کر رہا ہوں-
"اور میں تمہاری باتوں کا مطلب اچھی طرح سمجھتا ہوں-
حسن نے ایک کٹیلی نگاہ محمل پر ڈالی-مجھے اچھی طرح پتا ہے یہاں کیا چکر چل رہا ہے،
شٹ اپ،فواد بھڑک اٹھا تو آغا جان نے دونوں کو ہی جھڑک دیا-
شٹ اپ یو بوتھ-حسن تم جاؤ اپنے کمرے میں - اور وہ فورا تیز تیز چلتا وہاں سے نکل گیا-
"اور فادی حسن ٹھیک کہہ رہا ہے-محمل کا آفس سے کوئی تعلق نہیں ہے-نہ ہی وہ کبھی آفس جائے گی-
مگر آغا جان-
آغا بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں محمل کا آفس میں کیا کام؟
"بالکل لڑکیوں کو ادھر دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے؟غفران چچا اور اسد چچا نے بھی فورا آغا جان کی تائید کردی تو محمل نے بے بسی سے مدد طلب نظروں سے فواد کو دیکھا-
اوکے جیسے آپ کی مرضی-وہ شانے اچکا کر اب جھک کر اپنے بوٹ کے تسمے بند کر رہا تھا-
اس کا دل جیسے کسی گہری کھائی میں جا گرا وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی کچن میں ائی اور سنک پر جھک کر پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی- اس کے آنسوؤں کے ساتھ سارے خواب گرتے بہتے چلے گئے-وہ اتنا روئی کہ ہچکی بندھ گئی-تو بالآخر نل کھول کر منہ پر پانی ڈالنے لگی-
اس نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ آخری بار رو رہی ہے-وہ آج کے بعد ہرگز نہیں روئے گی-اس نے تو سیدھے طریقے سے سب حاصل کرنے کا سوچا تھا- لیکن ان لوگوں کو سیدھا طریقہ راس نہیں آتا- ٹھیک ہے اب ان سے انتقام لینے کے لیئے اسے جادو یا سفلی علم کا سہارا بھی لینا پڑا تو وہ لے گی-
اسے اب صبح کا انتظآر تھا-صبح اسے بس اسٹاپ پر جا کر اس سیاہ فام لڑکی سے وہ کتاب لینی تھی-
ویسے نہیں تو ایسے سہی-
چہرے پر ٹھنڈا پانی ڈالتے ہوئے اس نے نفرت سے سوچا تھا-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
صبح اسے کالج نہیں جانا تھا- ایگزامز ختم ہو چکے تھے-مگر وہ پھر بھی بہانہ بنا کر مضصوص وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے بس اسٹاپ پر چلی گئی- اور اب مسلسل بینچ کے آس پاس ٹہل رہی تھی-
سیاہ فام لڑکی ابھی تک نہیں آئی تھی-محمل بار بار کلائی پر بندھی گھڑی دیکھتی-پھر بے چین نگاہوں سے گردن ادھر ادھر گھماتی-بھوری اونچی پونی بھی ساتھ ساتھ ہی جھولتی-اسے شدت سے اس لڑکی کا انتظآر تھا-اور آج تو لگ رہا تھا وقت بہت دیر سے گزر رہا ہے-بالآخر وہ بینچ پر بیٹھی اور سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا-
کیا میرا انتظار کر رہی تھی؟کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تو وہ کرنٹ کھا کر اٹھی-
وہ سیاہ فام لڑکی سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی-" میں تمہارا ہی ویٹ کر رہی تھی-
اور میں جانتی ہوں کہ کیوں-وہ آرام سے بینچ پر بیٹھی-بیگ کا اسٹرپ کندھے سے اتار کر ایک طرف رکھا اور کتاب احتیاط سے گود میں رکھی- پھر جیسے فارغ ہو کر محمل کا چہرہ دیکھا-
"تم تھک گئی ہو؟
ہاں میں تھک گئی ہوں میں تنگ آگئی ہوں اس دنیا میں معرے لئیے کچھ نہیں ہے کوئی نہیں ہے-
اونہوں ایسے نہیں کہتے-ابھی تو تم نے وہ کچھ لینا ہے جس کی چمک سے تمہاری آنکھیں چکا چوند رہ جائیں گی-ابھی تو تم صحیح راستے پر آئی ہو-
مجھے صحیح اور غلط کا نہیں پتہ اور نا ہی میں صحیح اور غلط کی تفریق میں پڑنا چاہتی ہوں-اس نے بے اختیار نگاہیں چرائی تھی-اپنے دل سے اپنے اندر بیٹھے گھلٹ کے آحساس سے-کوئی بات نہیں شروع شروع میں یہ کتاب مشکل لگے گی-'جیسے کوئی عزاب ہو کوئی قید ہو- مگر پھر تم عادی ہو جاؤ گی- وہ ویسے ہی مسکرائی تھی- یہ کتاب مجھ سے کیسے بات کرے گی؟
محمل سحر زدہ سی اس لڑکی کی گود میں پڑی کتاب کو دیکھ رہی تھی-
روز اس کا ایک صفحہ پڑھنا اگر مشکل لگے تو میں تمہیں کچھ ایسے لوگوں کا پتہ بتاؤں گی گو اس کتاب کا علم سکھاتے ہیں -بالکل چپ چاپ خاموشی سے اپنا کام کرتے ہیں-میں تمہیں ادھر لے جاؤں گی- وہ تمہیں اس قدیم کتاب کا علم سکھائیں گے- جس میں یہ کتاب لکھی ہوئی ہے-پھر جب تم روز اس کا ایک ایک صفحہ پڑھنے کے قابل ہو جاؤ- تو تمہیں پتی چلے گا کی ہر صفحہ تمہارے لیے yesterday کی روداد ہےاور تمہیں tomorrow کی تدابیر بتائے گی-
اور اگر میں ایڈوانس میں ایک صفحہ آگے پڑھ لوں تو؟ تو مجھے اپنے آنے والاے کل کا علم ہوجائے گا ہے نا؟نہیں تم ایک دن میں پوری کتاب بھی پڑھ لو تب بھی وہ تمہاری yesterday کی روداد ہی سنائے گی-لیکن اگر وہی صفحے تم اگلے دن پھر سے پڑھو تو وہ اس دن کے حساب سے تمہاری گزشتہ دنوں کی روداد بن جائے گا-
کیا مطلب؟وہ الجھ سی گئی-یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ایک صفحے کا ایک دن میں ہی مطلب بدل جائے-
"اگر یہ نہ ہوتا تو کیا آج تم اس کتاب اس کتاب کی طرف یوں نہ کھینچے چلے آتی؟
تم واقعی سچ کہہ رہہی ہو وہ اندر ہی اندر خود زدہ بھی تھی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment