Thursday 1 September 2016

اندھیری رات کے مسافر

ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ البسین میں ہر نا واقف آدمی کو اپنا دشمن سمجھیں اور آپ ہمارے لئے سرا سر ایک اجنبی ہیں-
ہو سکتا ہے کہ آپ کی باتوں میں ہمارے لیے جو شبہات ہیں وہ غلط ہوں اور ہمیں بعد میں نادم ہونا پڑے.
لیکن اس وقت ہمارے سامنے اس کے سوا اور کوئی مسئلہ نہیں کہ حامد مسجد تک پہنچ جائیں اور انہیں عوام سے آخری بات کہنے کا موقع مل جائے-
سلمان چلایا اللہ کے لئے ولید کو بلاو میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں.
ولید کی آواز سنائی دی دیکھئے میرے ساتھ بھی گفتگو کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا.
آپ کو شام تک بہرحال یہاں رکنا پڑے گا.
ہمیں حامد بن زہرہ کی آمد کا اعلان اس لئے کرنا پڑا کہ اس کے سوا عوام کو مسجد میں جمع کرنے کا اور کوئی طریقہ نہیں تھا.
ورنہ ہمیں ان خطرات کا پورا پورا احساس ہے جو انہیں اپنی قوم کے دشمنوں کی طرف سے ہیں-
غدار ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ان کی آواز ان کے حلق سے باہر نہ نکل سکے.
ایسے لوگوں کی شہر میں کمی نہیں جنہیں معمولی لالچ دے کر ان کے قتل پر آمادہ کیا جا سکتا ہے.
لیکن اگر آپ حامد کے حمایتی ہیں اور اس کی خیر خواہی چاہتے ہیں اور ان کی سلامتی کے متعلق پریشان ہیں تو آپ کے اطمینان کے لئے یہ کافی ہونا چاہیے کہ ان کے جانثار اپنے فرائض سے غافل نہیں ہیں.
ہم نے کسی موہوم خطرے کو بھی نظرانداز نہیں کیا. یہ باتیں میں نے آپ سے اس لئے کہی ہیں کہ میں بذات خود آپ کی طرف سے تذبذب کا شکار ہوں.
اب میں آپ سے مودبانہ گزارش کرتا ہوں آپ شام تک انتظار کریں اور ہمارے اور اپنے لئے کوئی مزید بد مزگی پیدا نہ کریں.
جب وقت آئے گا تو آپ کو ان کے سامنے پیش کر دیا جائے گا.
آخری بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ شام تک اس کمرے سے نکلنے کی آپ کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی.
اگر آپ دروازے کی کسی دراڑ سے باہر جھانک کر دیکھ سکیں تو آپ کو آٹھ آدمی پوری طرح مسلح نظر آئیں گے-
آپ یقیناً یہ پسند نہیں کریں گے کہ ان کے ہاتھوں سے ناحق مارے جائیں. اللہ حافظ.
سلمان نے کرب انگیز لہجے میں کہا-"
ولید اللہ کے لیے میری بات سنو میں حامد بن زہرہ کا دوست ہوں-ان کا بیٹا سعید اور جعفر نامی نوکر مجھے جانتے ہیں-
اگر شام سے پہلے ان میں سے کسی سے بھی بات کرنے کا موقع ملے تو اسے ضرور بتا دیجئے گا کہ ہاشم کا اعتبار نہ کریں.
ہاشم ان کے گاؤں کا ایک رئیس ہے-
میں یہ اطلاع دینے آیا تھا کہ وہ غداروں کے ساتھ ملا ہوا ہے-
اسے کسی صورت میں حامد تک رسائی کا موقع نہیں ملنا چاہیے"-
ولید نے کہا اس کا مطلب آپ اندراش سے نہیں آئے بلکہ ان کے گاؤں سے آئے ہیں اور آپ کا پہلا بیان غلط تھا-
بہرحال میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ آپ کا پیغام ان کو پہنچا دیا جائے گا اگر موقع ملا تو.
جہاں تک ہاشم کا تعلق ہے آپ کو قطعاً پریشان نہیں ہونا چاہیے غرناطہ میں ان س سے بھی زیادہ خطرناک دشمن موجود ہیں اور آپ مجھے ان کے متعلق اپنی ذمہ داری پورا کرنے سے روک رہے ہیں اللہ حافظ ! "
سلمان کچھ دیر دروازے سے دور جاتے ہوئے قدموں کی چاپ سنتا رہا اور پھر نڈھال سا ہو کر بیٹھ گیا.
کچھ دیر بعد اس کی یہ حالت تھی کہ وہ کبھی اٹھ کر کواڑ سے باہر جھانکنے کی کوشش کرتا اور کبھی بے چینی کی حالت میں ٹہلنا شروع کر دیتا.
اس قید سے آزاد ہونے کی مختلف تدبیریں اس کے ذہن میں آئیں اور اگر اسے اس بات کا یقین ہوتا کہ وہ ولید اور اس کے ساتھیوں کی اعانت کے بغیر حامد کو تلاش کر سکے گا تو وہ اس کوٹھری سے نکلنے کے لیے بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتا تھا.
تلوار اور خنجر اور طپنچے کے علاوہ اس کے پاس ایک بارود کی تھیلی بھی تھی اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ بارود سے دیوار کے کسی حصے میں شگاف ڈالنا مشکل نہیں-
اس میں خطرہ ضرور موجود تھا لیکن سلمان فطرتاً نڈر آدمی تھا.
وہ ولید کی اس دھمکی سے بھی مرعوب نہیں تھا کہ اس کو باہر نکلتے ہی تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا کرنے پڑے گا-"
اس کی ذہنی کیفیت یہ تھی کہ تھوڑی دیر کے لیے کسی خطرناک ارادہ سے اس کے خون کی گردش تیز ہو جاتی اور پھر یکایک اس کی قوت فیصلہ جواب دے جاتی-
وہ اپنے دل سے پوچھتا کیا حامد کے متعلق ولید اور اس کے ساتھیوں کے جذبات میرے جذبات سے مختلف ہیں؟ "-
کیا ان کی احتیاط کی یہ وجہ نہیں کہ میں بہرحال ان کے لیے اجنبی ہوں-
اور یہ لوگ ایسے حالات میں جی رہے ہیں کہ انہیں اپنے سائے سے بھی ڈر لگتا ہے اور اگر میں ان کی جگہ پر ہوتا تو کیا میرا طرز عمل ان سے مختلف ہوتا؟ -
اور پھر اسے محسوس ہوتا کہ ولید اس کے سامنے کھڑا یہ کہہ رہا ہے کہ میرے بھائی ہمیں تم سے کوئی عناد نہیں ہم صرف اپنا فرض ادا کر رہے ہیں.
اور تم نے کیوں سمجھ لیا کہ تمہارے علاوہ اور کسی کو حامد بن زہرہ کی زندگی عزیز نہیں ہے-"
تمہاری طرح غرناطہ کے کئی آدمی انہیں تلاش کر رہے ہیں-.ان میں حریت پسند بھی ہیں اور غدار بھی-ہمارے لئے ان سب کو پرکھنے کا وقت نہیں ہے ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ حامد قوم کے ضمیر کی آخری آواز ہے اور قوم کے مجرم ان کے خون کے پیاسے ہیں.
ہماری مستعدی اور فرض شناسی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی قیام گاہ کو تلاش نہ کر سکیں"'
سلمان کا ذہنی اضطراب آہستہ آہستہ دور ہو رہا تھا اور تقریباً ایک پہر کے وہ بستر پر لیٹا اطمینان محسوس کر رہا تھا کہ وہ اپنی سمجھ اور ہمت کے مطابق اپنا فرض پورا کر چکا ہے اور اس سے زیادہ اس کے بس کی بات بھی نہیں تھی-
پھر کچھ دیر اونگھنے کے بعد اسے نیند آ گئی
____________○______________
پیغام_________البسین کی مسجد میں حامد بن زہرہ کی آواز گونج رہی تھی:
فرزندان قوم! '
اگر تمہیں خواب غفلت سے بیدار کرنے یا اس قبرستان کا سناٹا توڑنے کے لئے میری چیخوں کی ضرورت ہے تو میں یہ آخری فریضہ ادا کرنے کی پوری پوری کوشش کروں گا-
تمہاری آزادی کے بھجتے ہوئے چراغوں کو آج خون کی ضرورت ہے لیکن ایک بوڑھا اور کمزور آدمی تمہیں آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں دے سکتا اور ایک تنہا فرد کے آنسو ایک قوم کے اجتماعی گناہوں کا کفارہ نہیں ادا کر سکتے"__________اس دنیا میں کئی سیاسی غلطیوں کی تلافی ممکن ہے-مگر.

No comments:

Post a Comment