Monday 12 September 2016

مصحف قسط نمبر 4.

مصحف
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 قسط نمبر 4

ساری رات وہ وقفے وقفے سے آنسو بہاتی رہی تھی-
ٹھیک سے سو بھی نہیں سکی تھی-صبھ اٹھی تو سر بھاری بھاری سا ہو رہا تھا- بمشکل ہی ایک سوکھا توس اور چائے کی پیالی حلق سے اتاری اور باہر نکل گئی-
اسٹاپ پہ معمول کی ٹھنڈی صبح اتری تھی- بینچ پہ وہ سیاہ فام لڑکی ویسے ہی خاموشی سے سیدھ کی جانب دیکھ رہی تھی-گود میں سیاہ جلد والی کتاب رکھی تھی-اور اس کے سیاہ ہاتھ کے کناروں پہ مضبوطی سے جمے تھے-
آج وہ قدرے تھکی تھکی اور یظمردہ تھی، سو جا کر بینچ پر بیٹھ ہی گئی- دس منٹ ہی کاٹنے تھے تو اتنا کیا احتراز برتنا- سیاہ فام لڑکی نے ذرا سی گردن اس کی جانب موڑ لی-
رات کو ٹھیک سے سوئی نئیں؟
بس ایسے ہی- وہ دوسری جانب دیکھنے لگی-
سامنے سڑک خالی تھی،دوسری طرف اکادکا لوگ بس کے منتظر سے ٹہل رہے تھے-
لوگوں کی ستائی ہوئی ہو؟
اس نے چونک کر اسے دیکھا-
آپ کیسے کہہ سکتی ہیں؟محتاط انداز میں پوچھا-
تمہارے چہرے پر لکھا ہے،تمہارا دل غمگین اور دل بوجھل ہے-تم تکلیف میں ہو اور لوگوں کی باتیں تم برداشت نہیں ہوتیں- ہے نا؟
معلوم نہیں -اس نے بظاہر لاپرواہی سے شانے اچکائے-البتہ اندر دل زور سے دھڑکا تھا-
اور تم مستقبل کے لئے خوف زدہ اور ما ضی کے بارے میں غمگین ہو شاید،،،
شاید- اب کے وہ واضح چونکی تھی- بے اختیار ہی لبوں سے پھسلا تھا-
تم اپنا مستقبل اور تمام پریشانیوں کا حل جاننا چاہتی ہو- کچھ ایسا ہو جس سے یہ تمہیں تنگ کرنے والے لوگ تمہارے آگے پیچھے پھرنے لگیں، تمہارا محبوب تمہارے قدموں میں اا گرے مال و دولت تم پہ نچھاور ہو جائے، تم سب کو اپنی مٹھی میں کرکے دنیا پہ راج کرو کیا تم یہں نہیں چاہتی؟
ہاں- محمل نے بے بسی سے اسے دیکھا- اس کا دل موم کی طرح پگھل رہا تھا-وہ سیاہ فام لڑکی اس کی ہر دکھتی رگ ہا ھ میں لے رہی تھی- میں یہی چاہتی ہوں-
اور اگر میں تمہیں کچھ ایسا دوں تو؟
کیا یہ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب؟
اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا-اسے لگ رہا تھا وہ زیادہ دیر تک resist نہ کر پائے گی-
ہاں اگر تم یہ لو گی تو سب تمہاری مٹھی میں آجائے گا سب کچھ-
محمل متذبذب سی لب کچلنے لگی-اس لڑکی کی باتیں بہت بر فریب پر کشش تھیں-اسے لگا وہ جلد ہی پھسل جائے گی-بہک جائے گی-
کیا یہ سب اتنا آسان ہے؟
شاید نہیں-
تمہیں اس کتاب کے عمل میں بہت مشکل لگے گی-مگر ایک دفعہ سیخ جاؤ گی تو سب آسان ہو جائے گا-زندگی سہل ہو جائے گی-اور پھر جن کے لیے تم روتی ہو-وہ تمہارے لئے روئیں گے-وہ تمہارے پیچھے آئیں گے-
بس کا تیز ہارن اسے ماحول میں واپس لایا- وہ چونکی اور بیگ کا اسٹرپ کندھے پہ ڈالے اٹھ کھڑی ہوئی دس منٹ ختم ہو چکے تھے-
میری بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بس کی جانب بڑھی -
دل ابھی تک زور زور سے دھک دھک کر رہا تھا-
محبوب قدموں میں-لوگ مٹھی میں دولت نچھاور اور دنیا پر راج----
کیا یہ سب ممکن تھا؟وہ اسک ے کہے گئے افاظ پر سارا راستہ غور کرتی رہی تھی-لیکن پھر بار بار خود کو جھڑک دیتی-
یہ کالے علم سفلی علم جادو ٹونے،چلے وغیرہ برے کام تھے-اسے ان میں نہیں پڑنا چاہیئے-اسے ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیئے-
کالج ک دروازے پر اترتے ہوئے اس نے فیصلہ کر لیا تھا ک وہ آئندہ اس سیاہ فام لڑکی کے قریب بھی نہیں جائے گی- بینچ پر بیٹھے گی نہ ہی اس سے بات کرے گی-اسے ڈر تھا اگر اس نے ایک بار پھر اس کی بات سن لی تو شاید وہ اسے قبول کر کے کسی ایسے گم نام رستے پر نکل پڑے جہاں سے واپسی کا سفر نا ممکن ہو-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس دن سدرہ کے رشتے کے لیئے کچھ لوگ آرہے تھے-یہ خبر مسرت نے اسے تب دی جب گھر بھر کی صفائیاں اور لڑکیوں پھرتیاں دیکھ کر ماں کی طرف آئی تھی-
ورنی پہلے جب بھی سپہر میں لاؤنج کا دروازاہ آہستہ کھول کر آتی تو گھر میں سناٹا اور ویرانی چھائی ہوتی اور آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمبی سی سامیہ بانس کے جھاڑو سے چھت کے جھالے صاف کر رہی تھی-سدرہ ڈرائنگ روم کی ڈیکوریشن کو از سر نو تر تیب دے رہی تھی-ندا ماں کے سر پہ کھڑی لان کی صفائی میں مشغول تھی-تو مہرین مہتاب تائی سے سر ہلاتی کچھ ہایت سن رہی تھی-
ایک آرزو ہی تھی جو ٹیرم پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی کانوں میں واک مین لگائے کسی میگزین کے ورق الٹ رہی تھی-بے پرواہ بے نیاز اور مغرور شکر کہ خوبصورت نہ تھی- ورنہ شاید وہ آسمان سے نیچے نہ اترتی-
رشتہ سدرہ کا ہے اور یہ خود غرض خاندان سارا کا سارا لگا ہوا ہے- مطلب؟
اونہہ آہستہ بولو-مسرت نے گھبرا کر یدھر ادھر دیکھا-پھر آہستہ سے بتانے لگی-دراصل بھابھی بیگم کا محض اندازہ ہے کہ رشتہ سدرہ کا ہی ہو گا-نعمان بھائی کی بیگم نے خصوصا کسی کا نام نہیں لیا-سو فضہ کو شاید کوئی امید ہو-
نعمان بھائی کون؟
تمہارے ابا کے دور کے رشتہ دار ہیں ان کا بیٹا فرقان ایرونائیکل انجینئر ہے- بہت اچھا گھرانا ہے اور ایک بیٹی ہے شادی شدہ آسٹریلیا میں رہتی ہے- بیگم نعمان نے کسی کے ذریعے کہلوایا ہے-
اور یہ ساری لڑکیاں اس امید پر لگی ہوئی ہیں کہ شاید ان کا رشتہ ہو جائے- واٹ ربش! وہ تمسخرانہ ہنس کر کمرے کی طرف چل دی-
شام میں مسرت نے اسے کچن میں مدد کے لیے بلوا لیا تھا-
اچار گوشت،بریانی سیخ کباب فائیڈ مچھلی اور کیا کچھ کریں گی آپ؟وہ برتنوں کے ڈھکن اٹھا اٹھا کر جھانکتے ہوئے پوچھ رہی تھی- یہ سب تو تیار ہیں تم دو میٹھی اور اشین سلاد بنا دو-اور چائے کے ساتھ سنکس بھی-
چائے بھی اور کھانا بھی؟وہ کمر پر ہاتھ رکھے حیرت سے بولی-اتنا سب کچھ کس لئے ؟کیا اتنا کال تھا سدرہ باجی کے رشتوں کے لئے؟
اونہہ آہستہ بولو-
میں کسی سے ڈرتی تھوری ہوں-ابھی جا کر منہ پر بھی بول سکتی ہوں-
اور تمہارے اس کہنے پر باتیں مجھے سننی پڑتی ہے محمل! وہ تھکن سے آزردہ سی بولیں-تو وہ خاموش سی ہو گئی-پھر دوپٹے کی گرہ کس کر کام میں ضت گئی-
چائے کی ٹرالی اس نے بہت اہتمام اور محنت سے سجائی تھی-اس وقت بھی وہ پنجوں کے بل بیٹھی ٹرالی کے نچلے حصے میں پلیٹیں سیٹ کر رہی تھی-جب تائی مہتاب کچن میں کچھ کہتی ہعئی داخل ہوئیں-سدرہ ان کے پیچھے تھی-
سب تیار ہے؟
جی اس نے بیٹھیے بیٹھے گردن اٹھائی-مہتاب تائی قدرے عجلت میں نظر آرہی تھی-
ٹھیک ہے سدرہ تم یہ لے جاؤ،اور مٹھائی کدھر ہے؟میرا خیال ہے چائے کے بعد ہی بات پکی کر دیتے ہیں-مٹھائی تب تک سیٹ کر لینا-
"وہ تو رشتہ مانگنے آئی ہیں بات اتنی جلدی پکی کر دیں گی؟ وہ ضیرانی سے ہاتھ جھاڑتی کھڑی ہوئی-
اور تائی بھی کسی اور موڈ میں تھی سو بتانے لگیں-
ہاں تو اب مزید کیا انتظار-لڑکا اتنا اچھا اور خوش شکل ہے-اور پھر ہمارے پاس کوئی کمی تھوڑی ہے-منگنی آرام سے دو مہینے تک کریں گے-اور شادی سال ڈیڑھ تک-ایسی دھوم دھام سے شادی کروں گی سدرہ کی کہ زمانہ دیکھے گا-"ان کے انداز سے تکبر کی بو آرہی تھی-
ایک لمحے کو محمل کے دل میں آیا-نفیس سی وہ خاتون جو ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہیں سدرہ کو نا پسند کر کے چلی جائیں-اور تائی صدمے سے بیمار پڑ جائیں-آخر خود پر غآصب لوگ کساے پسند ہوتے ہیں؟مگر شاید ادھر تو سب پلان ہی ب چکے تھے-
سدرہ نازک ہیل کی ٹک ٹک کرتی ٹرالی دھکیلتی ہوئی لے گئی-اور وہ خالی کچن میں خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئی-مسرت بھی مہمانوں کے پاس تھی،جانے کیسے تائی کو ان کے گھر کا فرد ہونے کا خیال آیا-اور ان کو وہی بٹھا لیا-
ٹشو محمل ٹشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناعمہ چاچھی نے زور سے آواز لگائی تو وہ تیزی سے اٹھی-
ٹشو رکھنا بھول گئی تھی؟اف یہ ٹشو کا ڈبہ اٹھا کر بھاگی،بس لاؤنج میں شیشے کے سامنے رک کر لمحہ بھر کے لیے خود کو دیکھا-
اونچی پونی سیاہ جینز پہ سفید کرتا اور گردن کے گرد مخصوص انداز میں لپٹا تائی اینڈ ڈائی دوپٹہ جسے وہ بہت سے جوڑوں کے ساتھ چلاتی تھی-یہ غالبا پچھلی سے پچھلی بقر عید پر بنوایا گیا جوڑا تھا-جو ابھی تک خاصا گھس چکا تھا-
خیر کونسا میرے رشتے کے لیے آئے ہیں-شانے اچکا کر وہ ڈراینگ روم کی طرف بھاگی-
نفیس اور باوقار بیگم نعمان بڑے صوفے پر بری تکلف سے بیٹھیں مسکراتے ہوئے تائی مہتاب کی باتیں سن رہی تھیں-اسے آتا دیکھ کر قدرے خوش دلی سے اٹھ کھڑی ہوئیں-
"محمل بیٹا آپ اب آئی ہو؟کب سے پوچھ رہی تھی تمہاری تائی سے وہ ایک دم سے گربڑا سی گئی-لیکن سنبھل کر آگے بڑھ کے ملی-
اسلام علیکم-
وعلیکم اسلام- اتنی دیر سے پوچھ رہی تھی تمہارا-
وہ میں-
ہاں آئی نو بیٹا تم اس اہتمام میں لگی ہوئی تھی-مجھے یاد ہے جب میں کریم بھائی کی عیادت کے لیے آئی تھی اس اکیلی بچی نے سارا کھانا بنایا تھا-وہ اسے پاس بیٹھاتے پیار سے دیکھتے ،دو برس پرانی بات دہرا رہی تھیں-
وہ گھبرا کر کبی تائی کے تنے نقوش کو دیکھتی تو کبھی سدرہ کی متغیر ہوتی رنگت کو-وہ تو بس ٹشو دینے آئی تھی-پھر اتنا استقبال چہ معنی وارو-
"آپ یہ ڈرم اسٹکس لاین نہ بھابھی؟یہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تائی نے ان کا دھیان بٹانے کے لیے بولا-
ارے یہ تو میری فیورٹ ہے-محمل تم نے بنائی ہے نا؟مجھاے یاد ہے تم نے اس دفعہ بھی کھانے میں یہ بنائی تھیں-اور فری(بیٹی) نے اسپیشلی تم سے ریسیپی بھی لی تھی-
اور اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا- وہ کیا کرے-
بے بسی و بے چارگی سے وہ سر ہلا پا رہی تھی-ادھر تائی مہتاب اب پریشان ہورہی تھیں-یہی تو ہمیشہ سے ہوتا آرہا تھا سدرہ کے رشتے کے لیے آنے والی ہر مہمان کو وہ مسرت اور محمل کی بنائی ہوئی چیزیں- یہ میری سدرہ نے بنائیں ہیں کہہ کر پیش کرتیں- مگر جانے کب وہ خاتون گھر کی ساری سن گن لاے گئی تھیں-
بس بھابھی لڑکیاں ماشاءاللہ سب ہی سگھڑ ہیں-ہمارے گھر میں-فضہ چاچی نے بظاہر مسکرا کر بات سنبھالی مگر قدرے بے چین وہ بھی تھیں-کہیں کچھ بہت غلط تھا-
"جی مگر یہ سب تو سدرہ نے بنایا ہے-بے چاری صبح سے لگی ہوئی تھی-مسرت نے جلدی سے کہا-جی جی تائی مہتاب نے تائید کی-
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے :)

No comments:

Post a Comment