Monday 15 May 2017

داستان ایمان فروشوں کی


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔57 اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ وہاں ٹیلہ ختم ہوجاتا تھا۔ اسے اپنے بالکل نیچے دو آدمی نظر آئے جن کے منہ اور سر سیاہ کپڑوں میں لپٹے ہوئے تھے۔ وہ ٹیلے کی اوٹ سے ان آدمیوں اور لڑکیوں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ بلاشک وشبہ صحرائی ڈاکو تھے اور ان کی نظر لڑکیوں پر تھی۔ یہ دو نقاب پوش پیچھے ہٹ آئے۔ انہوں نے آپس میں جس زبان میں باتیں کیں، وہ علی بن سفیان کی مادری زبان تھی۔
''ان کے پاس ہتھیار ہیں''… ایک ڈاکو نے کہا۔
 ''ہاں''… دوسرے نہ کہا…''میں نے دیکھ لیا ہے۔ ان کی تلواریں سیدھی ہیں۔ یہ عیسائی ہیں''۔
''یہ عام قسم کے مسافر معلوم نہیں ہوتے''۔
''انہیں سوجانے دو، سب کو بلا لاتے ہیں''۔
''ہم آٹھ آدمی انہیں سوتے میں ہی پکڑ سکتے ہیں''۔
 ''پکڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ آدمیوں کو سوتے میں ختم کردیں گے اور لڑکیوں کو گھوڑوں پر ڈال لیں گے''۔
 وہ دونوں اپنے ساتھیوں کو بلانے کے لیے چل پڑے۔ علی بن سفیان نے چھپ چھپ کر ان کا تعاقب کیا۔ وہ کسی اور راستے سے باہر نکل گئے۔ وہاں ان کے گھوڑے کھڑے تھے۔ وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور اندھیرے میں غائب ہوگئے۔ علی بن سفیان کا قافلہ اسی طرف قیام کیے ہوئے تھے جدھر ڈاکو نہیں گئے تھے۔ علی بن سفیان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ وہ ان لوگوں کو خبردار کردے یا انہیں اپنے قافلے میں لے جائے۔ گہری سوچ بچار کے بعد اس نے ایک طریقہ سوچ لیا۔ اپنے آدمیوں میں واپس آیا۔ بیس بائیس آدمیوں کو برچھیوں سے مسلح کرکے اپنے ساتھ لے گیا۔ انہیں موزوں جگہوں پر تیار کھڑا کردیا اور اچھی طرح سمجھا دیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ وہ خود بھی چوکس اورہوشیار رہا اور ادھر ادھر گھومتا رہا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ ڈاکو کس وقت آئیں گے۔ اس نے دیکھا کہ لڑکیاں اور ان کے ساتھ آدمی سو گئے ہیں۔ صرف ایک آدمی برچھی ہاتھ میں لیے ٹہلتا رہا۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ لوگ تربیت یافتہ ہیں۔ اس آدمی کو انہوں نے سنتری کھڑا کیا تھا۔ مشعلیں جلتی رہیں۔
٭ ٭ ٭
 سحر ہوچلی تھی جب ٹیلوں کے اندر گھوڑوں کے چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ سب ہوشیار ہوگئے۔ لڑکیوں کا سنتری بدل گیا تھا۔ اب دوسرا آدمی پہرہ دے رہا تھا۔ ڈاکو ٹیلوں کے درمیان تھے اور علی بن سفیان اور اس کے آدمی ٹیلوں کے اوپر تھوڑی دیر بعد آٹھ نو ڈاکو اس جگہ داخل ہوئے جہاں ان کا شکار سویا ہوا تھا۔ سنتری گھبرا گیا۔ اس نے جلدی سے اپنے ساتھیوں کو جگایا۔ ڈاکوئوں نے ان کے گرد گھیرا ڈال لیا اور گھوڑوں سے کود آئے۔ لڑکیوں کے ساتھ آدمی جاگ اٹھے مگر ڈاکوئوں نے انہیں ہتھیار اٹھانے کی مہلت نہ دی۔ ایک نے للکار کر کہا… ''اپنا سامان اور لڑکیاں ہمارے حوالے کردو اور اپنی جانیں بچائو''… اس نے لڑکیوں سے کہا… ''تم اس طرف آجائو، ماری جائو گی''… دو ڈاکوئوں نے انہیں دھکیل کر ایک طرف کردیا۔ ان کے آدمی نہتے تھے۔ پھر بھی دو نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ وہ واقعی تربیت یافتہ تھے۔ بے جگری سے لڑے۔
 علی بن سفیان کی آواز پر جو اس نے پہلے مقرر کررکھی تھی، اس کے آدمی عقابوں کی طرح ٹیلوں سے اترے اور ڈاکو ابھی سمجھ ہی نہ پائے تھے کہ یہ کون لوگ ہیں، ایک ایک برچھی ایک ایک ڈاکو کے جسم میں داخل ہوچکی تھی۔ اس سے پہلے ڈاکوئوں کے ہاتھوں لڑکیوں کے ساتھ کے دو آدمی مارے جا چکے تھے، جس کا علی بن سفیان کو کوئی افسوس نہیں تھا، وہ غالباً یہی چاہتا تھا کہ ان میں سے دو آدمیوں کا خون ہوجائے تاکہ دوسروں پر، خصوصاً لڑکیوں پر دہشت طاری ہوجائے۔ علی بن سفیان نے اپنے آدمیوں کو ٹیلوں پر چڑھا دیاا ور ان لوگوں کے پاس بیٹھ گیا۔ لڑکیاں بہت ہی ڈری ہوئی تھیں۔ ان کے سامنے دو لاشیں اپنے ساتھیوں کی اور نو لاشیں ڈاکوئوں کی پڑی تھیں۔ علی بن سفیان نے ان کی زبان میں ان آدمیوں اور لڑکیوں سے باتیں شروع کردیں۔ وہ لوگ اس کے اس قدر ممنون تھے جیسے اس کے مرید بن گئے ہوں۔ اس نے انہیں موت کے منہ سے نکالاتھا۔ ان سے اس نے پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جارہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا تو علی بن سفیان مسکرایا اور بولا… ''اگر تم لوگ مجھ سے یہ سوال پوچھتے تو میں بھی ایسا ہی غلط جواب دیتا۔ میں تمہاری تعریف کروں گا کہ اتنی خوفزدگی میں بھی تم نے اپنا پردہ نہیں اٹھایا''۔
 ''تم کہاں سے آئے ہو؟''… ایک نے اس سے پوچھا… ''اور کہاںجارہے ہو؟''
 ''جہاں سے تم آئے ہو''… علی بن سفیان نے جواب دیا… ''اور وہیں جارہا ہوں جہاں تم جارہے ہو۔ہمارے کام مختلف ہیں، منزل ایک ہی ہے''۔
 انہوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، حیران سے ہوئے اور علی بن سفیان کو دیکھنے لگے۔ وہ مسکرا رہا تھا۔ اس نے کہا… ''کیا تم نے دیکھا تھا کہ میں نے کیسی چال سے ان ڈاکوئوں کو ختم کردیا ہے؟ کیا کوئی مسافر یا کوئی قافلہ ایسی چال چل سکتا ہے؟ کیا یہ ایک تربیت یافتہ کمانڈر کی استادی نہیں جو میں نے دکھائی ہے؟''
''تم مسلمان فوجی بھی ہوسکتے ہو؟''
''میں صلیب کا سپاہی ہوں''… علی بن سفیان نے جواب دیا۔
''کیا تم اپنی صلیب دکھا سکتے ہو؟''
 ''کیا تم اپنی اپنی صلیب مجھے دکھا سکتے ہو؟''… علی بن سفیان نے پوچھاا ور سب کی طرف دیکھ کر کہا… ''تم نہیں دکھا سکتے۔ تمہارے پاس صلیبیں نہیں ہیں، کیونکہ جس کام کے لیے تم جارہے ہو، اس میں صلیب ساتھ نہیں رکھی جاسکتی۔ میں تم سے تمہارے نام نہیں پوچھوں گا۔ اپنا نام بھی نہیں بتائوں گا۔ اپنا کام بھی نہیں بتائوں گا۔ صرف یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں اور ہم سے معلوم نہیں کون کون اپنے وطن کو واپس لوٹ سکے گا۔ ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔ خداوند یسوع مسیح نے جس طرح مجھے اور میرے آدمیوں کو تمہاری مدد کے لیے بھیجا ہے، یہ نشانی ہے کہ تم صحیح راستے پر ہو اور تم کامیاب ہوگے۔ نورالدین زنگی کی موت اس حقیقت کی نشانی ہے کہ دنیا پر صلیب کی حکومت ہوگی۔ مسلمانوں کا کون سا امیر رہ گیا ہے جو ہمارے جال میں نہیں آگیا؟ میں تمہیں یہی نصیحت کروں گا کہ ثابت قدم رہنا''… اس نے لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہا… ''تمہارا کام سب سے زیادہ خطرناک اور نازک ہے۔ خداوند یسوع مسیح تمہارے قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔ ہم جو مرد ہیں، وہ اپنی جان دے کر دنیا کی مشکلات سے آزاد ہوجاتے ہیں۔ تمہاری کوئی جان نہیں لیتا۔ تم سے آبرو کی قربانی لی جاتی ہے اور یہی سب سے بڑی قربانی ہے''۔
 علی بن سفیان استاد تھا۔ اس کی زبان میں ایسا طلسم تھا کہ وہ سب دم بخود ہوگئے۔ تھوڑی سی دیر میں اس نے ان سے کہلوالیا کہ وہ صلیبی ہیں اور تخریب کاری کے لیے دمشق اور دیگر علاقوں میں جارہے ہیں۔ وہ بھی تاجروں کے بھیس میں تھے۔ علی بن سفیان صلیبیوں کے نظام جاسوسی کی خفیہ باتیں اور اصطلاحیں جانتا تھا۔ اس وقت تک وہ بے شمار صلیبی جاسوس پکڑ کر ان سے اقبال جرم کروا چکا تھا۔ اس نے جب ان اصطلاحوں میں باتیں کیں تو لڑکیوں اور ان کے ساتھ آدمیوں کو نہ صرف یہ یقین ہوگیا کہ وہ صلیبی جاسوس ہے بلکہ وہ اسے جاسوسوں کا کمانڈر سمجھنے لگے۔ اس نے انہیں بتایا کہ اس کے ساتھ ایک سو آدمی ہیں۔ا ن میں لڑاکا جاسوس بھی ہیں اور فدائی بھی جو دمشق وغیرہ میں ان اعلیٰ افسروں کو قتل کرنے یا غائب کرنے جارہے ہیں جو صلاح الدین ایوبی کے مکتب فکر کے پیروکار ہیں۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ لمبے عرصے سے مصر میں کام کررہا تھا۔ اب اسے ادھر بھیجا جارہا ہے۔
 اس گروہ نے علی بن سفیان کے سامنے اپنا پردہ اٹھا دیا ور ایک مشکل پیش کی۔ وہ یہ تھی کہ ان کا کمانڈر ڈاکوئوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ وہ ان علاقوں میں پہلے بھی آچکا تھا، جہاں وہ جارہے تھے۔ اس کے مارے جانے کے بعد وہ اندھے ہوگئے تھے۔ انہیں ایک رہنما کی ضرورت تھی۔ علی بن سفیان نے انہیں تسلی دی کہ وہ اپنے مشن سے ہٹ کر ان کی رہنمائی کرے گا، وہ اسے اپنا مشن بتا دیں۔ انہوں نے بتادیا۔ انہیں چند ایک سالاروں کے نام بتا کر کہا گیا تھا کہ ان تک تحفے پہنچانے ہیں اور لڑکیوں کو ضرورت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ ایسے سالاروں اور امیروں تک رسائی حاصل کرنی ہے جو صلیبیوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ انہیں صلیبیوں کا دوست بنانا ہے۔
 ''اس مرحلے میں آکر میرا اور تمہارا کام ایک ہوجاتا ہے''… علی بن سفیان نے کہا… ''مجھے ان سالاروں اور قائدین کو ختم کرنا ہے جو دل سے صلیب کی دشمنی نہیں نکال رہے… تم دمشق میں کہاں قیام کرو گے؟''
 ''تم دیکھ رہے ہو کہ ہم تاجر بن کر جارہے ہیں''… ایک نے جواب دیا… ''دمشق کے قریب جا کر یہ لڑکیاں باپردہ مسلمان عورتیں بن جائیں گی۔ ہم سرائے میں قیام کریں گے۔ وہاں سے تاجروں کے بھیس میں سالاروں وغیرہ تک جائیں گے''۔
٭ ٭ ٭
 اگلی صبح علی بن سفیان کا قافلہ دمشق کی سمت جارہا تھا۔ یہ صلیبی آدمی اور لڑکیاں بھی اس قافلے میں شامل ہوگئی تھیں۔ جانوروں میں ڈاکوئوں کے گھوڑوں کا اضافہ ہوگیا تھا۔ صلیبیوں نے علی بن سفیان کو اپنا لیڈر بنا لیا تھا۔ ان کی نظر میں وہ صلیبی تھا۔ اس نے انہیں کہا تھا کہ وہ اس کے کسی آدمی کے ساتھ بات نہ کریں کیونکہ ان میں مسلمان بھی ہیں جو بیشک فدائی اور تخریب کار ہیں لیکن ان کا کوئی بھروسہ نہیں۔ راستے میں علی بن سفیان نے ان صلیبیوں کو اپنے ساتھ رکھا اور ان سے باتیں پوچھتا رہا۔ اسے کام کی بہت سی باتیں معلوم ہوگئیں۔
 اگلے روز قافلہ دمشق میں داخل ہوا۔ علی بن سفیان کی ہدایت پر سرائے میں جانے کے بجائے قافلے نے ایک میدان میں خیمے گاڑ دئیے۔ لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ باہرسے جب تاجروں کے قافلے آتے تھے تو لوگ ان کے گرد جمع ہوجایا کرتے تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ مال دکانوں میں جانے سے پہلے قافلے سے ہی خرید لیا جائے، وہاں سے کم قیمت پر اشیاء مل جاتی تھیں۔ علی بن سفیان نے اعلان کیا کہ دس گھوڑے بھی بکائو ہیں۔ اس ہجوم میں دمشق کے تاجر اور دکاندار بھی تھے۔ دوچار گھنٹوں میں وہاں میلہ لگ گیا۔ علی بن سفیان نے اپنے آدمیوں سے کہہ دیا کہ وہ مال روکے رکھیں اور جلدی فروخت نہ کریں۔ اتنا زیادہ ہجوم دیکھ کر اس نے اپنے چند ایک ذہین آدمیوں سے کہا کہ وہ لوگوں میں گھل مل جائیں اور ان کے خیالات معلوم کریں۔ یہ آدمی اس کام کے ماہر تھے۔ وہ چغے اتار کر ہجوم میں شامل ہوگئے۔ ان میں سے دو تین شہر میں چلے گئے۔
 علی بن سفیان اور اس کے تمام آدمیوں نے مغرب کی نماز مختلف مسجدوں میں تقسیم ہوکر پڑھی۔ صلیبیوں کو وہ خیمہ گاہ میں چھوڑ گئے تھے۔ مسجدوں میں انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ وہ قاہرہ سے آئے ہیں اور تاجر ہیں۔ لوگوں کے ساتھ گپ شپ کے انداز میں انہوں نے ان کے خیالات معلوم کرلیے۔ لوگوں کے خیالات اور جذبات امید افزا تھے۔ ان میں کچھ بھڑکے ہوئے بھی تھے۔ وہ نئے خلیفہ اور امراء کے خلاف باتیں کرتے تھے اور ان میں اونچی حیثیت کے لوگ بھی تھے جو جانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ دنیائے اسلام کو صلیب للکار رہی ہے اور اپنی خلافت عیاش امراء کے ہاتھ آگئی ہے۔ وہ بہت پریشان تھے اور کہتے تھے کہ زنگی کے بعد صرف صلاح الدین ایوبی ہے جو اسلام کا نام زندہ رکھ سکتا ہے۔
 علی بن سفیان نے اپنے آدمیوں کو بتا دیا تھا کہ یہ لڑکیاں اور آدمی صلیبی ہیں اور ان پر یہی ظاہر کرتے رہیں کہ ہم سب صلیب کے مشن پر آئے ہیں۔ انہیں کوئی شک نہیں ہوا تھا۔ علی بن سفیان نے انہیں بتایا تھا کہ وہ ا ج رات آرام کریں اور اس کی ہدایت کا انتظار کریں۔ رات کو وہ ایک سالار توفیق جواد کے گھر چلا گیا۔ وہ تاجروں کے بھیس میں تھا اور مصنوعی داڑھی لگا رکھی تھی۔ اس نے دربان سے کہا کہ اندر اطلاع دو کہ قاہرہ سے آپ کا ایک دوست آیا ہے۔ دربان نے اندر اطلاع دی تو علی بن سفیان کو اندر بلا لیا گیا۔ توفیق جواد اسے پہچان نہ سکا۔ علی بن سفیان نے بات کی تو توفیق جواد نے اسے پہچان لیا اور گلے لگا لیا۔ علی بن سفیان کو اس شخص پر بھروسہ تھا۔ اس نے اپنے آنے کا مقصد بتایا اور یہ بھی بتایا کہ وہ کچھ صلیبی جاسوسوں اور لڑکیوں کو پھانس لایا ہے اور اب یہ سوچنا ہے کہ انہیں کس طرح استعمال کیا جائے۔
 ''اس سے پہلے مجھے یہ بتائو کہ یہاں کے اندرونی اور بیرونی حالات کیا ہیں؟'' … علی بن سفیان نے اس سے پوچھا… ''قاہرہ میں بڑی تشویشناک خبریں پہنچی ہیں''۔
 توفیق جواد نے ان تمام خبروں کی تصدیق کی جو قاہرہ پہنچی تھیں۔ اس نے کہا… ''علی بھائی! تم اسے خانہ جنگی کہو گے لیکن صلیبی خطرے کو روکنے کے لیے صلاح الدین ایوبی کو خلافت کے خلاف فوج کشی کرنی پڑے گی''۔
 ''اگر ہم قاہرہ سے فوج لائیں تو کیا یہاں کی فوج ہمارا مقابلہ کرے گی؟'' علی بن سفیان نے پوچھا۔
 ''تم لوگ حملے کے انداز سے نہ آئو''… توفیق جواد نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی یہ ظاہر کریں کہ وہ خلیفہ سے ملنے آئے ہیں اور خلیفہ کی تعظیم کے لیے فوج کے کچھ دستے ساتھ لائے ہیں اگر امراء کی نیت ٹھیک ہوئی تو وہ استقبال کریں گے، دوسری صورت میں ان کا ردعمل سامنے آجائے گا۔ جہاں تک یہاں کی فوج کا تعلق ہے، میں وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ فوج تمہارا مقابلہ نہیں کرے گی بلکہ تمہارا ساتھ دے گی مگر یہ بھی ذہن میں رکھو کہ تم جتنا وقت ضائع کروں گے یہ فوج اتنی تم سے دور ہٹتی جائے گی۔ اس فوج کا وہ جذبہ مارنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں جو اسلامی فوج کی اصل قوت ہے۔ تم جانتے ہو علی بھائی! حکمران جو عیش وعشرت کے دلدادہ ہوتے ہیں، وہ سب سے پہلے دشمن کے ساتھ سمجھوتہ کرتے ہیں تاکہ جنگ وجدل کا خطرہ ٹل جائے۔ پھر وہ فوج کو کمزور کرتے ہیں اور ایسے سالاروں کو منظور نظر بناتے ہیں جو خدائی احکام کے بجائے ان کی خواہشات کے پابند ہوں۔ وہ صلاح الدین ایوبی جیسے سالاروں کو پسند نہیں کرتے، یہ عمل یہاں شروع ہوچکا ہے۔ ہمارے اعلیٰ رتبوں کے چند ایک فوجی افسر اپنے جذبے اور ایمان سے دست بردار ہوچکے ہیں۔ ابھی مجھ جیسے ایسے سالار بھی ہیں جو صلیبیوں کو کبھی دوست نہیں کہیں گے اور نورالدین زنگی کے جذبہ جہاد کو زندہ رکھیں گے مگر وہ اپنے طور پر خلافت کے احکام کے بغیر کیا کرسکتے ہیں؟''
 ''کیا میں سلطان ایوبی سے یہ کہہ دوں کہ یہاں کی فوج ہمارا ساتھ دے گی؟''… علی بن سفیان نے پوچھا۔
 ''ضرور کہہ دو''… توفیق جواد نے جواب دیا… ''البتہ خلیفہ کے محافظ دستے (باڈی گارڈز) اور امراء کے محافظ دستے تمہارے خلاف لڑیں گے۔ ان دستوں کی نفری کم نہیں اور ان میں چنے ہوئے سپاہی ہیں۔ جب سے زنگی فوت ہوئے ہیں، ان دستوں کی خاطر ومدارت پہلے سے زیادہ ہونے لگی ہے۔ انہیں غالباً جنگ کے لیے تیار کیا جارہا ہے''۔
 ''یہاں کے لوگوں میں مجھے جو قومی جذبہ نظر آیا ہے، اس سے مجھے توقع ہے کہ ہم یہاں آئے تو کامیاب ہوں گے''… علی بن سفیان نے کہا۔
 ''قوم اتنی جلدی بے حس نہیں ہوسکتی''… توفیق جواد نے کہا… ''جس قوم نے اپنے بیٹے شہید کرائے ہوں، وہ اپنے دشمن کو کبھی نہیں بخشتی اور جس فوج نے دشمن سے دو دو ہاتھ کیے ہوں، اسے اتنی جلدی سرد نہیں کیا جاسکتا مگر حکمرانوں کے پاس ایسے ایسے ہتھکنڈے ہوتے ہیں جو قوم اور فوج کو مردہ کردیا کرتے ہیں۔ اب قوم اور فوج میں نفاق پیدا کیا جارہا ہے۔ قوم کی نظر میں فوج کو گرایا جارہا ہے''۔
 ''میں محترم نورالدین زنگی کی بیوہ سے ملنا چاہتا ہوں''… علی بن سفیان نے کہا… ''وہ خلیفہ کی والدہ بھی ہیں۔ انہوں نے سلطان ایوبی کی خدمت میں پیغام بھیجا تھا کہ وہ اسلام کی آبرو کو بچائیں… کیا یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ انہیں یہاں بلا لیا جائے؟''
 ''کل ہی ان سے ملاقات ہوئی تھی''… توفیق جواد نے کہا… ''میں انہیں بلا سکتا ہوں۔ تمہارا نام سن کر وہ فوراً آجائیں گی''۔
 توفیق جواد نے اپنی خادمہ کو بلا کر کہا کہ خلیفہ کی والدہ کے ہاں جائو، میرا سلام کہنا ور ان کے کان میں کہنا کہ قاہرہ سے کوئی آیا ہے۔
٭ ٭ ٭
 جب علی بن سفیان توفیق جواد کے پاس بیٹھا تھا، اس وقت اس کی خیمہ گاہ میں رونق تھی۔ رات خاصی گزر گئی تھی۔ خریداروں کا ہجوم بہت دیر ہوئی جاچکا تھا۔ علی بن سفیان کے ایک سو آدمیوں نے لمبا سفر طے کیا تھا۔ وہ بازار سے دنبے اور بکرے لے آئے تھے، جنہیں ذبح کرکے وہ کھا رہے تھے اور ہنسی مذاق میں مصروف تھے۔
 ، لڑکیاں ایک خیمے میں تھی۔ صلیبی مرد علی بن سفیان کے آدمیوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے شراب نکال لی، تاکہ محفل کی رونق دوبالا ہوجائے۔ انہوں نے سب کو شراب پیش کی تو سب نے انکار کردیا۔ صلیبی حیران ہوئے۔ علی بن سفیان نے انہیں بتایا تھا کہ ان میں مسلمان بھی ہیں اور عیسائی بھی جو مسلمان تھے، ان کے متعلق بتایا گیا تھا کہ فدائی ہیں، یعنی وہ برائے نام مسلمان ہیں۔ اصل میں وہ حسن بن صباح کے فرقے کے تھے جو شراب کو حرام نہیں سمجھتے تھے۔ صلیبیوں کو کچھ شک ہوا۔ وہ آخر تربیت یافتہ جاسوس تھے۔ انہوں نے دو چار اور ایسی نشانیاں دیکھ لیں جن سے ان کا شک پختہ ہوگیا۔ وہ ایک ایک کرکے وہاں سے اس طرح اٹھنے لگے جیسے خیمے میں سونے جارہے ہوں۔
 انہوں نے لڑکیوں سے کہا کہ وہ اپنے فن کا مظاہرہ کریں اور دیکھیں کہ یہ کون لوگ ہیں۔ ایک لڑکی نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا۔ وہ یہ کہہ کر باہر نکلی کہ یہ خیمہ خالی کردو۔ وہ کچھ دیر ادھر ادھر گھومتی پھرتی رہی۔ بہت دیر بعد علی بن سفیان کا ایک آدمی اٹھ کر اس کی طرف آیا۔ وہ معلوم نہیں کیوں اٹھا تھا۔ لڑکی نے اسے روک لیا اور کہا کہ خیمے میں بیٹھے بیٹھے اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ اس لیے باہر نکل آئی۔ وہ مردوں کو انگلیوں پر نچانا جانتی تھی۔ اس آدمی کو اس نے ایسی باتوں میں جکڑ لیا کہ وہ بھول ہی گیا کہ وہ کس طرف جارہا تھا۔ لڑکی نے کہا… ''یہ آدمی جو ہمارے ساتھ ہیں، بہت برے آدمی ہیں، ہم تمہاری طرح یہاں کسی اورکام سے آئی ہیں لیکن یہ ہمیں بہت پریشان کرتے ہیں۔ کیا ایسے ہوسکتا ہے کہ میرے خیمے میں آکر سوئو؟ میں ان سے بچی رہوںگی''… اور اس نے ایسی اداکاری کی کہ یہ آدمی موم ہوگیا اور اس کے ساتھ اس کے خیمے میں چلا گیا۔
 خیمے میں چھوٹی قندیل جل رہی تھی۔ لڑکی نے روشنی میں اس آدمی کو دیکھا تو بڑی ہی پرکشش اور جذباتی مسکراہٹ سے کہا… ''اوہ! تم تو بہت خوبصورت آدمی ہو۔ تم میری حفاظت کرسکو گے''۔ اس نے شراب کی چھوٹی سی صراحی اٹھا کر کہا…''تھوڑی سی پیوئو گے؟''
''نہیں!''
''کیوں؟''
''میں مسلمان ہوں''۔
 ''اگر اتنے پکے مسلمان ہو تو صلیب کے لیے مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے کیوں آئے ہو؟''
وہ آدمی چونکا۔ اس نے کہا… ''اس کی مجھے اجرت ملتی ہے''۔
 لڑکی جتنی خوبصورت تھی، اس سے کہیں زیادہ چالاک تھی۔ اپنے یہ دونوں ہتھیار استعمال کرکے اس نے علی بن سفیان کے اس آدمی کے دل ودماغ پر قبضہ کرلیا۔ اس نے کہا… ''شراب نہ پیو، شربت پی لو''۔ وہ دوسرے خیمے میں چلی گئی اور ایک پیالہ اٹھا لائی۔ اس آدمی نے پیالہ ہاتھ میں لے کر منہ سے لگایا تو مسکرا کر پیالہ رکھ دیا۔ لڑکی سے پوچھا… ''اس میں کتنی حشیش ڈالی ہے؟''
 لڑکی کو دھچکہ سا لگا لیکن سنبھل گئی اور بولی… ''زیادہ نہیں۔ اتنی سی ڈالی ہے جتنی تمہیں ذرا سی دیر کے لیے بے خود کردے''۔
''کیوں؟''
 ''کیونکہ میں تم پر قبضہ کرنا چاہتی ہوں''… اس نے سنجیدگی سے کہا… ''اگر تمہیں میری باتیں بری لگیں تو اپنا خنجر میرے دل میں اتار دینا۔ میں تمہیں اتفاقیہ نہیں ملی تھی۔ میں نے تمہیں اٹھتے اور ادھر آتے دیکھ لیا تھا۔ میں تمہارے راستے میں کھڑی ہوگئی تھی۔ سفر کے دوران میں تمہیں بڑی غور سے دیکھتی رہی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے ہم کبھی اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ تم میرے دل میں اتر گئے ہو۔ تم نے دیکھا ہے کہ میں نے تمہیں شراب پیش کی تھی، خود نہیں پی تھی۔ میں شراب نہیں پیتی کیونکہ میں مسلمان ہوں۔ یہ لوگ مجھے زبردستی پلاتے ہیں''۔
وہ چونک کر بولا… ''تم ان کافروں کے ساتھ کیسے آگئیں؟''
 ''بارہ سال سے ان کے ساتھ ہوں''… لڑکی نے جواب دیا۔ ''میں یروشلم کی رہنے والی ہوں۔ اس وقت میری عمرہ بارہ سال تھی۔ جب مجھے باپ نے فروخت کیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے خریدار عیسائی ہیں۔ انہوں نے مجھے اس کام کی ٹریننگ دی جس کے لیے میں آئی ہوں۔ میں دمشق اور بغداد کا نام سنا کرتی تھی اور یہ نام مجھے اچھے لگتے تھے۔ اس سرزمین پر قدم رکھا ہے تو اس کی ہوائوں نے میرے اندر میرا مذہب بیدار کردیا ہے۔ میں مسلمان ہوں۔ مسلمانوں کی تباہی کے لیے میں کوئی کام نہیں کرسکوں گی''… اس نے جذباتی لہجے میں کہا… ''میرا دل رو رہا ہے، میری روح رو رہی ہے''… اس نے اس آدمی کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے سینے پر رکھ لیے اور کہا… ''تم بھی مسلمان ہو، آئو بھاگ چلیں۔ مجھے جہاں لے جائو گے، چلوں گی۔ ریگستان میں لیے پھرو گے تو خوشی سے تمہارے ساتھ رہوں گی۔ تم بھی اپنی قوم کو دھوکہ دینے سے باز آجائو۔ ہمارے پاس سونے کے بہت سے سکے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہاں پڑے ہیں۔ آسانی سے چرالائوں گی''۔
 علی بن سفیان کا یہ آدمی تھا تو عقل مند لیکن لڑکی کے جھانسے میں آگیا۔ اسے اپنی ڈیوٹی یاد آگئی تھی۔ اسی لیے اس نے حشیش نہیں پی تھی۔ وہ حشیش کی بو سے واقف تھا۔ اس نے لڑکی سے پوچھا کہ وہ اور اس کی پارٹی یہاں کیا کرنے آئی ہے۔ لڑکی نے بتادیا۔ اس آدمی نے کہا… ''میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تم یہاں مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکو گی۔ اگر تم سچے دل سے اس کام سے متنفر ہوگئی ہو تو تم خوش قسمت ہو کہ تم ہمارے دھوکے میں آگئی ہو۔ اب تم ہمارے ساتھ رہو گی۔ ہم میں سے کوئی بھی صلیب کا جاسوس نہیں۔ہم سب مصر کی فوج کے لڑاکا جاسوس ہیں''… لڑکی جوش مسرت سے اس کے ساتھ لپٹ گئی۔ اس آدمی نے کہا… ''میں اپنے کمانڈر سے کہوں گا کہ تمہیں دوسری لڑکیوں سے الگ رکھے اور کسی امیر وغیرہ کے حوالے نہ کرے''۔
 لڑکی بیتابی سے اس کے ہاتھ چومنے لگی۔ اس کا فریب کامیاب ہوگیا۔ علی بن سفیان کا اتنا ہوشیار جاسوس ایک لڑکی کے فریب کا شکار ہوگیا۔
 ''ذرا ٹھہرو''… لڑکی نے کہا… ''میں دیکھ آئوں کہ میرے ساتھی سو گئے ہیں یا نہیں''… وہ خیمے سے نکل گئی۔
٭ ٭ ٭
 علی بن سفیان سالار توفیق جواد کے گھر بیٹھا نورالدین زنگی کی بیوہ کا انتظار کررہا تھا۔ اسلام کے عظیم مجاہد کی بیوہ نے قاصد کے ذریعے صلاح الدین ایوبی تک اپنے جذبات پہنچا دیئے تھے پھر بھی اس سے ملنا ضروری تھا۔ بہت سی معلومات لینی اور اقدام طے کرنے تھے۔ کچھ دیر بعد یہ پرعظمت عورت آگئی۔ وہ سیاہ اوڑھنی میں تھی۔ علی بن سفیان کو پہچان نہ سکی کیونکہ وہ مصنوعی داڑھی میں تھا۔ جب پہچان لیا تو اس کے آنسو بہنے لگے۔ کہنے لگی… ''یہ وقت بھی ہماری قسمت میں لکھا تھا کہ ہم ایک دوسرے کو یوں چھپ کر اور بہروپ دھار کر ملیں گے۔ تم یہاں سراونچا کرکے آیا کرتے تھے۔ اب اس حال میں آئے ہو کہ کوئی تمہیں پہچان نہ لے اور میں گھر سے اس احتیاط سے نکلی ہوں کہ کوئی میرے پیچھے یہ دیکھنے کے لیے نہ آئے کہ میں کہاں جارہی ہوں''۔
 علی بن سفیان کے آنسو بہہ رہے تھے۔ جذبات کا ایسا غلبہ ہوا کہ وہ بہت دیر بول ہی نہ سکا۔ زنگی کی بیوہ نے کہا… ''علی بن سفیان! میں نے یہ لباس اپنے خاوند کے ماتم کے لیے نہیں پہنا، میں اس غیرت کے ماتم میں ہوں جو میری قوم کا زیور ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے حکمرانوں نے میرے بیٹے کو آلۂ کار بنا کر قومی غیرت صلیبیوں کے قدموں میں ڈال دی ہے۔ تمہیں شاید معلوم نہ ہو، کل خلیفہ کے حکم سے اس صلیبی بادشاہ کو جسے میرے خاوند نے جنگی قیدی بنایا تھا، رہا کردیا گیا ہے۔ یہ رینالڈ تھا جسے چند ہی مہینے پہلے نورالدین زنگی نے بے شمار صلیبی سپاہیوں کے ساتھ ایک لڑائی میں پکڑا تھا۔ اسے اور دوسرے قیدیوں کو زنگی کرک سے یہاں لے آئے تھے۔ زنگی بہت خوش تھے۔ کہتے تھے کہ میں صلیبیوں کے ساتھ ایسی سودا بازی کرکے اس صلیبی حکمران کو چھوڑ دوں گا جو ان کی کمر توڑ دے گی۔ ایک بادشاہ اور اعلیٰ کمان دار کی گرفتاری معمولی سی بات نہیں ہوتی۔ ہم اس کے بدلے صلیبیوں سے اپنی شرائط منوا سکتے تھے مگر کل میرا بیٹا میرے پاس آیا اور بڑی خوشی سے کہا۔
 ''ماں! میں نے صلیبی حکمران کو اور اس کے ساتھ تمام صلیبی قیدیوں کو رہا کردیا ہے''… میرے دل پر ایسی چوٹ پڑی کہ میں بہت دیر اپنے آپ سے باہر رہی۔ بیٹے سے پوچھا کہ ان جنگی قیدیوں کے عوض تم نے اپنے جنگی قیدی رہا کرا لیے ہیں؟ بیٹے نے بچوں کا سا جوا دیا۔ کہنے لگا کہ ہم ان قیدیوں کو لے کے کیا کریں گے۔ ہم آئندہ کسی سے لڑائی نہیں کریں گے''۔
 ''میں نے بیٹے سے کہا کہ تم آئندہ اپنے باپ کی قبر پر نہ جانا۔ تم جب مرو گے تو میں تمہیں اس قبرستان میں دفن نہیں کروں گی جس میں تمہارا باپ دفن ہے۔ اس قبرستان میں وہ شہید بھی دفن ہیں جو صلیبیوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ تمہیں وہاں دفن کرکے میں ان کی توہین نہیں کرنا چاہتی… لیکن میرا بیٹا بچہ ہے۔ وہ کچھ نہیں سمجھتا۔ صلیبیوں نے اپنے حکمران اور جنگی قیدیوں کو رہا کراکے اسلام کے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔ میں حیران ہوں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی قاہرہ میں بیٹھا ہوا کیا کررہا ہے۔ وہ کیوں نہیں آتا؟ علی بن سفیان! صلاح الدین ایوبی کیا سوچ رہا ہے؟ اسے کہنا تمہاری ایک بہن تمہاری غیرت کا ماتم کررہی ہے۔ اسے کہنا کہ وہ سیاہ لباس اس روز اتارے گی جس روز تم دمشق میں داخل ہوکر مجھے دکھا دو گے کہ تم نے ملت اسلامیہ کی آبرو ان عیاش اور ایمان فروشوں سے چھین لی اور اسے بچا لیا ہے ورنہ میں اسی لباس میں مرجائوں گی اور وصیت کرجائوں گی کہ مجھے اسی لباس میں دفن کیا جائے۔ کفن نہ پہنایا جائے۔ میں روز قبامت اپنے خاوند اور خدا کے سامنے سفیدکفن میں نہیں جانا چاہتی''۔
 ''میں ان جذبات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں''… علی بن سفیان نے کہا… ''آئیے، حقیقت کی بات کریں۔ سلطان ایوبی آپ کی ہی طرح بیتاب اور بے چین ہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ ہمیں کوئی کارروائی جذبات اور اشتعال کے زیراثر نہیں کرنی چاہیے۔ یہاں کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ہم اس کوشش میں ہیں کہ خانہ جنگی نہ ہو۔ اس کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ قوم ہمارا ساتھ دے۔ فوج کے متعلق توفیق جواد مجھے یقین دلا چکے ہیں کہ ہماری فوج کے خلاف نہیں لڑے گی۔ البتہ محافظ دستے مقابلہ کریں گے''۔
 ''قوم آپ کے ساتھ ہے''… زنگی کی بیوہ نے کہا… ''میں عورت ہوں، میدان جنگ میں نہیں جاسکی۔ میں ایک اورمحاذ پر لڑتی رہی ہوں۔ میں نے قوم کی عورتوں میں ملی جذبہ اس حد تک پیدا کررکھا ہے کہ آپ کسی بھی وقت انہیں میدان جنگ میں لے جاسکتے ہیں۔ میرے انتظامات کے تحت یہاں کی تمام نوجوان لڑکیاں تیغ زنی اور تیز اندازی کی مہارت رکھتی ہیں۔ عورتوں نے اپنے بچوں، بھائیوں، باپوں اور خاوندوں کو شعلے بنا رکھا ہے۔ میں نے جن عورتوں کے ہاتھوں انہیں تربیت دی ہے، وہ میرے ہاتھ میں ہیں۔ اگر نوبت خانہ جنگی تک آگئی تو ہر گھر کی عورتیں خلیفہ کی فوج کے خلاف مورچہ بنا لیں گی۔ اگر صلاح الدین ایوبی فوج لے کے آئے تو میرا خلیفہ بیٹا اور اس کے حاشیہ بردار اپنے آپ کو تنہا پائیں گے۔ تم جائو علی بھائی! فوج لائو۔ یہاں کے حالات مجھ پر چھوڑو۔ قوم کی طرف سے تم پر ایک بھی تیر نہیں چلے گا۔ اگر تم ضرورت سمجھو کہ میرے بیٹے کو قتل کردیا جائے تو بھول جانا کہ وہ نورالدین زنگی کا اور میرا بیٹا ہے۔ میں اپنے بیٹے کے جسم کے ٹکڑے کرالوں گی، سلطنت اسلامیہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوتے نہیں دیکھ سکوں گی''۔
 توفیق جواد نے بھی علی بن سفیان کو یقین دلایا کہ خانہ جنگی نہیں ہوگی۔ اس کے بعد انہوں نے سکیم بنائی کہ سلطان ایوبی کس طرح آئے گا اور یہاں کیا ہوگا۔ یہ طے ہوا کہ سلطان ایوبی خاموشی سے آئے گا اور خلیفہ اور اس کے حاشہ برداروں کو بے خبری میں آن لے گا۔
 وہ صلیبی لڑکی جس نے علی بن سفیان کے ایک آدمی سے معلوم کرلیا تھا کہ یہ ایک سو آدمی صلیب کے آدمی نہیں، اسے خیمے میں اکیلا چھوڑ کر اور اسے یہ کہہ کر چلی گئی کہ وہ دیکھنے جارہی ہے کہ اس کے ساتھ سو گئے ہیں یا نہیں۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو یہ بتایا کہ وہ دھوکے میں آگئے ہیں۔ یہ سب مصری فوج کے لڑاکا جاسوس ہیں اور ان کا کمانڈر علی بن سفیان ہے جو سراغ رسانی اور جاسوسی کا ماہر سربراہ ہے۔ اس انکشاف نے ان صلیبیوں کو چونکا دیا اور وہ سوچنے لگے کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ان کے لیے وہاں رکنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ لڑکی اس مصری جاسوس کے پاس چلی گئی تاکہ اسے پھانسے رکھے۔ ایک صلیبی باہر نکلا اور علی بن سفیان کو ڈھونڈنے لگا مگر وہ اسے نہ ملا۔ اس وقت علی بن سفیان توفیق جواد کے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ یہ صلیبی یہی معلوم کرنا چاہتا تھا کہ علی بن سفیان یہیں ہے یا کہیں گیا ہوا ہے۔ اسے غیر حاضر دیکھ کر صلیبی نے خطرہ محسوس کیا کہ علی بن سفیان ان کی گرفتاری کا انتظام کرنے گیا ہے۔ اس نے اپنے ساتھیوں کوجاکر بتایا کہ وہاں سے فوراً نکلنے کی ترکیب کریں۔ رات آدھی گزر گئی تھی۔ یہ لوگ شہر سے ناواقف تھے۔ دن کے وقت وہ اپنی منزل ڈھونڈ سکتے تھے۔ رات کو لڑکیوں کو ساتھ ساتھ لیے پھرنا مناسب نہیں تھا۔
 ایک نے مشورہ دیا کہ سرائے میں چلتے ہیں۔ وہاں جاکر کہیں گے کہ ہم قاہرہ کے تاجر ہیں، باہر کھلے میدان میں سو نہیں سکتے۔ اس لیے سرائے میں رات گزارنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے ایک آدمی کو چوری چھپے اس کام کے لیے بھیج دیا کہ سرائے تلاش کرے اور وہاں سے معلوم کرے کہ رات کے وقت چار آدمیوں اور چار عورتوں کو جگہ مل سکتی ہے یا نہیں اگر جگہ مل جائے تو وہ یہاں سے اکیلے اکیلے نکلیں اور سرائے میں پہنچ جائیں۔ ان کے لیے سامان ایک مسئلہ تھا۔ یہ بظاہر تجارتی سامان تھا لیکن اس میں زروجواہرات اور تحفے تھے جو وہ صلیبیوں کی طرف سے امراء کے لیے لائے تھے۔ وہ چونکہ امراء کے پاس جانے کے لیے آئے تھے، اس لیے انہیں ایسا کوئی خطرہ نہ تھا کہ پکڑے جائیں گے۔ انہوں نے بہروپ اس لیے دھار رکھا تھا کہ امراء کے سوا اور کوئی انہیں نہ پہچان سکے۔ امراء سے مل کر انہیں وہیں رہنا اور تخریب کاری کرنی تھی، اس لیے وہ اپنی اصلیت چھپائے رکھنا چاہتے تھے۔
 ان کا بھیجا ہوا آدمی سرائے کی تلاش میں جارہا تھا۔ گلیاں اور بازار ویران تھے۔ اسے کوئی آدمی نظر نہیں آرہاتھا، جس سے وہ پوچھتا کہ سرائے کہاں ہیں، کچھ دیر ادھر ادھر مارے مارے پھرنے کے بعد اسے سامنے سے ایک آدمی آتا دکھائی دیا۔ اندھیرے میں اتنا ہی پتا چلتا تھا کہ وہ کوئی انسان ہے۔ وہ قریب آیا تو صلیبی نے اس سے سرائے کے متعلق پوچھا۔ اس نے سر اور آدھے چہرے پر چادر سی ڈال رکھی تھی۔ اس نے صلیبی کو بتایا کہ سرائے شہر کے دوسرے سرے پر ہے۔ پھر اس سے پوچھا کہ وہ اتنی رات گئے سرائے کیوں ڈھونڈ رہا ہے۔ ایسے وقت میں اس کے لیے سرائے کا دروازہ نہیں کھلے گا۔ صلیبی نے اسے بتایا کہ وہ آج تاجروں کے قافلے کے ساتھ آئے ہیں۔ ان کے ساتھ چار عورتیں ہیں جنہیں وہ خیموں میں نہیں رکھنا چاہتے۔
 ''ہاں، یہ ایک مسئلہ ہے''… اس آدمی نے کہا… ''تمہیں شام سے پہلے بندوبست کرلینا چاہیے تھا۔ آئو، میں تمہاری کچھ مدد کرتا ہوں۔ تم پردیسی ہو۔ یہاں سے جاکر یہ نہ کہو کہ دمشق میں تمہاری مستورات کھلے میدان میں پڑی رہی تھیں۔ مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔ مستورات کو ساتھ لے آئو۔ میں سرائے کھلوا کر جگہ دلوا دوں گا''۔
وہ آدمی صلیبی کے ساتھ چل پڑا اور دونوں قافلے کی خیمہ گاہ تک پہنچ گئے۔ صلیبی نے اسے ایک جگہ روک کر کہا… ''تم یہیں ٹھہرو۔ میں انہیں لے کر آتا ہوں''… یہ کہہ کر وہ خیمہ گاہ کے ایک طرف سے گھوم کر کہیں غائب ہوگیا۔ صلیبیوں کے خیمے دوسری طرف اور ذرا ہٹ کر تھے۔ اس آدمی نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ ایک آدمی اس کے ساتھ آیا ہے جو انہیں سرائے میں جگہ دلا دے گا۔ اس کے ساتھی کچھ گھبرائے۔ یہ آدمی بھی دھوکہ دے سکتا تھا لیکن وہ ایسے جال میں پھنس گئے تھے جس سے نکلنے کے لیے انہیں کوئی نہ کوئی تو خطرہ مول لینا ہی تھا۔ مصری جاسوس جو صلیبی لڑکی کے جھانسے میں آگیا تھا، اس نے لڑکی کو یہاں تک بتا دیا تھا کہ خلیفہ اور امراء صلیبیوں کے زیراثر آگئے ہیں، اس لیے علی بن سفیان بہروپ میں ایک سو لڑاکا جاسوسوں کے ساتھ آیا ہے اور ان کا مشن یہ ہے کہ یہاں کا جائزہ لیں کہ صلیبی اثرات کہاں تک پہنچے ہیں اور کیا صلاح الدین ایوبی کے لیے جنگی کارروائی ضروری ہے یا نہیں۔
لڑکی نے علی بن سفیان کا یہ مشن اپنے ساتھیوں کو بتادیا تھا۔ یہ بڑی ہی کارآمد اطلاع تھی جو صلیبی جاسوس رات ہی کٹھ پتلی خلیفہ تک پہنچا کر خراج تحسین حاصل کرنا چاہتے تھے اور یہ اطلاع وہ اپنے صلیبی حکمرانوں تک بھی پہنچانا چاہتے تھے تاکہ وہ صلاح الدین ایوبی کا راستہ روکنے کا بندوبست کرلیں۔ ان صلیبی جاسوسوں نے یہ ارادہ بھی کیا کہ وہ علی بن سفیان اور اس کی پوری جماعت کو خلیفہ کے حکم سے گرفتار کرادیں۔ انہوں نے اس لڑکی کو بہت ہی خراج تحسین پیش کیا جس نے مصری جاسوس کے سینے سے یہ راز نکلوا لیا تھا۔ یہ مصری اب لڑکی کے خیمے میں گہری نیند سویا ہوا تھا اور لڑکی خیمے میں نہیں بلکہ اپنے ساتھیوں کے پاس تھی۔
انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ علی بن سفیان کے تمام آدمی سوئے ہوئے ہیں۔ سب اکٹھے نکل چلیں۔ سامان اور جانوروں کو یہیں رہنے دو۔ کل صبح ہوتے ہی وہ مصری جاسوسوں کو پکڑا دیں گے پھر ان کا سامان انہیں مل جائے گا۔ وہ خیمہ گاہ سے بھاگنا اس لیے چاہتے تھے کہ انہیں ڈر تھا کہ علی بن سفیان رات کو لڑکیاں غائب کردے گا یا ان سب کو مروا دے گا یا کوئی دھوکہ دے گا۔ بہرحال رکنا ٹھیک نہیں تھا۔ وہ سب خیمہ گاہ سے پرے پرے دبے پائوں چل پڑے اور اس جگہ پہنچے جہاں ان کا ایک ساتھی ایک آدمی کو کھڑا کرگیا تھا مگر وہ آدمی وہاں نہیں تھا۔ وہ سب ادھر ادھر دیکھ ہی رہے تھے کہ بیٹھے ہوئے اونٹوں کی اوٹ میں سے بہت سے آدمی اٹھے اور صلیبیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ انہیں ایک طرف لے گئے اور مشعلیں جلائی گئیں۔ علی بن سفیان نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں جارہے ہیں۔ انہوں نے جھوٹ بولے، علی بن سفیان نے پوچھا… ''وہ آدمی کون تھا جو سرائے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا تھا؟''
ایک صلیبی نے کہا… ''وہ میں تھا''۔
 ''اور جس سے تم نے سرائے کا راستہ پوچھا تھا''… علی بن سفیان نے کہا… ''وہ میں تھا''۔
یہ محض اتفاق تھا اور اللہ کا کرم کہ علی بن سفیان توفیق جواد کے گھر سے واپس آرہا تھا۔
جاری ھے ، (اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے)،  شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

No comments:

Post a Comment