Monday 15 May 2017

داستان ایمان فروشوں کی ۔


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
استان ایمان فروشوں کی ۔د
قسط نمبر۔58 اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اور اللہ کا کرم کہ علی بن سفیان توفیق جواد کے گھر سے واپس آرہا تھا۔ یہ صلیبی سرائے کی تلاش میں جارہا تھا۔ اس نے علی بن سفیان سے ہی سرائے کا راستہ پوچھا۔ اگر روشنی ہوتی تو صلیبی اسے پہچان لیتا۔ ایک تو اندھیرا تھا، دوسرے علی بن سفیان نے سر پر رومال یا چادر ڈال رکھی تھی۔ صلیبی کی ایک بات سن کر وہ جان گیا کہ انہیں کسی طرح پتا چل گیا ہے کہ وہ دھوکے میں آگئے ہیں۔ لہٰذا اب بھاگنے کی فکر میں ہیں۔ علی بن سفیان کو معلوم تھا کہ یہ صلیبی بے شک جاسوس ہیں لیکن انہیں یہاں امراء میں سے کوئی نہ کوئی پناہ میں لے لے گا۔ چنانچہ اس نے صلیبی کو خوش اخلاقی کا جھانسہ دے کر پھانس لیا اور اس کے ساتھ خیمہ گاہ تک چلا گیا۔ وہ سوچتا رہا کہ اب اسے کیا کارروائی کرنی چاہیے۔ صلیبی نے اس پر یہ کرم کیا کہ اسے اپنے خیموں سے دور کھڑا کرگیا۔
علی بن سفیان نے فوراً اپنے دو تین آدمیوں کو جگالیا اور نہایت عجلت سے انہیں بتایا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ ہدایات دے کر وہ خود صلیبیوں کے خیموں تک گیا۔ وہ سب لڑکیوں سمیت ایک خیمے میں جمع ہوگئے تھے۔ علی بن سفیان نے دبے پائوں قریب جاکر ان کی باتیں سنیں۔ وہ صرف یہ جان سکا کہ صلیبی جاسوسوں کو اس کا مشن معلوم ہوگیا ہے لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ راز فاش کس طرح ہواہے۔ اتنی دیر میں اس کے بہت سے آدمی اس کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق برچھوں سے مسلح ہوکر اونٹوں کی اوٹ میں جاکر بیٹھ چکے تھے۔ صلیبیوں کو وہیں آنا تھا۔ وہ جوں ہی وہاں پہنچے، علی بن سفیان بھی آگیا ور سب کو گھیر کر پکڑ لیا گیا۔
 ''دوستو!''… علی بن سفیان نے انہیں کہا… ''تمہاری جاسوسی بہت کمزور ہے، تمہیں ابھی بہت سی تربیت کی ضرورت ہے۔ کیا جاسوس اس طرح سنسان گلیوں میں پھرا کرتے ہیں؟ اور کیا جاسوس کسی اجنبی کو پہچانے بغیر بات کیا کرتے ہیں؟ یہ فن مجھ سے سیکھو''۔
 ''اگر آپ یہ فن اپنے آدمیوں کو سکھام دیں تو زیادہ بہتر ہوگا''… ایک صلیبی نے کہا… ''کیا آپ ہماری اس مہارت کی تعریف نہیں کریں گے کہ ہم نے آپ کے ایک آدمی سے آپ کی اصلیت معلوم کرلی ہے؟ یہ تو قسمت کا کھیل ہے۔ آپ جیت گئے، ہم ہار گئے۔ اگر ہمارا قائد مارا نہ جاتا تو ہم یوں بھٹک نہ جاتے''۔
 ''مجھے وہ آدمی بتائو گے جس نے راز فاش کیا ہے؟''… علی بن سفیان نے پوچھا۔
 ''اس خیمے میں سویا ہوا ہے''… ایک لڑکی نے ایک خیمے کی طرف اشارہ کرکے جواب دیا… ''وہ میرے دھوکے میں آگیا تھا''۔
''یہ باتیں اب قاہرہ میں چل کر ہوں گی''… علی بن سفیان نے کہا۔
صبح طلوع ہوئی تو لوگوں نے دیکھا کہ تاجروں کا قافلہ جارہا تھا۔ اونٹوں پر جہاں تجارتی سامان لدا ہوا تھا، وہاں خیمے بھی لدے ہوئے تھے۔ علی بن سفیان اور اس کے ایک سو آدمیوں کے سوا کسی کو علم نہ تھا کہ لپٹے ہوئے خیموں میں چار لڑکیاں اور چار آدمی لپٹے ہوئے ہیں۔ علی بن سفیان نے روانگی سے کچھ دیر پہلے سحر کی تاریکی میں ایک ایک صلیبی کو ایک ایک خیمے میں لپیٹ کر اونٹوں پر لاد کر باندھ دیا تھا۔ اسے کوئی فکر نہیں تھی کہ وہ دم گھٹنے سے مرجائیں گے یا زندہ رہیں گے۔ قافلہ دمشق سے نکل گیا اور جب شہر اتنی دور پیچھے رہ گیا کہ نظر بھی نہیں آتا تھا، اس نے صلیبیوں کو خیموں سے نکالا۔ سب زندہ تھے۔ لڑکیوں کو اونٹوں پر اور مردوں کو گھوڑوں پر سوار کرلیا گیا۔ صلیبیوں نے رہائی کے لیے وہ تمام زروجواہرات اور سونے کے ٹکڑے پیش کیے جو وہ خلیفہ اور امراء کے لیے لائے تھے۔ علی بن سفیان نے کہا… ''یہ ساری دولت تو میرے ساتھ ہی جارہی ہے''۔
٭ ٭ ٭
اس وقت ریمانڈ نام کا ایک صلیبی تریپولی کا حکمران تھا۔ یہ وہی علاقہ ہے جو آج لبنان کہلاتا ہے۔ دوسرے صلیبی حکمران یروشلم اور گردونواح میں تھے۔ نورالدین زنگی کی وفات پر وہ سب بہت خوش تھے۔ وہ ایک کانفرنس کرچکے تھے۔ انہوں نے اپنے منصوبوں پر نظرثانی کرلی تھی، اس کے مطابق فرنگیوں کا ایک کمانڈر سیرز اپنی فوج حلب تک لے گیا۔ حلب کا امیر شمس الدین تھا۔ سیرز نے اسے پیغام بھیجا کہ وہ حلب اس کے حوالے کردے یا صلح نامے پر دستخط کرکے تاوان ادا کرے۔ شمس الدین نے اس ڈر سے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے کہ دمشق اور موصل کے امراء سے جنگ میں الجھا ہوا دیکھ کر اس کی مملکت پر قبضہ کرلیں گے۔ اس ایک ہی کامیابی سے صلیبی دلیر ہوگئے۔وہ جان گئے کہ یہ مسلمان امراء ایک دوسرے کی مدد کرنے کے بجائے ایک دوسرے کے دشمن ہیں، چنانچہ انہوں نے جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کہ تہ تیغ کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ انہیں خطرہ صرف سلطان صلاح الدین ایوبی سے تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے کردار سے آگاہ تھے۔انہیں ڈر یہ تھا کہ سلطان ایوبی دمشق یا ان علاقوں میں کہیں بھی آگیا تو وہ تمام امراء کو متحدہ کرلے گا۔ چنانچہ وہ امراء کو بہت جلدی اپنے اتحادی بنا لینے کی کوشش کررہے تھے۔ ریمانڈ نے خلیفہ المالک الصالح کو ایک ایلچی کے ذریعے تحائف کے ساتھ یہ پیشکش بھی بھیج دی تھی کہ وہ اسے ضرورت کے وقت فوجی مدد دے گا۔
اسلام کی بقا اور آبرو کچے دھاگے سے لٹک رہی تھی۔ اس کا دارومدار سلطان صلاح الدین ایوبی کے اقدام پر تھا۔ ایک ساعت جو گزر جاتی تھی، اسلام کو تباہی کے قریب لے جاتی تھی۔ سلطان ایوبی قاہرہ میں علی بن سفیان کا انتظار کررہا تھا۔ اسے علی بن سفیان کی رپورٹ کے مطابق کچھ فیصلہ کرنا تھا۔ وہ بغداد، دمشق اور یمن وغیرہ پر فوج کشی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچکا تھا۔ اس کے لیے مشکل یہ تھی کہ مصر کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں تھے اور فوج کم تھی۔ وہ مصر سے زیادہ سے زیادہ نہیں بلکہ کم سے کم فوج اپنے ساتھ لے جاسکتا تھا اور یہی ایک خطرہ تھا جو اسے پریشان کررہا تھا کہ اتنی کم فوج سے وہ کیا کامیابی حاصل کرسکے گا۔ اس کے باوجود اس نے فوج کشی کے سوا دوسرا کوئی اقدام سوچا ہی نہیں۔ وہ دن میں ایک دو بار اپنے مکان کی چھت پر جاکر اس سمت دیکھا کرتا تھا جس سمت سے علی بن سفیان کو آنا تھا۔ وہ افق پر نظریں گاڑ دیتا تھا۔
ایک روز اسے افق پر گرد کے بادل نظر آئے جو زمین سے اٹھے اور اوپر ہی اوپر اٹھتے اور پھیلتے گئے۔ سلطان ایوبی اوپر ہی کھڑا رہا۔ گرد کا بادل آگے ہی آگے آتا گیا، پھیلتا گیا… اور پھر اس میں سے گھوڑوں اور اونٹوں کے ہیولے نظر آنے لگے۔ وہ علی بن سفیان کا قافلہ تھا۔ اس نے راستے میں بہت تھوڑے پڑائو کیے تھے۔ اسے جب قاہرہ کے مینار نظر آنے لگے تو اس نے اونٹ اور گھوڑے دوڑادئیے۔ اسے احساس تھا کہ گزرتے ہوئے لمحوں کی قیمت کیا ہے اور اس کے انتظار میں سلطان صلاح الدین ایوبی رات کو سوتا بھی نہیں ہوگا۔
پھر وہ لمحہ آگیا جب گرد سے اٹا ہوا علی بن سفیان سلطان ایوبی کے سامنے کھڑا تھا۔ سلطان ایوبی نے اسے نہانے دھونے کی مہلت نہ دی۔ وہ خبریں سننے کے لیے بیتاب تھا۔ اس کے لیے کھانا وغیرہ وہیں لانے کا حکم دے کر اسے دفتر میں لے گیا۔ علی بن سفیان نے اسے تفصیلی رپورٹ دی۔ نورالدین زنگی کی بیوہ کا پیغام، اس کے جذبات اور تاثرات سنائے۔ سالار توفیق جواد سے جو بات چیت ہوئی تھی وہ سنائی اور آخر میں بتایا کہ وہ دمشق سے ایک تحفہ لایا ہے۔ یہ تحفہ چار صلیبی جاسوس مرد اور چار لڑکیاں تھیں۔ اس نے سلطان ایوبی سے کہا… ''میں شام سے پہلے پہلے کچھ قیمتی معلومات ان لوگوں سے حاصل کرلوں گا''۔
 ''تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں فوجی طاقت استعمال کرنی پڑے گی''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔
 ''کرنی پڑے گی اور ہم ضرور کریں گے''… علی بن سفیان نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ خانہ جنگی نہیں ہوگی''۔
سلطان ایوبی نے اپنے دو ایسے فوجی مشیروں کو بلایا جن پر اسے کلی طور پر اعتماد تھا۔ وہ آئے تو اس نے انہیں کہا… ''میں تم سے اب جو بھی بات کروں، وہ اپنے سینے میں اتار لینا۔ تم دونوں کے علاوہ علی بن سفیان تیسرا آدمی ہوگا جو اس راز سے واقف ہوگا''… اس نے انہیں دمشق اور دیگر تمام اسلامی ریاستوں اور جاگیروں کے احوال وکوائف سنائے۔ علی بن سفیان کی لائی ہوئی رپورٹ سنائی اور کہا… ''اللہ کی فوج اللہ کے حکم کی تعمیل کیا کرتی ہے۔ امیر اور خلیفہ کی اطاعت ہم پر فرض ہے لیکن امیر اور خلیفہ ہی اللہ کے عظیم مذہب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس کے دشمن ہوجائیں تو اللہ کے سپاہی پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت رسول اللہ کی ناموس کو بچائیں۔ اور میرا وجود ملک وملت کے لیے خطرے اور بدنامی کا باعث بنے تو تمہارا فرض ہے کہ میرا سر میرے دھڑ سے جدا کردو یامجھے بیڑیاں پہنا کر قید خانے میں پھینک دو اور ملک میں احکام خداوندی نافذ کرو۔ آج یہی فرض ہم پر عائد ہوگیا ہے۔ ہمارا خلیفہ قومی غیرت اور وقار سے دستبردار ہوکر اسلام کے دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ ان سے مدد مانگ رہا ہے۔ ان کے جاسوسوں کو پناہ دے رہا ہے۔ اس کے حاشیہ بردار عیش وعشرت میں ڈوب گئے ہیں۔ سلطنت اسلامیہ کے حصے بخرے کررہے ہیں۔ شمس الدین والی حلب نے صلیبیوں کے آگے ہتھیار ڈال کر تاوان ادا کیا اور صلح کرلی ہے اور صلیبی عالم اسلام پر حاوی ہوتے جارہے ہیں تو کیا ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہوگیا کہ ہم فوجی طاقت سے خلیفہ کو اس مقدس گدی سے اٹھائیں اور اسلام کی آبرو بچائیں؟''
''بالکل فرض ہوگیا ہے''۔ دونوں مشیروں نے بیک زبان کہا۔
 ''اب ہمارا اقدام جو کچھ بھی ہوگا وہ ہم چاروں کے درمیان راز ہوگا''۔ سلطان ایوبی نے کہا اور ان کے ساتھ اپنے سوچے ہوئے اقدام کی منصوبہ بندی شروع کردی۔
صلیبی جاسوسوں اور لڑکیوں کو علی بن سفیان اپنے مخصوص تہہ خانے میں لے گیا اور انہیں کہا… ''تم ایسے جہنم میں داخل ہوگئے ہو جہاں تم زندہ بھی نہیں رہو گے اور مرو گے بھی نہیں۔ اپنے جسموں کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر جو باتیں تم میرے سامنے اگلو گے وہ اسی صحتمندی کی حالت میں بتا دو اور اس جہنم سے رہائی حاصل کرو۔ میں تمہیں سوچنے کا موقعہ دیتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد آئوں گا''۔
وہ  جب انہیں بیڑیاں ڈالنے کا حکم دے رہا تھا تو ایک صلیبی نے کہا… ''ہم ساری باتیں بتا دیں گے، ہمیں سزا دینے سے پہلے یہ درخواست سن لیں کہ ہم تنخواہ پر کام کرنے والے ملازم ہیں۔ سزا حکم دینے والوں کو ملنی چاہیے۔ ہم جو مرد ہیں، سختیاں برداشت کرلیں گے، ہم ان لڑکیوں کو اذیت سے بچانا چاہتے ہیں''۔
 ''انہیں کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''تم میرا کام آسان کردو گے تو لڑکیاں تمہارے ساتھ رہیں گیں۔ اس تہہ خانے سے تم سب کو نکال لیا جائے گا اور باعزت نظربندی میں رکھا جائے گا''۔
انہوں نے جو انکشاف کیے ان سے ان تمام حالات کی تصدیق ہوگئی جو نورالدین زنگی کی وفات کے بعد پیدا ہوگئے تھے۔
٭ ٭ ٭
تین روز بعد…
مصر کی سرحد سے بہت دور شمال مشرق کی سمت مٹی کے اونچے نیچے ٹیلوں اور گھاٹیوں کا وسیع خطہ تھا، جس میں کہیں کہیں سبزہ بھی تھا اور پانی بھی۔ یہ خطہ قافلوں اور فوجوں کے عام راستوں سے ہٹ کر تھا۔ اس کے اندر ایک جگہ بے شمار گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ ان سے ذرا پرے سوار سوئے ہوئے تھے اور ان سے الگ ہٹ کر چھوٹا سا ایک خیمہ لگا ہوا تھا جس کے اندر ایک آدمی سویا ہوا تھا۔ تین چار آدمی ٹیلوں کے اوپر ٹہل رہے تھے اور تین چار آدمی اس خطے کے باہر بکھر کر گھوم پھر رہے تھے… خیمے میں سویا ہوا آدمی سلطان صلاح الدین ایوبی تھا۔ ٹیلوں پر اور ٹیلوں کے باہر گھومنے پھرنے والے آدمی سنتری تھے اور جو سوار سوئے ہوئے تھے، وہ سلطان ایوبی کے سوار تھے۔ ان کی تعداد سات سو تھی۔
صلاح الدین نے بڑی گہری سوچ وبچار کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ کم سے کم فوج اپنے ساتھ لے کر دمشق جائے گا۔ اگر اس کا استقبال ایک سلطان کی حیثیت سے ہوا تو زبانی بات چیت کرے گا اور اگر مزاحمت ہوئی تو وہ اسی نفری سے مقابلہ کرے گا۔ علی بن سفیان نے اسے یقین دلایا تھا کہ خلیفہ اور امراء کے محافظ دستوں نے مزاحمت کی تو سالار توفیق جواد اپنی فوج سلطان ایوبی کے حوالے کردے گا۔ زنگی کی بیوہ نے یقین دلایا تھا کہ شہر کے لوگ سلطان ایوبی کا استقبال کریں گے لیکن سلطان ایوبی نے اپنے آپ کو خوش فہمیوں میں کبھی مبتلا نہیں ہونے دیا تھا۔ اس نے یہ فرض کرکے فیصلہ کیا تھا کہ وہ سات سو سواروں کے ساتھ جہاں جارہا ہے، وہاں کا ہر ایک سپاہی اور بچہ بچہ اس کا دشمن ہے۔ اس نے اپنے رسالے (گھوڑ سوار دستوں) میں سے وہ سات سو سوار منتخب کیے تھے جو بہت سے معرکے لڑ چکے تھے، ان میں چھاپہ مار سوار بھی تھے جو دشمن کے عقب میں معرکے لڑنے کا تجربہ رکھتے تھے۔ جنگی مہارت کے علاوہ یہ سوار جذبے کے جنونی تھے جن کی آنکھیں صلیب کا نام سن کر لال سرخ ہوجایاکرتی تھیں۔ آج کی فوجی زبان میں یہ ''کریک ٹروپس'' تھے۔
قاہرہ سے ان سواروں کو سلطان ایوبی نے رات کے وقت خفیہ طریقے سے نکالا تھا۔ وہ ایک ایک دو دو کرکے نکلے تھے اور قاہرہ سے بہت دور ایک پہلے سے بتائی ہوئی جگہ اکٹھے ہوئے تھے۔ سلطان ایوبی بھی خفیہ طریقے سے قاہرہ سے نکلا تھا۔ صرف علی بن سفیان اور دو خصوصی فوجی مشیروں کو اس کا علم تھا۔ سلطان ایوبی کا محافظ دستہ بدستور قاہرہ میں اس کے گھر اور ہیڈکوارٹر میں مستعد رہتا تھا۔ اس سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ سلطان ایوبی یہیں ہے۔
تمام یورپی اور مسلمان مورخین اس پر متفق ہیں کہ سلطان ایوبی نے سات سو سوار منتخب کیے۔ خفیہ طریقے سے شہر سے نکلا اور دمشق کو روانہ ہوا۔ قاہرہ اور گردونواح میں صلیبی جاسوس موجود تھے۔ ان میں مصری مسلمان بھی تھے جن میں کچھ سرکاری ملازمت میں بھی تھے مگر کسی کو خبر تک نہ ہوئی کہ قاہرہ سے سلطان ایوبی اور سات سو سوار غائب ہیں۔ مورخین لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی دمشق میں داخل ہونے تک اپنی نقل وحرکت کو راز میں رکھنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ رات کو سفر کرتا اور دن کو کہیں چھپ جاتا تھا۔ سات سو گھوڑوں اور سواروں کو چھپانا ممکن نہیں تھا لیکن سلطان ایوبی ریگزار کا بھیدی تھا۔ ایسے راستے سے جارہا تھا جدھر سے کوئی قافلہ نہیں جایا کرتا تھا اور وہ چھپنے کی جگہ ڈھونڈ لیتا تھا۔ دو یورپی مورخوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس خفیہ سفر کے دوران وہ سواروں کے ساتھ عام سپاہیوں کی طرح گھلا ملا، گپ شپ لگاتا اور باتوں باتوں میں انہیں آگ کے بگولے بناتا رہا۔ اس کے ساتھ انہیں سمجھاتا رہا کہ آگے حالات کیا ہیں اور کیا ہوسکتے ہیں۔ اس نے سواروں کو کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کیا، کوئی جھوٹی امید نہیں دلائی، انہیں خطروں سے آگاہ کرتا رہا۔ سلطان ایوبی کی شخصیت اورکردار میں جو جلال تھا، وہ ہر ایک سوار کی روح میں اتر گیا اور سوار اڑ کر دمشق پہنچنے کے لیے بیتاب ہوگئے۔
مورخہ میں البتہ یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ یہ ١١٧٤٤٤ء کا کون سا مہینہ تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ جولائی کامہینہ تھا، بعض نے نومبر لکھا ہے۔ بہرحال یہ واقعہ نورالدین زنگی کی وفات کے بعد کا ہے۔ اگر وقائع نگاروں کی تحریروں میں چھوٹے چھوٹے واقعات غور سے پڑھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سلطان ایوبی ستمبر کے ابتدائی دنوں میں دمشق کے لیے روانہ ہوا تھا۔ اس نے مصر کی ہائی کمانڈ خفیہ طور پر اپنے دو مشیروں کے سپرد کردی تھی۔ سوڈان کی طرف کی سرحد پر مورچہ بندی اور دفاعی انتظامات مزید مضبوط کردئیے تھے۔ شمال کی طرف بحریہ کو حکم دیا گیا تھا کہ ہر وقت، دن رات، سمندر میں دور دور تک کشتیاں گشت کرتی رہیں اور جنگی جہاز بحری سپاہیوں کے ساتھ ہر لمحہ تیاری کی حالت میں رہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے جانشینوں سے کہہ دیا تھا کہ کسی بھی طرف سے حملہ آئے تو وہ اس کے حکم کا انتظار نہ کریں۔ اس نے یہ بھی حکم دے دیا تھا کہ سرحد پر دشمن ذرا سی بھی گڑ بڑ کرے تو شدید قسم کی جوابی کارروائی کرو۔ ہر وقت جارحیت کے لیے تیار رہو۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو سوڈان کے اندر جاکر مصر کا دفاع کرو۔
سلطان ایوبی مصر کو اپنی فوج اور خدا کے حوالے کرکے چوری چھپے سات سو سواروں کے ساتھ دمشق جارہا تھا۔
٭ ٭ ٭
دمشق کے قلعے سنتری پر گھوم پھر رہے تھے۔ انہیں دور افق پر گرد کے گھنے بادل اٹھتے نظر آئے جو دمشق کی طرف آرہے تھے۔ وہ کچھ دیر دیکھتے رہے۔ شاید تاجروں اور مسافروں کا کوئی بڑا قافلہ ہوگا مگر اونٹ اتنی گرد نہیں اڑاتے۔ یہ گھوڑے معلوم ہوتے تھے… گرد بہت قریب آگئی تو اس میں ذرا ذرا گھوڑے نظر آنے لگے اور پھر اوپر اٹھی ہوئی برچھیوں کی انیاں نظر آنے لگیں۔ ہر برچھی کے ساتھ کپڑے کی لمبوتری جھنڈی تھی۔ یہ بلاشک وشبہ کوئی فوج تھی اور یہ فوج خلیفہ کی نہیں ہوسکتی تھی۔ ایک سنتری نے نقارہ بجا دیا۔ قلعے کی دوسری دیواروں پر بھی نقارے بج اٹھے۔ قلعے میں جو فوج تھی وہ تیاری کی پوزیشنوں میں آگئی۔ دیواروں کے اوپر تیر اندازوں نے کمانوں میں تیر ڈال لیے۔ قلعے کا کمانڈر بھی اوپر آگیا۔ گرد اڑاتے ہوئے سوار قلعے کے قریب آگئے اور حملے کی ترتیب میں آکر رک گئے۔ قلعہ کے کمانڈر نے سواروں کے کمانڈر کا جھنڈا دیکھا تو وہ ٹھٹھک گیا۔ یہ صلاح الدین ایوبی کا جھنڈا تھا۔ قلعہ دار کو سرکاری طور پر بتایا جاچکا تھا کہ سلطان ایوبی نے خودمختاری کااعلان کردیا ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر وہ اس طرف آئے تو اسے بلاروک ٹوک شہر میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔
 ''آپ کس ارادے سے آئے ہیں؟'' قلعہ دار نے پوچھا… ''اگر خلیفہ سے ملنا ہے تو اپنے سوار دور پیچھے لے جائیں اور اکیلے آگے آئیں''۔
 ''خلیفہ سے کہہ دو کہ صلاح الدین ایوبی باہر بلا رہا ہے''۔ سلطان ایوبی نے بلند آواز سے کہا… ''اور تم سن لو، میرے سوار پیچھے نہیں جائیں گے، شہر میں جائیں گے۔ خلیفہ کو اطلاع دو کہ وہ باہر نہ آیا تو بہت سے مسلمانوں کا خون اس کی گردن پر ہوگا''۔
 ''صلاح الدین بن نجم الدین ایوب!'' قلعے کے کمان دار نے کہا… ''میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ تمہارا ایک بھی سوار زندہ واپس نہیں جائے گا۔ میں خلیفہ کے حکم کا پابند ہوں۔ تمہارے لیے شہر کا کوئی دروازہ نہیں کھلے گا''۔
قلعے کے باہر جو سپاہی پہرے پر تھے، انہوں نے خلیفہ کی طرف ایک سپاہی دوڑا دیا تھا۔ یہ ان لوگوں کی ڈیوٹی تھی کہ خلیفہ کو خطرے سے آگاہ کردیں تاکہ فوج کو تیاری کا حکم دیا جائے۔ ادھر سلطان ایوبی نے اپنے سواروں کو کچھ حکم دیا۔ سواروں نے بجلی کی تیزی سے حرکت کی، وہ اور زیادہ پھیل گئے۔ سواروں نے کمانیں نکال لیں اور ان میں تیر ڈال لیے۔ ادھر دمشق شہر کابڑا دروازہ بند کردیا گیا اور شہر کی فصیل پر بھی تیر انداز تیار ہوگئے۔
قلعہ دار یعنی قلعے کا کمانڈر غالباً خلیفہ کے حکم کا یا شاید اندر سے آنے والی فوج کا انتظار کررہا تھا۔ اس نے کوئی کارروائی نہ کی۔ مقابلے کے لیے وہ تیار تھا۔ خلیفہ کو باہر کی صورتحال کی اطلاع مل گئی، وہ بچہ تھا۔ ایک بار تو جوش میں آگیا پھر گھبرا گیا۔ اس کے مشیروں نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور اس سے حکم دلوایا کہ فوج باہر نکل کر سلطان ایوبی کو گھیرے میں لے لے اور ہتھیار ڈلوا کر سلطان ایوبی کو گرفتار کرلے۔ اس اثناء میں شہر کے لوگوں کو بھی پتا چل گیا کہ سلطان ایوبی فوج لے کر آیا ہے۔ نورالدین زنگی کی بیوہ حرکت میں آگئی۔ اس نے عورتوں کو جو زمین دوز جماعت بنا رکھی تھی، وہ بھی سرگرم ہوگئی۔ گھر گھر اطلاع پہنچ گئی کہ سلطان ایوبی آیا ہے۔ عورتیں باہر نکل آئیں اور ''خوش آمدید صلاح الدین ایوبی'' کے نعرے لگانے لگیں۔ بعض نے پھول بھی اکٹھے کرلیے۔ مرد بھی نکل آئے۔ نعروں سے دمشق گونجنے لگا۔ خلیفہ کے حاشیہ برداروں کو شہریوں کا یہ رویہ پسند نہ آیا مگر شہریوں کا سیلاب شہر کے دروازے پر ٹوٹ پڑا تھا۔ لوگ شہر کی فصیل پر بھی چڑھ گئے تھے اور سلطان ایوبی کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
خلیفہ اور اس کے حواریوں کو سب سے بڑی چوٹ یہ پڑی کہ انہیں یہ اطلاع ملی کہ فوج نے سلطان ایوبی کے مقابلے میں آنے سے انکار کردیا ہے۔ سپاہیوں تک تو حکم ہی نہیں پہنچا تھا۔ انکار کرنے والے سالار اور دیگر کمانڈر تھے۔ کمانڈروں میں کچھ ایسے تھے جو امراء کے پروردہ تھے۔ وہ اپنے دستوں کو تیاری کا حکم دینے لگے تو خلیفہ کے مخالف کمانڈروں نے انہیں خبردار کردیا کہ انہوں نے سلطان ایوبی کے خلاف ہتھیار اٹھائے تو انہیں گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر شہر میں گھسیٹا جائے گا۔ تین چار کمانڈروں نے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکال لیں۔ معاملہ خون خرابے تک پہنچنے والا تھا کہ زنگی کی بیوہ آن پہنچی۔ یہ عورت پاگلوں کی طرح بھاگ دوڑ رہی تھی۔ وہ گھوڑے پر سوار تھی۔ گھوڑا بری طرح ہانپ رہا تھا۔ وہ دیکھنے آئی تھی کہ فوج کیا کررہی ہے۔ کہیں خانہ جنگی کی صورت تو پیدا نہیں ہوگئی؟ اس نے یہ منظر دیکھا کہ تین چار کمانڈر تلواریں نکالے ایک دوسرے کو للکار رہے تھے اور دوسرے بیچ بچائو کررہے تھے۔ ان میں توفیق جواد بھی تھا۔ زنگی کی بیوہ کو دیکھتے ہی وہ دوڑ کر اس تک گیا اور کہا… ''آپ یہاں کیا کررہی ہیں؟''
 ''یہاں کیا ہورہا ہے؟'' اس عظیم مجاہدہ نے پوچھا… ''کیا فوج صلاح الدین ایوبی کے استقبال کے لیے جا رہی ہے یا مقابلے کے لیے؟''
زنگی کی بیوہ گھوڑے سے کود کر اتری اور ان کمانڈروں کے درمیان آگئی جو ایک دوسرے کو للکار رہے تھے۔ اس عورت نے اپنا سرنگا کردیا اور ان سے چلا کر کہا… ''بے غیرتو! پہلے اس سر کو تن سے جدا کرو، اپنی ماں کا سر اس مٹی میں پھینکو پھر کافروں کی حمایت میں لڑنا۔ تم ان بیٹیوں کو بھول گئے ہو جنہیں کافر اٹھا کر لے گئے تھے، تم اپنی ان بچیوں کو بھول گئے ہو جو کافروں کی درندگی سے مرچکی ہیں۔ تم کس کی حمایت میں ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نکالے ہوئے ہو۔ میرے بیٹے کے وفادار کافر ہیں، آئو پہلے میری گردن اڑائو پھر ایوبی کے مقابلے میں جانا''۔
زنگی کی بیوہ کے آنسو بہہ رہے تھے، منہ سے جھاگ پھوٹ رہی تھی۔ کمانڈروں نے تلواریں نیاموں میں ڈال لیں اور سرجھکا کر ادھر ادھر ہوگئے۔
 ''کیا فوج نے حکم عدولی کی ہے؟'' یہ خلیفہ کے ایک مشیر کی گھبرائی ہوئی آواز تھی جس نے خلیفہ کے دربار میں سناٹا طاری کردیا۔
 ''محافظوں کے دستے باہر نکالو''۔ ایک امیر نے غصے سے کہا۔ ''جم کر مقابلہ کرو''۔
تھوڑی ہی دیر بعد محافظوں کے دستے تیار ہوگئے۔ اس وقت شہریوں کا ہجوم اور زیادہ بڑھ گیا تھا۔ عورتیں چلا رہی تھیں… ''دروازے کھول دو۔ ہماری عصمتوں کا پاسبان آیا ہے''۔ مرد نعرے لگا رہے تھے۔ محافظ دستوں کو آگے بڑھنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ اس وقت خلافت کا قاضی، کمال الدین سامنے آگیا۔ وہ خلیفہ کے دربار میں گیا۔ قاضی کی حیثیت سے سب سے اونچی اور قابل احترام سمجھی جاتی تھی۔ اس نے خلیفہ سے کہا کہ ''اگر اس نے صلاح الدین ایوبی کے مقابلے کے لیے اپنی فوج بھیجی تو شہری اس فوج پر ٹوٹ پڑیں گے۔ اس سے زیادہ تر نقصان شہریوں کا ہوگا۔ خانہ جنگی ہوگی۔ اپنے ہاتھوں اپنے بچوں اور عورتوں کو مروانے کے علاوہ سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ صلیبی فوج جو یہاں سے دور نہیں کسی مزاحمت کے بغیر اندر آجائے گی۔ پھر آپ رہیں گے نہ آپ کی خلافت۔ اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ بھائی بھائی کے خلاف نہیں لڑ سکتا۔ ذرا باہر آکر لوگوں کی بیتابیاں دیکھیں۔ کیاآپ اس طوفان کو روک لیں گے؟''
''شہر کی چابی میرے حوالے کردیں''۔ قاضی کمال الدین نے کہا۔
چابی قاضی کے حوالے کردی گئی۔ اس نے اپنے ہاتھوں شہر کا دروازہ کھولا۔ شہریوں کا ہجوم رکے ہوئے سیلاب کی طرح باہر نکلا۔ قاضی کمال الدین نے چابی سلطان ایوبی کے حوالے کی۔ سلطان ایوبی نے دوزانو ہوکر قاضی کے ہاتھ چومے اور اس کے ساتھ شہر میں داخل ہوا اور جب نورالدین زنگی کی بیوہ سامنے آئی تو سلطان ایوبی کی سسکیاں نکل گئیں۔ زنگی کی بیوہ اس سے لپٹ گئی اور بچوں کی طرح بلبلانے لگی۔ اس کی ہچکیاں تھم نہیں رہی تھیں۔ سلطان ایوبی کے سواروں پر عورتوں نے پھول پھینکے، بلائیں لیں اور انہیں جلوس میں اندر لے گئیں۔
قلعے کی چابی بھی سلطان ایوبی کے حوالے کردی گئی۔ وہ سب سے پہلے اپنے گھر گیا۔ وہ دمشق کا رہنے والا تھا۔ بڑے جذباتی انداز سے اس پرانے سے مکان میں داخل ہوا، جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔
 کچھ دیر آرام کرنے کے بعد اس نے فوج کے چھوٹے بڑے کمانڈروں کو اپنے مکان میں بلا لیا۔ ان کے ساتھ باتیں کرکے معلوم کیا کہ ان پر کس حد تک اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ فوج کی حالت اور کیفیت پوچھی اور اپنے احکام جاری کیے۔ اسی دوران اسے اطلاع ملی کہ خلیفہ اپنے وفادار مشیروں، وزیروں اور امیروں کے ساتھ لاپتہ ہوگیا ہے۔ فوج کے دو تین اعلیٰ حکام بھی اس کے ساتھ فرار ہوگئے تھے۔ سلطان ایوبی فوراً اٹھا اور فرار ہونے والوں کے گھروں پر چھاپے مروائے۔ یہ گھر دراصل محل تھے۔ بھاگنے والے اپنی جانیں بچا کر بھاگے تھے۔ ان کا مال ودولت پیچھے رہ گیا تھا۔ حرم کی عورتیں، رقاصائیں اور عیش وعشرت کا سارا سامان پیچھے رہ گیا تھا۔ سلطان ایوبی نے اس تمام دولت پر قبضہ کرکے اس میں سے کچھ بیت المال میں دے دیا اور زیادہ تر غریبوں اور اپاہجوں میں تقسیم کردیا۔
 اس نے خلیفہ اور مفرور امراء وغیرہ کے تعاقب کی ضرورت محسوس نہ کی۔ اس نے مصر اور شام کی وحدت یعنی ایک سلطنت کا اعلان کردیا اور اپنے بھائی تقی الدین کو دمشق کا امیر (گورنر) مقرر کردیا۔ دوسرے حصوں کے نئے گورنر مقرر کیے اور اس سلطنت کے استحکام اور دفاک کے انتظامات میں مصروف ہوگیا مگر اس کی انٹیلی جنس کی رپورٹیں اسے بتا رہی تھیں کہ اس کے امراء جو الملک الصالح کے وفادار تھے، اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ یورپی ممالک سے آئی ہوئی اطلاعات سے پتا چلا کہ صلیبی بہت بڑا لشکر تیار کررہے ہیں جس سے وہ عالم اسلام پر فیصلہ کن حملہ کریں گے۔ اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اس کے اپنے امراء اسے شکست دینے کے لیے صلیبیوں کی راہ دیکھ رہے تھے۔ لہٰذا اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے ان باغیوں کو ٹھکانے لگائے۔ یہ معمولی سی مہم نہیں تھی۔ دمشق کی فوج کی اہلیت سے وہ واقف نہ تھا۔ اس نے فوری طور پر اس فوج کی ٹریننگ شروع کردی۔ اسے جہاں لڑنا تھا، وہ پہاڑی علاقہ تھا۔ موسم سرما میں ان پہاڑوں پر برف بھی پڑتی تھی اور موسم سرما آرہا تھا۔
 قاہرہ اور دمشق میں اسے ایک فرق نمایاں طور پر نظر آرہا تھا۔ قاہرہ میں صلیبی اور سوڈانی جاسوسوں اور تخریب کاروں کے کئی خفیہ اڈے تھے اور وہاں کے لوگوں پر سلطان ایوبی کو پوری طرح بھروسہ نہیں تھا۔ دمشق میں صلیبی تخریب کار موجود تھے لیکن یہاں قوم کا بچہ بچہ اس کے ساتھ تھا بلکہ اس کے اشارے پر آگ میں کود جانے کو تیار تھا۔ اس لیے یہاں کے لوگوں کے متعلق یہ خطرہ بہت کم تھا کہ وہ دشمن کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کے آلۂ کار بن جائیں گے۔ دمشق اور شام کے لوگوں نے نورالدین زنگی کے زمانے میں پروقار زندگی گزاری تھی۔ اس کی وفات کے فوراً بعد ان کا ذاتی وقار ختم ہوگیا تھا۔ نئے حکمرانوں نے انہیں رعایا بنا لیا تھا۔ امیر وزیر عیش وعشرت اور ذاتی سیاست بازیوں میں مصروف ہوگئے اور انتظامیہ کے حاکم لوگوں کے لیے وبال جان بن گئے تھے۔ قانون کا احترام ختم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ قحبہ خانے اور شراب خانے بھی کھل گئے تھے۔ چار پانچ مہینوں میں لوگوں کا جینا حرام ہوگیا تھا۔ اناج تک کی کمی ہوگئی تھی۔ لوگوں کو پتا چلا کہ اناج باہر جارہا ہے۔ امراء اور وزراء نے اناج درپردہ اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور درپردہ باہر کہیں بھیج دیتے تھے۔ بازاروں میں ہر چیز کے بھائو چڑھ گئے اور لوگ تنگدستی محسوس کرنے لگے تھے۔
 وہاں کے لوگ تنگدستی اور فاقہ کشی تک برداشت کرنے کو تیار تھے لیکن وہ قومی سطح سے گرنے کو تیار نہیں تھے۔ وہ صلیبیوں کے ساتھ دوستی کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتے تھے۔ وہ محسوس کرنے لگے تھے کہ ان کے حکمران انہیں دشمن کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ نورالدین زنگی کے دور حکومت میں جھونپڑیوں اور پھٹے پرانے خیموں میں رہنے والوں کو بھی معلوم ہوتا تھا کہ سرکاری سطح پر کیا ہورہا ہے۔ جنگ کی صورت میں وہ میدان جنگ کی صورتحال سے آگاہ ہوتے تھے۔ زنگی کے مرتے ہی لوگوں کو اچھوت قرار دے دیا گیا تھا۔ انہیں بتا دیا گیا تھا کہ حکومت کے امور کے متعلق کسی کو استفسار کی جرأت نہیں ہونی چاہیے۔ دو مسجدوں کے اماموں کو صرف اس لیے مسجدوں سے نکال دیا گیا تھا کہ وہ لوگوں کو غیرت اور حریت کا وعظ سنا رہے تھے۔ خلیفہ کے محل اور دیگر سرکاری عمارتوں کے قریب آنا عوام کے لیے جرم قرار دے دیا گیا تھا۔ وہی لوگ جو نورالدین زنگی کو بھی راستے میں روک لیا کرتے اور محاذوں کی خبریں سنا کرتے تھے، اب معمولی سے سرکاری اہلکار کو بھی دیکھ کر ہٹ جایا کرتے تھے۔
 لوگ گھٹن محسوس کرنے لگے تھے، جہاد کے نعرے بھی مرتے جارہے تھے۔ نعرے تو مرسکتے ہیں، جذبے اتنی جلدی نہیں مرا کرتے۔ لوگوں نے چوری چھپے مل بیٹھ کر سوچنا شروع کردیا تھا کہ وہ کیا کریں۔ نورالدین زنگی کی بیوہ نے عورتوں کی ایک جماعت بنا لی تھی۔ ان حالات اور اس گھٹن میں انہیں اطلاع ملی کہ صلاح الدین ایوبی آگیا ہے اور فوج ساتھ لایا ہے تو وہ استقبال کے لیے باہر نکل آئے اور جب انہیں پتا چلا کہ خلیفہ سلطان ایوبی کو اپنی فوج کے زور سے روکنا چاہتا ہے تو لوگ فوج پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ خلیفہ کے محافظ دستوں کی انہوں نے بہت بے عزتی کی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ خلیفہ المالک الصالح اور اس کے حواری امیر چوروں کی طرح دمشق سے بھاگ گئے تھے… اور اب لوگ سلطان ایوبی پر جانیں فدا کرنے کو بیتاب تھے۔ لوگوں کی اس جذباتی کیفیت نے سلطان ایوبی کا کام آسان کردیا تھا۔
٭ ٭ ٭
 عورتوں میں قومی جذبہ پہلے سے ہی تھا، اب یہ جذبہ دہکتے انگارے بن گیا۔ جواں سال لڑکیوں کا ایک وفد سلطان ایوبی کے پاس گیا اور یہ عرض داشت پیش کی کہ لڑکیوں کو محاذ پر فوج کے ساتھ بھیجا جائے اور انہیں عسکری تربیت دی جائے۔ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی کے علاوہ لڑنا بھی چاہتی تھیں۔ سلطان ایوبی نے ان کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا… ''مجھے جس روز تمہاری ضرورت پڑی، تمہیں گھروں سے نکال لوں گا۔ ابھی تمہارا محاذ گھر ہے۔ میں تمہیں گھروں کا قیدی نہیں بنانا چاہتا۔ اگر تم مائیں ہو تو بچوں کو مجاہد بنائو، اگر تم بہنیں ہو تو بھائیوں کو اسلام کے پاسبان بنائو۔ میں تمہاری عسکری تربیت کا بندوبست کروں گا مگر یہ نہ بھولنا کہ تمہیں گھروں کا نظام سنبھالنا ہے''… ایسی چند اور باتیں کرکے اسے جیسے کچھ یاد آگیا ہو۔ اس نے کہا… ''ایک محاذ اور ہے جس پر تم کام کرسکتی ہو۔ تم نے سنا ہوگا کہ ہم نے خلیفہ کے محل اور امیروں، وزیروں اور حاکموں کے گھروں سے بہت سی لڑکیاں برآمد کی ہیں۔ ان کی تعداد دو تین نہیں دو تین سو ہے۔ ہم نے انہیں آزاد کردیا تھا۔ وہ یہیں کہیں شہر میں یا گردونواح میں ہوں گی۔ معلوم نہیں کہ وہ کہاں کہاں کی رہنے والی تھیں اور اب کہاں کہاں خراب ہوتی پھر رہی ہیں۔ میں ان ذرا ذرا سے مسئلوں کی طرف توجہ نہیں دے سکتا۔ میرے سامنے بڑے بڑے اونچے پہاڑ کھڑے ہیں۔ میں یہ کام تمہارے سپرد کرتا ہوں کہ لڑکیوں کو تلاش کرو۔ ان میں بہت سی ایسی ہوں گی جنہیں خرید کر یا اغوا کرکے حرموں میں داخل کیا گیا ہوگا۔ اب ان کا مستقبل یہی ہے کہ وہ خفیہ قحبہ خانوں میں چلی جائیں گی۔ سرائے میں مسافروں کی خدمت کریں گی اور ذلیل وخوار ہوتی پھریں گی۔ ان کے ساتھ کوئی شادی نہیں کرے گا۔ انہیں ڈھونڈو اور ان میں کھوئی ہوئی عزت ازسرنو پیدا کرکے ان کی شادیوں کا انتظام کرو''۔
 لڑکیوں نے اس مہم کا آغاز کردیا۔انہوں نے اپنے گھروں کے مردوں کی مدد حاصل کرلی اور چند دنوں میں کئی ایک لڑکیاں برآمد کرکے انہیں اپنے گھروں میں رکھ کر ان کی تربیت شروع کردی۔ ان بدنصیب لڑکیوں میں سحر نام کی ایک لڑکی تھی جسے زبردستی رقاصہ بنایا گیا تھا۔ اسے ایک امیر کے گھر سے برآمد کرکے رہا کیا گیا تھا۔ اس نے ایک غریب سے گھرانے میں پناہ لے رکھی تھی۔ اتفاق سے لڑکیوں کو پتا چلا تو اسے وہاں سے لے آئیں۔ اس نے جب دیکھا کہ دمشق کی لڑکیاں باقاعدہ فوج کی طرح کام کرہی ہیں تو اس کی سوئی ہوئی غیرت بیدار ہوگئی اور اس میں جذبہ انتقام بھی پیدا ہوگیا۔ اس نے لڑکیوں کو بتایا کہ اس کے ساتھ ایک رقاصہ سرائے کے مالک کے پاس ہے۔ سحر سرائے کے مالک کو جانتی تھی۔ اس نے بتایا کہ یہ آدمی صلیبیوں کا جاسوس ہے اس نے ایک تہہ خانہ بنا رکھا ہے جہاں فدائی (حشیشین) اور صلیبی جاسوس راتوں کو جاتے ہیں۔ رقص ہوتا ہے اور شراب کے مٹکے خالی ہوتے ہیں۔ سحر کو بھی ایک رات وہاں لے جایا گیا تھا۔ اس نے کہا… ''میں ان جاسوسوں کو پکڑوا سکتی ہوں لیکن میں انہیں پکڑوانا نہیں چاہتی۔ سرائے کے مالک کو ان کے ساتھ اپنے ہاتھوں قتل کرنا چاہتی ہوں مگر یہ کام میں اکیلی نہیں کرسکتی۔ تم میرا ساتھ دو''۔
 لڑکیاں تیار ہوگئیں۔ انہوں نے ایک منصوبہ تیار کرلیا۔ اس کے مطابق ایک شام سحر پردے میں سرائے کے مالک کے پاس چلی گئی۔ وہ اسے دیکھ کر خوش ہوا۔ سحر نے کہا… ''میں فوراً تمہارے پاس پہنچ جاتی لیکن شہر میں پکڑ دھکڑ ہورہی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ میں تمہارے پاس آئی تو تم بھی پکڑے جائو گے۔ میں ایک غریب سے گھرانے میں یتیم لڑکی بن کر چھپی رہی۔ اب حالات صاف ہوگئے ہیں۔ تم پر کسی نے شک نہیں کیا، اس لیے تمہارے پاس آگئی ہوں''۔

جاری ھے ، (اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے)، شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

Comments

No comments:

Post a Comment