Monday 15 May 2017

استان ایمان فروشوں کی ۔د


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔59 اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 تم پر کسی نے شک نہیں کیا، اس لیے تمہارے پاس آگئی ہوں''۔ سرائے کا مالک اسے اپنی رقاصہ کے پاس لے گیا۔ وہ بھی بہت خوش ہوئی۔ اس شام کے بعد وہ چند راتیں وہیں رہی۔ اس نے دیکھا کہ خلیفہ اور عیاش امراء کے چلے جانے اور سلطان ایوبی کے اتنے سخت احکام کے  باوجود سرائے کے تہہ خانے میں رونق وہی تھی۔ اس میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ مسافر اپنے کمروں میں سو جاتے تھے تو تہہ خانے کی دنیا آباد ہو جاتی تھی۔ وہاں اب بھی صلیبی جاسوس اور فدائی آتے تھے۔ سحر ان کا دل لبھاتی رہی اور راتوں کو ناچتی اور انہیں شراب پلاتی رہی۔ یہ لوگ مسافروں کے بہروپ میں سرائے میں آتے تھے۔ سحر نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ رات کو سرائے کے باہر پہرے کا انتظام بھی ہوتا ہے تاکہ کوئی خطرہ نظر آئے تو تہہ خانے تک قبل از وقت اطلاع پہنچا دی جائے۔ سحر کو وہاں قید کرلیا گیا تھا۔ وہ اکیلی باہر نہیں جاسکتی تھی۔ وہ دل پر پتھر رکھ کر وہاں ناچتی رہی۔ وہ مایوس ہوگئی تھی کہ وہ انتقام لینے آئی تھی مگر قید ہوگئی۔ اس نے کسی پر اپنی مایوسی کا اظہار نہ ہونے دیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ وہ لوگ اس پر اعتبار کرنے لگے۔ بعض راز کی باتیں بھی اس کے سامنے کرگزرتے تھے۔
 ایک راتہ تہہ خانے کی محفل میں ایک صلیبی جاسوس نے سرائے کے مالک سے کہا… ''ہم ان دو لڑکیوں سے اکتا گئے ہیں، کوئی نئی چیز لائو''۔
 سحر اور دوسری رقاصہ بھی وہیں تھی۔ دوسری رقاصہ کو تو افسوس ہوا ہوگا، سحر کو امید کی ایک کرن نظر آگئی۔ سرائے کے مالک نے کہا کہ ''صلاح الدین ایوبی نے ایسی فضا پیدا کردی ہے کہ ا ب دمشق میں کوئی رقاصہ یا کوئی نئی چیز نہیں مل سکے گی''۔
 ''مل کیوں نہیں سکے گی؟'' سحر نے کہا… ''جن ناچنے گانے والیوں کو امیروں کے گھروں سے پکڑ کر آزاد کردیا گیا تھا، وہ ابھی یہیں ہیں۔ میری طرح وہ بھی چھپی ہوئی ہیں اگر تم لوگ مجھے دو تین روز کے لیے باہر جانے دو تو میں انہیں پردہ دار خواتین کے بھیس میں یہاں لے آئوں گی''۔
 سحر کو اس وقت تک قابل اعتماد سمجھ لیا گیا تھا۔ انہوں نے اسے اجازت دے دی اور کچھ رقم بھی دے دی۔ صبح ہوئی تو سحر پردے میں باہر نکل گئی۔
٭ ٭ ٭
 چار پانچ روز بعد سرائے کے چور دروازے سے آٹھ مستورات داخل ہوئیں اور سرائے کے مالک کے کمرے میں چلی گئیں۔ مستورات نے برقعہ نما لبادے اوڑھ رکھے تھے جن میں ان کے چہرے چھپے ہوئے تھے۔ کمرے میں آکر سب نے نقاب اٹھا دئیے۔ سرائے کے مالک نے آنکھیں مل کر انہیں دیکھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب جوان لڑکیاں تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت۔ ان کے ساتھ سحر تھی۔ اس نے بتایا کہ ان میں سے کون کس کے پاس تھی اور یہ بھی بتایا کہ رقص دیکھ کر اور گانا سن کر تم پر مدہوشی طاری ہوجائے گی۔ اس نے کہا… ''آج رات اپنے تمام دوستوں کو تہہ خانے میں بلائو''۔
 سرائے کا مالک پاگلوں کی طرح اٹھ دوڑا۔ وہ اپنے ساتھیوں کو رات تہہ خانے میں آنے کو کہنے گیا تھا۔ سحر لڑکیوں کو دوسری رقاصہ کے پاس لے گئی۔ وہ رقاصہ انہیں دیکھ کر حیران ہوئی کہ وہ ان میں سے کسی کو بھی نہیں جانتی تھیں۔ اس رقاصہ نے ایک لڑکی کے ساتھ اپنی مخصوص اصطلاحوں میں بات کی تو وہ لڑکی ذرا جھینپ گئی۔ سحر نے اسے کہا… ''یہ ڈری ہوئی ہیں، میں انہیں زمین کے نیچے سے نکال کر لائی ہوں۔ رات کو ان کا فن دیکھ کر تم سمجھ جائو گی کہ یہ کون ہیں اور کہاں سے آئی ہیں''۔
 وہ رقاصہ مطمئن نہ ہوئی۔ اسے کچھ شک ہوتا یا نہ ہوتا، اسے یہ افسوس ضرور تھا کہ ان لڑکیوں کے سامنے اس کی قدروقیمت ختم ہوگئی ہے۔ اس نے سحر کو اپنے کمرے میں لے جا کر کہا… ''معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ یہ نئی لڑکیاں ہیں اور خوبصورت بھی۔ ان کے مقابلے میں ہم دونوں بہت ہی پرانی نظر آئیں گی۔ ہماری قیمت اتنی گر جائے گی کہ یہ لوگ ہمیں پرانے سامان کی طرح اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ تم انہیں کہاں سے لے آئی ہو؟ کیوں لے آئی ہو تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے''۔
 ''میں دراصل اپنی مشقت کم کرنا چاہتی ہوں''۔ سحر نے جواب دیا… ''ان کے آجانے سے ہم دونوں کا کام کم ہوجائے گا''۔
 دوسری رقاصہ اس کی یہ دلیل نہیں مان رہی تھی۔ سحر کے پاس اور کوئی دلیل نہیں تھی جس سے وہ اسے مطمئن کرتی۔ دونوں میں تکرار ہوگئی۔ دوسری رقاصہ غصے میں آگئی اور بولی… ''میں سرائے کے مالک سے کہوں گی کہ یہ لڑکیاں ناچنے والی نہیں، یہ عصمت فروش لڑکیاں ہیں جنہیں اس نازک جگہ نہیں آنا چاہیے، کیونکہ یہ تہہ خانے کے راز کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ ان نوجوان لڑکیوں کا کیا بھروسہ؟''… یہ رقاصہ بہت تجربہ کار اور چالاک تھی۔ اس نے سحر کی زبان بند کردی پھر بھی سحر اس کی بات نہیں مان رہی تھی۔ اس رقاصہ نے آخر یہ دھمکی دی… ''اگر تم انہیں یہاں سے چلتا نہیں کرو گی تو میں یہاں آنے والوں کو یہ کہہ کر یہاں آنے سے روک دوں گی کہ تم انہیں گرفتار کرانے کے لیے ان لڑکیوں کا جال پھیلا رہی ہو''۔
 سحر پریشان ہوگئی۔ دوسری رقاصہ غصے میں باہر جانے کو اٹھی اور دروازے کی طرف چلی۔ سحر نے بڑی پھرتی سے اپنی قمیض کے نیچے ہاتھ ڈالا اور کمر بند سے خنجر نکال کر دوسری رقاصہ کی پیٹھ میں گھونپ دیا۔ وہ زخم کھا کر گھومی تو سحر نے خنجر اس کے دل میں اتار دیا اور دانت پیس کر کہا… ''میں تجھے قتل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ بدبخت تجھے بھی میرے ہی ہاتھوں مرنا تھا''… اس نے اسی کے کپڑوں سے خنجر صاف کیا۔ رقاصہ کی لاش پر اس کے پلنگ سے بستر اٹھا کر پھینک دیا اور دروازہ باہر سے بند کرکے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اپنے خون آلود کپڑے بدلے اور خنجر کمربند میں اڑس کر قمیض کے نیچے چھپا دیا۔
٭ ٭ ٭
 رات سرائے کے مالک کے علاوہ چھ آدمی تہہ خانے کے اس کمرے میں آئے جہاں رقص اور شراب کا دور چلا کرتا تھا۔ سرائے کے مالک نے سحر سے دوسری رقاصہ کے متعلق پوچھا تو سحر نے نفرت کے لہجے میں کہا… ''وہ ان لڑکیوں کو دیکھ کر جل بھن گئی ہے۔ وہ اپنے آپ کو ان سب سے زیادہ حسین سمجھتی ہے۔ آج رات وہ یہاں نہ ہی آئے تو اچھا ہے، محفل کے رنگ میں بھنگ ڈالے گی''۔
 ''لعنت بھیجو!'' سرائے کے مالک نے کہا… ''کل اس سے نمٹ لوں گا۔ اسے پڑی رہنے دو، اپنے کمرے میں''۔
 سحر نے ان چھ آدمیوں سے کہا… ''ان لڑکیوں کے پاس اچھے کپڑے نہیں ہیں۔ ان کا لباس تم سب کے ذمے ہیں۔ آج رات وہ جن کپڑوں میں ہیں، انہی میں تمہارے سامنے آئیں گی''۔
 انہوںنے جب لڑکیوں کو دیکھا تو بھول گئے کہ انہوں نے کیسے کپڑے پہن رکھے ہیں۔ لڑکیاں چہروں سے پیشہ ور ناچنے والیاں لگتی ہی نہیں تھیں۔ ان کے چہرے تروتازہ اور معصوم سے تھے۔ ان کے بالوں کو بھی نہیں سجایا گیا تھا۔ ان کی کوئی حرکت ظاہر نہیں کرتی تھی کہ یہ پیشہ ور ہیں۔ ان کا انداز سیدھا سادا سا تھا۔ سحر نے انہیں کہا کہ اپنے مہمانوں کو شراب پیش کرو۔ وہ جب صراحیوں سے پیالوں میں شراب انڈیلنے لگیں تو ایک آدمی نے ایک لڑکی کو چھیڑا۔ لڑکی بدک کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کا چہرہ لال سرخ ہوگیا۔
 ''سحر!'' اس آدمی نے کہا… ''انہیں کہاں سے لائی ہو؟ یہ کس کے پاس تھیں؟''
 سحر نے قہقہہ لگایا اور بولی… ''اپنا فن بھول گئی ہیں۔ یہ صلاح الدین ایوبی کا خوف ہے جو ان سب پر طاری ہے۔ ابھی کھل جائیں گی''۔
 ''صلاح الدین ایوبی!'' ایک نے طنزیہ کہا… ''ہمارے جال میں وہ اب آیا ہے۔ ہم اسے اسی کے امیروں اور سالاروں سے مروائیں گے''… اس نے اپنے ایک ساتھی کے کندھے پر ہاتھ مار کر کہا… ''اس کا خنجر صلاح الدین ایوبی کے خون کا پیاسا ہے۔ جانتی ہونا اسے؟ یہ حسن بن صباح کی امت سے ہے۔ فدائی!'' اس نے ایک لڑکی کے گال پر ہلکی سی تھپکی دے کر کہا… ''ایوبی کا خوف دل سے اتار دو۔ وہ چند دنوں کا مہمان ہے''۔
 تھوڑی سی دیر بعد شراب رنگ دکھانے لگی اوررقص کی فرمائش ہوئی۔ لڑکیاں صراحیوں اور پیالوں کو ادھر ادھر
 کرتی اور بھرتی ان چھ آدمیوں کے پیچھے ہوگئیں۔ اچانک سب نے قمیضوں کے نیچے ہاتھ ڈالے، خنجر نکالے، سحر نے بھی خنجر نکال لیا تھا۔ اس نے سرائے کے مالک پر وار کیا اور دوسریوں نے چھ آدمیوں کو پے در پے وار کرکے لڑھکا دیا۔ کسی کو بھی سنبھلنے کی مہلت نہ ملی۔ سحر ہر ایک پر وار پہ وار کیے جارہی تھی، جیسے پاگل ہوگئی ہو۔
 اس نے انتقام لے لیا۔
 یہ لڑکیاں شریف گھرانوں کی بیٹیاں تھیں جو سلطان ایوبی کے پاس عرض داشت لے کر گئی تھیں کہ وہ مردوں کے دوش بدوش لڑنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے ہی سحر کو ایک غریب گھرانے سے برآمد کیا تھا۔ اس نے جب لڑکیوں کو جنگی پیمانے پر کام کرتے دیکھا تو اسے سرائے کے مالک کا خیال آگیا تھا۔ اس نے لڑکیوں کو بتا دیا تھا کہ سرائے کا تہہ خانہ جاسوسوں اور تخریب کاروں کا اڈا ہے۔ ان لڑکیوں کی مدد سے وہ انہیں پکڑوانا چاہتی تھی مگر وہاں گئی تو سرائے کے مالک نے اس کا باہر نکلنا بند کردیا۔ جاسوسوں کی اس فرمائش پر کہ نئی لڑکیاں لائو، اسے موقع مل گیا۔ اسے نئی لڑکیاں لانے کی اجازت مل گئی۔ اس نے ان لڑکیوں سے ذکر کیا اور کہا کہ وہ نئی لڑکیاں بن کر چلیں اور ان آدمیوں کو ختم کیا جائے۔ لڑکیاں تیار ہوگئیں، انہوں نے سکیم بنائی اور اس کے ساتھ چلی گئیں۔ انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ان آدمیوں کو اپنے جال میں پھانس کر گرفتار کرایا جائے۔ اگر انہیں گرفتار کرایا جاتا تو ان سے بڑی قیمتی معلومات حاصل کی جاسکتی تھی اور ان سے نشاندہی کروا کے ان کے کئی اور ساتھی پکڑائے جاسکتے تھے مگر لڑکیاں جوشیلی اور جذباتی تھیں۔ وہ اتنا ہی جانتی تھیں کہ دشمن کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ وہ جذبۂ جہاد کی تسکین کرنا چاہتی تھیں اور سحر کا سینہ جذبۂ انتقام سے پھٹ رہا تھا۔ وہ انہیں اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کو بیتاب تھی۔ اس نے دوسری رقاصہ کو اسی لیے قتل کیا تھا کہ ان لڑکیوں کی اصلیت بے نقاب ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ ان کی اصلیت تو بے نقاب ہو ہی چلی تھی۔ انہیں اس قسم کی غلیظ محفل کے طور طریقوں اور شراب پلانے کے انداز سے واقفیت ہی نہیں تھی۔ انہوں نے بروقت خنجر نکال لیے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئیں۔
 وہ سب چور دروازے سے نکلیں اور اپنے ٹھکانے پر پہنچ گئیں۔ ان کی رپورٹ پر کچھ دیر بعد فوج نے سرائے پر چھاپہ مارا اور تہہ خانے میں گئے، وہاں لاشیں پڑی تھیں۔ تہہ خانے کے کمروں کی تلاشی لی گئی۔ ایک کمرے سے دوسری رقاصہ کی لاش برآمد ہوئی اور سرائے کے مالک کے کمرے سے کئی ایک ثبوت ملے کہ یہ لوگ جاسوس اور تخریب کار تھے… مگر آنے والا وقت سلطان صلاح الدین ایوبی اور سلطنت اسلامیہ کے لیے تاریخ کے سب سے بڑے خطرے لارہا تھا اور سلطان ایوبی دن رات جنگی منصوبہ بندی اور فوج کی ٹریننگ میں مصروف رہتا تھا۔
جاری ھے ، (ناگوں والے قلعے کے قاتل)، شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

Comments

No comments:

Post a Comment