Monday 15 May 2017

داستان ایمان فروشوں کی ۔


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔56 اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 اس حملے کی خبر بروقت لے آیا تھا۔ ریجنالٹ اور دوسرے تمام جنگی قیدیوں کو نورالدین زنگی کرک لے گیا اور سلطان ایوبی اس سے رخصت ہوکر قاہرہ چلا گیا۔ اس نے سوچا تک نہ تھا کہ وہ ا ب نورالدین زنگی سے کبھی نہیں مل سکے گا۔ وہ اس مسرت کے ساتھ قاہرہ گیا کہ زنگی ریجنالٹ جیسے قیمتی قیدی کو بڑی سخت شرائط منوائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ نورالدین زنگی نے بھی ذہن میں کچھ منصوبے بنائے ہوں گے مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مارچ ١١٧٤ء کے ابتدائی دن تھے کہ بغداد کے کسی علاقے میں شدید زلزلہ آیا جس نے چھ سات دیہات کو تباہ کردیا۔ بغداد میں بھی نقصان ہوا۔ مورخوں نے اسے تاریخ کا سب سے زیادہ تباہ کن زلزلہ کہا ہے۔ نورالدین زنگی کے دل میں اپنے عوام کے ساتھ اتنی محبت تھی کہ ان کی امداد کے احکام جاری کرنے کے بجائے خود کرک سے چل پڑا۔ وہ ان کی دستگیری اپنی نگرانی میں کرنا چاہتا تھا، ویسے بھی اسے کرک سے جانا تھا۔ بغداد اور اردگرد کے حالات اچھے نہیں تھے۔ وہ کرک سے ریجنالٹ اور دوسرے صلیبی قیدیوں کو بھی ساتھ لیتا گیا۔
 بغداد پہنچ کر اس نے سب سے پہلے زلزلے کا شکار ہونے والے لوگوں کی طرف توجہ دی۔ دارالخلافے سے باہر رہنے لگا۔ وہ دل وجان سے اپنے لوگوں کی مدد کرتا رہا۔ جہاں رات آتی وہیں رک جاتا۔ اس نے کھانے کی پروا نہ کی کہ کیسا ملتا ہے اور کس کے ہاتھ کا پکا ہوتا ہے۔ اسے تباہ حال لوگوں کی خوش حالی کا غم کھائے جارہا تھا۔ اپریل کے آخر تک اس نے تمام متاثرین کو آباد کردیا۔ جب ذرا فرصت ملی تو اس نے اپنے طبیب کو بتایا کہ وہ اپنے گلے کے اندر درد محسوس کرتا ہے۔ طبیب نے دوا دارو کیا لیکن حلق میں سوزش بڑھتی گئی۔ طبیبوں نے بہت علاج کیا لیکن مرض کا یہ عالم ہوگیا کہ وہ بات کرنے سے بھی معذور ہوگیا اور مئی ١١٧٤ کے پہلے ہفتے میں خاموشی سے جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔
 یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ زنگی کو خناق کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا لیکن بعض مورخوں نے وثوق سے لکھا ہے کہ زنگی کو حسن بن صباح کے فدائیوں نے زہر دیا تھا۔ ان دنوں جب زنگی زلزلے سے تباہ کیے ہوئے دیہات میں بھاگتا دوڑتا رہتا اور اس کے کھانے کے اوقات اور پکانے کے طورطریقے بے قاعدہ ہوگئے تھے۔فدائیوں نے اسے کھانے میں ایسا زہر دینا شروع کردیا تھا جس کا ذائقہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔ یہ زہر حلق کی ایسی سوزش کا باعث بنا، جسے طبیب سمجھ ہی نہ سکے۔ جنرل محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے اپنی انگریزی کتاب ''گوریلا وارفیئر'' میں کئی بڑے بڑے اور مستند مورخوں کے حوالے سے اسی کی تصدیق کی ہے کہ نورالدین زنگی فدائیوں کا شکار ہوا تھا۔
 زنگی کوئی وصیت نہ کرسکا۔ سلطان ایوبی کو کوئی پیغام نہ بھیج سکا۔ سلطان ایوبی کو اس وقت اطلاع پہنچی جب زنگی دفن ہوچکا تھا۔ دوسرے ہی دن بغداد سے ایک اور قاصد یہ اطلاع لے کے آیا کہ نورالدین زنگی کی وفات کے ساتھ ہی موصل، حلب اور دمشق کے امراء نے خودمختاری کا اعلان کردیا ہے ا ور سلطان ایوبی کو یہ اطلاع بھی ملی کہ بغداد کے امراء وزاء نے نورالدین زنگی کے بیٹے الملک الصالح کو جس کی عمر صرف گیارہ سال تھی، سلطنت اسلامیہ کا خلیفہ مقرر کردیاہے۔ سلطان ایوبی سمجھ گیا کہ یہ امراء نابالغ خلیفہ کو کس راستے پر ڈالیں گے اور وہکیا گل کھلائیں گے۔
 سلطان ایوبی نے علی بن سفیان کو بلایا اور کہا… ''تم نے پانچ مہینے گزرے، مجھے اطلاع دی تھی کہ عکرہ میں اپنا ایک جاسوس شہید ہوگیا اور دوسرا پکڑا گیا ہے تو میرا دل بیٹھ گیا تھا اور مجھے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے صلیبیوں کا یہ سال دنیائے اسلام کے لیے اچھا نہیں ہوگا… بیٹھ جائو۔ میری باتیں غورسے سنو۔ اب ہمیں اپنے بھائیوں کے خلاف لڑنا پڑے گا''

اسلام کی بقا کچے دھاگے سے لٹک رہی تھی
مئی ١١٧٤٤ء کا دن دنیائے اسلام کا ایک تاریک دن تھا۔ نورالدین زنگی کی میت کو ابھی غسل بھی نہیں دیا گیا تھا کہ بہت سے انسانوں کے چہرے مسرت سے چمک اٹھے تھے۔ یہ صلیبی نہیں تھے، یا یوں کہیے کہ صرف صلیبی نہیں تھے جو زنگی کے انتقال پر پرسرور تھے، ان میں مسلمان بھی تھے جو صلیبیوں کی نسبت کچھ زیادہ ہی خوش نظر آتے تھے۔ یہ مسلمان ریاستوں اور جاگیروں کے امراء اور حاکم تھے۔ وہ سب زنگی کے گھر جمع ہوگئے تھے۔ وہ جنازے کے لیے آئے تھے۔ ان میں سے بعض بے چین تھے جیسے زنگی کے انتقال سے غم زدہ ہوں مگر بے چینی یہ تھی کہ وہ زنگی کو شام سے پہلے پہلے دفن کردینا چاہتے تھے۔ وہ اکٹھے تو ہوگئے تھے لیکن ان کے دل پھٹے ہوئے تھے۔ وہ ایک دوسرے کو شکی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ان لوگوں کا مذہب ایک، خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک اور دشمن ایک تھا مگر ہر ایک کا دل دوسرے سے الگ اور جدا تھا۔ ان کی مثال ایک درخت کی ٹہنیوں کی سی تھی جو ٹوٹ کر درخت سے الگ ہوگئی ہوں اور اب الگ الگ اپنے آپ کو ہرا بھرا رکھنے کی توقع لیے ہوئے ہوں۔
 وہ دور دراصل جاگیرداری اور نوابی کا تھا۔ بعض مسلمان ریاستیں ذرا وسیع تھیں اور باقی چھوٹی چھوٹی… ان کے حکمران امیر کہلاتے تھے۔ یہ لوگ مرکزی خلاف کے تحت تھے۔ اسلام کے کسی بھی دشمن کے خلاف جنگ ہو تو یہ امراء خلافت کو مالی اور فوجی مدد دیتے تھے مگر یہ مدد صرف مدد تک محدود رہتی تھی، اس میں کوئی ملی جذبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ امن اور سکون سے عیش وعشرت کرنے کی خاطر خلافت کا مطالبہ پورا کردیتے تھے۔ عیش وعشرت کی خاطر وہ اپنے سب سے بڑے (بلکہ واحد) دشمن صلیبیوں سے درپردہ دوستی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ان میں سے بعض نے صلیبیوں کے ساتھ درپردہ معاہدے کر بھی رکھے تھے لیکن نورالدین زنگی کا وجود صلیبیوں کے راستے میں ایک چٹان تھا۔ وہ مسلمان امراء کو کئی بار شرمسار کرچکا تھا اور اس نے انہیں ذہن نشین کرانے کی سرتوڑ کوشش کی تھی کہ صلیبی انہیں اسلامی وحدت سے توڑ کر ہڑپ کرتے جائیں گے مگر صلیبیوں کی مہیا کی ہوئی یورپی شراب، نوجوان لڑکیوں اور سونے کی اینٹوں میں اتنی قوت تھی، جس نے ان کے کان بند اور عقل سربمہر کررکھی تھی۔ زنگی کی آواز جیسے پتھروں سے ٹکرا کر واپس آجاتی تھی۔
 وہ سب سے پہلے جاگیردار اور نواب تھے، امیر اور حاکم تھے اور ان کے بعد اگر مذہب کی بات چل نکلے تو وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ ان کا اگر دین تھا تو وہ ان کی ریاستیں اور جاگیریں تھیں۔ یہی ان کا ایمان تھا۔ وہ اسلامی وحدت کے قائل نہیں تھے۔ جنگ کے سخت خلاف تھے کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہونے لگتا تھا کہ صلیبی ان کی جاگیروں پر قبضہ کرلیں گے۔ ان کے علاوہ ان کے دلوں میں یہ ڈر بھی تھا کہ ان کی رعایا نے اپنے دشمن کو پہچان لیا تو اس میں روحانی بیداری اور قومی وقار بیدار ہوجائے گا، پھر رعایا ان کی نوابی کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ حقیقت یہ تھی کہ رعایا ان کے لیے مستقل خطرہ تھی۔ لوگوں میں قومی وقار موجود تھا۔ زنگی کی فوج انہیں لوگوں کی فوج تھی۔ اس کے مجاہدوں نے دس گنا دشمن کا مقابلہ بھی کیا تھا۔ یہ جذبے کا کرشمہ تھا۔ امراء کو یہ جذبہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ لہٰذا وہ زنگی کو بھی پسند نہیں کرتے تھے اور صلاح الدین ایوبی کو تو وہ اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ اب زنگی فوت ہوگیا تو وہ خوش تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس قوم میں اب کوئی زنگی نہیں رہا اور جہاد بھی زنگی کے ساتھ ہی دفن ہوجائے گا۔
 زنگی دفن ہوگیا، صلیبیوں پر مسلمانوں کی جو دہشت طاری تھی، وہ ختم ہوگئی۔ ان کے دل میں اب صلاح الدین ایوبی کا کانٹا رہ گیا تھا جس کے متعلق اب وہ اتنے فکر مند نہیں تھے، جتنے زنگی کی زندگی میں تھے۔ اب سلطان ایوبی اکیلا رہ گیا تھا۔ اسے مدد اور کمک دینے والا زنگی مرگیا تھا۔ صلیبیوں کو اصل خوشی تو اس پر ہوئی کہ زنگی کے بعد سرکردہ امراء وزاء نے زنگی کے کمسن بیٹے الملک الصالح کو گدی پر بٹھا دیا تھا جس کی عمر گیارہ سال تھی۔ یہ انتخاب ان امراء نے کیا تھا جو در پردہ صلیبیوں کے دوست تھے۔ ان طرح سلطانی کی گدی صلیبیوں کے ہاتھ آگئی تھی۔ ان امراء میں گمشتگین نام کا ایک امیر جو دراصل قلعہ دار (قلعے کا گورنر) تھا اور دوسرا سیف الدین والئی موصل تھا۔ دمشق کا حاکم شمس الدین بن عبدالمالک تھا۔ الجزیرہ اور نواحی علاقوں پر نورالدین زنگی کے بھتیجے کا راج تھا۔ ان کے علاوہ کئی اور جاگیر دار تھے۔ ان سب نے خود مختاری کا اعلان کردیا۔ وہ بظاہر خلافت کے ماتحت تھے لیکن عملاً آزاد ہوگئے تھے۔ وہ اپنی اپنی جگہ بہت مسرور تھے مگر محسوس نہ کرسکے کہ وہ ذروں کی طرح بکھر کر صلیبیوں کا آسان شکار بن گئے ہیں۔
 زنگی کی وفات سے عالم اسلام کو جو نقصان پہنچا تھا، اسے زنگی کی بیوی نے محسوس کیا۔ سلطان ایوبی نے محسوس کیا اور ان لوگوں نے محسوس کیا جن کے دلوں میں اسلام کی عظمت زندہ تھی۔
٭ ٭ ٭
 اس حادثے کو بہت دن گزر چکے تھے۔ سلطان ایوبی اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ کمرے میں مصطفی جودت نام کا ایک اعلیٰ فوجی افسر بیٹھا بول رہا تھا۔ مصطفی ترک تھا۔ وہ نورالدین زنگی کی فوج میں منجنیقوں کا کمانڈر تھا۔ زنگی کی وفات کے بعد اس نے عالم اسلام میں جو تباہ کن انقلاب دیکھا، اس نے اسے تڑپا دیا۔ اس نے یہ کہہ کر لمبی چھٹی لے لی کہ اسے ترکی گئے کئی سال گزر گئے ہیں، لہٰذا وہ ترکی اپنے گھر جانا چاہتا ہے۔ وہ دمشق سے روانہ ہوا، قاہرہ پہنچ گیا اور سلطان ایوبی کے پاس چلا گیا۔ مصطفی ان فوجی افسروں میں سے تھا جو افسر کم اور مسلمان زیادہ ہوتے ہیں۔ اسے معلوم تھا کہ زنگی کے بعد صرف سلطان ایوبی ہے جو عظمت اسلام کی پاسبانی کرسکتا ہے اور کرے گا۔ اسے ڈر تھا کہ سلطان ایوبی کو اس طرف کے حالات کا علم نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ سلطان ایوبی کو وہاں کے حالات سنا رہا تھا۔
''…اور فوج کس حال میں ہے؟'' سلطان ایوبی نے اس سے پوچھا۔
 ''محترم زنگی مرحوم نے فوج میں جو جذبہ پیدا کیا تھا، وہ زندہ ہے''… مصطفی نے جواب دیا… ''مگر یہ جذبہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ آپ جانتے ہیں کہ صلیبیوں کے سیلاب کو صرف فوج نے روک رکھا ہے۔ محترم زنگی مرحوم کی زندگی میں عملاً فوج حکومت کررہی تھی۔ جنگی منصوبے اور فیصلے فوج کے ہاتھ میں تھے لیکن یہ اقدام خلافت کے احکام کے خلاف تھا۔ اب ہم خلافت کے پابند ہوگئے ہیں۔ ہم اپنے آپ کوئی کارروائی نہیں کرسکتے اگر خلیفہ کوئی جنگی منصوبہ بنائے گا ہی نہیں تو فوج کیا کرے گی؟ صلیبی جانتے ہیں کہ مسلمان امراء میں وہ غیرت ہی نہیں جو قومی عظمت کی خاطر لڑاتی اور مرواتی ہے اور لوگ جانیں قربان کرتے ہیں۔ صلیبیوں نے امراء کی غیرت خرید لی ہے اور اب وہ سالاروں کو خریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کی تخریبی سرگرمیاں فوج میں بھی اور قوم میں بھی شروع ہوگئی ہیں اگر یہ عمل جلدی نہ روکا گیا تو صلیبی فوجی حملے کے بغیر ہی سلطنت اسلامیہ کے مالک بن جائیں گے۔ سلطنت اسلامیہ جاگیروں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ امراء کو اب راہ راست پر نہیں لایا جاسکتا۔ وہ صلیبیوں کی شراب میں ڈوب گئے ہیں۔ انہوں نے وہاں لڑکیوں کی فوج اتار دی ہے۔ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ یہ لڑکیاں امراء کے حرموں میں رہتی ہیں۔ ان کے کہنے پر جشن منائے جاتے ہیں، جن میں سرکردہ فوجی افسروں کو مدعو کرکے یہ لڑکیاں انہیں بے حیائی سے اپنے جال میں پھانس رہی ہیں''۔
 ''اور اس کے بعد میں جانتا ہوں کیا ہوگا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''فوجیوں کو نشے اور بدکاری کا عادی بنایا جائے گا''۔
 ''بنایا جارہا ہے''۔ مصطفی نے کہا… ''حشیشین بھی اپنی کارروائیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ اب یوں ہوگا کہ جو سالار یا نائب سالار صلیبیوں کی دشمنی دل سے نہیں نکالے گا اور جہاد کا قائل رہے گا، حشیشین کے پیشہ ور قاتلوں کے ہاتھوں پراسرار طریقے سے قتل کرادیا جائے گا''۔
 مصطفی نے سلطان ایوبی کو تفصیل سے بتایا کہ کون سا امیر کیا کررہا ہے۔ اس تفصیل کا لب لباب یہ تھا کہ امراء جہاں خودمختار ہوگئے تھے، وہاں انہوں نے ایک دوسرے کو دشمن سمجھنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف فوجی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ صلیبی اس نفاق اور چپقلش کو ہوا دے رہے تھے۔
 ''آپ نے اچھا کیا ہے جو مجھے وہاں کے حالات بتانے آگئے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اگر آپ نہ آتے تو مجھے ان تفصیلات کا علم نہ ہوتا، البتہ یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ گیارہ سال کے بچے کو سلطان بنا کر وہ لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں''۔
 ''اور آپ کیا کرنا چاہتے ہیں؟'' مصطفی نے پوچھا… ''اگر آپ نے فوری کارروائی نہ کی تو سمجھ لیں کہ سلطنت اسلامیہ کا سورج ڈوب چکا ہے۔ آپ کی کارروائی صرف جنگی ہونی چاہیے''۔
 ''یہ دن بھی مجھے دیکھنا تھا کہ میں بھائیوں کے خلاف جنگی کارروائی کی سوچوں گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں اس سے ڈرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد غدار تاریخ میں یہ نہ لکھ دیں گے کہ صلاح الدین ایوبی خانہ جنگی کا مجرم تھا''۔
 ''اگر آپ اس ڈر سے قاہرہ میں بیٹھے رہے تو تاریخ آپ پر یہ شرمناک الزام عائد کرے گی کہ نورالدین زنگی مرگیا تھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھی دم نکل گیا تھا۔ اس نے مصر پر اپنی گرفت مضبوط ر کھنے کے لیے سلطنت اسلامیہ کو قربان کردیا تھا''۔
 ''ہاں!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ الزام زیادہ شرمناک ہوگا۔ میں ہر پہلو پر غور کرچکا ہوں، مصطفی! اگر میں جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نکلتا ہوں تو میں یہ نہیں دیکھوں گا کہ میرے گھوڑے تلے کون روندا جاتا ہے۔ میری نگاہ میں وہ کلمہ گو کفار سے بدتر ہے جو کافر کو دوست سمجھتا ہے… آپ واپس چلے جائیں۔ میں نے علی بن سفیان کو وہاں بھیج رکھا ہے لیکن یاد رہے کہ وہ جاسوسوں کے بھیس میں گیا ہے۔ وہاں کسی کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ علی بن سفیان ان کے درمیان گھوم پھر رہا ہے اور جائزہ لے رہا ہے کہ وہاں کس قسم کی کارروائی کی ضرورت ہے۔ آپ جاکر یہ دیکھیں کہ کون کون سا سالار مشکوک ہے۔ علی بن سفیان کے ساتھ بہت سے آدمی گئے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انہیں وہاں کیا کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی میں نے تمام امراء کی طرف اس پیغام کے ساتھ ایلچی بھیجے ہیں کہ امراء ان حالات میں جبکہ صلیبی ان کے سر پر بیٹھے ہیں، ایک محاذ پر مورچہ بند ہوجائیں اور آپس کے اختلافات مٹانے کی کوشش کریں۔ مجھے امید نہیں کہ وہ پیغام کو سمجھنے کی کوشش کریں گے لیکن میں انہیں صرف ایک بار بتا دینا چاہتا ہوں کہ سیدھا راستہ کون سا ہے، میں انہیں یہ نہیں بتائوں گا کہ انہوں نے میرے کہے پر عمل نہ کیا تو میں کیا کروں گا''۔
 مصطفی جودت کو رخصت کرکے سلطان ایوبی نے اپنے دربان کو چند ایک سالاروں اور انتظامیہ کو حکام کے نام لے کر کہا کہ انہیں جلدی سے اس کے پاس بھیجا جائے۔ یہ اس کی ہائی کمانڈ تھی، جسے اس نے بلایا تھا۔
٭ ٭ ٭
 قاضی بہائوالدین شداد جو صلاح الدین ایوبی کا دست راست اور ہمراز دوست تھا اور جو اس کی مجلس مشاورت میں اعلیٰ رتبہ اور مقام رکھتا تھا، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے… ''صلاح الدین ایوبی کو خدا نے فولاد کے اعصاب عطا کیے تھے۔ اس نے اپنی شخصیت اور کردار کو اس قدر مضبوط بنا رکھا تھاکہ پہاڑوں جیسے صدمے ہنس کھیل کر برداشت کرلیتا تھا۔ عزم کا ضدی اور مستقل مزاج تھا۔ امیر ہو یا غلام وہ ہر کسی کا یکساں احترام کرتا تھا۔ البتہ کسی کو دوسروں سے ممتاز سمجھتا تو صرف بہادری اور شجاعت کی بنا پر سمجھتا تھا۔ اس کے قریب رہنے والے اس سے دو طرح کا تاثر لیتے تھے۔ ایک رعب کا دوسرا محبت کا۔ اس کے سپاہی جب میدان جنگ میں اسے دیکھتے تھے تو دشمن پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ ایک خادم نے دوسرے خادم پر جوتا اتار کر پھینکا۔ صلاح الدین ایوبی کمرے سے نکل رہا تھا۔ جوتا اسے جالگا۔ دونوں خادم تھرتھر کانپنے لگے لیکن صلاح الدین ایوبی نے دونوں طرف سے منہ پھیر لیا اور آگے نکل گیا۔ یہ کردار کی عظمت کا مظاہرہ تھا۔ دوست تو دوست، دشمن اس کے سامنے آتے تو اس کے مرید بن جاتے تھے''۔
 نورالدین زنگی کی موت نے سلطنت اسلامیہ کو تاریخ کے سب سے بڑے خطرے میں ڈال دیا تھا۔ اس خطرے کا سب سے زیادہ خطرناک پہلو یہ تھا کہ اپنے ہی امیر اور وزیر صلیبیوں کے دوست اور اسلام کے دشمن ہوگئے تھے۔ مصر کے اندرونی حالات ابھی پوری طرح نہیں سنبھلے تھے، صلاح الدین ایوبی مصر سے نہیں نکل سکتا تھا۔ ایسے حالات میں وہ یہی کرسکتا تھا کہ سلطنت اسلامیہ کے دفاع کا ارادہ دل سے نکال دے اور صرف مصر کے دفاع کو مضبوط رکھے لیکن میرا یہ دوست ذرہ بھر نہ گھبرایا۔ اس ضمن میں میرے ساتھ بات کرتے ہوئے اس نے کہا… ''اگر میں اسلام کی پاسبانی سے دستبردار ہوجائوں تو روز محشر صلیبیوں کے ساتھ اٹھایا جائوں گا''… اسلام کی پاسبانی اور فروغ کو وہ فرمان خداوندی سمجھتا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو کبھی حاکم یا حکمران نہیں سمجھا۔ مجھے صلاح الدین ایوبی کی نوجوانی بھی یاد ہے۔ جب وہ پوری طرح عیش وعشرت میں ڈوب گیا تھا۔ وہ شراب بھی پیتا اور رقص کے سرور کا دلدادہ تھا۔ موسیقی اور رقص کی باریکیوں اور گہرائیوں کو سمجھتا اور نسوانی حسن کو دل کھول کر خراج تحسین پیش کرتا اور تعیش کے لیے حسین ترین لڑکی کا انتخاب کرتا تھا۔ کبھی کسی کے وہم وگمان میں نہیں آیا تھا کہ یہ نوجوان چند ہی سال بعد اسلام کا سب سے بڑا علمبردار اور اسلام کے دشمنوں کے لیے برق اور طوفان بن جائے گا۔ اپنے چچا کے ساتھ وہ صلیبیوں کے خلاف پہلے ہی معرکے میں گیا تو اس نے سب کو حیران کردیا اور جب وہ اس معرکے سے واپس آیا تو اس نے پہلا کام یہ کیا کہ عیش وعشرت پر لعنت بھیجی اور اپنی زندگی اسلام کے لیے وقف کردی۔ اس نے قوم کو اور اپنی فوج کو یہ نعرہ دیا کہ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں…
 اسے اس بدلی ہوئی کیفیت میں دیکھنے والے تسلیم نہیں کرتے تھے کہ وہ کبھی عیاش بھی ہوا کرتا تھا۔ کردار کی بلندی اور پختگی اس کو کہتے ہیں کہ اپنے نفس اور نفسانی خواہشات کو مار دیا جائے۔ یہ پختگی صلاح الدین ایوبی کے کردار میں تھی۔ دونوں کی محفلوں میں وہ کہا کرتا تھا… ''مجھے کافروں نے مسلمان بنایا ہے اگر ہم اپنے ان نوجوانوں کو جو مذہب سے منحرف ہوگئے ہیں، کافر کی ذہنیت دکھا دیں تو وہ راہ راست پر آجائیں گے۔ دشمن کے ساتھ انہیں پیار کے جو سبق دئیے جارہے ہیں، وہ انہیں قومی وقار سے محروم کررہے ہیں۔ میں اپنی قوم کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث یاد کرانا چاہتا ہوں کہ ''اپنے آپ کو جان لو کہ تم کون ہو اور کیا ہو اور اپنے دشمن کو اچھی طرح پہچان لو کہ وہ کون ہے اور کیا ہے اور تمہارے متعلق وہ کیا ارادے رکھتا ہے''… اس کے کردار کا رخ دشمن نے ہی بدلا تھا… صلاح الدین ایوبی اپنے مقصد اور عزم میں اس حد تک مگن رہا کہ اس نے کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ وہ عالم اسلام کا سب سے بڑا قائد ہے۔ مصر کا حاکم کل ہے اور فن حرب وضرب کا ایسا استاد کہ صلیبیوں کے کمانڈر متحد ہوکر بھی، اس سے خائف رہتے ہیں۔اس کی مالی حالت یہ تھی کہ وہ حج نہیں کرسکا۔ جہاد نے اسے مہلت نہ دی۔ آخری عمر میں اس کی یہی ایک خواہش رہ گئی تھی کہ حج پر جائے مگر اب اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ وہ جب فوت ہوا تو اس کی ذاتی متاع صرف سنتالیس درہم چاندی کے اور ایک ٹکڑا سونے کا تھا۔ اس کی جائیداد صرف ایک مکان تھا جو اس کے باپ دادا کا تھا۔
 یہ اس کے کردار کی پختگی کا حیران کن مظاہرہ تھا کہ اس نے جب اپنے سالاروں وغیرہ کو کانفرنس کے لیے بلایا تو اس کے چہرے پر گھبراہٹ یا پریشانی کا شائبہ تک نہ تھا۔ کانفرنس کے حاضرین پر خاموشی طاری تھی۔ انہیں یہ توقع تھی کہ سلطان ایوبی گھبرایا ہوا ہوگا مگر اس نے مسکرا کر سب کو دیکھا اور کہا… ''میرے رفیقو! تم نے بڑے ہی دشوار اور پیچیدہ حالات میں میرا ساتھ دیا ہے۔ آج ایسے حالات نے ہمیں للکارا ہے جو بظاہر ہمارے قابو میں آنے والے نہیں لیکن یاد رکھو اگر ہم نے ان حالات پر قابو نہ پایا تو ہم سب کے لیے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور خدا کے حضور بھی رسوائی۔ دنیا میں تاریخ ہماری قبروں پر لعنت بھیجے گی اور روز محشر وہ شہید ہمیں شرمسار کریں گے جنہوں نے اسلام کی آبرو پر جانیں قربان کی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم سب جانیں قربان کردیں''… اس تمہید کے بعد اس نے اپنے اعلیٰ حکام کو ہر ایک تفصیل بتائی اور کہا کہ اب انہیں اپنے بھائیوں کے خلاف لڑنا پڑے گا۔ اس نے سب کے چہروں کا جائزہ لیا، کچھ دیر خاموش رہا۔ سب کے چہروں کے رنگ بدل گئے تھے۔ اسے اطمینان ہوگیا کہ یہ حکام ہر صورتحال میں اس کا ساتھ دیں گے۔ اس نے کہا… ''میرا پہلا اقدام یہ ہے کہ میں اپنی خودمختاری کا اعلان کرتاہوں، میں اب مرکزی خلافت کا پابند نہیں رہناچا ہتا لیکن میں یہ اعلان تم سب کی اجازت کے بغیر نہیں کروں گا۔ مجھے اجازت دینے یا نہ دینے سے پہلے ایک دو پہلوئوں پر غور کرلو۔ ایک یہ کہ خلافت عملاً ختم ہوچکی ہے، جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا کہ خلیفہ گیارہ سال کا بچہ ہے۔ اس پر تین چار امراء نے قبضہ کررکھا ہے۔ یہ امراء صلیبیوں کے دوست ہیں، لہٰذا آپ کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگنی چاہیے کہ خلافت صلیبیوں کی گود میں چلی گئی ہے۔ اب ہماری فکر خلافت کے خلاف ہے اگر تم خودمختار اور آزاد نہیں ہوتے تو تمہیں خلیفہ کے حکم ماننے پڑیں گے اور یہ حکم سلطنت اسلامیہ کے لیے تباہ کن ہوں گے۔ کیا ان حالات میں یہ اقدام صحیح نہیں ہوگا کہ میں مصر کو خلافت سے آزاد کردوں اور اس کے بعد تمہارا ہر قدم ایسا آزادانہ ہو جو اسلام کی بقا کے لیے ضروری ہو؟''
 ''کیا آپ خلافت کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں؟'' ایک سالار نے پوچھا۔
 ''میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا… ''کل پرسوں تک میرے وہ ایلچی واپس آجائیں گے جنہیں میں نے امراء کی طرف بھیج رکھا ہے۔ اگر مجھے جنگی کارروائی کا فیصلہ کرنا پڑا تو گریز نہیں کروں گا''۔
 ''آپ مصر کو خودمختار مملکت قرار دے دیں''۔ ایک حاکم نے کہا… ''ہم گیارہ سال کے بچے کو خلیفہ تسلیم نہیں کرسکتے''۔
 ''تو کیا تم سب مجھے سلطان مصر تسلیم کروگے؟'' صلاح الدین ایوبی نے پوچھا۔
 تمام حاضرین نے بیک زبان کہا کہ وہ اسے سلطان مصر تسلیم کرتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی نے اسی وقت خودمختاری کا اعلان کردیا اور مصر کو آزاد مملکت قرار دے دیا۔ اس اعلان کے ساتھ ہی اسے اسی وقت قانون کے مطابق سلطان کا خطاب مل گیا۔
 ''میں امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہیں، میدان جنگ کا بادشاہ ہوں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تم نے دیکھا ہے کہ میں صلیبیوں کے لشکر کے درمیان گھومتا پھرتا رہا ہوں۔ میں نے دس دس جانبازوں سے دس دس ہزار لشکروں کو تہہ وبالا کیا ہے مگر اپنے بھائیوں کے خلاف جنگ کی سوچتا ہوں تو تمام جنگی چالیں ذہن سے نکل جاتی ہیں۔ میری تلوار نیام سے باہر نہیں آتی۔ مجھے اور تم سب کو یہ دن بھی دیکھنا تھا کہ ہم آپس میں لڑیں اور صلیبی تماشا دیکھیں''۔
 ''یہ تماشہ ہمیں دکھانا ہی پڑے گا، سلطان محترم!'' ایک سالار نے کہا… ''اگر اپنے بھائیوں پر الفاظ کا اثر نہ ہو تو تلوار استعمال کرنی ہی پڑے گی۔ ہم میں سے کوئی بھی خلافت کی گدی کا خواہشمند نہیں۔ ہم جو کچھ کریں گے اسلام کی خاطر کریں گے، ذاتی مفاد کی خاطر نہیں''۔
٭ ٭ ٭
 سلطان ایوبی نے اس سے پہلے دو ایلچی دمشق، حلب، موصل اور دوتین اور ریاستوں کے امراء کی طرف بھیج رکھے تھے۔ اس نے سب کو طویل پیغام بھیجا تھا جس میں اس نے سب کو صلیبی خطرے سے آگاہ کیا اور انہیں متحدہ ہونے کی تلقین کی تھی۔ وہ انہیں اسلامی وحدت کا قائل کرنا چاہتا تھا۔ دونوں ایلچی مایوس واپس آگئے۔ کسی ایک بھی امیر نے اس کے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا بلکہ بعض نے مذاق اڑایا تھا۔ ایلچیوں نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ سب سے پہلے خلیفہ کے دربار میں گئے۔ پیغام پیش کیا تو خلیفہ نے خود پڑھنے کے بجائے ان امراء کے حوالے کردیا جن کے ہاتھوں میں وہ کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ انہوں نے ہی اسے خلافت کی گدی پر بٹھایا تھا۔ ان امراء نے سلطان ایوبی کا پیغام پڑھا۔ آپس میں کھسر پھسر کی اور ایک نے خلیفہ سے کہا کہ صلاح الدین ایوبی صلیبیوں کے خلاف جنگ کا بہانہ کرکے تمام مسلمان ریاستوں کو ایک ریاست بنانے کی سوچ رہا ہے۔ اس کے بعد وہ اس ریاست کا حکمران بنے گا۔ دوسرا امیر بول پڑا۔ اس نے بھی گیارہ سال کی عمر کے خلیفہ کو سلطان ایوبی کے خلاف بھڑکایا اور کہا… ''آپ اسے حکم دے سکتے ہیں کہ جنگ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ صرف خلیفہ کرسکتا ہے۔ اگرصلاح الدین ایوبی خلیفہ کی حکم عدولی کرے تو آپ اسے معزول کرکے واپس بلا سکتے ہیں۔ مصر کی امارت کسی اور کے حوالے کی جاسکتی ہے''۔
 کمسن خلیفہ نے ایلچیوں کو یہی حکم دیا اور کہا… ''صلاح الدین ایوبی سے کہنا کہ وہ ہمارے حکم کا انتظار کرے۔ یہ فیصلہ ہم کریں گے کہ اسلامی وحدت کی ضرورت ہے یا نہیں''۔
 ''صلاح الدین ایوبی کے پاس فوج ہے، اس میں زنگی مرحوم کے بھیجے ہوئے بہت سے دستے ہیں''۔ ایک امیر نے خلیفہ سے کہا… ''اسے حکم بھیجا جائے کہ وہ دستے واپس بھیج دے۔ اسے اپنی مرضی سے فوج کے استعمال کی اجازت نہیں ملنی چاہیے''۔
 ''اسے کہنا کہ وہ دستے، سوار اور پیادہ، جو اسے خلافت کی طرف سے دئیے گئے تھے، وہ واپس کردے''۔ خلیفہ نے کہا… ''اور تم لوگ اب جاسکتے ہو''۔
 ''اور ایوبی سے کہنا کہ آئندہ خلیفہ کو اس قسم کے پیغام بھیجنے کی جرأت نہ کرے''۔ ایک اور امیر نے کہا۔
 ایلچیوں نے سلطان ایوبی کو بتایا کہ وہ دوسرے امراء کے پاس گئے۔ سب نے پیغام کا مذاق اڑایا، بعض نے سلطان ایوبی کے خلاف توہین آمیز الفاظ بھی کہے۔ ایلچی واپس آگئے۔ سلطان ایوبی کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہ آئی جیسے اسے ایسے ہی جواب کی توقع تھی۔ اسے دراصل علی بن سفیان کا انتظار تھا جسے اس نے خفیہ دمشق بھیج رکھا تھا۔ فوجی جاسوسی اور سراغ رسانی کا یہ ماہر اپنے ساتھ کم وبیش ایک سو لڑاکا جاسوس لے کر دمشق گیا تھا۔ یہ لوگ تاجروں کے قافلے کی صورت میں تاجروں کے بھیس میں گئے تھے۔ سلطان ایوبی کو ان کی بھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی۔ نورالدین زنگی کی وفات کی اطلاع کے فوراً بعد سلطان ایوبی کو یہ اطلاع ملی کہ امیروں نے خودمختاری کا اعلان کردیا ہے۔ یہ اطلاع بھیجنے والا کوئی معمولی سا انسان نہیں تھا، بلکہ نورالدین زنگی کی بیوی تھی جو نئے خلیفہ کی ماں تھی۔ اس نے خفیہ طور پر اپنا ایک قاصد قاہرہ کی طرف دوڑا دیا تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کو وہی حالات بتائے جو زنگی کی وفات کے بعد وہاں پیدا ہوگئے تھے۔
 اس نے سلطان ایوبی کو کہلا بھیجا تھا… ''اسلام کی آبرو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ میرے کمسن بیٹے کو خلیفہ بنا دیا گیا ہے۔ لوگ میرااحترام کرنے لگے ہیں کیونکہ میں خلیفہ کی ماں ہوں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ میں خوش قسمت ماں ہوں مگر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ میرے بیٹے کو خلیفہ نہیں بنایا گیا بلکہ مجھ سے میرا بیٹا چھین لیا گیا ہے۔ سیف الدین امیر موصل نے اور دوسرے تمام امیروں نے میرے بیٹے کے گرد گھیرا ڈال لیا ہے۔ میرے خاوند کے بھتیجوں نے بھی خودمختاری کااعلان کردیا ہے۔ اگر آپ کہیں تو میں اپنے ہاتھوں اپنے بیٹے کو قتل کردوں لیکن اس کے نتائج سے ڈرتی ہوں، آپ آجائیں۔ یہ آپ بہتر سمجھتے ہیں کہ آپ کس طرح آئیں گے اور کیا کریں گے۔ میں آپ کو خبردار کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اس طرف توجہ نہ دی یا وقت ضائع کیا تو قبلۂ اول پر تو صلیبی قابض ہیں ہی، خانہ کعبہ پر بھی ان کا قبضہ ہوجائے گا۔ کیا ان لاکھوں شہیدوں کا خون رائیگاں جائے گا جنہوں نے زنگی کی اور آپ کی قیادت میں جانیں قربانی کی ہیں؟ آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ میں اپنے بیٹے کو اپنے زیراثر کیوں نہیں رکھتی؟ میں اس کا جواب دے چکی ہوں۔ امراء نے میرا بیٹا مجھ سے چھین لیا ہے۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد وہ صرف ایک بار میرے پاس آیا تھا۔ وہ میرا بیٹالگتا ہی نہیں تھا۔اسے شاید حشیش پلائی گئی تھی۔ وہ بھول چکا ہے کہ میں اس کی ماں ہوں… بھائی صلاح الدین ایوبی! جلدی آئو۔ دمشق کے لوگ آپ کا استقبال کریں گے۔ مجھے اسی قاصد کی زبانی جواب دیں کہ آپ کیا کریں گے یا کچھ بھی نہیں کریں گے؟''
 سلطان ایوبی نے قاصد کو اسی وقت بھیج دیا تھا۔ اس نے زنگی کی بیوہ کو یقین دلایا تھا کہ وہ بڑا سنگین اقدام کرے گا لیکن سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے گا۔ قاصد کو واپس بھیجنے کے فوراً بعد سلطان ایوبی علی بن سفیان کو دمشق، موصل، حلب، یمن اور تمام تر اسلامی علاقوں میں جاکر وہاں کا جائزہ لینے کے لیے کہا۔ یہ کوئی سرکجاری نوعیت کا دورہ نہیں تھا۔ علی بن سفیان کو جاسوسوں کے انداز سے بہروپ میں وہاں جانا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ معلوم کرے کہ مسلمان امراء جو خودمختاری کا اعلان کرچکے ہیں، کیا ارادے رکھتے ہیں۔ صلیبیوں کے ساتھ ان کا رابطہ ہے یا نہیں۔ خلیفہ کی فوج کا رجحان کیا ہے۔ کیا اس فوج کو خلیفہ کے ایسے احکام کی خلاف ورزی کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے جو اسلام کے لیے نقصان دہ اور دشمن کے لیے سود مند ہوں؟ اور علی بن سفیان کو یہ بھی معلوم کرنا تھا کہ ان علاقوں کے عوام کے جذبات اور نظریات کیا ہیں اور کیا فدائی بھی خلیفہ کے ساتھ مل گئے ہیں؟ یہ جائزہ بھی لینا تھا کہ سلطان ایوبی دمشق یا کسی اور مسلمان علاقے پر فوج کشی کرے تو وہاں کے عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔
 سلطان ایوبی کی کامیابی کا راز یہی تھا کہ وہ اندھیرے میں نہیں چلتا تھا۔ اسے جہاں جانا ہوتا، اپنے جاسوسی کے نظام کے ذریعے وہاں کے احوال وکوائف، دشواریوں اور خطروں کا جائزہ لے لیتا تھا۔ جیسا کہ پہلی کہانیوں میں بتایا جاچکا ہے کہ اس کا جاسوسی کا نظام بہت تیز اور ہوشیار تھا۔ اس کے جاسوس جہاں اداکاری اور بہروپ دھارنے کی مہارت رکھتے تھے، وہاں وہ ماہر چھاپہ مار (گوریلے اور کمانڈو) بھی تھے۔ اسی لیے انہیں لڑاکا جاسوس کہا جاتا تھا۔ وہ بغیر ہتھیاروں کی لڑائی کے بھی ماہر تھے۔ علی بن سفیان کو خدا نے جاسوسی اور سراغ رسانی کا وصف پیدائش کے ساتھ ہی عطا کیا تھا۔ اب زنگی کی وفات کے بعد اسلامی ممالک کے حالات مخدوش ہوگئے اور صلیبی خطرہ سر پر آگیا تو اسے سلطان ایوبی کے اس حکم کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی کہ ان بدلے ہوئے حالات کا جائزہ لینا ہے اور یہ جائزہ کس طرح لینا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اس کی لائی ہوئی رپورٹ کے مطابق کوئی کارروائی کرے گا اور یہ کارروائی بقائے اسلام کے لیے بے حد ضروری ہوگی۔
٭ ٭ ٭
 یہاں ہم کہانی کو کچھ دن پیچھے لے جاتے ہیں۔ جب علی بن سفیان قاہرہ سے روانہ ہوا تھا، اس نے ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اپنے لڑاکا جاسوسوں میں سے کم وبیش ایک سو افراد کو منتخب کیا۔ انہیں مشن بتایا اور کہا کہ اسلام کی آبرو ان سے بہت بڑی قربانی مانگ رہی ہے اور اس مشن میں انہیں اپنی مہارت کا پورا پورا استعمال کرنا ہے۔ ان ایک سو آدمیوں کو تاجروں کا لباس پہنایا گیا۔ علی بن سفیان مصنوعی داڑھی کے ساتھ قافلے کا سردار بنا۔ انہوں نے اونٹوں پر مختلف اقسام کا سامان لاد لیا جو انہیں دمشق وغیرہ کی منڈیوں میں بیچنا اور اس کے بدلے وہاں سے سامان لانا تھا۔ ان کے ساتھ بہت سے اونٹ اور چند ایک گھوڑے تھے۔ تجارتی سامان میں اس پارٹی نے تلواروں اور برچھیوں جیسے ہتھیار چھپا رکھے تھے۔ اس میں آتش گیر مادہ بھی تھا اور آگ لگانے کا دیگر سامان بھی۔ یہ قافلہ رات کے وقت قاہرہ سے روانہ ہوا اور طلوع سحر تک بہت دور نکل گیا۔
 کچھ دیر آرام کرکے قافلہ پھر روانہ ہو۔ علی بن سفیان بہت جلدی منزل پر پہنچنا چاہتا تھا۔ سورج غروب ہوگیا تو بھی اس نے قافلے کو نہ روکا۔ رات خاصی گزر چکی تھی جب ایک بڑی موزوں جگہ آگئی، یہ سرسبز خطرہ تھا اور وہاں اونچی نیچی چٹانیں بھی تھیں۔ ظاہر ہے کہ وہاں پانی بھی تھا۔ قافلہ آرام اور پانی کے لیے رک گیا۔ یہ لوگ تاجر نہیں فوجی تھے۔ ان کی ہر حرکت میں ڈسپلن تھا، احتیاط تھی اور ٹریننگ کے مطابق وہ خاموشی اختیار کیے ہوئے تھے۔ اونٹ اور گھوڑے بھی ایسے تربیت یافتہ تھے کہ انسانوں کی طرح خاموش تھے۔ علی بن سفیان نے چٹانوں اور ٹیلوں کے اندر جانے کے بجائے باہر ہی پڑائو کیا۔ فوجی دستوں کے مطابق دو آدمیوں کو پانی کی تلاش کے لیے بھیجا گیا۔ سب نے ہتھیار نکال لیے تھے کیونکہ ان دنوں سفر میں دو خطرے تھے۔ ایک خطرہ صحرائی ڈاکوئوں کا تھا اور دوسرا صلیبیوں کے چھاپہ مار دستوں کا۔ ان کے یہ دستے دراصل ڈاکو ہی تھے جو مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹتے پھرتے تھے۔
 دو آدمی اس خطے کے اندر چلے گئے، انہیں یہ بھی دیکھنا تھا کہ یہاں دشمن کے چھاپہ ماروں یا گشتی دستوں نے قیام نہ کررکھا ہو۔ کچھ دور اندر گئے تو کہیں روشنی کا دھوکہ سا ہوا۔ وہ آگے گئے اور ایک ٹیلے پر چڑھ گئے۔ انہیں بڑی اچھی جگہ نظر آئی جو میدانی سی تھی، وہاں پانی بھی تھا۔ ہریالی بھی تھی اور کھجور کے درخت بھی تھے، وہاں دو مشعلیں جل رہی تھیں۔ ان کی روشنی میں انہیں چھ سات آدمی اور چار لڑکیاں نظر آئیں۔ بہت خوبصورت لڑکیاں تھیں۔ انہوں نے آگ بھی جلا رکھی تھی جس پر وہ گوشت بھون رہے تھے اور پیالوں میں وہ کچھ پی رہے تھے جو شراب ہی ہوسکتی تھی۔ ذرا پرے گھوڑے اور تین چار اونٹ بندھے تھے۔ بہت سارا سامان بھی ایک طرف پڑا تھا۔ علی بن سفیان کے دونوں آدمی چھپ کر قریب چلے گئے۔ رات کے سکوت میں ان لوگوں کی باتیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ان کا ہنسی مذاق بتا رہا تھا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں۔ لڑکیاں بے حیائی کی حرکتیں بھی کررہی تھیں۔ ان دونوں آدمیوں نے انہیں نظرانداز نہ کیا۔ واپس آکر علی بن سفیان کو بتایا۔
 علی بن سفیان گیا اور چھپ کر قریب سے دیکھا۔ ان آدمیوں اور لڑکیوں کی زبان کچھ اور تھی جو علی بن سفیان سمجھتا تھا۔ وہ عیسائی تھے۔ علی بن سفیان سوچ رہا تھا کہ وہ ان لوگوں کے پاس چلا جائے اور معلوم کرے کہ وہ کون ہیں اور کہاں جا رہے ہیں یا ان کی نقل وحرکت دیکھتا رہے۔ اس کے ساتھ ایک سو لڑاکا جاسوس تھے۔ اسے ان چھ سات آدمیوں اور چار لڑکیوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن وہ انہیں سراغ رساں نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے شک ہوگیا تھا کہ یہ صلیبی جاسوس اور تخریب کار ہیں اور کسی اسلامی مملکت میں جارہے ہیں۔ اگر ایسا ہی تھا تو یہ اس کے مطلب کے لوگ تھے۔ وہ اور زیادہ قریب ہونے کے لیے ٹیلے کے اوپر اوپر سرکتا ہوا آگے گیا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔
جاری ھے ، (اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے)،  شئیر کریں جزاکم اللہ خیرا۔

Comments

No comments:

Post a Comment