Thursday 20 October 2016

شمشیرِ بے نیام.

شمشیرِ بے نیام، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
(چودھویں قسط )

سب نے دیکھاکہ بنو قریظہ کے لوگ قلعے سے باہر آ رہے تھے۔ محاصرے میں سے کسی کو بھاگ نکلنے کا موقع نہ ملا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہودیوں کی تاریخ فتنہ و فساد اور بد عہدی سے بھری پڑی تھی۔اسے خدا کی دھتکاری ہوئی قوم کہا گیا تھا۔ان کے ساتھ جس نے بھی نرمی برتی اسے یہودیوں نے نقصان پہنچایا چنانچہ بنو قریظہ کو بخش دینا بڑی خطرناک حماقت تھی۔ مسلمانوں نے اس قبیلے کے ایسے تما م آدمیوں کو قتل کردیا جو لڑنے کے قابل تھے اور بوڑھوں عورتوں اور بچوں کواپنی تحویل میں لے لیا۔دو مؤرخین نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے بنو قریظہ پر فوج کشی کی تو یہودیوں نے بڑا سخت مقابلہ کیا۔ مسلمانوں نے پچیس روز بنو قریظہ کو محاصرے میں لیے رکھا۔آخر یہودیوں نے رسولِ اکرم ﷺ کو پیغام بھیجا کہ سعد ؓبن معاذ کو ان کے پاس صلح کی شرائط طے کرنے کیلئے بھیجا جائے۔چنانچہ سعدؓ بن معاذ گئے اور یہ فیصلہ کر آئے کہ بنو قریظہ کے آدمیوں کو قتل کر دیاجائے اور ان کی عورتوں اور بچوں کو مالِ غنیمت میں لے لیا جائے۔جن یہودیوں کو قتل کیا گیا ان کی تعدا د چار سو تھی۔زیادہ تر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ بنو قریظہ نے مقابلہ نہیں کیا اور اپنے کیے کی سزا پانے کیلئے قلعہ سے نکل آئے۔مدینہ میں یہودیوں کے قتلِ عام کے ساتھ یہ ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ اس سے پہلے مسلمانوں نے یہودیوں کے دو قبیلوں بنو نضیر اور بنو قینقاع کو ایسی ہی بدعہدی اور فتنہ پردازی پر ایسی ہی سزا دی تھی ،ان قبیلوں کے بچے کچھے یہودی شام کو بھاگ گئے تھے ،شام میں ایرانیوں کی حکومت تھی۔ ایک عیسائی بادشاہ ہرقل نے حملہ کرکے شام پرقبضہ کر لیا۔یہودیوں نے اس کے ساتھ بھی بدعہدی کی،اِدھر مدینہ میں مسلمان بنو قریظہ کو قتل کر رہے تھے ،اُدھر ہرقل بنو نضیر اور بنو قینقاع کا قتلِ عام کر رہا تھا۔ایک حدیث ہے جو حضرت عائشہؓ کے حوالے سے ہشام بن عروہ نے بیان کی ہے کہ سعد ؓبن معاذ کے فیصلے کو رسولِ کریمﷺ نے قبول فرما لیا اور بنو قریظہ کے یہودیوں کو قتل کر دیا گیا تھا ۔ہشام بن عروہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے والد ِ بزرگوار نے انہیں یہ واقعہ سنایا تھا کہ سعد ؓبن معاذ کو سینہ میں برچھی لگی تھی ،جب بنو قریظہ کو سزا دی جا چکی تو رسول اﷲﷺ کے حکم سے سعد ؓبن معاذ کیلئے مسجد کے قریب ایک خیمہ لگا کر اس میں انہیں رکھا گیا ،تاکہ ان کے زخم کی دیکھ بھال آسانی سے ہوتی رہے۔
سعدؓ بن معاذ اس خیمے میں لیٹ گئے لیکن اٹھ بیٹھے اور انہوں نے خدا سے دعا مانگی کہ ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ہراُس قوم کے خلاف لڑیں جو اﷲ کے رسولﷺ کو سچا نبی نہیں سمجھتی ،مگر لڑائی ختم ہو چکی ہے۔انہوں نے خدا سے التجا کی کہ اگر میر ے نصیب میں کوئی اور لڑائی لڑنی ہے تو مجھے اس میں شریک ہونے کیلئے زندگی عطا فرما اگر یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے تو میرے زخم کو کھول دے کہ میں تیری راہ میں جان دے دوں ۔ سعد ؓبن معاذ کی یہ دعا تین چار آدمیوں نے سنی تھی لیکن انہوں نے اسے اہمیت نہیں دی تھی۔صبح کسی نے دیکھاکہ سعد ؓبن معاذ کے خیمے سے خون بہہ بہہ کر باہر آ رہا تھا۔ خیمہ میں جاکر دیکھا ،سعدؓ بن معاذ شہید ہو چکے تھے۔انہوں نے خدا سے شہادت مانگی تھی، خدا نے ان کی دعا قبول کر لی۔ان کے سینے کا زخم کھل گیا تھا۔
بنو قریظہ کی تباہی کی خبر مکہ پہنچی تو سب سے زیادہ خوشی ابو سفیان کو ہوئی۔’’خدا کی قسم! بنو قریظہ کو اس بد عہدی کی سزا ملی ہے جو اس کے سردار کعب بن اسد نے ہمارے ساتھ کی تھی۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’اگر اس کاقبیلہ مدینہ پر شب خون مارتا رہتا تو فتح ہماری ہوتی اور ہم بنو قریظہ کو موت کے بجائے مالِ غنیمت دیتے……کیوں خالد؟کیا بنو قریظہ کا انجام بہت برا نہیں ہوا؟‘‘خالد نے ابو سفیان کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جیسے اسے اس کی بات اچھی نہ لگی ہو۔’’کیا تم بنو قریظہ کے اس انجام سے خوش نہیں ہو خالد؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔’’مدینہ سے پسپائی کا دکھ اتنا زیادہ ہے کہ بڑی سے بڑی خوشی بھی میرا یہ دکھ ہلکا نہیں کر سکتی۔‘‘خالد نے کہا ۔’’بد عہد کی دوستی، دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ یہودیوں نے کس کے ساتھ وفا کی ہے؟اپنی بیٹیوں کو یہودیت کے تحفظ اور فروغ کیلئے دوسری قوموں کے آدمیوں کی عیاشی کا ذریعہ بنانے والی قوم پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘’’ہمیں مسلمانوں نے نہیں طوفانی آندھی نے محاصرہ اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’ہمارے پاس خوراک نہیں رہی تھی۔‘‘’’تم لڑنا نہیں چاہتے تھے۔‘‘خالد نے کہا اور اٹھ کر چلا گیا۔خالد اب خاموش رہنے لگا تھا۔ اسے کوئی زبردستی بلاتا تو وہ جھنجھلا اٹھتا تھا۔ اس کے قبیلے کا سردار ابو سفیان اس سے گھبرانے لگا تھا ۔خالد اسے بزدل کہتا تھا۔خالد نے اپنے آپ سے عہد کر رکھا تھاکہ وہ مسلمانوں کو شکست دے گا۔لیکن اسے جب میدانِ جنگ میں مسلمانوں کی جنگی چالیں اور ان کا جذبہ یاد آتا تھا تو وہ دل ہی دل میں رسولِ اکرمﷺ کو خراجِ تحسین پیش کرتا تھا۔ایساعسکری جذبہ اور ایسی عسکری فہم و فراست قریش میں ناپید تھی۔ خالدخود اس طرز پر لڑبنا چاھتا تھالیکن اپنے قبیلے سے اسے تعاون نہیں ملتا تھا ۔آج جب وہ مدینہ کی طرف اکیلا جا رہا تھا تو اسے معرکۂ خندق سے پسپائی یاد آ رہی تھی۔اسے غصہ بھی آ رہا تھا اور وہ شرمسار بھی ہو رہا تھا۔اسے یاد آ رہا تھا کہ اس نے ایک سال کس طرح گزارا تھا ۔وہ مدینہ پر ایک اور حملہ کرنا چاہتا تھا ۔لیکن اہلِ قریش مدینہ کا نام سن کر دبک جاتے تھے ۔آخر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرنے آ رہے ہیں ۔اسے یہ خبر ابو سفیان نے سنائی تھی ۔’’مسلمان مکہ پر حملہ کرنے صرف اس لیے آ رہے ہیں کہ ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ قبیلہ ٔ قریش محمد)ﷺ( سے ڈرتا ہے۔‘‘ خالد نے ابو سفیان سے کہا۔’’ کیا تم نے اپنے قبیلے کو کبھی بتایا ہے کہ مسلمان مکہ پر حملہ کرسکتے ہیں ۔کیا قبیلہ حملہ روکنے کیلئے تیار ہے؟‘‘
’’اب اس بحث کا وقت نہیں کہ ہم نے کیا کیا اور کیا نہیں؟‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’مجھے اطلاع دینے والے نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تقریباً ڈیڑھ ہزار ہے ۔تم کچھ سوچ سکتے ہو؟‘‘’’میں سوچ چکا ہوں۔‘‘ خالد نے کہا۔’’مجھے تین سو سوار دے دو۔ میں مسلمانوں کو راستے میں روک لوں گا، میں کرع الغیم کی پہاڑیوں میں گھات لگاؤں گا۔وہ اسی درّے سے گزر کر آئیں گے۔میں انہیں ان پہاڑیوں میں بکھیر کر ماروں گا۔‘‘’’تم جتنے سوار چاہو ،لے لو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ اور فوراً روانہ ہو جاؤ۔ ایسانہ ہو کہ وہ درّے سے گزر آئیں۔‘‘خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس خبر نے اس کے جسم میں نئی روح پھونک دی تھی ۔اس نے اسی روز تین سو سوار تیار کر لیے تھے ۔مسلمانوں کی تعداد ایک ہزار چار سو تھی۔ ان میں زیادہ تر نفری پیادہ تھی۔ خالد خوش تھا کہ اپنے سواروں کی قیادت اس کے ہاتھ میں ہے۔ اب ابو سفیان اس کے سر پر سوار نہیں تھا۔ سب فیصلے اسے خود کرنے تھے۔ وہ مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کیلئے روانہ ہو گیا۔ خالد کچھ دیر آرام کر کے اور گھوڑے کو پانی پلا کر چل پڑا تھا۔اس نے گھوڑے کو تھکنے نہیں دیا تھا ۔مکہ سے گھوڑا آرام آرام سے چلتا آیاتھا ۔خالد بڑی مضبوط شخصیت کا آدمی تھا ۔اس کے ذہن میں خواہشیں کم اور ارادے زیادہ ہوا کرتے تھے۔وہ ذہن کو اپنے قبضہ میں رکھا کرتا تھا مگر مدینہ کو جاتے ہوئے ذہن اس پر قابض ہو جاتا تھا ۔یادوں کے تھپیڑے تھے جو اسے طوفانی سمندر میں بہتی ہو ئی کشتی کی طرح پٹخ رہے تھے۔ کبھی اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہو جاتی جیسے وہ مدینہ بہت جلدی پہنچنا چاہتا ہو اور کبھی یوں جیسے اسے کہیں بھی پہنچنے کی جلدی نہ ہو۔اس کی آنکھوں کے آگے منزل سراب بن جاتی اور دور ہی دور ہٹتی نظر آتی تھی۔گھوڑا اپنے سوار کے ذہنی خلفشار سے بے خبر چلا جا رہا تھا۔سوا رنے اپنے سر کو جھٹک کر گردوپیش کو دیکھا ۔وہ ذرا بلند جگہ پر جا رہا تھا۔ افق سے احد کا سلسلۂ کوہ اور اوپر اٹھ آیا تھا ۔خالد کو معلوم تھا کہ کچھ دیر بعد ان پہاڑیوں کے قریب سے مدینہ کے مکان ابھرنے لگیں گے۔اسے ایک بار پھر خندق اور پسپائی یا د آئی اور اسے مسلمانوں کے ہاتھوں چار سو یہودیوں کاقتل بھی یاد آیا۔بنو قریظہ کی اس تباہی کی خبر پر قریش کا سردار ابوسفیان تو بہت خوش ہوا تھا،مگر خالد کو نہ خوشی ہوئی نہ افسوس ہوا۔’’قریش یہودیوں کی فریب کاریوں کاسہارا لے کر محمد )ﷺ(کے پیروکاروں کو شکست دینا چاہتے ہیں۔‘‘خالد کو خیال آیا۔ اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا جیسے اس خیال کو ذہن سے صاف کر دینا چاہتا ہو۔اس کا ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔ گھنٹیوں کی مترنم آوازیں اسے ماضی سے نکال لائیں ۔اس نے دائیں بائیں دیکھا ،بائیں طرف وسیع نشیب تھا ۔خالد اوپر اوپر جا رہا تھا ۔نیچے چار اونٹ چلے آ رہے تھے۔ اونٹ ایک دوسرے کے پیچھے تھے ۔ان کے پہلو میں ایک گھوڑا تھا، اونٹوں پر دو عورتیں چند بچے اور دو آدمی سوار تھے ۔اونٹوں پر سامان بھی لدا ہوا تھا ۔گھوڑ سوار بوڑھا آدمی تھا۔ اونٹ کی رفتار تیز تھی۔ خالد نے اپنے گھوڑے کی رفتار کم کر دی۔
اونٹوں کا یہ مختصر سا قافلہ اس کے قریب آ گیا۔ بوڑھے گھوڑ سوار نے اسے پہچان لیا۔

#جاری_ہے

No comments:

Post a Comment