Thursday 20 October 2016

شمشیرِ بے نیام قسط نمبر 3.

شمشیرِ بے نیام ِ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
( قسط نمبر - 3)
خالد کو گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھے اور مدینہ کی طرف جاتے ہوئے جب وہ لمحے یاد آ رہے تھے تو اس کی مٹھیاں بند ہو گئیں۔ غصے کی لہر اس کے سارے وجود میں بھر گئی۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب بھی اس کے اندر غصہ بیدارہو گیا تھا۔ اسے غصہ اس بات پہ آیا کہ اجلاس میں طے تھا کہ مسلمانوں کے پاس مکہ کا کوئی آدمی اپنے قیدی کو چھڑانے مدینہ نہیں جائے گا لیکن ایک آدمی چوری چھپے مدینہ چلا جاتا اور اپنے عزیز رشتے دار کو رہا کرا لاتا۔ ابو سفیان نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ خالد کا اپنا ایک بھائی جس کا نام ولید تھا۔ مسلمانوں کے پاس جنگی قیدی تھا اگر اس وقت تک قریش اپنے بہت سے قیدی رہا نہ کرا لائے ہوتے تو خالد اپنے بھائی کی رہائی کیلئے کبھی نہ جاتا۔اسے اپنے بھائیوں نے مجبور کیا تھا کہ ولید کی رہائی کیلئے جائے ۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اپنے وقار کو ٹھیس پہنچانے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا لیکن اسے خیال آیا تھا ۔خیال یہ تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اسی کے قبیلے کے تھے اور آپﷺ کے پیروکار یعنی جو مسلمان ہو گئے تھے وہ بھی قریش اور اہلِ مکہ سے تھے۔ وہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے۔ وہ اتنے جری اور دلیر تو نہیں تھے کہ تین سو تیرہ کی تعداد میں ایک ہزار کو شکست دے سکتے ۔اب ان میں کیسی قوت آ گئی ہے کہ وہ ہمیں نیچا دکھا کر ہمارے آدمیوں کی قمتیں مقرر کر رہے ہیں ؟ ”انہیں ایک نظر دیکھوں گا۔“ خالد نے سوچا تھا۔” محمدﷺ کو غور سے دیکھوں گا۔“اور وہ اپنے بھائی ہشام کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا تھا ۔اس نے اپنے ساتھ چار ہزار درہم باندھ لیے تھے ۔اسے معلوم تھا کہ بنو مخزوم کے سردار الولید کے بیٹے کا فدیہ چار ہزار درہم سے کم نہیں ہو گا ایسا ہی ہوا۔۔۔اس نے مسلمانوں کے ہاں جا کر اپنے بھائی کانام لیا تو ایک مسلمان نے جو قیدیوں کی رہائی اور فدیہ کی وصولی پر معمور تھا ۔کہا کہ چار ہزار درہم ادا کرو۔”ہم فدیہ میں کچھ رعایت چاہتے ہیں ۔“خالد کے بھائی ہشام نے کہا ۔”تم لوگ آخر ہم میں سے ہو ۔کچھ پرانے رشتوں کا خیال کرو ۔“”اب ہم تم میں سے نہیں ہیں ۔“مسلمانوں نے کہا ۔”ہم اﷲ کے رسولﷺ کے حکم کے پابند ہیں۔“”کیا ہم تمہارے رسول اﷲﷺ سے بات کر سکتے ہیں ؟“ہشام نے پوچھا ۔”ہشام !“خالد نے گرج کر کہا۔” میں اپنے بھائی کو اپنے وقار پر قربان کر چکا تھا ،مگر تم مجھے ساتھ لے آئے ۔یہ جتنا مانگتے ہیں اتنا ہی دے دو۔ میں محمد)ﷺ( کے سامنے جا کہ رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا“ ۔اس نے درہموں سے بھری تھیلی مسلمانوں کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ۔”گن لو اور ہمارے بھائی کو ہمارے حوالے کر دو۔“رقم گنی جا چکی تو ولید کو خالد اور ہشام کے حوالے کر دیا گیا۔ تینوں بھائی اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے ۔راستے میں دونوں بھائیوں نے ولید سے پوچھا کہ”ان کی شکست کا باعث کیا تھا؟ “انہیں توقع تھی کہ ولید جو ایک جنگجوخاندان کا جوان تھا۔ انہیں جنگی فہم و فراست اور حرب و ضرب کے طور طریقوں کے مطابق مسلمانوں کی جنگی چالوں کی خوبیاں اور اپنی خامیاں بتائے گا مگر ولید کا انداز ایسا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس پر کوئی پراسرار اثر ہو۔ ”ولید کچھ تو بتاؤ۔“ خالد نے اس سے پوچھا۔”ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے ۔قریش کے تمام سردار اگلی جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہم اردگرد کے قبائل کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں اور و ہ مکہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔“ ”سارے عرب کو اکھٹا کرلو خالد۔“ ولید نے کہا ۔”تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکو گے ۔میں نہیں بتا سکتا کہ محمدﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا ان کا نیا عقیدہ سچا یا کیا بات ہے کہ میں نے ان کا قیدی ہوتے ہوئے بھی انہیں نا پسند نہیں کیا۔“”پھر تم اپنے قبیلے کے غدار ہو۔“ ہشام نے کہا۔” غدار ہو یا تم پر ان کا جادو اثر کر گیا ہے۔ وہ یہودی پیشوا ٹھیک کہتا تھا کہ محمد)ﷺ( کے پاس کوئی نیا عقیدہ اور نیا مذہب نہیں،اس کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے“۔
”جادو ہی تھا ،ورنہ بدر میں شکست کھانے والے نہیں تھے۔“خالد نے کہا۔ولید جیسے ان کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا ۔اس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور وہ مڑ مڑ کر مدینہ کی طرف دیکھتا تھا۔ مدینہ سے کچھ دورذی الحلیفہ نام کی ایک جگہ ہوا کرتی تھی۔ تینوں بھائی وہاں پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ رات گزارنے کیلئے وہ وہیں رہ گئے۔صبح آنکھ کھلی تو ولید غائب تھا۔ اس کا گھوڑا بھی وہاں نہیں تھا ۔خالد اور ہشام سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ ولید واپس مدینہ چلا گیا ہے،انہوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی اثر تھا یہ اثر مسلمانوں کا ہی ہوسکتا تھا۔ دونوں بھائی مکہ آ گئے۔ چند دنوں بعد انہیں مکہ میں ولید کا زبانی پیغام ملا کہ اس نے محمدﷺکو خدا کا سچارسول تسلیم کر لیا ہے اور وہ آپﷺ کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ولید بن الولید رسولِ اکرمﷺ کے منظورِ نظر رہے اور انہوں نے مذہب میں بھی اور کفار کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی نام پیدا کیا۔خالد کو اس وقت بہت غصہ آیا تھا ایک تو اس کا بھائی گیا دوسرے چار ہزار درہم گئے ۔چونکہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خونی دشمنی پیدا ہو چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے یہ رقم واپس نہ کی ۔رقم واپس نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ولید نے رسولِ کریمﷺ کو بتا دیا تھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور ا س کیلئے بے انداز درہم و دینار اکھٹے کیے جا چکے ہیں۔
خالد مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اسے افق سے ایک کوہان سی ابھری ہوئی نظر آنے لگی۔ خالد جانتا تھا یہ کیا ہے۔ یہ احد کی پہاڑی تھی جو مدینہ سے چار میل شمال میں ہے۔ اس وقت خالد ریت کی بڑی لمبی اور کچھ اونچی ٹیکری پر چلا جا رہا تھا۔اُحد۔ اُحد۔ خالد کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی اور اسے اپنی للکار سنائی دینے لگی۔” میں ابو سلیمان ہوں ! میں ابو سلیمان ہوں ۔“اس کے ساتھ ہی اسے ایک خونریز جنگ کا شوروغل اور سینکڑوں گھوڑوں کے ٹاپ اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔خالد یہ جنگ لڑنے کیلئے بیتاب تھا اور اس نے یہ جنگ لڑی-
خالد کا ذہن پیچھے ہی ہٹتا گیا۔چار ہی سال پہلے کا واقعہ تھا ۔
مارچ 625ء)شوال ۳ ہجری ( کے مہینے میں قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جو لشکر تیار کیا تھا وہ مکہ میں اکھٹا ہو چکا تھا اس کی کل تعداد تین ہزار تھی۔ اس میں سات سو افراد نے زِرہ پہن رکھی تھی۔ گھوڑ سوار دو سو کے لگ بھگ تھے اور رسد اور سامانِ جنگ تین ہزار اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ یہ لشکر کوچ کیلئے تیار تھا۔خالد کو ایک روز پہلے کی بات کی طرح یاد تھا کہ اس لشکر کو دیکھ کر وہ کس قدرخوش ہوا تھا۔ انتقام کی آگ بجھانے کا وقت آ گیا تھا اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ ابو سفیان تھا اور خالد اس لشکر کے ایک حصے کا کمانڈر تھا۔ اس کی بہن بھی اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ چودہ عورتیں اس لشکر کے ساتھ جانے کیلئے تیار تھیں ۔ ان میں ابو سفیان کی بیوی ہند بھی تھی، عمرو بن العاص کی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیویاں بھی شامل تھیں ۔ باقی سب گانے بجانے والیاں تھیں ۔سب کی آواز میں سوز تھا اور ان کے ساز دف اور ڈھولک تھے۔ ان عورتوں کا جنگ میں یہ کام تھا کہ جوشیلے اور جذباتی گیت گا کر سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھیں اور انکی یاد تازہ کرتی رہیں جو جنگِ بدر میں مارے گئے تھے۔خالد کو افریقہ کا ایک حبشی یاد آیا جس کا نام وحشی بن حرب تھا۔ وہ قریش کے ایک سردار جُبیر بن مُطعم کا غلام تھا۔ وہ دراز قد اور سیاہ رو اور طاقتور تھا۔ اس نے برچھی مارنے کے فن میں شہرت حاصل کی تھی۔ اس کے پاس افریقہ کی بنی ہوئی برچھی تھی۔ اس کا افریقی نام کچھ اور تھا ۔اسے عربی نام جُبیر نے اس کے جنگی کمالات دیکھ کر دیا تھا۔”بِن حرب! “کوچ سے کچھ دیر پہلے جُبیر بن مُطعِم نے اسے کہا۔”مجھے اپنے چچا کے خون کا بدلہ لینا ہے ۔شاید مجھے موقع نہ مل سکے ،میرے چچا کو بدر کی لڑائی میں محمد)ﷺ( کے چچا حمزہ نے قتل کیا تھا اگر تم حمزہ کو قتل کر دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔“”حمزہ میری برچھی سے قتل ہو گا یا آقا!“وحشی بن حرب نے کہا۔یہ حبشی غلام اس طرف جا نکلا جہاں وہ عورتیں اونٹوں پر سوار ہو چکی تھیں جو اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھیں۔”ابو وسمہ!“کسی عورت نے پکارا۔یہ وحشی بن حرب کا دوسرا نام تھا۔ وہ رک گیا۔ دیکھا کہ ابو سفیان کی بیوی ہند اسے بلا رہی تھی ۔وہ اس کے قریب چلا گیا۔”ابو وسمہ! “ہندنے کہا ۔”حیران نہ ہو، تجھے میں نے بلایا ہے۔ میرا سینہ انتقام کی آگ سے جل رہا ہے۔ میرا سینہ ٹھنڈا کردے۔“”حکم خاتون۔“غلام نے کہا۔” اپنے سالار کی زوجہ کے حکم پر اپنی جان بھی دے دوں گا۔“”بدر میں میرے باپ کو حمزہ نے قتل کیاتھا“۔ ہندنے کہا۔” تو حمزہ کو اچھی طرح پہچانتا ہے ،یہ دیکھ میں نے سونے کے جو زیورات پہن رکھے ہیں اگر تو حمزہ کو قتل کر دے گا تو یہ سب زیورات تیرے ہوں گے۔“وحشی بن حرب نے ہند کے زیورات پر نظر ڈالی تو وہ مسکرایا اور زیرِ لب پر عزم لہجے میں بولا۔” حمزہ کو میں ہی قتل کروں گا۔“
خالد کو اپنے لشکر کا کوچ یاد تھا۔ اسی رستے سے لشکر مدینہ کو گیا تھا۔ اس نے ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر لشکر کو دیکھا تھا۔ اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا۔ اسے مدینہ کے مسلمانوں پر رحم آ گیا تھا لیکن اس رحم نے بھی اسے مسرت دی تھی۔ یہ خون کی دشمنی تھی ،یہ اس کے وقار کا مسئلہ تھا۔مسلمانوں کو کچل ڈالنا اس کا عزم تھا۔جنگِ احد کے بہت دن بعد اسے پتاچلا تھا کہ جب مکہ میں قریش اپنا لشکر جمع کر رہے تھے تو اطلاع رسولِ کریمﷺ کو مل گئی تھی اور جب یہ لشکر مدینہ کے راستے میں تھا تو رسولِ خدا ﷺکو اس کی رفتار ،پڑاؤ اور مدینہ سے فاصلے کی اطلاعیں مسلسل ملتی رہی تھیں۔ آپﷺ کو لشکر کے مکہ سے کوچ کی اطلاع حضرت عباسؓ نے دی تھی۔قریش کے اس لشکر نے مدینہ سے کچھ میل دور کوہِ احد کے قریب ایک ایسی جگہ کیمپ کیا تھا جو ہری بھری تھی اور وہاں پانی بھی تھا ۔خالد کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے دو جاسوس اس لشکر کی پوری تعداد دیکھ آئے ہیں اور رسولِ کریمﷺ کوبتا چکے ہیں۔21مارچ 625ءکے روز رسولِ کریمﷺ نے اپنی فوج کو کوچ کا حکم دیا اور شیخین نامی ایک پہاڑی کے دامن میں جا خیمہ زن ہوئے۔ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار پیادہ مجاہدین تھے جن میں ایک سَو نے سروں پر زِرہ پہن رکھی تھی۔ مجاہدین کے پاس صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک نبیﷺ کے پاس تھا ۔اس موقع پر منافقین کے نفاق کا پہلا خطرناک مظاہرہ ہوا جو غداری کے مترادف تھا۔ مدینہ کے بعض ایسے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ انہیں رسولﷺ نے منافقین کہا تھا۔ کسی کے متعلق یہ معلوم کرنا کہ وہ سچا مسلمان ہے یا منافق‘ بہت مشکل تھا ۔جب مجاہدین مدینہ سے شیخین کی پہاڑی کی طرف کوچ کرنے لگے تو ایک بااثر آدمی جس کا نام ”عبداﷲ بن ابی “تھا۔ رسول ﷺ کے ساتھ اس بحث میں الجھ گیا کہ قریش کا لشکر تین گنا ہے اس لیے مدینہ سے باہر جاکر لڑنا نقصان دہ ہو گا۔آپﷺ نے مجاہدین کے دوسرے سرداروں سے رائے لی تو اکثریت نے یہ کہا کہ شہر سے باہر لڑنا زیادہ بہتر ہوگا۔ آپﷺ عبداﷲ بن ابی کے ہی ہم خیال تھے لیکن آپﷺ نے اکثریت کا فیصلہ ہی منظور فرمایا اور کوچ کا حکم دے دیا۔ عبداﷲ بن ابی نے شہر سے باہر جانے سے انکار کر دیا اس کے پیچھے ہٹنے کی دیر تھی کہ لشکر میں سے تین سو آدمی پیچھے ہٹ گئے۔ تب پتا چلا کہ یہ سب منافقین تھے اور عبداﷲ ان کا سردار ہے۔اب تین ہزار کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری صرف سات سو رہ گئی۔

صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم۔
#جاری_ہے
اس سلسلہ کی اگلی قسط جلد ہی پوسٹ کی جائے گی, آپ سب خواتین و حضرات سے گذازش ہے کہ اگر آپ پوسٹ کو شئیر کریں تو دوسرے احباب بھی اسے پڑھ سکیں گے اور میں اگلی پوسٹ اتنی جلدی کر دیا کرو گا.. کیونکہ جتنی پوسٹ شئیر ہوگی اتنی جلدی فولڈر سنگل اپ ڈیٹ لے لیتا ہے. جزاک اللہ

پچھلی قسط پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں

No comments:

Post a Comment